جب حکمران نیت اور اس کیلئے محنت کرے تو اللہ اسکا پھل ضرور دیتا ہے ، مولانا طارق جمیل بھی عمران خان کے مداح نکلے

لاہور (ویب ڈیسک )معروف مذہبی سکالر مولانا طارق جمیل کا کہنا ہے کہ عمران خان پہلا وزیر اعظم ہے جس نے یہ نعرہ لگایا کہ میں پاکستان کو مدینہ والی ریاست بنانا چاہتا ہوں۔ حکمران کی نیت کا اثر پورے ملک اور پورے معاشرے پر پڑتا ہے، یقیناً ہم وہ دور تو نہیں لاسکتے لیکن ہم 33 فیصد بھی نمبر حاصل کرلیں تو بہت کچھ ہوسکتا ہے، انہوں نے کہا کہ اگر تاریخ کا جائزہ لیں تو صرف دو ریاستیں ہی نظر آتی ہیں جو اسلام کے نام پر بنی ہیں۔ ایک ریاستِ مدینہ اور دوسری ریاستِ پاکستان، اللہ نے اس کیلئے شب قدر کی رات چنی۔ بظاہر تو کوئی شکل نظر نہیں آتی لیکن جب حکمران نیت کرلے اور اس کیلئے محنت کرے تو اللہ اس کی محنت کو پھل ضرور لگاتا ہے۔ یقیناً ہم وہ دور تو نہیں لاسکتے لیکن ہم 33 فیصد بھی نمبر حاصل کرلیں تو بہت کچھ ہوسکتا ہے۔

”وعدہ معاف گواہ بنوں گا “ پیرا گون سکینڈل میں قیصر امین بٹ نے ایسی آفر کر دی کہ سعد اور سلمان رفیق کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے

لاہور (ویب ڈیسک ) پیرا گون ہاﺅسنگ کیس میں گرفتار ملزم قیصر امین بٹ نے وعدہ معاف گواہ بننے کیلئے درخواست دے دی۔ ترجمان نیب لاہور کے مطابق قیصر امین بٹ نے وعدہ معاف گواہ بننے کی درخواست دی ہے جس کا قانون کے مطابق جائزہ لیاجارہا ہے۔ترجمان نے واضح کیا کہ قیصر امین بٹ کی جانب سے پلی بارگین کی کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی۔دوسری جانب وکیل قیصر امین بٹ عبیداللہ ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ قیصر امین بٹ کی پلی بارگین کی درخواست نیب میں جمع کراچکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ قیصرامین نے احتساب عدالت میں 19 نومبر کو پلی بارگین پر بیان ریکارڈ کرایا تھا اور اسی روز ہی پلی بارگین کی درخواست نیب میں جمع کراکے رسید لی گئی۔عبید اللہ ایڈووکیٹ نے بتایا کہ 19 نومبر کو ہی چیئرمین نیب کو بھی درخواست ارسال کی گئی جب کہ احتساب عدالت نے 20 نومبر کو نیب کو پروسیس مکمل کرنے کی ہدایت کی۔ان کا کہنا ہے کہ نیب کا یہ کہنا غلط ہے کہ ان کو پلی بارگین کی درخواست نہیں ملی۔یاد رہے کہ پیر اگون ہاﺅسنگ کے ڈائریکٹر قیصر امین بٹ کو 14 نومبر کو اندرون سندھ سے گرفتار کرکے لاہور لایا گیا تھا۔نیب کی تین رکنی تحقیقاتی ٹیم پیراگون ہاﺅسنگ سوسائٹی میں مبینہ طور پر کی جانے والی کرپشن کی تحقیقات کر رہی ہے۔سابق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کیخلاف نیب میں پیراگو ن ہاﺅسنگ سوسائٹی کی تحقیقات جاری ہیں جب کہ دونوں بھائیوں نے ممکنہ گرفتاری سے بچنے کیلئے لاہور ہائیکورٹ سے حفاظتی ضمانت لے رکھی ہے۔

تبدیلی کس طرح آئیگی ، ایک ایک آنے کا حساب دینگے ، ہمیں وقت دیا جائے ، شہریار آفریدی نے دل کی بات کہہ ڈالی

