عمران خان کی تیسری شادی ان کے سیاسی کیریئر کیلیے کیسی رہے گی ،ہمیں اپنی رائے سے آگاہ کریں

عمران خان کی تیسری شادی ان کے سیاسی کیریئر کیلیے فائدہ مند ہوگی یا نقصان دہ چینل فائیو اوپینین پول کا حصہ بنیں اور ہمیں اپنی رائے سے آگاہ کریں ،ہمارا واٹس ایپ نمبر آپکی سکرین پر موجود ہے ،،سروے کے نتائج 22فروری رات نو بجے کے بلیٹن میں نشر کیے جائینگے

سینیٹ الیکشن معطل ،سپریم کورٹ نے ایک اور نیا سیاسی بھونچال پیدا کر دیا

اسلام آباد (ویب ڈیسک)سپریم کورٹ نے انتخابی اصلاحات 2017 کیس کا فیصلہ سنا دیاہے جس کے مطابق آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر پورا نہ اترنے والا شخص پارٹی صدارت نہیں کر سکتا جس کے بعد نوازشریف اب پارٹی صدارت کیلئے بھی نااہل ہو گئے ہیں اور بطور پارٹی سربراہ اٹھائے گئے تمام اقدامات کالعدم قرار دے دیئے گئے ہیں ۔نوازشریف کی جانب سے سینیٹ الیکشن کیلئے جاری کردہ تمام ٹکٹ بھی منسوخ ہو گئے ہیں ۔تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ طاقت کا سرچشمہ اللہ تعالی ہے ،آرٹیکل 17 سیاسی جماعت بنانے کا حق دیتاہے ، اس میں قانونی شرائط موجود ہیں ،عوام اپنی طاقت کا استعمال عوامی نمائندوں کے ذریعے کرتی ہیں ۔یہ درخواستیں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، شیخ رشید، پیپلز پارٹی کے علاوہ دیگر افراد اور جماعتوں کی جانب سے دائر کی گئی ہیں جن میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ایک نااہل شخص کو سیاسی جماعت کا سربراہ بنانے کی اجازت دینا آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہے۔کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی جس میں جسٹس عطابندیال اور جسٹس اعجازالاحسن شامل تھے۔سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلہ کمرہ نمبر ایک میں سنایا گیا۔جبکہ سپریم کورٹ نے سینیٹ کے الیکشن بھی معطل کر دیئے ہیں۔

 

نواز شریف کی نااہلی کے بعد رانا ثنا اللہ پھٹ پڑے،ایسی بات کہہ دی کہ سب دنگ رہ گئے

لاہور(ویب ڈیسک)پنجاب کے وزیر قا نون رانا ثنااللہ کا کہنا ہے کہ ہماری پارٹی کے سربراہ نواز شریف ہیں جس نے بھی پارٹی میں رہنا ہے اسے نواز شریف کی ہی بات ماننا پڑے گی،مسلم لیگ ن کے تمام فیصلے نواز شریف ہی کریں گے۔ نواز شریف کی پارٹی صدارت کے حوالے سے نااہلی کا فیصلہ آنے پر اظہار خیال کرتے ہوئے رانا ثنااللہ کا کہناتھا کہ سینیٹ کے الیکشن کو کوئی خطرہ نہیں، قانون سازی پارلیمنٹ کا حق ہمارا اصولی موقف ہے جبکہ فیصلے کی تفصیل دیکھے بنا کوئی جامع تبصرہ نہیں کرسکتا۔انہوں نے کہا کہ سینیٹ کیلئے پارٹی ٹکٹ منسوخ ہوئےتو امیدوا ر آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ سکتے ہیں۔نوا زشریف کسی بھی حیثیت میں ہوں پارٹی اسی سمت پر کام کرے گی جس کا تعین میاں صاحب نے کیا ہوا ہے۔

 

