تازہ تر ین

کرپشن اورطاقت ورمافیاز

محمدنعیم قریشی
یہ ضروری نہیں ہے کہ ملک میں سار ی کرپشن شریفوں کے زمانے کی ہو اور ہر رپورٹ شریف خاندان کی وجہ سے ہی جنم لے اور ہر غلطی ونقصان کو اگلے پچھلوں کے کھاتے میں ڈالنا بھی عقمندی نہیں ہوتی،سوچنے سمجھنے کی بات تو یہ ہے کہ اس وقت تو حکومت امانت دار اور دیانت دار وزرااور مشیروں کے پاس ہے تو پھر پاکستان کرپشن کے میدان میں اس قدر اونچائی پر کس طرح پہنچ سکتاہے،موجودہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشل کی رپورٹ تو ہمیں یہ ہی بتاتی ہے کہ پاکستان میں حالیہ برسوں کی نسبت اس بارملکی کرپشن میں زیادہ اضافہ ہو اہے۔
پاکستان تحریک انصاف اور ان کے قائد عمران خان کی جانب سے انتخابات سے قبل احتساب کے نعرے نے خوب شہرت کمائی الیکشن سے قبل تحریک انصاف نے قوم کے سامنے یہ مؤقف پیش کیا تھا کہ پاکستان کے اقتدار پر مختلف ادوار میں فائز عہدیدارروں کی بد عنوانی نے ملکی خزانے کو شدید نقصان پہنچایاہے،اور اسی بد عنوانی، کرپشن کے خاتمے اور احتساب کا نعرہ لگا کر پاکستان تحریک انصاف ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی اور 2018ء کے انتخابات کے بعد عمران خان وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئے اور ان دنوں وہ اپنے پہلے دور اقتدار کے تین بر س سے زائد عرصہ گزار چکے ہیں وقت پر لگاکر اڑتارہاہے اور اب ان کے اقتدار کے تیسرے برس عالمی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جاری کردہ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ ہے کہ ان تین برسوں میں پاکستان میں بدعنوانی اور رشوت خوری کی سطح میں اضافہ ہوگیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 2018ء میں جب موجودہ حکومت برسر اقتدار آئی تھی تو پاکستان کا کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں 117واں نمبر تھا جو اب گر کر 140ویں نمبر پر پہنچ گیا ہے عالمی ادارے کی رپورٹ تیار کرنے کا طریقہ کار اور مقاصد بارے میں ماہرین کے درمیان بہت سارے تحفظات ہوسکتے ہیں، اس رپورٹ کے مندرجات میں بیان کردہ دعووں پر اعتراضات کے باوجود اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ کہیں نہ کہیں تحریک انصاف کی حکومت اپنے کیے گئے وعدوں پر عمل درآمد کرنے میں ضرور ناکام رہی ہے، جس کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کا ریاستی و سیاسی نظام اتنا بدعنوان ہوچکا ہے کہ جو شاید اب لاعلاج مراحل میں داخل ہوچکا ہے۔ تحریک انصاف کے بہت سے بڑوں کا یہ ماننا ہے کہ اگلی حکومت بھی تحریک انصاف کی ہی ہوگی،لیکن اس کا جواب یہ بنتاہے کہ آپکی حکومت بد عنوانی کے خاتمے اور طاقتور طبقے کے شفاف احتساب کا نعرہ لگا کر برسراقتدار آئی تھی وہ احتساب کے بارے میں فی الحال عوام کو مطمئن نہ کرسکی ہے۔ اس کے باوجودآپکو یقین ہے کہ اس با ر بھی قوم آپ ہی کو موقع فراہم کریگی جبکہ مہنگائی اور بے روزگاری کا جو عالم اس کا تو پوچھے ہی نہ تو اچھا ہوگا۔
