عطاءالحق قاسمی تقرری کیس ، چیف جسٹس نے سب کی آنکھیں کھول دیں

اسلام آباد (وقا ئع نگار‘مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ اصلاحات کا وقت آ گیا ہے، جہاں جہاں غلطیاں ہوئی ہیں اصلاح کریں گے، مجھے وہ بندہ چاہیے جسے عطاالحق قاسمی کے بطور چیئرمین پی ٹی وی کے نام کا خیال آیا، عطاالحق قاسمی کے پروگرام کی ویڈیو منگوا رہے ہیں، دیکھنا ہے کہ پروگرام میں کون سے کھوئے ہوئے گوہرنایاب ڈھونڈے گئے، جمہوریت بادشاہت نہیں، قانون کے مطابق ہوتی ہے، مجھے لگتا ہے عدالت کو مکمل دستاویزات نہیں دی گئیں، رولز کے تحت عطاالحق قاسمی کو پہلے ڈائریکٹر لگنا تھا بعد میں چیئرمین، قانون کے ساتھ فراڈ کیا گیا ہے یہ تو سیدھا سادھا نیب کا کیس ہے،عطاالحق کو مینجمنٹ کا کوئی تجربہ نہیں تھا، اس کیس کا فیصلہ خود کریں گے تمام فریقین جواب جمع کرادیں، نیب ریکارڈ کا جائزہ لے رہے ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ چیئرمین کا عہدہ تو اعزازی ہوتا ہے، عطاالحق قاسمی ادبی آدمی ہیں وہ کمپنی کیسے چلا سکتے ہیں،سپریم کورٹ نے ڈی جی آئی پی ونگ ناصر جمال سے بیان حلفی طلب کرلیا۔پیر کو سپریم کورٹ میں پی ٹی وی کے ایم ڈی کی عدم تقرری سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے کی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے عدالت کو بتایا کہ عطاءالحق قاسمی کی بطور ڈائریکٹر پی ٹی وی تقرری فائل ناصر جمال نے تیار کی۔ اس پر عدالت نے وزارت اطلاعات کے آئی پی ونگ کے ناصر جمال کو طلب کرلیا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ عطا الحق قاسمی کو چیئرمین وفاقی حکومت نے نہیں لگایا۔ چیئرمین کو پی ٹی وی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے منتخب کیا تھا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ تعیناتی غیر قانونی ثابت ہونے پر تنخواہ سمیت تمام واجبات وصول کئے جائیں گے۔ عدالت نے عطاءالحق قاسمی کے گزشتہ 5برسوں کے ٹیکس گوشوارے طلب کرلئے۔ اس کے علاوہ چیئرمین ایف بی آر اور ممبر انکم ٹیکس کو بھی طلب کرلیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لاکھوں روپے پٹرول کی مد میں وصول کئے گئے۔ عطاءالحق قاسمی کو سرکاری گھر میں لفٹ بھی لگوا کر دی گئی، یہ ساری باتیں تحقیقات میں سامنے آ جائیں گی، اگر یہ رقم زیادہ ہوئی تو سب کو بھرنی پڑے گی، جس نے تقرری کی ہے سب سے رقم وصول کریں گے، دو سال میں 24لاکھ روپے کے اخراجات تفریح کی مد میں ہیں، لاہور کے کیمپ آفس میں کتنے اخراجات آئے؟سیکرٹری اطلاعات نے بتایا کہ 11لاکھ روپے کیمپ آفس کے اخراجات آئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اصلاحات کا وقت آ گیا ہے، جہاں جہاں غلطیاں ہوئی ہیں اصلاح کریں گے عطاءالحق قاسمی کے نام کا خیال یا خواب کیسے آیا؟ عدالت نے ایف بی آر سے عطاءالحق قاسمی کے 10سالہ گوشوارے طلب کرلئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے وہ بندہ چاہیے جسے عطا الحق قاسمی کے نام کا خیال کیا، اس دوران ڈی جی ایف آئی اے کو بھی بلا لیتے ہیں، عطا الحق قاسمی نے تنخواہ کی مد میں کتنی رقم وصول کی؟ سیکرٹری اطلاعات نے بتایا کہ ان کی تنخواہ 15لاکھ تھی، ساڑھے تین کروڑ روپے تنخواہ دو سال میں وصول ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ساڑھے تین لاکھ روپے میڈیکل کے اخراجات ہیں، سفری اخراجات 10لاکھ روپے ہیں، عطا الحق قاسمی کو مہنگی گاڑی دی گئی، گاڑی کی دیکھ بھال کے اخراجات کس قانون کے تحت دیئے گئے؟کیا پی ٹی وی کے ڈائریکٹر کےلئے کوئی اہلیت ہے؟کیا کابینہ سے ڈائریکٹرز کی تعیناتی کی منظوری لی گئی۔ رانا وقار نے بتایا کہ چیئرمین کی تقرری وزیراعظم نے دی، وزیراعظم نے یہ منظوری بطور ایگزیکٹو دی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ بورڈ کو بتایا گیا کہ وزیراعظم عطا الحق قاسمی کے پروگرام کی ویڈیو بھی منگوالیں، پی ٹی وی بورڈ میٹنگ کا ریکارڈ بھی منگوالیں، عطا الحق قاسمی کی تنخواہ کس نے مقرر کی یہ بھی منگوا لیں، دیکھنا ہے کہ پروگرام میں کون سے کھوئے ہوئے گوہرنایاب ڈھونڈے گئے۔ بورڈ کے الیکشن دکھا دیں جس میں چیئرمین منتخب کیا گیا، جس شخص نے عطا الحق قاسمی کا نام پیش کیا اس کا بھی بتا دیں، جمہوریت کوئی بادشاہت نہیں ہے، جمہوریت قانون کے مطابق ہوتی ہے، قانون کی بالادستی اور حکمرانی کو یقینی بنائیں گے۔ ناصر جمال نے عدالت کو بتایا کہ مجھے بتایا گیا کہ عطا الحق قاسمی کا نام فائنل ہوا ہے، مجھے ایڈیشنل سیکرٹری نے سمری موو کرنے کو کہا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ عدالت کو مکمل دستاویزات نہیں دی گئیں، عطا الحق قاسمی کو براہ راست چیئرمین کیسے لگایا جا سکتا ہے، روزانہ کے تحت پہلے عطا الحق قاسمی کو ڈائریکٹر لگنا چاہیے تھے، فواد حسن فواد کے بولنے کی کوشش پر عدالت نے سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ پیچھے چلے جائیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے وزیراعظم ہاﺅس کا اقتدار دیکھا ہے، وزیراعظم ہاﺅس کا اقتدار اور طرح کا ہے، پیچھے ہٹ کر کھڑے ہو جائیں جہاں کھڑے ہیں یہ عدالت ہے۔ فواد حسن فواد نے جواب دیا کہ میں ایک سوال کا جواب دینے کےلئے آگے آیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ پاس کھڑے لوگوں کو دھمکانے کی کوشش کر رہے ہیں؟ اس پر رانا وقار نے عدالت کو بتایا کہ ڈائریکٹر کا اجلاس 6جنوری 2016کو ہوا تھا، عطاالحق قاسمی کی سمری 23دسمبر 2015کو منظور ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 23دسمبر 2015کو منظور ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 23دسمبر 2015کو ہی چیئرمین لگانے کی منظوری دی، رولز کے تحت ڈائریکٹرز نے چیئرمین کا انتخاب کرنا تھا، رانا وقار نے بتایا کہ وزیراعظم کی منظوری پر بورڈ آف ڈائریکٹر نے منظوری دی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا یہ قانون کے ساتھ فراڈ نہیں ہے؟بورڈ کی میٹنگ جنوری میں حکومت نے نوٹیفکیشن دسمبر میں جاری کر دیا، عطا الحق قاسمی کی 15لاکھ تنخواہ کس نے مقرر کی؟قانون میں چیئرمین کی تنخواہ اور مراعات کیا ہیں؟کیا بادشاہ ہے جتنی مرضی تنخواہ مقرر کر دی گئی؟جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ چیئرمین کا عہدہ تو اعزازی ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو سیدھا سادھا نیب کا کیس ہے نیب10دن میں کیس کی تحقیقات کر کے رپورٹ دے۔ سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید نے عدالت کو بتایا کہ پی ٹی وی جب شروع ہوا تو نیوز چینل تھا، میں وزیر بنا تو پی ٹی وی پروگرام مارکیٹ سے خریدتا تھا، کوشش تھی کہ پی ٹی وی اپنی پروڈکشن کرے، عطا الحق قاسمی کا نام میں نے دیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عطاءالحق قاسمی کی کارکردگی پر کوئی بات نہیں کر رہے ہیں، ہم صرف قانون کی حکمرانی دیکھ رہے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عطا الحق ادبی آدمی ہیں وہ کمپنی کیسے چلا سکتے ہیں؟پرویز رشید نے بتایا کہ کمپنی چلانے کی ذمہ داری چیف ایگزیکٹو کی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عطا الحق قاسمی کو مینجمنٹ کا تجربہ نہیں تھا، پرویز رشید نے بتایا کہ کوشش تھی ایسا چیئرمین آئے جو پی ٹی وی کو کلچرل ویلیو دے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ جو گفتگو کر رہے ہیں اس کے قانونی نتائج ہوں گے، تمام دستاویزات منگوالیتے ہیں، اس کیس کا فیصلہ خود کریں گے تمام فریقین جواب جمع کرا دیں۔ عدالت نے ڈی جی آئی پی ونگ ناصر جمال سے بھی بیان حلفی طلب کرلیا، ممبر ٹیکس ایف بی آر عائشہ حامد بھی سپریم کورٹ پیش ہوئیں،چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا عطاالحق قاسمی ایم ڈی کی ذمہ داریاں ادا کرتے تھے۔عائشہ حامد نے بتایا کہ عطاالحق کی 15لاکھ تنخواہ اور دیگر مراعات تھیں۔ عدالت نے کہا کہ مقدمہ زیر التواءہے اس لئے سیکرٹری اطلاعات کو عہدے سے نہ ہٹایا جائے۔ چیف جسٹس نے فواد حسن فواد کو روسٹرم پر بلالیا۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پرنسپل سیکرٹری کی کیا ذمہ داریاں ہیں، میں سیکرٹری ٹو وزیراعظم تھا، صاف ستھرے بیورو کریٹ ہیں، کیا آپ نے سمری دیکھی تھی، فواد حسن فواد نے بتایا کہ ہم نے ان کو چیئرمین بنانے کا حکم نہیں دیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نیب ریکارڈ کا جائزہ لے رہے ہیں، کیس کی سماعت 21فروری تک ملتوی کر دی گئی ہے۔

 

ملیحہ لودھی کامنفرد اعزاز

نیویارک (نیٹ نیوز) اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی کا نام دنیا کی 5 کامیاب ترین خواتین سفارتکاروں کی فہرست میں شامل کرلیا گیا۔روس میں 10 فروری کو سفارتکاروں کے عالمی دن کے موقع پر روس کی سرکاری ویب سائٹ پر جاری فہرست کے مطابق پاکستانی مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی مسلمان ممالک میں مقبول ترین خاتون شخصیت ہیں۔ڈاکٹر ملیحہ لودھی دو مرتبہ امریکا میں پاکستانی سفیر تعینات رہیں اور اس کے علاوہ وہ برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر کے عہدے پر بھی اپنے فرائض انجام دے چکے ہیں۔انہوں نے امریکہ میں پاکستان کی سفیر کی حیثیت سے 1993 سے 1996 اور 1999 سے 2002 تک خدمات انجام دیئے جبکہ 2003 سے 2008 تک برطانیہ میں پاکستان کی ہائی کمشنر رہیں۔ڈاکٹر ملیحہ لودھی کو فروری 2015 میں پاکستان کی جانب سے اقوامِ متحدہ میں مستقل مندوب تعینات کیا گیا تھا اور اس عہدے پر وہ اس وقت بھی براجمان ہیں۔ملیحہ لودھی جنوبی ایشیا کی پہلی خاتون ہیں جو کسی اخبار کی ایڈیٹر رہی ہیں۔اس فہرست میں روس کی سفارت کار الیانورا مترافونوا سرِ فہرست ہیں، جبکہ دیگر خاتون سفارتکاروں میں کرغیزستان کی روزا اتن بائیوا، ہالینڈ کی رینے جونزبوس اور سوئیڈن کی ایلوا ماڈال شامل ہیں۔روسی سفارت کار الیانورا مترافونوا اس وقت روس کی وزارت خارجہ میں سفیر کے فرائض انجام دے رہی ہیں جبکہ وہ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس اور ثقافت (یونیسکو) کے امور کی نگراں بھی ہیں۔فہرست میں شامل کرغیزستان کی سفارتکار روزا اتن بائیوا کرغیزستان کی تیسری صدر رہ چکی ہیں جبکہ انہوں نے ملک کی وزیر خارجہ کی حیثیت سے بھی اپنے فرائض انجام دیئے۔ہالینڈ کی سفارت کار رینے جونزبوس 2016 سے روس میں سفیر کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔فہرست میں شامل سوئیڈن کی ایلوا ماڈال 1986 میں انتقال کر گئیں تھیں تاہم ان کا نام بھی ویب سائٹ نے نامور خاتون سفارتکاروں میں شامل کیا۔ایلوا ماڈال ایک سیاسی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور انہوں نے جنگ عظیم دوم کے بعد اپنے ملک کے حالات کو احسن انداز میں سنبھالا، انہیں 1982 کو نوبیل انعام سے بھی نوازا گیا۔