5سال تک نا اہل

اسلام آباد(ویب ڈیسک)سپریم کورٹ میں انتخابی اصلاحات کیس کی سماعت مکمل ہوگئی جس سے متعلق مختصر یا تفصیلی فیصلہ۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے انتخابی اصلاحات ایکٹ میں ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔سماعت مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس سپریم کورٹ نے نواز شریف کو 5سال کیلئے پارٹی صدارت سے بھی نا اہل کر دیا ۔

جتنی مرضی تقریریں کر لیں ، نواز شریف کی کہانی ختم ہو گئی

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) معروف قانون دان اور پانامہ کیس میں عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے کہا ہے کہ بڑے جلسوں میں تقریروں سے کچھ نہیں ہو گا۔ نوازشریف کی کہانی ختم ہو چکی ہے اور سزا سے نہیں بچ سکتے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے چینل ۵ کے پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں کہنہ مشق صحافی، معروف تجزیہ کار ضیا شاہد کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ شکریہ ضیا بھائی آپ نے مجھے بولنے کا موقع دیا۔ میں آپ کا مداح ہوں میں نے وکالت 1969ءمیں کی۔ تقریباً 50 سال ہونے کو آئے۔ میں خواجہ سلطان کے ساتھ، خلیل الرحمن خلیل، ایس ایم ظفر کے ساتھ رہا۔ جسٹس کورنیلس کے ساتھ رہا۔ 10 سال بعد اپنا دفتر کھولا۔ کچھ لوگ عدلیہ کے بارے بات کرتے تھے۔ عدلیہ اس پر ردعمل دیتی تھی۔ لیکن موجودہ روش آج تک ماضی میں نہیں دیکھی۔ اس کا ذمہ دار افتخار چودھری کو سمجھتا ہوں۔ جنہوں نے سپریم کورٹ کے باہر کیمرے لگا دیئے۔ ہم کالے کوٹ والے ڈیڑھ منٹ جو اندر بات کرتے تھے۔ ہم چالیس منٹ باہر آ کر بات کرتے تھے۔ افتخار چودھری کے دور میں دوسرا فرق یہ تھا۔ کیونکہ شفیع الرحمن صاحب کو بھی دیکھا ہوا ہے۔ سعد سفیان صاحب کو بھی دیکھا ہوا ہے۔ جج بہت کم بولتے تھے۔ افتخار چودھری اپنی بننچ نمبر1 میں 22 سیٹیں مقرر کر دیں۔ ہ یہ ضروری ہیں۔ مجھے شک ہوا جو بعد میں یقین میں بدل گیا کہ یہ کل اپنے بارے میں اخبار میں پڑھنا چاہتے ہیں۔ یہ میری ناقص رائے ہے کہ افتخار چودھری نے یہ سب سے بڑی نقب جو عدلیہ پر لگائی۔ یہ عدالت عظمیٰ ہے۔ اس کا احترام ہے۔ حمود الرحمن صاحب کے دور میں مجھے یاد ہے جب ظفر صاحب بول کر ختم کرتے تھے تو اس پین کی آواز بھی آتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے عمران خان کے کیس لئے نہیں بلکہ ٹھونسے گئے۔ اگر یہ ٹھونسے نہ جاتے تو میں اس کا ممبر بھی نہ بنتا۔ میں نے طے کیا عدالت جس بارے سن رہی ہے۔ اس کے بارے بات بھی نہیں کرتی۔ نواز شریف صاحب کے کیس کا جب سے فیصلہ ہوا تب سے یہ روش قائم ہوئی ہے کہ ہم عدالت کے فیصلوں کو نہیں مانتے سپریم کورٹ نے میاں نوازشریف پر ہلکا ہاتھ رکھا ہے انہوں نے ”ٹپ آف آفس برگ“ پر نوازشریف کو موقع دیا کہ دفاع کر سکیں۔ جولائی 2016ءکو میں نے کاغذ پڑھ کر کہہ دیا تھا کہ میاں صاحب آپ تاریخ کا حصہ ہو چکے۔ وہ گئے۔ بچ نہیں سکتے انہوں نے نظرثانی بھی کر دی۔ سپریم کورٹ نے بتایا یا نہیں بھی کھول کر رکھ دیں۔ آپ کیا ہیں۔ وہ کس وقت کا تقدس مانگتے ہیں۔ ایم این اے بن کر پیسہ لوٹنا، وزیر بن کر دلہن کے بھائی کو ٹھیکے دے دوں یہ ووٹ کا تقدس ہے۔ آپ کہتے ہیں ملک سے کیوںنکالا گیا۔آپ رو رو کر یہاں سے گئے ہیں۔ حریری، سعودیہ کس نے مدد نہیں کی آپ 32 سوٹ کیس لے کر گئے۔ غلام اسحاق خان آپ کو رخصت کر دیں۔ عدالت بحال کر دے تو ٹھیک ہے۔ آپ رو رو کر زمین گیلی کر دیتے ہیں۔ اب ایسے جج صاحبان آ جائیں جو آپ کا کہنا نہ مانیں۔ سعد رفیق کہتا ہے یہ کینگروکورٹس ہیں۔ کیا آپ کو موقع نہیں ملا۔ سپریم کورٹ میں آپ کے خلاف CO29 دائر ہوئی۔ آپ نے صفائی نہیں دی۔ دبئی کی تفصیل نہیں دی۔ ہم نے ثابت کیا ایون فیلڈ مریم نواز کا فناسر ہے۔ وہ کہتی ہیں اس کی ملک میں اور باہر کوئی جائیداد نہیں۔ میں نے چھ مہینے پہلے کہا تھا۔ بھاگ جاﺅ۔ نہیں بچو گے۔ میرے پاس صرف عدلیہ اور فوج رہ گئی ہے۔ مجھے ایف آئی اے ایف بی آئی پر یقین نہیں۔ 1937ءمیں الیکشن ہوا۔ مسلم لیگ کی قیادت قائداعظم نے کی۔ 1946ءکی الیکشن ہوئی۔ پنجاب میں یونینسٹ پارٹی جیتی۔ میاں صاحب چاہتے ہیں کچھ ہزار لوگ آ کر عدالت سے کہیں ہم فیصلے نہیں مانتے۔ کچھ فیصلے عدالت نے کرنے ہیں کچھ فیصلے ہم نے کرنے ہیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہجوم اکٹھا کر کے پریشر ڈال دیں گے۔ میں امیر مقام کو کہنے گیا کہ آپ پارٹی نہ بنائیں۔ میاں صاحب ”انورڈیٹ شیڈوز“ میں رہ رہے ہیں آپ کو سزا ہو گی۔ آپ کے پاس ڈیفنس نہیں ہے۔ ”باﺅ مک گئی اے کہانی!“ ذوالفقار علی بھٹو جیسے آپ نہیں۔ وہ پھانسی لگ گیا تو آپ کیا چیز ہیں۔ میاں صاحب تاریخ کی روش آپ کے خلاف ہے۔ آپ زور لگا رہے ہیں۔ فوج ٹیک اوور کرے۔ عدلیہ کے پاس فوج کے سوا کوئی آپشن نہیں ہو گی۔ پارلیمنٹ قرآن و سنت کے تابع ہے۔ یہ بنیادی حقوق کے تابع ہے۔ بدقسمتی سے جو ووٹوں کے ذریعے کامیاب ہو کر آتا ہے۔ وہ ڈکٹیٹر بن جاتا ہے۔ کسی کی بات نہیں سنتا۔ پرویز مشرف کا دور اس سے بہتر جمہوری دور تھا۔ افتخار چودھری جسے میں پسند نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں پارلیمانی نظام سوٹ نہیں کرتا۔ ہمیں صدارتی نظام کی ضرورت ہے۔ بھٹو نے آئین میں ترامیم کیں۔ 66 ترامیم ضیاءالحق نے کیں۔ 18 ویں ترمیم نے اس کا بیڑہ غرق کر دیا۔ 19 ویں ترمیم سپریم کورٹ کے بورڈ سے ہوئی۔ آرمی کورٹ آیا تو چیئرمین سینٹ کہتا ہے۔ میں نے آنسوﺅں سے اسے سائن کیا۔ بابا یہ ”آن ورک ایبل ڈاکومنٹیشن“ ہیں۔ پنجاب بہت بڑا ہے۔ بلوچستان بھی بڑا ہے۔ کے پی کے پی کے بھی بڑا ہے۔ تمام کی تقسیم ہونی چاہئے۔ بہاولپور اسٹیٹ تھی تو اسے اسٹیٹ ہی رہنا چاہئے۔ ہمیں اور صوبوں کی ضرورت ہے سرائیکی صوبہ بنتا ہے تو بننا چاہئے۔ ہمیں نئے سوشل کنٹریکٹ کی صرورت ہے جس سے بلوچستان بھی خوش ہو کے پی کے خوش ہو۔ ہزارہ صوبہ بننا چاہئے فاٹا اگر ضم نہیں ہونا چاہتا تو اسے صوبہ بنائیں۔ اگر ہندوستان نئے صوبے بنا سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں بنا سکتا۔ آپ کہتے ہیں دہشت گردی ختم کریں آپ نے ”کریلا“ دہشت گردی ختم کر دی آرمی پبلک سکول کا واقعہ نہ ہوتا آپ الیکشن ہی نہ ہونے دیتے جتنے فوجی شہید ہوئے۔ تین جنگوں میں شہید نہیں ہوئے۔ میاں صاحب آپ نے کیا کیا۔ ہمیں بے و قوف نہ بنائیں۔ افواج پاکستان علی کلی خان والی نہیں رہی۔ نہ نوابوں والی رہی۔ یہ مڈل، لوئرءمڈل اور غریبوں کی ہے۔ آپ پسند کریں یا نہ کریں۔ سپریم کورٹ عظیم ہے۔ اگر اسے احساس ہو گیا کہ ملک جا رہا ہے آپ کی وجہ سے۔ وہ آرمی کو بلائیں گے۔ اسے ملک بچانے کے لئے۔ میں نہیں جانتا آپ کے بچے ارب پتی کیسے بن گئے۔ کوئی وکیل اس پر یقین نہیں کر سکتا۔ فرسودہ آئین بچانا ہوگا۔ میں شیخ رشید کی طرح ایک مہینے کا نہیں کہتا۔ لیکن بطور وکیل کہتا ہوں کہ عدلیہ کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ ماسوائے کہ ”کانسٹی ٹیوشن کمیشن“ بنائے جس کا سربراہ سپریم کورٹ کا چیف جسٹس ہو، 5 اور ججز ہوں۔ یہ ”فرسودہ آئین چل نہیں رہا“ ضرور اس کاغذات کو تبدیل کرنا چاہیے۔ الیکٹرول ریفارم سے پہلے اگلا الیکشن بے معنی ہے۔ مسلم لیگ ن نے خود کو پرفیکٹ کر لیا ہے۔ الیکشن کو لوٹنے کا۔ میر صاحب نے اپنے فیصلے میں بہت سی بے ضابطگیاں بیان کیں ہیں۔ اگر کل الیکشن پنجاب میں ہو تو میاں صاحب جیت جائیں گے۔ اسی نظام کے تحت۔ میں آصف زرداری سے بالکل متاثر نہیں ہوں۔ ایک کرپٹ سیاستدان، سرے محل کوٹیکنکا کا کیس، فرانس کے محل کا کیس ہو یا سندھ کی 18 ملوں کا کیس ہو میرے دل میں رتی بھی ان کے لیے عزت نہیں ہے۔ ان کے پیچھے بھی لوگ لگے ہوئے ہیں۔ میں حیران ہوں۔ جب سنیٹر اعتزاز احسن جیسا ذہین آدمی بھی ان کے پیچھے کھڑا ہے۔ اگر اس سسٹم کے تحت الیکشن ہوئے 2008ءکا الیکشن پی ٹی آئی نے بائیکاٹ کیا تھا۔ دور دراز کے پولنگ اسٹیشنوں پر پریذائیڈنگ افسران غائب ہو گے۔ پنجاب میں شہباز شریف کے بندے بیٹھے ہوئے ہیں۔ میرا سیاست سے تعلق کتابی ہے۔ صرف عمران خان کو پسند کرتا ہوں۔ اگر اسی وزیراعظم اور خورشید شاہ نے کیئر ٹیکر گورنمنٹ بنا کر الیکشن کروانے ہیں تو کیا فائدہ۔ کم از کم دو سالوں کےلئے آر ایس ٹیسٹ کر کے انتخاب کے نظام کو شفاف بنایا جائے۔ ورنہ تو121 ووٹ بھی نہیں پڑ سکتے۔ ہر پولنگ اسٹیشن میں کیمرے لگے ہوں۔ ڈبل شاہ کے بھی بڑے فین تھے۔ ریاض بسرا کے بھی بڑے چاہنے والے ہیں۔ اسامہ بن لادن کے بھی بڑے فین ہیں۔ قائداعظم کو کچھ لوگوں نے شیطان اعظم نہیں کہا؟ پاکستان کے بارے میں کچھ لوگوں نے وہ ا لفاظ نہیں کہے۔ وقت کا دھارا ہے۔ نواز شریف چالیس ہزار لوگ دیکھ کر چوڑے ہو گئے ہیں۔ نواز شریف فارغ ہو چکے ہیں۔ میں مریم سے کہتا ہوں ایک کتاب بتا دو جو میاں صاحب نے مکمل پڑھی ہو۔ ٹھاکرے اور کئی اچکے الیکشن تو جیت جاتے ہیں کریمنل جیت جاتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے انکی پوجا شروع کردیں۔ اصغر خان لاہور بار آئے کسی نے کہا آپ فیل سیاستدان ہیں۔ اس نے کہا صرف اس لیے کہ میں الیکشن جیت نہیں سکا۔ پنجاب شریف خاندان کے عشق میں گرفتار ہے تو میں پنجاب کا ماما لگتا ہوں یہ پھر آکر لوٹیں گے۔ ہم چین کے آگے پاکستان کو رہن رکھ رہے ہیں۔ ایسٹ انڈیا تو سنی تھی۔ اب چینی کمپنی ہے۔ روس گرم پانیوں تک نہیں پہنچ سکا۔ چین کو رسائی دینے جا رہے ہیں۔ اگلا الیکشن ٹف ٹائم ہوگا۔ ڈیڑھ سو احتساب عدالتیں بنائیں۔ 5000 کا نوٹ ختم کریں۔ آج رات کو سب پرائز بانڈ ختم کریں۔ یہ حساب دیں گے پیسے دیں گے۔ صرف یہ بتا دیں آئے کہاں سے ہیں بغیر کنٹرول کے الیکشن ضائع کرنے کے مترادف ہونگے۔