ہم نے دیکھا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے اجراء سے ایک روز قبل ہی وزیراعظم عمران خان کے مشیر احتساب شہزاد اکبر مستعفی ہونے پر مجبور ہو ئے انہوں نے خود استعفیٰ دیا ہے یا وزیراعظم نے ان سے استعفیٰ لیا ہے اس کے بارے میں سیاسی حلقوں میں قیاس آرائیاں جاری ہیں لیکن یہ درست ہے کہ وزیراعظم کے خصوصی مشیر برائے احتساب اپنے مشن میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ بدعنوانی اور احتساب کے نعرے کا شور 90کی دہائی سے بہت پہلے کاہے اس نعرے نے ہردور میں ہی شہرت پکڑی ہے اس کے باوجود پاکستان کے سماج اور طاقت و اختیار کے ایوانوں میں اتنی ہی بدعنوانی بڑھتی رہی اور آج بھی ناجائز طریقہ سے یہ مال جمع کرنے کا جنون کسی نہ کسی طریقہ سے جاری ہے جس نے آجکل ایک خطرناک سیاسی بحران کی شکل اختیار کر لی ہے اس کرپشن زدہ مافیا نے قومی خودمختاری، آزادی و سلامتی کو خطرے میں ڈال رکھاہے،کرپشن اور بدعنوانی نے ہر سطح پر مجرموں اور مافیاوں کو طاقتور بنا دیا ہے۔
ان تین برسوں میں توانائی مافیا، شوگر مافیا، آئل مافیا، گیس مافیا، جیسے طبقات کی لوٹ مار سامنے آئی ہے لیکن اب تک کسی کو لگام ڈالنے یا عبرت کا مقام بنانے کی خبرسامنے نہ آسکی ہے،یہ بھی ہے کہ جب قانون سازی تیز اور عوام دوست ہوگی تو اس میں خامیاں بھی ہوسکتی ہیں لیکن کچھ دکھائی تو دے کچھ اچھا ہورہاہے حکومتی ترجمان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی جستجو سے نکلیں اور قوم کو بتائیں کہ ہم نے یہ اچھاکیاہے اور اس کے نتائج یہ نکلیں گے۔
دوسری جانب یہ بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم کبھی کشکول توڑ پائیں ہیں جو ہر روز آئی ایم ایف کے دروازے پر کھڑے رہتے ہیں اور آئے روز اس کی شرائط ماننے کے لیے عوام کی جیبوں کی قربانیاں دیتے رہتے ہیں۔ستر سالوں کا سفر تو ابھی تک جاری ہے شاید ہی کوئی ریاستی ادارہ یا سرکاری محکمہ ایسا ہو جہاں کرپشن کا بھوت نہ ناچ رہاہو، چاہے وہ محکمہ پولیس ہو انکم ٹیکس،کسٹم ایکسائز ہو صحت جیسے ادارے تو پہلے ہی بدنام تھے اب دیگر ریاستی اداروں سمیت محکمہ تعلیم بھی شدید بد عنوان اداروں میں شامل ہو چکے ہیں ان تمام اداروں کے اپنے اپنے طریقہ واردات اور کرپشن کے طریقے ہیں۔ جن سے اس ملک کی عواماب بخوبی واقف ہوچکی ہے کیونکہ ان تمام اداروں میں ہر شہری کو روزانہ ان تمام مشکلات اور پریشانیوں سے گزرنا پڑرہا ہے سب کچھ ویسا ہی چل رہاہے جو چوروں اور ڈاکوؤں کے ادوار میں دکھائی دیتاتھا،یہ تو وہ حقائق ہیں جن سے ملک گزشتہ ستر سالوں سے گزر رہا ہے اور گزرتا رہے گا،کیا ایسا تو نہیں ممکن کہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کی سیاست کے پیچھے قوم کو اصل ایشوز، غربت، مہنگائی سے توجہ ہٹانا پلاننگ کا حصہ ہو۔ میں سمجھتا ہو کہ اب بھی وقت ہے کہ ملک میں ایسے شفاف سسٹم کا اہتمام کیا جائے جس میں کرپشن کو حقیقی معنوں میں ختم کیاجائے نان ایشوز کو چھوڑ کر ایشوز میں ترجیحات کا ایسا تعین ہو جس سے سسٹم میں مضبوطی آئے اور جس میں ہر وزیر اور مشیر جواب دہ ہو۔
(کالم نگار مختلف امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain