تعلیم کے شعبہ سے نسلیں آباد ہوتی ماں کی گود کی طرح درسگاہ طلب علم کی پہچان ہے:آغا باقر ، تعلیم کو کمرشل کرکے مہنگا کردیا گیا، مغربی کلچر والے اداروں کا قبلہ درست کرنا ہو:، سعید آسی، ضیاالحق دور میں نجی سکولوں کے نظام کے ساتھ غیر ملی ایجنڈا بھی آیا:علامہ صدیق اظہر، نجی سکولوں میں کلچر کا نہیں فیسوں کا مسئلہ ہے، حکومت اپنا تعلیمی نظام دے:ضمیر آفاقی، چینل ۵ کے پروگرام ” کالم نگار “ میں گفتگو

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک)چینل فائیو کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرا م”کالم نگار“ میں گفتگو کرتے ہوئے میزبان تجزیہ کار آغا باقر نے کہا ہے کہ تعلیم کے شعبے سے نسلیں آباد بھی ہوتی ہیں اور تباہ بھی ہوتی ہیں۔ ماں کی گود کی طرح درسگاہ طالب علم کی پہچان بنتا ہے۔ حکومتی وزراءکی تنزیہ گفتگو عوام ، سوسائیٹی ،پارلیمانی حکومت کے لیے تباہ کن ہے۔ اس پر اعتراض سب کے لیے بہتر ہے۔ تحریک انصاف کو الزامات کی سیاست چھوڑ کر میچور سیاست کی طرف جانا چاہئے۔پیٹرول مہنگا ہونے کےے بعد عوام پر بجلی گرائی جارہی ہے۔ کالم کار سعید آسی نے کہا کہ جو اپنی ماں کو بیچ کے دشمن سے داد لے، ایسے وطن فروش کو مر جانا چاہئے۔انگریزی کلچر پر زیادہ زور دیا دیا جا تا ہے، تعلیم کو کمرشل کر کے تعلیم مہنگی کر دی گئی ، ہماری سوسائیٹی کی بدقسمتی ہے کہ جن اداروں کو شرح خواندگی بڑھانے میں معاون بننا چاہئے وہ مغربی کلچر کے فروغ کے معاون ہیں۔ فیسوں کے علاوہ مغرب زرہ تعلیمی اداروں کی پکڑ کی جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ سندھ کی طرح ان تعلیمی اداروں کی رجسٹریشن پورے ملک میں کینسل ہونی چاہئے۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں اصلاح پر توجہ دینی چاہئے۔پاکستان کلچر کی بنیاد پر قائم ہوا تھا۔ڈی جی نیب کی جانب سے انکوائری کو میڈیا پر افشا کرنا اور ملزم کو مجرم بنانا ،قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ عمران خان کے چین سے واپسی پر بیان کے مطابق کرپشن کے خلاف چین جیسا ایجنڈا جمہوریت کا طریقہ نہیں۔ یہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہورہا ہے۔حکومت کو چاہئے کہ ہائیڈرل پاور کے چھوٹے منصوبے شروع کرے۔ تجزیہ کارعلامہ صدیق اظہر نے کہا کہ پوری دنیا میں مقامی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے ۔ ضیا الحق کے دور میں پرائیویٹ سکولوں کا نظام آیا اور غیر ملکی ایجنڈے پر اداروے سے ہماری اولاد کو ہمارے کلچر، تاریخ ، زبان اور تہذیب سے کاٹ رہے ہیں۔ عمران خان پورے ملک میں یکساں نظام تعلیم کا وعدہ پورا کریں۔ پاکستان میں ایچیسن کالج نے ایک دانشور پیدا نہیں کیا۔ وزیراطلاعات فواد چوہدری اور دیگر حکومتی لوگوں کا رویہ انکے اپنے لیے کل مسئلہ بنے گا کیونکہ پاکستان میں آئین کا محفوظ ہونا خام خیالی ہے۔ دانستہ طور پر تحریک انصاف میں شامل کچھ لوگوں اور نیب کے لوگوں کی وجہ سے پاکستان کا جمہوری نظام خطرے میں ہے۔ پاکستان میں روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں اوور سیز پاکستانیوں کو لانے کی بجائے ملک میں موجود ٹیلنٹ کو روزگار دیا جائے۔ حکومت نے دوسری مرتبہ بجلی کی قیمتیں بڑھائی ہیں ، پاکستان کی معاشی حالت بہت خراب ہے۔ سعودی عرب اور چین سے امداد نظر نہیں آرہی۔ آئی پی پیز نے عوام کا خون چوسنے کا آغاز کیا، حکومت انکے ساتھ بجلی کی قیمتیں طے کرنے سے قاصر ہے۔ کالم نگار ضمیر آفاقی کا کہنا تھا کہ ہر بچے کو مفت اور معیاری تعلیم دینا ریاست کی آئینی ذمہ داری ہے۔ پرائیویٹ سکولز ملک کے آدھے سے زائد بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں۔ کلچر زمین کا نہیں طاقت کا ہوتا ہے۔پرائیویٹ سکولوں میں کلچر کا نہیں فیسوں کا مسئلہ ہے۔ 56اداروں کو معطل کر کے ایک ہفتے میں سیل کیا جائے گا جہاں 30ہزار سے زائد بچے ہیں۔حکومت اپنا نظام تعلیم اب تک نہیں دے سکی، یکساں نظام تعلیم یہاں ممکن نہیں ہے۔ انصاف کے نظام میں الزام لگانے والوں کو بھی جیل میں ہونا چاہئے۔ اوور سیز پاکستانیوں سے پہلے ہمارے ملک میں موجود ٹیلنٹ کو موقع ملنا چاہئے۔حکومت کے پاس کوئی پیسا نہیں ہے۔ انکے اختیار میں بجلی اور پیٹرول ہے اسی کی قیمتیں بڑھائی جارہی ہیں۔ حکومت خدا کا خوف کرے ، مہنگائی کے خلاف عوام کے ردعمل سے ڈرے۔