 

 

اسلام آباد ہائیکورٹ کا اہم ترین کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کرنے کا فیصلہ

اسلام آباد(ویب ڈیسک )ختم نبوت حلف نامے سے متعلق الیکشن ایکٹ ترمیم کے خلاف دائر درخواست پر عدالت نے 4 مذہبی اسکالرز کو عدالتی معاون مقرر کردیا۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم سے متعلق کیس کی سماعت کی، اس موقع پر عدالت نے قرار دیا کہ حلف نامے سے متعلق عدالتی معاونت کے لئے مذہبی اسکالرز کی رہنمائی لی جائے گی۔عدالت نے پروفیسر حسن مدنی، مفتی حسین بنوری، محسن نقوی اور ڈاکٹر ساجد الرحمان کو اپنا معاون مقرر کردیا جب کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ حلف نامے میں ترمیم سے متعلق معاملے پر مذہبی اسکالرز معاونت کریں۔عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد کیانی کو بھی ہدایت کی کہ چاروں مذہبی اسکالرز سے رابطہ کریں اور درخواست گزار کے وکیل حافظ عرفات کو 2 دن میں اپنے دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی۔ گزشتہ سماعت پر حکومت کی جانب سے راجا ظفر الحق کمیٹی کی رپورٹ سربمہر لفافے میں پیش کیے جانے کے بعد عدالت نے قرار دیا تھا کہ کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کی جائے گی۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اٹارنی جنرل ارشد کیانی کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ ختم نبوت کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، آپ کو اس ایشو کی نزاکت کا احساس ہی نہیں ہے۔

