تازہ تر ین

دومخدوموں کی لڑائی

سید سجاد حسین بخاری
مدینۃ الاولیاء ہر حملہ آور‘ مؤرخ‘ تاجر‘ سیاح اور دینِ اسلام کی تبلیغ کیلئے آنے والے صوفیائے کرام کو ہمیشہ اپنی آغوش میں لیتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملتان میں حملہ آور پٹھانوں اور صوفیائے کرام کی نسلیں آباد ہیں۔ یہاں آباد ہونے والوں میں دوطبقے بڑے فائدے میں رہے۔ حملہ آور پٹھانوں کی نسلیں اور صوفیائے کرام کی سادات وقریشی نسلیں‘ یہی وجہ ہے کہ قیامِ پاکستان سے قبل دو قسم کے خاندان حکمران یا حکمرانوں کے قریب رہے ہیں‘ ان میں ایک پٹھان‘ دوسرے سادات وقریشی۔ سیاست میں بھی ملتان کی پہچان گیلانی اور قریشی خاندان ہیں جو قیامِ پاکستان سے لیکر آج تک سیاست کا محور سمجھے جاتے ہیں۔ ملتان ایک وسیع وعریض حدود اربعہ پر مشتمل تھا‘ اس لئے دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں بسنے والے زمیندار گھرانے بھی ان دو خاندانوں میں تقسیم ہوگئے تھے۔
گیلانی اور قریشی خاندان‘ یہ دونوں خاندان ہمیشہ ایک دوسرے کے خلاف سیاست کرتے تھے مگر ملکی سطح کی حکومت میں کبھی گیلانی ہوتے تو کبھی قریشی مگر پورے جنوبی پنجاب کی لیڈرشپ ان دوخاندانوں کے پاس ہوتی تھی۔ ضیاء الحق کے دور میں جب بلدیاتی سیاست شروع ہوئی تو ایک تیسرا فریق سید فخر امام گروپ ضلع کونسل کی چیئرمینی کا اُمیدوار بن گیا اور اس گروپ نے گیلانی خاندان کے بزرگ سیاستدان حامد رضا گیلانی کو شکست دیکر ضلع ملتان کی چیئرمین شپ چھین لی‘ پھر گیلانی اور قریشی خاندان اکٹھا ہوگیا اور سید یوسف رضا گیلانی نے فخر امام کو ہرادیا۔ بات ضلع کونسل تک ختم نہ ہوئی‘ گیلانی خاندان ضیاء اور جونیجو حکومت کے ساتھ ہوگیا جبکہ سید فخر امام نے ضیاء الحق کے اُمیدوار برائے سپیکر قومی اسمبلی خواجہ صفدر کو ہرادیا۔
ضیاء الحق نے فخر امام کو سزا دینے کیلئے خانیوال کو ضلع کا درجہ دے دیا اور اس طرح فخر امام گروپ گیلانی اور قریشی خاندان کی جان چھوڑ گیا اور ملتان کی روایتی سیاست گیلانی اور قریشی خاندانوں کے پاس واپس آگئی۔ ضلع ملتان کی جو سات تحصیلیں تھیں‘ ان میں پانچ تو ضلع بن گئیں مگر شجاع آباد اور جلالپور پیروالا آج بھی ملتان کی تحصیلیں ہیں۔ ملتان ڈویژن اور ضلع کے سُکڑنے سے یہ دونوں خاندان بھی سُکڑ کر صرف ضلع ملتان تک محدود رہ گئے اور دونوں خاندانوں کی نمائندگی حکومتوں میں ایک‘ ایک فرد کرتا رہا۔ جن میں یوسف رضا گیلانی اور مخدوم شاہ محمود قریشی مگر شاہ محمود قریشی سیاست میں سیلف میڈ تھے اور زندگی کا پہلا ضلع کونسل کا الیکشن بھی ہار گئے تھے۔ وقت کا دھارا بدلا تو یوسف رضا گیلانی اور شاہ محمود قریشی ایک ہی جماعت میں وزیراعظم اور وزیرخارجہ بن گئے اور دونوں شیروشکر ہوگئے حالانکہ وزارتِ عظمیٰ کی دوڑ میں مخدوم امین فہیم‘ مخدوم شاہ محمود قریشی اور مخدوم یوسف رضا گیلانی شامل تو تھے مگر قرعہ یوسف رضا گیلانی کے نام نکلا۔ وزارتِ عظمیٰ سے قبل مالی طور پر مستحکم مخدوم شاہ محمود قریشی مگر سیاسی استقامت یوسف رضا گیلانی کے پاس تھی۔ آج اس کا اُلٹ ہوگیا ہے۔ ماضی میں جو کچھ بھی سیاست میں ہوتا رہا مگر اس قدر بُرا نہیں ہوا جو گزشتہ ہفتے ہوا۔ یہ صرف میری آواز نہیں بلکہ پورا خطہ ہم آواز ہے۔
