مصباح کاپی ایس ایل میں بطورپلیئر شرکت کا فیصلہ

اسلام آباد(آئی این پی) اسلام آباد یونائیٹڈ کے سابق کپتان مصباح الحق نے بھی یو ٹرن لیتے ہوئے ارادہ تبدیل کردیا۔مصباح الحق نے پی ایس ایل سیزن فور میں بطور کھلاڑی کھیلنے کا فیصلہ کرلیا۔مصباح الحق نے تین ہفتے قبل سیزن فور میں بطور کھلاڑی نہ کھیلنے اور اسلام آباد یونائیٹڈ سے بطور مینٹور منسلک ہونے کا اعلان کیا تھا۔لیکن اب پی ایس ایل فور کی پلیئر ڈرافٹنگ سے ایک روز قبل فیصلہ تبدیل کردیا۔مصباح الحق منگل کو ہونے والے پلئرز ڈرافٹس میں بطور پلاٹینم کھلاڑی نیلامی کیلئے دستیاب ہونگے۔دوسری جانب اسلام آباد یونائیٹڈ کا حصہ نہیں ہوں گے۔ مینٹور کے بجائے بطور کھلاڑی حصہ لینے کی خواہش مصباح کی عدم شرکت کا باعث بن گئی۔ اسلام آباد یونائیٹڈ کے بیان کے مطابق سابق کپتان نے پہلے فرنچائز کے ساتھ بطور مینٹورذمہ داری نبھانے پر رضامندی ظاہر کی تھی مگر اب وہ بطور کھلاڑی شامل ہونا چاہتے تھے جبکہ ٹیم پہلے ہی برقرار رکھے گئے دس کھلاڑیوں کے ناموں کا اعلان کرچکی ہے،اس لیے مصباح الحق کا انتخاب ممکن نہیں ۔اسلام آباد یونائیٹڈ کی جانب سے مزید کہا گیا ہے کہ فرنچائزسابق کپتان کے فیصلے اور خدمات کا احترام کرتی ہے۔

سرفراز نے بیٹنگ لائن کی ناکامی کا اعتراف کر لیا

ابوظہبی(نیوزایجنسیاں) ابوظہبی ٹیسٹ میں 176 رنز کے تعاقب میں ناکام رہنے والی پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان سرفراز احمد کا کہنا ہے کہ میچ ہارنے پر مایوسی ہے۔پہلی اننگز میں 2 اور دوسری اننگز میں صرف 3 رنز بناکر آﺅٹ ہونے والے کپتان سرفراز احمد نے شکست کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بیٹسمینوں کو وکٹ پر ٹھہرنا چاہیے تھا، کوشش کریں گے جو غلطیاں ہوئیں انہیں اگلے میچز میں نہ دہرائیں۔سرفراز نے کہا کہ تمام پلیئرز کو مثبت کھیلنے کا کہا تھا، امید تھی کہ ہم جیت جائیں گے لیکن پلیئرز دبا برداشت نہیں کرسکے۔انہوں نے کہا کہ نیوزی لینڈ کے اعجاز پٹیل نے اچھی بولنگ کی، وکٹ پر بیٹسمینوں کو ٹائم دینا چاہیے تھا، ہمارے بیٹسمینوں کو بڑی اننگز کھیلنی چاہیے تھی۔دوسری جانب نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کے کپتان کین ولیم سن نے کہا کہ ہمیں پتہ تھا جیتنا آسان نہیں ہوگا تاہم ہمارے کھلاڑیوں نے اچھا پرفارم کیا۔پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان تین ٹیسٹ میچز کی سیریز متحدہ عرب امارات میں جاری ہے اور پہلے میچ میں پاکستان کو 4 رنز سے شکست ہوئی ہے جس کے بعد نیوزی لینڈ کو سیریز میں 0-1 کی برتری حاصل ہوگئی ہے۔

