40 ارب کا فراڈ ، علی جہانگیر صدیقی سے نیب میں 3 گھنٹے تفتیش

لاہور ( این این آئی) حکومت کی جانب سے امریکہ کیلئے نامزد پاکستانی سفیر علی جہانگیر صدیقی قومی احتساب بیورو (نیب ) لاہور میں پیش ہو گئے جہاں انہوں نے 3گھنٹے تک میں تفتیشی ٹیم کے سوالوں کے جواب دیئے ۔علی جہانگیر صدیقی کو انسائیڈ ٹریڈنگ سمیت 40 ارب روپے کے مبینہ فراڈ میں طلب کیا گیا تھا۔نیب ذرائع کے مطابق علی جہانگیر صدیقی سے نیب لاہور میں 3 گھنٹے تک سوال و جواب کیے گئے۔نیب ذرائع کا کہنا تھا کہ علی جہانگیر صدیقی کی جانب سے فراہم کئے گئے ریکارڈ اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) و بینکوں سے طلب کیے گئے ریکارڈ کا جائزہ لینے کے بعد اس بات کا امکان ہے کہ دوبارہ علی جہانگیر صدیقی کو تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش ہونے کا کہا جائے گا۔یاد رہے کہ اس مخصوص کیس کی تحقیقات میں نیب 2008ءمیں 2 کروڑ 37 لاکھ یورو کے فنڈز کی ادائیگی کی تحقیقات کر رہی ہے، جو ایک اطالوی کمپنی مونٹے بےلو ایس آر ایل کو خریدنے میں استعمال ہوئے تھے جبکہ اس ڈیل میں سوئڈن کی ایک غیر ملکی کمپنی فیئر ٹیل ایس آر ایل کو استعمال کیا گیا تھا جسے شیئرہولڈرز کے ساتھ نقصان اٹھانا پڑا تھا۔اس کے ساتھ نیب کے کیس میں یہ بھی الزام لگایا گیا تھا کہ لون ڈیفالٹس کو درست کرنے لیے ایگری ٹیک لمیٹڈ کمپنی کے شیئرز کو مختلف مالیاتی اور سرکاری اداروں کو مارکیٹ سے اضافی رقم میں فروخت کیا گیا، جس کے نتیجے میں مختلف مالیاتی اور حکومتی اداروں کو 40 ارب روپے کو نقصان اٹھانا پڑا۔واضح رہے کہ ایس ای سی پی کی جانب سے 2007-08میں ممنوعہ اور معاملات کو مسخ کرنے کے الزام میں اے این ایل کے خلاف تحقیقات کی گئی تھیں، جس کے مطابق اس عرصے کے دوران اے این ایل منفی ٹریڈنگ میں ملوث تھی۔یہ بھی واضح رہے کہ 26کو مارچ کو قومی احتساب بیورو (نیب )کی جانب سے جاری اعلامیے میں میسرز ایز گارڈن اور میسرز ایگری ٹیک لمیٹڈ اور دیگر کے خلاف انکوائری میں احمد ہمایوں شیخ اور علی جہانگیر صدیقی کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے وزارت داخلہ کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

عدلیہ کی حفاظت قوم کریگی

اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی عدلیہ مخالف تقاریر کےخلاف لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے ازخود نوٹس نمٹا دیا جبکہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاہے کہ دکھائیں فیصلے میں پابندی کہاں ہے؟آپ آر ٹیکل 19اور 68کو پڑھیں اس میں کب پابندی عائد کی گئی ہے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے میں نواز شریف اور مریم نواز کی تقاریر پر پابندی نہیں لگائی گئی عدالت نے پیمرا کو کام کرنے کا حکم دیا ہائی کورٹ نے اچھا حکم جاری کیا فیصلہ بنیادی حقوق سے متصادم نہیں ہے پیمرا نے معاملے پر ایکشن کیوں نہیں لیا ۔ بدھ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس عظمت سعید پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر ازخود نوٹس کی سماعت کی، اس دوران اٹارنی جنرل اور پاکستان الیکٹرانک میڈیا اتھارٹی ( پیمرا ) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پیش ہوئے۔سماعت کے دوران عدالت نے لاہور ہائیکورٹ کے آرڈر کی غلط رپورٹنگ پر شدید برہمی کا اظہار کیا  چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل عدالتی آرڈر پڑھیں اور دکھائیں کہ فیصلے میں پابندی کہاں لکھا ہے؟اٹارنی جنرل نے عدالت کے سامنے کہا کہ میں وہ ہائی کورٹ کا فیصلہ پڑ کر سنانا چاہتے ہیں جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ مبارک ہو  آپ پہلے آدمی ہیں جو فیصلہ پڑھ رہے ہوں گے۔اس دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تمام اخبارات نے خبر شائع کی کہ ہائیکورٹ نے تقریر پر پابندی عائد کردی، آپ آرٹیکل 19 اور 68 کو پڑھیں اس میں کب پابندی عائد کی گئی۔دوران سماعت جسٹس اعجار الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا پاکستان میں کوئی شخص ہے جو یہ کہے کہ آرٹیکل 19 پر عمل نہ کیا جائے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے میں نواز شریف اور مریم نواز کی تقاریر پر پابندی نہیں لگائی گئی تھی بلکہ عدالت نے آرٹیکل 19 اور 68 کے تحت پیمرا کو کام کرنے کا حکم دیا تھا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ صحت مندانہ تقریر اور تنقید سے کبھی نہیں روکا، خبر کو ٹوئسٹ کر کے چلایا گیااس موقع پر چیف جسٹس نے پیمرا کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سے استفسار کیا کہ پیمرا نے اس معاملے پر ایکشن کیوں نہیں لیاجس پر ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے کہا کہ 27 مارچ کو عہدے کا چارج سنبھالا اور مختلف ٹی وی چینلز کو نوٹس جاری کیے۔قائم مقام چیئرمین پیمرا کہا کہ غلط خبر پر ایکشن لیا ہے اور چینل کو فوری نوٹس جاری کریں گے۔ دوران سماعت جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ حکم کچھ اور جاری کیا گیا جبکہ پورے ملک میں ڈھنڈورا کسی اور چیز کا پیٹا گیا، کسی نے باقاعدہ جعلی خبر چلوائی اور عدلیہ پر حملہ کیا گیا۔اس پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ہائی کورٹ نے اتنا اچھا حکم جاری کیا اور یہ فیصلہ بنیادی حقوق سے متصادم نہیں ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ عدلیہ کو خواتین نے آکر گالیاں دی، سپریم کورٹ کے دروازے پر آکر گالیاں دی گئیں، میں تین دن سے ان واقعات کا پتہ کرارہا ہوں، خواتین کو کون سپریم کورٹ لیکر آیا۔انہوں نے کہا کہ عدلیہ پر ایک حملہ پہلے ہوا تھا اور ایک حملہ اب کیا گیا لیکن ہمیں سیکیورٹی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں روز گالیاں نکالنے کے کیا مقصد ہے؟ نواز شریف اور مریم نواز دونوں کو کہیں یہاں آکر جتنی لمبی تقریریں کرنا چاہیں کریں۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ سپریم کورٹ کے دروازے پر کھڑے ہو کر عدلیہ مخالف باتیں ہوئی لیکن انشاءاللہ یہ قوم عدلیہ کی حفاظت کرےگی۔نجی ٹی وی کے مطابق بعد ازاں سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ یہ تاثر پیدا کیا گیا کہ نواز شریف اور مریم نواز کو آف ائیر کرنے کا حکم دیا ہے اور اظہار رائے کے بنیادی حق کو سلب کیا گیاہائیکورٹ نے اپنے حکم میں آرٹیکل 19 کے تحت عدلیہ کےخلاف تقاریر روکنے کا حکم دیا اور پیمرا کو عدلیہ مخالف تقاریر کی درخواستوں کو نمٹانے کاحکم دیا ہائیکورٹ آرڈر میں نواز شریف اور مریم نواز تقاریر پر پابندی کاحکم نہیں دیاگیا، اخبارات میں شائع خبریں بے بنیاد اور جھوٹی ہیں، جھوٹ بول کر عدلیہ کو بدنام کرنے کا منصوبہ ہے۔جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ عدالت نے حکم کچھ اور جاری کیا رپورٹنگ کچھ اور ہوتی رہی، کسی نے منظم طریقے سے یہ سب کچھ کیا ہے، پیمرا یتیم خانہ لگتا ہے جس نے غلط خبر دی سورس پتہ چلنا چاہیےکیا ایف آئی اے سے تحقیقات کروائیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کون اس معاملے کی تحقیقات کرے گا اور کس نے یہ خبر بنا کر میڈیا کو دی ¾کس نے اصل خبرکو تبدیل کروایاجس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ خود اس کی تحقیقات کریں گے۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ایک چینل پر غلطی ہوسکتی ہے لیکن تسلیم نہیں کرسکتا کہ عدالت کے رپورٹر یہ غلط خبر دے سکتے ہیں  اخبارات کی خبریں بے بنیاد اور جھوٹی ہیں۔سماعت کے دور ان چیف جسٹس ثاقب نثارنے پیمرا کے وکیل سلمان اکرم راجہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو نوٹس جاری کریں گے اور لائسنس معطل کرتے ہیں  آپ کس طرح پیمرا کی طرف سے پیش ہوئے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کا پیمرا کی طرف سے پیش ہونا مفادات کا ٹکراو¿ نہیں جس پر وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ پیمرا کی طرف سے کافی عرصے سے پیش ہورہا ہوں۔چیف جسٹس نے سوال کیا (ن) لیگ کی طرف سے بھی آپ پیش ہوئے، ٹی وی پر آپ کمنٹس کرتے ہیں جس پر وکیل نے کہا کہ عدالت سے معافی چاہتا ہوں اور اپنا وکالت نامہ واپس لے لیتا ہوں۔چیف جسٹس نے کہا کہ بنیادی حقوق کو کم نہیں کریں گے ۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کے نواز شریف اور مریم نواز کی عدلیہ مخالف تقاریر سے متعلق فیصلے پر لیے گئے ازخود نوٹس کو نمٹا دیا۔

 

جسٹس شوکت صدیقی نے ثابت کیا ہے کہ اس ملک میں پولیس سب سے بڑی جرائم پیشہ ہے

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ نواز شریف و مریم نواز کی گفتگو میں کئی جملوں سے محسوس ہوتا تھا کہ عدلیہ پر تنقید ہو رہی ہے اور پھر ان کی تقاریر پر پابندی کا جو فیصلہ آیا تھا وہ لگتا تھا کہ بانی متحدہ والے فیصلے کے تناظر میں ہے لیکن گزشتہ روز پتہ چلا کہ شاید وکلاءفیصلے کے انگریزی حروف ٹھیک طرح سے سمجھ نہیں پائے۔ سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس یہ کہتے ہوئے نمٹا دیا کہ اس کا مطلب پابندی لگانا نہیں تھا۔ 8,6 مہینے سے کچھ وزراءبڑھ چڑھ کر گفتگو کر رہے تھے اب دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ اس معاملے کا کب نوٹس لیتی ہے۔ لگتا نہیں کہ نوازشریف اور ان کے ساتھی اپنے مسلسل طرز عمل سے گریز کر سکیں۔ ان کے کیسز فیصلے کی طرف بڑھ رہے ہیں، کوئی پتہ نہیں کیا فیصلہ ہو لیکن اگر سزا ہوئی تو نوازشریف اس کی تیاری کچھ اس انداز سے کر چکے ہیں کہ ملک بھر میں فیصلے کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجی تحریک شروع کی جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہر سیاسی جماعت کا اپنا اپنا عوام ہے، ہر کوئی اس کو اپنے معنی میں لیتا ہے، یہ بڑب غریب و مظلوم سا لفظ ہے۔ جب تک عدالتیں تنقیدی جملوں، طنزیہ گفتگو پر خود نوٹس نہیں لیتیں اس وقت تک یہی جانا چاہئے کہ جمہوریت ہے ہر شخص کو اپنی بات کہنے کی آزادی ہے۔ واجد ضیا کے ساتھ جتنی بھی گفتگو ہے اس میں کہیں بھی نواز شریف نے جائیداد کو تسلیم نہیں کیا، اس لئے مریم نواز نے کہا کہ کیس ثابت نہیں ہوتا کہ نواز شریف کی جائیداد ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں لیکن اتوار و پیر کو جو دستاویز دکھائی گئی ہیں وہ ثابت کرتی ہیں کہ لندن میں نوازشریف کے بچوں کی نہ صرف جائیداد موجود ہے بلکہ اس کی مالیت 300 ارب روپے بتائی جاتی ہے۔ نواز کے گرد قانون کا شکنجہ کافی سخت جا رہا ہے،لگتا ہے کہ 15,10 دنوں میں ان کے خلاف فیصلہ آنے والا ہے۔ انہوں نے کہا کہ طیبہ تشدد کیس میں سابق جج اور ان کی اہلیہ کو ایک ایک سال سزا کے فیصلے سے ذاتی طور پر بڑی خوشی ہوئی۔ ملک میں غربت ایسی لعنت ہے کہ جس میں مبتلا لوگ ہمت ہی نہیں رکھتے کہ وہ کسی امیر یا ایسے شخص سے جس کا تعلق پولیس یا عدلیہ سے ہو، انصاف لیں لیکن اس کیس میں اخبارات کی اطلاعات کے مطابق ورثاءکی جانب سے معافی دے دی گئی تھی لیکن عدالت نے کہا کہ بچی کے جسم پر تپتی سلاخیں رکھ کر اس کا گوشت جلانے جیسے جرم کو معاف نہیں کر سکتے۔ طیبہ کیس میں سپریم کورٹ و تمام ہائیکورٹس کے فیصلوں سے بڑا فیصلہ سمجھتا ہوں۔ یہ میاں بیوی بچی کے جسم کو دہکتی سلاخوں سے داغتے رہے۔ یہ انسانی عمل نہیں۔ لگتا نہیں یہ جج تھے یہ تو جانور تھے، کسی معصوم پر ایسے بدترین تشدد کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ کہا جاتا ہے کہ عدل و انصاف سے سے عاری معاشرے زندہ نہیں رہ سکتے۔ خوشی ہے کہ پاکستان میں آج اس فیصلے نے یہ بات تازہ کر دی کہ آج بھی عدالتیں موجود ہیں جو غریب والدین کے معافی دینے کے باوجود بچی پر بدترین تشدد کو معاف نہیں کرتیں۔ سابق جج اور ان کی اہلیہ کو جو ایک ایک سال کی سزا ہوئی، یہ سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے۔ ایک رپورٹ پڑھی جو صرف ضلع قصورسے متعلق تھی کہ کتنے لاکھ بچے و بچیاں لاہور و دیگر بڑے شہروں سے 50 ہزار یا لاکھ روپے دے کر لے آتے ہیں اور پھر برسوں رکھتے ہیں، کبھی دل کیا تو ورثاءکوئی پیسہ دے دیا نہیں تو سمجھا یہ جاتا ہے کہ عمر بھر کیلئے خرید لیا گیا ہے۔ ایسی بچیاں و بچے جن گھروں میں پلتے ہیں، کچھ اچھے بھی ہوتے ہیں جبکہ زیادہ تر گھروں میں ان کے ساتھ درندوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے، جنسی تشدد کیا جاتا ہے۔ وہ بے چاری نہ اپنے والدین کو بتا سکتی ہے اور نہ قانون ان کی مدد کرتاہے۔ طیبہ کیس فیصلے نے ایک راستہ دکھایا ہے کہ اگر غریب والدین سے معافی نامہ لکھوا بھی لیں تو قانون حرکت میں آئےگا۔ نئی تاریخ رقم ہوئی ہے۔ خاص طور پر اس فیصلے نے غریبوں کے بچوں کو ایک نئی زندگی دی ہے۔ سعد رفیق کی پیرا گون سٹی میں جائیداد ثابت ہونے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ آج کے حکمران طبقات کے جو لوگ ہیں ان میں سے بہت ساروں کو بڑی اچھی طرح جانتا ہوں۔ یہ بھی جانتا ہوں کہ جو آج کے ملزم ہیں جب ان کا باپ مرا تھا تو وہ کس حالت میں تھے، ان کے گھر کا رقبہ کیا تھا؟ والد کا کاروبار کیا تھا؟ جب اس کی دکان فروخت ہوئی تو ٹوٹل رقم 22 ہزار حاصل ہوئی تھی لیکن آج اندازہ کریں تو لگتا ہے کہ 30,30 ارب دونوں کے حصے میں آئے۔ لوٹ مار کا نظام ملک میں رائج ہو چکا ہے۔ فیصلہ بہتر نہیں کیا ہو گا لیکن یہ سمجھتا ہوں کہ جس طرح بات چل نکلی ہے، بہت سارے لوگوںکو سبق ملے گا کہ ایسی بات نہیں آپ بھوکوں مرتے ہوں، لوگوں کے چندوں پر سکول جاتے ہوں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے آپ کے پاس اربوں روپے ہوں۔ ایک ایک ڈیل سے پتہ چلے کہ فلاں کے حصے 30 ارب، فلاں کے حصے ڈیڑھ سو ارب آئے۔ قانون میں ہے کہ ثبوت فراہم کرنا استغاثہ کا کام ہے۔ غبن، چوری، ڈاکہ، قتل سمیت کوئی بھی مقدمہ ہو جب پوچھا جانا ہے کہ مجرم ہو یا نہیں تو پوری دنیا میں جواب ”نہیں“ ہوتا ہے پھر استغاثہ کا کام ہے وہ شواہد، گواہیاں و دستاویزات جمع کرے اور ثابت کرے کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے۔ استغاثہ ثبوت لاتا ہے اور دوسری طرف اگر وکیل تگڑا ہے تو وہ اسے جھٹلا دیتا ہے اس طرح ملزم بچ نکلتا ہے، یہ ایک جھوٹ اور غبن کرکے چھپانے کا سسٹم ہے جس کی بنیاد پر پورا معاشرہ فاتح ہے، یہ کسی ایک حکومت کی بات نہیں کر رہا۔ اگر اس معاشرے کو زندہ رہنا ہےتو پھر کچھ کرنا پڑے گا کیونکہ صرف وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جن کے پاس عادل حکمران ہوتے ہیں۔ جن کے حکمران کرپٹ، بے ایمان، بدمعاشی و غبن کرتے ہیں وہ قومیں کبھی پنپ نہیں سکتیں، تاریخ کا یہ فیصلہ ہے اس کو پھر نقشہ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے۔ پوچھتا رہتا ہوں تو نیب کے لوگ کہتے ہیں کہ ہم اس وقت تک کسی کو نہیں پکڑتے جب تک کسی کے خلاف کم سے کم 50 فیصد ثبوت نہ ہوں۔ تجزیہ کار نے کہا کہ اس پکڑ دھکڑ کے نظام کو رائج رہنا چاہئے۔ہر دوسرے شخص سے سنتا ہوں کہ پانامہ ہے تو پھر کیا ہوا، حیرت کی بات ہے کہ اس کی وجہ سے 2 ملکوں کے وزرائے اعظم نے استعفیٰ دے دیا۔ یہاں پر آدمی رعب دکھاتا ہے، ججوں کو دھمکیاں دیتا ہے، بعض جیالے اٹھ کر ججوں کے گھروں پر گولیاں بھی چلاتےہیں۔ اگر ہم نے اسے سرزمین بے آئین بنانا ہے تو پھرمرضی ہے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون ہو گا۔ انارکی کی کیفیت ہو گی اور پھر طاقتور جیت جائے گا، کمزور مارا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے جو الفاظ میں نے سنے وہ اتنے خوفناک ہیں کہ یہ باتیں ڈھکی چھپی تھیں، لوگ اندر کھاتے جانتےتھے لیکن کسی نے آج تک کہنے کی ہمت نہیں کی تھی۔ گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس نے پولیس کی ایسی تیسی پھیر دی۔ ثابت کیا کہ پولیس سب سے بڑی خود کرمینل ہے۔ پولیس میں خواتین افسرو اہلکاروں کے بڑے مسائل ہیں۔ پولیس خواتین میری بیٹیوں و بہنوں کی طرح ہیں۔ بڑی عزت کرتا ہوں۔ چاہتا ہوں کہ وہ اس عذاب سے نکلیں۔ سوڈیڑھ سو افسروںکی فہرستیں دے سکتا ہوں کہ کس پولیس افسر کی کتنی کتنی شادیاں، دوستیاں اور کتنے کتنے گھروںمیں کتنی خواتین داشتاﺅںکے طور پر رکھی ہوئی ہیں۔ پولیس کے بارے جج نے بالکل ٹھیک کہا ہے۔ ہر قسم کا جرم پولیس افسران کراتے ہیں۔ پولیس فورس کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔ ملک میں وہ وقت آنے والا ہے کہ بیوروکریٹس و ظالم پولیس والوں کی گردنوں میں کپڑا ڈال کر لوگ سڑکوں پر گھسیٹیں گے۔ ہر صوبے کے آئی جی و دیگر افسران کو اپنی پولیس پر کڑی تنقید کرنی چاہیے۔ صرف پولیس افسران کی شادیوں بارے پتہ کر لیں خوفناک صورتحال نظر آئے گی۔ بڑے بڑے کے چہروں سے نقاب اتر جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بنے چند مہینے گزرے تھے کہ پنڈت نہرو نے کہا تھا کہ پاکستان پانی کی کمی کے باعث ختم ہو جائے گا۔ آج جس طرح ڈیموں میں پانی کم ہو رہا ہے۔ دریاﺅں میں پانی نہ چلنے کی وجہ سے انڈر گراﺅنڈ واٹر نیچے سے نیچے چلا جا رہا ہے۔ لاہور میں پینے کا صاف پانی ساڑھے 600 فٹ نیچے ملتا ہے۔ پنجاب اسمبلی کے عقب میں آخری ٹیوب ویل لگا، جہاں 1350 فٹ نیچے جا کر میٹھا پانی نکلا۔ ایسے ملک کا کیا مستقبل ہے۔ ہم پینے کے پانی کے ہاتھوں محتاج ہو جائیں گے۔ انڈر گراﺅنڈ واٹر میں سب سے مہلک زہر سنکھیا کی معمولی مقدار شامل ہو تی جا رہی ہے۔ لوگ ہیپاٹائٹس سی میں مبتلا ہو کر مر رہے ہیں۔ اتنی خوفناک صورتحال ہے کہ اگر اس مسئلے کا حل تلاش نہ کیا گیا تو پینے کے پانی کے ہاتھوں کینسر، ہیپاٹائٹس، کڈنی وغیرہ کے مریضوں کی تعداد بڑھتی جائے گی۔ بدقسمتی ہے کہ اس ملک کے سیاستدانوں، بیوروکریٹس کو ا پنے گھر بھرنے اور ملک سے باہر پیسہ جمع کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں۔ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس کے چیف جسٹس حضرات ذرا بیوروکریٹس پر تحقیق تو کرائیں کہ کتنوں کے بچے باہر پڑھتے ہیں، ان کی تنخواہ اور باہر بھیجی جانے والی رقم سے اندازہ لگا لیں۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن مہینہ، 2مہینہ آگے پیچھے ہو سکتے ہیں، غیرمحدود وقت کےلئے ٹالنا مشکل ہو گا۔ ملک میں الیکشن ہو کر رہیں گے۔ دعا ہے کہ عوام بہتر لیڈرشپ منتخب کر سکیں۔ جنوبی پنجاب میں الگ صوبے کے حوالے سے موومنٹ چل پڑی ہے۔ شہباز شریف نے اچھا فیصلہ کیا تھا کہ ملتان میں سیکرٹریٹ بنا کر وہاں ایڈیشنل چیف سیکرٹری و ایڈیشنل آئی جی بٹھائیں گے۔ جگہ بھی مخصوص ہو گئی اور اس کی تعمیر بھی شروع ہونے والی تھی پھر پتہ نہیں ان کو کس عقلمند نے مشورہ دیا کہ یہ کام نہ کریں۔ اب شہباز شریف صاحب آپ جتنا مرضی شور مچالیں، کوشش کر لیں ٹرین آپ کے ہاتھ سے نکل چکی ہے۔ کاش آپ اس علاقے کے لوگوں کو صوبہ نہیں دے سکتے تو کم سے کم سیکرٹریٹ ہی دے دیتے۔ میری خواہش ہے کہ اورنج ٹرین ہارون آباد، بہاولپور میں بھی ہو۔ نیشنل فنانس کمیشن جس طرح صوبوں کو آبادی کی بنیاد پر فنڈز دیتا ہے پنجاب میں بھی ہر ضلع کو اس کی آبادی کی بنیاد پر فنڈز دیں تاکہ اسے اسکے حقوق مل سکیں۔ قانون دان خالد رانجھا نے کہا کہ نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو جو ڈھیل دی جا رہی ہے، یہ گلے کا رسہ بن جائے گا۔ نواز شریف بضد ہیں کہ عدلیہ کی تضحیک کرنی ہے، لگتا نہیں کہ اس میں تبدیلی آئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عدالت کا فیصلہ الفاظ کی ادائیگی میں بہت اہم ہوتا ہے۔ میرے خیال میں اس لہجے میں عدالت تنبیہہ کر رہی تھی، ڈانٹ پلا رہی تھی۔ عدلیہ مخالف تصاویر پر پابندی کے پہلے فیصلے کو رپورٹر حضرات ٹھیک طرح سے سمجھ نہیں پائے۔

پاکستان میں ووٹ کے تقدس کو تماشا بنا دیا گیا: نواز شریف

اسلام آباد(ویب ڈیسک) اسلام آباد میں ایک سیمینار سے خطاب میں سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف کا کہنا تھا کہ کروڑوں عوام کا مقبول نعرہ”ووٹ کوعزت دو“بن چکا ہے۔ یہ نعرہ اپنے اندر پاکستان کی ساری تاریخ سموئے ہوئے ہیں۔ قائدِ اعظم کی جدوجہد جمہوری اصولوں پر مبنی تھی۔ جمہوریت آج کوئی اجنبی نظریہ نہیں، عوام کی حکمرانی کا نام ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں جمہوریت آج بھی قدم نہیں جما سکی ہے۔ پاکستان میں ووٹ کے تقدس کو تماشا بنا دیا گیا ہے۔نواز شریف نے کہا کہ عوام ووٹ کے ذریعے اپنا فیصلہ سناتی ہے۔ مہذب قومیں عوام کے فیصلے کا احترام اور تمام ملکی ادارے بھی تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن عوام کی پسند کے بجائے مطلب کے حکمران تلاش کرنا، اسے ووٹ کی توہین کہا جا سکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بد قسمتی سے پاکستان کی پوری تاریخ اس تماشے سے بھری پڑی ہے۔ جمہوری قوتوں کو غیر جمہوری ہتھکنڈوں کا نشانہ بنایا گیا اور عوام کی رائے کو بار بار کچلا گیا۔ ستر سال سے یہ کھیل جاری ہے۔ جب عوام کے فیصلے کو ناکام بنانے کے منصوبے بنائے جاتے ہیں تو مطلب عوام کی رائے کو کچلنا ہے۔ کسی کو حکمرانی کا حق دینا عوام کا اختیار ہے۔ عوامی عدالت کے فیصلے کو تسلیم کیا جائے، ممکن ہے کچھ حلقوں کو فیصلہ پسند نہ آئے۔

پاکستان کبڈی لیگ کا آغاز مئی سے لاہور میں ہوگا

لاہور (ویب ڈیسک ) پی ایس ایل کی مقبولیت کے بعد دیسی کبڈی کو بھی ولائتی ٹچ دینے کی تیاری کر لی گئی، پاکستان کی پہلی کبڈی لیگ کا مئی سے لاہور میں آغاز ہوگا۔ شاندار مقابلہ شروع ہونے سے پہلے ہی سوشل میڈیا پر ہِٹ ہو گیا، شائقین کی دلچسپی نے ایونٹ کو ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بنا دیا ہے۔شائقین کبڈی کبڈی کیلئے تیار ہو جائیں کیونکہ دیسی کبڈی میں ولایتی تڑکے کا مزہ لگنے والا ہے اور پاکستان کی پہلی کبڈی لیگ کا مئی سے لاہور میں آغاز ہونے والا ہے۔ ایونٹ سوشل میڈیا پر ہِٹ بلکہ سپر ہِٹ ہو گیا۔ آغاز سے قبل ہی شائقین کی دلچسپی نے مقابلوں کو ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بنا دیا۔ سپر کبڈی لیگ کی ڈرافٹنگ 23 اپریل کولاہور میں ہو گی۔ 10 ملکوں کے 120 سے زائد کھلاڑی شرکت کریں گے، 8 ٹیموں میں زور کا جوڑ پڑے گا۔صرف یہ ہی نہیں خواتین کبڈی کھلاڑیوں میں بھی 2 نمائشی میچ کھیلے جائیں گے، ایونٹ کی افتتاحی تقریب یکم مئی کو ہو گی، 2 مئی سے باقاعدہ مقابلوں کا آغاز ہوگا۔

انٹر ڈسٹرکٹ جوڈو چیمپئن شپ ، ٹائٹل گوجرانوالہ کے نام

گوجرانوالہ (ویب ڈیسک ) پنجاب انٹر ڈسٹرکٹ جوڈو چیمپئن شپ گوجرانوالہ نے جیت لی۔ فاتح کھلاڑیوں میں انعامات تقسیم کیے گئے، چیمپئن شپ میں پنجاب بھر سے 150 کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔ سٹی سپورٹس کمپلیکس میں سپورٹس ڈیپارٹمنٹ کے زیر اہتمام ہونے والے پنجاب انٹر ڈسٹرکٹ جوڈوچمپیئن شپ میں پنجاب کے چودہ اضلاع سے تعلق رکھنے والے 150کھلاڑیوں نے حصہ لیا جن کے درمیان مختلف اوزان کے حساب سے مقابلے ہوئے۔جوڈو کے ان مقابلوں میں کھلاڑی اپنے مخالف کو چت کرنے کے لیے مختلف داو¿ پیچ لڑاتے رہے۔ کھلاڑیوں نے ان مقابلوں کی لیے خوب محنت کر رکھی تھی تاہم سخت مقابلوں کے بعد گوجرانوالہ نے جوڈو چمپئین شپ جیت لی۔ جوڈو جاپانی کشتی ہے۔ پاکستان میں اس کھیل میں بہت ٹیلنٹ پایا جا تا ہے۔

الشیعرات ایئربیس پر حملہ ہوا جسے ناکام بنا دیا گیا، شام کے سرکاری ٹی وی کا دعویٰ

لاہور (ویب ڈیسک) شام کے سرکاری ٹی وی نے دعویٰ کیا ہے کہ حمص کے قریب الشیعرات ائیربیس پر میزائل حملہ کیا گیا جسے شامی ڈیفنس سسٹم نے ناکام بنا دیا، ادھر امریکا نے شام پر میزائل حملے کی تردید کی ہے۔دوسری جانب روس نے ایک بار پھر کہا ہے کہ امریکا شام میں ریڈ لائن عبور نہ کرے، اوپی سی ڈبلیو کے کیمیائی ماہرین بدھ کو دوما جائیں گے۔ شامی سرکاری ٹی وی نے دعویٰ کیا ہے کہ حمص کے قریب الشیعرات ائیربیس پر میزائل حملہ کیا گیا جسے شامی ڈیفنس سسٹم نے ناکام بنا دیا۔ میڈیا نے یہ نہیں بتایا کہ میزائل کس نے داغے، البتہ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے حمص میں کسی قسم کی کارروائی کی تردید کی ہے۔دوسری جانب روس نے ایک بار پھر خبردار کیا ہے کہ امریکا شام میں ریڈ لائن عبور نہ کرے، روسی پارلیمان کی خارجہ کمیٹی نے ایک بیان میں کہا ہے اگر ایسا ہوا تو روس سخت ردعمل دے گا۔ ادھر روسی وزارت خارجہ کا کہنا ہے عالمی ادارے اوپی سی ڈبلیو کے کیمیائی ماہرین بدھ کو دوما جائیں گے جہاں مبینہ کیمیائی حملہ کیا گیا۔ وزرات خارجہ نے ایک بیان میں تردید کی ہے کہ او پی سی ڈبلیو کے کیمیائی ماہرین کو دوما جانے سے روکا جا رہا ہے۔ دوسری جانب دوما کے اسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹر مروان جابر Marwan Jaber نے میڈیا کو بتایا کہ کیمیائی حملہ نہیں کیا گیا۔ گرد اور دھویں کی وجہ سے سانس کی تکلیف میں مبتلا کچھ لوگوں کو اسپتال لایا گیا جنکا علاج کیا گیا۔