ہیرو یا ولن ،گاڈ فادر کون ہے ۔۔؟ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے حقائق بیان کر دئیے

اسلا م آباد(ویب ڈیسک)جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ عدالت نے کبھی نواز شریف کو گاڈ فادر نہیں کہا جبکہ سپریم کورٹ میںتوہین عدالت کیس میں میڈیا گروپ کے مالک اور صحافی احمد نورانی عدالت میں پیش ہوئے اور شوکاز نوٹس کا جواب جمع کرادیا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے جواب پڑھ لیا ہے،کیا تینوں ملزمان اس جواب پر اکتفا کرتے ہیں ،پولیس سٹیشن میں دیئے مقدمے کا کیا ہوا۔احمد نورانی کے وکیل نے جواب دیا کہ کوئی ملزم گرفتار نہیں ہوا اورپولیس نے تفتیش میں پیش رفت سے عدم شواہد کی بناءپر معذرت کر لی۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی اور جسٹس دوست محمد نے ریمارکس دیئے کہ دیکھنا یہ ہے ملک میں آئین و قانون چلے گا یا کچھ اور،ہم نے ملک کے وسیع مفاد کو دیکھنا ہے،سب کچھ ہوتا رہے گا لیکن ہم ملک کا سوچنا ہے،پہلے ہی ملک کی بہت بربادی ہوچکی۔جسٹس کھوسہ نے کہا کہ آج کل بہت سی ایسی چیزیں سپریم کورٹ سے منسوب کر لی جاتی ہیں جو ہم نہیں کہتے ،توہین عدالت کا ہر گز مقصد ناجائز فائدہ اٹھانا نہیں ہوتا،توہین عدالت کا مقصد عدالت کا احترام یقینی بنانا ہوتا ہے۔سابق وزیراعظم نواز شریف کو گاڈ فادر کہنے کے حوالے سے جسٹس کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے کبھی نواز شریف کو گاڈ فادر نہیں کہا اور استفسار کیا کہ ڈپٹی اٹارنی جنرل بتائیں کیا ہم نے پانامہ فیصلے میں نواز شریف کو گاڈ فادر لکھا؟جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب دیاکہ سپریم کورٹ نے فیصلے میں نواز شریف کو گاڈ فادر نہیں لکھا

”بیماری حاضری سے استثنیٰ کا جواز نہیں “ عدالت کا نواز ، مریم ، صفدر بارے دبنگ فیصلہ

اسلام آباد(ویب ڈیسک)احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے شریف خاندان کی حاضری سے استثنی کی درخواستیں مسترد کرنے کا حکم نامہ جاری کردیا۔احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی حاضری سے استثنی کی درخواستیں مسترد کرنے کا تحریری فیصلہ جاری کردیا۔ تحریری حکم نامے کے مطابق اہلیہ کی بیماری کو ملزم کی عدالت حاضری سے استثنی کا جواز نہیں ٹھہرایا جا سکتا اور وڈیو لنک بیان کے موقع پر لندن جا کر اٹارنی مقرر کرنے کا جواز بھی قابل تسلیم نہیں۔

