ہزاروں اے ٹی ایم مشینیں اچانک بند

ممبئی (ویب ڈیسک)انڈیا کی کئی ریاستوں کو ایک مرتبہ پھر نقد رقم کی قلت کا سامنا ہے اور ملک میں ہزاروں اے ٹی ایم بند پڑے ہیں۔حکومت کا کہنا ہےکہ یہ قلت عارضی ہے اور اس مسئلے کو جلدی ہی حل کر لیا جائے گا لیکن حزب اختلاف کی جماعتوں کا الزام ہے کہ عام لوگوں کے لیے پھر ویسے ہی حالات پیدا ہو گئے ہیں جیسے نومبر 2016 میں اچانک بڑے نوٹ بند کیے جانے کے بعد تھے۔وزیر اعظم نریندر مودی نے 2016 میں اچانک بڑے نوٹ بند کرنے کا اعلان کیا تھا جس کی وجہ سے کئی مہینوں تک کرنسی کی فراہمی متاثر رہی تھی اور لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا کیونکہ بینک میں پیسہ ہونے کے باوجود وہ اسےنکال نہیں پا رہے تھے۔سب سے زیادہ مسئلہ کرناٹک، بہار، مہارشٹر، آندھرا پردیش، راجستھان، اتر پردیش مدھیہ پردیش اور تیلنگانہ میں بتایا گیا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ لوگ اس خدشے کے پیش نظر بھی پیسے نکال رہے ہیں کہ کہیں بعد میں نوٹوں کی قلت اور زیادہ سنگین شکل نہ اختیار کر لے۔بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی اور کانگریس پارٹی کے صدر راہل گاندھی کا کہنا ہے ہے کہ اس صورت حال نے 2016 کی یادیں تازہ کر دی ہیں۔حکومت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اقتصادی نظام میں کرنسی کی کوئی کمی نہیں ہے اور بعض علاقوں میں کرنسی کی قلت کو پورا کرنے کے لیے نوٹوں کی چھپائی اور وہاں سپلائی تیز کر دی گئی ہے۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ بعض علاقوں میں کرنسی کی کمی کا تعلق سپلائی میں عدم توازن سے ہے۔لیکن ماہرین کے مطابق ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ قلت کی اصل وجہ کیا ہے۔ایک تاثر یہ ہے کہ حکومت نے کرنسی کی مانگ کا صحیح اندازہ نہیں لگایا تھا۔ ریزرو بینک آف انڈیا کے ایک سابق نائب گورنر کے مطابق نوٹوں کی سپلائی جتنی ہونی چاہیے تھی اس سے تقریباً پانچ کھرب روپے کم ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اوسطً ہر مہینے دو سو ارب روپے کے نوٹوں کی ضرورت ہوتی ہے جو اب بڑھ کر دوگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ حکومت نے روزانہ ڈھائی ہزار کروڑ روپے مالیت کے کرنسی نوٹ چھاپنے کا حکم دیا ہے۔حکومت کے مطابق فروری اور مارچ میں کرنسی کی چار سو ارب روپے ماہانہ تھی جو اپریل کے پہلے دو ہفتوں میں ہی ساڑھے چار سو ارب سے تجاوز کر گئی ہے۔ماہرین کے مطابق مانگ میں اضافے کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ فصل کی کٹائی کا موسم ہے اور کسانوں کو اس موقعے پر نقدی درکار ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ تہواروں کا سیزن ہے، اور معیشت بھی اب بہتر رفتار سے ترقی کر رہی ہے۔مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شو راج سنگھ چوہان کا کہنا ہے کہ لوگ دو ہزار کے نوٹ جمع کر رہے ہیں جس کی وجہ سے یہ قلت پیدا ہوئی ہے۔انڈیا کی جنوبی ریاست کرناٹک میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں اور نوٹوں کی قلت حکومت کے لیے درد سر بن سکتی ہے، کیونکہ حزب اختلاف کو اب یہ موقع ملے گا کہ وہ موجودہ صورتحال کا موازہ 2016 کے حالات سے کریں جب لوگوں کے لیے روز مرہ کی ضروریات پوری کرنا بھی مشکل ہو گیا تھا۔

سینیٹ الیکشن میں پی ٹی آئی کا کونسا رکن اسمبلی کتنے میں فروخت ہوا ؟؟نام سامنے آگئے

اسلام آباد (ویب ڈیسک )تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے اپنی پارٹی کے ووٹ بیچنے والے افراد کے نام بتا دئیے۔ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ الیکشن میں تیس چالیس سال سے ووٹ بکتا رہا ہے،اس معاملے پر کوئی پارٹی ایکشن نہیں لیتی تھی ،میں نے ووٹ بیچنے والے اپنے ارکان کے خلاف ایکشن کا فیصلہ کیا تھا۔پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ووٹ بیچنے والی خواتین میں نرگس علی ،دینا ناز ،فوزیہ بی بی ،نسیم حیات اورنگینہ حیات شامل ہیں جبکہ مردوں میں بابر سلیم ،سمیع اللہ زیب ،یاسین خلیل ،امجد آفریدی ،قربان خان ،زاہد درانی ،سردار ادریس ،عبید مایار،عبدالحق ،جاوید نسیم ،جاوید نسیم ،معراج ہمایوں ،عارف یوسف ،فیصل زمان ،سیمی علی زئی اور وجیہہ الزمان شامل ہیں۔عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم نے ان اراکین کو شوکاز نوٹس جاری کر دیئے ہیں اور ان سے وضاحت طلب کی ہے اور اگر یہ وضاحت نہیں دیں گے تو انہیں پارٹی سے بھی نکال دیں گے۔ عمران خان کا کہناتھا کہ اگر ضرورت پڑی تو ان تمام اراکین کے نام نیب کو بھی دیں گے۔عمران خان کا کہناتھاکہ سینیٹ الیکشن میں 30،40 سال سے ووٹ بکتا رہا ہے لیکن سینیٹ الیکشن میں ووٹ کی خرید و فروخت پر کوئی ایکشن نہیں لیتا تھامگر ہم نے سینیٹ میں ووٹ بیچنے والے اپنے ارکان کے خلاف ایکشن کا فیصلہ کیا تھا،یہی نہیں الزامات کی پوری تحقیقات کی ہے اور ووٹ بیچنے والوں کے کئی نام ہمیں شروع میں ہی مل گئے تھے۔انہوں نے کہاکہ سینیٹ الیکشن میں 4کروڑ روپے تک کی پیشکش کی گئی لیکن ہمارے بہت سے ارکان نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا میں انہیں داد دینا چاہتاہوں۔ میں ایک ”وٹس ایپ “ بنا لوں گا اور جو بھی پیسے مانگ رہا ہوخاموشی سے مجھے ”وٹس اپ “ کردیں کہ کون پیسے مانگ رہا ہے ؟ اور کون پیسے دے رہا ہے؟

امتحانات میں ہائی ٹیک نقل کیسے کی جاتی ہے ؟نیا فارمولا سامنے آگیا

لاہور (ویب ڈیسک)ایک سنگاپورین ٹیوٹر نے تسلیم کیا ہے کہ اس نے سنہ 2016 میں چھ چینی طالب علموں کو نقل کرنے میں مدد فراہم کی تھی جبکہ استغاثہ کا کہنا ہے کہ یہ کام مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا تھا۔
استغاثہ کا کہنا ہے کہ ٹین کیا یان نے پرائیویٹ امیدوار کے طور امتحان دیا تھا اور سوالات اپنے ساتھیوں کو فیس ٹائم کے ذریعے بھجوا دیے جنھوں نے طالب علموں کو کال کی اور جواب انھیں پڑھ کر سنائے۔طالب علموں نے امتحانات کے دوران چوری چھپے موبائل فون، بلوٹوتھ ڈیوائسز اورجلد کے رنگ والے ایئر فونز کا استعمال کیا۔ٹین کیا یان پر 27 الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ دیگر تین افراد نے نقل کروانے کے الزامات کی تردید کی ہے۔یہ او لیول کے امتحانات تھے جو عموماً 16 سال کی عمر کے طالب دیتے ہیں۔استغاثہ کے مطابق نقل کا یہ منصوبہ اس وقت افشا ہوا جب نگران امتحان نے غور کیا کہ ایک طالب علم سے کچھ غیرمعمولی آوازیں آرہی ہیں۔اس طالب علم کو امتحان کے بعد الگ کیا گیا اور اس کو بنیان اتارنے کا کہا گیا۔ ایک موبائل فون، بلوٹوتھ ڈیوائس اور جلد کا ہم رنگ کانوں میں لگانے والا آلہ برآمد ہوا۔دیگر تین ملزمان میں سینٹر کے پرنسپل پوہ یوان نی اور ان کے دو ساتھی استاد فیونا پوہ من اور فینگ ریوین شامل ہیں۔پوہ یوان نی پر ایک چینی شہری سے 8000 سنگاپورین ڈالر لینے اور زیئس ایجوکیشن سینٹر بھجوائے گئے ہر طالب علم سے 1000 سنگاپورین ڈالر لینے کا الزام ہے۔اگر طالب علم امتحانات میں فیل ہو جاتے تو انھیں یہ رقوم واپس مل جانی تھیں۔

افغانستان میں دونلڈ ٹرمپ کی پیدائش ،حقائق سامنے آنے پر آپ بھی مان جائیں گے

کابل (ویب ڈیسک)افغانستان میں ایک شہری نے امریکی صدر سے متاثر ہو کر اپنے بیٹے کا نام ڈونلڈ ٹرمپ رکھ دیا ہے۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق افغان دارالحکومت کابل کے رہائشی سید اسد اللہ پویا کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کا نام ڈونلڈ ٹرمپ اس امید کے ساتھ رکھا ہے کہ ہمارا بیٹا بھی امریکی صدر کی طرح ارب پتی ہو گا۔اٹھارہ ماہ کے افغان ڈونلڈ ٹرمپ کی شناختی نام والی پوسٹ فیس بک پر شیئر کی گئی جو جنگل میں آگ کی طرح افغانستان سمیت دنیا بھر میں پھیل گئی۔اسد اللہ نے بتایا کہ جب انہوں نے اپنے بیٹے کے نام والی پوسٹ سوشل میڈیا پر شیئر کی تو انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں اور کچھ افراد نے ہمارے بیٹے کو نقصان پہنچانے کی دھمکیاں بھی دیں۔انہوں نے بتایا کہ لوگوں کی جانب سے ان کے لیے انتہائی نامناسب الفاظ بھی استعمال کیے گئے اور کچھ لوگوں نے تو کہا کہ میں نے یہ سب کچھ امریکا میں سیاسی پناہ لینے کے لیے کیا ہے۔سید اسد اللہ نے بتایا کہ انہیں ابتدائ میں تو اندازہ ہی نہیں تھا کہ افغان لوگ نام کے معاملے میں اتنے حساس ہوں گے، کسی نے ہمارے بیٹے کے نام والی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کی جس کے بعد یہ معاملہ اتنا بڑھا کہ مجھے اپنا اکاو¿نٹ بند کرنا پڑا۔انہوں نے بتایا کہ میرے پڑوسیوں کی جانب سے بھی مجھے دھمکیاں دی گئیں اور جب میں گھر سے باہر نکلتا ہوں تو خود کو خوفزدہ محسوس کرتا ہوں۔سید اسد اللہ نے بتایا کہ انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی کاروبار میں کامیابی کے حوالے سے لکھی گئی کتابوں کا فارسی ترجمہ پڑھ رکھا تھا جس کی وجہ سے وہ ارب پتی امریکی تاجر سے متاثر تھا اور جب ان کے ہاں 2016 میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات سے قبل بیٹے کی پیدائش ہوئی تو انہوں نے اسے ڈونلڈ ٹرمپ کے نام سے پکارنا شروع کردیا۔افغان باشندے نے بتایا کہ میں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے بہت ریسرچ کی اور پھر متاثر ہو کر اپنے بیٹے کا نام ڈونلڈ ٹرمپ رکھا تاکہ میرا بیٹا بھی ان ہی کی طرح کامیاب اور دولتمند ہو۔

