ڈونلڈ ٹرمپ کا پاکستانی درخواست پر وینٹی لیٹرز بھیجنے کا اعلان

واشنگٹن( و یب ڈ سک)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان نے ان سے کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے وینٹی لیٹرز بھیجنے کی درخواست کی ہے جس پر وہ رضامند ہوگئے ہیں۔عالمی وبا کے حوالے سے وائٹ ہاوس میں بریفنگ دیتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ ان کی دنیا کے متعدد رہنماوں سے گفتگو ہوئی جنہیں وینٹی لیٹرز کی اشد ضرورت ہے اور انہیں یقین دہانی کرائی کہ واشنگٹن ان کی ضرورت پوری کرنے میں مدد کریگا۔بریفنگ کے دوران امریکی صدر نے کہا کہ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کی صحت کی خرابی سے متعلق خبر غلط تھی۔

برطانیہ ؛ کورونا سے جاں بحق مسلم شخص کی لاش 6 دن تک فریزز میں رکھنا پڑگئی

لندن( و یب ڈ سک) برطانیہ میں کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والے 71 سالہ عمر افضل کی لاش کو 300 میتوں کے بعد باری آنے کی وجہ سے 6 دن فریزر میں رکھنا پڑی۔برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق انگلینڈ نارتھ ویسٹ کے سابق چیف کراون پراسیکیوٹر نذیر افضل نے اپنے بھائی عمر افضل کی کورونا وائرس سے ہلاک ہونے اور اس کے بعد کے تکلیف دہ مراحل سے متعلق بتاتے ہوئے کہا کہ تدفین کرنے والوں ادارے کو پہلے ہی 14 لاشیں اٹھانی تھیں اس لیے ہمارے بھائی کی باری کئی گھنٹوں بعد شام 6 بجے آئی۔عملے کے آنے تک اہل خانہ حفاظتی لباس، دستانے پہنے اور ماسک لگائے مردہ بھائی کے بستر کے پاس 8 گھنٹے تک کھڑے ہیں۔ تدفین کرنے والا عملہ گھر کے اندر داخل نہیں ہوتا اس لیے ہمیں ایک باڈی بیگ دیا جس میں ہم نے لاش ڈال کر گھر کے دروازے پر رکھی جسے عملہ لے گیا۔تدفین کرنے والوں نے کہا کہ ہمیں پہلے ہی 300 لاشیں دفنانی ہیں اس لیے آپ کے بھائی کی میت کو 6 دن تک صنعتی سطح پر استعمال ہونے والے فریزر میں رکھنا پڑے گا کیوں کہ مردہ خانے میں بالکل بھی جگہ نہیں ہے۔ موت کی سند ملنے میں بھی ہفتہ لگ جائے گا کیوں کہ مرنے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔واضح رہے کہ 17 عمر افضل ہوم آفس میں مترجم کے حیثیت سے کام کیا کرتے تھے اور ان کا انتقال کورونا وائرس کے باعث رواں ماہ کے آغاز میں ہوا تھا۔ اہل خانہ دل گرفتہ تھے کہ اسلامی شریعت کے اعتبار سے جلد از جلد تدفین ہوجانا چاہیئے تھی لیکن ایسا نہ ہوسکا۔

سوئٹزرلینڈ میں مشہور پہاڑ پر پاکستانی پرچم روشن

کورونا وائرس سے نبردآزما پاکستان سے اظہار یکجہتی اور حوصلہ افزائی کے لیے سوئٹزرلینڈ کا پہاڑ سبز ہلالی پرچم سے روشن ہوگیا۔
اٹلی کی سرحد کے قریب واقع مشہور میٹرہارن نامی پہاڑ پاکستانی پرچم کے رنگوں میں رنگ گیا، یہ پہاڑ سوئس قصبے زرمت کے پاس واقع ہے جسے سوئٹزرلینڈکے لیے طاقت اور استحکام کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
مقامی انتظامیہ نے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے پاکستانی کوششوں کی حوصلہ افزائی اور مشکل حالات میں امید دلانے کے لیے سبزہلالی پرچم کے رنگوں سے میٹرہارن پہاڑ کو رنگ دیا۔پاکستانی پرچم روشن کرنے کے ساتھ ساتھ دعائیہ کلمات بھی تحریر کیے گئے جس میں کہا گیا کہ پاکستان میں کورونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے، ہم اس مشکل گھڑی میں پاکستانی لوگوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ان کی ہمت باندھتے ہیں۔
پہاڑ پر پاکستان کےعلاوہ امریکا، چین، سعودعرب، روس، ایران اور بھارت کے پرچم بھی روشن کیے گئے،ساتھ میں دعائیہ جملے لکھ کر ان سے نیک تمناو¿ں اور استحکام کا پیغام دیا گیا۔
دوسری جانب دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروق نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر تصویر شیئر کرتے ہوئے مشکل وقت میں اظہار یکجہتی کرنے پر سوئٹزرلینڈ کے حکام کا شکریہ ادا کیا۔
علاوہ ازیں سینیٹر فیصل جاوید خان نے بھی تصویر شیئر کی اور لکھا کہ پاکستانی پرچم سوئٹزرلینڈ میں واقع میٹرہارن نامی پہاڑ پر ا?ویزاں کیا گیا، اس کا مقصد پاکستانیوں کو امید دلانا اور ا±ن کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا ہے۔