شاہد آفریدی کون ہوتا ہے کہنے والا کہ کشمیر کو اپنے حال پر چھوڑ دو : ضیا شاہد ،نواز شریف نے بیان ریکارڈ کرایا شہادت نہیں ، بیگناہی کیلئے شہادت ضروری : خالد رانجھا ،چینل۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ شاہد خان آفریدی کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک شخص بہت اچھی کرکٹ کھیلتا ہے اور اس کا بڑا نام ہے بلاشبہ وہ عوام اس کے نام سے واقف ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ ایک اس کا فیلڈ ہے کیا وہ کشمیر کا فریڈم فائٹر ہے کیا اس کو معلوم ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں کشمیری کس مشکل میں وقت گزار رہے ہیں وہ کب سے سیاستدان بھی نہیں بلکہ جیو پالیٹکس اس کو کہتے ہیں جغرافیائی سیاست کیا ہوتی ہے کیا وہ اس کا ماہر ہے بدقسمتی سے اس ملک میں ہر وہ شخص جو مجمع لگا سکتا ہے جس کے نام سے لوگ واقف ہیں وہ کوئی بھی دعویٰ کر دیتا ہے اب شاہد آفریدی صاحب نے یہ دعویٰ کر دیا، کل کوئی ہاکی کا کھلاڑی وہ یہ کہہ دے کہ ہمارے خیال میں یہ سندھ طاق کا معاہدہ جو ہے اس میں جو ہم نے دستخط کھے ہیں غلط ہیں یہ باقی دو دریا بھی ہمارے بھارت کو دے دینے چاہئیں۔ یہ تو ایسا کام ہے کہ جس کو اُردو مں محاورہ ہوتا ہے ”جس کا کام اسی کو ساجھے“ جو شخص سیاست نہیں جانتا جو شخص جغرافیہ نہیں جانتا۔ شاہد آفریدی کے سر پر قرآن رکھ دیں مجھے یقین ہے کہ جھوٹ نہیں بولے گا اسے پتہ ہے کہ کشمیر کا معاملہ جب پنڈت نہرو اقوام متحدہ میں لے کر گئے تھے تو اس وقت وہاں کیا فیصلہ ہوا تھا۔ کیا اس کو پتہ ہے کہ کشمیر کے سلسلے میں بین الاقوامی فورم اور ہے یو این او کا اس کی سب سے بڑی پارٹی سلامتی کونسل تھی اس نے قرارداد منظور کی تھی کہ وہاں لوگوں سے پوچھا جائے ان لوگوں سے تو پوچھیں جو رہنا چاہتے ہیں۔ اگر وہ پاکستان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو ٹھیک ہے اگر وہ ہمارے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو پھر شاہد آفریدی کرنا ہوتا ہے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ شاہد آفریدی کے بیان پر۔ اگر وہ اچھی کرکٹ کھیلتے تھے تو ان کو کشمیریوں کے حق خودارادیت کے بارے میں رائے دینا اور یہ کہنا کہ اب کشمیر کو چھوڑ اس کے حال پر آزاد رہے یا نہ رہے اب پاکستان کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ اچھے پاکستانی ہیں کہتے ہیں ہم سے 4 صوبے تو چلتے نہیں ہم اس کو لے کر کیا کریں گے۔
ضیا شاہد نے کہا ہے کہ قیصر امین بٹ جو گرفتار ہوئے ہیں یہ سعد رفیق کے پیراگون سٹی میں پارٹنر تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اب یہ گرفتار بھی پیپلزپارٹی کے لیڈر کے گھر سے کیونکہ اوپر کے لیول پر کوئی پارٹی نہیں ہوتی یہ سب چور ٹھگ آپس میں ملے ہوتے ہیں ایک ایم پی اے جو سعد رفیق کا پارٹنر تھا اس کو پناہ کس نے دی ہے وہ یہاں سے بھاگ کر خیرپور سندھ میں ہے اس کو پناہ دی ہوئی ہے پیپلزپارٹی کے ایک رہنما نے ظاہر ہے وہ آصف زرداری کی مرضی کے بغیر ایسا تو نہیں کر سکتے تھے۔ یہ سو فیصد صحیح بات ہے کہ سارے کریمینل مجرم اندر سے ایک ہوتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کو تحفظ دیتے ہیں۔ ایک چور دوسرے کا حامی ہوتا ہے اور ایک چور دوسرے کو پناہ گاہ مہیا کرتا ہے۔ابھی اور بہت انکشافات سامنے آئیں گے۔ ہو سکتا ہے قیصر امین بٹ بھی وعدہ معاف گواہ بن جائے۔ ضیا شاہد نے مزید کہا کہ نوازشریف نے بڑی معصومیت سے کہہ دیا کہ میرا کوئی تعلق ہی نہیں، جہاں تک قومی اسمبلی کی تقریر کا سوال ہے وہ میرا قانونی حق ہے، سب کچھ میرے والد کا تھا انہوں نے آگے پوتوں کو دے دیا، خود بری الذمہ ہو گئے۔ شریف خاندان کو جواب دینا پڑے گا کہ پیسہ باہر کیسے گیا۔ ابھی گیم چل رہی ہے، ایک دوسرے کو بچانے کی کوشش ہو رہی ہے لیکن اگر پاکستان کو برقرار رہنا ہے اور کرپشن سے نجات دلانی ہے تو پھر جو بھی زد میں آتا ہے اس کو پکڑنا پڑے گا۔ مالدار لوگوں کا سارہ گروہ کیسے کیسے بہانے لگا کر خود کو بری الذمہ قرار دے دیتا ہے۔ جو کیس نوازشریف پر چل رہا ہے مجھے نہیں لتا کہ وہ بچ سکیں گے۔ اب معاملہ سپریم کورٹ میں ہے شاید ضمانتت کینسل کر دی جائے، دوبارہ گرفتار کر لیا جائے۔ الٹی میٹلی ایک دن آنا ہوتا ہے جب ساری دلیلیں ختم ہو جاتی ہیں۔ مجھے یقین ہے ہمارے ملک میں دیر ہو سکتی ہے اندھیر نہیں، بالآخر ہر مجرم کو سزا ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ اسحاق ڈار سے غلطی ہوئی اگر وہ برطانوی شہریت حاصل کر لیتے تو محفوظ ہو جاتے۔ پاکستان و برطانیہ کے درمیان اب تو قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ بھی ہو چکا ہے۔ اسحاق ڈار کیلئے مشکل دور شروع ہو گیا ہے، جتنی مرضی کوش کر لیں اب صاف بچ نکلنا ممکن نہیں ہو گا۔ پاکستان جب برطانوی حکومت سے اسحاق ڈار کی واپسی کا مطالبہ کرے گا تو معاہدے کے بعد اب برطانیہ کے پاس واپس نہ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہو گا۔ اسحاق ڈار کے پاس صرف ایک چیز دولت ہے، دبئی و برطانیہ میں عمارتیں و کاروبار ہے۔ میرٹ ہوتی ہے کہ پاکستان میں لوگ حکوموں میں بھی رہے اور بیرون ممالک اپنا بزنس بھی چلاتے رہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر پاکستان میں کسی کے پاس پیسہ ہے تو وہ ہر الزام سے بچ کر نکل سکتا ہے۔ اسحاق ڈار نے اگر برطانوی شہریت یا وہاں سیاسی پناہ حاصل نہ کر لی تو لگتا ہے واپسی ممکن ہو جائے گی۔ فیصل آباد میں وکلاءگردی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں وکالت نہایت مہذب پیشہ ہے، آئین کے ماہر ہی اس کو توڑتے ہیں تو دکھ ہوتا ہے۔ مجھے ٹریفک پولیس والوں نے بتایا کہ ہم ہیلمنٹ کے بغیر ہر کسی کو پکڑ سکتے ہیں لیکن وکیل کو پکڑنے کی کسی مائی کے لال میں جرا¿ت نہیں۔
لندن سے تجزیہ کار شمع جونیجو نے کہا ہے کہ اسحاق ڈار کی برطانیہ میں پوزیشن مضبوط ہے کیونکہ پاکستان نے ان کا پاسپورٹ منسوخ کر دیا ہے۔ انٹرنیشنل قوانین کے مطابق جب کوئی حکومت اپنے شہری کا پاسپورٹ منسوخ کردیتی ہے تو وہ سٹیٹ لیس شخصیت ہو جاتا ہے، ایسی صورت میںوہ شخص اس وقت جس بھی ملک میں ہو تو پھر اس ریاست کی ذمہ داری ہے کہ فوری متعلقہ شحص کو پاسپورٹ اور سفری دستاویزات دے۔ میری اسحاق ڈار سے بات ہوئی تو پوچھا کہ آپ نے کیا اسائلم کلیم کیا ہے یا سٹیٹ لیس شحصیت کے طور پر دعویٰ کر رہا ہے، انہوں نے سٹیٹ لیس موضوع پر زیادہ بات کی تھی۔ جب ایک آدمی سٹیٹ لیس ہو جاتا ہے اور اس کو پھر فوری پراسکیوشن کا بھی خطرہ ہوتا ہے تو ایسے میں حکومت پاکستان کی قیدیوں کے تبادلے کے معاہدہ پر آسانی سے عملدرآمد نہیں ہو سکے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سٹیٹ لیس شخصیت کے حوالے سے عالمی قانون موجود ہے جس پر برطانیہ و پاکستان سمیت تمام ممالک کے دستخط ہیں۔ نوازشریف پر جتنے کیسز چل رہے ہیں ان کو عالمی ہمدردی حاصل ہے، پاکستان کی عدالتیں قانونی وضاحت دینے میں ناکام رہی ہیں۔ ایک فیئر ٹرائل نہیں کیا۔ رولز کو فالو نہیں کیا۔ اب تو اسحاق ڈار کا پاسپورٹ ہی کینسل ہو گیا ہے وہ سٹیٹ لیس کیس ہے۔ پاکستان تو پاسپورٹ منسوخ کر کے انکار کر چکا ہے کہ یہ ہمارا شہری ہی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان اگر قائل کرے کہ اسحاق ڈار بہت بڑا دہشتگرد یا بڑا مجرم ہے، ثبوت فراہم کریں تو ڈار کی واپسی ممکن ہو سکتی ہے۔ فرمان جونیجو جو برطانیہ میں پکڑا گیا تھا، ان کے پاس اپنی جائیداد و پیسوں کا کوئی ثبوت نہیں تھا۔ حکومت پاکستان اگر برطانوی حکومت کو قائل کرے کہ اسحاق ڈار واقعی اس جرم میں یہاں مطلوب ہیں اس کے بعد ہی واپسی یا تبادلہ ممکن ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ برطانوی حکومت کے کچھ لوگوں نے بتایا کہ پاکستان کے ساتھ جو قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ ہوا ہے وہ ان کے بارے میں ہوا ہے جو برطانیہ کی شہریت رکھتے ہوں اور یہاں یا پاکستان میں کوئی قتل کر آتے ہیں تو ان کے تبادلے کے حوالے سے معاہدہ ہوا ہے۔ مجھے ان کی باتوں سے نہیں لگا کہ ان کا زیادہ فوکس کرپشن یا سیاسی پراسیکیوشن کے کیسز پر تھا۔ انہوں نے ممید کہا کہ جب نوازشریف کو نااہل کیا گیا اور پھر جیل بھیجا گیا تو عدالت کے فیصلے میں تھا کہ کرپشن ثابت نہیں ہوئی۔ برطانیہ میں نوازشریف کی سو فیصد قانونی ٹرانزیکشن ہیں، یہاں اگر مشکوک ٹرانزیکشن ہو تو اس پر بڑے سخت قوانین ہیں۔ اگر نوازشریف کی ٹرانزیکشن پر کوئی برطانیہ میں شک ہوتا تو اب تک ان کے فلیٹس ضبط ہو چکے ہوتے جو نہیں ہوئے۔ ایسا صرف پاکستان میں ہی ہوتا ہے کہ فیصلے میں ایک لائن میں لکھا ہے کہ کرپشن ثابت نہیں ہوئی اور دوسری لائن میں لکھا ہے اثاثوں کی وضاحت نہیں ہوئی، پھر 10 سال کیلئے جیل بھیج دیا جاتا ہے، برطانیہ میں اس طرح نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ شاہد آفریدی کا بیان انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے، سوشل میڈیا پر میں نے تبصرہ دیا ہے کہ ”کرکٹر کو کرکٹر ہی رہنا چاہئے اگر وہ سیاست پر اپنی افلاطونی دکھائے گا تو اس سے اس کا آئی کیو بڑھ نہیں جائے گا۔“ مجھ سمیت تمام پاکستانی کمیونٹی کا ایک ہی نعرہ ہے ”کشمیر بنے گا پاکستان“ کشمیر میں آزادی کے لئے لوگ اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں، لڑ جھگڑ اور مر رہے ہیں لیکن پاکستان کا جپنڈا ہاتھ میں اٹھائے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ میں جو قرارداد آئی تھی کہ کشمیریوں کی رائے شماری کر لی جائے تو انڈیا کو اگر 10 فیصد بھی یقین ہوتا کہ کشمیری آزادی ریاست کے لئے کریں گے تو وہ کروا دیتا، بھارت نے رائے شماری اس لئے نہیں ہونے دی کیونکہ وہ جانتا ہے کہ کشمیریوں کی اکثریت پاکستان کے ساتھ ہے۔ اگر پاکستان اپنے چار صوبے نہیں سنبھال سکتا تو یہ کرکٹرز کا کام نہیں بلکہ سیاستدانوں کا ہے۔ کرکٹر کو چاہئے کہ اپنے کام سے کام رکھیں یہاں کوئی بھی اٹھ کر افلاطون بن جاتا ہے، ہر کوئی جب سیاست میں اپنی ٹانگ اڑاتا ہےت و پھر ایسے ہی بیانات سننے میں آتے ہیں۔ اس بیان کو اتنی اہمیت دینی ہی نہیں چاہئے، شاہد آفریدی کی قابلیت کیا ہے؟ اس نے پڑھا کتنا ہے؟ چار صوبے نہ سنبھالے جانے کے شاہد آفریدی شواہد پیش کر سکتا ہے؟ وہ کون ہوتا ہے کہ کشمیریوں کے بارے ایسی بات کہے، کیا کشمیریوں نے اس کو کوئی پلیٹ فارم دیا، کیا وہ اس کو مانتے ہیں؟ عجیب قسم کا بیان دیکھا ہے پھر اس کی تردید بھی آ گئی ہے کہ میرا یہ مقصد نہیں تھا تو پھر اس کا مقصد کیا تھا؟
سینئر ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے کہا ہے کہ ہیلمٹ، سائلین اور سیف سٹی جو پچھلے 4 سال سے کام نہیں کر رہا تھا وہ اب شروع ہو گیا، یہ پٹیشن ہم نے ہی دائر کروائی تھی اور خود ہی اس کو دیکھ رہے ہیں۔ قانون سب کے لئے برابر ہے۔ کسی وکیل، سیاستدان، بیورو کریٹ یا جج کو بھی کوئی رعایت حاصل نہیں۔ اگر کوئی وکیل بھی قانون توڑتا ہے تو وہ بھی ذمہ دار ہے۔ ہیلمٹ کیس کی سماعت کل ہے، اس میں وکلا کے ہیلمٹ نہ پہننے کی بات بھی عدالت کے سامنے رکھیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فیصل آباد میں وکلا کا ڈپٹی کمشنر دفتر پر دھاوا، اس میں سمجھتا ہوں کہ علاقائی بنچوں والا معاملہ سنجیدہ ایشو بن گیا ہے، ہمارے پارلیمنٹیرینز یا باقی لوگ سمجھا نہیں پا رہے کہ وہ ہائیکورٹس ہیں جو صوبے کی عدالت ہوتی ہے۔
سینئر قانون دان خالد رانجھا نے کہا ہے کہ نوازشریف نے 342 کا بیان دیا ہے، یہ شہادت نہیں ہوتی۔ وضاحت کرنے کیلئے ان کو باقاعدہ شہادت دینا پڑے گی، اس بیان سے کوئی بات اخذ نہیں کی جا سکتی۔ اس بیان سے کیس آگے نہیں چلنا۔