کیا آپ مرچوں سے بھری آئس کریم کھانا پسند کرینگے؟

گلاسگو(ویب ڈیسک) اسکاٹ لینڈ میں مرچوں بھری آئس کریم متعارف کرائی گئی ہے، جسے کھانا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں آلڈوچ (Aldwych) نامی کیفے نے مرچوں والی آئسکریم تیار کی ہے جسے کھا کر جہاں ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے وہیں تیز مرچیں بھی کانوں سے دھواں نکالنے کے لیے کافی ہیں۔اس آئس کریم کا نام Breath of the Devil یعنی ‘شیطان کی سانس’ رکھا گیا ہے۔مالکان کے مطابق اس آئسکریم کا آئیڈیا انہیں اٹلی سے آیا۔کیفے کے مالک مارٹن کے بھائی لی بندونی نے بتایا کہ ‘اٹلی میں ‘ڈیولز برج’ نام کی ایک جگہ ہے، جہاں اٹالین خاندان سال میں ایک دفعہ ملتے ہیں اور ایک دوسرے کو بتاتے ہیں کہ ان کا سال کیسا گزرا’۔انہوں نے بتایا کہ ‘اگر ان افراد میں کوئی ایسا شخص ہوتا، جس نے بہادری کا مظاہرہ کیا ہوتا تو اسے مرچوں والی آئسکریم کھانی پڑتی تھی، یہی وجہ ہے کہ ‘ڈیولز برج’ کی مناسبت سے اس آئسکریم کو ‘بریتھ آف دی ڈیول’ کہا جاتا تھا’۔لی بندونی نے مزید بتایا کہ ‘اس آئسکریم کی ترکیب انتہائی خفیہ ہے اور ہم میں سے بہت کم لوگ اس بارے میں جانتے ہیں’۔تاہم یہاں بتاتے چلیں کہ ہر کوئی یہ آئسکریم نہیں کھا سکتا، بلکہ اسے کھانے کے لیے 18 سال عمر کی شرط رکھی گئی ہے اور اسے کھانے سے پہلے ایک عہد نامے پر دستخط بھی کرنا پڑتے ہیں۔

بھارتی وزیر اعلیٰ پاگل ہو گیا؟انٹرنیٹ کی ایجاد بارے ایسا خوفناک انکشاف کہ سب حیران رہ گئے

ممبئی (ویب ڈیسک)قدیم ہندوستان باقی دنیا سے بہت پہلے ٹیکنالوجی کے نئے محاذ پار کر چکا تھا، یہ دعویٰ تو نیا نہیں ہے لیکن پھر بھی ہر نئے ہوشربا ’انکشاف‘ کے بعد سنبھلنے میں تھوڑا وقت تو لگتا ہی ہے۔
اس مرتبہ ٹیکنالوجی کی جنگ میں نیا تیر شمال مشرقی ریاست تریپورہ کے وزیر اعلیٰ بپلب کمار دیو نے چلایا ہے جن کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ قدیم ہندوستان کی ایجاد ہے اور ہزاروں سال پہلے براہ راست نشریات کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔وزیر اعلیٰ نے کمپیوٹروں کے استعمال پر ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مہا بھارت کی جنگ کے دوران سنجے نے دھرت راشٹر کو جنگ کا آنکھوں دیکھا احوال سنایا تھا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت انٹرنیٹ بھی تھا اور سیٹلائٹ بھی۔ہندوو¿ں کا خیال ہے کہ مہا بھارت کی جنگ پانچ ہزار سال پہلے ہوئی تھی۔وزیر کا کہنا ہے کہ مہا بھارت کی جنگ کے دوران سنجے نے دھرت راشٹر کو جنگ کا آنکھوں دیکھا احوال سنایا تھا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت انٹرنیٹ بھی تھا اور سیٹلائٹ بھی اس سے پہلے یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ ہوائی جہاز بھی انڈیا میں ہی ایجاد کیے گئے تھے۔
اس پس منظر میں ماہر اقتصادیات کوشک باسو نے ٹوئٹر پر کہا ہے کہ قوم پرستی اور مذہبی قدامت پسندی میں حد سے گزر جانے والوں کا مسئلہ یہ ہے کہ فلسفہ، ریاضی، سائنس اور ادب کے مطالعے میں وقت صرف کرنے کی بجائے وہ یہ ثابت کرنے میں اپنا وقت گزارتے ہیں کہ انڈیا میں پانچ ہزار سال پہلے لوگ سائنس اور فلسفہ پڑھتے تھے۔ٹوئٹر اور فیس بک کی ایجاد کے بارے میں تو فی الحال کوئی دعویٰ نہیں کیا گیا لیکن سوشل میڈیا کی ایجاد بھلے ہی مغربی دنیا میں ہوئی ہو لیکن لوگ اپنی رائے ظاہر کرنے سے کہاں باز آتے ہیں۔سینیئر وکیل سنجے ہیگڑنے نے ٹوئٹر پر لکھا: ’تریپورہ، مبارک ہو آپ نے مانک سرکار کے مقابلے میں بپلب داس کی بصارت کو ترجیج دی۔ (مانک سرکار لمبے عرصے سے تریپورہ کے وزیر اعلیٰ تھے لیکن مارچ میں ان کی پارٹی الیکشن ہار گئی تھی۔)امریکہ کی رٹگرز یونیورسٹی میں جنوبی ایشیا کی تاریخ کی نائب پروفیسر اوڈرے ٹروشکے نے ٹوئٹر پر یک بعد دیگرے پیغامات میں کہا ہے کہ مہا بھارت کے کردار ٹیکنالوجی کا زیادہ بہتر استعمال کر سکتے تھے اور (بھگوان) کرشن بھگوت گیتا کی فیس بک پر لائیو سٹریمنگ کر سکتے تھے۔
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل پرشانت بھوشن نے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے دعووں کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھیں نوبیل انعام دیا جانا چاہیے لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ وہ ایجاد کرنے والوں کو انعام دلوانا چاہتے ہیں یا دعویٰ کرنے والوں کو۔بپلب دیو کی حمایت میں بہت سے لوگوں نے اپنی رائے ظاہر کی ہے۔کھیم چند شرما لکھتے ہیں: ’ہم وزیر اعلیٰ کی بھر پور حمایت کرتے ہیں۔ ویدک سائنس کی طاقت کا سب اعتراف کرتے ہیں، ہالی وڈ کی مشہور فلم ’اوتار‘ بنانے والوں نے بھی ہندوو¿ں کی قدیم کتابوں سے تحریک حاصل کی تھی بس ہم بھول گئے ہیں اس لیے دوبارہ تحقیق کی ضرورت ہے۔‘جب یہ تحقیق مکمل ہو جائے تو یہ بھی معلوم کرنا چاہیے کہ انٹرنیٹ ایجاد چاہے کسی کی بھی ہو، اس کی رفتار اب بھی اتنی سست کیوں ہے؟