ٹرمپ کے الزامات پاکستان کو دباﺅ میں لانے کی کوشش

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) کالم نگار میاں سیف الرحمان نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کا مقصد صوبوں کے مسائل بھی حل کرنا ہے یعنی ایک ایسا فورم ہو جس پر صوبوں کے معاملات زیر بحث لائے جائیں۔ چینل فائیو کے پروگرام کالم نگار میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وفاقی محاصل میں سے صوبوں کے حصوں پر بھی ات کی گئی۔سانحہ جے آئی ٹی کے حوالے سے انہوں نے کہا ہمارے ہاں عام طور پر ہمارے ہاں لوگ تفتیش پر تحفظات کا اظہار کرتے ہیں۔بہرحال ماڈل ٹاﺅن واقعہ بہت افسوسناک واقعہ ہے۔اتنی قربانیاں دینے کے باوجود پاکستان پر ٹرمپ کے الزامات محض دباﺅ میں لانے کی کوشش ہے۔ کالم نگارعلامہ صدیق اظہر نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس اہم ہے۔گزشتہ ادوار میں چھوٹے صوبوں کو وفاق سے شکایات رہیں چاہے وہ پانی کا مسئلہ ہو یا دیگر مسائل۔مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس جس ماحول میں ہوا وہ بھی اہم ہے۔ ملکی معیشت بھی بہت بہتری نہیں لیکن میری خواہش ہے اجلاس میں افہام و تفہیم سے مسائل کا جائزہ لیا جائے۔دریائے راوی کے کنارے فیکٹریوں کا فضلہ دریا میںڈالنا لمحہ فکریہ ہے۔بوتلوں میں موجود بند پانی منرل واٹر نہیں فلٹر واٹر ہے۔ بڑی بڑی کمپنیوں کا پانی آلودہ نکل آیا۔ کالم نگارضمیر آفاقی نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل میں بنیادی مسائل پر بات نہیں ہوئی تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔موجودہ دور حکومت میں جرائم کی شرح بڑھ چکی۔ وزیراعظم کو چاہئے سب کو مل کر لے کر چلیں۔ وزراءکو بیان بازی پر بھی کنٹرول کرنا چاہئے۔ حکومتوں کی نااہلی کے باعث پانی کے مسائل نے جنم لیا سبزیاں تک گندے پانی سے کاشت ہو رہی ہیں جس سے بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ ماڈل ٹاﺅن واقعہ میں جو ہوا وہ افسوسناک تھا ریاست کی ذمہ داری ہے شہریوں کی جان کی حفاظت کرے۔ میزبان و کالم نگار منیب قریشی نے کہا کہ بہت عرصے تک تو مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس ہوئے ہی نہیں۔چاروں وزرائے اعلی کو وزیراعظم سے مل کو مسائل حل کرنے چاہئیں تاکہ ملک مشکلات سے باہر نکلے۔پانی کے ضیاع کو روکنا بہت بڑا چیلنج ہے۔کراچی میں پانی کی کمی کی بہت شکایات ہیں۔سانحہ ماڈل ٹاﺅن شریف خاندان کے لئے مشکلات کھڑی کر سکتا ہے۔انہوں نے کہا یو اے ای کے وفد میں وزیراعظم کے ساتھ اہم افراد گئے۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی وزیر اعظم نے امریکہ کو منہ توڑ جواب دیا