خبریں گروپ کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد،پرتگالی سفیر

لاہور (لیڈی رپورٹر) عدنان شاہد فاﺅنڈیشن کے زیراہتمام خبریں و چینل ۵ کے رضاکاروں کی جانب سے لاہور میں 19 ویں روز بھی دیہاڑی دار اور مزدور طبقہ میں مختلف مقامات پر مفت کھانا تقسیم کیا گیا۔ چیئرمین پی ایس پی مصطفیٰ کمال نے کہا کہ خبریں نے جو خبریں رضاکار ٹیم بنائی ہے ان کی کاوشوں کو سلام پیش کرتا ہوں۔ وہ اس وقت دکھی انسانیت کی خدمت کررہے ہیں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان سے اسی طرح دکھی انسانوں کی خدمت کا کام لیتے رہیں۔ اداکار اشرف خان کا کہنا تھا کہ میرا ”خبریں“ سے بہت پرانا تعلق ہے اور جب بھی کوئی برا وقت آیا ہے ”خبریں“ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ خبریں رضاکار ٹیم غریب اور مستحق افراد میں راشن اور کھانا تقسیم کرکے ایک نیکی کا کام کررہی جس پر ضیاشاہد صاحب اور امتنان شاہد صاحب مبارکباد کے مستحق ہیں۔ایمبیسڈر پرتگال پولونیسورس نے کہا کہ میں خبریں کو اس مشکل وقت میں غریب اور مستحق افراد کی امداد کرنے پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد دیتا ہوں۔ اور اس نیک کام کرنے پر چینل ۵ اور خبریں کے چیف ایڈیٹر ضیاشاہد صاحب اور امتنان شاہد کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ خبریں رضاکار ٹیم اسی طرح غریب افراد کی مدد کرتی رہے گی۔ اس وقت بہت مشکل وقت ہے ہم سب ایک دوسرے کے ساتھ ہیں ان مشکل حالات میں ہم سب کو مل جل کر کام کرنا ہوگا۔ میں ایک بار پھر چینل۵ اور خبریں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ سپر ماڈل علیزے گبول نے بھی خبریں رضاکار ٹیم کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ وہ اس مشکل وقت میں غریب اور مستحق افراد کی مدد کرکے نیکی کا کام کررہے ہیں اور میں اس نیک کام کرنے پر خبریں کو سیلوٹ پیش کرتی ہوں۔گلوکار وارث بیگ نے کہا کہ خبریں تعریف کا مستحق ہے میں ضیاشاہد صاحب اور امتنان شاہد صاحب کو اس مشکل وقت میں جب پوری قوم مشکلات میں گری ہوئی ہے وہ اپنا نیکی کا سفر رواں دواں رکھے ہوئے ہیں۔

ہیلتھ کیئر ڈیپارٹمنٹ کی کار کردگی صفر،200 وینٹی لیٹر خریدنے میں ناکام

لاہور (مہران اجمل خان سے ) سپیشلائزڈ ہیلتھ کئیر ڈیپارٹمنٹ صرف 2سو وینٹی لیٹر خریدنے میں ناکا م ،عالمی ادارہ صحت کی جانب سے پاکستان میں موجودہ صورتحال کے پیش نظر جولائی کے درمیان تک کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 2لاکھ تک جانے کی پیشن گوئی۔ کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کو آخری اسٹیج پر وینٹی لیٹر کی انتہائی ضرورت ہوتی ہے ، وینٹی لیٹرز مہیا کرنے والی کمپنیوں نے 22ہفتوں کا وقت مانگا جبکہ محکمہ صحت کی جانب سے 4ہفتوں میں ڈیمانڈ پوری کرنے کا مطالبہ ، پنجاب بھر کے سرکاری ہسپتالوں میں صرف 1245وینٹی لیٹر موجود 77خراب ،پنجاب کے 8شہرایسے بھی ہیں جہاں ایک بھی وینٹی لیٹر دستیاب نہیں۔ تفصیل کے مطابق ملک بھر میں اس وقت کرونا وائرس کی وبا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 10ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ پنجاب میں 4851کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں ، کرونا وائرس کا حملہ پھیپڑوں پر ہوتا ہے مریضوں کی آخری سٹیج کے موقع پر وینٹی لیٹر کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ پنجاب کی 10کروڑ کی آبادی کے لئے بد قسمتی سے صرف1168 وینٹی لیٹرز موجود ہیں ۔ محکمہ صحت کی جانب سے مزید 2 سو وینٹی لیٹر خریدنے کی منظور دی گئی مگروینٹی لیٹرز مہیا کرنے والے ٹھیکیداروں نے سامان فراہم کرنے کے لئے 22ہفتوں کا وقت مانگ لیا جبکہ محکمہ صحت نے انہیں 4ہفتوں کا وقت دیا ہے کہ انہیں مقرر وقت تک وینٹی لیٹرز مہیا کیے جائیں۔ محکمہ صحت ذرائع کا کہنا ہے عالمی ادارہ صحت کی جانب سے حکومت پاکستان کو کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد بڑھنے کی تنبیہ بھی کی جا چکی ہے پنجاب بالخصوص صوبائی دارلحکومت لاہور میں کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد نسبتاً دوسرے صوبوں اور شہروں کے زیادہ ہے اسی لئے مستقبل میں موزی وبا سے لڑنے کےلئے اس کے وینٹی لیٹرز انتہائی ضرور ہو چکے ہیں۔ اس حوالے سے محکمہ صحت سپیشلائزڈ کی جانب سے یونائیڈڈ نیشن ڈویلپمنٹ پروگرام اور پرائمری ہیلتھ کئیر سے بھی رابطہ کیا گیا مگر بے سود رہا ۔ پی ایم ڈی سی رولز کے مطابق پنجاب کے ٹیچنگ ہسپتالوں میں وینٹی لیٹرز کی تعداد 5ہزار سے زائد ہونی چاہیے جبکہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہسپتالوں میں مکمل بیڈز کی تعداد کے 15 فیصد وینٹی لیٹرز ہونے چاہیے۔