فی الحال تو مخدوم شاہ محمود قریشی کو بظاہر قصوروار ٹھہرا رہے ہیں۔ جمعرات تک تو گیلانی صاحب کی جماعت کے عہدیداروں اور ان کی اولاد نے وزیر خارجہ کو خوب سنائی ہیں۔ دُکھ اس بات کا ہے کہ اتنے بڑے خاندانوں کے اتنے بڑے رہنماؤں کے یہ گفتگو ہرگز شایان شا ن نہیں۔ بقول مخدوم شاہ محمود قریشی کہ پہل گیلانی خاندان نے کی ہے مگر میڈیا پر پہل شاہ محمود قریشی کی نظر آتی ہے حالانکہ دونوں مخدوموں نے گزشتہ 40سال سے عملی سیاست میں کبھی بھی ذاتیات پر حملے نہیں کئے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ سینٹ کے فلور پر کھڑے ہوکر وزیرخارجہ نے سابق وزیراعظم کو رگڑ دیا۔ کمال چیئرمین سینٹ کا ہے کہ وعدے کے باوجود فلور سید یوسف رضا گیلانی کو نہیں دیا ورنہ جواب آں غزل ہوجاتی اور حساب چکتا ہوجاتا۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ جب دوستوں یا رشتہ داروں میں سے ایک آدمی ترقی کے زینے طے کرتے کرتے منزلِ مقصود پر پہنچ جائے تو پیچھے رہ جانے والے اس کی خامیاں بیان کرتے ہیں اور اس کے ماضی کو کریدتے ہیں اور بے جا برائیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر بیان کرتے ہیں۔ یہ عادت ویسے چھوٹے لوگوں کی ہوتی ہے‘ ان جیسے بڑے مخدوموں کی نہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پورے جنوبی پنجاب کے باشعور حلقے روزانہ کی بنیاد پر اس لڑائی میں بڑی دلچسپی لے رہے ہیں اور رات گئے تک فون پر پوچھتے ہیں کہ آج دونوں مخدوموں یا ان کے ورکروں اور بیٹوں کے بیانات آئے ہیں؟
گیلانی کے چاروں بیٹے بڑے جذباتی ہیں جبکہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا بیٹا خاموش اور نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ گیلانی کے ایک بیٹے علی حیدر گیلانی نے مخدوم شاہ محمود قریشی کو چیلنج کردیا ہے کہ وہ جس حلقے سے الیکشن لڑیں گے‘ میں ان کے مقابلے میں لڑوں گا۔ مجھے شدید خطرہ محسوس ہورہا ہے اور آئندہ جنرل یا بلدیاتی الیکشن میں کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا کیونکہ شاہ کے وفادار دونوں طرف سے پانی کے بجائے پٹرول استعمال کررہے ہیں۔ جو کچھ ہوا اس پر دل آزردہ ہے اور آئندہ خوشگوار موسم کی دُعا ہی کی جاسکتی ہے۔
جمعتہ المبارک کے دن سینٹ کے اجلاس میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا موضوعِ خطاب کشمیر ہی تھا اور انہوں نے وزیرخارجہ کی باتوں کا جواب نہ دیا اور جب راقم نے اسی بارے رابطہ کیا تو گیلانی صاحب بولے! ایسی باتوں پر سوال وجواب میرا وصف نہیں ……
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain