اھم اسلامی ملک کا انوکھا کارنامہ ،لڑکی کی شادی کیلئے عمر 9سال مقرر کر دی

دبئی (خصوصی رپورٹ) عراقی پارلیمنٹ میں ذاتی
احوال کے قانون سے متعلق دو ہفتے قبل پیش کیا جانے والا ترمیمی بل ابھی تک مختلف حلقوں کی جانب سے وسیع پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جس میں لڑکی کی شادی کی عمر کم از کم 9برس رکھی گئی ہے۔

تربت میں پھر دہشگردی

تربت (مانیٹرنگ ڈسک) بلوچستان کے علاقے تربت میں دوبارہ دہشت گردی‘ مزید پانچ افراد کی لاشیں برآمد۔ تفصیلات کے مطابق چند روز قبل تربت میں 15 افراد کے قتل کا دکھ ابھی کم نہیں ہوا تھا کہ آج پانچ مزید لاشیں ملی ہیں۔ یہ واقعہ یہ تربیت کے علاقے تجابان میں پیش آیا۔ قتل ہونے والے 3 افراد کا تعلق گجرات سے بتایا جاتا ہے۔ قتل ہونے والوں میں دانش‘ بدرمنیر اور عثمان قادر شامل ہیں جبکہ دو کی شناخت نہ ہوسکی۔

تحریک لبیک ےارسول اللہ کے دھرنے کو فنڈنگ بارے بی بی سی کا اہم انکشاف

لاہور (بی بی سی) مذہبی جماعت تحریک لبیک یا رسول اللہ کے بانی خادم حسین رضوی کے بارے میں چند برس پہلے تک کچھ زیادہ معلوم نہیں تھا۔کہا جاتا ہے کہ وہ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کی سزائے موت سے قبل لاہور کی ایک مسجد میں جمعے کے خطبے دیا کرتے تھے۔بریلوی سوچ کے حامل خادم حسین رضوی کو ممتاز قادری کے حق میں کھل کر بولنے کی وجہ سے پنجاب کے محکمہ اوقاف سے فارغ کر دیا گیا تھا جس کے بعد انہوں نے تحریک کی بنیاد رکھی اور این اے 120 لاہور کے ضمنی انتخاب میں سات ہزار ووٹ حاصل کرکے سب کو حیرت میں ڈال دیا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ممتاز قادری کو پھانسی دیئے جانے کے بعد سے بریلوی طبقے کے قدامت پسندوں نے زیادہ متحرک سیاسی کردار اپنایا ہے لیکن پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد میں اضافہ اور بریلوی دیوبندی اختلاف سال 2012 کے بعد سے دیکھا جا رہا ہے۔ خادم حسین رضوی کو سنی تحریک کی بھی اس احتجاج میں حمایت حاصل ہے۔ویل چیئر تک محدود ہونے کے باوجود خادم حسین رضوی پاکستان میں متنازع توہین رسالت کے قانون کے ایک بڑے حامی بن کر سامنے آئے ہیں۔ان کا انداز بیان کافی سخت ہوتا ہے۔ پاکستانی میڈیا کی جانب سے کوریج نہ ملنے کا حل بظاہر انہوں نے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کر کے نکالا ہے۔ دھرنے میں بھی وہ اپنے آپ کو پیغمبر اسلام کا چوکیدار کہہ کر بلاتے ہیں۔خادم حسین رضوی کے لیے پولیس سے جھڑپ اور گرفتاری کوئی نئی بات نہیں۔جنوری 2016 میں بھی توہین مذہب کے قانون کے حق میں انہوں نے لاہور میں ایک ریلی نکالی تھی جس پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا تھا۔انہیں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا تھا۔ انہیں آج بھی پنجاب حکومت نے فورتھ شیڈول میں رکھا ہوا ہے جس کا مطلب ہے کہ انہیں اپنی نقل و حرکت کے بارے میں پولیس کا آگاہ رکھنا ہوتا ہے۔خادم حسین رضوی کو اپنی سرگرمیوں کے لیے وسائل کہاں سے ملتے ہیں یہ واضح نہیں لیکن اسلام آباد دھرنے کے دوران انہوں نے اعلان کیا کہ نامعلوم افراد لاکھوں روپے ان کو دے کر جا رہے ہیں۔ان سے متعلق انٹرنیٹ پر ایک مضمون کے اختتام پر آسٹریلیا سے ایک شخص ان کا پتہ اور بنک اکاو¿نٹ مانگ رہا ہے تاکہ انہیں رقم بھیج سکے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اندرون و بیرون ملک دونوں جانب سے انہیں فنڈز ملتے ہیں۔

بھارت نے بلوچستان میں بدنامی کیلئے خزانے کے منہ کھول دیئے قائمہ کمیٹی انکشافات نے سب کو ششدر کر دیا