یقین سے کہتا ہوں،مساجد میں 6فٹ کا سماجی فاصلہ نہیں رکھا جا سکے گا،ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی ضیا شاہد نے کہا ہے کہ لاک ڈاﺅن میں جس طرح نرمی برتی گئی ہے نمازی اس پر کافی خدشات ہیں کہ شاید مساجد میں علماءاحتیاط نہ کر سکیں 6فٹ کا فاصلہ نہ رکھ سکیں پھر ایک یہ وبا¿ ایک دوسرے کو نہ لگ جائیں اس لئے ساری دنیا میں ایک بات ہی بات پر اتفاق ہے چاہے وہ جامعہ الازہر کے سکالر ہوں یا سعودی کے علماءہوں یا دوسرے مسلمان کے مذہبی سکالر ان کا کہنا ہے کہ بہتر یہی ہے کہ نماز گھر پر پڑھی جائے لیکن اب جو سہولت ملی ہے اللہ کرے علمائے کرام اس پابندی کو ملحوظ خاطر رکھ سکیں۔ میری رائے ہے کہ یہ پابندی کہنا بہت مشکل ہو گا اب آج بھی ہیومن رائٹس واچ پروگرام ایک مثال ہم نے دی تھی کہ ایک بچے کو وائرس ہو گیا وہاں پولیس بھیج دی گئی۔ پولیس والے دن کو پہرہ دیتے تھے لیکن رات کو وہ زمیندار کے ڈیرے پر جاکر سو جاتے تھے اور لوگ مریض کو دیکھنے کے لئے مریض کیسا ہوتا ہے جاتے رہے اور ایک بچے سے 50لوگوں کو کرونا ہوا ہے۔ یہ وبا¿ بڑھتی جاتی ہے اور مریض بڑھتے رہتے ہیں۔ اس طرح سے خدانخواستہ اس پر قابو نہ پایا جا سکا تو بڑی مشکل ہو جائے گی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ بھارت نے جب سے کرونا کی وبا¿ شروع ہوئی سیز فائر 850بار خلاف ورزی کی ہے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ دنیا خونریزی سے باز آ چکے دنیا کے ہر مذہب کے لوگ خدا سے دعائیں مانگ رہے ہیں لیکن بھارت باز نہیں آ رہا ہے۔ یہ شرمناک بات ہے پوری دنیا بھارت پر دباﺅ ڈالے کم از کم ان حالات میں جب پوری دنیا کرونا میں مبتلا ہے اس دور میں تو جنگ سے باز رہے۔ ہمارے علماءکو بدلی ہوئی صورتحال میں احتیاط سے کام لینا چاہئے اور لکیر کا فقیر ہونے کی وجہ سے جو اس وجہ سے رمضان المبارک میں جو تراویح ان کی مساجد آباد کرتی ہے لیکن یہ دیکھئے کہ مساجد کی آبادی سوسائٹی اور معاشرے کے لئے خطرناک ہے اس لئے علماءکو دیکھنا چاہئے میں یقین سے کہتا ہوں کہ 6فٹ کا فاصلہ نہیں رکھا جا سکتا اور آپ لوگوں کو میل جول سے نہیں روک سکتے۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا ہے کہ ہمارے پاس کرونا کا کوئی مقامی مریض نہیں تھا۔ تفتان سے 3 ہزار زائرین آئے جن میں مریض تھے اب تک 75 فیصد مریضوں نے ریکوری کرلی ہے۔ بڑے ہوٹلز کو کورنٹائن سنٹرز بنا دیا ہے جہاں بہترین سہولیات میسر ہیں۔ 2 لیبارٹریاں کام کر رہی ہیں۔ 200 ٹیسٹ روزانہ کر رہے ہیں۔ گلگت بلتستان کی آبادی 15 لاکھ ہے۔ ہم سیاست سے بالاتر ہوکر غریبوں کو راشن تقسیم کر رے ہیں۔ پاک فوجی مکمل ساتھ دے رہی ہے۔ 75 ہزار خاندانوں کو راشن تقسیم کرینگے۔ رمضان کے حوالے سے علماءکمیٹی نے صدر مملکت کے ساتھ جو معاملہ آیا ہے سو فیصد قابل عمل نہیں تاہم ہم اس حوالے سے علماءسے رابطے کررہے ہیں۔ ایس او پیز پر عمل کرائیں گے۔ کوشش ہے کہ بچوں اور بزرگوں کا مسجدوں میں جانا نہ ہو‘ ہر مسجد میں سینی ٹائزر لگا دیا ہے۔ نمازیوں کے فاصلہ رکھنے کی مشق کرا رہے ہیں۔ کرونا وباءدہشت گردی کیخلاف جنگ سے کہیں بڑا چیلنج ہے کیونکہ یہ چھپا دشمن ہے۔ ہمارا ایک ڈاکٹر کرونا سے شہید ہوا۔ اب ہر ہسپتال میں حفاظتی کٹس مہیا کر دی ہیں۔ احساس پروگرام کے حوالے سے یہاں 16 ہزار خاندانوں کو 16 کروڑ روپے ملے ہیں جبکہ ہم 75 ہزار خاندانوں کو مستحق ڈیکلیئر کرچکے ہیں۔ این ڈی ایم اے کی طرف سے ضروری آلات وسامان مہیا کیا جارہا ہے۔ شروع میں ہمارے پاس کچھ نہیں تھا تو ہم نے چین کے سنکیانگ کے گورنر سے درخواست کی تو انہوں نے وینٹی لیٹر اور ٹیسٹنگ کٹس فراہم کیں۔ وزیراعظم سے آج بھی میٹنگ میں مطالبہ کیا کہ ابھی ایک سال کرونا کا مقابلہ کرنا ہے۔ اس حوالے سے حفاظتی سامان وآلات کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ ہم نے باقی ملک کی طرح نرم نہیں بلکہ سخت لاک ڈاﺅن کر رکھا ہے۔ جمعہ ہفتہ اور اتوار کو شہر مکمل بند اور باقی دنوں میں صبح 8 سے 4 بجے تک ضروری دکانوں کو کھولنے کی اجازت ہے۔ صوبائی وزیر سندھ امتیاز شیخ نے کہا کہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کرونا کے حوالے سے پہلے دن سے ہی بڑے فیصلے کر رہے ہیں۔ ہماری میڈیکل ٹیم جو کرونا سے نبردآزما ہے اس کی ایڈوائس پر فیصلے کئے جارہے ہیں۔ اجتماعات سے وبا پھیل سکتی ہے۔ علمائے کرام نے ہمیشہ ہمارے ساتھ تعاون کیا اب بھی ایسا ہی ہوگا کیونکہ لاکھوں کروڑوں افراد کی جانوں کا مسئلہ ہے۔ تمام صوبوں کے ڈاکٹرز جو بات کر رہے ہیں ہم بھی شروع سے وہی بات کر رہے ہیں۔ وفاقی وزراءحقائق سے لاعلم ہونے کے باعث بے سروپا بیانات دیتے ہیں۔ اعلیٰ سطح کے اجلاس تو ہورہے ہیں تاہم کرونا کے حوالے سے ابھی تک کوئی مشترکہ فیصلہ نہیں ہوپایا۔ وزیراعظم کو بار بار کہا ہے کہ آپ لیڈ کریں ہم ساتھ دیں گے۔ سندھ میں ایس او پیز بنا دیئے ہیں آن لائن جو کاروبار ہوسکتا ہے اسے کیا جائے۔ بھارت پاکستان کیخلاف کارروائی کا کوئی موقع نہیں جانے دیتا اور شرارت سے باز نہیں رہ سکتا تاہم پاک فوج بھی منہ توڑ جواب دیتی ہے۔ رمضان المبارک میں گراں فروشی کرنیوالوں کیخلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔میئر کراچی وسیم اختر نے کہا ہے کہ سعودی عرب سمیت تمام مسلم ممالک نے مساجد کے حوالے سے ایس او پیز بنائے اور اس پر سختی سے عمل کر رہے ہیں تو ہمیں بھی ایسا ہی کرنا ہوگا۔ وائرس ختم ہو جائے گا تو مسجدیں پھر آباد ہو جائیں گی۔ گھر میں رہ کر بھی نماز اور تراویح ادا کی جا سکتی ہے۔ مسجد میں بھی چند آدمی مکمل احتیاطی تدابیر کے ساتھ تراویح ادا کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹرز ہاتھ جوڑ کر کہہ رہے ہیں کہ احتیاط کریں ہمیں ان کی بات ماننی چاہئے اور اس کے مطابق پالیسی بنا کر چلنا ضروری ہے۔ لاک ڈاﺅن پر سختی سے عمل ضروری ہے تاہم غریب افراد کو راشن پہنچانا بھی ضروری ہے۔ رمضان جب بھی آتا ہے یہاں اشیاءکی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں جبکہ دنیا میں مذہبی تہواروں پر قیمتی آدھی کر دی جاتی ہیں۔ میں دنیا کا واحد میئر ہوں جو 40 جھوٹے مقدمات کا سامنا کر رہا ہوں۔ کرونا کیخلاف میں اپنی ٹیم کے ساتھ متحرک ہوں۔ تاہم ہمارے وسائل بہت کم ہیں۔ کرونا نے ساری دنیا کو گھیر رکھا ہے مگر بھارت اپنی اوچھی حرکتوں سے باز نہیں آ رہا۔ سینئر صحافی اور تجزیہ کار شفیق اعوان نے کہا ہے کہ ساری دنیا کرونا کے ساتھ لڑ رہی ہے جبکہ ہمارا ازلی اور منافق دشمن اس وقت بھی مذموم کارروائیوں میں مصروف ہے۔ 850 بار سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کی۔ بدقسمتی سے ابھی تک وفاق اور تمام صوبے کرونا کے حوالے سے متفقہ لائحہ عمل نہیں بنا سکے۔ ہر کوئی الگ الگ بات کر رہا ہے۔ سندھ حکومت نے پھر ایک قابل تحسین فیصلہ کیا ہے اور مساجد میں تراویح کی اجازت نہیں دی کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ نمازیوں کے بیچ 6 فٹ فاصلہ برقرار رکھنا ممکن نہیں ہے۔ یوٹیلیٹی سٹور ملازمین نے بھی رمضان کا موقع دیکھ کر ہڑتال کی اور اپنے مطالبات منوا لیے۔ ہڑتال کے باعث عوام رمضان کی خریداری نہ کر سکے۔ وزیراعظم عمران خان سے گزارش ہے کہ کرنٹ افیئرز پروگرام کوئی نتیجہ نکالنے کیلئے نہیں بلکہ عوام کی آگہی میں اضافہ اور ایشوز کو سامنے لانے کیلئے ہوتے ہیں۔ نتیجہ دیکھنے والے نے خود نکالنا ہوتا ہے۔ عمران خان اپوزیشن میں تھے تو انہیں میڈیا بڑا اچھا لگتا تھا اب تنقید کرتے ہیں پھر اپوزیشن میں جائیں گے تو اچھا لگنے لگے گا۔

