All posts by Daily Khabrain

کل کے دشمن۔ آج کے دوست

سید سجاد حسین بخاری
سیاست کے بارے میں بڑی مشہور کہاوت ہے کہ اس میں دوستیاں اور دشمنیاں بدلتی رہتی ہیں آج آپ مخالف ہیں کل آپ دوست بن جائیں گے پھر ممکن ہے کہ آپ دوبارہ مخالف ہو جائیں تو سیاسی دنیا میں یہ سب چلتا ہے تو اس لئے سمجھدار سیاستدان اپنے سیاسی مخالفین کی ذاتیات یا کردار کشی کے بجائے ان کی سیاسی کارکردگی پر باتیں کرتے ہیں مگر یہ بات شریف برادران کو 25 سال تک سمجھ نہ آسکی اور ان کے والد گرامی مرحوم نے بھی ذوالفقار علی بھٹو کے مخالفین کی ہمیشہ حمایت کی، انہیں کرنا بھی چاہیے تھا کیونکہ بھٹو نے ان کی اتفاق فونڈری سرکاری تحویل میں لیکر میاں شریف مرحوم کے بچوں کا روزگار چھین لیا اور پھر مرحوم آخری دم تک بھٹو مخالف رہے۔
میاں نوازشریف کو ان کے والد جنرل جیلانی کی معرفت سیاست میں لائے۔، ان کے دل میں بھی بھٹو خاندان کے خلاف انتقام کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ انہوں نے بھی مرحوم جنرل حمید گل کی شاگردی اختیار کی اور ان کا دیا گیا سبق میاں نوازشریف نے دو دہائیوں تک یاد رکھا۔ بقول شیخ رشید فوج کی نرسری میں شریف برادران پروان چڑھے ہیں۔ وقت گزرتا رہا بینظیر کے مقابلے میں جنرل ضیاء نے میاں نوازشریف کو اپنی زندگی دے کر کھڑا کیا اور میاں نوازشریف نے بھی 17اگست 1987ء کو جنرل ضیاء کے جنازے پر کھڑے ہو کر کہا تھا کہ میں آپ کا مشن جاری رکھوں گا اور مشن ایسا جاری رکھا کہ بینظیر کی ذاتیات پر تابڑ توڑ حملے کئے، جعلی پوسٹرز تک چھپوائے، جب ان کی شادی ہوئی تو ان کے شوہر آصف علی زرداری کیلئے مسٹر ٹن پرسنٹ کا مشہور زمانہ خطاب دیا جو آج تک عوام کو یاد ہے۔
مجھے تعجب ہوتا تھا کہ شریف برادران نے بینظیر اور آصف علی زرداری کی نجی زندگی سے لیکر ان کے خلاف مقدمات اور پھر اُنہیں سزائیں دلوانے کے لئے کوشاں رہے۔ یعنی شریف برادران نے بہو، بیٹی اور خواتین کی کسی بھی حرمت کا خیال نہیں رکھا تھا۔ بلاول بھٹو کی آمد پر بھی شریف برادران اور ان کی مریم نواز اور حمزہ شہباز اپنے والدین سے دو دو قدم آگے نکل گئے تھے اور ذاتیات، گریبانوں، پیٹ پھاڑنے اور سڑکوں پر گھسیٹنے تک کی نوبت آگئی اور نہ گھسیٹنے پر ”میرا نام بدل دینا“ کی شرطیں لگتی رہیں مگر دانشوروں کا قول ہے کہ وقت بڑا بے رحم ہوتا ہے اس کے بدلتے دیر نہیں لگتی اور پھر ایسا ہی ہوا کہ پہلے میاں نوازشریف لندن میں بینظیر بھٹو کے پاس چل کر گئے اور میثاق جمہوریت پر دستخط کئے اور پھر 5فروری کو شہبازشریف نے سڑکوں پر گھسیٹنے والے کی گاڑی کا دروازہ کھول کر استقبال کیا۔
بڑا عجیب منظر تھا جب شہبازشریف، مریم نواز ودیگر مسلم لیگی جُھکی جُھکی نگاہوں سے آصف زرداری کے قدموں سے قدم ملا کر چل رہے تھے اور میٹنگ میں فرما رہے تھے کہ ”بس ماضی کی بات کا ذکر نہ کریں“ مستقبل کی بات کریں ماضی چھوڑیں۔ بڑے عجیب اور دلفریب منظر کے ساتھ یہ ایک عبرتناک منظر بھی تھا کہ قادر مطلق نے اُسی چور کے استقبال پر شریف برادران کو کس طرح مجبور کیا جس کا پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت نکالنے کے تکبرانہ دعوے کرتے تھے۔ ٹی وی پر جب یہ منظر میں دیکھ رہا تھا تو مجھے خواجہ آصف بڑا یاد آرہے تھے جب انہوں نے قومی اسمبلی کے فلور پر وزیر خارجہ کو کہا تھا کہ انسان میں کوئی شرم ہوتی ہے، حیا ہوتی ہے، غیرت ہوتی ہے۔
چلو ان سب کو چھوڑ کر مقصد کی بات کرتے ہیں کہ شریف برادران کا مقصد عمران حکومت کا خاتمہ کرنا ہے جس کیلئے انہیں سب کچھ کرنا اور سہنا پڑ رہا ہے اور وہ اپنی دشمن حکومت کو ہر صورت ختم کرنا چاہتے ہیں اور گزشتہ دو سال سے وہ سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں مگر میرا صرف ایک سوال ہے کہ مقتدر قوتوں کے بغیر یہ ممکن ہے؟ کیا آصف زرداری نے کچی گولیاں کھیلی ہوئی ہیں؟ جو وہ عمران حکومت کا خاتمہ کرکے اپنی روزی روٹی سے بھی جائے؟ ہرگز ایسا نہیں ہوگا وہ شروع دن سے تحریک عدم اعتماد کی بات کرتے ہیں اب جا کر شریف برادران نے تسلیم کیا ہے کہ زرداری سندھ حکومت کسی صورت نہیں چھوڑیں گے چلو شاید عدم اعتماد کامیاب ہو جائے اور اب انہوں نے لانگ مارچ اور اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کی ضد بھی ختم کردی ہے۔ دیکھتے ہیں عدم اعتماد کب اور کیسے کامیاب ہوتی ہے؟
اسمبلی میں موجودہ صورتحال کچھ یوں ہے کہ حکومتی اتحاد کے ممبران قومی اسمبلی کی تعداد184 ہے جبکہ اپوزیشن کی تعداد 151ممبران ہیں۔ اس وقت اگر بی اے بی، بی این پی، ایم کیو ایم اور مسلم لیگ(ق) حکومتی اتحاد کو خیرباد کہہ دیں تو پھر اپوزیشن کے گیم نمبرز پورے ہوتے ہیں ورنہ ہنوز دلی دوراست۔ چند سوالات اس بابت اور بھی ہیں مثلاً کیا مریم نواز اپنے چچا کی حمایت کریں گی؟ مولانا فضل الرحمن ودیگر پی ڈی ایم لیڈروں کو کیوں نہیں بلایا گیا؟ اس عدم اعتماد کیلئے گارنٹی کون دے گا؟ کیا اس کو ہر صورت توڑ چڑھایا جائے گا، کیا مسلم لیگ(ق) کے چودھری برادران‘ شریف برادران کو اقتدار میں دیکھنا اور خود باہر رہنا پسند کریں گے؟
کیا ایم کیو ایم‘ پی پی پی کا ساتھ دے سکتی ہے؟ یہ دونوں جماعتیں اپنے بڑوں سے پوچھ کر سانس لیتی ہیں تو اتنا بڑا کام یہ بغیر اجازت کیسے کرسکتے ہیں؟ حکومت کا یہ آخری سال ہے جسے الیکشن کا سال کہا جاتا ہے اور 16ماہ باقی ہیں نئی حکومت اگر بن بھی جاتی ہے تو کیا وہ اس مختصر عرصے میں عمران خان سے بہتر کارکردگی دِکھا سکے گی؟ یہ صرف چائے کی پیالی میں اُبال ہے سب لوگ موجودہ تنخواہ پر ہی کام کرینگے البتہ رونق میلہ لگا رہے گا مگر میں تو صرف اتنا ہی کہوں گا کہ میاں صاحب کس منہ سے آپ نے زرداری کا استقبال کیا؟
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