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ معلوم یہ ہوتا ہے کہ یو اے ای کے دورے سے بھی اچھی خبر سننے کو ملے گی۔ سردار آصف احمد علی سعودی عرب کے پیکیج کے بعد ین نے بھی کہا ہے ہم رقم نہیں بتائیں گے سرمایہ کاری کریں گے۔ یو اے ای سے بھی مشترکہ منصوبہ بندی کے معاہدے ہوئے ہیں لیکن انہوں نے بھی کوئی اعلان نہیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ فارن ڈپلومیسی میں یہ اعلان نہ کرنا اس کی کیا وجہ ہوتی ہے اعلان کرنے کی کیا وجہ ہوتی ہے۔ اگر چائنا نے یہ اعلان بھی کیا کہ سعودی عرب کی طرح چین اوپن نہیں کرے گا تو کیا آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ہمارے مشکل حالات ہیں وہ ہمارے ساتھ ہوں گے۔ ہمیں چین اور متحدہ عرب امارات سے کیا توقع رکھنی چاہئے۔
سابق وزیرخارجہ سردار آصف احمد علی نے کہا ہے کہ چین کا دورہ ہوا ہے انہوں نے اس ساری چیز کو لانگ ٹرم میں دیکھا ہے اور شاٹ ٹرم منصوبوں میں زیادہ شرکت نہیں کرتے لانگ ٹرم میں ایک ویژن ہے اس کے مطابق وہ چلتے ہیں اس کے مطابق انہوں نے جو کچھ کتنا نکالنا ہے ان کا کوئی مغربی ممالک کی اکانومی ویسی نہیں ہے اکانومی ہے اس کمانڈ اکانومی کہا جاتا ہے اور کمانڈ انکانومی میں پورا پورسیجر ہے جو کہ خاص بیورو کریٹک ہوتا ہے اور اس پروسیجر کے تھرو وہ معاملہ جائے گا سنٹرل کمیٹی کے پاس اور پھر وہ کمیٹی پراکنامک کے پاس جائے گا اور پھر وہ فیصلہ کرے گی۔ مگر سعودی عرب کا جہاں تک تعلق ہے وہاں کوئی پروسیجر وغیرہ نہیں ہے وہاں شاہی خاندان جو فیصلہ کر دے وہی حرف آخر ہوتا ہے تو انہوں نے فیصلہ کر دیا ہے اب معاملہ رہا یو اے ای کا اس میں میرا تجربہ یہ ہے کہ 6 سال میں نے ان ملکوں کے ساتھ کہا ہے ان کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ یو اے ای کے جتنے بھی ملک ہیں کہ اگر آپ کو سعودی عرب کی طرف سے حمایت اور تائید ہو جائے اور سعودی عرب کی طرف سے ان ملکوں کو یہ مشورہ دے دیا جائے کہ پیسہ دے دو۔ اگر وہاں سے مشورہ نہیں ملا تو پھر پراجیکٹ کے لئے وہ آپ کو ضرور دیں گے۔ آپ کو بڑے بڑے سے بڑا پروجیکٹ لے جائیں اس کے لئے آپ کو پیسہ مل جائے گا مگر جہاں تک ان کے سیاسی فیصلے ہیں وہ جب تک سعودی عرب سے اوکے نہیں ہو گا یا مشورہ نہیں ہو گا وہ اس وقت کمنٹ منٹ نہیں کریں گے۔ یہ میرا تجربہ ہے جو میں 6,5 ڈیل کرتا رہا ہوں، سانحہ ماڈل ٹاﺅن کی تحقیقات کے حوالے سے 5 رکنی لارجر بننے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ دراصل نوازشریف شہباز شریف رانا ثناءاللہ صاحب اور بعض دوسرے نام بھی لئے گئے تھے طاہر القادری اور خرم نواز گنڈا پور کی طرف سے کہ ان کو عدالتی تحقیقات میں ان کو بھی شامل کیا جائے اور عدالتی کارروائی میں ان سے پوچھا جائے لیکن ہائی کورٹ نے یہ درخواست مسترد کر دی تھی اب ہائی کورٹ کی اس مسترد شدہ درخواست کے خلاف پاکستانی عوامی تحریک نے اس میں ایک سپریم کورٹ میں رٹ دائر کی ہے اور انہوں نے اسش رٹ میں یہ کہا تھا کہ جناب ان کو کیوں نہ شامل کیا جائے۔ کیونکہ یہ فیصلہ اس وقت وزیراعلیٰ کی سطح پر ہوا تھا اور وزیراعلیٰ کے پیچھے وزیراعظم بھی موجود تھے۔ جناب نوازشریف اس لئے یقینی طور پر ان کو بھی اس میں شامل ہونا چاہئے۔ اب جو موجودہ سپریم کورٹ ہے اس کے چیف جسٹس صاحب نے جو انگلینڈ جا رہے ہیں انہوں نے اس سلسلے میں ایک واضح طور پر یہ فیصلہ دے دیا ہے کہ ایک فیصلہ تو یہ دے دیا ہے کہ جو ایگزسٹ کیا تھا ہائی کورٹ نے اور جو استثنیٰ قرار دیا تھا کہ ٹھیک ہے آپ نوازشریف صاحب، شہباز شریف صاحب اور رانا ثناءاللہ وغیرہ کو عدالت آنے کی ضرورت نہیں ہے ایک تو اس فیصلے کو ختم کر دیا ہے اور پیچھے کر دیا ہے انہوں نے کہا کہ یہ لوگ خود بھی شامل ہوں گے۔ اس کے لارجر بنچ میں چیف جسٹس صاحب خود، آصف سعید کھوسہ جو نمبر2 ہیں وہ ہوں گے۔ یاد رہے کہ آصف سعید کھوسہ ہی جناب ثاقب نثار کے دو ماہ کے بعد ریٹائرمنٹ کے بعد آصف سعید کھوسہ چیف جسٹس بنیں گے پاکستان کی سپریم کورٹ کے اور باقی تین ججوں کے نام ابھی نہیں آئے لیکن آج رات یا صبح کسی وقت ان کا اعلان ہو جائے گا۔ اب 5 دسمبر کو بھی کیس شروع ہو گا اور طاہر القادری کی پارٹی کی یہ بڑی کامیابی ہے کہ اس میں باقاعدہ طور پر نوازشریف، شہباز شریف اور رانا ثناءاللہ صاحب کو اور اس کے علاوہ دیگر ملزمان کو، ان کی استثناءکی شرط ختم ہو گئی۔ اب اس کیس کی اہمیت بڑھ جائے گی کیونکہ ملزموں کے لیول سے ہی مقدمے کا قد بڑا ہوتا ہے۔ اگر تین چار عام سے لوگوں پر مقدمہ چلا دیا جائے تو اس کی شکل ہو گی اور اگر سابق وزیراعظم، سابق وزیراعلیٰ سابق صوبائی وزیر قانون اس میں پیش ہو رہے ہوں گے بطور ملزم تو اس مقدمے کی شکل بالکل اور ہو گی۔ اب مجموعی طور پر سپریم کورٹ میں مقدمہ سنے گا لہٰذا اب یہ فیصلہ کرنا بھی سپریم کورٹ کا کام ہو گا کہ کون سی رپورٹ شامل کی جائے اور کون سی رپورٹ کی اب ضرورت نہیں ہے۔ گویا روزانہ کی بنیاد پر سماعت میں وہ جس رپورٹ کی ضرورت محسوس کریں گے اس وک شامل کریں گے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ عمران خان نے امریکی صدر ٹرمپ کے بیان کا جس بے باکانہ انداز میں کھرا اور دو ٹوک جواب دیا ہے اس طرح پہلے کسی حکمران کو توفیق نہیں۔ انہوں نے امریکہ اور نیٹو کی ساری افواج مل کر افغانستان میں کام نہ کر سکیں جو پاک فوج نے دہشتگردی کے خاتمہ کے لئے کر دکھایا۔ پاکستان نے دہشتگردی کی جنگ میں ارب ڈالر خرچ جبکہ اسے کولیشن فنڈ کی صرف رقم ملی۔ اس کے باوجود امریکہ خراج تحسین پیش کرنے کی بجائے امریکہ الٹا پاکستان کو تڑیاں لگا رہا ہے کہ پاکستان نے ہمارے لئے کچھ نہیں کیا۔ عمران خان نے کہا ہے ٹرمپ اپنی ریکارڈ درست کر لیں پاکستان کو قربانی کا بکرا نہ بنائیں۔
سابق وزیرخارجہ حنا ربانی کھر نے کہا ہے کہ میں یہ سوال پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیا پاکستان کی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دبنگ قسم کے کرارے جواب دیں یا ان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دبنگ قسم کی کراری پالیسی اختیار کریں۔ میری نظر میں اس حکومت کی جو مسلسل وہ عوام کو مطمئن کرنے کے لئے جو مودی بھی کرتا ہے ٹرمب بھی کرتے ہیں اور وزیراعظم عمران خان بھی کرتے ہیں اس کے اوپر ملک کی سٹیٹ پالیسی جو ریفلکٹ شاید نہیں کرتے اس میں وضاحت یہ ہے کہ نہ تو صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ جو نیا ہے یہ امریکن مسلسل کہتے آ رہے ہیں نہ عمران خان نے کچھ نیا کہا ہے کہ یہی پاکستان کا موقف رہا ہے کہ آپ نے ہمارے اوپر پورا ملبہ، اپنی افغانستان میں شکست، اپنی غلطیوں کاملبہ پاکستان پر ڈالا ہوا ہے۔ پاکستان کا یہ ہمشیہ سے موقف رہا ہے۔ ایک طرف پاکستانکے وزیرخارجہ جو واشنگٹن ڈی سی جاتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ آل از ویل یہ ری سیٹ کر رہے ہیں پالیسی امریکہ ہمارا اہم پارٹنر ہے ہم اس سے بہترین تعلقات چاہتے ہیں وہاں سیکرٹری آف سٹیٹ کچھ کہتے ہیں کہ ہماری پالیسی ساﺅتھایشیا سے وہی ہے جو صدر ٹرمپ نے آج سے تقریباً سال پہلے کہی تھی جس میں انڈیا ہمارا سٹریٹجک پارٹنر ہے۔ اور پاکستان کو ہم ذمہ دار کہتے ہیں اور افغانستان میں ناکامی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنی گفت و شنید آگے لے کر چل رہا ہے۔ سوچنا ہو گا۔ دوسری طرف آپ بڑا سیلی بریٹ کر رہے ہیں ماشاءاللہ ہمارے وزیراعظم نے کتنی بڑی بات کہہ دی۔ یہ باتیں پہلے بھی ہو چکی ہیں شاید اس سے زیادہ بھی ہوئی ہیں لیکن جو قابل تعریف بات یہ ہے کہ امریکہ کے ساتھ جو پالیسی ہے اس کو ہم کس طرح سے بدل کر پاکستتان کے ققومی مفاد میں لا سکتے ہیں۔ میرے خیال میں وزیراعظم عمران خان کو کہنا چاہئے تھا کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کے لئے پالیسی کسی طرح تبدیلی ہوئی ہے۔ کس طرح کوئی ٹرن آیا ہے یا یو ٹرن آیا ہے۔مجھے اس میں کچھ نظر نہیں آتا نہ فارن آفس کی طرف سے نہ وزیرخارجہ کی کی اگر آپ پالیسی تبدیل کرتے ہیں تو ملک کو بتائیں اور دبنگ طریقے سے اور کرارے طریقے سے بتائیں۔ زبان کراری استعمال کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
ضیا شاہد نے کہا کہ امریکی صدر ٹرمپ جب سے آئے ہیں آتے ہی انہوں نے مسلمانان عالم پر چڑھائی کر دی اور پھریہ کہنا شروع کردیا کہ غیر امریکی لوگ جو امریکہ میں موجود ہیں ان کو میں نکال باہر کروں گا۔ آہستہ آہستہ انہوں نے اتنی انتہاپسندانہ پالیسیاں اپنائیں کہ لگتا تھا پتا نہیں کیا اتھل پتھل کر دے گا۔ پھر اس کا ردعمل شروع ہوا ۔ امریکہ میں حکومت جو چاہتی ہے علی الاعلان نہیں کر سکتی اس کے راستے میں بہت سی رکاوٹیںہوتی ہیں۔ تھنک ٹینکس، تھنکنگ سیلز، یونیورسٹیز میں مختلف پیپرز اور ریسرچز کی روشنی میں ایک متوازن پالیسی ریاست کو دی جاتی ہے اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اس کو اپناتا ہے۔ چنانچہ ٹرمپ جتنی مرضی اشتعال انگیز تقاریر کرتے رہیں، میں نے اسی میز پر کہا تھا کہ یہ گیدڑ بھبکیاں بہت جلد ختم ہوجائیں گی۔ کیونکہ جب عملا یہ کام کرنے لگیں گے تو ان کی اپنی پارٹی کے لوگ ہی انکے خلاف کھڑے ہوں گے۔ حال ہی میں امریکی مڈ ٹرم الیکشن میں کانگریس یا سینٹ میں ان کی تعداد کم ہوگئی ہیں۔ ٹرمپ حکومت کے پاس اب اتنے اختیارات نہیں ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ وہ کوئی انتہاپسندانہ پالیسی بنا سکیں گے۔ انکو ماڈریٹ ہونا پڑے گا۔ کیونکہ دونوں ہاﺅسزمیں سے ایک میں ڈیموکریٹس کی تعداد زیادہ آگئی ہے اور ٹرمپ ری پبلیکن ہیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ نواز شریف جب اپنا وفد لیکر گئے تو اس میں مریم نواز اور کلثوم نواز بھی تھیں ۔ انہوں نے جا کر صدر ٹرمپ کی اہلیہ سے بھی ملاقاتیں کی تھیں اور بڑے بڑے فلاوری وعدے بھی کیے تھے کہ پاکستان امریکہ کے لیے یہ کرے گا اور وہ کرے گا۔ اگرچہ ہم کچھ زیادہ کام نہیں کر سکے ۔ الزام لگانا دنیا کا سب سے آسان کام ہے ۔ امریکہ بھی الزام لگا دیتا ہے کہ انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ آصف علی زرداری کی صدارت کے دور کا واقعہ ہے جب ایک سرجیکل سٹرائیک ہوئی اور انہوں نے ہیلی کاپٹرز سے ایک گھر میں جہاں اسامہ چھپا ہوا تھا، نہ عوام کو پتاتھا، نہ فوج کو پتا تھا اور نہ حکومت کو پتا تھا کہ یہاں گمنام حالت میں اسامہ بن لادن چھپا ہوا ہے۔ اسامہ کو قتل کر کے اس کی لاش ساتھ لے گئے اور راستے میں جاتے ہوئے بحر ہند میں اسکی لاش گرا دی۔
امریکی صدر ذکر کر رہے ہیں کہ دیکھیں انہوں نے تو اسامہ بن لادن کو اپنے پاس رکھا تھا۔ تب سے آج تک آصف علی زرداری اور نواز شریف نے 10سال حکومت کی اور اب عمران خان کی حکومت میں گیارہواں سال ہے ۔ مگر اب تک پرانے تعنے دئیے جارہے ہیں۔ کپتی رن بات بات پر بہانے گھڑتی ہے۔ وہ کہتی کہ تیرا جو دادا تھا نہ، میری پھوپھی کے آنے پر اس نے اچھا کھانا نہیں بنوایا تھااور پھر لڑنا شروع کر دیتے ہیں۔
پروگرام میںسیکرٹری جنرل عوامی تحریک خرم نواز گنڈا پورنے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ کسی کے تصور میں نہیں تھا کہ ایک بچی کی درخواست پر چیف جسٹس آف پاکستان ایکشن لیں گے اور تقریباً 139 افراد جن میں ملک کا سابق وزیراعظم، صوبے کا سابق وزیراعلیٰ، 4وفاقی وزراءسب شامل ہوں گے ۔ آج سے چند سال پہلے تک اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس پر چیف جسٹس آف پاکستان اور پاکستان کی قوم کو مبارکباددیتے ہیں کہ ہم ایک ایسے سفر پر روانہ ہوگئے ہیں جہاں طاقتور لوگوں کو عدالتوں میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہ پورے ملک کے لیے بہت بڑی کامیابی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قانون میں توسیع کی گئی ہے کہ آپ گھر میں بیٹھے ہوتے ہیں اور ای چالان آجاتا ہے۔ ایک کیمرے نے رات کی تاریکی میں آپ کی گاڑی کو دیکھا ہوتا ہے اور اس چیز کو ای چالان بھیجنے کے لیے ٹھوس ثبوت سمجھا جاتا ہے۔ ماڈل ٹاﺅن سانحے میں 20سے لیکر 25یا 30ٹی وی چینلز کے کیمروں نے ہر چیز اپنی آنکھوں سے دکھائی اور کروڑوں آنکھوں نے دیکھا کہ پولیس نے کس بے دردی کیساتھ لوگوں کو زودوکوب کیا ، تشدد کیا ، ہڈیاں توڑیں، ہاتھ باندھ کر لوگوں کو ایمبولینس میں مارا گیا، گلو بٹ نے جو کچھ کیاوہ تاریخ میں رقم کر دیا گیا ہے۔ مزے کی بات ہے کہ آج گلو بٹ سپریم کورٹ کی سماعت میں موجود تھا۔ مسلم لیگ ن یا پولیس کا آج گلو بٹ کو لانے کا کیا مقصد تھاجو پولیس کی مدعیت میں وہاں پیش ہوا۔ آج کے کیس میں نہ اسے بلایا گیا تھا اور نہ آج کسی چیز کا عینی شاہد تھا۔ اسے لانے کا مقصد دوبارہ سے ان بچیوں پر دہشت کا اثر بٹھانا تھا کہ ہمارے گلو بٹ ابھی آزاد پھر رہے ہیں۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ کا لارجر بینچ بننا بڑی خوش آئندبات ہے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ ٹور ہوتی ہے کہ زبردست مونچھوں والا ایک بندہ وہاں ادھر ادھر گھوم رہا تھا، لوگوں کو پتا چل رہا تھا کہ یہ بھی اس جنگ کا ہیرو ہے۔
خرم نواز کاکہنا تھا کہ بدقسمتی سے گلو بٹ کیمروں کی قیدمیں نہیں آیا مگر میں نے اس سے ایک سوال پوچھا کہ تم نے کون سا قلعہ فتح کیا ہے جو سپریم کورٹ میں آئے ہواور آکر اپنی حاضری سامنے لانا چاہ رہے ہو۔ اگر تمہار اخیال ہے کہ ہماری بچیاں یا کوئی تحریک منہاج القرآن کا شخص تم سے خوفزدہ ہوگا، ہم تم جیسے لوگوں کو کسی گنتی میں نہیں رکھتے ، ہماری جن سے لڑائی ہے ہم ان سے لڑ رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کی جانب سے میاں منشاءکی فیکٹری کو دس کروڑ جرمانہ اوررقم ڈیم فنڈ میں جمع کرانے کے حوالے سے ضیا شاہد نے کہا کہ جھیل کلر کہارسے ایک سڑک سیدن شاہ کی طرف جاتی ہے۔یہ وہ علاقہ ہے جہاں ایک گاﺅں جرنیلاں دا پنڈ کہتے ہیں ۔ اس گاﺅں میں 11جرنیل پیدا ہوئے تھے۔ کٹاس میں ہندوﺅں کی پرانی مذہبی عمارتیں ہیں اور عمارتوں کے درمیان پانی زمین کے نیچے سے ابلتا ہے۔ اس جگہ پر یہ اجازت تھی اور نل کے ذریعے سیدن شاہ پینے کا پانی لے جایا جاتا ہے۔ آج مسلم کمرشل بینک کے سربراہ پاکستان کے صف اول کے سرمایہ کار اور سرمایہ دار میاں منشاءکو سپریم کورٹ کی جانب سے جرمانہ کیا گیا ہے۔ میاں منشاءکے خلاف پرانے مقدمات اب بھی چل رہے ہیں۔ یہ نواز شریف کے ساتھ چین ایران اور دیگر ملکوں کے دورے پر جایاکرتے تھے اور کہا جاتا ہے کہ وہ فرنٹ مین کی حیثیت سے جائزہ لیتے تھے کہ کہاں کہاں سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے۔ کیونکہ سرمایہ کاری تو انہوں نے اپنی جیب سے کرنا نہیں ہوتی ، ان کے پاس تو پورا بینک پڑا ہے۔ لا انتہا پیسہ بینک کی شکل میں موجود ہے اور وہ کسی بھی جگہ سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ ایک زمانے میں افواہ اڑی تھی کہ پی آئی اے بھی وہی خرید رہے ہیں اور کہا جاتا تھا کہ نوازشریف ہی ان کے پیچھے ہوں گے۔
ان کو آج اس لیے جرمانہ کیا گیا ہے کہ انہیں وہاں سے صنعتی استعمال کے لیے پانی لینے کا حق حاصل نہیں تھا۔
راوی کے پانی کو گندا کیے جانے کے حوالے سے کیس کی سماعت پر ضیا شاہد نے کہا کہ دنیا میں ٹرینڈ بدل رہا ہے۔ پچھلے پچیس سال سے دنیا میں زیر زمین پانی پر زیادہ ٹیکس نہیں کیا جاتا۔لوگوں کا غلط خیال ہے کہ زمین کے نیچے پانی ہی پانی ہے جتنا جی چاہے نکال لو۔ جب میں ملتان سے میٹرک کرنے کے بعد لاہور آیا تو لاہور میں 10سے 12فٹ کی گہرائی میں پانی نکل آتا تھا اور اس وقت راوی بہتا تھا۔ پھر سندھ طاس کا معاہدہ ہوا اور راوی خشک ہونے سے اب زیر زمین پانی بہت نیچے چلا گیا ہے۔ ٹیوب ویل اب 160فٹ نیچے سے پانی لاتے ہیں۔ بعض مقامات پر 1130فٹ نیچے سے پانی لانا پڑتا ہے ۔ پانی کی زیر زمین سطح کم ہورہی ہے۔ پانی احتیاط سے استعمال کرنا چاہئے ۔ پاکستان میں بی آر بی اور دیگر نہروں سے پانی لیکر پینے کے لیے استعمال کیا جائے گا کیونکہ زیر زمین پانی کم ہورہا ہے۔ اس لحاظ سے سمجھتا ہوں کہ آج کا مقدمہ بہت اہم تھا اور آئندہ بھی حکومت پاکستان خیال کرے گی کہ اندھا دھند طریقے سے بنا سوچے سمجھے زمین سے بور کر کے پانی نہ نکالا جائے۔

