صدارتی دنگل شروع ، عارف علوی سب سے آ گے

اسلام آباد/لاہور/کراچی/پشاور/کوئٹہ(نمائندگان خبریں) پاکستان کے 13ویں صدر مملکت کے عہدے کےلئے انتخاب آج ( منگل ) کو ہوگا ،سینیٹ، قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے اراکین خفیہ رائے شماری کے ذریعے نئے صدر کا انتخاب کریں گے ،الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے تمام انتظامات مکمل کر لئے گئے ، تحریک انصاف کے ڈاکٹر عارف علوی ، پیپلز پارٹی کے اعتزاز احسن ،مسلم لیگ (ن) اور ایم ایم اے کے مولانا فضل الرحمن بطور امیدوار میدان میں ہیں تاہم اعتزاز احسن اور مولانا فضل الرحمن میں سے کسی ایک کو دستبردار کرانے کی کوششیں تاحال جاری ہیں۔ تفصیلات کے مطابق صدر مملکت کے عہدے کےلئے انتخاب کا مرحلہ آج ( منگل) کے روز ہوگا جس کےلئے قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ایوانوں کو پولنگ اسٹیشنز کا درجہ دیا گیا ہے اور پولنگ کا عمل قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بیک وقت 10بجے شروع ہوکر 4بجے تک جاری رہے گا ۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس پارلیمنٹ ہاﺅس اسلام آباد اور دیگر چاروں ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان متعلقہ صوبائی اسمبلیوں میں بطور پریذائیڈنگ افسران ذمہ داریاں سر انجام دیں گے ۔رجسٹرار سمیت دیگر افسر پولنگ افسروں کے طورپر معاونت کریں گے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے صدارتی انتخاب کےلئے تمام ضروری انتظامات مکمل کر لئے گئے ہیں اور انتخابی میٹریل پولنگ سٹیشنز پر پہنچا دیا گیا ۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے پورے انتخابی عمل کے بارے میں ارکان کی رہنمائی کےلئے اسمبلیوں کی عمارتوںمیں ایک تفصیلی ہدایت نامہ آویزاں کردیا گیا ہے جبکہ اس کے ساتھ ضابطہ اخلاق بھی جاری کر دیا گیا ہے جس کے مطابق ووٹ کی رازداری یقینی بنانا ہو گی اور موبائل فون ، کیمرہ یا اس طرح کی کوئی بھی ڈیوائس پولنگ بوتھ کے اندر لیجانے پر سختی سے پابند ہو گی ۔ الیکٹورل کالج چھ یونٹس پر مشتمل ہے جس میں سینیٹ ،قومی اسمبلی ، پنجاب ،سندھ ، خیبر پختوانخواہ اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلیاں شامل ہیں۔ الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخاب کےلئے ووٹرز لسٹیں جاری کر دی ہیں جس کے مطابق سینیٹ ، قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے اراکین ووٹرز ہیں ۔ سینیٹ ،قومی اسمبلی اور بلوچستان اسمبلی میں ہر ممبر کا ایک ،ایک ووٹ شمار ہوگا جبکہ بلوچستان اسمبلی کے اراکین کی تعداد65ہے اور اسی تناسب سے دیگر صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کے ووٹ کو تقسیم کیا جائے گا۔ اس فارمولے کے مطابق پنجاب اسمبلی کے 5.7ممبران کا ایک ووٹ تصور ہوگا جبکہ سندھ اسمبلی کے 2.58اور خیبر پختوانخواہ اسمبلی کے 1.9ممبران کا ایک ووٹ شمار ہوگا۔ صدارتی انتخابات کے لئے مجموعی طور پر 1500 بیلٹ پیپرز چھاپے گئے ہیں، سفید رنگ کے بیلٹ پیپرز واٹر مارکڈ ہیںجن پر 3امیدواروں کے ناموں کے سامنے خالی خانہ چھاپہ گیا ہے۔ علاوہ ازیں صدارتی انتخاب کے موقع پر کسی بھی نا خوشگوار واقعہ سے نمٹنے کے لئے فول پروف سکیورٹی کےلئے انتظامات کر لئے گئے ہیں اور کسی بھی غیر متعلقہ شخص کو اسمبلیوں میں آنے کی اجازت نہیں ہو گی ۔ پولیس اور پنجاب اسمبلی کی اپنی سکیورٹی نے بھی سکیورٹی انتظامات کر لئے ہیں جس کے تحت اسمبلی عمارت کے اطراف سے گزرنے والی شاہراہیں عام ٹریفک کے لئے بند ہوں گی جبکہ قریبی عمارتوں پر سنائپرز تعینات ہوں گے۔ تمام جماعتوں نے اپنے اراکین اسمبلی کو صدارتی انتخاب کے موقع پر اپنی حاضری کو یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے جبکہ پارلیمانی لیڈرز نے پارٹی پالیسی کے مطابق اپنے اراکین اسمبلی کو ہدایات بھی جاری کر دی ہیں۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس محمد یاور جو آج صدارتی انتخاب کے موقع پر بطور پریذائیڈنگ آفیسر فرائض سر انجام دیں گے گزشتہ روز بھی پنجاب اسمبلی کا دورہ کر کے پولنگ کے حوالے سے تمام انتظامات کا جائزہ لیا۔

 