اسلام آباد( خصوصی رپورٹ)سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے بلوچستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے خلاف چیئرمین کمیٹی سینیٹر عبدالرحمن ملک کی پیش کردہ مذمتی قرارداد منظور کرلی گئی۔ کمیٹی نے ڈی آئی جی کوئٹہ حامد شکیل، ایس پی اور ان کے اہل خانہ کی شہادت پر اظہار افسوس کرتے ہوئے واقعات کے علاوہ ترتب میں 15شہریوں کے قتل کی بھی مذمت کی۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر عبدالرحمن ملک نے کہاکہ حکومت بھارتی مداخلت کے معاملات کو اقوام متحدہ میں اٹھائے اور دنیا کے سامنے بھارت کا مکروہ چہرہ سامنے لایا جائے۔ بھارت نے پاک چین اقتصادی راہداری کو سبوتاڑکرنے اور بلوچستان میں بد امنی کے لیے 50کروڑ امریکی ڈالر مختص کیے ہیں۔ سینیٹر سردار فتح محمد محمد حسنی نے کہا کہ بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے بلوچستان میں بدامنی پھیلانے میں بھارت ملوث ہے۔ سینیٹر کرنل (ر)طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ بھارتی گہری سازش اور منصوبہ بندی کوبے نقاب کرنا چاہیے۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر عبدالرحمن ملک نے چیئرمین جوائنٹ اسٹاف کمیٹی جنرل زیبر حیات کے بیان کو بھی قرارداد کا حصہ بنادیا سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ بلوچستان کے ہزاروں لوگ ملک سے باہر ہیں جو ظلم اور استحصال کے خلاف ہیں۔ بنیادی معاملات کی جڑ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے وفاق کی طرف سے رکھے گئے فنڈز اور محکمہ جات کی کارکردگی کے بارے میں آئندہ اجلاس میں وزارت خزانہ، داخلہ اور متعلقہ اداروں کو طلب کرلیا۔ سینیٹر سراج الحق کی طرف سے فحش مواد پر سزا بڑھانے اور اسے سی آر پی سی کا حصہ بنانے کے بل پر وزارت قانون اور داخلہ نے رضامندی کا اظہار کیا۔ اب بل پیر کو ایوان بالا میں پیش کیا جائے گا۔ فیض آباد دھرنا پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ مستقبل میں کسی کو اسلام آباد کی شاہراو¿ں پر احتجاج کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ دھرنا دینے والوں ، احتجاج کرنے والوں کو کسی ایک جگہ تک محدود کیاجائے۔ درالخلافہ کو مفلوج کرنا پورے ملک کو مفلوج کرنے کے مترادف ہے۔احتجاج کیلئے ہائیکورٹ اسلام آباد نے جس جگہ کی اجازت دی ہے اس سی جگہ پر احتجاج ہونا چاہیے۔ اسلام آباد انتظامیہ اگر سخت انتظامات کر لیتی تو عوام کی تکالیف میں کمی ہو سکتی تھی اسلام آباد انتظامیہ کو معلومات ملنے کے باوجود دھرنے سے پہلے سخت اقدامات اٹھانے چاہیے تھے۔طاقت کے استعمال کی بجائے گفت و شنید کے ذریعے احتجاج ختم ہونا چاہیے۔خاص جگہ پر احتجاج کیلئے بل لانے کیلئے تیار ہیں۔ ختم بنوت سے کسی کو اختلاف نہیں پارلیمنٹ نے اپوزیشن اور حکومت سے بالاتر ہوکر مکمل اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے۔ انتظامیہ کی نا اہلی ہے کہ جڑواں شہروں کو یرغمال بنا لیا گیا ہے۔ ہائیکورٹ کے بھی احکامات آگئے ہیں انتظامیہ قانون کا مکمل استعمال کرتے ہوئے احتجاج ختم کروائے۔وزیر مملکت داخلہ طلال چوہدری نے کہا کہ پنجاب حکومت نے لاہور سے روانہ ہونے سے پہلے احتجاج کرنے والے رہنماو¿ں سے مذاکرات کیے تھے رہنماو¿ں نے وعدہ کیا تھا کہ ہم اسلام آباد داخل نہیں ہونگے مگر وعدہ خلافی کی گئی یہاں پہنچ کر سٹرکیں بند کر دی گئیں خون خرابہ نہیں چاہتے۔حکومت نے راجہ محمد ظفرالحق اور وزرائ پر مشتمل الگ الگ کمیٹیاں بھی قائم کیں ہیں لیکن دھرنا دینے والے ہٹ دھرمی پر قائم ہیں۔چیف کمشنر اسلام آباد نے بتایا کہ دھرنے دینے والوں میں کچھ افراد کے پاس اسلحہ موجود ہے۔پنجاب حکومت کو اسلام آباد داخلے سے پہلے احتجاج کرنے والوں کو روکنا چاہیے تھا۔تعداد تین سے چھ ہزار تک ہے۔ پنجاب بھر اور راولپنڈی اسلام آباد کے گدی نشینوں سے بھی بات چیت ہوئی ہے۔ آج شام مختلف رہنماو¿ں ، انتظامیہ اور وزارت کا اجلاس منعقد ہوگا ا±مید ہے کہ فیض آباد جلد خالی کروالیا جائے گا۔ سینیٹر طاہر مشہدی نے کہا کہ ختم بنوت مسئلہ پر کوئی اختلاف نہیں دھرنے والوں نے پوری قوم کی زندگی مفلوج کر دی ہے۔ سینیٹر صالح شاہ نے کہا کہ ایک مخصوص طبقہ احتجاج کر رہا ہے اور گالی گلوچ کا انداز اختیار کیا گیاہے۔ چیئرمین کمیٹی نے ہدایت دی کہ گالی گلوچ دینے والوں کے خلاف قانون کے مطابق مقدمات درج کیے جائیں۔ آئی جی اسلام آباد نے بتایا کہ 15 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ وزیر مملکت طلال چوہدری نے بتایا کہ پنجاب بھر سے تقریباً 4 سو افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔دھرنا دینے والوں میں کراچی ، آزاد کشمیر اور خیبر پختونخواہ کے شہری بھی شامل ہیں۔ دی نیوز کے صحافی احمد نورانی پر نامعلوم افراد کے حملے کے بارے میں آئی جی نے بتایا کہ ہر پہلو سے تفتیش تیزی سے جاری ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے ہدایت دی کہ دو ہفتوں میں رپورٹ دی جائے۔ سینیٹر سردارفتح حسنی نے کہا کہ صحافی تیسری بڑی قوت ہیں ،30 اکتوبر کو احمد نورانی پر نادیدہ افراد نے حملہ کیا ملزمان ابھی تک تلاش نہیں کیے جا سکے جو خطرناک اور تشویشناک ہے۔ خود کار اسلحہ لائسنسوں کی معطلی کے حوالے سے سینیٹر فتح محمد محمد حسنی نے کہا کہ اسلحہ لائسنس خود اپنی حفاظت کیلئے حاصل کیا جاتا ہے۔ وزیر مملکت طلال چوہدری نے بتایا کہ خود کار اسلحہ لائسنس صرف پاکستان میں دیے جاتے ہیں سارے منسوخ نہیں کیے گئے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ممبران پارلیمنٹ کی سفارش پر شہریوں کو لائسنس دیئے گئے ہیں۔دیئے گئے اسلحہ لائسنسوں کی درجہ بندی کر کے کمیٹی کو تفصیلات سے آگاہ کیا جائے۔ سینیٹر روبینہ عرفان کے گھر میں ڈکیتی کے معاملے پر بلوچستان پولیس سے مکمل تفصیلات طلب کر لی گئیں۔کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز طاہر حسین مشہدی ، سردارفتح محمد محمد حسنی ، صالح شاہ ،سراج الحق کے علاوہ وزیر مملکت داخلہ طلال چوہدری ، سیکرٹری وزارت ،آئی جی اسلام آباد ، چیف کمشنر اسلام آباد، ڈی آئی جی بلوچستان ، وزارت قانون کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