کاروبار بند ‘ ہمیں بھی مالی امداد دی جائے:خواجہ سرا

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے پروگرام ”نیوز ایٹ سیون‘ ‘ میں ایسے طبقے کی مشکلات کو منظر عام پر لایا گیا جنکا عام زندگی میں گزارہ بہت مشکل سے ہورہا ہے۔ احساس پروگرام کے تحت حکومت کی جانب سے بڑے بڑے اعلان کیے گئے لیکن کیا خواجہ سراﺅں کو بھی اس امداد میں شامل کیا گیا۔ اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ سراﺅں کاکہنا تھا کہ جب سے کورونا کی وباءپھیلی ہے پورے پاکستان کی طرح ہمارا کاروبار بھی بند پڑا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے کرائے پر گھر لیے ہوئے ہیں ، حکومت کی جانب سے اعلان کے باوجود مالک مکان زبردستی کرایہ وصول کر رہے ہیں۔ تمام خواجہ سرا اس صورتحال سے سخت پریشان ہیں ، مالک مکانوں کی جانب سے سامان اٹھا کر باہر پھینکنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔این جی اوز بھی حکومت کی طرح برائے نام ہیں جو خواجہ سراﺅں کو راشن کے نام پر دھوکہ دے رہے ہیں۔ غریب کو اسکا حق نہیں مل رہا ، ایسی این جی اوز کی ملک کو کوئی ضرورت نہیں ہیں۔ این جی اوز کے مالکان اپنی جیب بھر رہے ہیں، حکومت این جی اوز کو بند نہیں کر سکتی تو ان سے پوچھیں کہ وہ پیسہ کہاں لیجا رہے ہیں۔این جی اوز کی جانب سے پتھر کے صابن ، دالیں اور چاول کیڑوں سے بھرے ہوئے تقسیم کیے گئے جو جانوروں کے کھانے کے بھی لائق نہیں ہیں۔ خواجہ سرا ﺅں کی تنظیم سفر کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ندیم کشش نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ خواجہ سرا کمیونٹی سخت مسائل اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ ہمارے پاس 10ہزار خواجہ سراﺅں کا ڈیٹا ہے مگر شناختی کارڈ صرف 22سو خواجہ سراﺅں کے بنائے گئے ہیں ، باقی افراد کو راشن اور پناہ گاہیں کون دیگا۔ فردوس عاشق اعوان سے ملاقات میں سفر تنظیم کی جانب سے بنائی گئی پناہگاہوں کے حوالے سے مدد کی اپیل کی۔ہمارے شناختی کارڈز میں شناخت مرد لکھی گئی ہے مگر ہمیں گھر والے قبول نہیں کرتے ،ہمارے حصے کا راشن گھر والوں کے پاس پہنچ رہا ہے۔ این جی اوز کی جانب سے ابہام ہے کہ خواجہ سراﺅں کا اپنے گھر والوں سے تعلق نہیں۔ ہمیں عوام بہت پیار کرتی ہے، حکومت اور این جی اوز کی جانب سے ہماری کوئی مدد نہیں کی گئی مگرعام عوام کی جانب سے ہمیں پیسے ، راشن اور دیگر سہولیات دی جارہی ہیں۔ ندیم کشش نے بتایا کہ خواجہ سراﺅں کا گرووہی بچہ ہے ، جو معاشرے کے رویوں کا سامنا کرتے ہوئے گرو تک پہنچا تھا، گرو کوئی پیدائشی بچہ نہیں ہوتا۔ گھر والے اور معاشرہ جن بچوں کو قبول نہیں کرتا انہیں گرو تحفظ فراہم کرتا ہے مگر اب تو ہماری گرو این جی اوز بن گئی ہیں۔خواجہ سراﺅں کو ایکس شناختی کارڈ بنا کر دیا گیا ہے جسکے تحت ہم سعودی عرب میں عمرہ نہیں کر سکتے۔ ہماری دوہری شخصیت ہے اس لیے ہم فقیری کلچر سے جڑے ہیں، ہم نہ مرد اور نہ عورت کی خصوصیات پر پورا اتر سکتے ہیں ۔ اگر ہم عورت بن کر معاشرے میں نکلیں گے تو ہم سیکس ورکر بن جائیں گے اور جنس پرستی کی جانب چلے جائیں گے جو ہمارے فقیری کلچر کو قبول نہیں ہے۔ عوام میں سوچ ہے ہے کہ خواجہ سراﺅں کی دعائیں اور بدعائیں جلد قبول ہوتی ہیں۔ بھکاری اور فقیر کی بدعا میں بہت فرق ہوتا ہے ، دعا کے لیے بھی خواجہ سرا کا کردار اسکی فقیری دیکھی جاتی ہے ۔ در در پھرنے والے بھکاری ہیں، فقیرخواجہ سرانہیں ہیں۔ پاکستان میں خواجہ سرا کلچر کو مسخ کر دیا گیا اورلیسبین کلچر پر فروغ دیا گیا ہے۔خواجہ سراﺅں کا مزید کہنا تھا کہ ہماری دعا ہے اللہ پاکستان سمیت پوری انسانیت کو کورونا سے محفوظ رکھے۔ حکومت کی جانب سے کسی خواجہ سرا کو امداد نہیں ملی، خواجہ سراﺅں میں امیر طبقہ اللہ کی راہ میں اپنی برادری اور دیگر غریب لوگوں کی مدد کر رہے ہیں۔ مخیر حضرات جو ہمیں جانتے ہیں اور ہم پر اعتماد کرتے ہیں وہ مدد کر رہے ہیں۔ہمیں اللہ دیتا ہے ، لوگوں کی خوشیوں کو صدقہ ہم کھاتے ہیں، اسمیں برکت ہے۔ راتوں کو سڑکوں پر کھڑے ہونے والے ، ٹریفک سگنلز پر موجود خود کو خواجہ سرا کہنے والوں کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے، نہ وہ خواجہ سرا کلچر میں شامل ہیں اور نہ ہم ایسے لوگوں کو شامل کرنا چاہتے ہیں۔عوام جب بھی کوئی ایسا سیکس ورکر نظر آئے عوام انہیں خواجہ سرا نہ کہیں سیکس ورکر کہیں، انکو خواجہ سرا کہنا ہماری توہین ہے، ہمیں اس پر غم و غصہ ہے، ہمیں بدنام کیا جارہا ہے۔ جیب کترے ، قاتلوں کیساتھ بھی ہمارا نام نہ لگایا جائے۔ خواجہ سراﺅں کی تنظیم کی رکن نے بتایا کہ وہ خواجہ سرا تنظیم ذاتی کوششوں اور عوام کے تعاون سے جگہ جگہ غریب لوگوں اور اپنی برادری میں راشن تقسیم کر رہے ہیں، حکومت کی جانب سے اب تک کوئی امداد نہیں ملی، حکومتی نمائندگان کو اپنی برادری کی بدحالی اور پریشانی کی ویڈیوز بھی بھیجی گئیںمگر ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ خواجہ سرا تنظیم کی جانب سے گھر گھر جاکر اپنی برادری کو کہا جارہا ہے کہ گھروں سے باہر بالکل باہر نہ نکلیں، انہیں جتنا ہو سکا راشن انکے گھر پہنچایا جائے گا۔ حکومت ہماری آواز سنے اور سفر تنظیم کا ساتھ دے۔ فردوس عاشق اعوان سے ملاقات کے بعد ایک وزیر دورہ کرنے آئے مگر اسکے بعد حال تک نہ پہنچا۔ لاک ڈاﺅن اور رمضان ختم ہونے کے بعد تنظیم کی جانب سے ایک مدرسہ بنایا جارہا ہے جہاں خواجہ سرا تبلیغ کرنے کیساتھ رہائش بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ خواجہ سراﺅں کا مزید کہنا تھا کہ پولیس والوں کا رویہ بے حد افسوسناک ہے۔ انکی جانب سے خواجہ سراﺅں کو ڈنڈے مارے جاتے ہیں اور قید کیا جاتا ہے۔ راولپنڈی میں فنکشنز ہورہے ہیں کورونا کے باوجود ان فنکشنز کو نہیں روکا جارہا ،پولیس منتھلی لے رہی ہے۔