گلف سٹیل، العزیز یہ ، دبئی فیکٹری کا مالک کون؟ نواز شریف نے بھید کھول دیا

اسلام آباد(این این آئی)احتساب عدالت میں العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی میں کیے گئے خطاب پر ایک مرتبہ پھر استثنیٰ مانگ لیا جبکہ سابق وزیراعظم نے عدالت کی جانب سے پوچھے گئے 50 میں سے 44 سوالات کے جواب دے دیے۔ بدھ کو اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کی تو اس موقع پر نواز شریف نے احتساب عدالت کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے تحریری جواب عدالت میں جمع کرائے۔نواز شریف کے تحریری جوابات فاضل جج نے خود پڑھے اور نواز شریف نے 44 سوالات کے جواب دئیے اور عدالت سے استدعا کی کہ دیگر سوالات کے جوابات خواجہ حارث سے مشاورت کے بعد دوں گا، اس کے لیے وقت دیا جائے۔نواز شریف نے کہا کہ کچھ سوالات پیچیدہ ہیں جن کا ریکارڈ دیکھنا پڑے گا، سابق وزیراعظم کے وکیل زبیر خالد نے عدالت سے استدعا کی کہ کیا ان کے موکل کو جانے کی اجازت ہے۔جج ارشد ملک نے کہا کہ ابھی نواز شریف کے دستخط باقی ہیں، سوالوں کے جواب ٹائپ ہونے پر دستخط کرنے تین بجے تک آجائیں، اب سپریم کورٹ کو نواز شریف کا بیان بھجوائیں گے کہ یہاں تک ریکارڈ کرلیا۔وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو سابق وزیراعظم کو بقیہ سوالات بھی دے دئیے گئے، سابق وزیراعظم سے مجموعی طور پر 151 سوالات پوچھے گئے ہیں جن میں سے نواز شریف 44 کے جوابات ریکارڈ کرا چکے ہیں۔نواز شریف نے قومی اسمبلی میں کیے گئے خطاب پر ایک مرتبہ پھر استثنیٰ مانگتے ہوئے جواب دیا کہ قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر کسی عدالت کے سامنے نہیں پیش کی جاسکتی ¾آئین کے آرٹیکل 66کے تحت قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر کو استثنیٰ حاصل ہے۔نواز شریف نے کہا کہ میں نے جو قومی اسمبلی میں تقریر کی وہ کچھ دستاویزات کی بنیاد پر کی، یہ کبھی نہیں کہا کہ گلف اسٹیل مل، العزیزیہ یا دبئی فیکٹری کا مالک ہوں، میرا گلف اسٹیل ملز کے کیے گئے معاہدوں سے کوئی تعلق نہیں رہا۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ العزیزیہ اسٹیل مل میرے والد مرحوم نے قائم کی تھی اور میرا کسی حیثیت میں بھی خاندانی کاروبار سے کوئی تعلق نہیں تھا۔یاد رہے کہ سابق وزیراعظم کے خلاف ٹرائل مکمل کرنے کے لیے فاضل جج ارشد ملک کو سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی ڈیڈ لائن 17 نومبر کو ختم ہورہی ہے۔ احتساب عدالت کی جانب سے ٹرائل کی مدت میں ساتویں بار توسیع کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کا بھی امکان ہے۔اس سے قبل سماعت کے آغاز پر سابق وزیراعظم نواز شریف کو روسٹرم پر بلایا گیا جہاں آنے کے بعد انہوں نے 342 کا بیان قلم بند کرایا، طویل سوالات کے باعث سابق وزیراعظم کے وکلا کی درخواست پر نواز شریف کے تحریری جواب جمع کرلیے گئے۔فاضل جج ارشد ملک نے پہلا سوال کیا کہ کیا یہ درست ہے کہ آپ عوامی عہدیدار رہے ہیں جس کا جواب دیتے ہوئے نواز شریف نے کہا یہ بات درست ہے کہ وزیراعظم، وزیراعلیٰ، وزیر خزانہ اور اپوزیشن لیڈر رہ چکا ہوں اور تین بار ملک کا وزیراعظم رہا ہوں۔نواز شریف نے کہا کہ 1999 سے 2013 تک عوامی عہدیدار نہیں رہا اور 2000 سے 2007 تک جلا وطن رہا اور یہ درست ہے کہ ویلتھ ٹیکس گوشوارے میں نے ہی جمع کرائے۔اس موقع پر نواز شریف کے وکلاءنے سوالنامے میں شامل کچھ سوالات پر اعتراض اٹھائے جب کہ سابق وزیراعظم نے کہا کہ کچھ سوالات گنجلگ اور افواہوں پر مبنی ہیں اور کچھ سوالات میں ابہام بھی پایا جاتا ہے۔سابق وزیر اعظم نواز شریف کے معاون وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ میاں صاحب نشست پر بیٹھ جائیں ہم جواب تحریر کرا دیتے ہیں جس پر جج ارشد ملک نے کہا کہ اگر جواب یو ایس بی میں ہیں تو جمع کرادیں۔معاون وکیل نے کہا یو ایس بی میں عدالتی سوالات کے جواب نہیں ہیں، ہارڈ کاپی ہے جس پر جج نے کہا کہ اپنے جواب کی کاپی مجھے دیں میں پڑھ لیتا ہوں جس کے بعد انہوں نے سابق وزیراعظم سے جواب کی کاپی لے لی۔

غریب نو جوانوں کو با عزت روز گار دینگے

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ملک میں اس وقت 13 کروڑ آبادی 35 سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل یوتھ پروگرام بارے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کو صحت‘ تعلیم اور روزگار فراہم کرنا اولین ترجیح ہے۔ غریب نوجوانوں کو باعزت روزگار دینگے اور غربت سے نکالنے کیلئے خصوصی توجہ دی جائیگی۔ خصوصی پورٹل بھی قائم کیا جائے گا۔ اجلاس میں چیئرمین یوتھ پروگرام عثمان ڈار‘ معاون خصوصی نعیم الحق اور پرنسپل سیکرٹری اعظم نے بھی شرکت کی علاوہ ازیں وزیراعظم عمران خان نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان مستقبل میں بزنس کے حوالے سے ایک بڑی مارکیٹ بن کر ابھرے گا۔ اسلام آباد میں پہلی چائنہ ایکسپو کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اقتصادی راہداری منصوبہ مستقبل میں بزنس کی نئی جہت کو فروغ دیگا اور وہ دنیا بھر میں انوسمینٹ کی لحاظ سے ایک منافع بخش منصوبہ بنے گا۔اپنے خطاب میں انہوں نے پاکستان میں پہلی چائنہ ایکسپو کے انعقاد پر چینی صدر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایکسپو پاکستان اور چین کے درمیان تاریخی تعلقات کا ایک مظہر ہے۔اس سے قبل چین کے ذرائع ابلاغ نے پاکستان کی معیشت کی بحالی کے لئے وزیراعظم عمران خان کی غربت کے خاتمے کی مہم کے تصور کو سراہاہے۔سعودی عرب کے سفیر نواف المالکی نے اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی۔ ملاقات میں باہم دلچسپی کے دوطرفہ امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