 

لودھراں الیکشن ، عاجزی نے تکبر کو شکست دیدی , حقائق نے سب کو چونکا دیا

ملتان (سجاد بخاری سے) عاجزی نے تکبر کو شکست دے دی۔ براہ راست رابطہ جیت گیا اور تنخواہ دار ملازمین کے ذریعے ووٹروں سے رابطے بری طرح پٹ گئے۔ نہ دولت کام آئی اور نہ سوشل میڈیا کی مہم ‘ عبدالرحمن کانجو کی محض دس دن کی انتخابی مہم نے پانسہ پلٹ کر رکھ دیا اور تمام تر الیکشن اپنے سر پر لڑا۔ ن لیگ کی مرکزی قیادت حلقہ سے دور رہی جبکہ دوسری پی ٹی آئی مرکزی قیادت سمیت ملک بھر سے تمام اہم عہدیدار حلقہ میں موجود رہے اور دعوتیں اڑاتے رہے۔ عبدالرحمن کانجو نے ایک ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا اور سب سے پہلے تمام ناراض گروپوں کو راضی کیا جو کہ صرف اور صرف عبدالرحمن ہی کر سکتا تھا۔ حلقہ 154 کے عوام نے ثابت کر دیا کہ ذاتی تعلق دولت کی تقسیم اور ووٹوں کی خریدو فروخت پر بھاری ہے اور ووٹ آج بھی رواداری اور ذاتی تعلق کو ملتے ہیں۔ ملک بھر کے تجزیہ نگار اپنے تجزیوں سمیت دھڑم گرگئے اور انتخابی نتائج نے ثابت کر دیا کہ تشہیر نما تجزیئے اور اشتہاری کمپنیوں کی منصوبہ بندی ذاتی رابطوں کو ہرا نہیں سکتی۔
شکست

نا اہلی کے بعد اسحاق ڈار کی دبنگ انٹری

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) ن لیگ کے رہنما اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ سینٹ الیکشن کےلئے میرے دو فارم جمع کرائے گئے ایک ٹیکنوکریٹ اور دوسرا جنرل سیٹ کےلئے تھا۔ جنرل سیٹ کےلئے ہر پارٹی ایک کورنگ امیدوار رکھتی ہے۔ میں ٹیکنوکریٹ سیٹ پر سنیٹر بنتا ہوں۔ دونوں کاغذات نامزدگی فارم کو مسترد نہیں کیا جاسکتا تھا۔ الیکشن کمیشن نے جو کیا سمجھ سے بالاتر ہے، الیکشن کمیشن والے زیادہ مجبور لگتے ہیں۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ 11جنوری کو میری گردن کی ٹریٹمنٹ ہوئی اور 6 ہفتے بعد دوبارہ چیک کرنے کا وقت دیا گیا جس کے پورا ہونے کے انتظار میں ہوں، صحت بہتر ہوتے ہی وطن واپس جاﺅں گا۔ الیکشن لاء2017 کے مطابق کوئی بھی الیکشن ہو تو امیدوار کو بتانا ہوتا ہے کہ فلاں بینک میں فلاں نمبر اکاﺅنٹ سے الیکشن اخراجات کیے جائینگے۔ مجھے کہا گیا کہ دونوں فارموں کےلئے ایک اکاﺅنٹ دو اس لئے فارم مسترد کررہے ہیں جو میری سمجھ سے بالا ہے۔ چند ماہ میں مجھے لگنے والے مختلف شاکس میں ایک اور شاک کااضافہ ہوا ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے پر وکلاءبھی ہنس رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن میرے دونوں فارمز کو مسترد نہیں کر سکتا تھا اسے ایک فارم رکھنا چاہیے تھا۔ اگر الیکشن کمیشن میرے جنرل سیٹ والے فارم کو مسترد کرتا ہے اور ٹیکنوکریٹ فارم منظور کرتا ہے تو اپیل میں جانے کی ضرورت نہ ہوگی بصورت دیگر اپیل میں جاﺅں گا اور امید ہے کہ کامیابی میری ہوگی۔

خبریں واحد اخبار جس نے حافظ آباد بون میرو کی خبر سب سے پہلے چھاپی

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ضیا شاہد کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ شیخ رشید کی درخواست سپریم کورٹ میں نامنظور نہیں ہوئی بلکہ انہیں درست جگہ جانے کو کہا گیا ہے۔ ایل این جی کا کیس بھی اسی قسم کا ہے جس طرح نوازشریف کے بارے کرپشن اور مالی بدعنوانی کے مقدمات تھے۔ سپریم کورٹ کوئی تفتیشی ادارہ نہیں ہے۔ اگر شیخ رشید کسی ماہر قانون دان سے مشورہ کرتے تو وہ بھی انہیں نچلی عدالت میں جانے کو کہتا۔ سپریم کورٹ جانے سے قبل نچلی عدالتیں مقدمات دیکھتی ہیں۔ شیخ رشید نے حدیبیہ کیس کے بارے کہا تھا کہ میاں شہباز شریف کے خلاف یہ فائنل کیس ہو گا۔ اس وقت بھی سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا کہ اس سنا نہیں جا سکتا کیونکہ اس میں ملزم صاف بَری ہو چکے۔ لہٰذا شیخ رشید کو اب نیب میں جانا پڑے گا۔ وہاں سے جس پارٹی کے خلاف فیصلہ آئے گا وہ سپریم کورٹ میں جائے گی۔ قانون کے تحت سپریم کورٹ پہنچنے کے لئے درجہ بہ درجہ نچلی عدالتوں میں کہیں سنے جاتے ہیں۔ بعض اوقات سپریم کورٹ یہاں ریفر کرتی ہے کہ ”آپ سیشن کورٹ میں جائیں!“ کیوں وہ ٹرائل کورٹ سے اس طرح ہائیکورٹ بھی ٹرائل کورٹ ہے۔ وہاں فیصلے ہونے کے بعد لوگ اپیلوں کیلئے سپریم کورٹ جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ سے سپریم کورٹ نے سو موٹو ایکشن لینا شروع کر دیئے ہیں۔ خبر یہ آئی ہے کہ سپریم کورٹ نے ایف بی آر کو خبردار کیا ہے کہ عطاءالحق قاسمی کے پچھلے دس سالوں کے ریکارڈ لے کر آئیں۔ یہ کیس کسی ادارے یا شخص نے نہیں کیا ہوا بلکہ سماعت کے دوران جو حقائق سامنے آئے ہیںاس پر چیف جسٹس صاحب نے احکامات جاری کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کس نے یہ سمری منظور کی اسے پیش کیا جائے۔ وہ سمری نوازشریف صاحب کے پاس گئی تھی انہوں نے منظوری دی اور وہ ”اپوائنٹ“ ہو گئے۔ آہستہ آہستہ باقی چیزیں بھی سامنے آئیں گی۔ میں نے نکتہ نظر کے عنوان سے اپنے اخبار میں اس کی تفصیل بھی شائع کی ہیں۔ ایم کیو ایم کے لوگوں کے اندر زبردست اداکارانہ صلاحیتیں موجود ہیں۔ جس طرح فلموں میں اداکارائیں آنکھوں میں گلیسرین ڈال کر روتی ہیں اسی طرح مرد بھی آنسوﺅں کیلئے اسے استعمال کرتے ہیں۔ پہلے فاروق ستار روئے، عامر خان بھی روئے۔ فیصل سبز واری بھی روئے۔ لگتا ہے یہ بھی گلیسرین استعمال کرتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ایم کیو ایم کے لوگ اچھے اداکار ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان کے قائد تحریک بھی چار پانچ گھنٹے کی فلم میں سب کچھ ہوتا تھا۔ مزاح، گانا، پھل چھڑی، رونا، آنسو سب کچھ ہوتا تھا۔ اس طرح ان سب کی تربیت بھی ایسی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر عاصم، اتنے چارجز کے باوجود عدالت سے صاف ہو کر آ گئے ہیں۔ اب ان کا اکڑنا اور ایم کیو ایم کو پی پی پی میں شامل ہونے کی دعوت درست ہے۔ ان پر بہت سنجیدہ اور تفصیلی الزامات لگے تھے۔ ہسپتال کے نقشے سے لے کر ایم کیو ایم کے بھگوڑوں اور دہشت گردوں کے علاج کے الزامات بھی ان پر لگے تھے۔ اب معلوم ہوا کہ تمام الزامات غلط ثابت ہو گئے ہیں۔ ایم کیو ایم کے بارے ہم پہلے بھی کہہ رہے تھے کہ اس کے چار ٹوٹے ہوں گے۔ اب ایم کیو ایم پاکستان کے دو دھڑے بننے جا رہے ہیں۔ فاروق ستار اور عامر خان کے عزائم بالکل مختلف ہیں۔ دونوں گروپوں کے پروگرام مختلف ہیں۔ فاروق ستار کی نظر ٹیسوری کے پیسوں پر تھی۔ سب لوگ کہہ رہے تھے کہ انہوں نے مالدار آسامی پکڑی ہے۔ موجودہ نتائج کے مطابق ایم کیو ایم کے سارے اہم لوگ اس جانب ہیں اور فاروق ستار کے ساتھ نہیں ہیں۔ الطاف حسین بالکل ننگا ہو گیا اور ہاتھ بڑھا بڑھا کر اسرائیل اور ”را“ کو مدد کیلئے پکارتا رہا۔ راولپنڈی میں جب ہمارے اداروں نے اس کی حرکت دیکھی ہو گی تو اس نے سیاست سے چھٹی کروانے کی ٹھان لی ہو گی۔ جب الطاف حسین کے خلاف ایکشن ہوا تو وہی لوگ جو میڈیا ہاﺅں پر ہلا بولتے تھے اب بھیگی بلی بن کر بیٹھے رہے۔ لاہور ہائیکورٹ کے ایک حکم کے حت ان پر پابندی سے وہ ضم ہو گیا۔ اس کی پارٹی کا ایک حصہ توڑ کر مصطفی کمال کے سپرد کر دیا گیا۔ لوگوں نے اپنی سیٹیں چھوڑ کر پی ایس پی میں شمولیت اختیار کی۔ مصطفی کمال اور اس کے ساتھی کھلم کھلا الطاف حسین کو گالیاں دیتے تھے۔ فاروق ستار نے باقیات کو جوڑے رکھا یہ کہہ کر تمہاری سیٹیں محفوظ رہیں گی نعرے لگایا کہ مہاجر ہو تو ایم کیو ایم میں آﺅ۔ اب اس کے بھی دو حصے بنا دیئے گئے۔ اب لوگ رو رہے ہیں کہ ہائے ایک دوسرے سے ”جپھی“ نہیں ڈال سکتے جس نے اس فلم کا سکرپٹ لکھا ”اس کو سلام“ اب یہ واپس نہیں ہونے والا۔ عاصمہ جہانگیر سیاسی تفکرات سے میں کبھی متفق نہیں رہا۔ اس کے باوجود ایک وکیل کی حیثیت سے انہوں نے اچھا مقام حاصل کیا۔ بھٹو کے آخری ایام میں وہ سرگرم تھیں اور رٹ بھی ان کی جانب سے دائر ہوتی تھی۔ نجم سیٹھی اور عاصمہ جہانگیر کو پرو انڈین لابی میں شامل کیا جاتتا ہے۔ جو کہتے تھے بھارت اور پاکستان کے درمیان ویزہ ختم ہونا چاہئے۔ مرجانے والا شخص جو اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ اس کا فیصلہ خدا کی عدالت میں ہو گا کہ وہ اچھا تھا یا بُرا۔ عاصمہ جہانگیر سپریم کورٹ بار کی صدر رہیں۔ اچھی قانون دان تھیں۔ چند دن پہلے میں اور طلال اشتیاق ہمارے رپورٹر ان سے ملنے گئے اور تین گھنٹوں تک ان سے ملاقات کی۔ بہت سال پہلے مستوئی میں مختاراں مائی کا کیس ہوا تھا۔ میں اس کیس میں سب سے پہلے پہنچا۔ میرے آنے کے ڈیڑھ گھنٹہ بعد عاصمہ جہانگیر سڑک پر سفر کر کے وہاں پہنچی۔ میانوالی میں ایک ونی کا کیس ہوا۔ جس میں چھوٹی چھوٹی بچیوں کو ونی (غلام) بنا کر دوسروں کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ وہاں جب شور مچا تو میں نے اپنے دوست گورنر پنجاب خالد مقبول سے کہا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ انہوں نے مجھے اور وزیر قانون (اعجاز) کو اپنے ذاتی طیارے پر وہاں جانے کو کہا۔ ہم جہاز پر وہاں پہنچے اور عاصمہ سڑک پر سفر کر کے وہاں پہنچی۔ جہاں بھی دکھ تکلیف ہوتی تھی وہ وہاں پہنچتی تھیں۔ مولوی صاحبان ان کے خلاف ہوتے تھے۔ کیونکہ انہوں نے ایک مولوی کی لڑکی جس نے مرضی کی شادی کی تھی۔ ان کے پاس پناہ لی۔ مولوی صاحبان ان کے سخت خلاف ہو گئے۔ اب یہ بحث کہ ان کی نماز جنازہ کی امامت کس سے کروائیں گے یہ ایک فضول بحث ہے۔ بحرحال یہ دیکھنا چاہئے کہ کوئی کوتاہی تو نہیں ہوئی جس کی وجہ سے ان کی جان گئی۔ میں تو عاصمہ جہانگیر کی بہت عزت کرتا ہوں یہ آگرہ بھارت ساتھ گئی تھیں جب مشرف کے مذاکرات واجپائی صاحب کے ساتھ طے تھے یہ سارا دن ہمارے ساتھ رہیں۔ وہ ایک سچی، جرا¿ت مند اور بہادر خاتون تھیں۔ انہوں نے ڈٹ کر مولویوںکا بھی مقابلہ کیا۔ جب سلمان تاثیر نے کرسچین لڑکی کی حمایت کی تو ان کے خلاف قتل کے فتوے دے دیئے گئے۔ اس کے نتیجے میں سلمان تاثیر گولی کا نشانہ بنے۔ عاصمہ نے ڈٹ کر مخالفین کا سامنا کیا۔ میں انہیں سلوٹ کرتا ہوں۔ بچیوں کے بون میرو کی سٹوری سب سے پہلے ہمارے اخبار نے بریک کی اور ہمارے چینل نے یہ سٹوری بریک کی۔ احمد پور شرکیہ میں پٹرول ٹیکسز جب الٹ گیا تھا۔ اور لوگ پٹرول لوٹنے کے لئے وہاں اکٹھے تھے۔ اور ایک شخص نے سیگریٹ پھینک دی جس سے کئی لوگ خاکستر ہو گئے تھے۔ میں نے اس وقت بھی مضمون لکھا تھا کہ اس کی وجہ غربت ہے میں حکمرانوں کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ جھوٹے دعوﺅں سے کچھ نہیں ہو گا۔ بیچارے غریب ماں باپ اپنی بچیوں کو بون میرو نکلوانے کیلئے خود بھیجتے تھے کیونکہ اس سے 40 ہزار روپے ملتا تھا۔ ایک خاکروب کے ذریعے یہ سلسلہ چل رہا تھا معلوم نہیں آگے سے کتنے پیسے وصول کرتے ہوں گے۔ اصل دین اور مذہب تو یہ ہے کہ حدیث مبارکہ کے مابق سونے سے پہلے اپنے دائیں بائیں آگے پیچھے سات گھروں تک تحقیق کرو کہ کوئی بیمار تو نہیں کوئی بھوکا تو نہیں۔ کسی بچی کی شادی تو نہیں ہونے والی۔ کوئی مقروض تو نہیں۔ کوئی ایسا تو نہیں جو فاقے سے ہو۔ حضرت عمر فاروقؓ کا قول تھا کہ دریائے نیل کے ساحل پر اگر ایک کتا بھی پیاس سے مر گیا تو میری اوپر کے جہان میں پرزش ہو گی۔ آج کے حکمرانو! سن لو رسول پاک کے اقوام ہمارے لئے حتمی ہیں۔ وہاں پرویز خٹک، مراد علی شاہ، شہبازشریف کوئی اور صاحب ہوں انہوں نے دوسرے جہان جا کر اپنے اقتدار کا حساب دینا ہے۔ میاں شہباز شریف آپ نے بھی اس بات کا اطمینان کرنا ہے کہ کسی گھر میں کوئی مجبور بچی تو نہیں جسے زبردستی گودا دینے پر مجبور کیا جا رہا ہے تا کہ وہ پیسے لے کر گزر اوقات کر سکے۔

 

سرائیکی لیڈروں سے چند گزارشات (2)

ضیا شاہد ……..خصوصی مضمون

دوسری طرف اس میں کوئی شبہ ہیں کہ ج وبی پ جاب میں رہ ے والے پ جابی اردو سپیک گ مہاجر، روہتکی، بلوچ، پٹھا وغیرہ اپ ے علاقے صوبے کے قیام کے حامی ہیں تاکہ ا ہیں قومی وسائل میں سے آبادی کے مطابق ف ڈ مل سکیں اور ا ہیں لاہور ہ جا ا پڑے اس سلسلے میں رحیم یار خا ہو یا ڈیرہ غازی خا اور جام پور ا علاقوں کے لوگوں کوچھوٹے کاموں کیلئے بھی لاہور کا سفر کر ا پڑتا ہے جو دس، گیارہ گھ ٹے میں مکمل ہوتا ہے۔ وہ بھی اس شرط پر کہ کوئی براہ راست گاڑی یا بس مل جائے۔ سرائیکی لیڈر اگر سرائیکستا کا شور ہ مچاتے جس اصطلاح کے بعض ا سرائیکل لوگ خوفزدہ ہوتے ہیں تو ملتا ، مظفرگڑھ، ڈی جی خا میں ملتا ، وسیب، پ ج د وغیرہ کا ام استعمال کیا جاتا تو علاقے کے کئی زبا یں بول ے والے اس مہم میں شامل ہوسکتے تھے۔ لیک سرائیکی لیڈروں کے شور شرابے سے ا سرائیکی خوفزدہ ہو جاتے ہیں کہ سرائیکیوں کا صوبہ ب ا تو ا سرائیکی بی کلاس شہری ہ ب جائیں۔ سرائیکی ت ظیموں اور لیڈروں میں مجھے کوئی ایک بڑا ام ایسا ظر ہیں آتا جس کے پیچھے سب لگ سکیں، اکثر جماعتیں اور ت ظیمیں لیٹر پیڈ کی حد تک محدود ہیں جس پر بیا لکھ کر چھپوائے جاتے ہیں۔ یہی بات چ د سال پہلے میں ے کالم گار ظہور دھریچے کو سمجھا ے کی کوشش کی تو اتحاد کے ام پر اپ ی ئی سیاسی جماعت کھڑی کر دی اور خود سربراہ ب بیٹھے۔ہمارے دوست دھریجہ صاحب کی ایک ہی د میں پا چ مختلف شہروں سے خبریں آئیں تو میں ے ملتا آفس میں یوز ایڈیٹر کو مذاق میں فو کیا اور پوچھا کہ کیا ا کے پاس ہیلی کاپٹر ہے؟ وہ خا پور سے ملتا آ رہے تھے وہ جس جس شہرسے گزرتے وہاں سے لیٹر پیڈ پر ا کے ”ارشادات عالیہ“ خبریں دفتر پہ چ ے لگے۔ یہی ہیں بلکہ بعض سیاسی پارٹیوں یا ت ظیموں کے لیٹر پیڈ روز امہ ”خبریں“ ملتا کے بعض سابقہ کارک وں کے پاس بھی تھے جب وہ ”خبریں“ سے م سلک تھے۔قارئی بحث کاخلاصہ یہ ہے کہ سرائیکی دوستوںکوپس د ہویا ہ ہوبہت سے غیرسرائیکی لوگ اس خطے میں آباد ہیں اور1947ءسے2017ءتک ا ہوں ے مالی طورپر کافی وسائل جمع کرلئے ہیں اور اب کسی بھی الیکش میں اگر آپ سرائیکی عرہ لگا کر میدا میں اترتے ہیں تو سارے ا سرائیکی اس کے مقابلے میں اکٹھے ہو جائیں گے اورآپ کے لئے سیٹ کال ا مشکل ہوجائےگا۔ سرائیکی مشاورت میں بعض دوستوں کاخیال تھاکہ بعض حلقے بالخصوص ایم پی اے کی حد تک جو ایم ای اے کے حلقے سے چھوٹا ہوتاہے ہم سرائیکی کے ام پر سیٹ جیت سکتے ہیں لیک شاید کسی ایک شریک گفتگو کوبھی میں ے یہ دعویٰ کرتے ہیں دیکھا کہ ہم ایم ای اے کی سیٹ پربھی کامیاب ہوسکتے ہیں۔ بعض دوستوں ے یہ رائے دی کہ ہم سرائیکستا کے ام پر الگ صوبے کے لئے جدوجہد کریںگے تو بہت سے ا سرائیکی بھی ہمارا ساتھ دیں گے اس دوست کادعویٰ تھا کہ کئی حلقوں میں بھی روہتکی ،پ جابی ،اردو، مہاجریا بلوچ وغیرہ بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ میں یہ طے ہیں کرسکتاکہ اس دعویٰ میں صداقت ہے یا ہیں؟ لیک میرا فرض ب تاہے کہ اپ ے سرائیکی دا شوروں سے یہ حقیقت بیا کروں کہ ہوسکتا ہے کہ کچھ غیرسرائیکی آپ کے ساتھ ہوں لیک جب آپ سرائیکستا کا عرہ مستا ہ لگاکر میدا میں آئیں تو غیرسرائیکی لوگوں میں ایسے بہت سے حضرات مخالفت بھی کریں گے کیو کہ ا ہیں یہ خوف پیدا ہوگاکہ یہ خوف بہرحال علاقے میں پایا جاتاہے کہ سرائیکستا ب ے کی صورت میں غیرسرائیکی بہرحال خود بی کلاس کلاس شہری ہ ب جائیں ۔ اکثر سرائیکی دا شور‘ ادیب‘ شاعر اورسیاستدا اصرار کرتے ہیں کہ وہ ہرگزمتعصب ہیں ہیں وہ کہتے ہیں اس علاقے کو سرائیکستا کا ام دی ا ضروری ہے کہ جس طرح بلوچستا میں غیربلوچی‘ س دھ میں غیرس دھی‘ پ جاب میںغیرپ جابی اورخیبرپختو خوا میں غیرپٹھا لوگ بھی آباد ہیں اورصوبے کا ام ا کی ترقی یا خوشحالی میں ہرگز کوئی رکاوٹ ہیں ہے۔ اس دلیل میں وز ہے لیک کیا کریں کہ کچھ ا سرائیکی بہرحال خوفزدہ ہیں۔ ”خبریں“ کے پ جابی صفحے پر ہماری اسسٹ ٹ ایڈیٹر میگزی آم ہ بٹ صاحبہ ے پ جابی کے ایک استاد کا ا ٹرویو چھاپا جس کی سرخی یہ تھی کہ” سرائیکی‘ پ جابیاں وں چ گا ئیں سمجھدے“ میں اگرچہ وسیب میں پیدا ہوا لیک پ جاب میں پلاپڑھا۔اپ ا اپ ا تجربہ مختلف ہوسکتا ہے زما ہ طالب علمی سے ہی مجھے ملتا ی بول ے والے دوست بہت پس د تھے۔ مجھے یہ زبا بھی اچھی لگتی ہے جسے اب سرائیکی کہاجاتاہے‘ مجھے اس علاقے سے واقعی پیار ہے اورمجھے تو کسی سرائیکی ے برا ہیں سمجھا‘ غیر سرائیکی دوستوں سے میری درخواست ہے کہ آپ بھی سرائیکی لوگوں سے محبت کریں‘ ا کی عزت کریں ا کی زبا اورتہذیب کو گھٹیا ہ سمجھیں جب آپ اس علاقے میں آتے ہیں تو خودکواس علاقے کاحصہ سمجھیں اور ا کے قدیم باش دوں کوہر کام میں شامل کریں‘ محبت ہی سے لوگوں کے دل جیتے جاسکتے ہیں۔ میرے خیال سے1947ءکے بعد آ ے والے دوستوں کو ذہ میں یہ بات بٹھالی ی چاہئے کہ بہرحال یہ ا صار مدی ہ تھے اور آپ مکے سے آ ے والے مہاجر جب اس مشکل وقت میں ا ہوں ے آپ کو سہارا دیا اورآپ کی آﺅ بھگت کی تو اب ا پر عرصہ حیات ت گ ہو جائے گا یہ باہر سے آ ے والے کسی شخص کے لئے م اسب ہیں لیک یہ حقیقت ہے کہ بہاولپور کے اس استاد ے سہی کہایا غلط سوشل میڈیا پر ا کی وہ درگت ب ائی گئی اور ٹیلی فو پر ا کو ات ی دھمکیاں دی گئیں کہ موصوف ے سوشل میڈیا پرہی ا کار کردیا کہ میں ے یہ جملے ہیں کہے تھے یہ لیکچرار صاحب جا لیں کہ ہم اس مسئلے کو ب یاد ب اکر جلتی پرتیل ہیں ڈال ا چاہتے‘ ہم تو خلوص اور محبت سے دلوں کو جوڑ ا اور پاکستا کی سرزمی پربس ے والے ہر زبا اورہر سل کے لوگوں کو سماجی‘ سیاسی اورمعاشرتی ا صاف دلا ے کے حق میں ہیں۔ جب ہم کہتے ہیں ”جہاں ظلم‘ وہاں خبریں“ تو مظلوم کے بارے میں ہمارا کوئی ماءدہ تک یہ ہیں پوچھتا کہ بھائی آپ کی قومیت کیاہے؟ ذات کیاہے؟ زبا کو سی بولتے ہو؟ ایسے مواقع بھی آئے کہ ظالم جس بھی قبیلے‘گروہ یا ذات‘ برادری سے کلا ہم ے ڈٹ کر اس کی مخالفت کی۔ ظالم‘ظالم ہوتا ہے۔ سرائیکی‘پ جابی‘ روہتکی یا بلوچ ہیں ہوتا۔ ہمارے پاس لیکچرار صاحب کی گفتگو کی پوری ریکارڈ گ موجود ہے لیک آم ہ بٹ ے ا سے پوچھا تو شریف ال فس ا سا ے کہاکہ میں ے اس علاقے میں رہ ا ہے اورجو بات میں ے کہی تھی اسے آپ ے جس طرح چھاپا اس پر مجھے گالیاں پڑ رہی ہیں۔ میں آپ سے معافی چاہتا ہوں یہ میری مجبوری تھی میں مقامی خاص طورپر سرائیکی لوگوں سے ہیں لڑسکتا‘ میں بچوںکو پڑھاﺅں یا اپ ی جا بچاﺅں۔ ہم بہاولپور کے پریس کلب میں ا کی کیسٹ کو س وا سکتے ہیں لیک اس بیچارے سے ہمیں کیا دشم ی ہوسکتی ہے۔ ہاں البتہ ا متعصب سرائیکی لوگوں سے مجھے یہ کہ ا ہے کہ آپ کایہ بغض آپ کے علاقے میں ئے صوبے کے قیام کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اگر کسی استاد ے یہ کہہ دیاکہ سرائیکی ہمیں اچھا ہیں سمجھتے تو کیا حرج ہے؟ میں آپ کی جگہ ہوتا تومیں اسے خط لکھتا‘ خود جا کر ملتا اورکہتا کہ ہم آپ کی عزت کرتے ہیں‘ ہم تو آپ سے پیار کرتے ہیں‘تم ہم سے کس لئے خفا ہیں؟ ج سرائیکی جیالوں ے ا ہیں ٹیلی فو کالوں میں گالیاں اور دھمکیاں دیں ا ہوں ے خواجہ فرید کی تعلیمات سے ا کار کیا۔ا کے علاقے ملتا قلعہ کہ ہ میں دوعظیم الشا روحا ی شخصیات کے مزار ہیں۔ پہلے بہاﺅالدی زکریا اور دوسرے شاہ رک عالمؒ‘ ا بزرگوں کے مزارات پر حاضری دی ے کے لئے میں ے بچپ میں ا درو س دھ تک سے عقید ت م دوں کو ملتا کی ٹ کے ریلوے اسٹیش سے گے پاﺅں اترتے اورقلعہ کہ ہ تک پیدل چلتے ہوئے دیکھاہے ایک زما ے میں ملتا کالفظ اکیلا ہیں بولا جاتاتھا بلکہ ملتا شریف لکھتے اوربولتے تھے دیگر متعدد بزرگوں‘ ہستیوں کے طفیل اس علاقے میں روحا یت کے سلسلے بہت پرا ے ہیں اورملتا ی جسے اب سرائیکی کا ام دیاگیاہے ہم اپ ے بچپ ہی سے ملتا کے ساتھ مدی تہ الاولیاءکے الفاظ لکھے ہوئے دیکھتے رہے۔ محبت‘ ام ‘ رواداری‘ مظلوم سے پیار اور ظالم سے فرت بزرگوں کی دی ہوئی تعلیم کے سبب پیدا ہوئی۔ آج اس زبا کے بول ے والوں میں فرت‘تعصب‘ جاہلیت زیب ہیں دیتی یہ تو محبتوں کی سرزمی ہے۔ یہ رشدوہدایت کی ترغیب دی ے والوں کے طفیل باہمی روداری سب سے بڑا اللہ کافضل ہے جو یہاں ودیعت کیاگیا۔ سرائیکی دوست جا لیں کہ اگر ا میں محبت اور رواداری ہیں تو میرے خیال میں وہ سرائیکی ہی ہیں میں ے اپ ے بچپ میں دوستوں‘ محلے والوں کی ماﺅں سے پیار لئے ہیں۔ ملتا ی زبا میں وہ ات ی شفقت سے ہمیں اپ ے بیٹوں کے کلاس فیلوز کو اپ ے جگر گوشوں کے ہم پلہ سمجھتی تھیںمیںا ماﺅں‘ چاچیوں اورپھوپھیوں کو کیسے بھول سکتا ہوں۔ میرے دل میں یہ زبا بول ے والوں کے لئے محبت اصل میں استادوں‘ محلے کے بزرگوں‘ مقامی دوستوں کی امیوں کی دی ہوئی محبت ہے جسے میں اس علاقے کے لوگوں کوقرض سمجھ کرلوٹا رہا ہوں۔شاید میرے یہی خیالات تھے جب مظفرگڑھ سے چار وکلاءمجھے مل ے آئے وہ سرائیکی کاز کے زبردست حامی تھے اور ا کے خیالات اس ا تہا کو چھورہے تھے کہ ا ہوں ے مجھے بریف کیا کہ کت ی تحصیلوں میں وہ ریسرچ مکمل کرچکے ہیں کہ ہ دوکی چھوڑی ہوئی یاسرکاری طورپر خالی زمی وں کو باہر سے آ ے والوں کو کس فیاضی سے الاٹ کیاگیا۔ وہ مصر تھے کہ یہ کام پورے ج وبی پ جاب میں ہو ے والا ہے لیک فی الحال ضلع مظفر گڑھ میں اپ ی ریسرچ مکمل کر ے کے بعد وہ ایک سرائیکی جماعت کے پلیٹ فارم سے مطالبے بھی کریں گے اور عدالتوں میں بھی جائیں گے کہ یہ الاٹ م ٹس م سوخ کی جائیں۔ میں ے ا ہیں سمجھا ے کی کوشش کی کہ فرت کی ز بیل سے کل ے والے ا دعوﺅں سے گلی‘ گلی ‘کوچے کوچے لڑائی پھیل جائے گی کیو کہ ستر سال سے جو جہاں بیٹھا ہواہے اب اسے قبول کر اچاہئے۔ علاقے کی ترقی اور زراعت کی بہتری کاتقاضا یہ ہیں کہ مہاجر اور مقامی کی لڑائی کروائی جائے۔ مجھے معلوم ہے کہ دھریجہ صاحب سے لے کر عاشق بزدارتک سب کی تحریروں میں بہت یچے جاکر کہیں یہی مطالبہ کسی ہ کسی شکل میں موجود ہوتا ہے ،کیا ہم ات ے بڑے پیما ے پر خا ہ ج گی کے متحمل ہوسکتے ہیں؟دکھ تو یہ ہے کہ اس علاقے سے وزیراعظم بھی ب ے اورصدر بھی ب ے‘ وزیراعلیٰ بھی رہے اورگور ر بھی ا ہوں ے یہاں ہ ص عتی ترقی کے لئے کوششیں ہ کیں کیو کہ ہر سال یو یورسٹیوں سے کل ے والے لڑکے اور لڑکیوں کے لئے کبھی سرکاری ملازمتیں پوری ہیں ہوسکتیں‘ ص عتی اورزرعی ترقی کے تیجے ہی میں وہ کارخا ے اور تجارتی ادارے قائم ہوسکتے ہیں جو پرائیویٹ سیکٹر میں ملازمتیں مہیا کرتے ہیں۔ کیا میرے اپ ے علاقے بہاول گر میں پڑھے لکھے وجوا مجبور ہیں کہ ملازمت کراچی ملے گی یا لاہور اسلام آباد میں ،کیایہ حقیقت ہیں کہ فیصل آباد‘ سیالکوٹ‘ گوجرا والہ اور گجرات کی مقامی ص عتیں یہاں بیروزگاروں کی تعداد کم ہیں کرتیں۔ج وبی پ جاب کا سب سے بڑاپیشہ زراعت تھا اور سب سے بڑی کیش کراپ یع ی فصل کپاس ہوا کرتی تھی۔ شوگر ملوں کے سرمایہ داروں ے کپاس کی جگہ شوگر ملوں کے لئے گ اہ کی کاشت شروع کروا دی، ایک سیاسی خا دا کے وجوا ایم ای اے سے میں ے پوچھا یار تم شوگرملوں پر شوگرملیں کیوں ب اتے جا رہے ہو‘ اس ے کہا ایک شوگرملر6ہزار سے دس ہزار ووٹرآپ کو دلواتی ہے گویا آپ گھر سے ات ے ووٹ لے کر چلتے ہیں باقی پارٹی کا کچھ‘ کچھ دولت کا‘ کچھ ذات برادری کا سیٹ پکی ہوجاتی ہے۔ آج ج وبی پ جاب میں شوگر ملوں کا جال پھیلا ہوا ہے اورہائیکورٹ ے ا کی تعداد روک ے کے لئے حکم امت اعی جاری کر رکھے ہیں مگر سیا ے لوگ سابق ریاست بہاولپور کی سرحد عبور کرتے ہی س دھ میں ملیں کھڑی کرلیتے ہیں۔ گ ا پ جاب کامل س دھ کی‘ ہ گ لگے ہ پھٹکڑی اورر گ بھی چوکھا ہوا ۔دیہاتوںمیں غربت پھیل رہی ہے کہ ایک دور تھا جب دیہاتی عورتیں سال بھر کپاس کی فصل کا ا تظار کرتی تھیں، کپاس کی چ ائی سے صفائی تک ا سا ی ہاتھ استعمال ہوتے تھے اورمیں ے بچپ میں بڑی بوڑھیوں کو کہتے س ا تھا کہ کپاس کی فصل آئیگی تو بچی کاجہیز تیار ہوگا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس حما م میں سبھی گے ہیں۔ کو سی پارٹی اورکو سا گروہ بس پیسہ مل ا چاہئے چاہے، گردو پیش کے کت ے گھروں میں فاقہ ہی کیوں ہ ہو۔ج وبی پ جاب میں جس کی اصطلاح کو پڑھ کر بعض سرائیکی دوست خفا ہو جاتے ہیں میراکہ ا ہے کہ یہ صرف ش اخت کی بات ہے۔ اپ ا صوبہ ب الو گے تو ج وب کے لفظ کے ساتھ پ جاب کا لاحقہ خود ہی ختم ہو جائے گا مگر اس علاقے کے اکثر صوبہ حمایت کے لوگوںکا حال تو ایسا ہے کہ جڑ کو ہیں شاخوں کوپکڑتے ہیں اور چ د پتے توڑ کر یہ سمجھتے ہیں کہ قلعہ جڑ سے اکھاڑ دیا ۔بھائی لوگوپہلے صوبہ تو ب ا ﺅ پھر ام رکھ لی ا لیک پہلے ام پر آدھی آبادی کو مخالف ب الیں گے اورپھر اسمبلیوں میں خواہ ایک ماءدہ ہ ہوپھر بل دآواز سے عرہ لگائیں ”ساڈا سرائیکستا “اللہ کے ب دو پہلے صوبہ ب ا ے کا اہتمام تو کرو‘ بڑی سیاسی جماعتوں میں بھی آپ کے لوگوں کو جگہ مل سکتی ہے لیک کبھی آپ ے اعدادوشمار دیکھے‘ پارٹیاں بڑی پارٹیاں بھی سرائیکیوں کے ساتھ ساتھ ا سرائیکیوں کو بہت اہمیت دیتی ہیں کیو کہ ا کے ووٹ بھی درکار ہوتے ہیں اس عرے پر ہمارے مرحوم دوست تاج محمد ل گاہ ے بھی الیکش لڑا پی پی کے ٹکٹ پر 1970ءمیں کھڑے ہوئے تھے تو رات کے پچھلے پہر اکلوتے پی ٹی وی پر کبھی ل گاہ صاحب کا پلڑا بھاری ہوتا تو کبھی میاں ممتاز دولتا ہ کا آخر میں دولتا ہ جیت گئے۔تاہم تاج ل گاہ ے بھی شاید چالیس ہزار کے لگ بھگ ووٹ لئے تھے۔ وہی ل گاہ صاحب سرائیکی کا عرہ لگا کر الیکش لڑتے ہیں تو چار ہزار سے کچھ زیادہ ووٹ لئے تھے۔ فراز و ے آخر میں تحریک ا صاف کے حمایت یافتہ عامر ڈوگر کی حمایت کی تاہم ام امیدواروں کی فہرست میں چھپ چکا تھا اس لئے600کے قریب ووٹ پڑے تھے, فراز و ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں۔2018ءکے الیکش میں اگریہ پارٹی کی طرف سے کھڑے ہوتے ہیں تو شاید ہی کوئی سیٹ جیت سکیںاور اللہ واز وی س بھی کسی سے الحاق کر کے اور2018ءکے الیکش کے بعد میں ا سرائیکی دوستوں سے پوچھوں گا بھائی جا کہاں ہیں اورکس حال میں ہیں؟میں ے سرائیکی مشاورت میں بھی یک یتی سے تجویز دی تھی کہ 30ت ظیمیں آپس میں مل کر سرائیکی الاءس ب الیں اور اس الاءس کو ات ا مضبوط کریں کہ تی وں بڑی سیاسی جماعتوں کو ا سے سودے بازی کر ے کی ضرورت محسوس ہو تب کسی ایک پارٹی کے ساتھ اس شرط پر وابستہ ہوں کہ وہ صوبائی اسمبلی کی ات ی وفاقی اسمبلی کی ات ی سیٹیں سرائیکی الاءس کے لوگوں کو دے دیں اس ایک تجویز کے سوا میرے اقص ذہ میں تو اورکوئی تجویز ہیں۔ اس م تشر قوم کا ہر شخص لیڈر ب ا ہوا ہے اور دو تی بظاہر سرائیکی سیاسی جماعتیں بھی صوبائی اسمبلی کی آٹھ دس سیٹیں حاصل کرتی ہوئی دکھائی ہیں دیتیں۔ایک گزارش ج وبی پ جاب بشمول سابق ریاست بہاولپور سے م تخب ہو ے والے ایم پی اے اورایم ای اے حضرات سے بھی ہے کہ اپ ے ذاتی کام تو آپ خواب کرواتے ہو کبھی اس علاقے کی غربت دور کر ے کے بارے میں بھی سوچا؟ یوں لگتاہے کہ یہاں سے جو م تخب ہو کر اسمبلی جاتاہے ۔ صوبائی‘ وفاقی اسمبلی یا سی ٹ میں اچھا بچہ ب کر اس طرح پا چ سال پورے کرتاہے کہ ا ہیںپارٹی لیڈر اپ ی ہاتھ کی چھڑی اورجیب کی گھڑی سمجھتا ہے، میں ے احمد پورشرقیہ میں پٹرول لوٹ ے والے واقع پر ایک مضمو لکھا۔ میرا تھیسز یہ تھا کہ اس حادثے کی جس میںسی کڑوں لوگ جل مرے کی ب یادی وجہ صرف اورصرف غربت تھی۔ اگر ل د یا یویارک میں اس طرح سڑک پر تیل گرجائے تو کیا لوگ برت بھا ڈے لے کر تیل لوٹ ے کے اس ایڈ و چر میں شامل ہوجائیں گے؟ جواب آپ اپ ے دل سے لیجئے اورسرائیکی دوستوں سے ایک گلہ یہ بھی ہے 30-40عمائدی جو مشاورت میں موجود تھے ،زکریا یو یورسٹی ملتا میں لوئر مڈل کلاس کی لڑکی مرجا کو مال دار طبقے کے ظالم کابیٹا ہ صرف کلاس روم میں ریپ کرتاہے بلکہ آبروریزی کی ویڈیو ب اکر سال بھر اسے بلیک میل کرتا ہے، سرائیکی کے عرے لگا ے والے ذرہ اپ ے گریبا میں جھا کیں زکریا یو یورسٹی میں شور مچا کر سرائیکی شعبہ تو ب وا لیا مگر پڑھ ے والے لڑکے لڑکیوں کی تعداد سات ہے اورپڑھا ے والے چھ اور چھوٹے ملازم سات‘ تیرہ کاعملہ اورسات طلب علم ،ملزم علی رضا قریشی سے سترلڑکیوں کی ویڈیو فلمیں برآمد ہوئیں ج میں سے ہر ایک کے ساتھ وہ” داد شجاعت“دے رہا تھا۔ اس کی اپ ی زبا سرائیکی ہیںہے اوروہ سرائیکی بول بھی ہیں سکتا۔ لڑکی مرجا کے مطابق دو اور لڑکیوں کی قابل اعتراض ویڈیو فلمیں بھی اسی ”مرد میدا “ کے پاس تھیں۔ اس لڑکی کی ویڈیو علی رضا ے عام کردی تو بد امی سے ڈرکر یہ لڑکی پولیس کے پاس پہ چ گئی۔ مجال ہے کسی ایک سرائیکی لیڈ ر ے کئی گھ ٹے پرمشتمل مشاورت میں سرائیکی شعبے میں ب ے ہوئے ”ک جر خا ہ“ کاذکر بھی کیا ہو۔ سرائیکی شاعری پر آٹھ آٹھ گھ ٹے بیٹھ کر آ کھوں میں آ سو لا کر شعروں سے پیدا ہو ے والی مظلومیت پر رو ا ز دہ باد‘ذرا سرائیکی شعبے کا حال بھی دیکھ لو میں ے ا دوستوں سے پوچھا یار سرائیکی کے ام پر اب آپ لوگوں ے ایم اے کی کلاسیں تو شروع کروالی ہیں کچھ چ دہ جمع کرکے طالب علم ہی اکٹھا کرلو‘ یہ اعزاز صرف پاکستا میں اس شعبہ کو جاتاہے جہاں لوگ عیاشی کے لئے داخل ہوتے ہیں اوردوسرے شعبے کے لڑکیاں‘لڑکے بھی اپ ی دوستیں لے کر یہاںجھک مار ے آتے ہیں۔ ز دہ باد شعبہ سرائیکی ،پاءدہ باد سرائیکستا ۔ (ختم شد)٭….٭….٭

ویلنٹائین ڈے اور فحاشی کا استعارہ

پروفیسر فاروق عزمی….اظہار خیال
دین اسلام دین فطرت ہے اور فطرت نے انسان کو اس طرح تخلیق کیا ہے کہ اس کے بدن اور روح کے تسکین کے ذرائع اور اسباب بھی پیدا فرما دیئے ہیں۔ لیکن بدن اور روح کی سچی خوشیاں اور حقیقی تسکین اور اطمینان صرف اور صرف انہی راستوں اور طریقوں پر عمل پیرا ہو کر حاصل ہو سکتا ہے۔ جو دین برحق نے بنی نوع انسان کو ہادیِ برحق صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ذریعے ساڑھے چودہ صدیاں قبل بتا دیا تھا اور زندگی کے ہر معاملے میں رہنمائی فرما دی تھی ساتھ ہی ساتھ زندگی گزارنے کے اصول و ضوابط بھی مقرر کر دیئے تھے۔ اگر انسان اور خصوصاً مسلمان ان حدود و قیود میں رہ کر اپنی زندگی بسر کریں تو خوشی و مسرت اور حقیقی اطمینان قلب حاصل کر سکتے ہیں۔ ہم مسلمانوں کے لئے اللہ رب العزت نے ہمارے دین میں ہمارے دو تہوار (عیدین) شامل کر دیئے ہیں جو ہمارے لئے حقیقی خوشی کا پیغام لے کر آتے ہیں۔ جنہیں اگر اسلام کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق منایا جائے تو حقیقی خوشیاں بہت سادگی اور آسانی سے حاصل ہو جاتی ہیں۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ ہم مسلمانوں نے غیر مسلموں اور مغربی معاشروں کی نقالی کرتے ہوئے غیروں کے بے ہودہ طور طریقے اور تہوار اپنے ”معاشرے“ اور طرز زندگی میں داخل کر لئے ۔جس سے ملک و معاشرے میں بے راہ روی اور خرابیاں وبا کی طرح پھیل گئیں۔ ہم نے بنا تحقیق کئے ۔اپریل فول،ویلنٹائن ڈے ، بسنت، دیوالی اور کئی تہوار جوش و خروش اور شوق سے منانا شروع کر دیئے۔
تہوار بنیادی طور پر کسی بھی معاشرے کی ثقافت کے امین ہوتے ہیں ۔اور وہ اس کی سوچ اور عمل کی عکاسی کرتے ہیں۔ ویلنٹائین ڈے غیر اسلامی تہوار ہے جو ایک یہودی شخص ”مسٹر ویلنٹائن“ کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ یہ شخص بغیر شادی کیے عورت اور مرد کے ایک ساتھ رہنے اور نا جائز تعلقات قائم کرنے کو جائز سمجھتا تھا۔ جس پر اس کو 14فروری 1488ءکو سزائے موت دے دی گئی۔ اس کی پھانسی کے بعد اس کے نظریات درست ماننے والوں اور اس کی پیروی کرنے والوں نے اس کی یاد میں ہر سال 14فروری کو ”ویلنٹائن ڈے“ منانا شروع کر دیا اور اس بے ہودہ شخص کی طرح عورت اور مرد کے ناجائز طریقے سے ملنے اور بے حیائی پھیلانے کے اس عمل کو ”اظہار محبت“ کا نام دے دیا۔ افسوس صد افسوس کہ اب مسلمانوں نے بھی اور خاص طور پر پاکستان میں نوجوان نسل نے اس بے حیا، بیہودہ اور بے شرم یہودی نسل کی طرح اس دن کو باقاعدگی اور اہتمام سے منانا شروع کر دیا ہے اور اس دن لڑکیاں، لڑکے،عورت اور مرد ایک دوسرے سے اظہار محبت کرتے ہیں اور پھولوں اور تحفوں کا تبادلہ کیا جاتا ہے۔ اور یوں اسلامی روایات اور اخلاقی اقدار کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ ہم بغیر سوچے سمجھے کسی بھی چمکتی دمکتی چیز کو اپنی زندگی میں داخل کر لیتے ہیں اور نہیں سوچتے کہ اس کے کتنے منفی اثرات ہمیں اور ہماری نسلوں کو متاثر کریں گے اور معاشرے کی بربادی اور تباہی کا باعث بن جائیں گے۔
ٹیلی وژن چینل کی بھر مارنے بھی معاشرے کو بگاڑنے میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ غیر ممالک کی ڈرامہ سیریل اردو اور مقامی زبانوں میں ڈب کر کے چلائی گئیں اور نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستانی عورت کے سر سے دوپٹہ اور برقعہ فیشن کی آندھی میں اور غیروں کی اندھی تقلید میں یوں غائب ہو گیا کہ عورت کو احساس زیاں بھی باقی نہ رہا۔ پاکستانی لباس شلوار قمیض جو ہمارے ملک و ثقافت کی پہچان اور مسلمان عورت کے لئے باپردہ اور باحیا لباس تھا۔ اس طرح مفقود و متروک ہوتا جا رہا ہے کہ شلوار کی جگہ پاجامے کی شکل میں بے حیائی اور بے ہودگی نے خواتین لڑکیوں اور بچیوں کو تقریباً برہنہ کر کے رکھ دیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی کو میرے الفاظ زیادہ سخت اور ناگوار محسوس ہوں اور وہ مجھے دقیانوسی اور آﺅٹ آف فیشن قرار دے دے لیکن تنگ پاجامے اور کمر سے اونچے چاکوں والے کرتے پہن کر بازاروں ، دفتروں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں آتی جاتی بچیوں اور خواتین کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ یہ مسلمان گھرانوں کی صوم و صلاة کے پابند ماں باپ کی بیٹیاں ہو سکتی ہیں۔ سڑکوں پر دوڑتی ہوئی موٹر سائیکلوں کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی بچیوں کو دیکھ کر نظریں شرم سے جھک جاتی ہیں ۔ پاجامہ جو ایک وبا کی طرح معاشرے میں پھیلا ہے اس نے میرے وطن کی بیٹیوں کو اس قدر بے پردہ کر دیا ہے کہ غیرت سے ڈوب مرنے کا مقام ہے ۔ مجھے اکبر الہ آبادی بے طرح یاد آ رہے ہیں۔
بے پردہ نظر آئیں جو کل چند بی بی یاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو میں نے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں ، عقل پہ مردوں کی پڑگیا
اس میں نوجوان نسل کا اتنا قصور نہیں جتنا والدین کی تربیت اور لاڈ پیار کے نام پر بے مہار اور مادر پدر آزدی دینے کی انتہائی نقصان دے روش کا ہے۔ جسے بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔
سوچنے کی بات ہے آج ہم یہودیوں کا دن ”ویلنٹائن ڈے“ منا رہے اور جواز یہ فراہم کیا جاتا ہے کہ ”اظہار محبت“ میں کیا خرابی ہے؟ لیکن اسلامی نقظہ نظر سے اسلام میں غیر مردوں غیر عورتوں کا ایک دوسرے سے ملنا اور اظہار محبت کرنا منع ہے۔ پاکستان میں گزشتہ چند سالوں سے اس دن کو جشن کے طور پر منانے کا جذبہ نوجوانوں میں جوش پکڑتا جا رہا ہے۔ اور اس سلسلے میں لبرل طبقہ پیش پیش ہے۔ ویلنٹائن کا تصور 90ءکی دہائی کے آخر میں ریڈیو اور ٹی وی کی خصوصی نشریات کی وجہ سے زیادہ مقبول ہوا اور یہ وبا ہمارے شہروں میں تیزی سے پھیلتی چلی گئی ۔ اس میں کاروباری حضرات بھی ایک دو دن میں زیادہ سے زیادہ روپیہ کمانے کی ہوس میں اسے نت نئے انداز سے پروموٹ کرنے لگ گئے۔ دکانوں پر سرخ گلاب کے پھول، سرخ غبارے اور دل کی شکل کے بنے ہوئے کارڈ فروخت ہونے لگے۔ پاکستان میں اس پر کسی طرح کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ لڑکیاں ، لڑکے اور عورتیں مرد، دھڑلے سے اور کھلے عام یہ چیزیں خریدتے ہیں اور اپنے دوستوں کو تحفہ دیتے ہیں۔ ہوٹلوں، پارکوں اور دیگر جگہوں پر تنہائی میں ملنے اور ”اظہار محبت“ کرنے کا بندوبست کیا جاتا ہے۔یہیں سے ”ڈیٹنگ“ کا تصور جو یورپ میں عام ہے اسلامی معاشرے میں رواج پانے لگا ہے۔رہی سہی کسر دور جدید کے تیز ترین مواصلاتی ذرائع نے پوری کر دی ہے اور انٹرنیٹ نے نوجوان نسل کو خصوصاً ایک ایسی دنیا تک رسائی فراہم کر دی ہے کہ اخلاقیات کا جنازہ نکل گیا ہے اور رشتوں کا تقدس تک فنا ہو گیا ہے۔
موسم بہار کی آمد پر پاکستان، ہندوستان اور اس خطے کے دیگر ممالک میں بسنت کا تہوار منایا جاتا ہے ۔ شکر ہے اب پاکستان میں بسنت پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ یہ حکومت کا ایک اچھا اور احسن اقدام ہے۔ لیکن منچلے ہلہ گلہ کرنے ناچ گانے اور ناﺅ نوش کا شوق پورا کرنے کے لئے ”ویلنٹائن ڈے “ کی طرف متوجہ ہو گئے ہیں۔ ویلنٹائن ڈے جیسے تہوار منانے کی اسلامی میں کتنی گنجائش ہے اور ان کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اس سلسلے میں بنیادی طور پر دو نقطہ ہائے نظر ہیں۔ ایک مذہبی ہے اور دوسرا سیکولر ۔ سیکولر طبقہ کی حقیقت ہلڑ بازوں اور لفنگوں کے کردار سے واضح ہو جاتی ہے۔ بسنت اور ویلنٹائن ڈے اوباش طبقہ کی سیکولر سوچ اور کردار کی عکاسی کرتا ہے۔ کیونکہ یہ تہوار دراصل اسی طبقہ کے لوگ مناتے ہیں جب کہ ان من چلوں کی تائید کے لئے سیکولر طبقہ کے نام نہاد، دانشوری بگارنے پر اتر آتے ہیں۔ یہ مغربی تہذیب کے دلدادہ، مختلف ”این جی اوز“ کا سہارا اور اشارہ پا کر تفریح، خوشی اور اظہار محبت کے نام پر لہو لعب، شورو غل ، ہلڑ بازی، بدتمیزی، بے شرمی اور بے حیائی کے ایجنڈے کو پروان چڑھانے کے مواقع پیداکرتے ہیں تاکہ اسلامی روایات اور کلچر پر جدیدیت اور آزاد خیالی کا لیبل لگا کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کر سکیں۔ یہ طبقہ اس وقت خم ٹھونک کر کھڑا ہو جاتا ہے جب کوئی اس کی مادر پدر آزادی، تفریح اور عیاشی کی راہ میں حائل ہونے یا اسے سمجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ کبھی نہیں چاہتا کہ کوئی اس کے تفریح کے لمحات کو پھیکا کرے۔
(کالم نگارسماجی ایشوزپرلکھتے ہیں)
٭….٭….٭

 

ہیر سیال اور پیر سیال ؟

خدا یار خان چنڑ …. بہاولپور سےخدا یار خان چنڑ …. بہاولپور سےفلمیں دیکھنے کا میں زیادہ شوقین تو نہیںاگرموقع مل جائے تو ضرور دیکھتا ہوں۔آ ج تک جتنی فلمیں دیکھیں ہیں اُس میں کہانی ہمیشہ ہیرو اور ولن کے گرد گھومتی ہے۔ولن کئی بار ہیروپر غالب آجاتا ہے لیکن آخر کار موت ولن کی ہی ہوتی ہے اور جیت ہیرو کی ہوتی ہے۔ 8جنوری کومال روڈ پرچلنے والی ایک سیاسی فلم کا پورے پاکستان میں بڑاچرچہ ہوا ۔فلم کا نام تھا(آگ اور پانی کاملاپ)پورے پاکستان کے میڈیا نے بھی اسے عوام کے لائیوفلم چلایا۔یہ پاکستان کی پہلی فلم تھی جس میں نسبتاََ زیادہ ہیرو تھے ۔ولن ایک تھا، ہر شخص یہ سوچ رہا تھا اس فلم کا اینڈ کیا ہوگا ؟اچانک ہیروسارے مر گئے اور ولن جیت گیا۔یہ پاکستان کی پہلی انوکھی فلم تھی جس میں آگ پانی اکٹھا ہو گیا ولن پھربھی جیت گیا۔اگر پاکستان فلم انڈسٹری کا بندہ یہ کالم پڑھے تو اس کو مشورہ دونگا کہ8جنوری مال روڈ کے جلسہ پر فلم بنائی جاسکتی ہے اور ہمیشہ عوام ان ہیروز کا تماشہ دیکھ سکتی ہے ۔یہ فلم بڑی ہٹ ہو سکتی ہے اب دیکھنا یہ ہے فنکاروںنے کیا پایاکیاکھویا؟اس میںکچھ فنکاروں کا آگ اور پانی کا ویر تھا۔ساری زندگی تو ایک دوسرے کے اوپرلعن طعن میں گزر گئی اب کس منہ سے عوام کے سامنے اکٹھے کھڑے ہو گئے۔لیکن شاید سیاست اورضمیردونوں الگ الگ چیزیں ہیں ۔سیاست کے آگے ہمیشہ ضمیر شکست کھا جاتا ہے۔اس فلم کے فنکاروںکے ساتھ بھی کچھ ایسا ہوا ۔بیچارے حالات کے مارے تھکے ہاروں کومجبور ہو کر اکٹھے کام کرناپڑا۔کڑوا گھٹ بھی بھرنا پڑالیکن مقصد پھر حاصل نہ ہوا۔ مقصد تو ولن کو مارنا تھا وہ تو اور مضبوط ہو گیا۔ہاں البتہ سندھ کے فنکاروں کو اس فلم میں فائدہ ہوا ۔وہ تو پنجاب میں مرے پڑے تھے انھوں نے اپنے آپ کو زندہ کرنے کی کوشش کی۔میں یہ ضرور کہوںگا کہ انہیں کچھ نہ کچھ فائدہ ہوا ہے بلکہ میں تویہ کہوںگاکہ ایک فنکار کے بغیر باقی سب کو فائدہ ہوا ۔اس فلم میں اصل ہیرو کانام عمران خان ہے ،عمران خان کے اس فیصلہ پر پی ٹی آئی کا کارکن ناراض تھا۔وہ گھروںسے نکلاہی نہیں اس ساری موومنٹ میں سب سے زیادہ نقصان تو پی ٹی آئی کا ہوا۔پنجاب میں حقیقی اپوزیشن تو پی ٹی آئی کر رہی ہے۔باقی جتنی چھوٹی جماعتیں سٹیج پر تھیںان کو زندہ رہنے کیلئے کچھ نہ کچھ فائدہ حاصل ہوا ہے سارے اکٹھ کو دیکھ کر شیخ رشیدنے بھی جذبات میں آکر بارش کا پہلا قطرہ بننے کی کوشش کی اوراپنا استعفیٰ دے مارا ۔کہ شاید ایسا کرنے سے ہیرو بن جاﺅں گا لیکن وہ تو ماحول ہی کچھ اور ہو گیا۔انہیں دو چار دن تو دبئی جانے کا بہانہ مل گیا ۔مگراب شیخ رشید منہ چھپاتہ پھرتا ہے اب اس کی بڑھکیںبھی بندہوگئی ہیں ،استعفیٰٰ کا اعلا ن شیخ رشید کو بڑا مہنگا پڑ رہا ہے شیخ رشید نے سمجھا ہو گاکہ میرے استعفے کے بعد ایسے استعفوں کی لا ئن لگ جائے گی ۔کہ اسمبلی ہال خالی ہو جائے گا۔نئے استعفے تو کیا آنے تھے جنہوں نے دیئے تھے وہ بھی واپس لے رہے ہیں۔ایک بات ضرور ہے ڈاکٹر طاہرالقادری نے ایک بارپھر اپنے ویہڑہ کو خوب سیاسی ویہڑہ بنا لیا تھاپاکستان کی تمام بڑی سیاسی پارٹیوںکے لیڈران کواپنے دائیںبائیں بٹھانے میں کامیاب ہوگئے تھے ۔چند دن ماڈل ٹاﺅن میںڈاکٹرطاہرالقادری نے خوب سیاسی میلا سجایا ۔ایسی فضا بن گئی تھی یوں لگتا تھا کہ اب حکومت کے دن گنے جاچکے ہیں۔یہ سارے لیڈر ان مل کرحکومت کا تختہ اُلٹ دیں گے۔مگر یہ سار ے ار ادے دھرے کے دھرے رہ گئے بلکہ مال روڈ کے فلاپ شو نے (ن)لیگ کو تقویت دی ۔پہلے وہ تھوڑے بہت خوفزدہ تھے اب ان کا یہ خوف بھی ختم ہو گیا ۔آصف زرداری نے بھی بڑی بڑھک ماری تھی اگر میں چاہوں تو حکومت کو گھر بھیج دوں گامجھے تو ایسا لگتا ہے وہ بھی ڈرامہ کر رہے تھے۔ اندر سے تو نواز شریف کے ساتھ اس کی ڈیل تھی ۔عوام کو اور سٹیج پر بیٹھے لیڈران کو بے وقوف بنا گیا ۔عمران خان بیچارہ بھولا آدمی ہے وہ بھی ان کے چکروں میں آگیا ۔خوب اپنی پارٹی کا نقصان کر لیا ۔بظاہرتو عمران خان کو (ن)لیگ کی کرپٹ حکومت گرانے کیلئے زرداری جیسے کرپٹ آدمی کی ضرورت در پیش ہے لیکن مسئلہ یہ ہے عمران خان زرداری جیسے بندے سے ہاتھ ملاتا ہے توعمران خان اچھے مقصد پر بھی گندا ہو جاتا ہے اور عمران خان کے کرپشن کے خلاف بلند و بانگ دعوے خاک کا ڈھیر ثابت ہو جاتے ہیں بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے نواز شریف کی کرپشن تو کرپشن ہے زرداری کونسا دودھ کا دھلا ہوا ہے وہ بھی تو بڑاکرپٹ آدمی ہے یہ بنیادی ،اخلاقی اور اصولی سوال ہے جوہر ذی شعور پاکستانی آج عمران خان سے کر رہا ہے اگر جواب میں عمران خان یہ کہتے ہیں کہ ابھی تو نوازشریف کو گرانے کیلئے زرداری کا ساتھ لازمی ہے تو پھر سوا ل اٹھتا ہے کہ عمران خان کے تبدیلی کے دعوے کہاں گئے؟اگر یہ پاور کی خاطر سب کچھ کر رہے ہیںتو پھر عمران خان اس قوم کو تبدیلی کے نام پر بےوقوف کیوں بناتے آرہے ہیں ؟دوسری طرف طاہرالقادری جیسے موقع پرست عالم دین کا دھرنا پارٹ 2قابل عبرت ہے لیکن اس سیاسی تھیٹر میں ذی شعور پاکستانی مایوس ہوئے ہیں سیاسی نمبر بنانے کے چکر میں بیچاری معصوم زینب کو بھی اپنے بینروں میں استعمال کر گئے ۔ہاں البتہ جلسے کے دوران ہی ڈاکٹر طاہرالقادری کو سمجھ آ گئی تھی کہ یہ بیڑا ڈوبنے والا ہے ۔اب اس منزل مقصود تک پہنچنا بہت مشکل ہو گیا ہے جو ںہی اس سیاسی بیڑے نے ہچکولے لینے شروع کئے تو فوراََڈاکٹر طاہرالقادری اپنا بوریا بستر لپیٹ کر باہر چلے گئے۔اس سیاسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے پیر حمیدالدین سیالوی نے بھی خوب جوش پکڑاکہ اگر حکومت گرتی ہے تو اس کا بھی نام حکومت گروانے والے لوگوں میں تاریخ کا حصہ بن جائے گا ۔ساری دنیا کو دعا دے کر قسمت بدلنے والے پیر سیال کو یہ معلوم نہیں تھا کہ آگے ان کی قسمت کاکیاحال بنے گا۔اس سے بہتر تو ہیر سیال تھی جس نے اپنی زندگی کو ختم کر کے موت کو گلے لگالیالیکن رانجھے کے معاملہ پر کمپرمائزمائز نہ کیا۔ یہ پیرسیال تھے جو عاشق رسول ہونے کے دعویدار تھے کہ میری جان تو چلی جائے گی لیکن ختم نبوت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔میرا آخری اور حتمی فیصلہ شہباز شریف اور رانا ثناءاللہ کا ستعفیٰٰ ہے۔ مگر افسوس پورے پاکستان کے سیاسی پیر اور روحانی پیر اکٹھے ہوکر کئی سال سے استعفیٰٰ مانگ رہے ہیں لیکن (ن) لیگ کے کان پر جوں تک نہیں رینگی ۔رانا ثناءاللہ نے تو پہلے ہی کہ دیا تھا کہ میں استعفیٰٰ نہیں دوں گایہ پیر فقیر میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔جیسا انھوں نے کہا تھا ویسا ہی ہواپھرشہباز شریف نے پیرسیال کے گھٹنے کیا چھوے کہ انہوں نے کہہ دیا جاﺅ بچے عیش کرو۔( تحریک بحالی صوبہ بہاولپور کے چیئرمین ہیں)٭….٭….٭

شہبازشریف نے پیر سیال سے مل کر گھٹنوں کو ہاتھ لگا یا اور چمک دمک کی آفر کی اور پیر صاحب نے فوراََکہ دیا جاﺅ بچے عیش کرو تمہاری اور تمہاری کابینہ کی خیر ہو۔اب(ن)لیگ کو تمام سیاسی اور روحانی پیروں کاخوف تو ختم ہوگیا ہے۔لیکن اب (ن)لیگ کاسربراہ نوازشریف اپنی حرکتوںکی وجہ سے اپنی اور پارٹی کی تباہی کر رہا ہے۔نوازشریف کے مخالفین تو ان کاکچھ نہیں بگاڑ سکے ۔البتہ یہ باپ بیٹی اور انکے ساتھ اندھی تقلیدکے مارے پٹوار یوں نے جو اداروں کے ساتھ رویے اختیار کئے ہوئے ہیں بہت جلد ان کو بھگتناپڑے گا ۔شاید نواز شریف بھی ذہنی طور پر تیار ہو گئے ہیں ۔اب ان کو یہ پالیسی نظر آرہی ہے ،کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے ۔اسی وجہ سے تو عدالتوں پر تنقید اور غصہ کا اظہار کیا جارہاہے۔نواز شریف نے اپنی گفتگو اور حرکتوں کی وجہ سے اپنا تو بیڑا غرق کرلیا ہے۔اور اب اپنے چھوٹے بھائی شہبازشریف جو بھی اپنی صف میں کھڑا کرنے کی کوشش کر رہاہے۔اب شہبازشریف بھی محفوظ نظر نہیں آرہے وہ بھی بہت جلد کٹہروں میں نظر آئیں گے۔اب ڈاکٹر طاہرالقادری کی یہ فلم ”آگ پانی کا ملاپ “تو بُری طرح ناکام ہو گئی ہے۔اب دیکھتے ہیں اگلی فلم کب ریلیز ہوگی اور اُس میں فنکار کون کون ہوںگے؟اور اُس کی کہانی کیاہوگی؟بہر حال پاکستانی قوم ایک نئے تماشے کیلئے تیار رہے  خان خدا یارخان چنڑ چیئر مینتحریک بحالی صوبہ بہاولپور Khudayaarchannar@gmail.comخدا یار خان چنڑ …. بہاولپور سےفلمیں دیکھنے کا میں زیادہ شوقین تو نہیںاگرموقع مل جائے تو ضرور دیکھتا ہوں۔آ ج تک جتنی فلمیں دیکھیں ہیں اُس میں کہانی ہمیشہ ہیرو اور ولن کے گرد گھومتی ہے۔ولن کئی بار ہیروپر غالب آجاتا ہے لیکن آخر کار موت ولن کی ہی ہوتی ہے اور جیت ہیرو کی ہوتی ہے۔ 8جنوری کومال روڈ پرچلنے والی ایک سیاسی فلم کا پورے پاکستان میں بڑاچرچہ ہوا ۔فلم کا نام تھا(آگ اور پانی کاملاپ)پورے پاکستان کے میڈیا نے بھی اسے عوام کے لائیوفلم چلایا۔یہ پاکستان کی پہلی فلم تھی جس میں نسبتاََ زیادہ ہیرو تھے ۔ولن ایک تھا، ہر شخص یہ سوچ رہا تھا اس فلم کا اینڈ کیا ہوگا ؟اچانک ہیروسارے مر گئے اور ولن جیت گیا۔یہ پاکستان کی پہلی انوکھی فلم تھی جس میں آگ پانی اکٹھا ہو گیا ولن پھربھی جیت گیا۔اگر پاکستان فلم انڈسٹری کا بندہ یہ کالم پڑھے تو اس کو مشورہ دونگا کہ8جنوری مال روڈ کے جلسہ پر فلم بنائی جاسکتی ہے اور ہمیشہ عوام ان ہیروز کا تماشہ دیکھ سکتی ہے ۔یہ فلم بڑی ہٹ ہو سکتی ہے اب دیکھنا یہ ہے فنکاروںنے کیا پایاکیاکھویا؟اس میںکچھ فنکاروں کا آگ اور پانی کا ویر تھا۔ساری زندگی تو ایک دوسرے کے اوپرلعن طعن میں گزر گئی اب کس منہ سے عوام کے سامنے اکٹھے کھڑے ہو گئے۔لیکن شاید سیاست اورضمیردونوں الگ الگ چیزیں ہیں ۔سیاست کے آگے ہمیشہ ضمیر شکست کھا جاتا ہے۔اس فلم کے فنکاروںکے ساتھ بھی کچھ ایسا ہوا ۔بیچارے حالات کے مارے تھکے ہاروں کومجبور ہو کر اکٹھے کام کرناپڑا۔کڑوا گھٹ بھی بھرنا پڑالیکن مقصد پھر حاصل نہ ہوا۔ مقصد تو ولن کو مارنا تھا وہ تو اور مضبوط ہو گیا۔ہاں البتہ سندھ کے فنکاروں کو اس فلم میں فائدہ ہوا ۔وہ تو پنجاب میں مرے پڑے تھے انھوں نے اپنے آپ کو زندہ کرنے کی کوشش کی۔میں یہ ضرور کہوںگا کہ انہیں کچھ نہ کچھ فائدہ ہوا ہے بلکہ میں تویہ کہوںگاکہ ایک فنکار کے بغیر باقی سب کو فائدہ ہوا ۔اس فلم میں اصل ہیرو کانام عمران خان ہے ،عمران خان کے اس فیصلہ پر پی ٹی آئی کا کارکن ناراض تھا۔وہ گھروںسے نکلاہی نہیں اس ساری موومنٹ میں سب سے زیادہ نقصان تو پی ٹی آئی کا ہوا۔پنجاب میں حقیقی اپوزیشن تو پی ٹی آئی کر رہی ہے۔باقی جتنی چھوٹی جماعتیں سٹیج پر تھیںان کو زندہ رہنے کیلئے کچھ نہ کچھ فائدہ حاصل ہوا ہے سارے اکٹھ کو دیکھ کر شیخ رشیدنے بھی جذبات میں آکر بارش کا پہلا قطرہ بننے کی کوشش کی اوراپنا استعفیٰ دے مارا ۔کہ شاید ایسا کرنے سے ہیرو بن جاﺅں گا لیکن وہ تو ماحول ہی کچھ اور ہو گیا۔انہیں دو چار دن تو دبئی جانے کا بہانہ مل گیا ۔مگراب شیخ رشید منہ چھپاتہ پھرتا ہے اب اس کی بڑھکیںبھی بندہوگئی ہیں ،استعفیٰٰ کا اعلا ن شیخ رشید کو بڑا مہنگا پڑ رہا ہے شیخ رشید نے سمجھا ہو گاکہ میرے استعفے کے بعد ایسے استعفوں کی لا ئن لگ جائے گی ۔کہ اسمبلی ہال خالی ہو جائے گا۔نئے استعفے تو کیا آنے تھے جنہوں نے دیئے تھے وہ بھی واپس لے رہے ہیں۔ایک بات ضرور ہے ڈاکٹر طاہرالقادری نے ایک بارپھر اپنے ویہڑہ کو خوب سیاسی ویہڑہ بنا لیا تھاپاکستان کی تمام بڑی سیاسی پارٹیوںکے لیڈران کواپنے دائیںبائیں بٹھانے میں کامیاب ہوگئے تھے ۔چند دن ماڈل ٹاﺅن میںڈاکٹرطاہرالقادری نے خوب سیاسی میلا سجایا ۔ایسی فضا بن گئی تھی یوں لگتا تھا کہ اب حکومت کے دن گنے جاچکے ہیں۔یہ سارے لیڈر ان مل کرحکومت کا تختہ اُلٹ دیں گے۔مگر یہ سار ے ار ادے دھرے کے دھرے رہ گئے بلکہ مال روڈ کے فلاپ شو نے (ن)لیگ کو تقویت دی ۔پہلے وہ تھوڑے بہت خوفزدہ تھے اب ان کا یہ خوف بھی ختم ہو گیا ۔آصف زرداری نے بھی بڑی بڑھک ماری تھی اگر میں چاہوں تو حکومت کو گھر بھیج دوں گامجھے تو ایسا لگتا ہے وہ بھی ڈرامہ کر رہے تھے۔ اندر سے تو نواز شریف کے ساتھ اس کی ڈیل تھی ۔عوام کو اور سٹیج پر بیٹھے لیڈران کو بے وقوف بنا گیا ۔عمران خان بیچارہ بھولا آدمی ہے وہ بھی ان کے چکروں میں آگیا ۔خوب اپنی پارٹی کا نقصان کر لیا ۔بظاہرتو عمران خان کو (ن)لیگ کی کرپٹ حکومت گرانے کیلئے زرداری جیسے کرپٹ آدمی کی ضرورت در پیش ہے لیکن مسئلہ یہ ہے عمران خان زرداری جیسے بندے سے ہاتھ ملاتا ہے توعمران خان اچھے مقصد پر بھی گندا ہو جاتا ہے اور عمران خان کے کرپشن کے خلاف بلند و بانگ دعوے خاک کا ڈھیر ثابت ہو جاتے ہیں بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے نواز شریف کی کرپشن تو کرپشن ہے زرداری کونسا دودھ کا دھلا ہوا ہے وہ بھی تو بڑاکرپٹ آدمی ہے یہ بنیادی ،اخلاقی اور اصولی سوال ہے جوہر ذی شعور پاکستانی آج عمران خان سے کر رہا ہے اگر جواب میں عمران خان یہ کہتے ہیں کہ ابھی تو نوازشریف کو گرانے کیلئے زرداری کا ساتھ لازمی ہے تو پھر سوا ل اٹھتا ہے کہ عمران خان کے تبدیلی کے دعوے کہاں گئے؟اگر یہ پاور کی خاطر سب کچھ کر رہے ہیںتو پھر عمران خان اس قوم کو تبدیلی کے نام پر بےوقوف کیوں بناتے آرہے ہیں ؟دوسری طرف طاہرالقادری جیسے موقع پرست عالم دین کا دھرنا پارٹ 2قابل عبرت ہے لیکن اس سیاسی تھیٹر میں ذی شعور پاکستانی مایوس ہوئے ہیں سیاسی نمبر بنانے کے چکر میں بیچاری معصوم زینب کو بھی اپنے بینروں میں استعمال کر گئے ۔ہاں البتہ جلسے کے دوران ہی ڈاکٹر طاہرالقادری کو سمجھ آ گئی تھی کہ یہ بیڑا ڈوبنے والا ہے ۔اب اس منزل مقصود تک پہنچنا بہت مشکل ہو گیا ہے جو ںہی اس سیاسی بیڑے نے ہچکولے لینے شروع کئے تو فوراََڈاکٹر طاہرالقادری اپنا بوریا بستر لپیٹ کر باہر چلے گئے۔اس سیاسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے پیر حمیدالدین سیالوی نے بھی خوب جوش پکڑاکہ اگر حکومت گرتی ہے تو اس کا بھی نام حکومت گروانے والے لوگوں میں تاریخ کا حصہ بن جائے گا ۔ساری دنیا کو دعا دے کر قسمت بدلنے والے پیر سیال کو یہ معلوم نہیں تھا کہ آگے ان کی قسمت کاکیاحال بنے گا۔اس سے بہتر تو ہیر سیال تھی جس نے اپنی زندگی کو ختم کر کے موت کو گلے لگالیالیکن رانجھے کے معاملہ پر کمپرمائزمائز نہ کیا۔ یہ پیرسیال تھے جو عاشق رسول ہونے کے دعویدار تھے کہ میری جان تو چلی جائے گی لیکن ختم نبوت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔میرا آخری اور حتمی فیصلہ شہباز شریف اور رانا ثناءاللہ کا ستعفیٰٰ ہے۔ مگر افسوس پورے پاکستان کے سیاسی پیر اور روحانی پیر اکٹھے ہوکر کئی سال سے استعفیٰٰ مانگ رہے ہیں لیکن (ن) لیگ کے کان پر جوں تک نہیں رینگی ۔رانا ثناءاللہ نے تو پہلے ہی کہ دیا تھا کہ میں استعفیٰٰ نہیں دوں گایہ پیر فقیر میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔جیسا انھوں نے کہا تھا ویسا ہی ہواپھرشہباز شریف نے پیرسیال کے گھٹنے کیا چھوے کہ انہوں نے کہہ دیا جاﺅ بچے عیش کرو۔( تحریک بحالی صوبہ بہاولپور کے چیئرمین ہیں)٭….٭….٭

شہبازشریف نے پیر سیال سے مل کر گھٹنوں کو ہاتھ لگا یا اور چمک دمک کی آفر کی اور پیر صاحب نے فوراََکہ دیا جاﺅ بچے عیش کرو تمہاری اور تمہاری کابینہ کی خیر ہو۔اب(ن)لیگ کو تمام سیاسی اور روحانی پیروں کاخوف تو ختم ہوگیا ہے۔لیکن اب (ن)لیگ کاسربراہ نوازشریف اپنی حرکتوںکی وجہ سے اپنی اور پارٹی کی تباہی کر رہا ہے۔نوازشریف کے مخالفین تو ان کاکچھ نہیں بگاڑ سکے ۔البتہ یہ باپ بیٹی اور انکے ساتھ اندھی تقلیدکے مارے پٹوار یوں نے جو اداروں کے ساتھ رویے اختیار کئے ہوئے ہیں بہت جلد ان کو بھگتناپڑے گا ۔شاید نواز شریف بھی ذہنی طور پر تیار ہو گئے ہیں ۔اب ان کو یہ پالیسی نظر آرہی ہے ،کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے ۔اسی وجہ سے تو عدالتوں پر تنقید اور غصہ کا اظہار کیا جارہاہے۔نواز شریف نے اپنی گفتگو اور حرکتوں کی وجہ سے اپنا تو بیڑا غرق کرلیا ہے۔اور اب اپنے چھوٹے بھائی شہبازشریف جو بھی اپنی صف میں کھڑا کرنے کی کوشش کر رہاہے۔اب شہبازشریف بھی محفوظ نظر نہیں آرہے وہ بھی بہت جلد کٹہروں میں نظر آئیں گے۔اب ڈاکٹر طاہرالقادری کی یہ فلم ”آگ پانی کا ملاپ “تو بُری طرح ناکام ہو گئی ہے۔اب دیکھتے ہیں اگلی فلم کب ریلیز ہوگی اور اُس میں فنکار کون کون ہوںگے؟اور اُس کی کہانی کیاہوگی؟بہر حال پاکستانی قوم ایک نئے تماشے کیلئے تیار رہے  خان خدا یارخان چنڑ چیئر مینتحریک بحالی صوبہ بہاولپور Khudayaarchannar@gmail.com

دریاو¿ں کی پیاس

ملیحہ سید …. زینہ
کالم کا عنوان پڑھ کر آپ بھی سوچ رہے ہوں گے ، کیا دریاو¿ں کی بھی پیاس ہوتی ہے؟ دریا جو ہماری بنجر زمینوں کو سیراب کرتے ہیں،بشر کی پیاس بجھاتے ہیں۔ کیا وہ خودبھی پیاسے رہتے ہیں؟ جی ہاں دریاو¿ں کی اپنی بھی پیاس ہوتی ہے ،جب ان کا پانی جبراً روک لیا جائے۔تب دریا پیاسے رہ جاتے ہیںاور انسانی زندگی پیاسی مر جاتی ہے۔پاکستانی دریا پاکستان کے قیام سے ہی بھارتی جارحیت کا شکار ہیں۔جس پر آواز اٹھانے کی کوئی ہمت نہیں کرتا۔ اگر کبھی کسی نے جرات کی تو سال میں ایک آدھ بار کوئی کالم لکھ ڈالا یا کوئی سیمینار ہو گیا ۔ مستقل آواز کوئی نہیں اٹھا رہا تھا۔ ہمارے دریا سیاسی ، جمہوری اورسفارتی سیاست کی نذر ہو کر بنجر ہوتے جا رہے ہیں۔ تاہم اب اس پر صور پھونکنے کا وقت آ چکا ہے کہ اٹھو ، اس سے پہلے پیاس سے مرنے والوں کے لاشے اٹھانے پڑ جائیں۔
کسی ایک کو تو دریاو¿ں کی آواز بنناتھا ،اس لیے روزنامہ خبریں کے چیف ایڈیٹر ،سینئرصحافی اورکالم نگارضیا شاہد صاحب نے پاکستان کے پانیوں کے خلاف جاری بھارتی دہشت گردی کے خلاف قلمی جنگ شروع کی ہے۔ اس مقصد کے لیے مختلف سیمینارمنعقد کئے جارہے ہیں ،کالم اور کتابیں لکھی جا رہی ہیں۔ ضیا شاہد صاحب کے علاوہ خبریں کے قافلے میں شامل کالم نگار بھی اس جنگ میں اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں ضیا شاہد صاحب کی کتاب، ”ستلج، راوی اور بیاس کا پانی بند کیوں؟ کے حوالے سے ایک تقریب رونمائی کا اہتمام کیا گیا ، جس میں راقم بھی شریک تھی۔ تقریب میں سینئرکالم نگاروں کے ساتھ ساتھ آبی انجینئرسے لیکر سندھ طاس معاہدے کے سابق انچارج تک شامل تھے۔ کتاب میں ملکی پانیوں کے خلاف سازشوں کو بہت واضح الفاظ میں کھل کر بیان کیا گیاہے۔ سیاسی ، بیورہ کریسی اور دیگر وجوہات کو نہایت ہی عمدگی اور بغیر کسی منافقت سے احاطہ تحریر میں لایا گیا ہے۔ کتاب میں مختلف مکتبہ ہائے فکر افراد کی تحریریں، مباحثے، انٹرویو ،کالمز اور آرٹیکلز کو شامل کیا گیا ہے ۔ یوں ہم اس کتاب کو پاکستان کے خلاف جاری بھارتی آبی جارحیت میں ایک دستاویز کے تناظر میں دیکھ سکتے ہیں ۔ اس میں سمجھنے والوں کے لیے بہت کچھ ہے۔
پانی زندگی ہے ۔زندگی کی بقاءپانی سے ہے۔ملکی آبادی میں دو اعشاریہ چالیس فیصد سالانہ کی شرح نمو کے حساب سے ستاون فیصد اضافہ ہوا ہے۔ آبادی میں اضافے کی مجموعی شرح گر گئی ہے جو یہاں پر بہبود آبادی یا خاندانی منصوبہ بندی کے لئے سرکاری اور غیر سرکاری کاوشوں اور عوام کے مجموعی شعور کا آئینہ دار ہے۔
پنجاب میں آبادی کی دو اعشاریہ تیرہ فیصد کی سالانہ شرح نمو رہی ہے جہاں شہری آبادی کا تناسب چھتیس اعشاریہ اکہتر فیصد ہے۔ پنجاب اب بھی گیارہ کروڑ سے زیادہ آبادی کے ساتھ آبادی میں ملک کا سب سے بڑے صوبہ ہے۔
سندھ چار کروڑ اٹھہتر لاکھ سے زیادہ آبادی کے ساتھ ملک کا دوسرا بڑا صوبہ ہے جہاں سالانہ شرح دو اعشاریہ اکتالیس فیصد رہی جس میں باون فیصد سے زیادہ لوگ شہروں میں رہتے ہیں جو ملک کی کسی بھی انتظامی اکائی یا کسی اور صوبے سے زیادہ شہری آبادی ہے۔ خیبر پختونخواہ تین کروڑ باسٹھ لاکھ سے زیادہ لوگوں کا صوبہ جہاںسالانہ شرح اضافہ دو اعشاریہ انانوے فیصد رہاہے جس میں سے اٹھارہ اعشاریہ ستہتر فیصد لوگ شہروں میں رہتے ہیں۔
بلوچستان کی کل آبادی ایک کروڑ تیئس لاکھ چوالیس ہزار سے زیادہ ہے جہاں سالانہ شرح اضافہ تین اعشاریہ سینتیس فیصد رہا اور شہری آبادی کا تناسب ستائیس اعشاریہ پچپن فیصد ہے۔ فاٹا یا قبائلی علاقوں کی کل آبادی بھی پچاس لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے جس کی سالانہ افزائش دو اعشاریہ اکتالیس فیصد رہی جہاں صرف تقریباً تین فیصد لوگ شہروں میں رہائش پذیر ہیں۔ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد چار اعشاریہ اکیانوے فیصد کی سالانہ شرح نمو اوربیس لاکھ چھ ہزار سے زیادہ کی آبادی کےساتھ ملک بھر میں سب سے آگے رہا جہاں نصف سے زیادہ آبادی شہر میں رہتی ہے۔
صد افسوس پاکستان کی 84 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے ۔ چھ کروڑ افراد زہر آلود پانی پینے پر مجبور ہیں اورآلودہ پانی سے پیداہونے والی بیماریوں کا شکار ہو کر مر رہے ہیں۔ وہ بھی ایک دم نہیں بلکہ لمحہ لمحہ سسک سسک کر۔
ہمارے دریاو¿ں کے کنار ے آباد تہذیبیںدم توڑ چکی ہیں اور ایک کلچر کی موت واقع ہو چکی ہے۔جس کی طرف کسی کی طرف توجہ نہیں دی جا رہی۔ بات صرف یہیں ختم نہیں ہوجاتی۔ آبادی میں اضافے کے مسائل کے ساتھ ساتھ وسائل کا کم ہونا ہی ہماری پالیسوں کے غیر موئثر ہونے کی علامت ہے۔پانی کا مسئلہ جس شد ت سے سر اٹھا رہا ہے اس کی طرف اتنی ہی کم توجہ دی جا رہی ہے۔پاکستان میں پانی کی کمی سے صرف انسانی زندگی اور ماحول ہی خطرے میں نہیں بلکہ آبی حیات اور ماحول کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔پاکستان میں صاف پانی کا ضیائع بھی عام سی بات ہے۔ آگہی نہ ہونے کی وجہ سے لوگ اس طرف توجہ نہیں دیتے۔ حکومت کو چاہیے کہ پانی کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر چھوٹی جماعتوں سے ہی اس سے متعلقہ مضامین کو نصاب کا حصہ بنایا جائے ۔ بچپن میں دیا ہوا شعور بڑی عمرکی منزلیں بھی آسان کرتا ہے۔ پاکستان کو سیراب کرنا ہے تو پانی کے لیے ہر فورم ، ملکی اور عالمی سطح تک اپنی آواز پہنچانی ہے۔مگر صد افسوس کہ ملک میں چھائے کرپشن اور بد عنوانی کے بادلوں نے آبی آگہی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ ہم بھول رہے ہیں کہ بے ایمانی اور کرپشن کے ساتھ پاکستان مستحکم ہونے والا نہیں۔
بھارت نے پاکستان کو کمزور کرنے کے لئے جو میدان چنا ہے اس پر بہت کم لوگوں کی نظر ہے۔ بھارت کا سب سے بڑا ہدف سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے دریاﺅں پر قبضہ کرنا ہے جس کے لئے وہ امریکہ و نیٹو ممالک کی آشیر باد سے مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی دریاﺅں پر ڈیم پر ڈیم بنائے جا رہا ہے۔ ان ڈیموں کی تعمیر کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ بھارت پاکستانی دریاﺅں کا پانی روک کر ان میں ذخیرہ کرتا ہے اور جب پاکستان کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے تو پانی روک لیتا ہے جبکہ بارشوں کے موسم میں پانی چھوڑ کر پاکستان کو ڈبو دیتا ہے اور بھارت یہ عمل گزشتہ کئی برس سے مسلسل کر رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت سرکاری سطح پر اس بات سے انکاری ہے کہ وہ دریاﺅں میں سیلاب کے لئے پانی چھوڑتا ہے لیکن اب عالمی معاملات پر نظر رکھنے والے متعدد تھنک ٹینکس جو ایٹمی سیاست یا ممکنہ ایٹمی جنگوں کے امکانات پر ریسرچ کر رہے ہیں انہوں نے بھی پاک بھارت آبی تنازعات کو ممکنہ ایٹمی جنگ کی وجہ قرار دے دیا ہے۔ 8 دسمبر 2010ءکو انڈین ڈیفنس ریویو میں بھارتی فوج کے کرنل اجے سنگھ نے اپنے مضمون The Deluge: will Pakistan submerge or survive عظیم سیلاب کیا پاکستان ڈوب یا بچ جائے گا۔بھارت یہ کام کرتا رہا اسی لیے گذشتہ طویل عرصے سے ملک میں جاری سیاسی رسہ کشی میں پانی کا مسئلہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے ۔ انڈیا نے ہماری غفلت سے بھرپور فائدہ اٹھا یا۔ دوسری جانب ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف رہے ، ادھر انڈیا آبی دہشت گردی میں مصروف رہا۔پاکستان کے خلاف جاری بھارتی آبی جارحیت کے حوالے سے پوری قوم میں شعور پیدا کرنے کے لیے میڈیا اپنا کردار ادا کرے۔ تعلیمی ادارے سامنے آئیں۔ تمام با شعور طبقے آواز اٹھائیں۔ تاکہ ہماری آواز ایوان اقتدار تک پہنچے ،ورنہ ہمارے دریاو¿ں کے ساتھ ساتھ ہم بھی بنجر ہوتے چلے جائیں گے۔صحرائے تھر ہمارے سامنے ہے، باقی پاکستان کو بھی تھر بننے سے بچانے کے لیے آئیں ہم سب مل کر آواز اٹھائیں،ستلج، راوی کی آواز بنیں۔
(کالم نگارسماجی مسائل پر لکھتی ہیں)
٭….٭….٭

این اے 154: چینل ۵ نے اپنی روایت پھر برقرار رکھی ،شیر کی دھاڑ ،کھلاریوں کی مات ،لیگی امیدوار نے میدان مار لیا

لودھراں (ویب ڈیسک )قومی اسمبلی کے احلقہ این اے 154 ضمنی انتخاب کا مکمل غیر سرکار ی و غیر حتمی نتیجہ سامنے آ گیاہے جس کے مطابق مسلم لیگ ن کے امیدوار پیر اقبال شاہ نے میدان مار لیاہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف اپنی ہی نشست سے ہاتھ دھو بیٹھی ہے۔نجی ٹی و ی دنیا نیوز کے مطابق این اے 154 کے مکمل 338 پولنگ سٹیشنز کا غیر سرکاری و غیر حتمی نتیجہ سامنے آ گیاہے جس کے مطابق ن لیگ نے واضح اکثریت حاصل کرتے ہوئے میدان مار لیا ہے اور ایک لاکھ 16 ہزار 590ووٹوں سے کامیاب قرار پائی ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار علی ترین 91 ہزار 230ووٹ حاصل کرکے دوسرے نمبر پر رہے ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما 3170 ووٹ لے کر سب سے پیچھے رہے۔حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 4 لاکھ 31 ہزار سے زائد ہے، پولنگ کیلئے سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے، ہر پولنگ سٹیشن پر پاک فوج کے اہلکار تعینات رہے۔ این اے 154 کے ضمنی انتخاب میں مجموعی طور پر 10 امیدوار وں نے حصہ لیا تاہم کانٹے کا مقابلہ پی ٹی آئی کے علی خان ترین اور ن لیگ کے پیر اقبال شاہ کے مابین متوقع ہے۔یادرہے کہ یہ حلقہ تحریک انصاف کے جہانگیر خان ترین کی نااہلی کی وجہ سے خالی ہواتھا اور بلا تعطل شام 5 بجے تک پولنگ جاری رہی ، حلقے میں مرد ووٹرز کی تعداد 2 لاکھ 36 ہزار اورخواتین ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 94 ہزار سے زائدہے۔حلقے سے تحریک انصاف ، ن لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت 10 امیدوار مدمقابل ہیں۔ پی ٹی آئی کے علی ترین اور ن لیگ کے پیر اقبال شاہ میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔ اس کے علاوہ پی پی کے مرزا علی بیگ بھی میدان میں ہیں جبکہ 7 آزاد امیدوار میدان قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