نیا میثاق جمہوریت تیار کرنا ہو گا ، سینٹ اجلاس میں ارکان کی تجویز

اسلام آباد (آئی این پی) سینٹ میں اپوزیشن رہنماﺅں نے ایک بار پھر عام انتخابات 2018ءمیں دھاندلی کی تحقیقات کے لئے پارلیمانی کمیشن بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ پارلیمانی کمیشن بنائیں گے لیکن ابھی تک نہیں بنایا گیا۔ وہ اپنے 100روزہ ایجنڈے میں پارلیمانی کمیشن کو بھی جگہ دیں، نیا میثاق جمہوریت تخلیق کرنا ہوگا، اداروں کے درمیان محاذ آرائی کو ختم کرنے کےلئے نتیجہ خیز مذاکرات کئے جائیں ، قومی یکجہتی کو فروغ دینے کےلئے اٹھارہویں ترمیم پر من وعن عمل کیا جائے ، یہ الیکشن مشرف اور ضیاءالحق کے ریفرنڈم کو مات دے گیا ہے ، الیکشن کمیشن فوری طور پر مستعفیٰ ہوجائے ، یہ حکومت دھاندلی شدہ ہے ، سرے سے نیا الیکشن ہونا چاہیے، نادرا کا سسٹم جان بوجھ کر بند کیا گیا ، دھاندلی ایک سال پہلے شروع کی گئی ، تاریخ گواہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ یا اشرافیہ نے اس بات کو تسلیم نہیں کیا کہ عوام کی حکمرانی ہے اور پارلیمان سپریم ہے ،جمہوری سسٹم پر شب خون مارا گیا ہے ، صفائی سے لوگوں کو ہرایا گیا ہے،،4500پریذائیڈنگ افسروں کے پاس فون ہی نہیں تھا، اگر آئین کے ساتھ کھیل کھیلا گیا تو وفاق پر سنگین گہرے بادل منڈلائیں گے ، آئین کہتا ہے کہ سویلین بالادستی ہوگی ، ہر ادارہ اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کرے گا، ان خیالات اظہار سینیٹر میاں رضا ربانی ، میر حاصل خان بزنجو ، جاوید عباسی ، شیری رحمان ، عثمان خان کاکڑ ، رحمان ملک ، غوث بخش نیازی اور طاہر بزنجو سمیت دیگر ارکان نے تحریک التوا پر بحث کے دوران اظہار خیال کر تے ہوئے کیا ۔پیر کو سینیٹ کا اجلاس ڈپٹی چئیرمین سلیم مانڈوی والا کی صدارت میں ہوا جس میں سینیٹر جاوید عباسی نے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی سے متعلق تحریک التواءپر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کی ایک ہی ہدایت تھی کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے ، بین الاقوامی مبصرین بھی یہی بات کر رہے ہیں ،2013میں سب یہ کہہ رہے تھے کہ الیکشن کمیشن کو مضبوط بنایا جائے ، پاکستان میں بڑا دھرنا بھی ہوا ۔انہوں نے کہا کہ الیکشن ایکٹ تمام جماعتوں نے مل کر بنایا تھا جس کے بعد ہمارا خیال تھا کہ آنے والے انتخابات پر شاید انگلیاں نہ اٹھیں ، الیکشن کمیشن کو مالی اختیارات بھی دیے گئے تھے ، 25جولائی کو کیا ہوا ،4بجے کے بعد الیکشن بالکل فری تھا ، آئین الیکشن کمیشن کو صاف شفاف الیکشن کرانے کا کہتا ہے ، آر ٹی ایس کا سارا سسٹم نادرا کے آفس میں رکھا ہوا تھا۔سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ یہ سسٹم مکمل طور پر محفوظ ہے ہم نے اس کو چیک کیا ہے ۔ جاوید عباسی نے کہا کہ صرف متعلقہ پریزائیڈنگ افسران کو ہی آر ٹی ایس استعمال کرنا تھا ، اس سسٹم کو پہلے چیک کرنا چاہیے تھا ،117ایسی نشستیں ہیں جہاں پریذائیڈنگ افسروں کے 12سے15فیصد فارم 45پر دستخط تھے ، اگر دستخط ہوتے تو کوئی سوال نہ کر سکتا، 49ایسے حلقے ہیں جن میں جیتنے کا مارجن اتنا ہے اگر مسترد ووٹ اتنے نہ ہوتے تو نتیجہ کچھ اور ہوتا،یہ آر ٹی ایس سسٹم کس سے لیا گیا ، آج پتہ چلا ہے کہ کوئی اور لوگ ہیں جن سے یہ سسٹم لیا گیا ، سب سے زیادہ الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کی ذمہ داری تھی ، عمران خان نے جیتنے کے بعد پہلی تقریر میں کہا کہ سیاسی جماعتیں جو ڈیمانڈ کریں گی پورا کروں گا ، سیاسی جماعتوں نے کہا کہ ایک پارلیمانی کمیشن بنایا جائے ، الیکشن پر تمام سیاسی جماعتیں ایک طرف کھڑی ہیں ، نادرا کا سسٹم جان بوجھ کر بند کیا گیا ، ایک پارلیمانی کمیشن بنایا جائے اور پتہ کیا جائے کہ مینڈیٹ کیوں چرایا گیا ۔ میر حاصل خان بزنجو نے کہا کہ ایک امید پیدا ہوئی تھی کہ شاید کوئی ایسا الیکشن ہو کہ کوئی سیاسی جماعت اس پر انگلی نہ اٹھائے ، دھاندلی ایک سال پہلے شروع کی گئی جس کےلئے ہمارے میڈیا اور لوگوں کو استعمال کیا گیا، سیاسی جماعتوں کو بدنام کیا گیا، یہ ایک طریقہ کار تھا ، الیکشن کمیشن خود دھاندلی کا پہلا حصہ بنا ، بلوچستان میں نگران حکومت بنانے کی چوائس الیکشن کمیشن کو دی گئی ، چار ناموں میں سب سے معتبرنام جہانگیز قاضی کا تھا ۔ میر حاصل بزنجو نے کہا کہ اب تو یہ مسئلہ آگیا ہے کہ بیانیہ کس کا ہوگا ، اگر پیپلزپارٹی سیاست کرنا چاہتی ہے تو اس کو خلائی مخلوق کے بیانیے پر جانا ہے ، اسی طرح کوئی اور دوسری جماعت سیاست کرنا چاہتی ہے تو اس بیانیے کے اندر رہ کر کرے گی ۔انہوں نے کہا کہ ہم مارشل لاءسے بدتر حالت میں آگئے ہیں اس طرح ملک اور قومیں نہیں چلتیں ۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کے تین دن تک ہمارے پولنگ ایجنٹس تک نہیں دیے گئے ۔ میر حاصل بزنجو نے کہا کہ آر ٹی ایس کس نے بند کیا تھا ، کس کی جرات ہے کہ نادرا کو آر ٹی ایس بند کرنے کا کہیں ۔انہوں نے کہا کہ اس دفعہ جتنے پیسے بٹورے گئے ہمیں اس کو چیک کرنا ہوگا ، ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے اور دھاندلی کی تحقیقات کرائی جائیں ۔ سینیٹر اعظم خان موسیٰ خیل نے کہا کہ میں اس جعلی الیکشن کی مذمت کرتا ہوں، کوئٹہ میں جمہوری حکومت توڑی گئی ، ہماری پارٹی کہتی رہی کہ اداروں کی مداخلت ہے لیکن کوئی تسلیم نہیں کرتا تھا ،اگر میثاق جمہوریت پر من وعن عمل ہوتا تو شاید یہ دن نہ دیکھتے ، الیکشن سے پہلے ہم نے 10سٹیشنوں کی نشاندہی کی تھی کہ یہاں پر دھاندلی ہوگی ، ہرنائی میں 6بجے پولنگ ختم ہوئی لیکن2 بجے تک ہمارے خلاف کارروائی کی گئی اور ہمیں ہروایا گیا ، اس ملک کو دھاندلی کے ذریعے نہیں چلایا جا سکتا ، ہم نے دھاندلی کی وجہ سے وزیراعظم کو کھویا اور وزیراعظم پھانسی پر چڑھا۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر غوث نیازی نے کہا کہ سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کیا گیا ہے، کئی پولنگ اسٹیشنوں سے پولنگ ایجنٹس کو باہر نکالا گیا ہے اس کا فوری تدارک ہونا چاہیے ، وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ پارلیمانی کمیشن بنائیں گے لیکن ابھی تک نہیں بنایا گیا ، وہ اپنے 100روزہ ایجنڈے میں پارلیمانی کمیشن کو بھی جگہ دیں ۔ اسد جونیجو نے کہا کہ اگر ہیکنگ ہوئی ہے تو اس کا پتہ چلایا جائے ، لاگ آڈٹ کرایا جائے کہ ٹمپرنگ ہوئی ہے کہ نہیں ۔ سینیٹر طاہر بزنجو نے کہا کہ جمہوریت کا مطلب قانون کی حکمرانی ہے ۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کے دن صرف چیف الیکشن کمشنر نہیں سو رہے تھے نگران وزراءبھی خراٹے لے رہے تھے ، یہ جبری شادی تھی جہاں مولوی صاحب سے بزور شمشیر نکاح پڑھایا گیا وہ بھی گواہوں کے بغیر ۔انہوں نے کہا کہ ساری جماعتوں نے انتخابی کو مسترد کیا ہماری جماعت کو جمہوریت سے وابستگی کی سزا دی گئی ہے ، ہمارے امیدواروں کی ریلیوں پر حملہ کیا گیا اور بدترین قسم کی دھاندلی کی گئی ۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے پارلیمنٹ میں آکر دوراندیشی کا مظاہرہ کیا ہے نیا میثاق جمہوریت تخلیق کرنا ہوگا ، اداروں کے درمیان محاذ آرائی کو ختم کرنے کےلئے نتیجہ خیز مذاکرات کئے جائیں ، قومی یکجہتی کو فروغ دینے کےلئے اٹھارہویں ترمیم پر من وعن عمل کیا جائے ۔ سینیٹر بہرا مند تنگی نے کہا کہ2018کا الیکشن عمران خان کو وزیراعظم بنانے کےلئے تھا، ہمیں این اے 23 میں 260پولنگ اسٹیشنوں کا نتیجہ نہیں دیا گیا ، کل ایک وفاقی وزیر بھی کہہ رہا تھا کہ یہ چوری کا الیکشن ہے ، عمران خان اس بات کا بھی جواب دیں کہ اب اگر ان کا وزیر جعلی الیکشن کہتا ہے تو عمران خان کس چیز کا دعویٰ کرتے ہیں کہ عوام نے ہمیں مینڈیٹ دیا ہے ، تاریخ میں اس سے بڑ اجعلی مینڈیٹ کسی کو نہیں ملا ۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ الائنسس بنائے گئے ،سیاسی اتحاد بنائے گئے ، بلوچستان کی صوبائی حکومت کو ختم کیا گیا ، میڈیا پر غیر اعلامیہ سنسر شپ نافذ کی گئی ، حلقہ بندیاں غیر قانونی طور پر بنائی گئیں ، نیب کو استعمال کیا گیا ، آر ٹی ایس خراب کیا گیا ، بعض پولنگ اسٹیشنوں پر کیمرے توڑ دیے گئے ۔انہوں نے کہا کہ پشتون لیڈر شپ کو پارلیمنٹ سے دور رکھا گیا ہے ، یہ الیکشن مشرف اور ضیاءالحق کے ریفرنڈم کو مات دے گیا ہے ،ا صل مقابلہ جمہوری قوتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تھا، الیکشن کمیشن فوری طور پر مستعفی ہوجائے ، یہ حکومت دھاندلی شدہ ہے ، سرے سے نیا الیکشن ہونا چاہیے ، اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ ہم اٹھارہویں ترمیم پر سمجھوتہ نہیں کریں گے ۔ سینیٹر میاں عتیق شیخ نے کہا کہ کون آکر نظام کر درست کرے گا ، جب کرسی خالی ہوگی ، جگہ دی جائے گی تو قابضین آئیں گے ، ہم اپنی بات پر قائم ہیں ، 20جولائی کو میں نے کہا تھا کہ سارا کھیل آر ٹی ایس سے کھیلا جائے گا ،سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ سب کی آواز ہے کہ پارلیمانی کمیشن ہونا چاہیے جبکہ انگوٹھوں کا بھی آڈٹ ہونا چاہیے ،4500پریذائیڈنگ افسروں کے پاس فون ہی نہیں تھا، جو سسٹم بند کرایا گیا وہ کس نے کرایا یہ قوم جاننا چاہتی ہے ۔ سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ ہم چاہتے تھے کہ الیکشن صاف شفاف ہوں ، جمہوری سسٹم پر شب خون مارا گیا ہے ، صفائی سے لوگوں کو ہرایا گیا ہے ، اس معاملے پر سینیٹ کی ہول کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے ، اس کا ٹیکنیکل سیاسی اور آئینی آڈٹ بھی ہونا چاہیے ۔ سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا کہ یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے سوائے ایک انتخاب کے جتنے انتخابات ہوئے ان پر انگلیاں اٹھی ہیں نئے انتخابات پر بھی یہ سوال اٹھے گا، تاریخ گواہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ یا اشرافیہ نے اس بات کو تسلیم نہیں کیا کہ عوام کی حکمرانی ہے اور پارلیمان سپریم ہے ، تاریخ گواہ ہے کہ ہر 10سال بعد جمہوری عمل کوختم کیا جاتا رہا ۔آئین کو معطل کردیا جاتا تھا اس کے بعد دیکھا کہ یہ ممکن نہیں تھا تو پھر آئین میں ترمیم لائی گئی ، 58ٹو بی کا معرض وجود سامنے آیا ، میں پارلیمان کو سلام پیش کرتا ہوں جس نے 58ٹو بی کو ختم کیا ۔ پارلیمان نے مشرف جیسے ڈکٹیٹر کے اقدامات کو تحفظ نہیں دیا ، پھر سوچا گیا کہ نیا طریقہ کار کیا ہوسکتا ہے کہ کٹھ پتلیاں موجود ہوں اور ڈوریں کہیں اور سے کھینچی جائیں ، یہ ایوان وفاق کی علامت ہے ، اگر جمہوریت نہ رہی اور جمہوری عمل کو دوبارہ ڈی ریل کیا گیا ، اگر آئین کے ساتھ کھیل کھیلا گیا تو وفاق پر سنگین گہرے بادل منڈلائیں گے ، پاکستان کی اشرافیہ کو باقی سٹیک ہولڈرز کے ساتھ بیٹھ کر طے کرنا ہے کہ گورننس کے طریقہ کار کیا ہوں گے ، آئین کہتا ہے کہ سویلین بالادستی ہوگی ، ہر ادارہ اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کرے گا، اگر ملک کو مستحکم کرنا ہے تو لازم ہے کہ ہم آئین کی پاسداری کریں ۔انہوں نے کہا کہ اب ایک نیا ڈرامہ شروع کیا گیا ہے ، ابھی سے اگلے الیکشن کی دھاندلی کا سامان شروع کیا جا رہا ہے میں اس بات کا مخالف نہیں ہوں کہ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹنگ کا حق دیا جائے لیکن جو طریقہ کار اپنایا جارہا ہے وہ شفاف نہیں ہے ، اگر آر ٹی ایس فیل ہوگیا تو کیا گارنٹی ہے ای ووٹنگ ہیک نہیں ہوگی ، ان پاکستانیوں کا کیا ہوگا جو مڈل ایسٹ میں ہیں اور ان کا اکاﺅنٹ نہیں ہے ۔ سینیٹر رانا مقبول نے کہا کہ ہمیں اپنی خود مختاری کا احترام ہونا چاہیے ، جو سانحہ ہوا الیکشن کمیشن ابھی تک ماننے کو تیار نہیں ، تمام دنیا کو پتہ ہے کہ کیا ہوا ، بہانے قوم کے مفاد میں نہیں ہیں ایک پارلیمانی کمیشن بنایا جائے ۔