اسلام آباد(ویب ڈیسک ) وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی نے کہا ہےکہ ہم ایک ایک پائی اور ایک ایک آنے کا جواب دیں گے جب کہ یہ تبدیلی نہیں ہے کہ بٹن دبایا اور تبدیلی نکل آئی لہٰذا ہمیں وقت دیں۔اسلام آباد میں قومی سلامتی، تعمیر اور ماس میڈیا کے موضوع پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے شہریار آفریدی نے کہا کہ ہمارے لیے سب سے پہلے پاکستان اور بعد میں سب کچھ ہے، خطے کی سلامتی میں ہم اہم شراکت دار ہیں، ہمیں اپنوں کو خوش کرنا ہے، غیرملکیوں کو نہیں، ہم نے اپنوں کو خوش رکھنے کی بجائے گوروں کو خوش رکھنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔انہوں نے کہا کہ میڈیا کو قومی سلامتی کے لیے اہم کردار ادا کرنا ہوگا، ماضی میں قومی سلامتی کو ترجیح نہیں دی گئی، ماضی میں حالات خراب ہونے سے پہلےکیوں اقدامات نہیں کیے گئے۔شہریار آفریدی کا کہنا تھا کہ ہمارے موقف کو کیوں عالمی سطح پر پروموٹ نہیں کیاجارہا، دنیا ہمارے وجود کو تسلیم کرے۔وزیر مملکت نے مزید کہا کہ بھارت نے افغانستان میں اپنے پنجے گاڑھ لیے ہیں، وہاں بھارت کا اثر اتنا ہے کہ طاہر داوڑ کی میت لینے کے لیے مجھے ڈھائی گھنٹے تک بارڈر پر کھڑے رہنا پڑا۔ان کا کہنا تھا کہ اوورسیز پاکستانیوں کی کامیابیوں کو اجاگر کرناہوگا، ہم ایک ایک پائی ایک ایک آنے کا جواب دیں گے، یہ تبدیلی نہیں ہے کہ بٹن دبایا اور تبدیلی نکل آئی، ہمیں وقت دیں۔وزیر مملکت نے کہا کہ جب میں نے بڑے لوگوں کو چیلنج کیا تو ٹرمپ کا کچن میرا کچن بنا دیا گیا، مجھ پر کچن میں قیمتی ٹائیلیں لگانے کا الزام لگایا گیا، وزیراعظم کے پاس گیا اور کہاکہ ایف آئی اے کے ذریعے تحقیقات کرانا چاہتا ہوں، اگلے دن کہا گیا کہ میرے خلاف وزیراعظم نے انکوائری کا حکم دے دیا ہے، آج روایتی سوچ کا زمانہ ہے لیکن ہمیں کچھ ہٹ کر کرنا ہوگا۔شہریار آفریدی کا کہنا تھا کہ آپ نے 1947 سے 2015 تک ملک میں بین الاقوامی این جی اوز کو کھلی آزادی دی، آپ نے ان تمام قوتوں کو کیوں اجازت دی کہ وہ آپ کی روایات اورعقائد کے خلاف کام کریں، پاکستان اب کسی اور کے نظریے سے نہیں چلے گا۔وزیر مملکت نے کہا کہ جو سرنڈر کر رہے ہیں ان کو گلے لگاﺅں گا، ہم نے اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہے، ہمارے 100 روزہ پلان میں نیشنل سیکیورٹی شامل ہے، سول ملٹری کوارڈی نیشن وقت کی ضرورت ہے۔شہریار ا?فریدی کا کہنا تھا کہ اسلام آباد اور پاکستان کو مافیا سے آزاد کرائیں گے، ایسی فارن پالیسی بنارہے ہیں جو ملکی مفادات کے مطابق ہوگی۔