وزارت داخلہ کا نواز شریف ،مریم صفدر کا نام ای سی ایل میں ڈالنے سے انکار

اسلام آباد (آن لائن، آئی این پی) وزارت داخلہ کے شریف خاندان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے سے انکار کے بعد نیب حکام نے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ معتبر ذرائع کے مطابق قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے کرپشن رنفرنس مین سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کا نام ای سی ایل کی سفارش کی لیکن نیب حکام کی جانب سے تحریری طورپر وزارت داخلہ کو آگاہ کیا گیا آن لائن سے گفتگو کرتے ہوئے۔ ذرائع کا مزید کہنا تھا وزیر داخلہ احسن اقبال کی جانب سے داخلی سکیورٹی کے حوالے سے اہم اجلاس کے بعد نااہل وزیراعظم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے سے معذرت کرلی ہے اور وزارت داخلہ کی جانب سے مو¿قف اختیار کیا گیا ہے کہ شریف خاندان کے نام ایس سی ایل میں ڈالنے کیلئے پیش کی گئی وجوہات ناکافی ہیں اس حوالے سے ٹھوس وجوہات پیش کی جائیں۔ ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ وزارت داخلہ کے انکار کے بعد نیب حکام نے شریف خاندان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کیلئے عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

 

شاہد خاقان عباسی کی تقریر کے بعد پارلیمنٹ ، عدلیہ کی سیاسی چپقلش۔۔۔ ؟

اسلا م آباد (ویب ڈیسک)وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی طرف سے گزشتہ روز پارلیمنٹ میں کی گئی تقریر کے بعد پارلیمنٹ اور عدلیہ کے مابین سیاسی منظر پر باقاعدہ چپقلش شروع ہوگئی ہے۔ ممبران پارلیمنٹ کی طرف سے ججوں کے رویے پر پارلیمنٹ میں بحث ایک ایسا نازک نقطہ بن گیا ہے جو براہ راست آئین کے آرٹیکل 68 کے متصادم اور خلاف ہے ۔کیا پارلیمنٹ میں اعلیٰ عدلیہ کے رویےیا ان کے بارے میں بحث کی جاسکتی ہے یا نہیں؟ اور اگر نہیں تو اس کا متبادل طریقہ کار کیا ہے؟ آئین پاکستان کے آرٹیکل 68 کے مطابق پارلیمنٹ اس کی مجاز نہیں ہے کہ اعلیٰ عدلیہ اور ججز کے بارے میں بحث یا ان کا رویہ یا طرزعمل پارلیمنٹ کے فلور پر زیربحث لایا جائے۔ اس سلسلے میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 209 کو استعمال کرکے حکومت کسی جج کے رویے کے خلاف شکایت ہو تو وہ یہ مسئلہ سپریم جوڈیشل کونسل میں بھیجنے کی مجاز ہے البتہ اس پر پارلیمنٹ کے فلور پر بحث کرنا ا?رٹیکل 68 کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے پارلیمنٹ میں خطاب کے بعد سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور لیگی رہنما مریم نواز کا بیانیہ سڑکوں‘ جلسے جلوسوں‘ ٹیلی ویڑن کے ٹاک شوز کے بعد اب پارلیمنٹ میں بھی گونجنا شروع ہوچکا ہے۔ چیف جسٹس ا?ف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کھل کر پارلیمنٹ میں ہونے والی تقاریر کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمنٹ سب سے سپریم ادارہ ہے البتہ پارلیمنٹ سے بھی سپریم اور اوپر ا?ئین پاکستان ہے جس کے تحت عدلیہ کام کرتی ہے اور جس کے تابع تمام پاکستانی شہری ہیں۔ چیف جسٹس نے کچھ روز پہلے نااہلی کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کیا کوئی چور یا ڈاکو کسی جماعت کا سربراہ ہوسکتا ہے؟ جس پر یہ بحث زیادہ گرم ہوگئی اور مسلم لیگ ن کی جانب سے یہ بیانیہ زور پکڑ گیا کہ ججز کو اپنے ریمارکس کا خیال رکھنا چاہئے۔ مسلم لیگ ن کے اراکین پارلیمنٹ مریم اورنگزیب‘ احسن اقبال اور ان کے بعد سینئر صوبائی وزیر رانا ثناءاللہ کے بیانات ازخود اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ بحث اب پارلیمنٹ‘ قومی اور صوبائی ایوانوں میں زور پکڑنے والی ہے جس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اب اداروں کے ٹکراﺅکا خطرہ اور بڑھ گیا ہے اور اس بار یہ فوج نہیں بلکہ پارلیمنٹ بمقابلہ عدلیہ شروع ہوچکا ہے۔