 

84 پٹواریوں کی محکمہ ریونیو میں ایڈجسٹمنٹ کیلئے 3 رکنی کمیٹی تشکیل

لاہور(نیوز رپورٹر ) بندوبست سے فارغ اور سرپلس پول میں ڈالے جانے والے 84 پٹواریوں کو محکمہ ریونیو میں ایڈجسٹ کرنے کے لئے تین رکنی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے ،قائم کی گئی کمیٹی سرپلس پٹواریوں کو محکمہ ریونیو میں ایڈجسٹ کرنے کے لئے طریقہ کار تیار کرے گی تین رکنی کمیٹی جس میں جی اے ٹو مدثر، نائب تحصیلدار ایوب بھٹی اور قانونگو مختار شامل ہیں کمیٹی ایک دو دن میں اپنا کام شروع کر دے گی جس میں سفارشات بھی حاصل کی جائیں گی اور ایک طریقہ کار مرتب کیا جائے گا جس کے تحت سرپلس پٹواریوں کو محکمہ ریونیو میں ایڈجسٹ کیا جائے گا۔

 

فضل الرحمان آئندہ ملک کے صدر ہونگے اس بات پر مٹی ڈال دینی چاہئے : فیاض الحسن چوہان

لاہور (آن لائن) صوبائی وزیر اطلاعات و ثقافت فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان آئندہ ملک کے صدر ہونگے اس بات پر مٹی ڈال دینی چاہئے گزشتہ\ روز اپنے دور ہ الحمراءآرٹ سینٹر کے موقع پر میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان ساری عمر لوگوں کے پیسے پرعیاشی کرتے رہے ہیں اور اب انہیں اپنی جیب سے پیسے خرچ کرنے پڑ رہے ہیں تو ان کی کوشش ہے کہ وہ جلد از جلد ملک کے صدر منتخب ہو جائیں انہوں نے کہا کہ بہتر ہے مولانا فضل الرحمان ملک کے صدر نہ ہی بنیں اگر وہ صدر بن گئے تو پاکستان دنیا کو کیا منہ دکھائے گا قبل ازیں انہوں نے چیئرمین آرٹ کونسل توقیرناصر کے ہمراہ الحمراءآرٹ سینٹر کے مختلف حصوں کا دورہ کیا اس موقع پر الحمراءآرٹ سینٹر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیپٹن (ر)عطاءمحمد نے صوبائی وزیر کو بریفنگ دی۔

 

قاری کی 2 ساتھیوں سمیت 10 سالہ بچے سے زیادتی ، ویڈیو بنا لی ، والدکی ” خبریں ہیلپ لائن “ سے گفتگو

فیصل آباد (رپورٹ:یونس چوہدری) فیصل آباد میں بچوں سے زیادتی کا ایک اور اسکینڈل سامنے آ گیا۔ فیکٹری ایریا کے علاقہ ایوب کالونی میں مدرسہ کے انچارج قاری نے اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ 10سالہ طالب علم کو بدفعلی کا نشانہ بنا دالا اور فرار ہو گئے۔ مدرسہ کا قاری اور اس کے ساتھی بچوں کی ویڈیو اور تصاویر بھی بناتے رہے ، ویڈیو اور تصاویر برآمد”خبریں“ نے حاصل کر لی۔ مقدمہ درج، دو ملزمان گرفتار، تیسرا ملزم فرار، بچے کو خنجر سے قتل کرنے کی دھمکی۔ جبکہ علاقہ میں شدید خوف و ہراس اور ورثاءسمیت اہل علاقہ مشتعل ، کسی بڑے واقع کے رونما ہونے کا خدشہ، تفصیل کے مطابق ایوب کالونی جھنگ روڈ پر قاری عثمان نے دینی تعلیم کےلئے تعلیم القرآن کے نام پر مدرسہ بنا رکھا ہے۔ جہاں ایوب کالونی کے رہائشی محمد اعجاز کا تقریباً 10سالہ بیٹا ک بھی قرآن پاک پڑھنے جاتا تھا اور مدرسہ میں بچوں کو صبح و شام دینی تعلیم دی جاتی ہے۔ مدرسہ کے انچارج قاری عثمان نے اپنے دو ساتھیوں اسامہ اور شہزاد کے ہمراہ کمسن دس سالہ ک کو زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔ اس کی ویڈیو فلم اور تصاویر بھی بناتے رہے اور بچے کو خنجر دکھا کر ڈرایا دھمکایا گیا اور دھمکی دی کہ اگر کسی کو بتایا تو خنجر سے تمہارا گلا کاٹ دیں گے۔ بدفعلی کا شکار بچے کے والد اعجاز نے پولیس کو بتایا کہ قاری عثمان، اسامہ اور شہزاد پچھلے ایک ماہ سے میرے بیٹے ک کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں اور اس کو قتل کرنے کی دھمکیاں دیتے رہے۔ تھانہ فیکٹری ایریا پولیس نے متاثرہ بچے کے والد کی مدعیت میں مقدمہ درج کر کے دو ملزمان عثمان ا ور اسامہ کو گرفتار کر کے بچے سے نازیبا حرکات کرنے کی ویڈیو فلم اور تصاویر برآمد کر لیں ہیں۔ تیسرا ملزم شہزاد فرار ہے۔ جس کو پولیس گرفتار کرنے کےلئے چھاپے مار رہی ہے پولیس کا کہنا ہے کہ تیسرے ملزم کو بھی جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔ اس امر پر زیادتی کا نشانہ بننے والے کمسن بچے کے والدین اور اہل علاقہ نے خبریں کی وساطت سے وزیراعظم، وزیراعلیٰ پنجاب، چیف جسٹس آف پاکستان، آئی جی پنجاب، آر پی او اور سی پی او فیصل آباد سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری نوٹس لےکر فرار ملزم کو بھی گرفتار کر کے تینوں ملزمان کو ان کے منطقی انجام تک پہنچا کر انصاف فراہم کیا جائے۔