امریکیوں نے عافیہ سے کہا عیسائی بن جاﺅ کل ہی چھوڑ دینگے، عافیہ کوبتایا گیا ہے کہ تمہاری ماں مرچکی حالانکہ وہ زندہ ہیں : فوزیہ صدیقی کی چینل ۵ کے پروگرام نیوزایٹ7میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے پروگرام نیوز ایٹ سیون میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہا ہے کہ ہر لمحہ دعا ہے اور ہر ملاقات میں یہ بات ہو رہی ہے کہ عافیہ صدیقی آرہی ہیں، چلو انہیں لینے جائیں۔ اسی امید پر 5ہزار 7سو دن گزارچکی ہوں۔ وزیراعظم عمران خان سے پوچھنا چاہئے کہ خط کے جواب میںانکا دل کیا چاہتا ہے۔اس خطے میں ہماری تاریخ کا وجود ایک بیٹی کے وقت کے حاکم کو خط سے ہے۔جس پر اس حاکم نے لبیک کہا اور دنیا کی تاریخ اور جغرافیہ بدل دیا۔ ڈاکٹر عافیہ کے معاملے میں صرف ڈپلومیسی کا سوال ہے۔ اس خط سے عمران خان ایک تاریخی کٹہرے میں کھڑے ہوگئے کہ کیا وہ اس تاریخ کو دہرا سکتے ہیں اورایک محمد بن قاسم ثانی بن کر سامنے آئیں گے ۔میں سمجھتی ہوں کہ عمران خان اپنے وعدے کا پاس رکھنے والے آدمی ہیں۔ جب ایک آمر کی حکومت تھی اور کوئی بھی اس طرح کا کیس لیتے ہوئے ڈرتا تھا۔ عمران خان نے اس وقت یہ معاملہ اٹھایا، میری ہمت بندھائی اور مجھے سامنے لاکر ہر جلسے میں اپنے ساتھ کھڑا کیا۔ یہ کیس انکے دل کے بہت قریب ہے وہ سمجھتے اور جانتے ہیں ۔ یہ معاملہ وہ شروع سے دیکھ رہے ہیں اور عافیہ کی معصومیت کو محسوس کرتے ہیں۔ وزیرخارجہ سے ملاقات میں ڈاکٹر عافیہ کی واپسی کی باتیں زیادہ ہوئیں، سیاسی نہیں ہوئیں۔ انہوں نے خط پہنچایا یا نہیں، یہ میرے علم میں نہیں۔ وزیر خارجہ نے مجھے مختلف آپشنز بتائے کہ عافیہ کی رہائی کے لیے ہم یہ کچھ کر سکتے ہیں۔اس پر انکی قانونی ٹیم معاملہ دیکھے گی اور ممکنہ راستہ پر مجھے آگاہ کرے گی۔25یا 26کو میری اسلام آباد واپسی ہے اور مجھے امید ہے کہ اس دفعہ مجھے کچھ تحریری ملے گا اور معاملہ شئیر کیا جائے گا۔ ابھی تک مجھے کوئی دستاویزات نہیں دی گئیں کہ جس سے کاروائی کا اندازہ ہوسکے۔ڈاکٹر عافیہ سے آخری بار 3سال پہلے بات ہوئی ، اس سے قبل باقاعدگی سے بات ہوا کرتی تھی۔ میڈیا میں کیس اٹھانے یا پریس کانفرنس میں عافیہ کے حوالے سے کچھ دکھانے اے ایک رات قبل مجھے عافیہ کا فون آجاتا تھا ، میری ضرور بات ہوتی تھی۔ مجھے اندازہ یہ ہوا کہ مجھ سے ایک سوال ضرور کیا جائے گا کہ آپکی بہن سے بات کب ہوئی ۔ اگر 6مہینے سے نہیں ہوئی تو میں کہوں گی کہ نہیں ہوئی اور ایک دن پہلے فون آنے پر یہی کہوں گی کہ ابھی کل ہی بات ہوئی ہے ۔ تو مجھے کہا جائے گا کہ تم اتنا کیوں رو رہی ہو۔عافیہ سے جب بات ہوتی تو لگتا کہ امتحان عافیہ پر نہیں مجھ پر ہے۔ عافیہ مجھے زندان سے تسلی دے رہی ہوتی تھی، کہتی تھی کہ اللہ اچھا کرے گا، وہ مجھے نبی کریم کی باتیں انکی محبت مجھے بتاتی تھی۔ یہ بھی بتاتی تھی کہ وہ کس طرح اسکو تسلی دیتے ہیں۔ وہ کہتی تھی کہ آپ دعا کریں میں ضرور رہاہوں گی۔ میں رو پڑتی تھی اور وہ مجھے ہمت دیتی تھی۔ میں اس سے حال پوچھتی تھی اور وہ کہتی تھی، مت پوچھیں مجھ سے ، کہ قبر کا حال مردہ ہی جانتا ہے۔ اس کے اس جملے سے اندازہ ہو جاتا تھا۔ مئی 2018ءمیں قونصل جنرل عائشہ فاروقی نے عافیہ سے ملاقات کی ، انکی جمع کرائی گئی رپورٹ مجھے سپریم کورٹ سے ملی۔ ہماری اپنی قونصل جنرل کی اس رپورٹ میں جن اندوہناک مظالم کا ذکر کیا گیا ہے اگر کوئی بھی شخص وہ پڑھتا اور اگر کسی نے پڑھی ہے تو کوئی پڑھنے کے بعد بھی کیسے خاموش رہ سکتا ہے۔ یہ رپورٹ ہمارے دفتر خارجہ اور سپریم کورٹ میں پڑی ہے۔ اسمیں سب سے زیادہ افسوسناک یہ کہ عافیہ سے کہا جاتا ہے کہ تمہارا تو کوئی قصور ہی نہیں ہے ، مسئلہ تو تمہارے مذہب کا ہے۔ تم عیسائی ہو جاﺅ ہم کل ہی تمہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ ڈاکٹر فوزیہ نے بتایہ کہ وہاں سے فون کال سخت پہروں میں گارڈز کی موجودگی میں ہوتی ہے اور قونصلر کا دورہ پرائیویٹ ہوتا ہے۔اسمیں ریکارڈنگز بھی ہوتی ہیں۔ عافیہ اگرانکی ایک بھی شکایت کرے گی تو وہ کہہ دیں گے کہ اب تم سے بات نہیں کرواتے۔ اب عافیہ سے بات نہ کروانے کی وہ جو وجوہات بتاتے ہیں وہ میری سمجھ میں نہیں آتیں ۔ میں صرف یہ کہتی ہوں کہ میں اسے اپنے کانوں سے سن لوں یا ویڈیو کال پر دیکھ لوں ۔قونصل جنرل نے کہا کہ عافیہ نے کہا ہے کہ میری ماں تو مر گئی ہے ، یہ لوگ فون پر میری پتا نہیں کس سے بات کرواتے ہیں۔ عافیہ کو غلط اطلاع دی گئی ہے کہ اسکی ماں مر گئی ہے۔اس سے بات کروائیں تو ہم اسے بتائیں کہ ماں زندہ ہے، ویڈیو کال کروادیں کہ وہ ماں کو دیکھ لے۔ جیل مینول میں ویڈیو کال کی اجازت ہے۔ جنیوا کنونشن کے مطابق بہت ساری رعایتیں عافیہ کو ملنی چاہئیں اور وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ وہ قونصل جنرل سے خود بات کریں گے۔ امریکن پراسیکیوشن کی وکیل نے عافیہ سے ملاقات کے بعد اپنے بیان میں بتایا تھا کہ عافیہ ایک چھوٹے اینٹوں کے بنے سیل میں قید ہے جسکی تنیوں اطراف میں صرف دیواریں ہیں اور کوئی روشن دان نہیں ہے۔ آگے ایک دروازہ ہے ،زمین پر بھی ایک سٹیل کی ٹوائلٹ سیٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ایک چھوٹے سے روشن دان میں سے انہیں کھانا دیا جاتاہے۔ دن کے 24گھنٹوں میں سے 23 گھنٹے وہ اس سیل میں قید رہتی ہے اور ایک گھنٹہ اسے ٹانگیں سیدھی کرنے یا فون وغیرہ کے لیے نکالتے ہیں۔ اگر وہ فون کی لائن کاٹ دیں اور وہ پورا ایک گھنٹہ ملاتی رہے، یہ کیسی اذیت ہے۔ عافیہ کے دو بچے ہمارے پاس بازیاب ہوئے ، ایک 5سال اور ایک 6سال کے بعداور تیسرا بچہ ابھی تک لاپتہ ہے۔ اسکے بارے میں بہت ساری افواہیں ہیں۔ عافیہ ہمیشہ بچوں کو پوچھتی تھی اور رو دیتی تھی۔ بچوں کی آواز سن کر وہ ٹوٹ جاتی تھی۔ ہم اسے بچوں کے بارے میں سب بتاتے تھے مگر جب بچوں کا کئیریر منتخب کرنے کا وقت آیا تو عافیہ سے بات ہی نہیں ہوتی تھی۔ عافیہ کہتی تھی کہ انکا بڑا بیٹا احمد جس فیلڈ میں دلچسپی لیتا ہے اسے وہی کرنے دیا جائے زبردستی ڈاکٹر مت بنایا جائے۔ میں نے اسے پری انجینئرنگ میں داخل کروایا مگر اس نے اسے چھوڑ کر میڈیکل میں داخلہ لیاہے۔عافیہ کی پاکستانی عوام سے امید بہت زیادہ نہیں تھی۔ قونصل جنرل کی رپورٹ میں بھی عافیہ نے کہا ہے کہ اسے اپنے اللہ اور پاکستان کے عوام پر یقین ہے۔ ہماری عوام پر بڑی ذمہ داری ہے ۔ عوام نے ہمیشہ عافیہ کے لیے لبیک کہا ہے ، دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ہیں اور ہمیشہ اسے اپنی بیٹی تسلیم کیا ہے۔ جس طرح عافیہ کا اپنے بچوں کی آواز سن کر دل بھر آتا تھا اسی طرح ہماری والدہ کا دل عافیہ کی آواز سے بھر آتا تھا۔ کوئی شخص مر جائے تو صبر آجاتا ہے ، زندگی چلتی رہتی ہے۔ مگر اس قسم کی کیفیت میں روز جیتے ، روز مرتے ہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ عافیہ کو رہائی مل جائے۔ وہ آجائے اپنے بچوں کو دیکھ لے ، اسکی ممتا ٹھنڈی ہوجائے اور میری ماں کی بھی۔والدہ بہت علیل اور کمزور ہوگئی ہیں ۔والدہ ہم سب کو عافیہ کہہ کر پکارتی ہیں ۔ میری بیٹی کا نام عائشہ ہے وہ اسے عافیہ کہتی ہیں ، عافیہ کی بیٹی مریم کوکہتی ہیں عافیہ پانی دیدو۔ ڈاکٹر عافیہ کی گمشدگی کا 2003ءمیں پتا چلا ،میں امریکا میں تھی کہ والدہ کا فون آیا کہ ایسا ہوا ہے۔ انہوں نے حکومتی اداروں کو فون کیا اور کہاگیا کہ خاموش رہیں ، کسی نے اغوا کیا ہے ، تاوان ہوگا۔ کچھ عرصہ یوں گزرا اور فوکس نیوز ، این بی سی پر خبر آگئی کہ عافیہ کو حوالے کیا گیا ہے اور پھر اسکی تردید ہوئی۔ یہ طویل داستان ہے۔ عافیہ کی امریکی شہریت کے حوالے سے بات بالکل درست نہیں وہ پاکستانی شہری ہیں۔ عافیہ کے خط کا پہلا جملہ یہ ہے کہ میری یہاں پر قید غیر قانونی اور غلط ہے ۔ اسکی بنیادیہ ہے کہ عافیہ پاکستانی شہری تھی، اگر انہوں نے مقدمہ چلایا بھی تو جرم امریکا میں تو نہیں ہوا تھا ۔ عافیہ امریکا میں تو نہیں تھی۔ عافیہ نے ان لوگوں سے اپنے وزن سے بھاری گن بھی چھین لی، فنگر پرنٹ بھی لگا لیے اور اوپن فائر بھی کردیا ، کسی کو گولی نہیں لگی، یہ سب کچھ بھی ہوا توعالمی قانون کے حساب سے مقدمہ چلانا تھا تو افغانستان یا پاکستان میں۔ ایک پاکستانی شہری پاکستان کو اطلاع دئیے بغیر امریکا کیسے گئی۔ یہ حوالگی کا معاملہ ہے اور عالمی قوانین میں غیر قانونی ہے ۔ کوئی بھی شخص ایسے جاتا ہے تو اس پر مقدمہ نہیں چل سکتا۔