گرفتاری کیلئے خفیہ سپیشل فورس قائم ،ایکشن کیلئے بیرون ملک رابطے شروع

لاہور (خصوصی رپورٹ) حکومت نے آئندہ انتخابات میں دہشت گردی کے متوقع واقعات کے پیش نظر انتہائی مطلوب 41دہشت گردوں کی گرفتاری کیلئے ایک ”خفیہ سپیشل فورس“ بنا دی جسے کروڑوں روپے سر کے انعام والے مطلوب افراد کو آئندہ چند میں گرفتار کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں دہشت گردی‘ اغوا برائے تاوان‘ قتل‘ پولیس مقابلے‘ پولیس افسران‘ وکلائ‘ بیوروکریٹس اور سیاسی شخصیات کے قتل و سنگین نوعیت کے مقدمات میں ملوث دہشت گرد اور مختلف دہشت گرد تنظیموں کے انتہائی مطلوب ملزمان پر کروڑوں روپے انعام کے اعلان کے باوجود گرفتاری عمل میں نہیں لائی جا سکی۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ان مطلوب 41ملزمان کا تعلق داعش‘ لشکر جھنگوی‘ تحریک طالبان‘ حزب المجاہدین‘ حزب الاحرار سمیت مختلف کالعدم تنظیموں سے ہے۔ ان انتہائی مطلوب دہشت گردوں میں مولوی ثناءاللہ‘ رحمت شاہ علی‘ شبیر خان‘ حافظ فیض خان‘ ذکاءاللہ مجاہد‘ فقیر حسین فوجی‘ کمانڈر سلیم بلوچی‘ سلیمان خٹک‘ کمانڈو رمضان علی جن کی گرفتاری پر کروڑوں روپے انعام مقرر ہے شامل ہیں۔ یہ ملزمان کراچی‘ سندھ‘ پنجاب اور بلوچستان میں دہشت گردی‘ قتل‘ اغوا برائے تاوان کی بڑی کارروائی‘ غیرملکیوں کے اغوا‘ بیوروکریٹس‘ افسران‘ پولیس‘ سی آئی ڈی‘ ایس ایس پی اسلم خان‘ حکیم اللہ سمیت کئی افسران و سیاسی شخصیات کو قتل کرنے‘ اغوا کرنے کے علاوہ قاتلانہ حملوں میں بھی ملوث ہیں۔ دہشت گردوں نے لاہور‘ فیصل آباد‘ سکھر‘ کوئٹہ‘ نصیرآباد‘ بلوچستان‘ سندھ ‘ کراچی و دیگر شہروں میں سرکاری عمارتوں‘ پولیس افسران کے دفاتر اور عبادت گاہوں پر بھی حملے کئے تھے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے انتہائی مطلوب دہشت گردوں و خطرناک اشتہاری ملزمان کے مکمل کوائف‘ تصاویر وغیرہ دبئی‘ شارجہ‘ بنکاک‘ جنوبی افریقہ‘ افغانستان‘ ایران‘ ترکی‘ چین‘ نیپال‘ بنگلہ دیش کی انٹرپول اور خفیہ اداروں کو بھجوا دیئے ہیں جبکہ پاکستان سے جانے والی سپیشل فورس کی رہنمائی ان ممالک کے خفیہ اداروں کی ٹیمیں بھی کریں گی۔

اسمبلیاں کب ختم ہونگی،عام انتخابات بارے الیکشن کمیشن کا تہلکہ خیز فیصلہ ،بڑا اعلان کر دیا