چیختی خاموشی

محبوب عالم محبوب
خبر آئی ہے کہ ”جمہوریت کی جھوٹی ماں“ ہندوستان کی ریاست اتر پردیش، جہاں 2011 کے مطابق مسلمانوں کی آبادی تقریبا 19.3 فیصد تھی، ضلع الہ آباد جس کا نام اب مسلم دشمنی میں تبدیل کرکے پریاگ راج رکھ دیا گیا ہے، دریائے گنگا کے ریتلے کنارے پر ماگھ میلہ ”برہما رشی آشرم ٹرسٹ“کے زیر اہتمام”سنت سمیلن“کی تقریب منعقد ہوئی ہے۔ جس میں مقررین نے چند ماہ پہلے ”ہردیوار“میں ہوئی”دھرم سنسد“کی مسلم نسل کشی پر مشتمل نفرت انگیز تقاریر کی یاد تازہ کردی ہے۔ اس سنت سمیلن میں شدت پسند ہندوؤں نے تین عجیب اور دہشت ناک قراردادیں پاس کی ہیں جس سے ہندوستان کے مسلمانوں کی جان، املاک اور عزت کو شدید ترین خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔
پہلی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان کو ہندو راشٹرا قرار دیا جائے۔ دوسری قرارداد میں مذہب کی تبدیلی پر سزائے موت کا مطالبہ کیا گیا جبکہ تیسری قرارداد میں یتی نرسنگھا نند اور جیتندر نرائن تیاگی کی رہائی کی بات کی گئی ہے۔ شدت پسند ہندوسوامی نریندرا نند سرسوتی نے کہا کہ تمام ہندوؤں کو اپنے ملک کو ”ہندو راشٹر“لکھنا اور بولنا شروع کر دینا چاہیے ایسا کرنے سے حکومت ملک کو ”ہندو راشٹرا“ قرار دینے پر مجبور ہوجائے گی۔ شدت پسند ہندو بھیانک سازش کے ذریعے ہندوستان میں ایسی بہت سی تاریخی جگہوں، شہروں اور حتیٰ کہ دیہاتوں کے نام، جو پہلے مسلم ناموں پر تھے، پہلے ہی تیزی سے تبدیل کر رہے ہیں اور اب ملک کے نام کی تبدیلی کا مطلب ہے کہ ہندوستان میں صرف ہندو ہی رہ سکتے ہیں۔”سنت سمیلن“میں شدت پسند ہندو، مہا منڈلیشور بربھو دانند نے واضح الفاظ میں مسلمانوں کو ”جہادی بلی“کہا اور ہندوؤں کو ”کبوتر“ قرار دیا۔ اور یہ بھی کہا کہ اس”جہادی بلی“کی آنکھیں پھوڑ دو۔ اور مزید کہا کہ جو ہندوؤں کی عزت نہیں کر سکتے وہ پاکستان یا بنگلہ دیش چلے جائیں۔ خود کو ”معصوم“ کہنے والے شدت پسند ہندوؤں نے درحقیقت ہندوستانی تاریخ کے اوراق ہندوستانی مسلمانوں کے خون سے مسلسل رنگین کیے ہیں۔
آپ 1857 کے بعد کی ہندوستانی تاریخ پڑھیے تو سہی اور پھر 1947 کے بعد تو یہ منظر اور بھی بھیانک ترین ہوتا چلا جاتا ہے۔ ”ہندوؤں کی عزت“ کا بیانیہ واضح کر رہا ہے کہ شدت پسندی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اب ہندو اعلانیہ ہندوستانی مسلمانوں کو ”غلامی“قبول کرنے کا کہہ رہے ہیں یا پاکستان اور بنگلہ دیش میں ہجرت کرنے کا، ایک طرح سے، حکم جاری کر رہے ہیں۔ یہ سب ایک طرح سے بی جے پی حکومت کی شہہ پر ہورہا ہے ورنہ ایسے کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ جیسا کہ شدت پسند ہندو سوامی سوروپ آنند نے واضح الفاظ میں دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہمارے مذہبی جنگجو، نرسنگھا نند اور جیتندر نرائن تیاگی کو ایک ہفتہ کے اندر رہا نہ کیا گیا تو یہ مہم جارحانہ ہو جائے گی۔ اس کا نتیجہ بھیانک ہوگا۔ ہو سکتا ہے ان دو جنگجوؤں کی قید ہمیں وہی کرنے پر مجبور نہ کردے جو بھگت سنگھ نے اسمبلی کے ساتھ کیا۔ یہاں ہندوستان میں برطانوی راج کے دوران 1929 میں سینٹرل لیجسلیٹیو اسمبلی پر بم دھماکے کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ایسے بیانیہ کے بعد بھی حکومتی خاموشی صورت حال کو واضح کرنے کیلئے کافی ہے۔ تبدیلی مذہب پر پھانسی کی سزا کا مطالبہ اصل میں شدت پسند ہندوؤں کا دین اسلام کی حقانیت کو تسلیم کرنے کاایک طرح سے واضح اعلان ہے۔ ورنہ کسی کے بھی اسلام قبول کرنے سے کسی کو کیا فرق پڑ سکتا ہے۔
سنت سمیلن میں ہندوستان میں مسلمانوں کی اقلیتی حیثیت کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا یعنی اب جو برائے نام ”اقلیت“ہونے کی وجہ سے دنیا سے کبھی کبھی ہندوستانی مسلمانوں کیلئے کہیں کہیں سے آواز اٹھائی جاتی ہے، اقلیتی حیثیت ختم ہونے کے بعد یہ سلسلہ بھی ختم ہوجائے گا۔ اور یہ انتہائی خوف ناک ہے۔ ایک تشدد پسند ہندو مذہبی رہنما کی جانب سے ان تمام اسلامی اداروں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جہاں سے فتویٰ جاری کیا جاتا ہے۔ دو ممتاز اسلامی مدارس”دیو بند“اور ”بریلی“کو بند کرنے کا خصوصی طور پر ذکر کیا گیا۔ اسلامی مدارس کی بندش کی بات کی گونج ہندوستان کی تاریخ میں نئی نہیں ہے مگر اب جیسی شدت پہلے کم ہی نظر آتی ہے۔ یہاں تک کہ ایک شدت پسند ہندو کی طرف سے ”روکو، ٹوکو اور اگر نہ رکے تو ٹھونکو“ کے الفاظ کہے گئے جو ہندوستانی مسلمانوں کی نسل کشی کا واضح اعلان ہے۔ ایک انتہائی اہم بات آپ کی نذر کرنا چاہتا ہوں کہ چند ہفتے پہلے ہونے والی دھرم سنسد میں مسلمانوں کی کھلے عام نسل کشی کا اعلان کیا گیا تو بین الاقوامی سطح پر احتجاج کے بعد جب جیتندر نرائن تیاگی کو گرفتار کیا گیا، گو یہ صرف دکھاوا تھا پھر بھی ایک شدت پسند ہندو مذہبی رہنما یتی نرسنگھا نند نے اس گرفتاری پر ہندوستانی پولیس افسران کو خبردار کیا کہ ”آپ سب مر جائیں گے۔“ غالب امکان یہ ہے کہ ریاستی اداروں کو واضح دھمکیاں وہی دے سکتا ہے کہ جسے یقین دلا دیا گیا ہو کہ ”کچھ نہیں ہوگا۔“ ورنہ پولیس کے خلاف ایسے الفاظ کا استعمال کرنے والا کس حالت میں اور کہاں ہوتا ہے، یقینا بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جنیو سائیڈ واچ کے صدر نے ”دھرم سنسد“کے بعد کہا تھا، ”مودی ہندوستان کو مسلمانوں کے قتل عام کی طرف لے جارہے ہیں۔“ بات کو مزید واضح کرتے ہیں کہ گانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی کو بھی کہنا پڑا کہ بی جے پی نے نفرت کی کئی فیکٹریاں لگا رکھی ہیں۔ ایک بات اچھی طرح یاد رہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کیلئے حالات اتنے خراب نہیں ہیں جتنے ہم سمجھ رہے ہیں بلکہ حالات اس سے کہیں زیادہ خراب ہیں۔ مزید یہ چارسو چیختی خاموشی بہت الم ناک اور فکر انگیز ہے۔
(کالم نگارسیاسی وسماجی موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

بھائیاں باج محمد بخشا کون کرے دلجوئی……

افضل عاجز
سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے خالد بھائی کو گھر میں خصوصی اہمیت حاصل تھی۔اماں جہاں بھی جاتیں خالد بھائی ان کے پلو سے بندھا رہتا۔سو ہمارے مقابلے میں ٹانگری اور پتا شوں سے اس کا منہ اور جیب بھرا رہتا ہم بھی کبھی منت سماجت اور کبھی دھونس دھاندلی سے کچھ نہ کچھ جھپٹ لیتے ابا شام کو باقاعدگی سے ولایت کی برفی لاتے جس میں ہمارا حصہ تو ہوتا مگر حق ملکیت خالد کے پاس ہوتا کبھی تو مسکراتے ہوئے دے دیتا اور کبھی رلا رلا کے۔
اماں کی بڑی خواہش تھی کہ خالد کی شادی دنیا دیکھے خالد اپنی شادی کے نام پر شرم سے انگارے کی طرح سرخ ہو جاتااور مجھے کہتا لالہ ایک بات یاد رکھنا میں اپنی بیوی کو سائیکل پر اپنے ساتھ بٹھا کے گھر تک نہیں لے جاؤنگا۔ سائیکل پر بیوی بٹھا کے لے جانے کا قصہ بہت دلچسپ تھا جب میری شادی ہوئی تو ہماری منت سماجت کے باوجود بس والے بس ٹیلوں میں سے گزار کر لے جانے پر رضا مند نہ ہوئے پریشانی کے اس عالم میں ابا کو کچھ اور نہ سوجھی تو انہوں نے قریب سے محلے کے ایک نوجوان کو سائیکل سے گزرتے ہوئے دیکھا تو اس سے سائیکل پکڑ کر میرے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے کہا یہ پکڑو سائیکل اور اپنی بیوی کو گھر لے جاؤ مگر ہمارے آنے سے پہلے گھر کے اندر داخل نہیں ہونا کیونکہ گھر میں داخلے سے پہلے کچھ رسمیں ادا کرنی ہیں سو ہم بیگم کو لے کر گھر کے دروازے پر بیٹھے رہے جب باقی بارات پہنچی تو ہم بیگم سمیت گھر میں داخل ہوئے سو ہمارے اس عمل کے چرچے بہت عرصے تک خاندان میں ہر زبان پہ رہے خالد بھائی کا اشارہ اسی طرف تھا۔
سو ہم نے اماں اور خالد بھائی کی خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کی خالد کی شادی ہوئی اور پورے پندرہ دن تک شادیانے یوں بجائے گئے کہ ہر رات میوزیکل نائٹ قرار پائی دور نزدیک کے ہر ایک دوست نے ایک ایک رات کیلئے محفل سجائی اور خوب سجائی آخری رات ہمارے عطا اللہ عیسیٰ خیلوی نے فن کا جادو جگایا اور ایسا جگایا کہ پورے پنجاب سے لوگ پنڈال میں نظر آئے ایک عرصے تک خالد بھائی کی شادی کے چرچے ہوتے رہے ابھی یہ گونج دھیمی نہیں ہوئی تھی کہ شادی کے دوسرے سال ایکسیڈنٹ میں دنیا چھوڑ کے چل دیئے مگر ایک بیٹی اور بیٹا نشانی چھوڑ گئے۔
ناصر بھائی کی شادی بھی میں نے اپنے ہاتھوں سے کی محدود وسائل کے باوجود تمام تر معاملات کو انجام تک پہنچایا۔ناصر بھی مجھ سے چھوٹے اور خالد سے بڑے تھے مزاج کے تھوڑے تیز لڑکپن میں ایک بار میری وجہ سے ایک لڑکے کی کمر کو بلیڈ سے لہو لہان کر دیا ہوا یوں کہ ہم چند لڑکے کبڈی کھیل رہے تھے اور روایتی کھیل میں دونوں کھلاڑی ایک دوسرے کو طمانچے مارتے ہیں اتفاق سے ناصر بھائی میدان میں آئے تو ایک کھلاڑی ہم پہ طمانچوں کی بارش کیے ہوے تھا ناصر بھائی نے مجھے پٹتے دیکھا تو جھٹ سے بلیڈ نکالا اور اور اس لڑکے کی کمر کو لہو لہان کر دیا اچھا خاصا ہنگامہ کھڑا ہوگیا دشمنی کا نتیجہ نہ جانے کیا نکلتا محلے کے بزرگوں نے بچے ہیں اور غلط فہمی کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا کہ کہہ کے معاملہ نپٹا دیا۔
ناصر بھائی پورے خاندان کیلئے ایک نعمت سے کم نہیں تھے دکھ سکھ میں پہلی صف میں کھڑے نظر آتے خاندان کے بچوں کی تو اس میں جان تھی دس دس کے نوٹ ہر وقت ان کی جیب میں پھڑکتے رہتے اور بچے ہر دس منٹ بعد ان کی طرف لپکتے رہتے میرا بہت احترام کرتے کوئی بھی خاندانی فیصلہ میرے مشورے تک اٹکا رہتا عمومی طور پر وہ اس فیصلے پر جمے رہتے جو انہوں نے کر رکھا ہوتا تھا میں اگر اس فیصلے کو تسلیم نہ کرتا تو اس کے اندر سے ایک وکیل برآمد ہوتا جو جب محسوس کرتا کہ دلائل کام نہیں دکھا رہے تو پھر ہماری بیگم کے ذریعے اپنی بات منوانے کی کوشش کرتا جو ہم کبھی مان لیتے اور کبھی نہیں بھی مانتے تھے۔کوئی سات سال پہلے ان کے دل کے معاملات گڑ بڑ ہوتے تو میں انہیں لاہور لے آیا دوتین ماہ کے علاج کے بعد ان کی طبیعت سنبھل گئی تو ہم نے ان کے ہر طرح کے کام پر پابندی لگا دی اور ان کے کھانے پینے کے معاملات پر بھی گرفت بڑھا دی مگر جب وہ گاوں یعنی کندیاں چلے جاتے تو تو پھر انہیں روکنے والا کوئی پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔
ادھر لاہور میں رہتے ہوئے ان کا دم گھٹتا تھا اور ہر وقت کی نگرانی سے خاصے تنگ رہتے مگر جب آجاتے تو پھر میرے نواسے نواسیاں ایک دو مہینے تک ان کو واپس گاؤں کم ہی جانے دیتے تھے اور عموماً سالگِرہ کے نام پراسے روکے رکھتے تھے بچوں کی سالگِرہ منانے کیلئے وہ ہر وقت تیار رہتے جیب سے پیسے نکالتے اور دیکھتے ہی دیکھتے گھر میں جھنڈیاں کیک اور باربی کیو کا انتظام ہو جاتا اور وہ اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تمام تر پرہیز اور پابندیاں ہوا میں اڑا دیتے طبیعت خراب ہوتی تو پھرکہتے دراصل بچوں کے کہنے پر انہوں نے بد پرہیزی کی ہے حالانکہ سگریٹ پر سخت پابندی کے باوجود وہ بہانے سے نکلتے اور گلی میں کھڑے ہو کے سگریٹ نوش فرماتے مگر ہماری بیگم کے چھاپہ مارنے پر سخت شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے بھائی کو نہ بتانا کی درخواست کرتے۔
دو بڑے بیٹے بیاہ چکے تھے اب چھوٹے بیٹے اور بیٹی کے بیاہ کیلئے بہت متحرک تھے بیٹی کیلئے ایک رشتہ پسند آیا تومجھے میانوالی آنے کو کہا ہم پہنچے تو مشورہ دیا یہاں رشتہ مناسب رہے گا رشتہ داری بھی ہے اور لوگ بھی اچھے ہیں بہت خوش تھے دو دن پہلے بچی کے سسرال گئے اور اگلے ہفتے منگنی کے انتظامات میں مصروف تھے بظاہر طبیعت میں کوئی پریشانی نہیں تھی قریب کی دکان سے کچھ سودا سلف خریدنے گئے مسکراتے ہوئے گھر داخل ہوئے چارپائی پر بیٹھے اوردوبارہ نہ اٹھے۔ان کی وفات کے بعد دل بہت بوجھل ہے وہ صحیح معنوں میں پورے خاندان کیلئے ایک برکت تھے مجھے کسی بھی طرح کے کسی خاندانی معاملے میں کوئی فکر نہیں تھی وہی سب کو جوڑے رکھتا اب احساس ہوا ہے کہ
بھائیاں باج محمد بخشا کون کرے دلجوئی……
(کالم نگارمعروف شاعر اورادیب ہیں)
٭……٭……٭

