رُستم زماں گاما پہلوان اور سانپ”کون بڑا پہلوان نکلا“کون جیتا کون ہارا؟سنسنی خیز خبر

اسلام آباد (ویب ڈیسک) زندگی اور موت کا سفر دکھنے میں تو کئی سالوں پر محیط نظر آتا ہے مگر اپنی ہی زندگی پر غور کیا جائے تو احساس ہوتا ہے جیسے ابھی کل ہی کی تو بات تھی۔ اپنا بچپن اور جوانی اس قدر تیزی سے بیتتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں جیسے ہوا کا جھونکا ہو یا بجلی کی کوند کہ بس پلک جھپکی نہیں اور وقت کو گھوڑا پر لگائے اُڑ گیا۔ زندگی اس مالک کی دین ہے جس نے واضح احکامات دیے اور بتا دیا کہ یہ راستہ صحیح ہے اور یہ غلط۔ غلط کریں گے تو جہنم آپ کا مقدر ہوگی اورصحیح کریں گے تو جنت کے حقدار ٹھہریں گے۔اللہ رب العزت خالق کائنات ہیں اور اور یہ ان کی قدرت ہے کہ بس ”کُن“ کہتے ہیں اور کام ہو جاتا ہے۔ یہ بھی برحق ہے کہ وہ اللہ کو اپنی مخلوق سے اس قدر پیار ہے کہ وہ ہمیں سب کچھ بتا دینے کے باوجود ہمیں سدھارنے کیلئے اپنی نشانیاں دکھاتے رہتے ہیں۔ پہلے دو واقعات پاکستان کی دو الگ الگ شخصیات کی وصیتوں سے متعلق ہیں جو پوری نہ ہو سکیں مگران دونوں کا انجام کتنا مختلف اورباعثِ عبرت ہوا۔ ان دونوں واقعات کو پڑھ کر جو بھی نتیجہ اخذ کریں لیکن قدرت کے رنگوں پر حیران ضرور ہوں گے۔ وصیتیں جو پوری نہ ہو سکیں دنیا کے کسی بھی شہ سوار سے شکست نہ کھانے والا کوہِ گراں رستم زماں گاماں پہلوان 23مئی 1960ءکی صبح موت سے شکست کھا گیا۔گاماں پہلوان کو رمضان المبارک میں سحری کے وقت ایک نہایت ہی زہریلے سانپ نے کاٹ لیا تھا۔گاماں پہلوان کو ان ہی کے ذاتی تانگے پر میو ہسپتال لایا گیا۔یہ ایک بہت ہی زہریلا سانپ تھا اور کسی عام آدمی کو کاٹتا تو وہ فوراًہی لقمہ اجل بن جاتا مگر گاماں پہلوان اس سانپ کے زہر سے بھی بچ گئے۔ صحت یاب ہونے کے بعد گاماں پہلوان نے کہا کہ سانپ نے دانت میرے پاﺅں میں گاڑھ دیئے لیکن میں نے پوری قوت سے اسے زمین پر رگڑا تویہ الگ ہوااورمجھے یوں لگا جیسے میں جلتے تنور میں گرگیا ہوں۔گاماں پہلوان اس واقعہ کے بارہ سال بعد طبعی موت کا شکار ہوئے۔ان کی وصیت کے مطابق انہیں پیر مکی کے مزار احاطہ میں دفن کیا جانا تھا۔پیر مکی کے صحن میں قبر کی کھدوائی شروع ہوئی تو ایک مجاور خاتون نے ڈپٹی کمشنر کو دہائی دی کہ کچھ لوگ پیر مکی کے صحن میں زبردستی قبر بنانے جا رہے ہیں جنہیں ایسا کرنے سے روکا جائے۔طویل بحث کے بعد گاماں پہلوان کو جوگی خاندان کے ذاتی قبرستان میں دفن کردیا گیا اور یوں ان کی آخری خواہش جسے پورا کرنا دشمن بھی اپنا فرض سمجھتا ہے ، پوری نہ ہو سکی۔ ایک دوسرے واقعہ پر نظر دوڑائیں توعبرت کی ایک بدترین مثال ابھر کر سامنے آتی ہے۔ 29اگست 1952ءکو پاکستان کے گورنر جنرل ملک غلام محمد فوت ہوئے۔ان کی وصیت کے مطابق انہیں سعودی عرب میں دفنایا جانا تھا لہٰذا انہیں امانتاًکراچی میں سپردِخاک کر دیا گیا۔کچھ عرصہ بعد وصیت کے مطابق ان کی لاش کو قبر سے نکال کر سعودی عرب روانہ کرنے لگے توایک ڈاکٹر، فوج کے کیپٹن، پولیس اہلکا ر، دوگورکن اور غلام محمد کے قریشی رشتہ دار قبرکشائی کے لیے قبر ستان پہنچے۔ گورکن نے جیسے ہی قبر کھودی اور تختے ہٹائے تو تابوت کے گرد ایک سانپ چکر لگاتا دکھائی دیا، گورکن نے لاٹھی سے اس سانپ کو مارنے کی کوشش کی ،مگر وہ ہر وار سے بچ گیا۔پولیس کے سب انسپکٹر نے اپنی پستول سے چھ گولیاں داغ دیں،مگر سانپ کو ایک بھی گولی نہ لگی۔ڈاکٹر کی ہدایت پر ایک زہریلے سپرے کا چھڑکاﺅکر کے قبر عارضی طور پر بند کر دی گئی۔دو گھنٹے کے بعدجب دوبارہ قبرکھودی گئی تو سانپ اسی تیزی سے قبر میں چکر لگا رہاتھا۔چنانچہ باہمی صلاح مشورے کے بعد قبر کو بند کر دیا گیا اور اگلے دن ایک مشہور اخبار میں چھوٹی سی خبر شائع ہوئی جو کچھ یوں تھی: ”سابق گورنر جنرل غلام محمد کی لاش سعودی عرب نہیں لے جا ئی جاسکی اور وہ اب کراچی ہی میں دفن رہے گی۔