چیئر مین این ایچ اے کی ہائیکورٹ میں حا لت پتلی ، دیکھنے والے محظوظ ہو تے رہے

لاہور(رازش لیاقت پوری سے)این ایچ اے کی ایک اور بڑی نا اہلی سامنے آگئی،نیشنل ہائی وے سیکشن 4.5کوٹ سبزل تا بہاولپورسڑک کے توسیعی منصوبے کے 70فیصد متاثرین کو15 سال گزرنے کے باوجود ان کی زمینوں کا معاوضہ نہیں دیا،کچھ متاثرین اگلے جہان چلے گئے تو کچھ ابھی تک ریونیوڈیپارٹمنٹ اور این ایچ اے دفاتر رحیم یار خان ، بہاولپور اورملتان میں جوتیاں چٹخانے پر مجبورہیں،لینڈ ایکوزیشن کلرک اور ریونیوڈیپارٹمنت ابھی تک اسسمنٹ لگانے تک محدودہے ، تفصیل کے مطابق میاںمحمد نواز شریفنے اپنے دور اقتدار میں کراچی تا ملتان کے ایل پی روڈ کے توسیعی منصوبے کا اعلان کیا تھا،اس سڑک کو دورویہ بنانے کا منصوبہ بنا،یہ منصوبہ2001 سے شروع ہوااور2004 میںمکمل ہوااس توسیعی منصوبے کے لیے مقامی لوگوں کی زمینیں بھیحاصل کی گئیں، سندھ میں تو متاثرین کو ادائیگی ہوگئی مگر کوٹ سبزل سے بہاولپور تک تقریبا250کلومیٹر کے 70فیصد متاثرین کو ابھی تک ادائیگیاں نہیں ہوئیں،مثاترین کی بڑی تعداد ضلع بہاولپور اور ضلع رحیم یار خان کے علاوہ این ایچ اے دفاتر ملتان ،بہاوپور اور رحیم یار خان میں بھی رلتی رہی، اہلکاروں سے معاملات طے ہونے کے باعث کچھ لوگوں کو تومعاوضہمل گیا مگر زیادہ متاثرین ابھی تک محروم ہیں،اس حوالے سے نیشنل ہائی وے متاثرین کمیٹی کے چئیرمین ویونین ناظم کچی محمد خان اور ملک خالد محمود نائچ نے خبریں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ این ایچ اے کے خلاف ترنڈہ محمد پناہ کی ثوبیہ اسلم نے ہائیکورٹ کے بہاولپوربنچ میں جسٹس امیرحسین بھٹی کی عدالت میں ایک کیس بھی دائر کیا تھا کہ اسے این ایچ اے سے معاوضہ دلوایا جائے جس پر معزز جج صاحب نے نوٹس لے کر چیئرمین این ایچ اے اشرف تارڑ کی سرزنش کی تھی اور اسے معاوضہ دلوایا تھاانہوں نے کہا کہ اب سارے لوگ تو عدالت میں نہیںجاسکتے ، ہم این ایچ اے اور محکمہ ریونیوکے درمیان شٹل کاک بنے ہوئے ہیں،ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہم ابھی تک اسسمنٹ کر رہے ہیں،انہوں نے ”خبریں “کو بتایاکہ این ایچ اے دیکھنے میں جتنا بڑا ادارہ ہے اس میں اتنے ہی کرپٹ لوگ بیٹھے ہیں یہ تو پندرہ سال پرانا معاوضہ نہیں دے رہے یہ سی پیک کے متاثرین کو کیسے اکاموڈیت کریں گے،میری جناب ضیاشاہد سے اپیل ہے کہ پورے ملک میں این ایچ اے متاثرین کی داد رسی کروائی جائے کیونکہ پورے ملک میں این ایچ اے کام کررہا ہے مگر اس ادارے میں موجود کرپٹ عناصر لوگوں کو ان کے جائز معاوضے بھی نہیں دیتے ،انہوں نے این ایچ اے سربراہ اشرف تارڑ کی بے حسی اور وزیر مواصلات مولوی عبدالکریم کی سستی پر بھی تنقید کی۔