فرانس،سپین،اٹلی،امریکہ،برطانیہ سے پاکستانیوں کی میتیں وطن واپس لائی گئیں:احسان کھوکھر

اسلام آباد ( انٹر ویو : ملک منظور احمد ) کمشنر برائے اوور سیز پاکستانیز وفاقی محتسب احسان کھوکھر نے کہا ہے کہ وفاقی محتسب نے اوور سیز پاکستانیوں کے لیے 56منصوبے شروع کیے ہیں ،کرونا وائرس کی صورتحال کے باعث بیرون ملک پھنسے ہوئے
پاکستانیوں کی وطن واپسی کے لیے پی آئی اے کی خصوصی پروازیں چلا ئی گئیں ،وفاقی محتسب کو ان پروازوں کے کرائے بہت زیادہ ہونے کی شکا یت ملی جن کو ہماری مداخلت کے بعد کم کیا گیا ۔اٹلی سپین ،امریکہ ،انگلینڈ ،یو اے ای ،اور آزر با ئیجان سے پاکستانیوں کی میتوں کو واپس لیا گیا ہے ۔40,000پاکستانی اب بھی مختلف ممالک میں پھنسے ہوئے ہیں ۔وزیر اعظم پاکستان کے فوکل پرسن برائے پناہ گاہ نسیم الرحمان نے کہا کہ کرونا وائرس کی صورتحال کے باوجود پناہ گا ہوں کو کھلا رکھنا وزیر اعظم عمران خان کا دلیرانہ فیصلہ ہے ۔وزیر اعظم کا دل غریبوں کے لیے دھڑکتا ہے ۔وزیر اعظم کی سوچ ہے کہ وسائل پر پہلا حق غریبوں کا ہے ۔احساس پروگرام کے حوالے سے بہت اچھا ریسپانس آرہا ہے ۔اس پروگرام کو بہت پذ یرائی ملی ہے ۔پناہ گاہ پروگرام کا بنیادی مقصد ان افراد کو پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے جو کہ غریبوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں ۔ڈپٹی کمشنر ٹاسک فورس اسلام آباد کے سربراہ ایاب احمد کا کہنا تھا کہ ڈی سی اسلام آباد اور عوام کے درمیان خلا کو پر کرنے کے لیے اس ٹاسک فورس کا قیام عمل میں لا یا گیا ہے ۔ٹاسک فورس مستحقین تک راشن پہنچانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے ۔اسلام آباد کے ہر علاقے میں راشن پہنچانا ہمارا مقصد ہے ۔فیصل مسجد میں رمضان کے دوران نماز تراویح براہ راست نشر کی جائے گی ۔فیصل مسجد میں کرونا مریضوں کی نشان دہی کرنے کے لیے مشین نصب کی جارہی ہے ،دیگر مساجد میں بھی نمازیوں کو کرونا وائرس سے بچانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا ۔ان خیالات کا اظہار ان شخصیات نے چینل فائیو کے پروگرام فورتھ پلر میں گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ایک سوال کے جواب میں احسان کھوکھر کا کہنا تھا کہ پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد دوسرے ممالک میں کام کرتی ہے ،وزٹ بھی کرتی ہے ،ہم اوورسیز پاکستانیز کو ہر ممکن سہولیات فراہم کرتے ہیں ۔ہم عوام کو ہر طرح سے سہولیات پہنچانے کی کو ششیں کرتے رہتے ہیں ۔اوور سیز پاکستانیوں کو سہو لیات کی فراہمی ہمارا فرض ہے ۔پاکستان سمیت دیگر ممالک نے بھی کرونا وائرس کے پھیلاﺅ کو روکنے کے لیے بین الا ا اقوامی پروازوں کو بند کردیا لیکن اس کے باعث پاکستان کے بھی شہری دوسرے ممالک میں پھنس گئے ،ان پاکستانیوں کی واپسی کے لیے پی آ ئی اے کی خصوصی فلائیٹس چلائیں گئیں ۔جو پاکستانی باہر ممالک سے آئے ان کی اور ان کے گھر والوں کی حفاظت کے لیے انھیں قر نطینہ میں رکھا گیا ۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ وفاقی محتسب نے بیرون ملک پھنسے ہوئے پاکستانیز کو نکالنے کے لیے وزارت خارجہ اور وزارت اوور سیز پاکستانی سے رابطہ کیا اور دونوں وزارتوں نے ہمیں بہت اچھا ردعمل دیا اور اس حوالے سے بہت فعال رہیں ۔فرانس ،سپین ،اٹلی امریکہ ،انگلینڈ اور یو اے ای سے پاکستانیوں کی میتیں واپس لا ئیں گئیں ہیں ۔بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنے پیاروں کو پاکستان میں دفنانا چاہتے ہیں ۔زیادہ مسا ئل فلا ئیٹس کی بند ش کی وجہ سے درپیش آ ئے ۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ بیرون ملک پھنسے ہوئے پاکستا نیوں کی واپسی کے لیے پی آ ئی اے کی فلائٹیس کی تعداد میں اضافے کا کہا گیا ہے ۔وفاقی محتسب کو پی آ ئی اے کی خصوصی پروازوں کے کرائے بہت زیادہ ہونے شکایات بھی موصول ہوئیں ،وفاقی محتسب کی مداخلت پر کرا ئیوں میں کمی لائی گئی ۔40,000کے قریب پاکستانیز مختلف ممالک میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ایسے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے جھنیں کرونا وائرس کے نتیجے میں فارغ کر دیا گیاہے ۔حکومت سے زیادہ ہوا ئی اڈے کھلوانے کا کہا ہے ،تاکہ باہر سے آنے والے افرادآ سانی سے اپنے علاقوں تک پہنچ سکیں ۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ اٹلی ،سپین ،امریکہ ،انگلینڈ ،یو اے ای سمیت دیگر ممالک سے پاکستانیوں کی میتیں وطن واپس لا ئی گئیں ہیں ۔ابتدا میں باہر سے آنے والے مسافروں کے قرنطینہ کے اخراجات حکومت نے ادا کرنے کا ذمہ لیا تھا لیکن اس کے بعد جب مسافروں کی تعداد بڑھی تو حکومت نے فیصلہ واپس لے لیا ،سپریم کو رٹ نے اس معاملہ کا نوٹس لیا ہے ،سیکرٹری ہیلتھ کو دورہ کرنے کا کہا گیا اس کے بعد صورتحال بہت بہتر ہو گئی ہے ۔ایک سوال کے جواب میں نسیم الرحمان نے کہا کہ کرونا وائرس کے باعث درپیش صورتحال کے با وجود پناہ گا ہیں کھلی رکھنا وزیر اعظم کا دلیرانہ فیصلہ تھا ۔ان پنا گا ہوں میں زیادہ رش ہوجاتا ہے جس کے باعث خطرات بڑھ جاتے ہیں لیکن وزیر اعظم نے واضح ہدایات دیں کہ کسی بھی شخص کو جب تک کہ وہ خود نہ جانا چاہیے پناہ گاہ سے نہیں نکالا جائے گا ۔ہم نے پناہ گاہوں میں آنے والے افراد کو حفاظتی اقدامات کے بارے میںآگاہی فراہم کی ہے ۔آنے والے افراد کا ٹمپریچر چیک کیا جاتا ہے اور زیادہ ہونے کی صورت میں ہسپتال بھیج دیا جاتا ہے ۔واک تھرو گیٹس بھی لگائے گئے ہیں ۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ بڑے شہروں میں لوگوں کی بڑی تعداد روزگار کی تلاش میں آ تی ہے ،ان کے لیے پناہ گاہ اہم ہے ،ہم نجی شعبے کے ساتھ مل کر پناہ گا ہوں کو چلا رہے ہیں اور یہ نظام بہت اچھے اندا میں چل رہا ہے ۔پنا گاہیں حکومت کے لیے بوجھ نہیں ہیں ۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ احساس پروگرام کے حوالے سے حکومت کو بہت ہی اچھا فیڈ بیک مل رہا ہے ،اس پروگرام کی بہت پذیرائی ہوئی ہے ،ڈا کٹر ثا نیہ نشتر خراج تحسین کی مستحق ہیں ۔غریب طبقے کے لیے مختلف پروگرام چلا رہے ہیں جس میں کچھ لانگ ٹرم ہیں اور کچھ شارٹ ٹرم ہیں ۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم کی سوچ ہے کہ وسائل پر پہلا حق غریب عوام کا ہے ۔دوسرے ممالک نے بھی غربت کے خاتمے کے پروگرام چلائے ہیں ان پروگرامز کو بھی دیکھا ہے ۔پاکستان کی موجودہ قیادت مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ ہے ،سیاسی ول موجود ہے ،میڈیا بھی ہمیں سپورٹ کرے ۔پناہ گاہ پروگرام کا بنیادی مقصد ان افراد کو پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے جوکہ غریب لوگوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں ۔ ایک سوال کے جواب میں ایاب احمد کا کہنا تھا کہ ڈپٹی کمشنر آفس اور عوام کے درمیان خلا کو پر کرنے کے لیے ٹاسک فورس قائم کی گئی ۔کرونا وائرس کے باعث شدہ صورتحال میں راشن کی فراہمی کے حوالے سے ٹاسک فورس نے بڑا کام کیا ہے ۔ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات نے ہدایت دی ہے کہ کو ئی بھوکا نہ سوئے ،اسلام آباد کے ہر علاقے میں راشن فراہم کرنا ہمارا مقصد ہے ۔اسلام آباد میں کرونا وائرس کے 210کیسز سامنے آ ئے ہیں ،جن میں سے 25مریض ریکور کر گئے ہیں اور 185ایکٹو کیسز ہیں ۔اسلام آباد انتظامیہ نے کرونا وائرس کے حوالے سے الیکٹرانک ،پرنٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے عوام میں آگاہی پھیلانے کی ہر ممکن کو شش کی ۔عوام سے گز ارش ہے کہ سماجی فاصلوں کا خیال رکھیں اور بلا ضرورت گھروں سے نہ نکلیں ۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ نجی شعبہ اور این جی اوز بھی ہمارے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں ،روزانہ کی بنیاد پر 350سے 400افراد کو راشن فراہم کر رہے ہیں ۔رمضان میں راشن کی تقسیم میں مزید تیزی لا ئی جائے گی ۔