سال 2018: پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے 100 انڈیکس میں 8.7 فیصد کمی ہوئی

کراچی(ویب ڈیسک) سال 2018 میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے 100 انڈیکس میں 8.7 فیصد کمی ہوئی۔سال 2018 میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں اتار چڑھاو¿ جاری رہا اور 100 انڈیکس میں سال کا اختتام 3385 پوائنٹس کمی کے ساتھ 37085 پر ہوا۔سال 2018 میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں 16 ارب 71 کروڑ حصص کے سودے ہوئے جن کی مالیت 1945 ارب روپے رہی۔پی ایس ایکس میں سال کے 246 دن کاروبار ہوا جن میں سے 129 دن منفی رہے جب کہ سال 2018 میں بلند ترین سطح 47148 اور کم ترین 36274 رہی۔100 انڈیکس نے 10874 پوائنٹس کے بینڈ میں کاروبار کیا، انڈیکس میں کاروباری دن میں سب سے زیادہ اضافہ 1556 پوائنٹس رہا جب کہ 1335 پوائنٹس کی گراوٹ سب سے بڑی رہی۔

کیا آپ اپنی موجودہ عمر سے 10سال چھوٹا نظر آنا چاہتے ہیں؟؟ تو یہ خبر آپ ہی کیلئے ہے۔۔۔

نیویارک(ویب ڈیسک) ہرانسان کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ وہ ہمیشہ جوان رہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ عمر ڈھلتی ہے اور بڑھاپا اپنی جگہ بنا لیتاہے۔ہم آپ کو ہمیشہ جوان رہنے کے لئے کوئی آب حیات تو نہیں بتاسکتے لیکن ایک ایسا نسخہ ضرور بتاسکتے ہیں جسے استعمال کرکے آپ اپنی عمر سے 10سال کم نظر آئیں گے۔اس نسخے کے لئے آپ کو مندرجہ ذیل اشیاءکی ضرورت ہوگی آدھا کیلا تین چمچ جو کا دلیہ دہی میں ملا ہوا ایک چمچ شہد ایک انڈابنانے کا طریقہ
:کیلے کو انڈے ،شہد اور دیگر اجزاءمیں ڈال کر اچھی طرح مکس کرلیں اور اس مواد
کو اپنے چہرے پر 15منٹ تک لگا رہنے دیں۔یاد رہے کہ اس مواد کو لگانے سے قبل چہرے کو اچھی طرح دھو لیں تا کہ تمام جراثیم اور مٹی صاف ہوجائے۔یہ ماسک تمام عمر اور جلد کے لوگ لگا سکتے ہیں۔کیلے میں فائبر پایا جاتا ہے جو کہ جلد کے لئے بہت زیادہ مفید ہونے کے ساتھ اسے نرم و ملائم بنا دیتا ہے اور ساتھ ہی چہرے کے کیل مہاسوں کو ختم کرتا ہے۔شہد کی وجہ سے ہماری جلد میں پانی کی کمی ختم ہوتی ہے جبکہ جو اور دہی کے ملاپ سے لیکٹک ایسڈ بنتا ہے جو کہ جلد کو تازہ کردیتاہے۔