عافیہ کا رہا نہ ہوناافسوسناک اور حکومت پاکستان کی کمزوری ہے۔ اسی وجہ سے ہم اس وقت ہم انتہائی برے معاشی بحران میں ہیں۔ قومیں عوام سے بنتی ہیں، جب تک اپنے شہریوں کی قدر نہیں کریں گے اور انکے لیے جرات مندانہ قدم نہیں اٹھائیں گے، آپکے ملک میں کون سرمایہ کاری کرنا چاہے گا؟ہماری فیملی کا مذہبی اور ماڈرن تعلیمی پس منظر ہے۔ ہم ایک تعلیمی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ، سیاسی نہیں ہیں۔ اپنی محنت سے پڑھے لکھے ہیں، میرے والد بھی ڈاکٹر تھے اپنی تعلیمی قابلیت سے ہی اپنا گزارہ کرتے ہیں۔ عافیہ کا خواب بھی پاکستان میں تعلیمی انقلاب کا تھا۔ وہ کہتی تھی کہ پاکستان کے سارے مسائل کا حل اسکے تعلیمی کو درست کرنے سے ہے۔ عافیہ نے امریکا آنیوالے بوسنیا کے ریفیوجیز کے لیے کافی کام کیا ، کشمیر کی عوام کے لیے بھی کام کیا ۔ جب بھی کبھی وہ کسی مظلوم کی آواز سنتیں وہ اسکے لیے ضرور کھڑی ہوتی تھیں۔چاہے وہ انہیں جانتا بھی نہ ہو۔ میں اس سے کہتی بھی تھی کہ اس سب کا تمہیں کیا فائدہ ہے۔ وہ کہتی تھی کہ یہ پیٹیشنز ، یہ سارے نمبر ہوتے ہیں ، ایک میرا بھی ہوگا۔ ان مظلوموں میں سے ایک بھی معصوم تھا اور اس ایک کی دادرسی ہوجاتی ہے تو میرا نمبر کتنا اچھا ہوگا۔ عافیہ 2002ءمیں پاکستان آئی ، اپنے کچھ کاغذات کے لیے وہ دوبارہ گئی ۔اسکے بعد میرے علم کے مطابق دوبارہ امریکا نہیں گئی۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ٹرائل میں فیملی کو شامل نہیں کیا گیاتاہم عافیہ کے سابق شوہر کے بارے علم نہیں۔ ہم وکلاءسے بات کرتے تھے تو وہ کہتے تھے ہم آپ سے معلومات شئیر نہیں کر سکتے۔ آپ ہمارے کلائنٹ نہیں ہیں۔ عافیہ کہتی تھی کہ آپ میرے وکلاءنہیں ہیں کیونکہ میں اپنے پسند کے وکیل کرنا چاہتی ہوں۔ عافیہ پر چلنے والا کیس مس ٹرائل تھا۔ مدعی کو اسکی مرضی کے وکیل تک نہیں دئیے گئے۔ میں نے حکومت پاکستان کو کیس عالمی عدالت میں لیجانے سمیت سب کچھ کہا ہے اور کہتی رہتی ہوں۔ میں نے ہمیشہ تحریری طورپر کہا ، میری الماریاں یاداشتوں سے بھری پڑی ہیں۔ حکومت کی جانب سے وعدے اور ملاقاتیں ہوئیںمگر عملدرآمد ہوتا تو عافیہ بہت پہلے رہا ہو کر پاکستان آچکی ہوتی کیونکہ اس پر مقدمہ ہی نہیں چلتا۔ حکومت پاکستان کی کوتاہی بڑی وجہ ہے لیکن میں پر امید ہوں۔ عافیہ نے مجھے اسلام کا نیا رنگ اسکے اصل کے مطابق دکھایا۔میری عافیہ سے گفتگو میں وہ مجھے نعتیں سناتی تھی جو اس نے نبی کریم کو لکھیں ۔ جنکے بعد اسے زیارت رسول کریم بھی ہوئی ۔ وہ حمد سناتی تھی ، ہم عام باتیں ہی کرتے تھے کیونکہ سب ریکارڈ ہوتا تھا۔ ہمارے لیے بہت تکلیف دہ تھا کبھی امی پوچھتی تھیں کہ بیٹا تم نے کچھ کھایا ہے ۔ نماز کے حوالے سے وہ کہتی تھی کہ یہاں مشکل ہوتی ہے ، غلاظت ڈال دی جاتی ہے۔ کھانے میں زہریلی اشیا، ادویات کے طور پر تجربات کیے جاتے ہیں۔ قونصل جنرل کو یہ سب چیزیں اس نے کھل کر بتائی ہیں کیونکہ وہ ریکارڈ نہیں ہوتا۔ قونصل جنرل کی رپورٹ میں اسکی اصل باتیں ہیں۔ اسمیں لکھا گیا ہے کہ روزہ کی حالت میں بھی اسکے لیے مسئلہ کیا جاتاہے، زمین پر نماز پڑھنے جاتی ہے تو گندگی پھینک دی جاتی ہے۔وہ رپورٹ دیکھنی چاہئے۔ عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے مہم تیز کی ہے ، عمران خان کی حکومت سے بہت توقعات ہیں ۔ جن سے توقعات زیادہ ہوتی ہیں ان سے شکوہ بھی ہوتا ہے۔ عمران خان برا نہ منائیں ، یہ توقعات انہی کی امیدوں سے ہیں۔ امید ہے ایک دو ہفتے میں اچھی خبر سنیں گے۔ اللہ پر یقین ہے کہ عافیہ کو لیکر آنا ہے ، دیکھنا ہے کہ وہ عظیم انسان کون ہوگا جسے اللہ رہائی کاذریعہ بنانے کے لیے چنتا ہے۔ بطور پاکستانی شہری یہ میرا فرض نہیں ہے کہ حکومت کو بتاﺅں کہ عافیہ کی رہائی کے لیے کیا اور کیسے کرنا ہے۔ دینی ،اخلاقی اور قومی فرض بنتا ہے کہ عافیہ کو رہائی دلوائی جائے۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ وہ قوم کی بیٹی ہے تو ایک بیٹی کا قوم پر کیا حق بنتا ہے۔ عافیہ کو لانے کے لیے امید کرتی ہوں کہ ایسا طریقہ کار طے کیا جائے گا کہ عافیہ عزت و عافیت سے آئے گی اور پاکستان کا وقار بلند ہوگا۔ میں نہیں جانتی کہ شکیل آفریدی کون ہے، اسکے بدلے رہائی کی بات کرنا میری پوزیشن نہیں ہے۔ یہ بھی آپشن ہے کہ عافیہ اپنی باقی سزا پاکستان آکر پوری کریں۔ بہت سارے اسکو دو، اسکو لو، ریمنڈ ڈیوس کو دیا اور اسکے بدلے کیا کچھ لیا ، کس کو دیا۔ برگیڈئیر باغ تال کو دیا، چار طالبان کو رہا کرایا، اتنے طالبان کو رہا کرایا۔ ان لوگوں کو رہاکرایاجو نہ قاتل ہیں اور نہ دہشتگرد۔ عام معافی دی گئی ہے۔ امریکی صدر اوباما نے ایسے لوگوں کو عام معافی دی ہے، جنہیں وہ خود دہشتگرد کہتے ہیں۔ بھارت نے ڈیل کی اور اپنی خاتون سفارتکار کو لیا۔ حکومتوں کیساتھ ایسی ڈیل چلتی ہے۔ اللہ نے چاہا تو پاکستان بھی کرے گا۔ نئی حکومت ہے ، نیاچاند سورج، نیا پاکستان ہے۔ روز جیتی ہوں روز مرتی ہوں ، اچھی امید ہی کروں گی۔عافیہ صدیقی کی اپنے تیسرے بچے کے حوالے سے گفتگو کے سوال پر ڈاکٹر فوزیہ نے کہا کہ شروع میں جب عافیہ کا بیان آیا تھا اورانہوں نے پاکستانی سینیٹرز کو بھی بتا یا تھا کہ جب اسکو اغوا کیا جارہا تھاتو بچہ خون کے تالاب میں تھا، اسکے ہاتھ سے چھینا گیا اور نیچے گر گیا تھا۔ اس نے بے ہوش ہونے سے پہلے اسے خون کے تالاب میں دیکھا۔ انکے دونوں بچے ڈاکٹر بننا چاہ رہے ہیں انکی بیٹی کو گولڈ میڈل ملا ہے اور وہ پری میڈیکل میں گئی ہے۔ انکا بیٹا شاید مجھ سے متاثر ہو کر ایم بی بی ایس ڈاکٹر بن رہاہے۔ عافیہ کے بارے خبریں آنے پر بچوں نے پہلی مرتبہ پوچھا کہ بتائیں کیا ہو رہاہے۔احمد نے کہا کہ میں بہت چاہتا ہوں کہ میں ملوں لیکن یہ سمجھ نہیں آتا کہ انہیں اس حال میں زنجیروں میں دیکھ کر برداشت کرسکوں گا؟میں جب بند تھا تو میں کہتا تھا کہ ہر ظلم مجھ پر کر لو ، کاٹ دو لیکن اپنی ماں کی گود میں تو بیٹھنے دو۔میں ماں کو یاد کرتا تھا، ظلم کو یاد نہیں کرتا تھا۔ ڈاکٹر فوزیہ کا کہنا تھا کہ بچوں کو انکی ماں سے الگ کرنے سے بڑا ظلم کوئی نہیں۔ عافیہ کے لیے سب کردار ادا کر رہے ہیں ۔ اگر اس کردار کا مقصد عافیہ کی رہائی تھا تو وہ مقصد حاصل نہیں ہوا ۔ اگر مقصد کوئی اور تھا جو حاصل کر کے مختلف ہومن رائیٹس تنظیموں کی جانب سے خاموشی اختیار کی گئی ہے تووہ سامنے ہے،وقت بتاتاہے۔ میرا اطمینان عافیہ کا پاکستان میں ہونا اور اپنی ماں سے گلے ملنا ہے۔ عافیہ کے طالبان اور القاعدہ سے بالکل کوئی تعلقات نہیں ، اگر انکے پاس ایک بھی ثبوت ہوتا تو سب سے پہلے دہشتگردی کا چارج لگاتے اور ساراڈرامہ کر کے اپنی جگ ہنسائی نہیں کرتے۔ عافیہ کے اب تک رہا نہ ہونے کے ذمہ داروں یا حکومت کے حوالے سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی۔ عافیہ آجائے اور اس حکومت کے ذریعے ہو تو حکومت کا شکریہ ادا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے معاملات سے بچوں پر سائیکالوجیکل ایفیکٹ ہوتا ہے۔ عافیہ کے بچے میرے بچے ہیں اور نارمل ہورہے ہیں۔ عافیہ کا کمرہ انکی بیٹی مریم استعمال کرتی ہے۔ عافیہ سب سے چھوٹی اور لاڈلی ہونے کیساتھ غیرمعمولی صلاحیتوں کی حامل تھی۔ عافیہ کو بچوںاور بزرگوں سے بے حد لگاﺅ تھا۔ وہ تعلیمی نظام سے ناخوش تھی کہ رٹا لگانا پڑتا ہے۔ ایسا تعلیمی نظام چاہتی تھی جس سے بچے لطف اندوز ہوں۔ عافیہ ابو کی بیٹی تھی ، وہ انتقال کر گئے ورنہ شاید وہ برداشت نہ کر پاتے۔ عافیہ کیساتھ میری بہت قربت تھی۔ عافیہ بچوں کی تعلیم کے حوالے سے بہت اونچے خواب دیکھتی تھی۔ امریکا جانے سے پہلے ہی وہ واپس آکرپاکستانی بچوں کی تعلیم کے شعبے میں کام کرنا چاہتی تھیں۔ اس لیے انہوں نے امریکا میں نہ گرین کارڈ لیا اور نہ شہریت لی۔ عافیہ کے یہ الفاظ مجھے رلاتے ہیں کہ جب اس نے حال پوچھنے پر کہا تھا کہ قبر کا حال مردہ ہی جانتا ہے۔ عافیہ نے مجھے ایک نظم سنائی تھی جسمیں مسلمانوں کو پکارا تھا اور کہا تھا کہ یہاں مومنائیں مرتی ہیں، یہاں عزتیں لٹتی ہیں، تم مست ہو اپنی بہاروں میں ، یہاں مسیحا بھی قاتل ہے، ہم ظلم سہتے ہیں اور آخر میں یہ کہا کہ پوچھے گا جب اللہ تم سے ، تم سوچ لو کیا کہناہے۔ میں یہ سوچ کر راتوں کو اٹھ جاتی ہوں۔ عافیہ کے دو بچے مجھے امی ہی کہتے ہیں۔ عافیہ کے بچے مجھے ملنا معجزہ ہے۔ عافیہ سے فون پر آخری گفتگو پر ڈاکٹر فوزیہ نے کہا کہ عافیہ کی آواز نحیف محسوس ہوئی مگر آواز اسی کی تھی۔