 

شہباز شریف خود پر کیسوں کے باعث دباﺅ میں ہیں: تاج حیدر صدر ٹرمپ کے ہوتے ہوئے پاک امریکہ تعلقات میں بہتری کا امکان نہیں: رحیم اللہ یوسفزئی کی چینل ۵ کے پروگرام ” نیوز ایٹ 7“ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک ) تحریک انصاف کے رہنما امجد خان نے کہاہے کہ اگر اپوزیشن ایک بھی ہوتی تو بھی صدارتی انتخاب تحریک انصاف ہی جیتتی ہماری پارٹی کو بڑی تعداد میں ووٹ ملیں گے۔چینل فائیو کے پروگرام نیوز ایٹ 7میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اصل میںاپوزیشن نظریہ کے بجائے مفادات پر اکٹھی تھی ہمیں اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں۔تحریک انصاف کے لئے اصل چیلنج ملک کو درست سمت میں ڈالنا ہے۔عارف علوی وزیراعظم عمران خان کے ساتھ کھڑے تھے کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے۔پارٹی میں کوئی دھڑے بندی نہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما تاج حیدر نے کہا ہے کہ ہم ملک میں مساوات اور قانون کی بالادستی چاہتے ہیں۔شہباز شریف خود پر کیسز کے باعث دباﺅ میں ہیں۔زرداری پر منٹی لانڈرنگ کا جھوٹا کیس ہے۔ہمیں مولانا فضل الرحمان سے خفیہ ملاقاتوں کی ضرورت نہیں۔اعتراز احسن نے آمروں کا مقابلہ کیا۔نواز شریف اور شہباز شریف کی پالیسی میں فرق ہے شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ سے الجھنا نہیں چاہتے۔اگر فارم 45ٹھیک ہے تو الیکشن کی شفافیت میں کوئی شک نہیں۔اگر مولانا دستبردار نہیں ہوتے تو اعتزاز احسن کا جیتنا مشکل ہے۔ تجزیہ کاررحیم اللہ یوسفزئی نے کہا ہے کہ امریکہ او ر پاکستان کو معلوم ہے سارے مسائل ٹیبل پر ہیں۔ صدرٹرمپ کے ہوتے پاک امریکہ تعلقات میں بہتری کا امکان نہیں۔امریکہ میں بھی ٹرمپ کی کافی مخالفت ہے۔کئی ملکوں سے امریکی تعلقات خراب ہو چکے ہیں۔پاکستان پر اب امریکہ کا اثر اتنا نہیں رہا۔امریکہ اپنی شرائط پر دوستی کا خواہا ںہے۔امریکہ امداد نہیں دیتا بلکہ الٹا پاکستان کا پیسہ دبا لیا ہے۔

 