ابو حکومت نہیں گرا سکے تو بلاول کیسے گرائیں گے: فواد چوہدری

اسلام آباد (ویب ڈیسک)وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ اگر ابو حکومت نہیں گرا سکے تو بلاول کیسے پی ٹی آئی کی حکومت کو گرائیں گے۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ نواز شریف اور زرداری کی سیاست کا تو ایک ہی طریقہ رہ گیا ہے کہ ہم اپنے قوانین میں کرپشن کی تعریف تبدیل کر کے اسےجائز قرار دیدیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم کرپشن کو لیگلائز نہ کریں تو نواز شریف اور زرداری کی سیاست دفن ہو جاتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم حکومت ہیں اور ہماری کچھ ذمہ داریاں ہیں، ہم وہ ذمہ داریاں پوری کر رہے ہیں۔فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان سی او ڈی کیا تھا؟ ہماری چوری پر آپ اور آپ کی چوری پر ہم پردہ ڈالیں گے۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی چوری کل تو نہیں ہوئی، حدیبیہ اور العزیزیہ اور لندن فلیٹس کے بارے میں سب کو پتہ ہے، تمام صحافی حضرات ان کے مہمان رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ زرداری صاحب کا سندھ اور شریف خاندان کا پنجاب اور باقی جگہوں پر نیٹ ورک چل رہا تھا۔ان کو پتہ نہیں تھا کہ عمران خان اکیلا دونوں پارٹیوں سے زیادہ سیٹیں لے لے گا، ساری اسکیم ناکام اس وقت ہوئی جب عمران خان دونوں جماعتوں سے زیادہ سیٹیں لے گیا۔چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اگر ابو تحریک انصاف کی حکومت نہیں گرا سکے تو آپ کیسے گرائیں گے، بلاول بھٹو اپنی فکر کریں۔پیپلز پارٹی کی رہنما نفیشہ شاہ کے بیان پر ردعمل میں فواد چوہدری نے کہا کہ گدھ اور گیڈر تو سندھ سے چمٹے ہوئے ہیں، گدھ اور گیڈر بھی وہ سلوک نہیں کرتے جو آپ لوگوں نے سندھ کے عوام کے ساتھ کیا ہے۔ان کا کہنا تھاکہ پیپلز پارٹی نے غریب سندھیوں کا پیسہ یہاں سے چوری کیا اور لندن اور دبئی میں محلات قائم کیے۔سندھ میں گورنر راج کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ ہم تو نہیں کہہ رہے کہ سندھ میں گورنر راج لگنا چاہیے، چونکہ ان کی بنیادیں کمزور ہیں اس کی وجہ سے انہیں ایسا محسوس ہو رہا ہے۔فواد چوہدری نے کہا کہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوں کیونکہ جے آئی ٹی میں ان پر سنگین نوعیت کے الزامات سامنے آئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے وزیراعظم نے بھی کہا ہے کہ ایک وزیراعلیٰ جس کا نام ای سی ایل میں ہو وہ کیسے بیرون ملک جائے گا۔انہوں نے کہا کہ مراد علی شاہ کو اخلاقی طور پر عہدے سے مستعفی ہو جانا چاہیے اور پیپلز پارٹی ان کی جگہ جس کو چاہے وزیراعلیٰ لگا دے۔فواد چوہدری نے کہا کہ حکومت نے کسی بھی شخص کا نام ای سی ایل میں خود سے نہیں ڈالا، جن افراد کا نام جے آئی ٹی میں آیا ان کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے وفاقی کابینہ نے منظوری دی۔انہوں نے مزید بتایا کہ ماضی میں ہمارے سامنے مثالیں موجود ہیں کہ جب کرپشن کیسز میں ملوث لوگ بیرون ملک گئے تو پھر واپس وطن نہیں آئے۔سابق وزیر خزانہ کا نام لیتے ہوئے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اسحاق ڈار سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے دور میں سرکاری دورے پر بیرون ملک گئے اور پھر واپس نہیں آئے۔انہوں نے مزید بتایا کہ ایس ای سی پی کے سابق چیئرمین بھی بیرون ملک گئے اور واپس نہیں آئے، اسی طرح حسین حقانی ملک سے گئے اور انہیں آج تک ہم ڈھونڈ رہے ہیں۔وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ یہ تاثر پیدا کیا جا رہا تھا کہ گویا ہم سندھ حکومت کا تختہ الٹنے کی بات کر رہے ہیں، آج مجھے سندھ کا دورہ کرنا تھا اور مختلف لوگوں سے ملاقاتیں کرنا تھیں۔آج سپریم کورٹ میں اصغر خان کیس کی سماعت سے بھی یہ مو¿قف گیا کہ ہم حکومت گرانا چاہتے ہیں، اس لیے وزیراعظم نے یہ فیصلہ کیا کہ یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ ہم سندھ حکومت کی تبدیلی چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سندھ میں دباو¿ تحریک انصاف کا نہیں بلکہ ایم پی ایز کا ہے، حکومت کو مینڈیٹ دینا عوام کا حق ہے اور وزیراعلیٰ رکھنا ایوان کا حق ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہماری نصیحت ہو گی کہ مراد علی شاہ اس عہدے سے خود ہٹ جائ?ں، اگر وہ خود نہ?ں ہٹیں گے تو اسمبلی ہٹا سکتی ہے وہ بھی ایک جمہوری عمل ہو گا۔

بھارتی خفیہ ایجنسی کی شرمناک سازش ،کراچی کے امن کو برباد کرنیکا ایسا پلان کہ سب کو جھٹکا لگ گیا

اسلام آباد(ویب ڈیسک)شہر قائد کراچی کے امن کو خراب کرنے میں بھارتی خفیہ ایجنسی را ملوث نکلی۔ حالیہ دہشت گردی کے واقعات میں را کے سلیپر سیلز نے شہر قائد کے امن کو خراب کیا۔ذرائع کے مطابق کراچی کے امن کو برباد کرنے کے پیچھے بھارتی ایجنسی کی سازش بے نقاب ہو گئی۔ کراچی میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کی گتھیاں سلجھنے لگیں۔ بین الاقوامی قوتوں کو شہر قائد کی رونقیں کھٹکنے لگیں۔ ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ شہر میں دہشت گردی کے واقعات کے تانے بانے بھارتی خفیہ ایجنسی “را” سے ملے ہیں۔ تمام واقعات کے لیے سلیپر سیلز کو استعمال کیا گیا۔ ذرائع نے انکشاف کیا کہ قائد آباد کے دھماکے اور چینی قونصل خانے پر حملے میں بھارتی خفیہ ایجنسی کے سلیپر سیل استعمال ہوئے۔ ڈیفنس میں گاڑی میں مبینہ دھماکے اور حالیہ سیاسی ٹارگٹ کلنگ میں بھی “را” کے سلیپر سیل استعمال کیے گئے۔ تفتیش کاروں نے اب تک 7 سے زائد افراد کو حراست میں لے کرتفتیش شروع کر دی ہے۔واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں کراچی میں امن وامان کی صورتحال خراب ہوئی ہے۔