پی ایس ایل4کی ڈرافٹنگ تقریب آج سجے گی

لاہور(سپورٹس رپورٹر)پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) فور کیلئے پلیئرز ڈرافٹنگ (آج)منگل کو اسلام آباد مین ہو گی،پی ایس ایل کی چھٹی ٹیم کے لیے پینل کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق پینل پی ایس ایل ڈرافٹ میں چھٹی ٹیم کے لیے کھلاڑیوں کا انتخاب کرے گا۔اعلان کردہ پینل کی سربراہی سابق ٹیسٹ کرکٹرندیم خان کریں گے جبکہ شعیب ملک ٹیم کی کپتانی کے فرائض سرانجام دیں گے، پینل کے دیگر ممبران میں فیصل مرزا اور حیدر اظہر بطور کنسلٹنٹ اپنی خدمات سرانجام دیں گے۔جنوبی افریقہ کے سابق کھلاڑی یوہان بوتھا اورسابق ٹیسٹ اسپنرعبدالرحمان ویڈیو لنک کے ذریعے پینل کو دستیاب ہوں گے۔ واضح رہے کہ پی ایس ایل 4 کے ڈرافٹ کی تقریب (آج)منگل کواسلام آباد میں ہوگی۔یاد رہے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی)نے پاکستان سپر لیگ کی ٹیم ملتان سلطانز کا فرنچائز معاہدہ رقم کی ادائیگی نہ کرنے کی بنیاد منسوخ کردیا تھا۔پی سی بی کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا تھا کہ 20 نومبر کو ڈرافٹ میں ملتان کی نمائندگی پی سی بی کرے گا اور ٹیم بھی بورڈ ہی منتخب کرے گا۔ملتان سلطانز کی ٹیم پی ایس ایل میں نئی فرنچائز آنے تک چھٹی ٹیم کہلائے گی۔اعلامیے کے مطابق پاکستان کرکٹ بورڈ سکستھ ٹیم کی فروخت کیلئے نیا ٹینڈر جاری کرے گا، نئے اونرز ٹیم کے شہر کا انتخاب اور اس کا نام رکھنے کیلئے آزاد ہوں گے۔پی سی بی کے چیئرمین احسان مانی کا کہنا تھا کہ پی ایس ایل کے بہتر مستقبل کیلئے معاہدے کی پابندی بہت ضروری تھی اور تمام شراکت داروں کو یقین دلاتے ہیں کہ پی ایس ایل کا چوتھا ایڈیشن شیڈول کے مطابق ہی ہوگا۔

پاکستان کیویزکیخلاف جیتامیچ ہارا،مجاہدجمشید ناقص کھیل پر بیٹنگ کوچ کی کارکردگی پربھی سوال اٹھتاہے،راجہ اسدعلی کی گگلی میں گفتگو

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) سابق کرکٹر مجاہد جمشید نے کہا کہ نیوزی لینڈ سے پاکستان جیتا میچ ہار گیاسرفراز نے ٹیسٹ کرکٹ میں بار بار دھوکہ دیا اگر ٹیسٹ کرکٹ کی بات کی جائے تو سب سے زیادہ خوبصورتی ٹیسٹ کرکٹ میں ہی ہے لیکن جس طرح پاکستان کا ٹیسٹ کرکٹ کا رزلٹ ہے پاکستان دنیا کی ٹیموں سے بہت پیچھے ہے۔چینل فائیو کے پروگرام گگلی میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ۔جن حالات میں پاکستان میچ ہارا وہ جلد بازی کے باعث ہوا وکٹیں بچانی چاہئیں تھیں۔حفیظ کبھی بھی میچ وننگ پلیئر نہیں رہے۔سپورٹس صحافی راجہ اسد علی نے کہا کہ بیٹنگ میں ڈسپلن ہوتا ہے جس کا بلے باز خود ذمہ دار ہوتا ہے اس کے بعد بیٹنگ کوچ کی کارکردگی پر سوال اٹھتا ہے۔ٹیسٹ کرکٹ میں جان مارنی پڑتی ہے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ٹیسٹ رینکنگ میں پاکستانی ٹیم ساتویں نمبر پر ہے جبکہ دنیا کی لولی لنگڑی ٹیموں کی رینکنگ بہتر ہے۔جو شخص سمجھتا ہے اب عمر رسیدہ ہو رہا ہے اسے خود ہی ریٹائرمنٹ لے لینی چاہئے۔

امریکا سے الجھنا مقصد نہیں لیکن ریکارڈ درست کرنا ضروری ہے، شاہ محمود قریشی

اسلام آباد(ویب ڈیسک) پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہرزہ سرائی کے حوالے سے کہا ہے کہ امریکی صدر نے پہلی بار ایسی باتیں نہیں کیں۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں تعاون نہ کرتے تو امریکا کو مزید نقصان ہوتا، ہم نے اپنا مﺅقف پیش کیا اور کرتے رہیں گے، پاکستان کے مفادات افضل ترین ہیں۔انہوں نے کہا کہ پوری دنیا دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کی معترف ہے، اگر امریکا کو ہم سے کوئی تشویش ہے تو ہم مل بیٹھ کر سننے کو تیار ہیں۔وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکا سے الجھنا مقصد نہیں لیکن ریکارڈ درست کرنا ضروری ہے، پاکستان کے مفادات کو سامنے رکھ کر پالیسی مرتب کی جائے گی۔خیال رہے کہ امریکی صدر مسلسل پاکستان پر تنقید کررہے ہیں۔ گزشتہ روز امریکی ٹی وی کو انٹرویو میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ہم پاکستان کو سالانہ ایک ارب 30 کروڑ ڈالر سے زیادہ دیتے تھے لیکن اس نے ہمارے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔ٹرمپ کے اس بیان پر وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وزیراعظم نے اپنے ٹوئٹر بیان میں امریکی صدر کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ کو پاکستان سے متعلق ریکارڈ درست کرنے کی ضرورت ہے۔