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئےمعروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ لندن پلان کی ”ٹرم“ پرانی ہے۔ سیاسی ماحول میں جب بھی چند لیڈران لندن جمع ہو کر بات چیت کرتے ہیں تو اسے ”لندن پلان“ کا نام دے دیا جاتا ہے۔ لندن کو ایک محفوظ مقام تصور کیا جاتا ہے۔ اس لئے لیڈران وہاں جا کر میٹنگ کرتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے لیڈران لندن میں جمع ہوئے اور انہوں نے میٹنگ کی۔ ہمارے نمائندگان وجاہت علی خان اور شمع جونیجو جو لندن میں موجود ہیں۔ ہم ان سے بات کر کے وہاں کی موجودہ صورتحال جان لیتے ہیں۔ اطلاع یہ ہے کہ مائنس نواز فارمولا فیل ہو گیا ہے۔ مریم نواز کو نرم ہاتھ رکھنے کا کہا گیا ہے اور اداروں کے ساتھ ٹکراﺅ کی پالیسی کو ختم کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ ہمارے نمائندگان مسلم لیگ (ن) کے قریبی حلقوں سے انٹرویو کر کے ”فرسٹ ہینڈ انفارمیشن“ دیں گے مسلم لیگ نے فیصلہ کیا ہے کہ شہبازشریف کو وزیراعظم اور مریم نواز کو وزیراعلیٰ پنجاب بنا دیا جائے گا۔ نواز شریف کے وطن واپسی رویے سے فیصلہ ہو گا کہ ان کی سوچ تبدیل ہوئی ہے یا نہیں اطلاع یہ ہے کہ بہت تیزی کے ساتھ ہمارے ملک کے حالات تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔ چند ماہ کے دوران وسیع پیمانے پر مقدمات کے اندراج ہوں گے صف اول، بلکہ صف دوئم کے لوگوں کے خلاف بھی کارروائی ہو گی۔ قرقی کرنا عدالت کا پہلا قدم ہوتا ہے۔ حسین اور حسن نواز کی جائیداد منجمد کر دی جاتی ہے تو پیغام یہ جائے گا کہ نوازشریف کے خلاف عدالتی گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ میاں صداقت قانونی جنگ لڑیں تو بہتر ہے۔ عدالتی ٹیم کے سامنے سرنڈر کریں۔ اور دوبارہ عوام کے پاس جائیں اور ان سے فیصلہ لیں۔ اگر عوام انہیں مینڈیٹ دیں تو وہ دوبارہ آ جائیں۔ ہم الیکشن کمیشن کا احترام کرتے ہیں۔ ہم نے عمران کو دوستانہ مشورہ دیا کہ وہ ادارے کے سامنے پیش ہوں۔ وہ پیش ہو گئے۔ اس سے ادارے کا وقار بھی قائم رہا اور انہیں بھی معافی مل گئی۔ معذرت کے ساتھ الیکشن کمیشن کے دو طرح کے بیانات سامنے آئے ہیں کہ ایک تو یہ کہ 5 جون کو اسمبلیاں تحلیل ہوں گی اور الیکشن جولائی میں ہوں گے۔ سیکرٹری صاحب کہہ رہے ہیں نئی حلقہ بندیوں سے پہلے الیکشن نہیں ہو سکتے حلقہ بندیاں ایک لمبا کام ہے۔ ادارہ واضح کرے کہ نئے الیکشن کن حلقہ بندیوں پر ہوں گے۔ ان کے فیصلے پر بہت سے لوگ تو سپریم کورٹ چلے جائیں گے۔ بالآحر حتمی حکم نامہ سپریم کورٹ سے لیا جائے گا کہ کتنے عرصہ میں الیکشن کروائے جائیں ضیاءالحق نے 3 ماہ میں الیکشن کروانے کا کہہ کر 10 سال لے لئے۔ چیف الیکشن کمشنر صاحب بہت اہل انسان ہیں۔ وہ یقینا ادارے کو مذاق نہیں بننے دیں گے۔ الیکشن آگے لے کر جانا یا کچھ عرصہ کیلئے ملتوی کرنے کا فیصلہ صرف سپریم کورٹ ہی کرے گا ہمارے سیاسی حلقے اسی طرف بحث کو بڑھاتے ہیں بالآخر کوئی نہ کوئی سپریم کورٹ کے پاس چلا جاتا ہے اور وہاں سے اس کا فیصلہ لیا جاتا ہے۔ الیکشن آگے جانے سے حکومتی پارٹی کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ چودھویں ترمیم کے ذریعے ارکان کو پابند بنایا گیا تھا کہ وہ پارٹی فیصلوں کے خلاف نہیں جا سکیں گے۔ ایسا کرنے پر پارٹی سربراہ اس رکن کو ”ڈی سیٹ“ کروا سکتا ہے اس لئے اسے الیکشن کمیشن کو لکھنا پڑے گا۔ مہذب ممالک میں ارکان اپنی پارٹی کے خلاف ووٹ دے سکتے ہیں حتیٰ کہ بھارت جیسے ملک میں بھی کانگریسی رکن اپنی پارٹی کے خلاف ووٹ دے سکتا ہے۔ ہمارے ملک میں عائشہ گلا لئی کے معاملے نے اس ترمیم کا خانہ خراب کر دیا ہے۔ اب یہ راستہ کھل گیا ہے۔ تحریک انصاف نے عائشہ کو پارٹی سے نکالنے کا فیصلہ لکھ کر الیکشن کمیشن کو بھیج دیا جسے الیکشن کمیشن نے مسترد کر دیا۔ اس کا شدید نقصان مسلم لیگ (ن) کو ہو سکتا ہے۔ 80,70 ارکان اگر علیحدہ ہو جاتے ہیں تو وہ اہل پارلیمنٹ ہی رہیں گے۔ عائشہ کے فیصلے نے سب کے لئے راہ کھول دی ہے۔ کراچی میں وہرا صاحب پارٹی تبدیل کر کے پی ایس پی میں چلے گئے۔ آج جس طرح اجلاس میں ہنگامہ آرائی ہوئی ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ وہرا کے ساتھ بھی بہت سارے ارکان کھڑے ہیں۔ اگر وہ تنہا ہوتا تو ان کے خلاف شور شرابا ہوتا۔ آج کی فضا سے ظاہر ہوا ہے کہ ایم کیو ایم میں بھی اب دو دھڑے سامنے آ چکے ہیں۔ وہرا اکیلے نہیں ہیں۔ ان کے ساتھ بھی لوگ کھڑے ہیں۔ فاروق ستار کی مضبوط اپوزیشن پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ انہوں نے زبردست ڈرامہ کیا اور بیان دے ڈالا کہ اگر کوئی پارٹی چھوڑ کر گیا تو وہ بھی استعفیٰ دے دیں گے۔ وہرا کے حامی ان کے ساتھ ڈٹ گئے ہیں ایسا لگتا ہے کہ ایک ”آہ“ اور دوسرا ”واہ“ کی اصطلاح یہاں کام کر گئی ہے۔ اگر وہرا کی علیحدگی پر دیگر ارکان ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے اور انہیں مجبور کر دیتے کہ پارٹی کو خیرباد کہہ کر باہر چلا جائیں تو فاروق ستار کے موقف کی جیت ہو جاتی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اور واضح دو دھڑے سامنے آ گئے ہیں۔ تجزیہ کار لندن شمع جونیجو نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے لندن آنے والے تمام رہنماﺅں نے نوازشریف پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ چودھری نثار لندن نہیں آئے۔ ان کی تنقید کو زیادہ اہمیت نہیں دی جا رہی ہے۔ (ن) لیگ اسٹیبلشمنٹ کی بنائی ہوئی پارٹی سمجھی جاتی ہے۔ لہٰذا زیادہ تر اس میں حکمران ہی پسند کرتے ہیں۔ ان پر اپوزیشن برداشت کرنے کی کم ہی قوت ہوتی ہے اب ان میں ایک اینٹی اسٹیبلشمنٹ گروپ سامنے آیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ لندن میٹنگ میں طے ہوا ہے کہ مریم نواز اور دیگر خواتین کو ذرا پیچھے رکھا جائے۔ اس کے بعد بات دو بھائیوں کی آ گئی ہے۔ شہباز شریف اگر وزیراعظم بھی بن جاتے ہیں تو نوازشریف پیچھے رہ کر پارٹی چلائیں گے۔ لگتا ہے۔ پارٹی کا ”رفٹ“ ابھی آگے چلے گا مریم ابھر کر آگے آ رہی ہیں۔ طلال چودھری، دانیال عزیز وغیرہ ان کے ہم خیال بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ ایسے میں مریم کو کیسے خاموش کروایا جا سکتا ہے۔ ان کا نیا میڈیا سیل ہے۔ جی ٹی روڈ پر انہو ںنے اپنے والد کو بہت سپورٹ کیا۔ یہ چاہ رہے ہیں کہ آصف زرداری سے بھی ملا جائے۔ خبر یہ ہے کہ میاں نواز شریف کی اپنی طبیعت بہت خراب ہے۔ میٹنگ میں اکثر الفاظ بھول بھی رہے تھے۔ ساتھی انہیں یاد کروا رہے تھے۔ وہ ”اسٹریس“ ہی دکھائی دے رہے تھے۔ نمائندہ لندن، وجاہت علی خان نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنماﺅں نے ایک ہی موقف اپنائے رکھا ہے کہ وہ یہاں طویل گفتگو ہوئی ہے۔ اور اس میں اہم فیصلے بھی کئے گئے ہیں۔