ماہا نہ 10کروڑ کمانے والے 5سالہ بچے کی سوشل میڈیا پر دھوم

اسلام آباد (ویب ڈیسک) اس دنیا میں 2طرح کے انسان ہیں۔ ایک وہ جو کاروبار کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو نوکری کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک بالکل نئی قسم لوگوں کا اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا ہے۔ اور اس کام سے آج کل لوگ بہت پیسے بھی کما رہے ہیں۔ ہم اپنے قارئین کو جس بچے کی خبر دینے جا رہے ہیں وہ بھی عام سے بچوں کی طرح ایک عام سا بچہ ہے مگر اس نے اپنی زندگی کے خوبصورت لمحات کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کیا اور آج وہ ہزاروںمیں نہیں ، لاکھوں میں بھی نہیں بلکہ کرورڑوں میں کھیل رہا ہے۔ ریان کو عام بچوں کی طرح کھلونا کاروں سے کھیلنا، ٹرائی سائیکل کی سواری کرنا اور واٹر سلائیڈ پر پھسلنا پسند ہے جسے ریان کی ماں فلم بند کرتی ہے اور یوٹیوب پر ڈالتی ہے۔ ریان کا پسندیدہ کام کھلونوں پر تبصرے کرنا ہے۔ اس کے یہ تبصرے دنیا بھر کے بچوں میں مقبول ہے۔ ان کی مقبولیت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ ریان کے چینل کے سبسکرائبر زکی تعداد 58 لاکھ سے زیادہ ہے جبکہ اس کی ویڈیوز 9 ارب سے زیادہ بار دیکھی جا چکی ہیں۔ریان کی فیملی نے اس کا چینل 2015 میں بنایا۔ شروع میں ریان کی ویڈیو دیکھنے والے کچھ زیادہ لوگ نہیں تھے مگر 4 ماہ بعد اس کے سبسکرائبر اور ویوز کی تعداد تیزی سے بڑھنا شروع ہوگئی۔ریان کا یہ چینل اتنا مشہور ہوا کہ ریان کی ماں، جس نے اب تک اپنا نام ظاہر نہیں کیا، نے اپنی ہائی سکول میں کیمسٹری ٹیچر کی ملازمت چھوڑ دی اور فل ٹائم یوٹیوب ویڈیوز بنانے لگی، جس سے ریان کو لاکھوں ڈالر ملنے لگے۔ریان کی ویڈیو امریکا اور دنیا بھر میں اتنی مقبول ہوئیں کہ پچھلے 18 ہفتوں سے Ryan ToysReview چینل امریکا میں سب سے مقبول اور دنیا بھر میں دوسرا سب سے زیادہ مقبول چینل ہے۔ریان کے چینل کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی ایک مہینے کی آمدن ایک ملین ڈالر ہے۔جو پاکستانی تقریباً دس کروڑ بنتے ہیں۔