پی ٹی آئی کی حکومت کا اگر زوال ہوا تووجہ بیوروکریسی ہو گی، چیئرمین نیب نیک نیتی سے کرپشن کو جڑ سے پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں ، کوئی ڈی جی نہیں بلکہ نیب کا ترجمان آ کر ادارہ کی کارکردگی بتائے ، ایڈیٹر ” خبریں “ سی ای او چینل ۵ امتنان شاہد کی مبشر لقمان کے پروگرام ”کھرا سچ“ میں ” کھری گفتگو “

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) ایڈیٹر خبریں گروپ و سی ای او چینل ۵ امتنان شاہد نے مبشر لقمان کے پروگرام ”کھرا سچ“ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے پچھلے 30 سالہ سیاسی دور میں تو کسی طاقتور کے احتساب کا تصور ہی نہیں تھا، پہلی بار احتساب کا نعرہ لگا کہ ایک تیسری قوت ابھری عوام نے اسے منتخب کیا تو احتساب ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس سے قبل تو پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے اقتدار میں آنے کی باریاں لگا رکھی تھیں۔ احتساب ان سیاسی جماعتوںکا ہو رہا ہے جو پچھلی کئی دہائیوں سے کسی نہ کسی صورت اقتدار میں رہیں اور انہی کا احتساب ہونا بھی چاہئے اس وقت ساری اپوزیشن ایک پیج پر ہے ان کا موقف ہے کہ حکومت اور نیب مل کر ان کے خلاف یکطرفہ کارروائیاں کر رہے ہیں۔ میرے نزدیک حکومت ابھی تک ان کے خلاف ناکام نظر آتی ہے حالانکہ دونوں پارٹیوں پی پی ن لیگ کے خلاف تمام کسیز انہی کے اپنے ادوار میں بنائے گئے وکلا گردی آنے والے دنوں میں مزید بڑھے گی۔ پاکستان لیگل پریکٹیشنرز اینڈ بار کونسلز کے 73 کے ضابطہ اخلاق میں واضح لکھا ہے کہ وکلا کسی عدالت میں مجمع لگا کر پیش نہیں ہوں گے جبکہ ہمارے یہاں روایت بن چکی ہے کہ ملزم اپنے ساتھ بار کونسل کے صدر اور آٹھ دس ارکان لے کر پیش ہوتا ہے جس کا مقصد صرف عدالت پر دباﺅ اور مرضی کا فیصلہ لینا ہوتا ہے۔ فیصل آباد میں وکلا گردی تو صرف ایک ٹریلر ہے ایک بڑی سیاسی جماعت کا وکلا گروپ متحرک ہو چکا ہے۔ یہ گروپ عدالتوں میں اس طرح اکٹھا ہو کر جائے گا خدشہ ہے کہ فیصل آباد واقعہ سے بھی کوئی بڑا واقعہ پیش آ سکتا ہے۔ چیف جسٹس لاہوہر برانچ میں آئے تو باہر وکلا اکٹھے ہو گئے جس پر چیف جسٹس کو خود باہر آنا پڑا۔ ہمارے وکیل حضرات تو مختلف ٹی وی چینلز پر اینکر پرسن بنے نظر آتے اور اخلاقیات پر بھاشن دیتے بھی سنائی دیتے ہیں۔ بڑے لوگ جیل جائیں تو کمر درد، کینسر و دیگر موذی امراض فوری نکل آتے ہیں۔ جیلوں میں ان کو غیر معمولی سہولتیں حاصل ہوتی ہیں۔ ڈی جی نیب لاہور کو تو خوامخوا ہی تل دیا گیا۔ ورنہ نیب کا ترجمان کسی کیس میں وضاحت یا دفاع تو کر سکتا ہے۔ ڈی جی نیب نے بتایا کہ جس گواہ کو دوبارہ بلاتے ہیں وہ غائب ہو جاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ کوئی طاقت تو ہے جو اثر انداز ہو رہی ہے۔ حکومت سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اس سے غلطیاں بھی ہو رہی ہیں تاہم ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ تمام اداروں میں پچھلے 30 سال میں بھرتیاں کس نے کیں اور جن لوگوں کو میرٹ سے ہٹ کر بھرتی کیا گیا وہ کسی ایسی حکومتکا ساتھ کیوں دیں گے جو سٹیٹس کو توڑنا چاہتی ہے۔ بیورو کریسی اس وقت حکومت کے بالکل الٹ کام کر رہی ہے اور یہی چیز حکومت کے زوال کا باعث بھی بن سکتی ہے حکومت کو بیورو کریسی پر گرفت مضبوط کرنا ہو گی۔ موجودہ وقت میں صرف چیئرمین نیب واحد شخصیت ہیں جو تندہی سے اپنے کام میں مصروف ہیں اور بوسیدہ نظام کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حکومت کو کریڈٹ دینا چاہئے کی پہلی بار وزراءبھی نیب اور جے آئی ٹیز کے سامنے پیش ہو رہے ہیں۔ ماضی میں تو ایک ایم این اے کا بھی اس طرح پیش ہونے کا تصور نہ تھا۔ علیم خان پیش ہوئے، بابر اعوان مستعفی ہو گئے، اعظم سواری پیش ہو رہے ہیں۔ بیورو کریسی میں سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈاکٹر اعجاز منیر نے سپریم کورٹ میں کھڑے ہو کر کہہ دیا کہ وزیراعظم کے زبانی حکم پر آئی جی کو تبدیل کیا گیا ایسا تصور کیا جا سکتا تھا۔ اگر اس معاملہ کی ہی تحقیق ہوتی تو وزیراعظم کو اتھارٹی کے غلط استعمال پر نااہل قرار دیا جا سکتا تھا۔ حکومت کی بیورو کریسی پر گرفت خاصی کمزور ہے جسے مضبوط ہونا چاہئے نیب ترجمان کو مختلف بڑے کیسز بارے عوام کو بریفنگ کی اجازت ہونی چاہئے کہ یہ عوام کا حق ہے وہ جانے کہ نیب کیا کر رہا ہے۔

پی ٹی آئی کی حکومت کا اگر زوال ہوا تووجہ بیوروکریسی ہو گی چیئرمین نیب نیک نیتی سے کرپشن کو جڑ سے پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں امتنان شاہد کی مبشر لقمان کے پروگرام ”کھرا سچ“ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) ایڈیٹر خبریں گروپ و سی ای او چینل ۵ امتنان شاہد نے مبشر لقمان کے پروگرام ”کھرا سچ“ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے پچھلے 30 سالہ سیاسی دور میں تو کسی طاقتور کے احتساب کا تصور ہی نہیں تھا، پہلی بار احتساب کا نعرہ لگا کہ ایک تیسری قوت ابھری عوام نے اسے منتخب کیا تو احتساب ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس سے قبل تو پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے اقتدار میں آنے کی باریاں لگا رکھی تھیں۔ احتساب ان سیاسی جماعتوںکا ہو رہا ہے جو پچھلی کئی دہائیوں سے کسی نہ کسی صورت اقتدار میں رہیں اور انہی کا احتساب ہونا بھی چاہئے اس وقت ساری اپوزیشن ایک پیج پر ہے ان کا موقف ہے کہ حکومت اور نیب مل کر ان کے خلاف یکطرفہ کارروائیاں کر رہے ہیں۔ میرے نزدیک حکومت ابھی تک ان کے خلاف ناکام نظر آتی ہے حالانکہ دونوں پارٹیوں پی پی ن لیگ کے خلاف تمام کسیز انہی کے اپنے ادوار میں بنائے گئے وکلا گردی آنے والے دنوں میں مزید بڑھے گی۔ پاکستان لیگل پریکٹیشنرز اینڈ بار کونسلز کے 73 کے ضابطہ اخلاق میں واضح لکھا ہے کہ وکلا کسی عدالت میں مجمع لگا کر پیش نہیں ہوں گے جبکہ ہمارے یہاں روایت بن چکی ہے کہ ملزم اپنے ساتھ بار کونسل کے صدر اور آٹھ دس ارکان لے کر پیش ہوتا ہے جس کا مقصد صرف عدالت پر دباﺅ اور مرضی کا فیصلہ لینا ہوتا ہے۔ فیصل آباد میں وکلا گردی تو صرف ایک ٹریلر ہے ایک بڑی سیاسی جماعت کا وکلا گروپ متحرک ہو چکا ہے۔ یہ گروپ عدالتوں میں اس طرح اکٹھا ہو کر جائے گا خدشہ ہے کہ فیصل آباد واقعہ سے بھی کوئی بڑا واقعہ پیش آ سکتا ہے۔ چیف جسٹس لاہوہر برانچ میں آئے تو باہر وکلا اکٹھے ہو گئے جس پر چیف جسٹس کو خود باہر آنا پڑا۔ ہمارے وکیل حضرات تو مختلف ٹی وی چینلز پر اینکر پرسن بنے نظر آتے اور اخلاقیات پر بھاشن دیتے بھی سنائی دیتے ہیں۔ بڑے لوگ جیل جائیں تو کمر درد، کینسر و دیگر موذی امراض فوری نکل آتے ہیں۔ جیلوں میں ان کو غیر معمولی سہولتیں حاصل ہوتی ہیں۔ ڈی جی نیب لاہور کو تو خوامخوا ہی تل دیا گیا۔ ورنہ نیب کا ترجمان کسی کیس میں وضاحت یا دفاع تو کر سکتا ہے۔ ڈی جی نیب نے بتایا کہ جس گواہ کو دوبارہ بلاتے ہیں وہ غائب ہو جاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ کوئی طاقت تو ہے جو اثر انداز ہو رہی ہے۔ حکومت سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اس سے غلطیاں بھی ہو رہی ہیں تاہم ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ تمام اداروں میں پچھلے 30 سال میں بھرتیاں کس نے کیں اور جن لوگوں کو میرٹ سے ہٹ کر بھرتی کیا گیا وہ کسی ایسی حکومتکا ساتھ کیوں دیں گے جو سٹیٹس کو توڑنا چاہتی ہے۔ بیورو کریسی اس وقت حکومت کے بالکل الٹ کام کر رہی ہے اور یہی چیز حکومت کے زوال کا باعث بھی بن سکتی ہے حکومت کو بیورو کریسی پر گرفت مضبوط کرنا ہو گی۔ موجودہ وقت میں صرف چیئرمین نیب واحد شخصیت ہیں جو تندہی سے اپنے کام میں مصروف ہیں اور بوسیدہ نظام کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حکومت کو کریڈٹ دینا چاہئے کی پہلی بار وزراءبھی نیب اور جے آئی ٹیز کے سامنے پیش ہو رہے ہیں۔ ماضی میں تو ایک ایم این اے کا بھی اس طرح پیش ہونے کا تصور نہ تھا۔ علیم خان پیش ہوئے، بابر اعوان مستعفی ہو گئے، اعظم سواری پیش ہو رہے ہیں۔ بیورو کریسی میں سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈاکٹر اعجاز منیر نے سپریم کورٹ میں کھڑے ہو کر کہہ دیا کہ وزیراعظم کے زبانی حکم پر آئی جی کو تبدیل کیا گیا ایسا تصور کیا جا سکتا تھا۔ اگر اس معاملہ کی ہی تحقیق ہوتی تو وزیراعظم کو اتھارٹی کے غلط استعمال پر نااہل قرار دیا جا سکتا تھا۔ حکومت کی بیورو کریسی پر گرفت خاصی کمزور ہے جسے مضبوط ہونا چاہئے نیب ترجمان کو مختلف بڑے کیسز بارے عوام کو بریفنگ کی اجازت ہونی چاہئے کہ یہ عوام کا حق ہے وہ جانے کہ نیب کیا کر رہا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی دیوالی پر ٹوئیٹ، ہندوؤں کا تذکرہ کرنا ہی بھول گئے