ٹی وی کی ایک اور مقبول جوڑی نے ” قبول ہے “ قبول کرلیا

کراچی (ویب ڈیسک )خوبرو ٹیلی ویژن اداکارہ ایمن خان اور اداکار منیب بٹ گذشتہ روز نکاح کے بندھن میں بن گئے۔ایمن خان اور منیب بٹ کی جوڑی اس وقت مداحوں کی پسندیدہ جوڑیوں میں سے ایک ہے۔دونوں کی منگنی گزشتہ برس ہوئی تھی، جس کے بعد پرستاروں کو دونوں کی شادی کا بے صبری سے انتظار تھا۔اور اب اس انتظار کو ختم کرتے ہوئے دونوں نے ایک دوسرے کو ’قبول ہے‘ کہہ دیا ہے۔ایمن خان نکاح کے وقت کافی جذباتی دکھائی دیں اور اپنے والد اور بہن سے مل کر آبدیدہ بھی ہوئیں۔دوسری جانب منیب بٹ کا نکاح مسجد میں ہوا جہاں ان کے ساتھ قریبی دوست اور احباب موجود تھے۔ایمن خان نے اپنے نکاح کے لیے ڈیزائنر ارم خان کے روایتی عروسی لباس کا انتخاب کیا جب کہ میک اپ اور اسٹائلنگ سارہ سیلون اینڈ اسپا سے کروائی۔ان کی بہن منال خان نے بھی ارم خان کا ہی ڈیزائن کردہ خوبصورت لباس زیب تن کیا اور اپنی بہن ایمن کے ساتھ خود بھی سارہ سلون اینڈ اسپا سے تیار ہوئیں۔دوسری جانب نکاح کے لیے منیب بٹ نے دیپک اینڈ فہد کے ڈیزائن کردہ شیروانی کوٹ اور کرتے پاجامے کو ترجیح دی۔اس شادی کی تقریبات گذشتہ کافی دنوں سے جاری ہیں۔ نکاح سے قبل ایمن خان کی ڈھولکی اور برائیڈل شاور بھی بھرپور انداز سے منایا گیا جس کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں۔

سندھ میں تبدیلی کی بجائے بھوک ، ننگ کا راج ، معروف ادیب ، دانشور ، کہانی نویس بھکاری بن گیا ، دل دہلا دینے والی سٹوری

سجاول (ویب ڈیسک ) سندھ کے ضلع سجاول سے تعلق رکھنے والے ادیب، دانشور اور کہانی نویس مشتاق کاملانی کو وقت اور حالات کے تھپیڑوں نے دماغی طور پر مفلوج کر دیا ہے، جس کے باعث آج کل وہ بھیک مانگ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔مشتاق کاملانی نے گریجویشن کر رکھی ہے، لیکن حالات کے تھپیڑوں نے انہیں فقیر بنا دیا ہے۔مشتاق کاملانی صحن میں بچھی رلّی کے اوپر دنیا و مافیہا سے بے نیاز بیٹھے تھے۔ان کے بھائی اور کزن نے بتایا کہ مشتاق کاملانی نے 1979 میں گریجویشن کی تھی، وہ سندھی کے مشہور ادیب اور کہانی نویس مرحوم علی بابا کے ساتھ سندھ یونیورسٹی میں پڑھتے تھے اور سندھی، پنجابی اور انگلش روانی سے بولتے تھے۔مشتاق کاملانی کی کہانیاں بھارت کے آکاش وانی ریڈیو کے علاوہ حیدرآباد ریڈیو سے بھی نشر اور مہران نامہ میں شائع ہوا کرتی تھیں لیکن پھر اچانک وہ غائب ہوگئے۔تین چار ماہ بعد مینٹل اسپتال کا پتہ چلنے پر وہاں سے انہیں واپس لایا گیا، جس کے بعد سے مشتاق کاملانی کا یہی حال ہے اور وہ بسوں میں بھیک مانگ کر گزارہ کرتے ہیں۔سجاول کے لوگوں کا کہنا ہے کہ سندھی زبان کے کہانی نویس اور ادیب کی اس حالت کا آج تک حکومتی سطح پر نوٹس نہیں لیا گیا، خصوصاً سندھ کے محکمہ ثقافت کو چاہیے کہ اس قیمتی اثاثے کو بچانے کے لیے مشتاق کاملانی کا نہ صرف سرکاری سطح پر علاج کروایا جائے بلکہ ان کی مالی مدد بھی کی جائے۔مشتاق کاملانی کی حالت زار کے حوالے سے میڈیا پر خبر نشر ہونے کے بعد سندھ کے صوبائی وزیر ثقافت سید سردار شاہ نے نوٹس لے کر ان کا علاج کروانے کا اعلان کردیا۔ترجمان کے مطابق مشتاق کاملانی کا علاج سرکاری خرچے پر کراچی کے نجی اسپتال میں کرایا جائے گا۔

ّّّّّّّخان صاحب کیا آپ کا ہاتھ پکڑ کر تصویر بنوا سکتی ہوں ؟عمران خان سے ملائیشین خاتون اول کی فرمائش

ملائشیا (ویب ڈیسک )ملائشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد کی بیوی بھی وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی مداح نکلیں ۔اُنہوں نے خصوصی طور پر فرمائیش کی کہ ”خان صاحب کیا میں آپ کا ہاتھ پکڑ کر تصویر اُتروا سکتی ہوں ۔جس پر کپتان نے اُن کی یہ خواہش فوراً پوری کر دی ۔سوشل میڈیاپر ویڈیو وائرل ہونے کے بعد کھلاڑیوں نے عمران خان کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔

انگریزوں کو میرا جسم مت دینا ، بی بی سی کے نڈر رانی لکشمی بائی بارے چونکا دینے والے انکشافات

واشنگٹن (ویب ڈیسک ) انگریزوں کی طرف سے کیپٹن روڈرک برگز پہلے ایسے شخص تھے جنھوں نے جھانسی کی رانی لکشمی بائی کو اپنی آنکھوں سے جنگ کے میدان میں لڑتے ہوئے دیکھا تھا۔انھوں نے گھوڑے کی لگام اپنے دانتوں سے دبا رکھی تھی اور دونوں ہاتھوں سے تلوار چلا رہی تھیں اور ایک ساتھ دونوں طرف وار کر رہی تھیں۔ان سے پہلے ایک دوسرے انگریز جان لینگ کو رانی لکشمی بائی کو نزدیک سے دیکھنے کا موقع ملا تھا، لیکن میدان جنگ میں نہیں۔ انھوں نے انھیں ان کی حویلی میں دیکھا تھا۔جب دامودر کے گود لیے جانے کو انگریزوں نے غیر قانونی قرار دیا تو رانی لکشمی بائی کو جھانسی کا اپنا محل چھوڑنا پڑا تھا۔انھوں نے تین منزلہ معمولی عمارت ‘رانی محل’ میں پناہ لی تھی۔رانی نے وکیل جان لینگ کی خدمات حاصل کی جنھوں نے حکومت برطانیہ کے خلاف حال میں ایک مقدمہ جیتا تھا۔لینگ آسٹریلیا میں پیدا ہوئےجبکہ وہ میرٹھ سے ایک اخبار ‘موفوسلائٹ’ نکالا کرتے تھے۔لینگ اچھی خاصی فارسی اور ہندوستانی بول لیتے تھے اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی انتظامیہ انھیں پسند نہیں کرتی تھی کیونکہ وہ ہمیشہ ان گھیرنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔جب لینگ پہلی بار جھانسی آئے تو رانی نے انھیں لانے کے لیے گھوڑے کے رتھ کے ساتھ اپنے دیوان اور اپنے ملازم خاص کو آگرہ بھیجا۔ملازم کے ہاتھ میں برف سے بھری بالٹی تھی جس میں پانی، بیئر اور منتخب شراب کی بوتلیں رکھی ہوئی تھیں۔ راستے بھر ایک ملازم لینگ کو پنکھا جھلتا رہا۔جھانسی پہنچنے پر لینگ کو پچاس گھڑسوار ایک پالکی میں بیٹھا کر ‘رانی محل’ لائے جس کے باغ میں رانی نے ایک سائبان لگوا رکھا تھا۔رانی لکشمی بائی شامیانے کے ایک کونے میں پردے کے پیچھے بیٹھی تھیں۔ اسی لمحے رانی کے گود لیے ہوئے بیٹے دامودر نے پردہ ہٹایا اور لینگ کی نظر رانی پر پڑی۔کتاب میں جان لانگ کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ ‘رانی درمیانہ قد کی مضبوط خاتون تھیں۔ جوانی میں وہ بہت خوبصورت رہی ہوں گی لیکن اس وقت بھی ان کے چہرے کی رونق کم نہیں تھی۔ مجھے ایک چیز پسند نہیں آئی۔ ان کا چہرہ بہت زیادہ گول تھا۔ البتہ ان کی آنکھیں بہت خوبصورت تھیں اور ناک بھی بہت نازک تھی۔ ان کا رنگ بہت گورا نہیں تھا۔’انھوں سونے کی کان کی بالیوں کے علاوہ کوئی زیور نہیں پہنا تھا۔ وہ سفید ململ کی ساڑھی میں ملبوس تھیں جس میں ان کے جسم کے خدو خال واضح نظر آتے تھے۔ ان کی شخصیت کو جو چیز خراب کر رہی تھی وہ ان کی آواز تھی۔’بہرحال کیپٹن روڈرک برگز نے فیصلہ کیا کہ وہ آگے بڑھ کر خود ہی رانی پر وار کرنے کی کوشش کریں گے۔لیکن جب وہ ایسا کرنا چاہتے تو رانی کے گھڑسوار انھیں گھیر کر ان پر حملہ کر دیتے۔ ان کی کوشش یہی تھی کہ وہ ان کی توجہ دوسری جانب کر دیں۔کچھ لوگوں کو زخمی اور قتل کرنے کے بعد روڈرک نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور رانی کی طرف بڑھنے لگے۔اسی وقت روڈرک کے پیچھے سے اچانک جنرل روز کی انتہائی ماہر اونٹ یونٹ اس جانب آ نکلی۔ یہ ان کی ریزور یونٹ تھی۔نا صاحبوہ اس کا استعمال جوابی حملے کے لیے کرنے والے تھے۔ اس فوجی یونٹ کے اچانک جنگ میں اتر آنے سے برطانوی کیمپ میں جان آ گئی۔ رانی اسے فورا بھانپ گئ?ں۔ان کے فوجی میدان جنگ سے بھاگے نہیں لیکن ان کی تعداد کم ہونے لگی۔اس جنگ میں حصہ لینے والے جان ہنری سلویسٹر نے اپنی کتاب ‘ریکلیکشنز آف دی کیمپین ان مالوا اینڈ سینٹرل انڈیا’ میں لکھا: ‘اچانک رانی زور سے چلائی، ‘میرے پیچھے آو¿’ اور 15-20 گھڑسواروں کی ایک نفری ان کے پیچھے چل پڑی۔وہ جنگ کے میدان سے اتنی تیزی سے نکلیں کہ انگریز فوجیوں کو اسے سمجھنے میں کچھ سیکنڈز کی دیر ہو گئی۔اچانک روڈرک نے اپنے ساتھیوں سے چلا کر کہا، ‘دیٹس دی رانی آف جھانسی، کیچ ہر۔رانی اور ان کے ساتھی ابھی ایک میل ہی پہنچے تھے کہ کیپٹن برگز کے فوجی ان کے سر پر آ پہنچے۔ یہ جگہ کوٹا کی سرائے تھی۔لڑائی نئے سرے سے شروع ہوئی۔ رانی کے ایک فوجی کے مقابلے میں اوسطاً دو برطانوی فوجی لڑ رہے تھے۔ اچانک رانی کو اپنے بائیں سینے کی جانب درد محسوس ہوا جیسے کہ کسی سانپ نے کاٹ لیا ہو۔ایک انگریز سپاہی جسے وہ دیکھ نہ سکیں تھیں اس نے ان کے سینے میں سنگینیں اتار دی تھی۔ وہ مڑیں اور حملہ آور پر اپنی تلوار سے ٹوٹ پڑیں۔رانی کی چوٹ بہت گہری نہیں تھی لیکن خون تیزی سے نکل رہا تھا۔ اچانک گھوڑے پر دوڑتے ہوئے ان کے سامنے پانی کا چشمہ آگیا۔ انھوں نے سوچا کہ اگر وہ چھلانگ لگا کر آبشار کے پار ہو جائیں تو کوئی انھیں پکڑ نہیں سکے گا۔انھوں نے گھوڑے کو ایڑ لگائی لیکن گھوڑاچھلانگ لگانے کے بجائے اتنی تیزی سے رکا کہ وہ اس کی گردن تک سرک کر پہنچ گئیں۔انھوں نے دوبارہ مہمیز لگائی لیکن گھوڑے نے ایک انچ بھی آگے بڑھنے سے انکار کر دیا۔ اس وقت انھوں نے اپنی کمر میں درد محسوس کیا کسی نے بائیں جانب سے تیز وار کیا تھا۔پھر ان کو رائفل کی ایک گولی لگی اور تلوار ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر پڑی۔انھوں نے اسی ہاتھ سے کمر سے نکلنے والے خون کو روکنے کی کوشش کی۔اینٹونیا فریزر اپنی کتاب”دی واریئر کوئن“ میں لکھتی ہیںاس وقت تک ایک انگریز رانی کے گھوڑے کے پاس پہنچ چکا تھا۔ اس نے رانی پر وار کرنے کے لیے اپنی تلوار اوپر اٹھائی۔ رانی نے بھی اس کا وار روکنے کے لیے دائیں ہاتھ والی اپنی تلوار اوپر کی۔ اس انگریز کی تلوار ان کے سر پر اتنی قوت سے پڑی کہ ان کا سر پھٹ گیا اور وہ اس سے بہنے والے خون سے تقریبا اندھی ہو گئیں۔اسی حال میں رانی نے اپنی پوری قوت سے اس انگریز ر تلوار چلائی جو صرف اس کے کندھے کو ہی زخمی کر پائی۔ رانی گھوڑے سے نیچے گر پڑی۔