2018 تبدیلی کا سال: کسے عروج ملا اور کسے زوال؟

اسلام آباد (ویب ڈیسک)” 2018 کو سیاست میں تبدیلی“کا سال کہنا غلط نہیں۔ اس سال کی ایک اور خاصیت یہ بھی ہے کہ اس سال ملکی تاریخ میں پہلی باردوسری جمہوری حکومت نے اپنی ٹرم پوری کی، عام انتخابات ہوئے، جمہوریت نے غیر جمہوری قوتوں کو شکست دی اور تیسری سیاسی حکومت اقتدار میں آئی۔ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات ایک طرف لیکن یہ حقیقت ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں نے جمہوریت کے راستے میں ایک سنگ میل عبور کرتے ہوئے قدم آگے بڑھا یا۔ اپنے ذاتی مفادات اور تنازعات کو پس پشت ڈال کر اسمبلیوں میں مسائل پر بات چیت کو ترجیح دی۔ یقیناً اسی کو حقیقی جمہو ریت کے جانب کامیابی سے سفر جاری رکھنے کا عزم کہتے ہیں۔ اس طرح 2018 ناصرف انتخابات کا سال رہا جس میں 2008 اور 2013 کے بعد ملکی سیاست میں ایک تبدیلی آئی اور تیسری بار جمہوری عمل کے نتیجے میں ایک سیاسی تبدیلی آئی۔2018 نے سیاست میں چند بڑے لیڈروں اور جماعتوں کا عروج و زوال دیکھا۔ گزشتہ سال سیاست میں جن تین بڑے نام میڈیا اور عوام کی توجہ کا مرکز رہے وہ تھے عمران خان، نواز شریف اور خادم رضوی جن کی سیاسی منظر نامے پر اچانک آمد اور خروج سے کئی سوالات نے جنم لیا۔چلیں تحریک لبیک پاکستان ، ٹی ایل پی، سے ابتدائ کرتے ہیں۔ یہ جماعت 2017 میں نواز دور میں ایک طاقتور مذہبی گروپ کی صورت میں سامنے آئی اور تحریک لبیک ناصرف ن لیگی حکومت کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی بلکہ 2018 کے عام انتخابات میں بڑی سیاسی قوت بن کر کئی برج الٹ دیے۔ لوگ تو یہاں تک کہہ گئے کہ اس جماعت نے انتخابات کے نتائج پر اثرانداز ہو کر ن لیگ ، پیپلزپارٹی اور دیگر کی جیت میں رکاوٹ بنی۔ اگرچہ اس کے امیدوار کراچی سے سندھ اسمبلی کی دو نشستوں چھوڑ کر تمام حلقوں سے ہار گئے۔ تاہم اس کے امیدوارں نے 25 ہزار سے 45 ہزار اور کہیں کہیں تو اس بھی زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ اگر تحریک لبیک نے پنجاب میں نواز لیگ کو نقصان پہنچایا تو سندھ اور خصوصاً کراچی میں ایم کیو ایم پاکستان کی جیت کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوئی۔تحریک لبیک پاکستان کے لیڈران بشمول اس کے شعلہ بیاں قائد خادم رضوی اب غداری کے الزامات پر قید ہیں۔ ان مذہبی رہنماو¿ں پر تحریک انصاف حکومت کے خلاف تین روزہ دھرنے کے دوران متنازعہ تقاریر کرنے کے ساتھ عوام اور اہم حکومتی اداروں کو بغاوت پر اکسانے کے الزامات ہیں۔ الیکشن کمیشن میں اس جماعت کی رجسٹریشن کینسل کرنے کی درخواست بھی دائر ہے۔2018 کو تبدیلی کا سال اس لیے بھی کہتے ہیں کیوں کہ اس سال “تخت لاہور ” پر تبدیلی کے ساتھ “کراچی میں تختہ” ہو گیا۔گزرے برس سب نے سیاسی افق پر کئی واقعات رونما ہوئے جس میں فعال عدلیہ، پر اعتماد اسٹبیلشمنٹ اور 25 جولائی کو آنے والی تبدیلی۔اگر ن لیگ کے ہاتھوں سے “تخت لاہور” نکل گیا تو متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کو سندھ میں عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ایم کیو ایم پاکستان قومی اسمبلی میں 2013 کی جیتی ہوئی 17 نشستوں میں سے صرف 6 پر ہی کامیاب ہو سکی جس میں کراچی کی چار اور حیدرآباد کی دو نشستیں شامل ہیں۔ اگر ہم متحدہ سے متحدہ پاکستان کی تبدیلی پر بات کریں تو اس کے لیے علیحدہ مضمون لکھنے کی ضرورت پڑے گی۔ ایم کیوایم پاکستان کی شکست میں جہاں تحریک لبیک رکاوٹ بنی وہیں اس جماعت میں پڑنے والی دراڑیں اور اس کے حصے بخیے ہونا بھی اہم تھا جس کی کچھ معلوم اور نامعلوم وجوہات تھیں ان تمام اسباب نے تحریک انصاف کو جیت کے مواقع فراہم کیے۔کراچی میں آنے والی سیاسی تبدیلی نے ایم کیو ایم کی سیاست پر نظر رکھنے والوں کے لیےکچھ انہونی بات نہیں تھی مگر جس بات نے سب کو حیرت میں ڈال دیا وہ “تخت لیاری” کا خاتمہ تھا۔ جس شکست نے سب کو حیرت زدہ کیا وہ لیاری سے “بھٹو” کی ہا ر تھی اور وہ بھی پی پی پی کے سابق کارکن اور پی ٹی آئی کے موجودہ رکن شکور شاد سے۔ اگرچہ کچھ عرصے سے پیپلز پارٹی اس حلقے میں مشکلات کا شکار چلی آ رہی تھی جس کی بنیادی وجہ عزیر بلوچ کی حمایت تھی مگر اس کے باوجود”بھٹو” کی اس حلقے سے ہار نے سب کو چونکا دیا۔ کچھ تبصرہ کار بےنظیر کی سیاست کی باگ ڈور آصف زرداری کے ہاتھ میں آنا قرار دیتے ہیں جو پیپلز پارٹی کی پاکستان بھر سے شکست بنی لیکن لیاری کی ہار لاڑکانہ کی سیٹ ہارنے سے کسی طور کم نہیں ہے۔جو دو رہنما پاکستان کے سیاسی افق پر چھائے رہے وہ تھے عمران خان اور نواز شریف۔ ایک وزیراعظم کے عہدے پر براجمان ہوا تو دوسرا جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلا گیا اور سال کے اختتام تک مشکلات کا شکار۔۔کیوں کہ اس کی جماعت مسلم لیگ نواز تمام تر مخالف حالات کے باوجود متحد ہے اور مستقبل قریب میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات پر نظریں لگائے ہوئے ہیں۔2018 نے موروثی سیاست کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔ وجہ ؟ غیر یقینی کی صورت حال کا چھائے رہنا۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت بچوں میں منتقل ہورہی تھی۔ نواز لیگ کی قیادت مریم نواز کے سپرد ہونے کو تھی جبکہ بلاول بھٹو نے آصف علی زرداری کے جانشین کے طور پر پیپلز پارٹی کی عملی قیادت سنبھال لی۔ مریم نواز کے سیاسی مستقبل کا دارومدار ان کے خلاف مقدمات کے فیصلے پر منحصر ہے۔ اگر وہ اس مرحلے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو وہ عمران خان اور تحریک انصاف کے لیے سنگین خطرہ بن سکتی ہیں۔نواز شریف خاندان اور خاص طور پر مریم نواز اپنی والدہ کلثوم نواز کی موت کے صدمے سے باہر نہیں آسکی ہیں جن کا طویل علالت کے بعد ایک ایسے وقت انتقال ہوا جب ان کے شوہر نواز شریف اور بیٹی مریم صفدر پاکستان میں قید تھے۔ مشرف دور میں نواز شریف کی اٹک قلعے میں قید کے دوران مرحومہ کلثوم نواز کی جدوجہد اور ایک کامیاب تحریک چلانے کو سیاسی حلقے ستائش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔بلاول بھٹو اور پیپلز پارٹی کا المیہ یہ ہے کہ بلاول اپنے والد آصف علی زرداری کی موجودگی میں پارٹی کی قیادت سنبھالنے کے لیے جگہ بنانے کی کوشش میں ہیں۔ پی پی پی کے اہم رہنماووں کا کہنا ہےپارٹی رہنما آصف زرداری سے پارٹی قیادت سے سبکدوش ہو کر اسے بلاول کو سپرد کرنے کا مشورہ دے چکے ہیں تاہم وہ ابھی پارٹی قیادت چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں اور یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں کہ وہ کب قیادت کی ذمہ داری بلاول کے شانے پر منتقل کرتے ہیں۔2018 کے عام انتخابات “تبدیلی”کا نعرہ متعارف کروانے والے عمران خان نے اپنے سیاسی ناقدین کو غلط ثابت کیا۔ میں عمران خان کو ان کے سیاسی زندگی کے ابتدائی ایام سے جاننتا ہوں ، 1996 میں تحریک انصاف کی بنیاد رکھنے سے بھی پہلے سے۔ جب ان کی زمان پارک رہائش گاہ میں ان کے 15 سے 20 دوست یا ساتھی ہوا کرتے تھے۔ یہ افراد کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ ان میں اپنے اپنے شعبوں کے ماہرین کے علاوہ معروف صنعت کار اور کاروباری افراد ہوتے تھے۔حیران کن طور پر 1992 کرکٹ ورلڈکپ جیتنےوالا کپتان ملک ایک وزیر اعظم بن گیا۔ 22 سال کرکٹ کی دنیا میں کامیابی کے ریکارڈ بنانے اور پھر 22 سال اپوزیشن کی سیاست کرنے والا عمران خان نوجوان نسل کا مقبول ترین لیڈر ہے۔ کرکٹ اور سیاست دونوں میدانوں میں ان کی زندگی کامیابی اور ناکامی کے ادوار سے گزری لیکن جس چیز نے ان کو کامیاب کیا وہ ان کا ” جیتنے کا عزم اور ثابت قدمی”تھا۔عمران خان 65 سال کی عمر میں بھی اکثر نوجوان سیاستدانوں سے کہیں زیادہ تندرست اور فٹ ہیں جن کو اگلے پانچ برس کے دوران اپنی سیاسی حکمت عملی کو کامیاب ثابت کرنا ہے۔ ان کی حکومت کے پہلے 100 دن تنازعات کا شکار رہے جس میں انہوں نےغیر مقبول اور برے فیصلوں کے علاوہ بلند و بانگ دعوے اور وعدے کیے گئے۔لہٰذا انہیں اب 2019 کو حقیقی تبدیلی کا سال بناکر اپنے مخالفین کو خاموش کروا نا ہوگا۔آج سےقریب 10 سال پہلے سنہئ 2008 کے بعد عمران خان کی تحریک انصاف نے سیاست میں ہل چل مچانا کرنا شروع کی۔ اگلے تین برسوں میں انہوں نے نہایت کامیابی سے عوام کو یہ باور کروا دیا کہ پی ٹی آئی تیسری بڑی سیاسی قوت ہے جو پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کا متبادل ثابت ہو سکتی ہے۔ 2011 تک آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف نے نے عمران خان کو حقیقی سیاسی حریف سمجھنا شروع کردیا تھا۔