نیویارک (ویب ڈیسک)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اکثر و بیشتر کسی نہ کسی وجہ سے خبروں کی زینت بنے رہتے ہیں، حال ہی میں ہندوو¿ں کے مذہبی تہوار ‘دیوالی’ پر انہوں نے ٹوئیٹ کی، جس میں انہوں نے کئی مذاہب کا ذکر کیا، لیکن ہندوو¿ں کا تذکرہ کرنا بھول گئے۔ٹرمپ نے اپنے پیغام میں لکھا، ‘آج ہم دیوالی منانے کے لیے جمع ہوئے، جو امریکا اور پوری دنیا میں بدھ متوں، سکھوں اور جین مذہب کے ماننے والوں کا تہوار ہے، ہزاروں لوگ اپنے اہلخانہ اور دوستوں کے ہمراہ دیا جلانے اور نئے سال کا جشن منانے کے لیے جمع ہوئے۔’رپورٹس کے مطابق ٹرمپ کے اکاو¿نٹ سے مذکورہ پیغام کو 2 مرتبہ ڈیلیٹ کرکے دوبارہ پوسٹ کیا گیا، لیکن ہر مرتبہ اس میں ہندوو¿ں کا تذکرہ رہ گیا۔تاہم اپنے اگلے ہی پیغام میں انہوں نے ہندوو¿ں کا بھی تذکرہ کر ڈالا اور لکھا، ‘وائٹ ہاو¿س کے روزویلٹ روم میں ہندوو¿ں کے تہوار دیوالی کی تقریب میں شرکت کرنا میرے لیے ایک اعزاز تھا۔ یہ لوگ بہت بہت خاص ہیں!’اگرچہ ٹرمپ نے اپنے دوسرے پیغام میں ہندوو¿ں کا تذکرہ کیا، لیکن پہلے پیغام میں غلطی کی وجہ سے ٹوئٹر صارفین نے انہیں نہیں بخشا اور تبصروں کا ایک طوفان آگیا۔ایک صارف نے لکھا، ‘جس کسی نے بھی ٹرمپ کے فون سے یہ ٹوئیٹ کی، مجھے یقین ہے کہ ہندوو¿ں کو بھی دیوالی میں دلچسپی ہے۔’ایک اور صارف کا کہنا تھا، ‘ٹرمپ کے ٹوئٹر اکاو¿نٹ سے دیوالی کے حوالے سے ٹوئیٹ ہوئی، لیکن اس میں ہندوو¿ں کا ذکر نہیں کیا گیا، وہ ٹوئیٹ ڈیلیٹ ہوئی، پھر دوسرے لنک کے ساتھ ری پوسٹ کی گئی، لیکن پھر بھی ہندوو¿ں کا تذکرہ نہیں کیا گیا۔’کسی نے لکھا، ‘امریکا میں بھارتی کلچر دیکھ کر خوشی ہوئی، لیکن مذاہب کا کیوں تذکرہ کیا گیا؟ لیکن اب جبکہ آپ ذکر کر ہی چکے ہیں تو میں بتا دوں کہ آپ ہندوو¿ں کو بھول گئے، جن کا یہ سب سے بڑا تہوار ہے۔’

تسلی کرکے کرکٹ بورڈ میں تبدیلیاں کروں گا، جلد بازی نہیں کروں گا، احسان مانی

لاہور (ویب ڈیسک)پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے چیئرمین احسان مانی نے کہا ہے کہ میڈیا خواہ مخواہ ورلڈ کپ کی کپتانی کا تنازع کھڑا کررہا ہے، سرفراز احمد اچھا انتخابت ہیں اور وہ اچھی کپتانی کررہے ہیں، ان کے بارے میں قیاس آرائیاں غلط ہیں۔ورلڈ کپ تک سرفراز احمد کو کپتان برقرار رکھنے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ سرفراز احمد پاکستان کے کپتان ہیں اور اچھی کپتانی کررہے ہیں، میڈیا ان کے حوالے سے غیر ضروری تنازع کھڑا کررہا ہے۔بدھ کو نیشنل اسٹیڈیم کراچی کے حنیف محمد ہائی پرفارمنس سینٹرمیں چیف آپریٹنگ آفیسر سبحان احمد اور ڈائریکٹر مدثر نذر کے ساتھ پریس کانفرنس میں سرفراز احمد کو ورلڈ کپ تک کپتان برقرار رکھنے کے بارے میں چیئرمین پی سی بی نے کہا کہ سرفراز پاکستان کے کپتان ہیں ان کے عہدے کی کوئی معیاد نہیں ہے اور نہ ہی اس بات کی پابندی ہے کہ وہ کسی مقررہ وقت تک کپتان بنائے گئے ہیں۔احسان مانی نے کہا کہ سرفراز احمد ہر فارمیٹ میں اچھی کپتانی کررہے ہیں اس لیے وہ پاکستان کے کپتان ہیں، سابق چیئرمین شہریار خان نے سرفراز احمد کو کپتان بناکر اچھا فیصلہ کیا۔واضح رہے کہ ورلڈ کپ سے قبل پاکستان کرکٹ ٹیم کو جنوبی افریقا، آسٹریلیا اور انگلینڈ کے خلاف 15 ون ڈے انٹرنیشنل میچز کھیلنے ہیں۔ احسان مانی نے ورلڈ کپ کا نام تو نہیں لیا لیکن سرفراز احمد کو ورلڈ کپ تک کپتان بنانے کی بحث ختم کرتے ہوئے کہا کہ ٹیم کی قیادت کیلئے سرفراز ہی پی سی بی کی چوائس ہیں۔انہوں نے کہا کہ سرفراز احمد کا کیس کرکٹ کمیٹی کو دینے کا سوال ہی نہیں ہے، مجھے نہیں پتہ سرفراز احمد کے معاملے پر میڈیا غیر ضروری بحث کیوں کررہا ہے۔ کپتان کی تقرری چیئرمین پی سی بی کا صوابدیدی اختیار ہے اس بارے میں کرکٹ کمیٹی سے رائے لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔احسان مانی نے اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا کہ ان کے ابتدائی چند ہفتے تنازعات سے بھرپور تھے، میں نے صرف میڈیا سے یہ کہا تھا کہ کسی میڈیا والے نے جسٹس قیوم رپورٹ نہیں پڑھی تھی۔ احسان مانی کی اس وضاحت پر میڈیا والوں نے کہا کہ ہم نے رپورٹ پڑھی ہے تو انہوں نے کہا کہ میں نے لاہور کے میڈیا کی بات کی تھی۔ایک صحافی نے کہا کہ میں لاہور میں بھی تھا تو انہوں نے کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے ڈھانچے میں ری اسٹرکچرنگ کرتے ہوئے تبدیلیاں لائیں گے، میں تسلی کرکے تبدیلیاں کروں گا، جلد بازی نہیں کروں گا۔ اس وقت بورڈ کو شفافیت اور احتساب کی جانب لے کر جارہا ہوں۔انہوں نے کہا کہ بورڈ کے انفرااسٹرکچر اور ڈومیسٹک کرکٹ کو تگڑا کروں گا، جب چیئرمین کا احتساب ہوگا تو سب کا احتساب ہوگا، کسی کو اس بارے میں شک نہیں کرنا چاہیے۔ دس سال بعد پہلی بار پی سی بی کے اکاو¿نٹس ہماری ویب سائٹ پر ہیں۔احسان مانی نے کہا کہ مکی ا?رتھر اور اظہر محمود کو پی ایس ایل میں عہدہ دینے کا فیصلہ مجھ سے پہلے ہوا تھا، میں ان کے کنٹریکٹ کا جائزہ لے رہا ہے ہوں۔انہوں نے کہا کہ ڈپارٹمنٹل کرکٹ پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے لیکن موجودہ ڈومیسٹک سسٹم چلانا مشکل ہے، ہم نے 70,80 فیصد کام کر لیا ہے لیکن کسی کھلاڑی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ پی سی بی افسران کے خلاف ایف ا?ئی اے کی تحقیقات کا جائزہ لیا ہے کسی بھی افسر کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملے ہیں۔

80 سالہ بزرگ کی زندگی بھر کی جمع پونجی قومی بچت اسکیم کے ملازمین نے لوٹ لی

کراچی (ویب ڈیسک)80 سالہ معمر شہری کی زندگی بھر کی جمع پونجی قومی بچت اسکیم کے تین ملازمین نے لوٹ لی۔قومی بچت اسکیم کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر شاہد ارشد نے جعلسازی سے شہری کی رقم نکلوانے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ادارے کے ملازمین نے شہری اشرف خان کے اکاو¿نٹ سے رقم نکلوائی۔شاہد ارشد نے بتایا کہ قومی بچت اسکیم کے تین ملازمین نے جعلی چیک ب±ک کے ذریعے متاثرہ شہری کے اکاو¿نٹ سے ایک کروڑ 85 لاکھ روپے نکلوائے۔اسسٹنٹ ڈائریکٹر قومی بچت اسکیم نے بتایا کہ جعلسازی کرنے والے تینوں ملازمین کو معطل کر کے ایف آئی اے کو کارروائی کے لیے درخواست دیدی۔ایف آئی اے کے تفتیشی افسر ندیم اختر نے بتایا کہ تینوں ملزمان نے اشرف خان کا جعلی اکاونٹ بنایا اور پھر اکاو¿نٹ سے پیسے نکلوا کر جعلی اکاو¿نٹ میں ڈالے۔تفتیشی افسر نے مزید بتایا کہ تینوں ملزمان جعلی اکاو¿نٹ میں پیسے ڈال کر بعد میں خود رقم نکلوا لیتے تھے۔ایف آئی اے کے افسر نے بتایا کہ ملزمان کے خلاف تفتیش مکمل کر لی ہے، جلد ایف آئی آر کٹ جائے گی۔80 سالہ بزرگ اشرف خان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ قومی بچت مرکز صدر میں رقم جمع کرائی۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت مدینہ کی ریاست بنا رہی ہے تو میرے پیسے واپس لوٹائے۔اشرف خان نے چیف جسٹس آف پاکستان سے بھی مدد کی اپیل کی ہے۔