قصور(بیورو رپورٹ)زینب قتل کیس کے مرکزی ملزم عمران علی کی گرفتاری کے عمل نے ناصرف قصور پولیس کی متواتر مجرمانہ غفلت نااہلی اور سنگین جرائم سے پردہ اٹھا دیا ہے بلکہ ملزم عمران علی کے ہاتھوں زیادتی اور قتل کا شکار بننے والی معصوم ایمان فاطمہ کے متعلق کیے گئے انکشاف کے بعد قصور پولیس کے جرائم کی ایک طویل فہرست منظر عام پر آگئی ہے روزنامہ خبریں کی حاصل کردہ تفصیلات کے مطابق زینب اور دوسری معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی اور انہیں قتل کرنے کے معاملہ کی تحقیقات کرنیوالی جے آئی ٹی نے گزشتہ روز خبریں میں شائع ہونیوالی اس خبر کو درست قرار دیا ہے کہ گزشتہ سال فروری میں مدثر نامی نوجوان کو ہلاک کرنیوالے جن چھ پولیس ملازمین کو طلب کیا گیا تھا انکے بیانات میں واضح تضادات موجود ہیں جس سے یہ امر ثابت ہوگیا ہے کہ معصوم ایمان فاطمہ کو ملزم عمران علی نے فروری 2017 ءمیں زیادتی کے بعد اغواءکیا اور پھر اسے قتل کرنے کے بعد اس کی نعش ایک ویران مکان میں پھینک دی جب اس قتل کے بعد عوام کا احتجاج شروع ہوا تو پولیس نے ناصرف بے گناہ مدثر کو جھوٹے الزام میں پکڑ لیا بلکہ اسکے بھائی کو بھی ڈکیتی اور قتل کا ملزم بنا دیا 25 فروری 2017 ءکو ڈی ایس پی مرزا عارف رشید ایس ایچ او محمد یونس ڈوگر اور دیگر نے مدثر کو جعلی مقابلے میں قتل کر دیا اور میڈیا کے علاوہ عوامی حلقوںکو یہ بتایا گیا کہ مدثر نے ہی ایمان فاطمہ کو زیادتی کے بعد قتل کیا تھا اور وہ فرار ہورہا تھا کہ ایک مبینہ مقابلے میں مارا گیا پولیس نے بعد ازاں مدثر کے سارے خاندان کو بلیک میل کیا اور متعلقہ کاغذات پر ان کے دستخط اور انگوٹھے حاصل کرنے کے بعد مدثر کے بھائی کو رہا کیا اس سلسلہ میں روزنامہ خبریںمیں شائع ہونیوالی خبروں کے بعد مدثر کے اہلخانہ نے مقدمہ کے اندراج کے لیے عدالت سے رجوع کرنے کے ساتھ ساتھ پولیس حکام اور تھانہ صدر قصور کو بھی تحریری درخواستیں دیدی ہیںا ن درخواستوں میں مدثر کی والدہ جمیلہ بی بی زوجہ منیر احمد نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج قصور ظفر اقبال کی عدالت میںجو رٹ دائر کی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ ایک نامعلوم شخص نے پیرو والا کی پانچ سالہ بچی ایمان فاطمہ کو اغواءکیا اور زیادتی کے بعد اسے قتل کرکے اس کی نعش ایک زیر تعمیر مکان میں پھینک دی تو اگلے ہی رو ز پولیس نے اس کے بیٹے مدثر کو پکڑ کر ایک جھوٹے مقابلے میں ہلاک کر دیا جبکہ مقدمہ میں میرے دوسرے بیٹے عدنان وغیرہ کو بھی ملزم بنا دیا گیا ہمیں خاموش کرانے کے لیے پولیس نے مدثر اور اسکے رشتہ داروںکو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا اور جان سے مار دینے کی دھمکیاںدیتے رہے جب ہم نے پولیس کو ہر طرح کی یقین دہانی کرائی کے ہم کوئی قانونی کاروائی نہیں کریں گے تو پولیس نے اپنی مرضی کے کاغذات پر ہم سے دستخط کرانے کے بعد ہمیں چھوڑ دیا جمیلہ بی بی نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ سابق ڈی پی او علی ناصر رضوی ،ڈی ایس پی مرزا عارف رشید ایس ایچ او محمد یونس وغیرہ کےخلاف مقدمہ درج کرکے قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے عدالت نے مذکورہ پولیس افسران کو 30 جنوری کوطلب کر لیا ہے دوسری طرف مدثر کی جعلی مقابلے میں ہلاکت کی تصدیق نے گزشتہ چند سال کے دوران ضلع قصور کی حدود میں مشکوک مقابلوںمیں مارے گئے درجنوں افراد کی ہلاک پر کئی ایک سوالیہ نشان پیدا کر دیے ہیں کیونکہ مذکورہ بالا پولیس افسران کے ضلع قصور میں تقرری کے دوران ایک سو کے قریب افراد کو مشکوک اور متنازعہ مقابلوںمیں ہلاک کیا گیا جس پر وقتاً فوقتاً ڈسٹرکٹ بار قصور کے وکلاءانسانی حقوق کی تنظیموںاور نمائندہ شہریوںکی طرف سے آوازبلند کی جاتی رہیں مگر پولیس کے مذکورہ افسران کے حامی حلقے ہر مشکوک مقابلے کے بعد ان افسران کے اعزاز میں تقریبات کا انعقاد کرکے انہیں مختلف اعزازات سے نوازتے رہے زینب قتل کیس کے بعد جب سابق پولیس افسران کا سارا کچا چٹھا کھل کر عوام کے سامنے آگیا تو سابق افسران کے ان قریبی دوستوں اور حامیوں نے پر اسرار خاموشی اختیار کر لی ہے۔