خوشامد۔۔۔ہمارا قومی نصب العین

فیصل رشید لہڑی
قومیں اپنے عروج کی کہانی کس طرح تحریر کرتی ہیں۔اور عروج کی کہانی کے بعد کون سے کردار ہیں جو زوال کا سبب بنتے ہیں۔افق کے اس پار دیکھنے کی صلاحیت رکھنے والی قیادت کسی بھی قوم کو بام عروج تک لے جاتی ہے،اور آنکھوں کے سامنے دیوار پر لکھی ہوئی تحریر سے نا بلد قیادت کسی بھی قوم کو بے بسی،شرمندگی اور تنزلی کی دلدل میں دھکیل دیتی ہے۔ چاہے کسی قوم کے عروج کی داستان رقم ہو رہی ہو یا پھر کسی قوم کے زوال کی کہانی ہو۔روز اول سے عروج و زوال کے کردار اور ان کے کارنامے ایک جیسے ہیں،اور تاابد ایسا ہی ہوتا رہے گا۔تاریخ کا بے رحم پہیہ اپنے دامن میں ایسے ہی داستانیں سمیٹتا رہے گا۔ہم پاکستانیوں کو فی الحال چونکہ عروج کی طرف سفر نصیب ہی نہیں ہو رہا،تو پھر عروج کے لوازمات پر بحث کرنے سے کیا حاصل؟ہاں مگر یہ بات ہو سکتی ہے،کہ زوال کے اسباب کیا ہیں؟بے شمار اسباب ہیں جناب بے شمار اسباب۔مگر جس ایک سبب پر آج بات کرنا چاہوں گا،وہ ہے ہمارا خوشامدانہ رویہ۔ہر طاقتور اور دولتمند کی خوشامد کرنا ہمارا قومی وطیرہ بن چکا ہے۔خوشامد ہمارا قومی نعرہ بن چکی ہے، اس بات سے قطع نظر کہ جو اجزائے تر کیبی کسی ہجوم کو قوم بناتے ہیں،ہم میں موجود ہیں کہ نہیں،بہر حال ہم خود کو ایک قوم بلکہ زندہ قوم سمجھتے ہیں۔لہذا ہم نے ہر قوم کی طرح کچھ اشیاء کو قومی علامت یا نشان کے طور پر بھی اپنا رکھا ہے۔جیسا کہ ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے۔قومی پرندہ چکور ہے۔قومی پھل کا درجہ آم کو حاصل ہے۔کھانے میں نہاری ہمارا قومی کھانا اور پینے میں گنے کا رس ہمارا قومی مشروب ہے۔میٹھے میں گلاب جامن کو ہم نے قومی مٹھائی قرار دیا ہے۔ قومی لباس شلوار قمیض ہے۔یہ فہرست لمبی ہو سکتی ہے،مگر ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔
اوپر بیان کردہ چیزوں کا ہماری عملی زندگیوں میں کوئی خاص کردار نہیں۔تاہم مقام حیرت ہے کہ اس فہرست میں اس چیز کا ذکر تک نہیں جس میں ہمارا کوئی مقابل نہیں دور تک۔جی ہاں میرا اشارہ خوشامد کی طرف ہے۔اگر آپ پاکستانی نظام پر باریک بینی سے نظر ڈالیں،تو جو چیز آپ کو سب سے زیادہ نظر آئے گی وہ خوشامد ہے۔آپ رات کو ٹی۔وی چینلز پر ہونے والے ٹاک شوز ملاحظہ فرمائیں،آپ کو سمجھ آئے گی کہ ہمارا قومی کھیل ہاکی نہیں،خوشامد ہے۔ہاکی میں ہماری مہارت قصہ پارینہ بن چکی،مگر خوشامد میں ہمارے جوہر دوام کی طرف رواں دواں ہیں۔خوشامدی انسان کو خوشامد کر کے جو پھل ملتا ہے،آم کا ذائقہ اس کے قریب بھی نہیں جا سکتا۔چنبیلی کی خوشبو بھی اچھی،مگر خوشامد کی خوشبو کرنے اور کروانے والے دونوں کو سحر زدہ کر دیتی ہے۔کون نہیں جانتا کہ خوشامد بری بلا ہے،یہ جھوٹ اور دھوکہ ہوتا ہے،مگر پھر بھی یہ کم بخت مزا دیتی ہے۔گلاب جامن میں وہ مزا کہاں جو جھوٹی تعریف میں ہے۔خوشامد کا راج حکومتی ایوانوں،سرکاری و غیر سرکاری دفاتر،ہماری تقریوں اور تحریروں میں،چھوٹی سطح سے لے کر اعلی سطح تک ہر جگہ قائم ہے۔ہمارے نظام میں جس نے بھی خوشامد کا سہارا لیا،گوہر مراد پا لیا۔اردو ہماری قومی زبان ہے،مگر جس قدر خوشامد ہماری زبانوں سے نکلتی ہے،خوشامد کو ہماری قومی زبان ہونا چاہیے۔
ہمارا قومی نصب العین،ایمان،اتحاد،تنظیم ہے۔ اگر ہم اس نصب العین کو مرکز مان کر محنت کرتے تو زوال کی اس انتہا کا شکار نہ ہوتے۔قائد اعظم کی وفات کے بعد آج تک ہمارا قومی نصب العین خوشامد ہے۔ اعلیٰ ترین اور حساس ترین عہدوں پر وہ لوگ براجمان ہوتے ہیں جن کی واحد صلاحیت خوشامد ہے۔وہ ریاست سے زیادہ شاہ کے وفادار ہوتے ہیں۔وہ شاہ کی خوشنودی کے لیے کوے کو سفید،جہالت کو ہنر،کرپشن کو خوبی ثابت کرتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں اب خوشامد ایک برائی کی بجائے ایک بہترین صلاحیت اور ہنر ہے۔اگر کسی میں صلاحیتوں کی کمی ہے مگر خوشامد کا ماہر ہے،تو تر قی کے دروازے اس کے لیے کھلے ہیں۔تاہم اگر آپ با صلاحیت ہیں اور خوشامد کرنا نہیں جانتے،اور آپ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں،تو آپ پاکستان سے باہر تشریف لے جائیں۔آپ جیسے لوگوں کے لیے پاکستان میں کوئی جگہ نہیں۔بے شمار ڈاکٹرز،انجنیئرز اور بزنس مین پاکستان سے باہر جا چکے ہیں،کیونکہ وہ خوشامد نہیں کرتے تھے،شاہ کی بجائے پاکستان اور پاکستانیوں کے وفادار بننے کی کوشش کرتے تھے،لہٰذا ہم نے ان کو اتنا تنگ کیا کہ اب وہ پاکستان سے باہر اپنی بہترین صلاحیتوں سے ان ممالک کو فیض یاب کر رہے ہیں۔خوشامد ہمارے تمام قومی ادارے کھا گئی ہے۔ہمارے حکمران اور طاقتور ترین عہدوں پر فائز لوگ کسی بھی ایسی آواز کو برداشت نہیں کر سکتے،جو انھیں بتائے کہ جناب آپ کی وجہ سے ملک معاشی اور اخلاقی طور پر گڑھے میں گر چکا ہے۔ امید کے تمام دئیے بجھ چکے ہیں۔ملک تقریباً آسیب زدہ ہو چکا ہے۔مگر میں یہ کیا لکھ رہا ہوں۔نہیں جناب،آپ کا اقبال بلند ہو،”عقل کے اندھوں“کے علاوہ سب کو نظر آ رہا ہے کہ ملک ترقی کر رہا ہے۔ہر طرف خوشحالی ہے۔کرپشن ختم ہو چکی ہے۔امن کا دوردورہ ہے۔ عوام ہر وقت آپ کو دعائیں دیتی ہے۔آپ بے مثال حکمران ہیں،آپ باکمال لوگ ہیں۔
(کالم نگارمعاشرتی،سماجی موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