اس کے بعد ان کے فوجیوں میں سے ایک نے اپنے گھوڑے سے اتر کر انھیں گود میں لے لیا اور انھیں قریبی مندر میں لے گیا۔ رانی اس وقت تک زندہ تھیں۔مندر کے پادری نے ان خشک ہونٹوں کو ایک بوتل میں رکھے گنگا جل (دریائے گنگا کے پانی) سے تر کیا۔ رانی بہت خراب حالت میں تھیں۔ آہستہ آہستہ وہ اپنے حواس کھو رہی تھیں۔دوسری جانب مندر کے احاطے کے باہر فائرنگ مسلسل جاری تھی۔ آخری سپاہی کو مارنے کے بعد برطانوی فوجی نے سمجھا کہ انھوں نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے۔اس کے بعد روڈرک نے بلند آواز سے کہا: ‘وہ مندر کے اندر گئے ہیں، ان پر حملہ کرو، رانی اب بھی زندہ ہے۔دوسری طرف پجاریوں نے رانی کے لیے آخری لمحات دعائیں شروع کر دیں۔ رانی کی ایک آنکھ انگریز فوجی کی کٹار کے زخم سے بند تھی۔انھوں نے بہ مشکل اپنی دوسری آنکھ کھولی۔ ان کی آنکھوں میں دھندلاپن تھا اور ان کے منہ سے وقفے وقفے سے لفظ نکل رہے تھے۔ ‘۔۔۔دامودر۔۔۔ میں اسے۔۔۔ تمہاری۔۔۔ نگرانی میں چھوڑتی ہوں۔۔۔ اس چھاو¿نی لے جاو¿۔۔۔ دوڑو اسے لے جاو¿۔بہ مشکل انھوں نے اپنی گردن سے موتیوں کا ہار نکالنے کی کوشش کی۔ لیکن وہ بے ہوش ہوگئیں۔مندر کے پجاری نے ان کی گردن سے موتیوں کا ہار نکالا اور محافظ کے ہاتھ میں دے کر کہا: اسے دامودر کے لیے رکھیں۔ رانی کی سانس تیزی سے چلنے لگی، زخم سے نکلنے والا خون پھیپھڑوں میں جمع ہونے لگا۔ آہستہ آہستہ وہ ڈوبنے لگیں۔ یکایک ان میں پھر سے جان آ گئی۔حھانسی کی رانی لکشمی بائی کی روح پرواز کر چکی تھی۔ رانی کے چند محافظوں نے فوراً لکڑیاں جمع کیں اور رانی کے جسم کو اس پر رکھ کر آگ لگا دی۔ان کے گرد رائفل چلنے کی آواز بڑھتی جا رہی تھی۔ مندر کے باہر اب تک سینکڑوں برطانوی فوجی جمع ہو چکے تھے۔مندر کے اندر سے انگریزوں پر صرف تین رائفلیں گولیاں برسا رہی تھیں۔ پہلے ایک رائفل خاموش ہوئی۔۔۔ پھر دوسری اور پھر تیسری بھی خاموش ہو گئی۔جب انگریز مندر میں داخل ہوئے تو وہاں سے کوئی آواز نہیں آ رہی تھی۔ سب کچھ پرسکون تھا۔ سب سے پہلے روڈرک برگز اندر داخل ہوئے۔وہاں رانی کے کئی درجن سپاہیوں اور مندر کے پجاریوں کی خون میں سنی لاشیں پڑی ہوئی تھیں۔ کوئی بھی زندہ نہیں تھا۔ لیکن صرف ایک لاش کی تلاش جاری تھی۔اسی وقت ان کی نظر ایک چتا یعنی لاش کو جلانے والی آگ پر پڑی جس کی لپٹ اب مدھم پڑ چکی تھی۔ انھوں نے اپنے بوٹ سے اسے بجھانے کی کوشش کی۔ پھر انھیں جلتے ہوئے انسانی جسم کے باقیات نظر آئے۔ رانی کی ہڈیاں تقریباً راکھ ہو چکی تھیں۔اس جنگ میں شریک کیپٹن کلیمنٹ واکر ہنیج نے بعد میں رانی کے آخری لمحات کو بیان کرتے ہوئے لکھا،مزاحمت ختم ہو چکی تھی۔ صرف چند فوجیوں سے گھری اور ہتھیاروں سے لیس ایک عورت اپنے فوجیوں میں جان پھونکنے کی کوشش کر رہی تھی۔بار بار وہ اشاروں اور بلند آواز سے اپنے شکست سے دو چار سپاہیوں کی حوصلہ افزائی کر رہی تھی۔ لیکن اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہو رہا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم نے اس عورت پر بھی قابو حاصل کر لیا۔ ہمارے ایک فوجی کے خنجر کا تیز وار اس کے سر پر پڑا اور سب کچھ ختم ہو گیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ عورت اور کوئی نہیں خود جھانسی کی رانی لکشمی بائی تھی۔