سڑک کے متاثرین رل گئے، چیئرمین این ایچ اے کی ہائیکورٹ میں سرزنش

لاہور(رازش لیاقت پوری سے)این ایچ اے کی ایک اور بڑی نا اہلی سامنے آگئی،نیشنل ہائی وے سیکشن 4.5کوٹ سبزل تا بہاولپورسڑک کے توسیعی منصوبے کے 70فیصد متاثرین کو15 سال گزرنے کے باوجود ان کی زمینوں کا معاوضہ نہیں دیا،کچھ متاثرین اگلے جہان چلے گئے تو کچھ ابھی تک ریونیوڈیپارٹمنٹ اور این ایچ اے دفاتر رحیم یار خان ، بہاولپور اورملتان میں جوتیاں چٹخانے پر مجبورہیں،لینڈ ایکوزیشن کلرک اور ریونیوڈیپارٹمنت ابھی تک اسسمنٹ لگانے تک محدودہے ، تفصیل کے مطابق میاںمحمد نواز شریف نے اپنے دور اقتدار میں کراچی تا ملتان کے ایل پی روڈ کے توسیعی منصوبے کا اعلان کیا تھا،اس سڑک کو دورویہ بنانے کا منصوبہ بنا،یہ منصوبہ2001 سے شروع ہوااور2004 میںمکمل ہوااس توسیعی منصوبے کے لیے مقامی لوگوں کی زمینیں بھیحاصل کی گئیں، سندھ میں تو متاثرین کو ادائیگی ہوگئی مگر کوٹ سبزل سے بہاولپور تک تقریبا250کلومیٹر کے 70فیصد متاثرین کو ابھی تک ادائیگیاں نہیں ہوئیں،مثاترین کی بڑی تعداد ضلع بہاولپور اور ضلع رحیم یار خان کے علاوہ این ایچ اے دفاتر ملتان ،بہاوپور اور رحیم یار خان میں بھی رلتی رہی، اہلکاروں سے معاملات طے ہونے کے باعث کچھ لوگوں کو تومعاوضہمل گیا مگر زیادہ متاثرین ابھی تک محروم ہیں،اس حوالے سے نیشنل ہائی وے متاثرین کمیٹی کے چئیرمین ویونین ناظم کچی محمد خان اور ملک خالد محمود نائچ نے خبریں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ این ایچ اے کے خلاف ترنڈہ محمد پناہ کی ثوبیہ اسلم نے ہائیکورٹ کے بہاولپوربنچ میں جسٹس امیرحسین بھٹی کی عدالت میں ایک کیس بھی دائر کیا تھا کہ اسے این ایچ اے سے معاوضہ دلوایا جائے جس پر معزز جج صاحب نے نوٹس لے کر چیئرمین این ایچ اے اشرف تارڑ کی سرزنش کی تھی اور اسے معاوضہ دلوایا تھاانہوں نے کہا کہ اب سارے لوگ تو عدالت میں نہیںجاسکتے ، ہم این ایچ اے اور محکمہ ریونیوکے درمیان شٹل کاک بنے ہوئے ہیں،ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہم ابھی تک اسسمنٹ کر رہے ہیں،انہوں نے ”خبریں “کو بتایاکہ این ایچ اے دیکھنے میں جتنا بڑا ادارہ ہے اس میں اتنے ہی کرپٹ لوگ بیٹھے ہیں یہ تو پندرہ سال پرانا معاوضہ نہیں دے رہے یہ سی پیک کے متاثرین کو کیسے اکاموڈیت کریں گے،میری جناب ضیاشاہد سے اپیل ہے کہ پورے ملک میں این ایچ اے متاثرین کی داد رسی کروائی جائے کیونکہ پورے ملک میں این ایچ اے کام کررہا ہے مگر اس ادارے میں موجود کرپٹ عناصر لوگوں کو ان کے جائز معاوضے بھی نہیں دیتے ،انہوں نے این ایچ اے سربراہ اشرف تارڑ کی بے حسی اور وزیر مواصلات مولوی عبدالکریم کی سستی پر بھی تنقید کی۔