ون ٹو ون مقابلہ ہوتا تو اعتزاز مضبوط امیدوار ، اب عارف علوی کی جیت یقینی : ضیا شاہد ، امریکہ کو پیغام دیا گیا ہے کہ صرف اپنا مفاد نہیں پاکستان کا بھی سوچے : خورشید قصوری ، نئی حکومت منی لانڈرنگ پر پالیسی بنائے ، قانون سازی کرے : علی ظفر ، چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ میرا خیال ہے کہ پاکپتن والا واقعہ بہت معمولی سی بات تھی لیکن وزیراعلیٰ ہاﺅس اور وزیراعلیٰ کے ملنے والے لوگوں کی طرف سے بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے اور ہر آنے والے دن میں 3,2 کردار اور سامنے آ جاتے ہیں۔اس قسم کے معاملات میں سیدھا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ انسان معذرت کر لے، سوری کر لے اور اگر ایسا ہو جاتا ہے تو معاملہ وہاں ختم ہو جاتا ہے لیکن کچھ لوگوں نے جھوٹی انا کا مسئلہ بنایا ہوا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ جو ہم نے کر دیا وہ صحیح ہے اور اب ہم ہر گز اپنے اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ سیاست میں اس قسم کا رویہ نقصان پہنچاتا ہے۔ اس واقعہ کو کتنے دن گزر چکے ہیں۔ اب تک یہ معاملہ کب سے ختم ہو چکا ہوتا۔
ضیا شاہد نے کہا کہ کسی بھی ملک میں پانچ برس کے بعد صدر کا انتخاب ہوتا ہے جس صورت میں یہ انتخاب ہو رہا ہے اس میں اگر تو ون ٹو ون مقابلہ ہوتا تو سمجھا جا سکتا تھا کہ ایک طرف حکومت ہے ایک طرف اپوزیشن ہے۔ لیکن اب تک جو صورت حال نظر آ رہی ہے وہ یہ ہے کہ اپوزیشن کے دو امیدوار ہیں نظر یہ آتا ہے کہ یہ جان بوجھ کر ہارنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ اگر ون ٹو ون مقابلہ ہو تو پھر تو قدرتی طور پر اس میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے اب تو صرف یہی دیکھنا ہے کہ کتنے کم ووٹ ملیں گے۔ یہ بڑی عجیب بات ہے اور بڑی دلچسپ صورت حال ہے کہ نہ اعتزاز احسن کے کھڑا کرنے والے ہیں وہ ایک منٹ کے لئے سوچنے کو تیار ہیں کہ ہم اپنا امیدوار واپس لے لیں نہ مولانا فضل الرحمان اس بات پر تیار ہیں کہ وہ اور ان کے ساتھی ان کو یہ کہیں کہ آپ بیٹھ جائیں۔ بہرحال میں یہ سمجتا ہوں کہ آخری وقت تک بھی یہ صورتحال اسی طرح سے رہے گی اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عین 5 منٹ پہلے کوئی ایک فریق بیٹھ جائے لیکن بظاہر نظر نہیں آتا کہ ”ہم تو ڈوبیں گے صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔“ اس حساب سے یہ دونوں اصحاب ایک دوسرے کو لے ڈوبیں گے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس صورتحال میں پی ٹی آئی کے امیدوار عارف علوی کو فائدہ ہو گا اور وہ آسانی سے جیت جائیں گے اس لئے کہ ان کے مقابلے میں دونوں حضرات اعتزاز احسن اچھے امیدوار ہیں۔ قانون سے واقف ہیں سیاست سے بھی واقف ہیں۔ سنیٹر بھی ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب وہ تحریک استقلال میں ہوتے تھے تو مجھے وہ لاہور ہائی کورٹ کے دروازے پر ملے اور انہوں نے مجھے بتایا کہ تحریک استقلال سے میرا تعلق ہے جناب ایئر مارشل اصغر خان کی پارٹی سے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ پارٹی چھوڑ کر پیپلزپارٹی میں شامل ہو گئے تو اس وقت سے لے کر اب تک وہ پیپلزپارٹی میں ہیں اور اگرچہ دو ایک مرتبہ انہوں نے وقتی طور پر پارٹی چھوڑی بھی ہے لیکن وہ دوبارہ پارٹی میں آ جاتے ہیں۔ لگتا ہے یہی وجہ ہے کہ اگر ان کے مقابلے میں مولانا فضل الرحمان دستبردار نہ ہوئے تو ان کا جتنا بڑا مشکل ہے اور مولانا فضل الرحمان کا جیتنا بھی مشکل ہے لیکن پتہ نہیں کس خوش فہمی کی بنیاد پر آصف زرداری صاحب تو اب تک یہ کہہ رہے ہیں کہ میرا امیدوار جیت جائے گا۔ پتہ نہیں ان کے پاس کون سی گیدڑ سنگھی ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں مولانا فضل الرحمان کے ہوتے بھی ان کا امیدوار جیت جائے گا۔ شاید دونوں امیدوار اس فلسفے کے قائل ہیں کہ ”نہ جتناں ایہہ نہ جتن دینا اے“۔
احسان ناز نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے امیدوار عارف علوی آرام سے جیت جائیں گے اگر یہ دونوں اکٹھے ہو جائیں تو پھر شکست ان کا مقدر ہے اس لمحے مولانا فضل الرحمان، آصف زرداری سے ملاقات کر رہے ہیں اور اس وقت یہی کہہ رہے ہیں کہ ہمیں متحدہ طور پر پی ٹی آئی کے امیدوار کے خلاف الیکشن لڑنا چاہئے لیکن وہ کسی صورت یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ جب کہ آج شہباز شریف نے لاہور میں اپنے ارکان کا اجلاس بلایا اور ان سے حلف لیا ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمان کو ووٹ دیں گے اس میں کچھ لوگوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے کیونکہ مولانا فضل الرحمان کو اچھا نہیں سمجھتے وہ کہتے ہیں کہ اگر ہماری پارٹی کا کوئی بندہ کھڑا ہوتا تو ہم اس کو ووٹ دیتے حالانکہ وہ پہلے چاہ رہے تھے کہ متحدہ اپوزیشن کا کوئی امیدوار ہو تو ہم اس کو ووٹ دے سکتے ہیں، عارف علوی 342 ووٹ حاصل کریں گے پیپلزپارٹی کے امیدوار 115 ووٹ حاصل کریں گے جبکہ مولانا تمام اتحادیوں کو ملا کر کل 200 کے قریب ووٹ حاصل کریں گے۔ عارف علوی بھاری اکثریت سے کامیاب ہو جائیں گے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ کیا الیکشن شروع ہونے سے پانچ منٹ پہلے بھی کوئی امکان ہے کہ مولانا فضل الرحمن اور اعتزاز احسن میں سے کوئی ایک شخص وہ دوسرے کے مقابلے میں دستبردار ہو جائےگ گا۔
احسان ناز نے کہا کہ سیاست میں سب چلتا ہے اور یہ ایک منٹ پہلے بھی ہو سکتا ہے لیکن جو سیاسی صورتحال مجھے نظر آ رہی ہے مجھے ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ مولانا فضل الرحمن کا طرز عمل رہا ہے کہ وہ ہمیشہ برسراقتدار پارٹی سے ڈیل کرتے ہیں یہ پہلا موقع ہے کہ ان کی ڈیل ن لیگ سے پہلے سے چل رہی تھی اس لئے وہ مسلم لیگ ن کے ساتھ ہی کمٹڈ ہیں وگرنہ وہ عام طور پر جیتنے والی جماعت یا برسراقتدار پارٹی کے ساتھ عام طور پر ہوتے ہیں۔ مولانا کا جس طرح منسٹر انکلیو سے سامان اٹھا کر باہر پھینکا گیا اس پر شعر صادق آتا ہے۔
بہت بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے
بہتر ہوتا ہے کہ اب وہ الیکشن ہار چکے، بہتر ہوتا کہ وہ سرکاری رہائش گاہ خود ہی چھوڑ دیتے۔ آخر کار انہیں جانا ہی پڑا ہے، اتنا ڈھیٹ پنا دکھانے کی کیا ضرورت تھی۔