آبادی ہی سب سے بڑا مسئلہ

شفقت اللہ مشتاق
کسی بھی ملک کے لئے اس کی افرادی قوت کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن ہر چیز کا ایک تناسب ہوتا ہے اور اگر وہ تناسب بگڑ جائے تو فائدہ نقصان میں اور نقصان تباہی و بربادی کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ بظاہرشادی کا بنیادی مقصد ارتقائے بنی نوع انسان ہی ہے۔ ویسے جوڑا بننا انسانی جبلت میں بھی ہے۔ بہرحال شادی کی صورت میں اگر شادی سے متصل معاملات ذوق شوق سے طے کئے جائیں تو بچوں سے ہر گھر کا آنگن بھر جاتا ہے۔ یہ سلسلہ جب کچھ زیادہ ہی طول پکڑتا ہے تو آبادی بڑھنے کا شور شرابا مچ جاتا ہے۔ سکھ کی آگ کا جب مچ مچتا ہے تو اس کے مقابلے میں مسائل کی آگ کا مچ ویسے ہی دم توڑ جاتا ہے۔ ہاں البتہ جب مسائل کو ہوشمندی اور حکمت سے حل نہیں کیا جاتا اس ساری صورتحال کی شدت کی بدولت تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں وسائل مسائل میں بدل جاتے ہیں۔ زمین تنگ ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ آکسیجن نفوس کے تناسب کے حساب سے کم ہو جاتی ہے۔ پانی بکثرت استعمال کی وجہ سے خشک ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ بھائی بھائی کے گریبان پکڑ لیتا ہے۔ دوستوں کے درمیان حساب شروع ہو جاتے ہیں۔ سڑکوں،چوکوں اور چوراہوں پر گاڑیاں آپس میں ٹکراتی ہیں۔
یہ وہ ساری صورتحال تھی جس کا واقفان حال کو ادراک بہت ہی پہلے ہوگیا تھا اور انہوں نے بروقت آبادی کنٹرول کرنے کی بات کی تھی لیکن بدقسمتی کہ ہمارے ارباب اختیار نیآبادی کو منصوبہ بندی سے روکنے کی پالیسی بنا دی اور میرے جیسے لوگوں نے منصوبہ بندی کو نس بندی سمجھ کر کمر کس لی اور پھر اس کے بعد ہم نے اپنی جہد مسلسل کی بدولت کسی بھی شعبہ ہائے زندگی میں منصوبہ بندی سے کچھ نہیں ہونے دیا۔ بڑے بڑے منصوبے منصوبہ بندی کے بغیر ہی بنانے شروع کر دیئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ منصوبے تو آئی ایم ایف کی مدد سے مکمل ہو گئے اور کچھ آج تک نامکمل چلے آرہے ہیں۔ جہاں تک آبادی کو کنٹرول کرنے کے منصوبے کا تعلق تھا۔ اس کی اہمیت اولا مشترکہ خاندانی نظام نے ہم پر واضح ہی نہ ہونے دی۔ ایک کمائے اور بے شمار کھائیں آخر مسئلہ کیا ہے۔ اولاد اللہ کا بہت بڑا انعام ہے۔ دوئم علمائے کرام نے اس منصوبے کے پیچھے جو فکر تھی اس کو کھل کھلا کر عوام کے سامنے رکھ دیا اور وہ فکر ان کے نزدیک یہ تھی کہ کافر چاہتے ہیں کہ ہم عددی طور پر کم ہو جائیں اور تیسرا یہ کہ ہم جذباتی لوگ ہیں اور آبادی بڑھانے میں تو جذباتیت کو بہت ہی عمل دخل ہے۔ اب جبکہ مشترکہ خاندانی نظام دم توڑ چکا ہے۔ کثرت آبادی کی وجہ سے زمین سکڑ چکی ہے۔ اول تو بجلی اور گیس ناکافی ہو گئی ہیں اور جو ہے وہ بھی قوت خرید سے باہر ہو چکی ہے۔ باہر کا پیسہ آنے سے پہلے ہی خرچ ہو جاتا ہے سود واپس کرنے کے مزید باہر سے پیسہ منگوایا جاتا ہے۔ ہسپتال، سکول،کالج اور یونیورسٹیوں میں گنجائش ختم ہو چکی ہے۔ امیر آبادی کی کوالٹی آف لائف تو شاید اچھی ہوگئی ہو گی لیکن کوالٹی آف ہیلتھ ناگفتہ بہ۔ باپ اپنی بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنا چاہتا ہے اور اس کے لئے اسے کروڑوں روپے کی ضرورت ہے اور ابھی اور بیٹیاں اور بیٹے پیچھے بیٹھے ہیں۔ یہ وہ آبادی بڑھانے کا ذوق شوق بلکہ جنون تھا جس کی وجہ سے آج ہم ترقی کے سفر میں پیچھے بلکہ بہت ہی پیچھے رہ گئے ہیں۔ اگر اعدادوشمار کی بات کی جائے تو اس وقت پاکستان آبادی کے لحاظ سے چھٹا بڑا ملک ہے اور اس کی کل آبادی 22کروڑ 94لاکھ 88ہزار 9سو چرانوے ہو چکی ہے اور آبادی بڑھنے سلسلہ آخری خبریں آنے تک جاری و ساری ہے اور اس پر کوویڈ کا بھی کوئی خاطر خواہ اثر نہیں ہوا۔ جہاں تک نظر دوڑائی جائے لوگ ہی لوگ نظر آتے ہیں شہروں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں اور دیہات شہروں کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں آلودگی نے انسانوں کا جینا دو بھر کردیا ہے۔
مختصراً چہار سو مایوسی اور پریشانی کے سائے منڈلا رہے ہیں اور آبادی کے اس خوفناک بند کمروں کو “چابی” سے بھی ہم اس لئے نہیں کھول سکے۔ مذکورہ صورتحال پر سوائے لفظی شور شرابے کے کوئی عملی اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ ہم نے پاپولیشن ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ تو بنا دیئے ہیں لیکن ہمارا ویلفیئر سٹیٹ کا خواب شاید ان حالات میں کبھی بھی پورا نہیں ہوگا۔
ہم جذباتی قوم ہیں جو کہ منفی پہلوؤں کے فروغ کے لئے زیادہ جذباتی ہو جاتے ہیں اور اثبات کے فروغ کے لئے مصلحت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ صیاد کا کام آسان کرنے کا ہم نے ٹھیکہ اٹھایا ہوا ہے۔ ویسے صیاد بھی ہم خود ہی ہیں اور شکار بھی ہم خود ہی ہیں۔ تخلیق کار بھی خود ہی ہیں اور شہکار بھی خود ہی ہیں۔ کارآمد بھی ہیں اور بے کار بھی خود ہی ہیں کاش ہم اپنے نیچے دیکھ کر چلتے تو زمینی حقائق ہم پر آشکار ہوجاتے اور ہم یوں بے بس اور لاچار نہ ہوتے۔ ہمیں معلوم ہو جاتا کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں۔ آج تو ہم کہیں بھی نہیں جارہے ہم جہاں آج سے بیس سال پہلے تھے وہیں کھڑے ہیں اور اپنی افرادی قوت بڑھا کر وسائل کو مسائل میں تبدیل کررہے ہیں۔ غوروفکر اور سوچ بچار ہم نے کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ویسے ہم چین کے بڑے ہی گہرے دوست ہیں لیکن ان کی کامیابی کے پیچھے جو راز مضمر ہے اس کا سراغ لگانا ہمارے لئے اس لئے ممکن نہیں کیونکہ ہم اغیار سے مستفید ہونا باعث شرم سمجھتے ہیں ویسے بھی آبادی کو کم کرنے کے طریقے بے حیائی کو فروغ دیتے ہیں اور اس قسم کی آگاہی مہم بھی باعث عار ہے۔ کاش ہم چند سال ان ساری مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ دیتے۔ اس سلسلے میں بنائے گئے سارے ادارے اپنا اپنا فعال کردار ادا کرتے۔ سیاسی راہنما آبادی کے اس ہڑ کا بر وقت ادراک کرتے اور اس کے تدارک کے لئے جامع پالیسیاں بنائی جاتیں۔ باقاعدہ آگاہی مہم کا آغاز کیا جاتا اور جملہ مرد وزن کو آبادی کے کنٹرول کرنے کی اہمیت و افادیت سے آگاہ کیا جاتا مزید یہ کہ ریاست اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہوئے قانون سازی کرتی۔
(کالم نگار سیکرٹری ٹیکسز ریونیو بورڈ پنجاب ہیں)
٭……٭……٭