میر شکیل اگر بیمار ہیں تب بھی سٹریچر پر ڈال کر سپریم کورٹ لایا جائے

اسلام آباد(ویب ڈیسک) چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے جیو نیوز کے مالک میر شکیل الرحمن کو پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ عدلیہ پر تنقید دنیا بھر میں ہوتی ہے لیکن بے ہودہ نہیں کہا جاتا۔سپریم کورٹ میں جیو ملازمین کو تنخواہوں کی عدم ادائیگی کیس کی سماعت ہوئی تاہم میر شکیل الرحمن عدالت میں ا?ج بھی پیش نہیں ہوئے۔ وہ گزشتہ روز ہونے والی سماعت میں بھی پیش نہیں ہوئے تھے۔ عدالت نے قرار دیا کہ یہ افسوسناک ہے کہ میر شکیل عدالت پیش نہیں ہوئے، جیو،جنگ ملازمین کوتنخواہیں کیوں ادا نہیں ہوئیں؟۔ وکیل نے کہا کہ میر شکیل الرحمن کو کمر میں تکلیف ہے اور وہ بیرون ملک ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میر شکیل بیمار ہیں تو اسٹریچر پر ڈال کر لے آئیں۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ عدالت کے باہر میر شکیل ججز کیلئے بیہودہ الفاظ استعمال کرتے ہیں، عدالت آئے تو ان کی ویڈیو چلائیں گے، اس کلچر کو درست کرنا ہوگا، معلوم ہونا چاہیے عدلیہ کا احترام کیا ہے، عدلیہ پر مناسب تنقید دنیا بھر میں ہوتی ہے، لیکن بے ہودہ نہیں کہا جاتا۔ وکیل جیو نیوز نے کہا کہ میر شکیل کے پاس چینل کا کوئی عہدہ نہیں، جبکہ جیو کے سی ای او میر ابراہیم عدالت میں موجود ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ سب جانتے ہیں میر شکیل جنگ گروپ کے مالک ہیں، انہیں توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں گے، انھیں ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا گیا تھا، میرشکیل بیمار ہیں تو اگلے ہفتے آجائیں۔ چیف جسٹس نے جیو ملازمین کو تنخواہیں ادا کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ملازمین کو تنخواہیں نہ دیں تو قانون کے مطابق کارروائی کریں گے، جنوری کے بعد سے تنخواہ ادا نہیں ہوئی ہیں۔عدالت نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