خبریں میں خبروں کی اشاعت پر نیب نے نیشنل ہائی وے کیخلاف تحقیقات کا حکم دیا

ملتان (نمائندہ خصوصی) نیب نے ”خبریں“میں خبروں کی اشاعت پر نیشنل ہائی وے اتھارٹی کےخلاف تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔اس ضمن میں ایک درخواست نیب ملتان اور دوسری درخواست نیب اسلام آباد کو دے دی گئی۔ان درخواستوں میں مو¿قف اختیار کیا گیاہے کہ روزانہ کی بنیاد پر ایک ٹول پلازہ سے تقریباً 16لاکھ روپے ان ٹال پلازوں کے قریبی مقامی بینکوں میں بے نامی اکاﺅنٹ میں پیسے جمع کروائے جاتے ہیں جس کا نیشنل ہائی وے کے پاس کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ان کے خلاف انکوائری کرکے قانون کے مطابق کارروائی کی جائے اور ذمہ دار افراد کا تعین کرکے ملک و قوم سے لوٹی ہوئی رقم برآمد کرکے قرار واقعی سزادی جائے۔نیب نے درخواست موصول ہوتے ہی نیشنل ہائی وے اتھارٹیز کےخلاف تحقیقات کا آغاز کردیاہے۔

این ایچ اے میں چینل ۵ کی ٹیم کو یرغمال بنانے کی کوشش

ملتان (نمائندہ خصوصی) نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی طرف سے ملک بھر کی مختلف شاہرات پر بنائے گئے غیرقانونی ٹال پلازوں کی تعداد 10سے بڑھ کر 14ہوگئی ہے اور مزید انکشافات بھی سامنے آرہے ہیں۔نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی ویب سائیٹ سے ہٹ کر جن چار مزید ٹال پلازوں کے غیرقانونی طور پر کام کرنے کی تصدیق ہوئی ہے ان میں فاضل پور ضلع راجن پور، گھوٹکی سندھ، ہیڈ محمد والا، کنڈو یارو شامل ہیں۔ چیئرمین نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے فوری حکم پر ملتان میں این ایچ اے کے ریجنل آفس میں سکیورٹی سخت کرتے ہوئے تمام صحافیوں کا داخلہ بند کردیاگیاہے اور سختی سے عملے کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ کسی بھی اخبار نویس یا میڈیا پرسن سے کسی بھی قسم کا رابطہ نہ رکھیں۔گزشتہ روز روٹین میں ملتان کے بعض رپورٹرز ہفتہ وار بریفنگ لینے پہنچے تو گیٹ سے انہیں اندر ہی داخل نہ ہونے دیاگیا اور بتایا گیا کہ چیئرمین نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے حکم پربریفنگ کا سلسلہ روک دیاگیاہے۔روزنامہ خبریں کو بتایا گیا ہے کہ غیر قانونی ٹال پلازوں کا انکشاف 6اپریل 2015ءمیں اتھارٹی کو ہوا تو چیئرمین نے فوری طور پر افسران سمیت عملے کے 11ارکان کو معطل کردیا جبکہ 8کو ٹرانسفر کردیا مگر حیران کن طور پر ان غیرقانونی ٹال پلازوں میں سے کسی کو نہ تو بند کیا اور نہ ہی ان کو قانونی شکل دینے کے لیے اجلاس سے منظوری لی گئی۔روز نامہ خبریں کو رحیم یارخان کے ایک گڈز ٹرانسپورٹ کے مالک ملک ارشد نے بتایا کہ ان ٹول پلازوں کے عملے نے اپنے کیبن میں جعلی کرنسی بھی رکھی ہوئی ہے۔انہوں نے بتایا کہ قطب پور ، جہانیاں کے ٹال پلازہ پر جب ان کو ڈرائیور نے ایک ہزار روپے کا نوٹ دیا جو پرانا نوٹ تھا تو وہاں بیٹھے عملے کے رکن نے نوٹ جان بوجھ کر کیبن کے اندر زمین پر پھینک دیا اور پھر زمین پر سے ایک ہزار روپے کا نیا نوٹ اٹھاکر کہاکہ تم نے جعلی نوٹ دیا ہے پھر ڈرائیور کو تشدد کا نشانہ بنایا اور ایک ہزار کا نوٹ بھی رکھ لیا جبکہ 240روپے بھی اضافی وصول کرلیے۔انہوں نے بتایا کہ ہائی وے پولیس بھی ٹول پلازے کے عملے کے ساتھ ہوتی ہے اور ظلم میں شریک ہوجاتی ہے۔روزنامہ خبریں کو معلوم ہوا کہ ان غیرقانونی ٹال پلازوں میں سے ایک رانی پور کے پیروں کے خاص مریدین کے پاس جوکہ علاقے میں خوف و ہراس پھیلائے رکھتے ہیں۔اس طرح بستی ملوک والا بھی ایک رکن قومی اسمبلی کے قریبی لوگ ایک سال تک چلاتے رہے۔بعد میں اس پر ٹھیکہ کسی اور نے لے لیا اور ان غیرقانونی ٹھیکیداروں کا بھی نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ریکارڈ میں کوئی ذکر نہیں۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی ہی کے ایک سابق آفیسر نے روزنامہ خبریں کو بتایا کہ اگر کبھی کوئی ادارہ یا نیب ملک بھر میں ان کے تشہیری بورڈ کی تعداد اور ان کا تمام ریکارڈ قبضے میں لیکر تحقیقات کرے تو ایک اور پانامہ سامنے آجائے گا۔بتایا گیا کہ سیکرٹری این ایچ اے کا عہدہ بھی ڈیڑھ سال تک چیئرمین کے پاس رہا اور اس دوران اربوں روپے کی گرانٹس جاری کی گئیں۔اسی سلسلہ میں بستی ملوک کے غیرقانونی ٹال پلازہ پر احتجاج کیاگیا کہ اربوں روپے کھانے والے افسران کےخلاف فوری کارروائی کی جائے۔