عمران خان کو “تبدیلی ” کے علاوہ جس لفظ سے پکارہ گیا وہ تھا ” یو ٹرن”۔ پی ٹی آئی کا سب سے بڑا اور مثبت “یو ٹرن ” 2013 کے عام انتخابات کے نتیجے میں آیا جب ان کی جماعت نے سیاست میں کچھ نئے اور ناتجربہ کار شخصیات کے ساتھ خیبر پختونخوا میں حکومت بنالی۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف پنجاب میں دوسری بڑی سیاسی جماعت کے طور پر ابھری۔ یہ کہنا کہ عمران خان نے آصف علی زرداری کی قیادت میں چلنے والی پیپلز پارٹی کا صوبہ بھر سے صفایا کر دیا تو غلط نہیں ہو گا۔ساٹھ سال سے زائد عمر کو پہنچنا وجہ تھی یا کچھ اور ، عام انتخابات میں کامیابی کی خاطر عمران نے “اسٹیٹس کو ” کے خلاف اپنےموقف کو تبدیل کر کے نامور سیاستدانوں کو پی ٹی آئی میں شامل کر لیا۔ اس بڑی تبدیلی اور”یو-ٹرن “کے باوجود خان صاحب کا بدعنوانوں رشوت ستانی کے خلاف سخت اقدامات جاری ر کھنے کا نعرہ 2016 میں پانامہ لیک سے زیادہ مقبول ہو گیا۔شریف برادران نے پہلے روز سے ہی پاناما گیٹ کے معاملے کی سنگینی کو اہم نہیں سمجھا اور غیر ذمہ دارانہ انداز سے نمٹنے کی کوشش کی۔اور یہی وجہ رہی جو نواز شریف اور ان کا خاندان شدید مشکلات کا شکار ہو نے کا باعث بنی۔ پاناما اسکینڈل کے نتیجے میں 25 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بنچ نے نواز شریف کو نا اہل قرار دے دیا اور یوں عمران خان کی وزیراعظم ہاوس تک پہنچنے کی راہ ہموارہو گئی۔سال کا اختتام نواز شریف کے دوبارہ جیل جانے پر ہوا۔ نئے سال کا آغاز بھی نواز شریف کے لیے پاناما اسکینڈل سے باہر نا آسکنے سے ہوا۔ اب یہ فی ہم صلہ تاریخ پر چھوڑتے ہیں کہ دو مرتبہ وزیراعلیٰ پنجاب اور تین بار وریز اعظم رہنے والے نواز شریف کی سیاست اور اقتدار کیسا رہا؟ اور ان پر بدعنوانی اور غیر قانونی ذرائع سے پیسہ باہر منتقل کرنے کے الزامات میں کتنی صداقت تھی۔نواز شریف اور عمران خان دونوں میں ایک چیز مشترک دکھائی دی، وہ یہ کہ دونوں نے پاکستان کے شہری علاقوں کی سیاست کی، جس کی ابتدائ 80 کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد ہوئی۔ بھٹو خود تو جاگیردار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے مگر وہ پاکستانی سیاست کو عوام تک لے آئے۔ شریف خاندان کی سیاست میں انٹری نے سیاسی نظریے کی بنیاد تبدیل کر کے اس سے جاگیردارانہ تسلط ختم کر کے کاروبار ی سیاست میں تبدیل کر دیا۔2018 کو مذہبی جماعتوں کے لیے برا سال کہا جائے تو بیجا نہیں ہو گا۔ سال بھر مذہبی جماعتیں مشترکہ حکمت عملی پر اتفاق رائے قائم کرنے اور ایک کامیاب سیاسی اتحاد بنانے میں ناکام رہے۔ متحدہ مجلس عمل کو دوبارہ فعال کرنے کی کوششیں ہوئیں تاہم اس کو خاطر خواہ حمایت حاصل نہیں ہو سکی۔ رہی سہی کسر خادم رضوی کی تحریک لبیک پاکستان نے پوری کر دی جس کی مقبولیت نے ایم ایم اے کی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ تاہم سال کے اختتام تک خادم رضوی اور ان کے ساتھی ملک سےغداری کے الزام میں قید اور مولانا فضل الرحمٰن اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف تھے۔ دسمبر میں مولانا طاہر اشرفی کا نام بھی بیرون ملک سے ان کے اکاونٹ میں خطیر سرمایا منتقل ہونے پر تحقیقات ہونے والوں کی فہرست میں شامل ہو چکا تھا۔سال 2018 کا کوئی لمحہ، کوئی دن سیاسی لحاظ سے ہل چل سے خالی نہیں رہا۔ ہر دن ایک نئے اسکینڈل میں نئی جہت اور ایک نئے سیاسی بھونچال سے خالی نہیں رہا۔کم از کم نواز شریف اور عمران خان کے لیے 2018 ایک یادگار سال رہے گا۔ ایک کے لیے اچھا تو دوسرے کے لیے برا۔ ایک وزیراعظم ہاوس پہنچ گیا اور دوسرا کوٹ لکھ پت جیل۔ لگتا یہی ہے کہ 2019 بھی اسی آنکھ مچولی میں گذرے گا۔۔ عوام “تبدیلی” پر حکومت سے سوال کریں گے یا واقعی ایک “تبدیلی” کا مشاہدہ کریں گے۔ کسی نے سہی کہا کہ سیاست ممکنات اور امکانات کا کھیل ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ ایک نئی شکل اختیار کر تا ہے۔ فی الحال عمران خان کی گڈی چڑھی ہوئی ہے اور مستقبل میں کیا ہونے والا ہے میرے لیے اندازہ کرنا ممکن نہیں کیوں کہ میں نا تو شیخ رشید ہوں اور نا ہی منظور وسان۔آپ سب کو نیا سال اور نئی خبریں بہت مبارک ہو۔