سلمان خان نے سنیل شیٹھی کی بیٹی کو متعارف کرانے کی ذمہ داری اٹھالی

ممبئی(ویب ڈیسک) بالی ووڈ کے دبنگ اداکار سلمان خان نے اداکار سنیل شیٹھی کی بیٹی اداکارہ آتھیا شیٹھی کو ایک بار پھر متعارف کرانے کی ذمہ داری اٹھالی۔بھارتی میڈیا کے مطابق سلمان خان کے قریبی ذرائع نے بتایا ہے کہ سلمان خان نے ادتیا پنچولی اور سنیل شیٹھی سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان کے بچوں کو فلم نگری میں ڈیبیو کرائیں گے اور اپنے وعدے کی پاس داری کرتے ہوئے سلمان خان اداکارہ آتھیا شیٹھی کو ایک بار پھر متعارف کرانے جارہے ہیں جس کے لیے وہ ایک منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔دوسری جانب جہاں سنیل شیٹھی کے بیٹے آہان شیٹھی ساجد ناڈیاڈ والا کے بینر تلے بننے والی فلم سے ڈیبیو کر رہے ہیں تو وہیں ادتیا پنچولی کے بیٹے سورج پنچولی بھی ایک بار پھر موسیقی اور ایکشن سے بھرپور فلم میں کترینہ کیف کی بہن ایزابیل کے ساتھ نظر آئیں گے۔واضح رہے کہ 3 سال قبل سلمان خان اپنی پروڈکشن میں بننے والی فلم ’ہیرو‘ میں آتھیا شیٹھی اور سورج پنچولی کو متعارف کراچکے ہیں تاہم فلم کی ناکامی نے اداکاروں کے فلم کیریئر کو شروع ہونے سے قبل ہی روک دیا تھا۔

باکسر عامرکی بیگم نے اس بار ایسا کام کر دیا کہ سوشل میڈیاصارفین نے تعریفوں کی لائن لگا دی

مکہ المکرمہ(ویب ڈیسک) پاکستانی نژاد برطانوی باکسر عامر خان نے اہلیہ کے ہمراہ عمرہ ادا کرنے کی سعادت حاصل کرلی۔ذرائع کے مطابق باکسر عامر خان ان دنوں اپنی اہلیہ فریال مخدوم کے ہمراہ سعودی عرب میں موجود ہیں۔ انہوں نے عمرہ کی ادائیگی کی سعادت حاصل کرنے کے بعد غلاف کعبہ تیار کرنے والی فیکٹری کا بھی دورہ کیا۔عامر خان کا کہنا تھا کہ اہلیہ اور میں نے مکہ میں بہترین لمحات گزارے اور ہمیں کعبہ کے اندر کا منظر دیکھنا بھی نصیب ہوا۔یاد رہے کہ چند روز قبل عامر خان نے پاکستان کا دورہ کیا تھا جس میں انہوں نے پاکستان سپر لیگ کا اعلان کرنے کے ساتھ واہگہ بارڈر پر پرچم اتارنے کی تقریب میں بھی شرکت کی تھی۔

افغانستان میں قتل ہونے والے پولیس افسر طاہر داوڑ کے لواحقین کی وزیراعظم سے ملاقات

اسلام آباد(ویب ڈیسک) وزیراعظم عمران خان سے افغانستان میں قتل ہونے والے خیبر پختونخوا پولیس کے سپرنٹنڈنٹ طاہر داوڑ کے لواحقین نے ملاقات کی۔ملاقات میں وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی، معاون خصوصی افتخار درانی اور آئی جی پولیس خیبرپختونخوا بھی موجود تھے۔وزیرِ اعظم نے شہید ایس پی طاہر داوڑ کے ایصال ثواب اور درجات کی بلندی کیلئے دعا کی اور غم زدہ خاندان سے تعزیت کا اظہار کیا۔وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ایس پی طاہر داوڑ ایک نڈر اور فرض شناس افسر تھے، ان کی فرض شناسی اور بہادری محکمہ پولیس کیلئے باعث فخر ہے۔انہوں نے کہا کہ طاہر داوڑ کی شہادت سے ہم ایک ذمہ دار اور فرض شناس افسر سے محروم ہوگئے۔ وزیراعظم نے غم زدہ خاندان کو ہر ممکن مدد کی یقین دہانی بھی کرائی۔واضح رہے کہ خیبرپختونخوا پولیس کے ایس پی طاہر داوڑ اسلام آباد کے علاقے جی ٹین سے 26 اکتوبر کو لاپتہ ہوئے جن کی لاش 13 نومبر کو افغانستان کے صوبہ ننگرہار سے ملی تھی۔