 

نوابزادہ غضنفر گل پیپلز پارٹی چھوڑ کر ن لیگ میں شامل

اسلام آباد (آئی این پی) پیپلز پارٹی کے دست راست سابق وفاقی وزیر نوابزادہ غضنفر گل نے پیپلز پارٹی سے تیس سالہ تعلق توڑ کر پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شمو لیت کا اعلان کرتے ہوئے پیپلز پارٹی چھوڑنے کا ذمہ دار زرداری کو قرار دے دیا اور کہا ہے کہ میں پیپلز پارٹی سے ناراض نہیں ہوں، پیپلز پارٹی اب کمرشل اور اسٹیبلشمنٹ کی سرنگ میں گھسنے کی کوشش کر رہی ہے،تیس سال پیپلز پارٹی کے ساتھ سڑک پر رہا۔تھوڑی سی زندگی باقی ہے ن لیگ کے ساتھ سڑک پر گزار لونگا۔ تفصیلات کے مطابق پیپلز پارٹی کے دست راست سابق وفاقی وزیر نوابزادہ غضنفر گل نے پیپلز پارٹی سے تیس سالہ تعلق توڑ کر پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شمو لیت کا اعلان کر دیا ہے انہوں نے پیپلز پارٹی چھوڑنے کا ذمہ دار زرداری کو قرار دے دیا اور کہا کہ میں پیپلز پارٹی سے ناراض نہیں ہوں۔ بس اب وہاں فٹ نہیں ہوتا کیو نکہ پیپلز پارٹی اب کمرشل ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا گڑھی کا مجاور ہوں۔ نواب شاہ کا درباری نہیں بن سکتا۔ تیس سال پیپلز پارٹی کے ساتھ سڑک پر رہا۔تھوڑی سی زندگی باقی ہے ن لیگ کے ساتھ سڑک پر گزار لونگا۔ میں ن لیگ میں ہوں اب۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح چوہدری برادران اور بی بی کے قاتلوں کو ساتھ ملا کر پیپلز پارٹی کو پنجاب میں ختم کرالیا اب اسی طرح پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ کی پارٹی بنی تو سندھ میں بھی ختم ہو جائے گی۔ نوابزادہ غضنفر گل نے کہا اگلے سیاسی سفر کا اعلان کر دیا باضابط اعلان کی کیا ضرورت ہے کوئی نکاح تھوڑی پڑھوانا ہے۔نواز شریف انٹی اسٹیبلشمنٹ پارٹی بن کر ابھر رہا ہے۔پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ کی سرنگ میں گھسنے کی کوشش کر رہی ہے۔