چین‘ روس معاہدہ

ملک منظور احمد
جنگ ِعظیم دوئم اس صدی یا پھر کہنا چاہیے کہ گزشتہ 100سال کا سب سے اہم ترین تاریخی موڑ تھا۔ اس جنگ میں ایک طرف امریکہ، انگلستان اور ان کے اتحادی تھے تو دوسری جانب جرمنی، جاپان اور ان کے اتحادی تھے، دونوں فریقین آمنے سامنے تھے اور جنگ دنیا پر بالادستی کی تھی۔ یہ بات واضح اس جنگ کے دوران ہی ہو چکی تھی کہ اس جنگ کا فاتح آنے والا طویل عرصے تک اس دنیا میں اپنی بالادستی قائم رکھے گا اور اسی کے حکم کے تحت دنیا کے معاملات سرانجام پائیں گے۔ اسی کو نیو ورلڈ آرڈر بھی کہا گیا۔ اس جنگ میں فتح امریکہ، انگلستان اور ان کے اتحادیوں کی ہوئی لیکن اس جنگ کے نتیجے میں انگلستان سمیت یورپ میں بڑی تباہی آئی جس کے باعث ان کی معیشتیں بھی تباہ ہوئیں لیکن امریکہ کی معیشت اس جنگ میں شامل ہونے کے باوجود اس تباہی سے بچی رہی، اسی لیے اس جنگ کے خاتمے پر امریکہ کو دنیا بھر پر معاشی، اقتصادی اور دفاعی برتری حاصل ہوگئی۔
امریکہ دنیا کا وہ واحد ملک تھا جس کے پاس خزانہ تھا اور وہ اس پوزیشن میں تھا کہ تباہ حال دنیا کی مدد کرتا۔ امریکہ نے اس جنگ کے بعد مارشل پلان کے ذریعے تباہ حال یورپ کو پھر سے بنانے میں مدد دی اور اس طرح یورپ سمیت پوری دنیا ہی امریکی معاشی اور اقتصادی تسلط میں چلی گئی اور امریکہ نے اس تقریباً 75سال تک دنیا پر شرکت غیر حکمرانی کی۔ اس تمام کے عرصے کے دوران ایک دور کے اندر سپر پاور کے طور پر سویت یونین موجود تھا جس نے امریکہ کو مختلف مواقع پر چیلنج کیا تھا لیکن پھر سویت یونین کے سرد جنگ میں شکست کھانے کے بعد سے امریکہ کو دنیا میں سول سپرپاور کا درجہ حاصل ہوا اور امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ ملکر دنیا پر اپنا حکم چلایا اور اپنی مرضی نافذ کی۔ کبھی انسانی حقوق کے نام پر کسی ملک پر قبضہ کیا اور کبھی تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے نام پر کسی ملک کو تباہ کیا گیا لیکن اب ایک طویل عرصے کے بعد دنیا ایک مرتبہ پھر ایک ملٹی پولر ورلڈ بلکہ ایک نئی سرد جنگ کی جانب بھی بڑھ رہی ہے۔ چین، روس، ترکی اور ایران سمیت کئی ایسی طاقتیں ابھر رہی ہیں جوکہ امریکہ اور اس کے نظام اور ان کے مفادات کو برملا چیلنج کررہی ہیں۔ یہ ایک بدلتی ہوئی دنیا ہے جوکہ ایک نئی سرد جنگ میں داخل ہوچکی ہے، جہاں پر دونوں فریقین میں سے کسی بھی ایک کی جانب سے ذرا سی بھی غلطی جنگ کی چنگاری بھڑکا سکتی ہے لیکن اس سلسلے میں حال ہی میں ایک نئی پیشرفت ہوئی ہے۔
چین اور روس نے ایک نیا معاہدہ کیا ہے اور اس معاہدے کے تحت چین اور روس دونوں ملکر دنیا میں ایک منصفانہ ورلڈ آرڈر کے نفاذ کیلئے کام کریں گے۔ تجارت کیلئے مقامی کرنسیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی اور ہر شعبے میں تعاون کو بڑھایا جائے گا۔ کیا اس معاہدے کو باقاعدہ طور پر سرد جنگ کا اعلان قرار دیا جاسکتا ہے، یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے لیکن اس کا جواب شاید ہمیں اتنی جلدی نہیں ملے گا۔ اگر اس حوالے سے پاکستان کی ہی بات کرلی جائے تو پاکستان کیلئے بھی یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے اور پاکستان کو بھی اس صورتحال میں سوچھ سمجھ کر فیصلے کرنا ہوں گے۔ بظاہر پاکستان چین کے بہت قریب ہے لیکن امریکہ سے بھی پاکستان نے مکمل طور پر کنارہ کشی اختیار نہیں کی ہے۔ گزشتہ روز امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان سے پاک، چین تعلقات کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب میں کہا کہ کسی بھی ملک کیلئے امریکہ یا چین میں سے ایک ملک کو چننے کی پابندی نہیں ہے اور نہ ہی امریکہ اس حوالے سے کسی ملک کو کچھ کہتا ہے لیکن حقیقت میں امریکی اقدامات اس کے برعکس ہیں۔ پاکستان بھی بدلتی ہوئی اس دنیا سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ پاکستان کیلئے اپنی سلامتی کیلئے دفاعی شعبہ نہایت ہی اہم ہے اور پہلے پاکستان کا اس شعبہ میں سارا کا سارا انحصار امریکہ اور یورپ پر تھا لیکن اب کچھ عرصے سے پاکستان نے دفاعی شعبے میں اپنا انحصار امریکہ اور یورپ سے ہٹا کر چین اور ترکی کی جانب کرلیا ہے اور پاکستان کو اس کا بہت فائدہ بھی ہورہا ہے۔ پاکستان کو چین اور ترکی کی جانب سے تیارکردہ جدید ترین ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل ہے اور اب اس شعبے میں پاکستان کو چین اور ترکی کی بدولت امریکہ کی ضرورت نہیں رہی۔ یہ اس حوالے سے صرف ایک مثال ہے کہ کس طرح دنیا کے یونی پولر سے ملٹی پولر دنیا کی جانب جانے کی وجہ سے پاکستان کو کیا فائدہ ہوا ہے لیکن جہاں پر اس صورتحال کے فوائد ہیں وہیں پر اس کے چیلنجز بھی موجود ہیں۔
پاکستان کا چین کی جانب جھکاؤ کسی صورت امریکہ اور یورپ کو بہت زیادہ پسند نہیں ہے اور پاکستان ابھی بھی برآمدات، کاروبار اور ترسیلات زر سمیت عالمی اداروں پر انحصار کرتا ہے جوکہ امریکہ کے آشیرباد سے چلتے ہیں۔ پاکستان کو سب سے پہلے معاشی طور پر خودمختار ہونے کی ضرورت ہے تاکہ اس حوالے سے پاکستان پر دباؤ نہ ڈالا جاسکے لیکن بہرحال عالمی صورتحال کے تناظر میں روس اور چین کے اس معاہدے کو بہت اہمیت دی جارہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ ہم یقینی طور پر ایک نئی اور خطرناک سرد جنگ کے دور میں داخل ہورہے ہیں جس میں کامیاب ہونے والے ہی شاید اگلے 100سال تک اس دنیا پر حکمرانی کریں گے۔ یہ بدلتی ہوئی دنیا ہے اور اس دنیا میں ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ذرا سی لاپروائی تباہ کُن نتائج کی حامل ہوسکتی ہے۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭

صرف نیّت ہی نہیں

انجینئر افتخار چودھری
آج کل ایک ڈائیلاگ بڑا مشہور ہے کہ ”عمران خان کی نیت ٹھیک ہے“ چلیئے اسے سچ مان لیتے ہیں لیکن اس کا عرف عام میں جو سمجھ میں آتا ہے کہ باقی سب کچھ خراب ہے بس عمران خان کی نیت ٹھیک ہے۔حضور، بابا جی، صرف نیت ہی ٹھیک نہیں عمران خان کے ان سوا تین سالوں کے کام بھی ٹھیک ہیں اس کی ٹیم بھی ٹھیک ہے۔اس کے کاموں کے آگے چل کر تفصیل سے ذکر کروں گا ابھی کل ہی نوجوان اور دبنگ وزیر فرخ حبیب سے ملا ہوں انفارمیشن منسٹری کو جس خوبصورت انداز سے چلانے میں وہ فواد چودھری کاہاتھ بٹا رہے ہیں میں نہیں سمجھتا کہ اس سے بہتر کام کسی اور انفارمیشن منسٹر نے کیا ہو۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے برادر سینیٹر اعجاز چودھری کا سینیٹ میں بیان سن رہا تھا جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ عمران خان نے گرچہ اڑتیس ارب قرضہ لیا ہے اور پوری دنیا کو بتایا جا رہا ہے کہ حکومت نے سب سے زیادہ قرض لیا ہے لیکن اس جملے کو اس بات سے جوڑ کر دیکھیں کہ ان میں سے سابقہ حکومتوں کا لیا ہوا قرض 29 ارب بمعہ سود واپس بھی کیا ہے۔
عمران خان کو جب اگست 2018ء میں اقتدار ملا تو پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب تھا آج لوگ کہتے ہیں کہ اس نے تو آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کی قسم کھائی تھی بالکل ایسا ہی تھا لیکن اقتدار کی اپنی مجبوریاں تھیں عمران خان یقینا آئی ایم ایف کے پاس نہ جاتے اگر وہ انتہائی مجبور نہ ہوتے جانے والوں نے تو یہ بھی کہہ دیا تھا کہ آئیں اب اس معیشت کو ٹھیک کر کے دکھائیں یعنی وہ خود جان گئے تھے کہ جو کچھ کھلواڑ ہم نے ان سالوں میں کر دیا ہے اسے کوئی نہیں ٹھیک کر سکتا ان کی اس پوری ٹیم میں مفتاح اسماعیل ایک ایسا بندہ ہے جو مناسب آدمی ہے انکا کہنا دیکھ لیجیے وہ شوکت ترین کی پالیسیوں کو بہترین قرار دے رہے ہیں۔
بھوک سے مارے زرد چہروں کو خوراک چاہئے تھی مالٹا ٹرین نہیں۔قوم کو جعلی زندگی کا عادی بنا کر بڑھکیں لگاتے ہوئے نقلی حبیب جالب کو یہ علم تھا کہ ہم ملک کا دیوالیہ کر چکے ہیں۔جناب یہاں ٹھیک نیت والے نے وہ کام کئے کہ آج اللہ کے کرم سے کووڈ 19 کے بد ترین دور میں بھی پاکستان کی گروتھ 5.37 فی صد ہو گئی ہے بلکہ بعض لوگ اسے 6 فی صد بھی گردانتے ہیں۔سچ ہے کہ نیتیں صاف ہوں تو بیڑہ بھی پار ہوتا ہے اور مسئلے بھی حل۔ہو جاتے ہیں۔ انشاء اللہ پاکستان آنے والے دنوں میں خطے کی تگڑی معیشت میں داخل ہونے والا ہے۔روپے کو جعلی بندشوں سے آزاد کرنے کا فایدہ یہ ہوا ہے کہ پاکستان کو ٹیکسٹائل اور دیگر شعبوں میں آرڈر ملنے شروع ہوگئے ہیں۔
ہمارا تاجر لالچی نہ ہو تو اس کے ساتھ جڑا ہوا مزدور اس مہنگائی کا ڈٹ کے مقابلہ کر سکتا ہے۔ روپیہ سو سے ایک سو ستر گیا یعنی جن لوگوں کے ڈالر کے فکسڈ آرڈر تھے اور برآمد کرنے والوں کے اکثر کے فکس آرڈر ہوتے ہیں کیا انہوں نے اس ستر فیصد منافع کو آگے اپنے مزدور تک پہنچایا۔ ایک عمران خان کی نیت ٹھیک ہونے سے ملک کو فایدہ نہیں پہنچے گا جناب نیتیں نیچے بھی ٹھیک ہونا چاہئیں۔ میں کوئی ماہر معاشیات نہیں ہوں لیکن اتنا تو دیکھ رہا ہوں کہ ہر خاندان کے پاس دس لاکھ روپے کا صحت کارڈ ہے۔ اس سے پہلے کسی کو دل کا آپریشن، گردے کا آپریشن آنکھ اور دیگر بڑی بیماریوں کے لیے گھر بار بیچنا پڑتے تھے آج ان کے علاج ہو رہے ہیں۔یہ اچھی نیت والے لیڈر کے عملی کاموں کے ثمرات ہیں
میں نہیں سمجھتا کہ صرف،،نیت ٹھیک،، سے ملک چل رہا ہے نیت کے ساتھ درست سمت میں عملیت بھی موجود ہے۔احساس پروگرام دیکھ لیں۔بلینز ٹری پروگرام کامیاب جوان پروگرام ہاؤسنگ اتھارٹی کے گھر بنانے کے پروگرام کئی ڈیم بن رہے ہیں دیا میر بھاشا ڈیم داسو ڈیم مہمند ڈیم ان ڈیموں پر کام بند تھا ماشاء اللہ یہاں دشمن ملک کی خواہشات پر کئی ڈیموں کی تعمیر کو مؤخر کردیا گیا تھا۔
خراب نیتیں خراب کام کراتی ہیں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نعرے لگانے والو۔آپ کے ذمہ داران اپنے گھروں کے نوکروں کی تنخواہیں بھی اسی پروگرام سے دیا کرتے تھے ہزاروں لوگوں کو سروے کرکے اس لسٹ سے نکالا گیا ان میں گریڈ اکیس اور بائیس کے افسران بھی تھے۔ عمران خان نے پاپڑ والے ٹھیلے والوں کے اکاؤنٹ سامنے لائے ستم ظریفی یہ نہیں کہ حمزہ شہباز شریف کے اکاؤنٹ میں اربوں روپے آئے ظلم یہ کہ انہیں علم ہی نہیں ایک منصور سچ بولتے بولتے سولی چڑھ گیا حمزہ کا منصور جس کی تنخواہ پچیس ہزار تھی اس کا اکاؤنٹ میں اربوں کیسے چلے گئے۔
عمران خان کو بس یہ کہہ کے کہ جی باقی اس کے ساتھی چور اور ڈاکو ہیں وہ اکیلا ٹھیک ہے بات مناسب نہیں۔ انسان بنیادی طور پر چکری ہے اگر وہ مکر فریب کا عادی نہ ہوتا تو یہ جیلیں نہ بنائی جاتیں نہ قوانین بنائے جاتے میں یہ نہیں کہتا کہ عمران خان کوئی آسمان سے اترا ہوا شخص ہے لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ وہ بے ایمان چور اور لٹیرا نہیں ہے لوگ لوٹ کے لندن میں جائیدادیں بناتے رہے اس نے لندن کے فلیٹ بیچ کر بنی گالہ اس وقت خریدا جب وہ جنگل تھا۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ ”قبر اپنی اپنی‘ عمران خان نے اپنے ساتھیوں پر بھی کڑی نظر رکھی ہوئی ہے۔ فواد چودھری نے کیا خوب بات کی تھی یہ تین سالہ کارکردگی دکھانے کے دن تھے انہوں نے کہا تھا ہم تین سال بعد کارکردگی دکھا رہے ہیں تیس سال والے منہ چھپا رہے ہیں۔
عمران خان کی کارکردگی اپنی جگہ مگر اس کا ابلاغ اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے۔ہمارے سینیٹرز اراکین اسمبلی اپنے تئیں کام کر رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ نیت صاف بیڑہ ہار ہوتا ہے۔عمران خان کی ٹیم نے پاکستان کو بہترین پراجیکٹ دئے ہیں ابھی حال ہی میں کچھی کینال بنانے کا جو کام شروع ہوا ہے یقین کیجئے دل خوش ہو گیا ہے اس کے نعرے ہم سنتے رہے ہم بوڑھے ہو گئے بچپن میں سنا کرتے تھے کہ بلوچستان کے مقدر بدل جائیں گے اگر یہ منصوبہ مکمل ہوا تو پیچھے رہ جانے والا صوبہ ترقی کرے گا۔آج دیکھ لیں نہ صرف یہ نہر بلکہ جہلم میں وہ نہر بھی بن رہی ہے جو انگریز دور میں سوچی گئی تھی۔ اس ملک کے لٹیروں کے ہاتھوں کے مارے بے چارے کیا کرتے اپنے حالات بدلنے پر لگ جانے والوں کو سرے محل آیون فیلڈز کے فلیٹ بیرون ملک سٹیل ملیں اور شوگر ملیں بنانے سے فرصت ملتی تو وہ قوم کے لیے کچھ کرتے۔یہ جو دعوے کرتے ہیں کہ ہم بڑے ٹاٹا برلا تھے حضور ایوب دور کے بائیس خاندانوں میں اگر آپ کا نام ہے تو دکھا دیجئے جنرل ضیاء کے بعد آپ کا لوہا سونا بن گیا۔غریب سے امیر بننا جرم نہیں لیکن ایک کا باپ امیر دوسرے کا غریب یہ ظلم ہم نے آپ لوگوں میں دیکھا ہے۔افسوس دولت تو کما لی مگر عزت نہ کما پائے۔
ہاں ایک اہم کام انہوں نے کئے موٹر ویز بنائے اور خوب بنائے بعد میں پتہ چلا جو کام پی ٹی آئی کے دور میں سترہ ارب روپے فی کلو میٹر میں مکمل ہوا یہ ان کے دور میں سینتیس ارب میں بنا۔دہائی خدا دی یہ کیا لوگ تھے پھر کہتے ہیں کہ ہم پر بے جا تنقید کی جاتی ہے یعنی چار رویہ سڑک سینتیس ارب میں اور پی ٹی آئی آج مہنگائی کے دور میں بنائے تو سترہ ارب میں۔اس دور کی مہنگائی اور اس دور کا اندازہ لگا لیں۔
(تحریک انصاف شمالی پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات ہیں)
٭……٭……٭

کرپشن اورطاقت ورمافیاز

محمدنعیم قریشی
یہ ضروری نہیں ہے کہ ملک میں سار ی کرپشن شریفوں کے زمانے کی ہو اور ہر رپورٹ شریف خاندان کی وجہ سے ہی جنم لے اور ہر غلطی ونقصان کو اگلے پچھلوں کے کھاتے میں ڈالنا بھی عقمندی نہیں ہوتی،سوچنے سمجھنے کی بات تو یہ ہے کہ اس وقت تو حکومت امانت دار اور دیانت دار وزرااور مشیروں کے پاس ہے تو پھر پاکستان کرپشن کے میدان میں اس قدر اونچائی پر کس طرح پہنچ سکتاہے،موجودہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشل کی رپورٹ تو ہمیں یہ ہی بتاتی ہے کہ پاکستان میں حالیہ برسوں کی نسبت اس بارملکی کرپشن میں زیادہ اضافہ ہو اہے۔
پاکستان تحریک انصاف اور ان کے قائد عمران خان کی جانب سے انتخابات سے قبل احتساب کے نعرے نے خوب شہرت کمائی الیکشن سے قبل تحریک انصاف نے قوم کے سامنے یہ مؤقف پیش کیا تھا کہ پاکستان کے اقتدار پر مختلف ادوار میں فائز عہدیدارروں کی بد عنوانی نے ملکی خزانے کو شدید نقصان پہنچایاہے،اور اسی بد عنوانی، کرپشن کے خاتمے اور احتساب کا نعرہ لگا کر پاکستان تحریک انصاف ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی اور 2018ء کے انتخابات کے بعد عمران خان وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئے اور ان دنوں وہ اپنے پہلے دور اقتدار کے تین بر س سے زائد عرصہ گزار چکے ہیں وقت پر لگاکر اڑتارہاہے اور اب ان کے اقتدار کے تیسرے برس عالمی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جاری کردہ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ ہے کہ ان تین برسوں میں پاکستان میں بدعنوانی اور رشوت خوری کی سطح میں اضافہ ہوگیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 2018ء میں جب موجودہ حکومت برسر اقتدار آئی تھی تو پاکستان کا کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں 117واں نمبر تھا جو اب گر کر 140ویں نمبر پر پہنچ گیا ہے عالمی ادارے کی رپورٹ تیار کرنے کا طریقہ کار اور مقاصد بارے میں ماہرین کے درمیان بہت سارے تحفظات ہوسکتے ہیں، اس رپورٹ کے مندرجات میں بیان کردہ دعووں پر اعتراضات کے باوجود اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ کہیں نہ کہیں تحریک انصاف کی حکومت اپنے کیے گئے وعدوں پر عمل درآمد کرنے میں ضرور ناکام رہی ہے، جس کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کا ریاستی و سیاسی نظام اتنا بدعنوان ہوچکا ہے کہ جو شاید اب لاعلاج مراحل میں داخل ہوچکا ہے۔ تحریک انصاف کے بہت سے بڑوں کا یہ ماننا ہے کہ اگلی حکومت بھی تحریک انصاف کی ہی ہوگی،لیکن اس کا جواب یہ بنتاہے کہ آپکی حکومت بد عنوانی کے خاتمے اور طاقتور طبقے کے شفاف احتساب کا نعرہ لگا کر برسراقتدار آئی تھی وہ احتساب کے بارے میں فی الحال عوام کو مطمئن نہ کرسکی ہے۔ اس کے باوجودآپکو یقین ہے کہ اس با ر بھی قوم آپ ہی کو موقع فراہم کریگی جبکہ مہنگائی اور بے روزگاری کا جو عالم اس کا تو پوچھے ہی نہ تو اچھا ہوگا۔
ہم نے دیکھا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے اجراء سے ایک روز قبل ہی وزیراعظم عمران خان کے مشیر احتساب شہزاد اکبر مستعفی ہونے پر مجبور ہو ئے انہوں نے خود استعفیٰ دیا ہے یا وزیراعظم نے ان سے استعفیٰ لیا ہے اس کے بارے میں سیاسی حلقوں میں قیاس آرائیاں جاری ہیں لیکن یہ درست ہے کہ وزیراعظم کے خصوصی مشیر برائے احتساب اپنے مشن میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ بدعنوانی اور احتساب کے نعرے کا شور 90کی دہائی سے بہت پہلے کاہے اس نعرے نے ہردور میں ہی شہرت پکڑی ہے اس کے باوجود پاکستان کے سماج اور طاقت و اختیار کے ایوانوں میں اتنی ہی بدعنوانی بڑھتی رہی اور آج بھی ناجائز طریقہ سے یہ مال جمع کرنے کا جنون کسی نہ کسی طریقہ سے جاری ہے جس نے آجکل ایک خطرناک سیاسی بحران کی شکل اختیار کر لی ہے اس کرپشن زدہ مافیا نے قومی خودمختاری، آزادی و سلامتی کو خطرے میں ڈال رکھاہے،کرپشن اور بدعنوانی نے ہر سطح پر مجرموں اور مافیاوں کو طاقتور بنا دیا ہے۔
ان تین برسوں میں توانائی مافیا، شوگر مافیا، آئل مافیا، گیس مافیا، جیسے طبقات کی لوٹ مار سامنے آئی ہے لیکن اب تک کسی کو لگام ڈالنے یا عبرت کا مقام بنانے کی خبرسامنے نہ آسکی ہے،یہ بھی ہے کہ جب قانون سازی تیز اور عوام دوست ہوگی تو اس میں خامیاں بھی ہوسکتی ہیں لیکن کچھ دکھائی تو دے کچھ اچھا ہورہاہے حکومتی ترجمان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی جستجو سے نکلیں اور قوم کو بتائیں کہ ہم نے یہ اچھاکیاہے اور اس کے نتائج یہ نکلیں گے۔
دوسری جانب یہ بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم کبھی کشکول توڑ پائیں ہیں جو ہر روز آئی ایم ایف کے دروازے پر کھڑے رہتے ہیں اور آئے روز اس کی شرائط ماننے کے لیے عوام کی جیبوں کی قربانیاں دیتے رہتے ہیں۔ستر سالوں کا سفر تو ابھی تک جاری ہے شاید ہی کوئی ریاستی ادارہ یا سرکاری محکمہ ایسا ہو جہاں کرپشن کا بھوت نہ ناچ رہاہو، چاہے وہ محکمہ پولیس ہو انکم ٹیکس،کسٹم ایکسائز ہو صحت جیسے ادارے تو پہلے ہی بدنام تھے اب دیگر ریاستی اداروں سمیت محکمہ تعلیم بھی شدید بد عنوان اداروں میں شامل ہو چکے ہیں ان تمام اداروں کے اپنے اپنے طریقہ واردات اور کرپشن کے طریقے ہیں۔ جن سے اس ملک کی عواماب بخوبی واقف ہوچکی ہے کیونکہ ان تمام اداروں میں ہر شہری کو روزانہ ان تمام مشکلات اور پریشانیوں سے گزرنا پڑرہا ہے سب کچھ ویسا ہی چل رہاہے جو چوروں اور ڈاکوؤں کے ادوار میں دکھائی دیتاتھا،یہ تو وہ حقائق ہیں جن سے ملک گزشتہ ستر سالوں سے گزر رہا ہے اور گزرتا رہے گا،کیا ایسا تو نہیں ممکن کہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کی سیاست کے پیچھے قوم کو اصل ایشوز، غربت، مہنگائی سے توجہ ہٹانا پلاننگ کا حصہ ہو۔ میں سمجھتا ہو کہ اب بھی وقت ہے کہ ملک میں ایسے شفاف سسٹم کا اہتمام کیا جائے جس میں کرپشن کو حقیقی معنوں میں ختم کیاجائے نان ایشوز کو چھوڑ کر ایشوز میں ترجیحات کا ایسا تعین ہو جس سے سسٹم میں مضبوطی آئے اور جس میں ہر وزیر اور مشیر جواب دہ ہو۔
(کالم نگار مختلف امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

کشمیریوں کا احتجاج رنگ لائے گا

اعجاز الحق
آج ملک میں عام تعطیل ہے اور سرکاری و نجی سطح پر کشمیری عوام سے یکجہتی کے اظہار کی خاطر مختلف تقاریب اور ریلیوں کا اہتمام کیا جارہا ہے، دنیا کی تاریخ شاہد ہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کسی اہم فائل میں تو موجود تھا مگر بھارت سے آزادی کا خواب پورا نہیں ہورہا تھا یہ موقع کابل نے فراہم کیا جب کابل کی فضا نے جنرل محمد ضیا الحق شہید کی حکمت عملی کی بدولت روس کو افغانستان سے نکال باہر کیا، روس کی یہ ہزیمت شاید اس کے پیروکاروں کو برداشت نہیں ہوئی اور ایک ایسی چال چلی گئی جس کے نتیجے میں صدر جنرل محمد ضیا الحق شہید کو راستے سے ہٹانے کا مکروہ منصوبہ بنایا گیا، اگر اللہ تعالیٰ انہیں موقع فراہم کرتا تو آج مقبوضہ کشمیر بھی بھارت کے تسلط سے آزاد ہوچکا ہوتا۔ انہوں نے جو پلیٹ فارم مہیا کرنا تھا وہ اپنی زندگی میں کر گئے اب جب بھی کبھی کشمیر آزاد ہوگا تو صدر جنرل محمد ضیا الحق کا نام بھی تاریخ میں لیا جائے گا، ان کی شہادت کے بعد اگرچہ کشمیری عوام مایوس ہوئے تاہم پوری پاکستانی قومی ان کے ساتھ تھی اور آج بھی ان کے ساتھ ہے قوم کی آواز پر ہی یوم یکجہتی کشمیر منانے کا فیصلہ ہوا تھا اور اس سلسلے میں حکومت سے باہر قاضی حسین احمد کی آواز اٹھی اور یوں 5 فروری یوم یکجہتی کشمیر بن گیا۔ 1990ء سے یہ دن منایا جاتا ہے جس میں قومی سیاسی جماعتوں سمیت پوری قوم شریک ہو کر غاصب بھارت کو یہ ٹھوس پیغام دیتی ہے کہ کشمیر پر اس کا تسلط بزور قائم نہیں رہ سکتا اور یواین قراردادوں کی روشنی میں استصواب کے ذریعے کشمیری عوام نے بالآخر خود ہی اپنے مستقبل کا تعین کرنا ہے۔
کشمیری عوام غاصب اور ظالم بھارتی فوجوں اور دوسری سکیورٹی فورسز کے جبر وتشدد کو برداشت کرتے‘ ریاستی دہشت گردی کا سامنا کرتے اور متعصب بھارتی لیڈران کے مکر وفریب کا مقابلہ کرتے ہوئے جس صبر و استقامت کے ساتھ اپنی آزادی کی جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے‘ اس کی پوری دنیا میں کوئی مثال موجود نہیں۔ اس خطہ ارضی پر آزادی کی کوئی تحریک نہ اتنی دیر تک چل پائی ہے‘ نہ آزادی کی کسی تحریک میں کشمیری عوام کی طرح لاکھوں شہادتوں کے نذرانے پیش کئے گئے ہیں۔ کشمیر کی آزادی کی تحریک انسانی تاریخ کی بے مثال تحریک ہے جس کی پاکستان کے ساتھ الحاق کے حوالے سے منزل بھی متعین ہے۔ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ تقسیم ہند کے ایجنڈے کے تحت مسلم اکثریتی آبادی کی بنیاد پر کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہونا تھا جبکہ بانی پاکستان قائداعظم نے کشمیر کی جغرافیائی اہمیت کے تناظر میں اسے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا اور جب1948ء میں بھارت نے زبردستی اپنی فوجیں داخل کرکے تسلط جمایا تو قائداعظم نے افواج پاکستان کے اس وقت کے کمانڈر انچیف جنرل ڈگلس گریسی کو دشمن سے پاکستان کا قبضہ چھڑانے کیلئے کشمیر پر چڑھائی کا حکم بھی دیاگریسی نے اس حکم پر عمل کیا ہوتا تو یہ مسئلہ حل ہو چکا ہوتا۔ پھر جب چڑھائی کی گئی تو بھارت کشمیر کا تنازعہ اقوام متحدہ میں لے گیا مگر جب یو این جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے اپنی الگ الگ قراردادوں کے ذریعے کشمیری عوام کے حق خودارادیت کو تسلیم کیا اور کشمیر میں استصواب کے اہتمام کا حکم دیا تو بھارت نے اپنے آئین میں ترمیم کرکے مقبوضہ وادی کو باقاعدہ اپنی ریاست کا درجہ دے دیا۔ کشمیریوں نے بھارتی تسلط کبھی قبول نہیں کیا۔ وہ اپنی آزادی کیلئے ہمیشہ سے قربانیاں دیتے چلے آرہے ہیں۔
جولائی 2016ء میں مظفروانی کو جس طرح تشدد کرکے شہید کیا گیا‘ اسکے بعد کشمیری آزادی کی خاطر نئے جوش اور ولولے سے گھروں سے نکل آئے۔ انکے احتجاج اور مظاہروں نے ریاستی مشینری کو بے بس کر دیا۔ بھارتی افواج کے مظالم میں مزید اضافہ ہوگیا مگر کشمیریوں کا جذبہ ماند نہ پڑا تو بھارت نے وہاں نام نہاد جمہوریت کا خاتمہ کرکے گورنر راج نافذ کردیا۔ یہ بھی بے سود رہا تو صدر راج لگا دیا گیا۔ 5 اگست 2019ء کو مودی سرکار نے شب خون مار کر کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کر دیا۔ اسکے بعد مزید فوج وہاں تعینات کر دی گئی آج بھارتی سفاک سپاہ کی تعداد نو لاکھ ہے۔
کشمیری لگ بھگ ڈیڑھ سال سے بدترین پابندیوں کے حامل کرفیو کا سامنا کررہے ہیں۔ کرونا کے دوران بھی انہیں علاج تک کیلئے ہسپتالوں میں جانے کی اجازت نہیں تھی۔ بیمار ادویات سے محروم‘ بچوں کو دودھ اور خوراک میسر نہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ انسانی المیہ بدترین صورت اختیار کررہا ہے۔ کشمیری اسکے باوجود حق آزادی سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں۔ کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے کے بعد لاکھوں شدت پسندوں کو کشمیر کے ڈومیسائل جاری کئے گئے ہیں۔ ان کو کشمیر میں ملازمتیں دی جارہی ہیں۔ کسی بھی غیر کشمیری کو کشمیر میں جائیداد خریدنے کی اجازت دے دی گئی۔ یہ سب کشمیر میں مسلم اکثریتی آبادی کا توازن بگاڑنے کی سازش ہے۔ پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں ہونیوالی بھارتی بربریت دنیا کے سامنے رکھنے کی کوشش کی جس عالمی برادری کی طرف سے شدید ردعمل آیا۔ تشویش کا اظہار کیا‘ مذمت کی گئی‘ بھارت کو سختی سے انسانی حقوق سے باز رہنے کو کہا گیا مگر بھارت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ اب عالمی برادری کو عملی اقدامات کی طرف آنا ہوگا۔
پاکستان کی طرف سے کشمیر کے پرامن حل کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے مگر کسی کمزوری کا تاثر بھی نہیں دیا جارہا۔ آج کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کرتے ہوئے قوم کو دنیا پر مزید واضح کرنا ہے کہ بھارت کا کشمیریوں پر ظلم کا ہاتھ روکا جائے اور کشمیریوں کو ان کا حق استصواب دیا جائے جس پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئٹرس نے بھی زور دیا ہے۔
(مسلم لیگ ضیاء کے سربراہ اورسابق وفاقی وزیر ہیں)
٭……٭……٭