کیا عمران خان جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کرینگے؟ تہلکہ مچ گیا،اندر کی خبر نے تھر تھلی مچا دی

اسلام آباد (ویب ڈیسک) اس وقت حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں۔نومبر 2019ءمیں وزیراعظم عمران خان نے نئے آرمی چیف کی تقرری کرنی ہے اور جو ہماری سیاسی تاریخ ہے اس میں ملک کا وزیراعظم سب سے زیادہ طاقتور اس وقت محسوس کرتا ہے جب وہ نئے آرمی چیف کی تقرری کرتا ہے تاہم یہ ایک سیاسی تاریخ ہے اس کا کچھ نہیں کیا جا سکتا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ نئے آرمی چیف کا حکومت کے ساتھ طریقہ کار کیا ہو گا۔کیونکہ ماضی میں دیکھیں تو جنرل راحیل شریف کا ایک اپنا طریقہ کار تھا ا س سے پہلے جنرل کیانی اور جنرل مشرف کا بھی اپنا طریقہ کار تھا۔ جب ایک نیا آرمی چیف آتا ہے تو اس کا اپنا کام کرنے کا طریقہ کار حکومت کے ساتھ کام کرنے کا طریقہ مختلف ہوتا ہے۔ صحافیوں کی وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ایک ملاقات ہوئی تو دوران ملاقات عمران خان نے جنرل باجوہ کی بہت تعریفیں کیں۔صحافی نے سوال کیا کہ اگر جنرل باوجوہ اتنے اچھے ہیں تو کیا آپ جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کریں گے؟۔تو عمران خان نے کہا جنرل باوجوہ ایکسٹینشن نہیں لیں گے تاہم وزیراعظم عمران خان نے انکار نہیں کیا۔اب یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل باجوہ کا رشتہ کہاں تک جائے تاہم مجھے لگتا ہے کہ آرمی چیف توسیع نہیں لیں گے۔

سعودی عرب میں تبدیلی آگئی ،نقاب جوتی کی نوک پر ہیش ٹیگ بن گیا

ریاض(ویب ڈیسک) سعودی خواتین نے سوشل میڈیا پر چہرے کے نقاب کی پابندی کے خاتمے کی مہم میں شدت پیدا کر دی ہے۔ کئی ایسی خواتین کا موقف ہے کہ انہیں جبراً چہرے کا نقاب کرنا پڑتا ہے۔سوشا میڈیا پر متحرک سعودی خواتین چہرے کے نقاب کے حوالے سے نقاب میری جوتی کے نیچے بھی استعمال کر رہی ہیں۔ بعض خواتین نے اپنی ایسی تصاویر بھی پوسٹ کی ہیں، جن میں وہ اپنے چہرے کے نقاب کو لہراتی دکھائی دی گئی ہیں اور یہ تاثر دیتی ہیں کہ انہیں یہ جبراً پہننا پڑتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سعودی عرب میںایسے کوئی ضوابط یا وفاقی قوانین موجود نہیں ہیں کہ جن سے یہ ظاہر ہو کہ خواتین کے لیے کس انداز کے پہناوے درست ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سعودی پولیس اور عدلیہ خواتین کے لباس کو شریعت کے تناظر میں دیکھتی ہے۔ سعودی عرب میں قرآنی شریعت، قانون کا سب سے اعلیٰ ماخذ قرار دیا جاتا ہے۔حالیہ ایام کے دوران سعودی خواتین نے خاص طور پر ٹویٹر پر اپنے ایسے واقعات بیان کیے ہیں، جن کے مطابق انہیں چہرے کے نقاب کو پہننے پر مجبور کیا جاتا ہے اور بسا اوقات سخت رویوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان واقعات میں کئی خواتین نے چہرے کے نقاب کو پہننے کے عمل کو دم گھٹنے سے بھی تعبیر کیا۔ کئی خواتین نے نقاب کے ساتھ ایک جملہ بھی تحریر کیا کہ اس کے وجہ سے زندگی تلخ ہو کر رہ گئی ہے۔دوسری جانب اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ سبھی سعودی خواتین نقاب پہننے کے خلاف جاری احتجاجی مہم کا حصہ نہیں ہیں۔ اس تناظر میں چہرے کے نقاب کو پسند کرنے والی اور اس کی حامی خواتین نے ان عورتوں کے خلاف بے ادب کی مہم بھی سوشل میڈیا پر جواباً شروع کر رکھی ہے۔سعودی خواتین کا ایک حلقہ نقاب کے ساتھ ساتھ عبایہ مخالف مہم بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان خواتین کا موقف ہے کہ سعودی اخلاقی تقاضوں کی روشنی میں عبایہ سے ہٹ کر بھی لباس پہنا جا سکتا ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے 2018 کے مہینے مارچ میں کہا تھا کہ خواتین نقاب یا عبایہ کے علاوہ دوسرے مناسب لباس پہننے کا فیصلہ خود سے کر سکتی ہیں۔ شہزادہ محمد کے اس بیان کے جواب میں سعودی عرب کی پولیس کا موقف ہے کہ ابھی کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا ہے۔ابھی تک اس چہرے کے نقاب کے خلاف سوشل میڈیا پر جاری احتجاجی کمپین یا مہم کے حوالے سے سعودی حکومت کا ردعمل سامنے نہیں آیا۔

بھارتی فوج کی ایل او سی پر فائرنگ سے خاتون شہید، 9 شہری زخمی

راولپنڈی(ویب ڈیسک) بھارتی فوج کی لائن آف کنٹرول پر بلا اشتعال فائرنگ سے ایک خاتون شہید جب کہ بچوں سمیت 9 شہری زخمی ہوگئے۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق بھارتی فوج نے لائن آف کنٹرول پر شاہ کوٹ کے مقام پر شہری آبادی کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں ایک خاتون شہید ہوئی جن کی شناخت آسیہ بی بی کے نام سے ہوئی۔آئی ایس پی آر کےمطابق بھارتی فوج کی فائرنگ سے 9 شہری زخمی بھی ہوئے جن میں 3 بچے اور 2 خواتین بھی شامل ہیں۔بھارتی فوج کی جارحیت پر پاک فوج نے بھرپور جوابی کارروائی کی جس سے دشمن کی بندوقیں خاموش ہوگئیں۔