آصف علی زرداری کے امیدوار کے ووٹ کم ہو سکتے ہیں لیکن اعتزاز احسن اچھے پارلیمنٹیرین رہے ہیں ان کے مقام سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ انکے ہارنے سے مجھے ذاتی طور پر دکھ ہو گا کیونکہ وہ اچھے سکالر ، قانوندان ہیں۔ انہوں نے سندھ ساگا پر اچھی کتاب لکھی ہے۔ سوشل میڈیا پر انکی بہت خوبصورت اور طویل نظم دیکھی، اسے اخبار میں چھاپنے کیا سوچ رہا تھا۔ معلوم نہیں تھا کہ وہ اچھے شاعر بھی ہیں۔ مولانا کا اعتزاز احسن سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایک مولوی کو پاکستان کا صدر ہونا چاہئیے جنہیں انگریزی کا ایک لفظ نہیں آتا اور تیقن سے کہتے ہیں کہ میں موذوں امیدوار ہوں۔ انگریزی زبان قانون ، انٹرنیٹ کی زبان ہے نہ کہ بہت اچھی زبان ہے۔ سپریم کورٹ کا ہر فیصلہ انگریزی میں آتا ہے۔ اردو میں رٹ دائر بھی ہو تو آخری فیصلہ انگریزی متن میں ہوگا۔ تمام حکومتوں ، یو این او کے ریزولوشن انگریزی میں آتے ہیں۔ مولانا وہ باریش بچہ ہے جو چاندمانگ رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ چاند کے انگریزی نعم البدل کا بھی بچے کو پتا ہے یا نہیں۔
دوبئی میں 20750 پاکستانیوں کی جائیدادوں کی تفصیلات سامنے آنے کے سوال پر ضیا شاہد نے کہا کہ ہمارے دفتر کے قریب ہیں ہال روڈ یا بیڈن روڈ پر کسی بھی دوکاندار سے پوچھ لیں تو پتا چلے گا کہ یہاں بھی دوکان ہے اور بھائی ، چاچے ، مامے قریبی رشتہ دار کا دوبئی میں بھی کاروبار ہے ۔ لاہور کا کوئی بازار ایسا نہیں جہاں کوئی شخص یہ کہتا نہ ملے کہ ہماری ایک دوکان دوبئی میں بھی ہے۔ اس اعتبار سے دوبئی کاروبار میں بے حد دخیل تھا۔ شاہ عالمی یا انارکلی کے تاجروں سے پوچھ لیں تو ایک بھائی یہاں اور ایک دوبئی میں کاروبار کر رہا ہے اور سارا کاروبار غیر قانونی ہے۔ کوئی واضح طور پر نہیں کہتا کہ میں نے غیرقانونی طور پر پیسے باہر بھیجے ہیں۔ اب سپریم کورٹ کی جانب سے باہر جانے والے پیسے کی تحقیقات کے لیے ہدایت کر دی گئی ہے، سب پتا چل جائے گا۔
پروگرام میں شریک گفتگو مہمان سابق وزیر اطلاعات علی ظفر نے منی لانڈرنگ اور دوبئی میں پاکستانیوں کے اثاثوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر کہا کہ موثر قانون سازی کے بغیر منی لانڈرنگ کی روک تھام ناممکن ہے ۔ جان بوجھ کر یا نااہلی کے باعث اس پر کبھی قانون سازی نہیں ہوئی کہ کس چیز کے لیے پیسہ باہر لیجایا جا سکتا ہے اور کس چیز کے لیے نہیں ، اور کتنا لیجا سکتے ہیں۔ یہ معاملہ الجھن کا شکار ہی رہا ہے۔ بہت ضروری ہے کہ نئی حکومت کلئیر پالیسی لیکر آئے اور اس پر قانون سازی کرے تاکہ پوزیشن واضح ہو سکے۔ بیرون ملک اثاثوں کی تفصیلات حاصل کرنا بہت آسان ہے۔ اس میں تین قسم کے اثاثے ہیں۔ ایک وہ جو ڈکلئیر ہو چکے ہیں اس میں کوئی غیر قانونی بات نہیں ہے۔ کچھ ایسے ہیں جو ایمنسٹی سکیم کے تحت لوگوں نے ظاہر کیے ہیں۔وہ ایمنسٹی سکیم کے تحت ہی ریکور ہوں گے۔ جن لوگوں نے نہ خود اثاثے ظاہر کیے نہ ایمنسٹی سکیم میں ظاہر ہوئے۔ انکے اثاثوں تک پہنچنا دبئی اورانگلینڈ میں رسائی حاصل کرنا بہت آسان ہے۔ کیونکہ ان ممالک کے ساتھ ہمارے معاہدے ہو رہے ہیں ، جسکے تحت ان ممالک نے ہمیں پراپرٹیز کی تفصیلات مہیا کرنی ہیں۔ لیکن اسکے بعد ایف بی آر کو پراپرٹیز تک پہنچنے اور اپنی تحویل میں لینے کے لیے بیرون ملک ایکشن کرنا پڑیں گے۔ اس معاملے میں تاخیر ہو سکتی ہے جسکے لیے پالیسی بنانے اور عالمی معاہدے کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کرپشن کی جائیدادیں واپس لانے کا لائحہ عمل طے کیا جائے ۔ نواز شریف کی نیب کے تحت کرپشن کی پراپرٹیز پر بھی پالیسی نہ ہونے کے باعث اب تک کوئی کاروائی نہیں کی گئی کہ انہیں کیسے تحویل میں لینا ہے۔ ان مراحل میں پیچیدہ قانون سازی کی ضرورت ہے تاکہ معاملہ آگے بڑھ سکے، صرف باتیں کافی نہیں۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے دورہ پاکستان کے حوالے سے ضیا شاہد نے کہا کہ امریکی وزیر خارجہ کی پاکستان آمد پر انکی پاکستانی وزیرخارجہ اور بجا طور پر وزیراعظم سے بھی ملاقات ہوگی۔
پروگرام میں سابق وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری نے امریکی وزیرخارجہ کی پاکستان آمد پر کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد امریکی وزیر خارجہ کا پہلا دورہ پاکستان ہے۔ واشنگٹن میں امریکی وزیر خارجہ ، وزیردفاع اور دیگر زعما نے کہا کہ پاکستان کی نئی حکومت کو مائل کیا جائے، اس لحاظ تک بات ٹھیک ہے لیکن انہوں نے پاکستان کو سنگل بھی دئیے ہیں۔ کولیشن سپورٹ فنڈ امداد نہیں تھی لیکن اسمیں سے پیسے کاٹ کر انہوں نے پاکستان کو سگنل دیا ہے۔ امریکی وزیرخارجہ بھارت جا رہے ہیں اس حوالے سے خاص طور پر بھارت کو پیغام دیا گیا ہے کہ اس سے پہلے وہ ہندوستان کے لیے بہت کچھ کر چکے ہیں۔ نیوکلئیر سپلائر گروپس میں شمولیت، ایڈوانس لیول کا نیوکلیرپروگرام بھارت کے ساتھ کیا۔ ابامریکہ چاہ رہا ہے کہ قوم کاسا کا نیا معاہدہ بھارت کے ساتھ سٹریجک لیول پر ہو جائے۔ پاکستان کےلئے انہوںنے بھارت کو یہ سگنل دیا ہے کہ دیکھوتمہیں گلہ تھا کہ ہم پاکستان عموما تاریخی طور پر پاکستان کے حق میں ہوتے ہیں تو ہم نے تو ان سے بڑی سخت ڈیلنگ کی ہے ۔ لیکن پاکستان نے بھی مناسب کیا کہ ایران کے وزیرخارجہ کی پاکستان آمد پر انکا پرتپاک استقبال وزیراعظم اوروزیرخارجہ کی طرف سے کیا گیا اور کہا گیا کہ پاکستان اور علامتی طاقتیںجے سی پی او،نیوکلیر ڈیل کے معاہدے کو سپورٹ کریں ۔امریکہ کو پاکستان کی یہ بات بالکل پسند نہیں آئے گی ۔ لیکن پاکستان کی طرف سے سگنل یہ ہوا ہے کہ اگر آپ افغانستا ن میں پاکستان اور ایران کے بغیر کچھ چاہتے ہیں اس پر روس سے بھیامریکہ کے تعلقات خراب ہیں اور ان پر بھی فرمان عائد کیا ہے ۔امریکہ کے لیے آسان نہیں ہو گا کہ وسط ایشیائی ممالک جہاں سے شمالی تقسیمی نیٹ ورک گزرتا ہے روس کی مخالفت کے بغیر امریکہ استعمال نہیں کر سکتا۔ لگتا ہے کہ امریکی صدر کو کسی نے علاقے کا نقشہ نہیں دکھایا۔ پاکستا ن تو چاہتا ہے کہامریکہ سے تعلقات اچھے ہوں کون بے وقوف ہے جو نہیں چاہے گا ۔امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور ہے۔ امریکہ کو پیغام پہنچایا گیا ہے کہ انہیں پاکستان کے مفادات کے بارے میں بھی سوچنا پڑے گا۔ امریکی پالیسی ہے کہ یو ایس کے لیے مکمل سکیورٹی ہو لیکن وہ دوسروں کی سکیورٹی کی پرواہ نہیں کرتے۔ وہ جو مطالبے کر رہے ہیں، پاکستان میں فوجی اور پولیس کے جوانوں سمیت ستر ہزار کے قریب لوگ شہید ہو چکے ہیں۔امریکہ کی اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔امریکہ اگر چاہتا ہے کہ پاکستان یہ ساری باتیں اگنور کرے تو یہ نہیں ہوگا۔ افغانستان سے اگر وہ باعزت نکلنا چاہتے ہیں تو انہیں پاکستان کی ضرورت ہوگی۔ اگر وہ پاکستان پر دباﺅ ڈال رہے ہیں تو بھونڈا کام کر رہے ہیں۔ اس لیے کہ پاکستان کی عوام اگرامریکہ کے خلاف ہو تو پاکستان کی کوئی حکومت آگے نہیں بڑھ سکتی۔ امریکہ کو سوچنا پڑے گا۔ امریکی وزیرخارجہ کا دورہ نہایت اہم ہے ۔ خواہش ہے کہ امریکہ کے ساتھ زوال کا شکار تعلقات میں یہ دورہ نسبتاً کامیاب ہوگا۔دونوں ممالک کے مفاد میں ہے کہ افغانستان میں امن ہو۔ نہیں سمجھتا کہ اس دورہ سے سٹریجک تبادلے ہوںجائیں گے۔ رابطے بحال ہو جائیں تو بہت اچھی بات ہے۔

 

عمران خان عوام کیلئے ایک امید ، کفایت شعاری سے قوم کا مورال بلند ہوگا : علی احمد ڈھلوں ، جنوبی پنجاب صوبہ بننے سے ملک ترقی کریگا، ٹیکس نظام بہتر کرنا پڑیگا، مریم ارشد ، بعض لوگ 100روز کی کارکردگی کا انتظار کررہے ہیں ، خواہش ہے حکومت عوام کو ریلیف دے : توصیف احمد خان ، تحریک انصاف کا منشور ، ایم این ایز وزراءکا کام صرف قانون سازی ہے : امجد اقبال ، چینل ۵ کے پروگرام ” کالم نگار “ میں گفتگو

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) کالم نگارعلی احمد ڈھلوں نے کہا ہے کہ صدارتی الیکشن کا رزلٹ تو سب کو نظر آ رہا ہے میری تو خواہش تھی کہ اعتزاز احسن جیتتے۔چینل فائیو کے پروگرام کالم نگار میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صدر کو بہرحال بے اختیار نہیں ہونا چاہئے اس کے پاس کچھ اختیارات بھی ہونے چاہئیں۔عمران خان بڑے سیاستدان ہیں ۔جو بھی کر رہے ہیں وکٹ کے مطابق باﺅلنگ کر رہے ہیں۔ہمارے معاشرے میں سچ کو فروغ ملنا چاہئے۔عمران خان قوم کے لئے ایک امید ہیں۔کفایت شعاری سے قوم کا مورال بلند ہو گا۔کالم نگار توصیف احمد خان نے کہا ہے کہ میرے نذدیک تواگلے صدر عارف علوی ہوہوں گے۔بہرحال امید پر دنیا قائم ہے۔انہوں نے کہا کہ ضیاءالحق کی بہت سی نشانیاں اب بھی آئین میں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صدارتی الیکشن میں خفیہ ووٹنگ ہوتی ہے۔کچھ لوگ سو روز کی کارکردگی کا انتظار کر رہے ہیں۔بہرحال ہماری خواہش ہے موجودہ حکومت کام کرے عوام کو ریلیف ملے۔ملک میں خوشحالی آئے۔اللہ ہمیں توفیق دے ہم دینے والا ہاتھ بن جائیں لینے والا نہیں۔کالم نگار مریم ارشد نے کہا ہے کہ عارف علوی ذرا چست قسم کے انسان ہیں اگر وہ صدر بنے تو قید تنہائی میں نہیں رہیں گے ۔اعتزاز احسن کا یہ تک کہنا ہے پی ٹی آئی کے لوگ بھی انہیں ووٹ دے سکتے ہیں لیکن اگراپوزیشن متفق ہوتی۔پرویز الہی صرف سپیکر بننے کے لئے نہیں آئے انہوں نے اس سیٹ کو سیڑھی کے طور پر استعمال کرنا ہے۔میرے خیال میں جنوبی پنجاب صوبہ بننغے سے ملک ترقی کرے گا۔ٹیکس کا نظام بہتر کرنا پڑے گا۔میں سمجھتی ہوں کرپشن ختم ہونی چاہئے۔اس کے لئے سخت احتساب کی ضرورت ہے۔لیڈر ٹھیک ہو تو سب ٹھیک ہو جاتا ہے۔ سینئر صحافی ا مجد اقبال نے کہا کہ اگر اپوزیشن کا ایک امیدوار ہوتا تو مقابلہ ٹف ہوتا۔جوڑ توڑ اور دباﺅ کے باوجود پنجاب سے ن لیگ کی سیٹیں زیادہ تھیں۔تحریک انصاف کا منشور ہے کہ ایم این ایز اور وزرا کا کام صر ف قانون سازی ہے۔صرف پیپلز پارٹی نہیں ن لیگ بھی اپوزیشن کا اتفاق نہیں ہونے دے رہی ہے۔غریب ممالک کے حکمرانوں کو وسائل کے اندر رہنا چاہئے۔پاکستان کو امریکہ سے بہتر تعلقات رکھنا چاہئیں۔

01