ممتاز شاعرہ و مصنفہ فہمیدہ ریاض کا انتقال، فیاض الحسن چوہان،یاسمین را شد ،مر یم اورنگز یب کا اظہا ر تعزیت

لاہور (صدف نعیم ) ممتاز شاعرہ و مصنفہ فہمیدہ ریاض مختصر علالت کے بعد انتقال کرگئیں۔اطلاعات کے مطابق فہمیدہ ریاض گزشتہ چند ماہ سے بیمار تھیں ۔ان کے انتقا ل پر صو با ئی وزیر اطلا عا ت فیاض الحسن چوہان،یاسمین را شد ،مر یم اورنگز یب نے تعزیت کا اظہا ر کیا ہے۔وزیر اطلاعات نے اپنے پیغا م میں کہا ہے کہ مر حو مہ کی علمی اور ادبی خدما ت نا قا بل فر ا مو ش ہیں۔وزیر صحت پنجاب یاسمین راشد نے کہا کہ فہمیدہ ریاض حقوق نسواں کی ایک توانا آواز تھیں، ان کا انتقال اردو ادب کیلئے بہت بڑا سانحہ ہے ۔تفصیلا ت کے مطا بق فہمیدہ ریاض 28 جولائی 1945 کو میرٹھ میں پیدا ہوئیں اور طالب علمی کے زمانے میں حیدرآباد میں پہلی نظم لکھی جو”فنون“میں چھپی۔فہمیدہ ریاض کا پہلا شعری مجموعہ ”پتھر کی زبان“ 1967 میں آیا اور ان کا دوسرا مجموعہ ’بدن دریدہ‘ 1973ءمیں ان کی شادی کے بعد انگلینڈ کے زمانہ قیام میں شائع ہوا جب کہ تیسرا مجموعہ ’کلام دھوپ‘ تھا۔فہمیدہ ریاض نیشنل بک فاو¿نڈیشن اسلام آباد کی سربراہ بھی رہیں، فہمیدہ ریاض جنرل ضیاءالحق کے دور میں بھارت چلی گئیں اور ضیاءالحق کے انتقال کے بعد پاکستان واپس آئیں۔فہمیدہ ریاض کی محبوب صنف سخن نظم تھی۔ فہمیدہ ریاض نے جمہوریت اور خواتین کے حقوق کیلئے بھرپور جدوجہد کی۔

سرکاری کمرشل پراپرٹی کی لیزنگ ، ڈی سی آفس لاہور سفید ہاتھی بن گیا

لاہور (خصوصی رپورٹ) اندرون شہر میں سرکاری کمرشل پراپرٹی لیز پر لینے والوں نے سرکاری خزانے کو 31 ارب روپے کا چونا لگا دیا۔ اینٹی کرپشن نے ڈپٹی کمشنر لاہور آفس کی نزول برانچ کی طرف سے چالیس سال کے دوران لیز پر دی گئی پراپرٹی کے کرائے وصول نہ کرنے کے معاملے کا نوٹس لے لیا ہے۔ ڈائریکٹر اینٹی کرپشن لاہور ریجن محمد اصغر جوئیہ نے چالیس سال کے کرائے کی مد میں 31 ارب روپے کی ریکوری کے لئے ڈپٹی کمشنر لاہور کو خط لکھ دیا۔ اینٹی کرپشن کو موصول ہوے والی تفصیلات کے مطابق اندرون شہر میں کمرشل پراپرٹی لیز پر لینے والوں نے 1978ءسے ایک روپے کرائے بھی ادا نہیں کیا۔ اندرون لاہور میں حکومت پنجاب کے 18 ہوٹل‘ ایک فیکٹری‘ 10 کمرشل گودام‘ 780 گھر اور 1970 دکانیں لیز پر دی گئی ہیں۔ ڈی سی آفس لاہور کی نزول برانچ گزشتہ چالیس سال سے ان کمرشل جائیدادوں کے کرائے وصول نہیں کررہی ہے۔

شمالی کوریا نے سرحد پر فوج سے خالی کی گئی 10چوکیوں کو تباہ کر دیا

سیﺅل (خصوصی رپورٹ) شمالی کوریا نے جنوبی کوریا کی سرحد پر فوج سے خالی کی گئی 10 چوکیوں کو تباہ کر دیا ہے۔ جنوبی کوریا کی وزارت دفاع کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ شمالی کوریا نے ماہِ ستمبر میں طے پانے والے سمجھوتے کی ر±و سے دونوں ملکوں کی سرحد پر فوجیوں سے خالی کی گئی 10 چوکیوں کو تباہ کر دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جنوبی کوریا کو چوکیوں کو تباہ کرنے کے منصوبے سے آگاہ کرنے کے بعد شمالی کوریا نے تباہ کر دیا ہے۔ اس سے قبل شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان فوج سے خالی کی گئی گیارہ گیارہ چوکیوں کو تباہ کرنے کا سمجھوتہ طے پایا تھا تاہم بعد ازاں تاریخی اعتبار سے اہمیت کی حامل ایک ایک چوکی کو محفوظ رکھنے پر اتفاق کر لیا گیا۔واضح رہے کہ جنوبی کوریا کی وزارت دفاع نے گذشتہ ماہ کے آخر میں شمالی کوریا اور اقوام متحدہ کی کمانڈ میں کورئین کے درمیان کشیدگی کم کرنے، جھڑپوں کے سدباب اور مشترکہ اعتماد کی بحالی کے لئے طے پانے والے سمجھوتے کے دائرہ کار میں فوج سے خالی کئے گئے علاقے کی چوکیوں سے مسلح فوجیوں اور آتشی اسلحے کو پیچھے ہٹانے کا کام مکمل ہونے کا اعلان کیا گیا تھا۔