سابق صدر پرویز مشرف اور عشرت العباد کراچی میں کیا کرنے جا رہے ہیں ؟

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) آنیوالے دنوں میں پرویزمشرف اور عشرت العباد اہم رول اداکرینگے، آئین پاکستان پر یقین رکھنے والا اردو بولنے والوں کے سرکردہ افراد مشاورت کررہے ہیں، ذرائع کے مطابق متحدہ مختلف دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے ، متحدہ لندن کا کردار آہستہ آہستہ ختم ہوتا جارہاہے، اردو سپیکنگ کمیونٹی کا پڑھا لکھا طبقہ سرجوڑے بیٹھا ہے اور مشاورت کی جارہی ہے کہ کس طرح کمیونٹی کو متحد رکھا جائے اور اس کیلئے کوئی نیا فورم تلاش کیا جائے، سابق صدر مشرف اس وقت سابق گورنر عشرت العباد کے ساتھ رابطہ میں ہیں، آنیوالے دنوں میں یہ دونوں اردو سپیکنگ کمیونٹی کو متحد کرنے میں اہم کردار اداکرسکتے ہیں۔

امریکا اپنی ناکامیاں چھپانے کے لیے پاکستان کو قصوروار قرار دیتا ہے، وزیر خارجہ

امریکی وزیر خارجہ کے دورہ جنوبی ایشیا پر وزیر خارجہ خواجہ آصف نے سینیٹ میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اورنیشنل سیکیورٹی کے ادارے پالیسی فریم کریں،الیکشن کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی کچھ اور تھی اور الیکشن کے بعد کچھ اور تاہم امریکا اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے پاکستان کو قصوروار قرار دیتا ہے۔خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ خارجہ پالیسی کا اختیار کسی ایک ادارے کے پاس نہیں، اس کے خدو خال پارلیمنٹ اور قومی سیکیورٹی کمیٹی میں مشاورت سے بن رہے ہیں، پارلیمنٹ کی دی ہوئی گائیڈ لائن کے مطابق ہی خارجہ پالیسی بنائیں گے. پاکستان اپنے مفادات کا بھرپور تحفظ کرتا ہے اور امریکا سے تعلقات میں بھی مفادات کا تحفظ کریں گے، امریکا آج یہاں ہے تو کل نہیں لہذا اس کے لیے ہم نے علاقائی حل ڈھونڈنے کی کوشش کی اور خطے کے ممالک علاقائی حل تلاش کرکے امن کو یقینی بنائیں۔

جھوٹ، الزام تراشی کی سیاست کرنیوالوں کی پروا کیے بغر آگے بڑھتے رہیں گے، شہباز شریف

لاہور (اپنے سٹاف رپورٹر سے) وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لئے پرعزم ہیں اور وطن عزیز کو آگے لے جانے کے لئے تندہی سے کام کر رہے ہیں۔ جھوٹ اور بے بنیاد الزام تراشی کی سیاست کرنے والوں کی پرواہ کئے بغیر آگے بڑھتے رہیں گے۔ عوام کو خالی نعروں، کھوکھلے دعووں اور منفی سیاست سے کوئی سروکار نہیں۔ منفی سیاست اور قوم کا وقت برباد کرنے والوں کو پشیمانی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ عوام صرف ملک کی ترقی اور اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ وہ آج لندن میں مسلم لیگ (ن) کے وفد سے گفتگو کر رہے تھے۔ وزیراعلیٰ محمد شہبازشریف نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے عوام کی خدمت عبادت سمجھ کر کی ہے اور آج پاکستان پر امن اور ماضی کے مقابلے میں زیادہ روشن ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لئے دعوے نہیں بلکہ عملی اقدامات کئے ہیں اور لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کرکے ملک کو اندھیروں سے نکالا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے مےں ہر سطح پر مےرٹ کو فروغ دےا گےا ہے اور پنجاب حکومت کے تمام تعلےمی و دےگر پروگرامزمےرٹ پالےسی کے عکاس ہیں۔ کرپشن، سفارش اوراقرباءپروری کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی پر عمل پیرا ہیںاور منصوبوں میں شفافےت کی حکومتی پالےسےوں کا عالمی ادارے بھی اعتراف کررہے ہےں۔وزےراعلیٰ نے کہا کہ متوازن ترقےاتی حکمت عملی کے تحت تمام علاقوں مےں ترقےاتی منصوبے مکمل کےے جارہے ہےں اور پسماندہ وکم ترقی ےافتہ علاقوں مےں اربوں روپے کے منصوبے ترجےحی بنےادوں پر مکمل کئے گئے ہےں۔ تمام ترقےاتی منصوبے شفافےت میں اپنی مثال آپ ہےں۔ پاکستان مسلم لےگ(ن) کی حکومت نے گزشتہ سوا چار برس کے دوران عوام کی بے لوث خدمت کی ہے اور پاکستان کو مسائل کے گرداب سے نکال کرترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کی مخلصانہ کاوشےں رنگ لارہی ہےں۔انہوںنے کہاکہ ملک مےں جب پاکستان مسلم لےگ(ن) کی حکومت آتی ہے تو ترقی اورخوشحالی لاتی ہے ۔ 2018ءکے عام انتخابات مےں اےک بار پھر خدمت کی سےاست کی جےت ہوگی۔ دھرنا گروپ کی جھوٹ ،منافقت ،انتشاراورالزام تراشی کی سےاست دفن ہو جائے گی۔ انہوںنے کہاکہ اپنے دورحکومت مےںکرپشن کے قبرستان بنانے والوں کابھی عوام محاسبہ کرے گی۔ دوسروں پر بے بنیاد الزامات لگانے والوں کا اپنا کردار سوالےہ نشان ہے ۔ پاکستان ترقی کے لحاظ سے بدل رہا ہے جبکہ سےاسی بصےرت سے عاری انتشار پھیلانے والے سےاستدانوں کی سوچ آج بھی نہےں بدلی۔انہوں نے کہا کہ ترقیاتی منصوبوں کی شفافیت اور اعلیٰ معیارکے ساتھ تکمیل کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی سے بڑھ کر کوئی ترجیح نہیں ہوسکتی۔ ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لئے آخری سانس بھی وقف ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف نے مسلم لیگ (ن) کے رکن پنجاب اسمبلی چوہدری لیاقت علی خان کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے اپنے تعزیتی پیغام میں چوہدری لیاقت علی خان کی سیاسی و سماجی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم ایک منجھے ہوئے پارلیمنٹیرین اور پارٹی کے دیرینہ ساتھی تھے۔ چوہدری لیاقت علی خان نے پارٹی کے لئے گرانقدر خدمات سرانجام دیں اور ہمیشہ عوام کی دل و جان سے خدمت کی۔ انہوں نے کہا کہ مرحوم کی سیاسی و سماجی خدمات کو تادیر یاد رکھا جائے گا۔ وزیراعلیٰ نے سوگوار خاندان سے دلی ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی روح کو جوار رحمت میں جگہ دے اور سوگوار خاندان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ چوہدری لیاقت علی خان مسلم لیگ (ن) کی رکن قومی اسمبلی عفت لیاقت کے شوہر تھے۔وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف نے شیخوپورہ کے علاقے فیروز وٹواں میں عمارت گرنے سے قیمتی انسانی جانو ںکے ضیاع پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے جاں بحق افراد کے لواحقین سے دلی ہمدردی اور تعزیت کیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے ہدایت کی ہے کہ واقعہ میں زخمی ہونے والے افراد کو علاج معالجے کی بہترین سہولتیں فراہم کی جائیں۔ وزیراعلیٰ نے حادثے کے بارے میں انتظامیہ سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔

 

نیب کا خوف یا کچھ اور ۔۔۔سندھ اسمبلی میں مذمتی قرار داد منظور

کراچی: سندھ اسمبلی نے قومی احتساب بیورو (ویب ڈیسک) کے خلاف مذمتی قرار داد کثرت رائے سے منظور کرلی ہے۔
سندھ اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے رکنِ اسمبلی خورشید جونیجو نے نیب کے خلاف قرارداد پیش کی جس میں سابق صوبائی وزیر شرجیل میمن کی گرفتاری پر نیب کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ایم کیو ایم، مسلم لیگ فنکشنل اور تحریک انصاف نے قرارداد کی مخالفت کی۔قرارداد میں نیب پر دہرا معیار اختیار کرنے کا الزام لگاتے ہوئے حکومت سندھ سے مطالبہ کیا گیا کہ معاملے پر وفاقی حکومت سے بات کرے تاکہ ا?ئندہ کسی شہری کے ساتھ ایسا سلوک نہ ہو۔ قرارداد پیش کرتے ہوئے خورشید جونیجو نے کہا کہ نیب نے ایک معزز رکنِ سندھ اسمبلی کی ہتک کی اور سادہ لباس اہلکاروں نے عدالت کے احاطے سے انہیں گرفتار کیا، جو عدلیہ کے تقدس کی بھی توہین ہے۔خورشید جونیجو نے کہا کہ شرجیل انعام میمن بیرونِ ملک سے مقدمات کا سامنا کرنے وطن واپس آئے لیکن نیب اہلکاروں نے سیاسی ہیجان پیدا کرنے کی کوشش کی، سندھ حکومت وفاق سے رجوع کرکے واقعے پر کارروائی کا مطالبہ کرے تاکہ آئندہ کسی شہری کے ساتھ ایسا نہ ہو۔ پی پی پی رہنما نے کہا کہ ہماری قیادت کے خلاف جھوٹے مقدمات بنائے گئے لیکن ہم نے ہمیشہ کیسز کا سامنا کیا، ہمارے ارکان اسمبلی اور وزرا کو بلا وجہ تنگ کیا جارہا ہے اور اب معاملہ برداشت سے باہر ہوتا جارہا ہے۔پی ٹی ا?ئی کے رکن اسمبلی خرم شیر زمان نے کہا کہ ہم نیب کے خلاف قرارداد کی بھرپور مذمت کرتے ہیں، شرجیل میمن اور ان کے ساتھی قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر کہہ دیں کہ انہوں نے کرپشن نہیں کی، یہ لوگ عدالتوں میں جائیں اور اپنی صفائی پیش کریں، کرپٹ لوگوں کیخلاف نیب کی کارروائی کو ناانصافی کہا جارہا ہے۔خرم شیر زمان کے اس بیان پر پیپلز پارٹی کے ارکان شدید غصے میں ا?گئے۔ وزیر برائے ورکس اینڈ سروسز امداد پتافی نے کہا کہ خرم شیر زمان کا سسر وزیراعلی ہاو¿س سے ٹھیکے لیتا رہا ہے، پہلے سی ایم ہاو¿س سے کیٹرنگ کے ٹھیکے لینے والے قرآن اٹھائیں اور کلمہ پڑھ کر جواب دیں کہ کیا وہ ٹھیکے نہیں لیتے، جبکہ عمران خان کے والد بھی کرپشن کے الزام میں نوکری سے برطرف ہوئے تھے۔وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ نیب عدالت نہیں ایک ادارہ ہے، قرارداد کسی عدالتی فیصلے کے خلاف نہیں بلکہ اس میں یہ کہا گیا ہے کہ نیب کا دہرا معیارہے، ہمارے لیے عدالتیں مقدس ہیں اور ہم ان کے سامنے پیش ہوئے ہیں۔

اعلیٰ عدلیہ اور فوج کو احتساب کے دائرے میں لانے بارے اہم خبر

پاکستان کی پارلیمان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں نے اعلٰی عدلیہ اور فوج کو احتساب کے دائرے میں لانے سے متعلق شق کو مجوزہ قومی احتساب کمیشن کے قیام کے لیے زیرِ غور مسودۂ قانون سے نکالنے پر اتفاق کیا ہے۔پارلیمنٹ ہاؤس میں بدھ کے روز کمیٹی کے اجلاس کے بعد وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ ججوں اور جرنیلوں کو احتساب کے دائرے میں لانے سے متعلق شق کو پاکستان پیپلز پارٹی نے واپس لے لیا ہے۔وفاقی وزیر قانون کی زیر صدارت ہونے والے اس اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف کی رکن شیریں مزاری نے حکومتی ارکان کے رویے اور اپنا موقف پیش کرنے کے لیے مناسب وقت فراہم نہ کیے جانے پر احتجاجاً واک آوٹ کیا۔یاد رہے کہ پاکستان میں کرپش کی روک تھام کے لیے موجود قومی احتساب بیورو کی جگہ قومی احتساب کمیشن قائم کرنے کے لیے مسودۂ قانون پارلیمان میں کمیٹی کی سطح پر زیرِ غور ہے۔حزب اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے مجوزہ قومی احتساب کمیشن کے دائرۂ اختیار کو ججوں اور جرنیلوں تک وسیع کرنے کے لیے زیر غور مسودۂ قانون میں شامل کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ حزب مخالف کی دیگر جماعتوں، پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے بھی اعلی عدلیہ اور فوج کو احتساب کے دائرہ کار میں لانے کی مخالفت کی ہے۔وفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ مجوزہ احتساب کے قانون کے دائرہ کار میں عدلیہ اور مسلح افواج کو نہیں لایا جائے گا اور تمام جماعتوں نے اس نکتہ پر اتفاق کر لیا ہے۔اُنھوں نے کہا کہ نئے احتساب کمیشن کے قیام کے بعد نیب میں تمام زیرِالتوا انکوائریاں اور مقدمات دیگر عدالتوں میں منتقل کر دیے جائیں گے۔زاہد حامد کا کہنا تھا کہ کرپشن کے مقدمات احتساب کمیشن یا نئی عدالتوں کو منتقل ہونے کے باوجود ختم نہیں ہوں گے اور نہ ہی شروع کی جانے والی انکوائریاں ختم کی جائیں گی۔اُنھوں نے کہا کہ سنہ 1999 میں بنایا جانے والا نیب کا قانون کافی سخت تھا۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ احتساب کا ایسا قانون بنانا چاہتے ہیں جس میں انصاف بھی ہو اور احتساب بھی۔اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے نیب کو ہی برقرار رکھنے اور اس کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانے پر اتفاق کیا ہے۔پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر شریں مزاری کا کہنا تھا کہ وہ ججوں اور جرنیلوں کو احتساب کے دائرہ کار میں لانے کی تجویز سے اتفاق نہیں کرتیں۔اُنھوں نے کہا کہ احتساب کمیشن کے سربراہ کے تقرر میں اپوزیشن اور وزیر اعظم میں مک مکا نہیں ہونا چاہئیے۔تحریک انصاف کی رکن کا کہنا تھا کہ حکومت قومی احتساب کمیشن کے بل میں پاکستان تحریک انصاف کی تجاویز کو شامل کرنے کو تیار نہیں ہے۔اُنھوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف احتساب کمیشن کے لیے اپنی ترامیم پارلیمنٹ میں لائے گی۔