دومخدوموں کی لڑائی

سید سجاد حسین بخاری
مدینۃ الاولیاء ہر حملہ آور‘ مؤرخ‘ تاجر‘ سیاح اور دینِ اسلام کی تبلیغ کیلئے آنے والے صوفیائے کرام کو ہمیشہ اپنی آغوش میں لیتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملتان میں حملہ آور پٹھانوں اور صوفیائے کرام کی نسلیں آباد ہیں۔ یہاں آباد ہونے والوں میں دوطبقے بڑے فائدے میں رہے۔ حملہ آور پٹھانوں کی نسلیں اور صوفیائے کرام کی سادات وقریشی نسلیں‘ یہی وجہ ہے کہ قیامِ پاکستان سے قبل دو قسم کے خاندان حکمران یا حکمرانوں کے قریب رہے ہیں‘ ان میں ایک پٹھان‘ دوسرے سادات وقریشی۔ سیاست میں بھی ملتان کی پہچان گیلانی اور قریشی خاندان ہیں جو قیامِ پاکستان سے لیکر آج تک سیاست کا محور سمجھے جاتے ہیں۔ ملتان ایک وسیع وعریض حدود اربعہ پر مشتمل تھا‘ اس لئے دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں بسنے والے زمیندار گھرانے بھی ان دو خاندانوں میں تقسیم ہوگئے تھے۔
گیلانی اور قریشی خاندان‘ یہ دونوں خاندان ہمیشہ ایک دوسرے کے خلاف سیاست کرتے تھے مگر ملکی سطح کی حکومت میں کبھی گیلانی ہوتے تو کبھی قریشی مگر پورے جنوبی پنجاب کی لیڈرشپ ان دوخاندانوں کے پاس ہوتی تھی۔ ضیاء الحق کے دور میں جب بلدیاتی سیاست شروع ہوئی تو ایک تیسرا فریق سید فخر امام گروپ ضلع کونسل کی چیئرمینی کا اُمیدوار بن گیا اور اس گروپ نے گیلانی خاندان کے بزرگ سیاستدان حامد رضا گیلانی کو شکست دیکر ضلع ملتان کی چیئرمین شپ چھین لی‘ پھر گیلانی اور قریشی خاندان اکٹھا ہوگیا اور سید یوسف رضا گیلانی نے فخر امام کو ہرادیا۔ بات ضلع کونسل تک ختم نہ ہوئی‘ گیلانی خاندان ضیاء اور جونیجو حکومت کے ساتھ ہوگیا جبکہ سید فخر امام نے ضیاء الحق کے اُمیدوار برائے سپیکر قومی اسمبلی خواجہ صفدر کو ہرادیا۔
ضیاء الحق نے فخر امام کو سزا دینے کیلئے خانیوال کو ضلع کا درجہ دے دیا اور اس طرح فخر امام گروپ گیلانی اور قریشی خاندان کی جان چھوڑ گیا اور ملتان کی روایتی سیاست گیلانی اور قریشی خاندانوں کے پاس واپس آگئی۔ ضلع ملتان کی جو سات تحصیلیں تھیں‘ ان میں پانچ تو ضلع بن گئیں مگر شجاع آباد اور جلالپور پیروالا آج بھی ملتان کی تحصیلیں ہیں۔ ملتان ڈویژن اور ضلع کے سُکڑنے سے یہ دونوں خاندان بھی سُکڑ کر صرف ضلع ملتان تک محدود رہ گئے اور دونوں خاندانوں کی نمائندگی حکومتوں میں ایک‘ ایک فرد کرتا رہا۔ جن میں یوسف رضا گیلانی اور مخدوم شاہ محمود قریشی مگر شاہ محمود قریشی سیاست میں سیلف میڈ تھے اور زندگی کا پہلا ضلع کونسل کا الیکشن بھی ہار گئے تھے۔ وقت کا دھارا بدلا تو یوسف رضا گیلانی اور شاہ محمود قریشی ایک ہی جماعت میں وزیراعظم اور وزیرخارجہ بن گئے اور دونوں شیروشکر ہوگئے حالانکہ وزارتِ عظمیٰ کی دوڑ میں مخدوم امین فہیم‘ مخدوم شاہ محمود قریشی اور مخدوم یوسف رضا گیلانی شامل تو تھے مگر قرعہ یوسف رضا گیلانی کے نام نکلا۔ وزارتِ عظمیٰ سے قبل مالی طور پر مستحکم مخدوم شاہ محمود قریشی مگر سیاسی استقامت یوسف رضا گیلانی کے پاس تھی۔ آج اس کا اُلٹ ہوگیا ہے۔ ماضی میں جو کچھ بھی سیاست میں ہوتا رہا مگر اس قدر بُرا نہیں ہوا جو گزشتہ ہفتے ہوا۔ یہ صرف میری آواز نہیں بلکہ پورا خطہ ہم آواز ہے۔
فی الحال تو مخدوم شاہ محمود قریشی کو بظاہر قصوروار ٹھہرا رہے ہیں۔ جمعرات تک تو گیلانی صاحب کی جماعت کے عہدیداروں اور ان کی اولاد نے وزیر خارجہ کو خوب سنائی ہیں۔ دُکھ اس بات کا ہے کہ اتنے بڑے خاندانوں کے اتنے بڑے رہنماؤں کے یہ گفتگو ہرگز شایان شا ن نہیں۔ بقول مخدوم شاہ محمود قریشی کہ پہل گیلانی خاندان نے کی ہے مگر میڈیا پر پہل شاہ محمود قریشی کی نظر آتی ہے حالانکہ دونوں مخدوموں نے گزشتہ 40سال سے عملی سیاست میں کبھی بھی ذاتیات پر حملے نہیں کئے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ سینٹ کے فلور پر کھڑے ہوکر وزیرخارجہ نے سابق وزیراعظم کو رگڑ دیا۔ کمال چیئرمین سینٹ کا ہے کہ وعدے کے باوجود فلور سید یوسف رضا گیلانی کو نہیں دیا ورنہ جواب آں غزل ہوجاتی اور حساب چکتا ہوجاتا۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ جب دوستوں یا رشتہ داروں میں سے ایک آدمی ترقی کے زینے طے کرتے کرتے منزلِ مقصود پر پہنچ جائے تو پیچھے رہ جانے والے اس کی خامیاں بیان کرتے ہیں اور اس کے ماضی کو کریدتے ہیں اور بے جا برائیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر بیان کرتے ہیں۔ یہ عادت ویسے چھوٹے لوگوں کی ہوتی ہے‘ ان جیسے بڑے مخدوموں کی نہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پورے جنوبی پنجاب کے باشعور حلقے روزانہ کی بنیاد پر اس لڑائی میں بڑی دلچسپی لے رہے ہیں اور رات گئے تک فون پر پوچھتے ہیں کہ آج دونوں مخدوموں یا ان کے ورکروں اور بیٹوں کے بیانات آئے ہیں؟
گیلانی کے چاروں بیٹے بڑے جذباتی ہیں جبکہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا بیٹا خاموش اور نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ گیلانی کے ایک بیٹے علی حیدر گیلانی نے مخدوم شاہ محمود قریشی کو چیلنج کردیا ہے کہ وہ جس حلقے سے الیکشن لڑیں گے‘ میں ان کے مقابلے میں لڑوں گا۔ مجھے شدید خطرہ محسوس ہورہا ہے اور آئندہ جنرل یا بلدیاتی الیکشن میں کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا کیونکہ شاہ کے وفادار دونوں طرف سے پانی کے بجائے پٹرول استعمال کررہے ہیں۔ جو کچھ ہوا اس پر دل آزردہ ہے اور آئندہ خوشگوار موسم کی دُعا ہی کی جاسکتی ہے۔
جمعتہ المبارک کے دن سینٹ کے اجلاس میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا موضوعِ خطاب کشمیر ہی تھا اور انہوں نے وزیرخارجہ کی باتوں کا جواب نہ دیا اور جب راقم نے اسی بارے رابطہ کیا تو گیلانی صاحب بولے! ایسی باتوں پر سوال وجواب میرا وصف نہیں ……
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