2010ء سے تاحال ملک بھر میں پولیس میں تشددکے واقعات

لاہور (شعےب بھٹی سے) پاکستان میںپولیس کی جانب سے ملزموں اور بے گناہ افراد پرتشدد کرناکوئی نئی بات نہیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے جبکہ بعض اوقات متاثرہ افراد تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق بھی ہو جاتے ہیں ۔ پولیس تشدد کے واقعات میں پنجاب پولیس پہلے نمبر پر ہے جبکہ سندھ پولیس دوسرے نمبر پر ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں تحقیق اور جدید سائنسی طریقوں میں پولی گرافک ٹیسٹ کے متعا رف کے با وجود 2010سے رواں سال کے10ما ہ کے دوران پاکستان بھر سے پولیس تشدد کے کل29584واقعات رپورٹ ہوئے ہیں ۔ خبرےں کی تحقےقات ر پو رٹ کے مطابق 26 جون 1987ءکو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے زیر حراست ملزمان پر قبول جرم کے لیے بہیمانہ تشدد، انسانیت سوز اور توہین آمیز برتاﺅ کے خلاف کنونشن کی منظوری دی تھی۔ جون 2010ءمیں حکومت پاکستان نے بھی اس کنونشن کی توثیق کر دی تھی۔ مگر ملک میں تھانہ کلچر تبدیل نہ ہونے کی وجہ سے ہماری ریاست کا سیاسی، سماجی اور انتظامی ڈھانچہ پولیس تشددکی وجہ سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے پولیس تشدد کا شکار بیشتر لوگ ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ دوران تفتیش زیرحراست افراد پرتھرڈ ڈگری تشدد کے اس قدر ظالمانہ اور سفاکانہ طریقے اختیارکئے جاتے ہیں کہ جن کے ذکر سے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جن میں”چھترمارنا” ,ڈانگ پھیرنا، چھت سے لٹکانے کے مختلف طریقے، رسہ پر چڑھانا، پنکھا چلانا، پاﺅں اور سر کو رسی سے باندھ کر ایک کر دینا، شلوار میں چوہے چھوڑنا، ٹائر ڈالنا،گوبر لگانا، ٹانگیں رسی سے باندھ کر چوڑی کرنا، جسم کے نازک حصوں کو مختلف طریقوں سے ضرب دے کر تکلیف پہنچا نا،پان لگانا، سگریٹ سے داغنے کے علاوہ غلیظ گالیاں دینا مقدمہ میں ملوث افراد کے اہل خانہ کو گرفتار کر کے ان کی تذلیل و بے حرمتی کرنا، خواتین ملزموں کے ساتھ ذےا تی جیسے طریقے شامل ہیں۔ پولیس تشدد کے واقعات میں پنجاب پولیس پہلے نمبر پر ہے جبکہ سندھ پولیس دوسرے نمبر پر ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں تحقیق اور جدید سائنسی طریقوں کے متعارف کیے جانے کے بعد یہ تصور ابھرا کہ کسی جرم کی تفتیش اور اقبالِ جرم کے لیے مشکوک فرد یا افراد پر تشدد کے علاوہ دیگرسائنسی طریقے جیسے پولی گرافک ٹیسٹ اور نفسیاتی طریقے بھی اختیار کیے جا سکتے ہیںجو خاصی حد تک کامیاب ہیں پاکستان میں جہاں پوراریاستی ڈھانچہ جوابدہی کے جھنجٹ سے آزاد ہے پولیس کو کھل کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے ۔ نوآبادیاتی دور کے انتظامی ڈھانچے،میرٹ کی جگہ کوٹے، قابلیت کی جگہ سفارش اور اہلیت کی جگہ رشوت اور سیاسی تقرریوں کی وجہ سے پولیس عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے حکمرانوں اور با اثر افراد کی آلہ کار بن گئی۔تشدد پولیس کے پاس ایک ایسا حربہ ہے جس کے ذریعے کسی بھی ملزم سے کوئی جرم منوایا جا سکتا ہے۔ پنجاب پولیس کے تربیتی اداروں میں بھی پولیس افسروں اور اہلکاروں کو تفتیش کیلئے سائنسی بنیادوں پر تربیت دینے کی بجائے روایتی طریقوں سے تشدد اور بد تمیزی کا سبق دیا جاتاہے۔ فیلڈ میں پولیس اہلکار اپنے بڑوں سے تفتیش کا ایک ہی گر سیکھتے ہیں کہ دوران تفتیش مغز ماری اور محنت کرنے کی بجائے ملزم کو تشدد لگاﺅ اور اس سے اپنی مرضی کا بیان لیکر اور جرم منوا کر چالان کر دو۔ مقدمہ کے اندارج کے بعد تفتیشی افسر جب ملزم کو گرفتار کر کے اس کا جسمانی ریمانڈلیتا ہے تو ہمارے ہاں جسمانی ریمانڈ تفتیش کا ایک ہی گر سیکھتے ہیں کہ دوران تفتیش مغز ماری اور محنت کرنے کی بجائے ملزم کو تشدد لگاﺅ اور اس سے اپنی مرضی کا بیان لیکر اور جرم منوا کر چالان کر دو۔ مقدمہ کے اندارج کے بعد تفتیشی افسر جب ملزم کو گرفتار کر کے اس کا جسمانی ریمانڈلیتا ہے تو ہمارے ہاں جسمانی ریمانڈ کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ اب پولیس کو ملزم پر تشدد کرنے کا قانونی حق مل گیا ہے۔ حالانکہ پولیس کو کسی بھی زیر حراست ملزم پر تشدد اور خاص طور پر سرعام تشدد کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔ تفتیشی افسر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی پیشہ وارانہ مہارت سے جرام کا سراغ لگائے۔بااثر افراد کے قائم کیے ہوئے عقوبت خانے طاقت کے اظہار کا ذریعہ سمجھے جاتے ہیں، اس لیے حکمرانوں، سیاستدانوں اور مراعات یافتہ طبقے کی شہ پر پولیس نے بھی تھانوں میں عقوبت خانے قائم کیے ہوئے ہیں، جہاں مختلف تعزیرات کو بنیاد بنا کر ملزمان پر اقبال جرم کے لیے بدترین تشدد کیا جاتا ہے۔ اس تشدد کے نتیجے میں اندرونی چوٹوں کی تاب نہ لاتے ہوئے کئی ملزمان اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ مگر ایسا بہیمانہ تشدد کرنے والوں کو کبھی عدالت کے کٹہرے میں پیش نہیں کیا جاتا۔ عدالتی مداخلت اور میڈیا سمیت سول سوسائٹی کی تھانوں تک رسائی پر پولیس نے اپنے رویے تبدیل کرنے کے بجائے ان عقوبت خانوں کو تھانوں سے باہر نجی مقامات پر منتقل کر دیا ہے۔جہاں ملزمان کو عدالت میں پیش کیے بغیر کئی کئی روز تک بدترین اور بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور انھیں اقبال جرم پر مجبور کیا جاتا ہے۔ تشدد کے نتیجے میں ملزم کے مر جانے کی صورت میں اس کی لاش کسی ویرانے میں پھینک دی جاتی ہے۔جبکہ یہاں بے گناہ شہریوں کو ہراساں کر کے ان سے رقم بٹوری جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نجی طور پر قائم کردہ پولیس کے عقوبت خانے اوپر سے نیچے تک پولیس افسران اور اہلکاروں کی ناجائز آمدنی کا ذریعہ بن چکے ہیں۔پاکستان پینل کوڈ اور کرمنل پروسیجر کوڈ پولیس کو پابند کرتا ہے کہ وہ کسی بھی جرم کے شک میں گرفتار کیے گئے ملزم کو 24 گھنٹوں کے اندر فوجداری عدالت کے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کر کے اس سے تفتیش کے لیے ریمانڈ حاصل کرے، مگر بیشتر کیسوں میں ایسا نہیں کیا جا رہا۔ پولیس ایکٹ کی دفعہ156کے تحت تشدد کرنے والے پولیس ملازمین کو 3سال کی قید ہو سکتی ہے جبکہ تعزیرات پاکستان کے تحت پولیس تشدد، زخم لگانے یا حبس بے جا میں رکھنے کی سزا بھی موجود ہے اورکسی بھی زیر حراست یا گرفتار ملزم پر تشدد قابل دست اندازی پولیس جرم ہے۔ اورذمہ دار پولیس افسر یا اہلکار کو پانچ سال قید اور جرمانہ کی سزا دی جا سکتی ہے تا ہم تشدد کا جرم قابل راضی نامہ ہے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے منظور کیے گئے چارٹر کے مطابق ہر وہ شخص (ملزم) بے گناہ اور معصوم ہے، جب تک کہ عدالت اس پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے اسے اس جرم کا مرتکب قرار نہیں دے دیتی۔ پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے کسی بھی ادارے کو یہ اختیار نہیں کہ وہ عدالتی ریمانڈ کے بغیر کسی بھی شہری کو اپنی تحویل میں 24 گھنٹے سے زائد عرصے کے لیے رکھے۔ایک رپورٹ کے مطابق جن خاص خاص شہروںمیں پولیس تشدد کے سب سے زیادہ واقعات رونماہوئے ان میںلاہورسر فہرست رہا اس کے بعدملتا ن ، فیصل آباد، سیالکوٹ، کراچی، سکھر، خےرپور، نواب شاہ ، حےدرآباد اور گجرانوالہ شامل ہےں۔ذرا ئع کے مطا بق2010سے رواں سال کے10ما ہ کے دوران پاکستان بھر سے پولیس تشدد کے کل29584واقعات رپورٹ ہوئے۔ اعداد و شمار کے سالانہ جائزے کے مطابق 2010 میں 931 ، 2011 میں1855 ، 2012 میں1996، 2013 میں 8238، 2014 میں2980، 2015 میں3356، 2016 میں4662، 2017 کے 10ما ہ کے دوران 5566 واقعات ہوئے جبکہ ہر سال ان واقعات کی تعداد میں اضافہ ہو رہاہے ۔ذرائع کے مطابق ملک بھر میں پولیس تشدد کی ہر ماہ سےنکڑوں شکایات موصول ہوتی ہیں۔ سابق گورنر سلمان تاثیر کو لاہور کے مصطفیٰ آباد تھانے میںتشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ نیلام گھر والے طارق عزیز کو پولیس نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ وزیر قانون رانا ثنا اللہ کو فیصل آباد کے ایک تھانے میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ سابق صدر آصف علی زرداری پر کراچی میں پولیس تشدد ہوا ۔ جاوید ہاشمی، ملک قاسم ، رانا نذر الرحمان پر تشدد کیا گیا۔ جبکہ لاتعداد سیاسی ورکروں کوتشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ مہذب معاشرے میں قانون کی حفاظت کرنے والوں سے اس طرح کی قانون شکنی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