کرونا کے معاملہ پر تمام علماءحکومت کا ساتھ دیں: مفتی عبدالقوی

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک)چینل فائیو کی اسپیشل کورونا ٹرانسمیشن میں گفتگو کرتے ہوئے عالم دین مفتی عبدالقوی نے کہا ہے کہ کورونا کیوجہ سے دنیا بھر میں پریشان کن صورتحال ہے۔ میں حیران ہوں کہ تمام اہل دانش، اہل فتوی، اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ ایک انسان کی زندگی پوری انسانیت کی زندگی ہے تو پاکستانی علماءاس بات پر متحد کیوں نہیں ہیں۔ پاکستان کے مفتی صاحبان کی سوچ کیا ہے ، کیا انہوں نے پوری قوم کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ اسلامی تعلیمات بالکل واضح ہیں، نبی کریم نے واضح انداز میں فرمادیابلال حبشیؓ آذان دو اور اسکے ساتھ اعلان بھی کردو کہ اگر خوف ہے تو گھر میں نماز پڑھو۔ اگر بارش ہے تو گھر میں نماز پڑھو۔ اگر مرض میں ہو تو گھر میں نماز پڑھو۔ کورونا تو ہلاکت ہے ، پوری دنیا حالات سے باخبر ہے، اس متعدی مرض کی صورتحال میں پاکستان کے مولوی اور مفتی کو سمجھ نہیں آتی تو یہ اسلام کا مسئلہ نہیںہے۔ معاہدے کے مطابق مفتی منیب الرحمان، مفتی عبدالقوی، مفتی تقی عثمانی کو گھر پر نماز پڑھنی ہے کیونکہ انکی عمر 50سال سے زیادہ ہے۔ ہمارا مفتی اگر اس معاہدے کی خلاف ورزی کرے گا تو اسکے ایمان میں خلل ہے، اسکا ایمان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ رمضان کے مبارک مہینے میں سحری کے وقت اٹھنے والوں سے درخواست ہے کہ کم ازکم 4رکوة نماز تہجد اداکریں اوراللہ کے حضور گڑگڑا کر اپنی مادری زبان کے مطابق اللہ سے معافی مانگیں اور اس وائرس سے نجات کی دعا کریں کہ اللہ ہماری دعاﺅں کو گنبد خضرا کی برکت سے قبول فرمائے۔معروف اداکارہ ماریہ واسطی نے کہا ہے کہ بار بار کہا جارہا ہے کہ کورونا کا ابھی تک کوئی علاج نہیں ہے، عوام صرف احتیاط کریں، رش والی جگہوں پر نہ جائیںاور ڈاکٹرز اور حکومتی حفاظتی تدابیر پر مکمل عمل کریں، ورنہ ہمارے اپنے لیے خطرہ ہوگا۔ رمضان المبارک کی برکتیں عوام گھروں میں عبادت کر کے سمیٹیں ، مساجد کا رخ نہ کریں کیونکہ حالات ایسے ہیں۔ اگر آپ زیادہ باہر جاتے ہیں تو وائرس لیکر آپ پوری فیملی میں پھیلا سکتے ہیں۔ صفائی اور بار بار ہاتھ دھونے کی عادت اب ہمیں اپنی زندگی کا حصہ بنانی پڑے گی۔ ہم سولائز قوموں میں شمار نہیں ہوتے،اگر پچھلی حکومتوں نے تعلیم اور صحت پر پیسہ لگایا ہوتاتو عوام کو شعور دیا ہوتا۔ یہ انہی پچھلی حکومتوں کی کرتوتوںکا نتیجہ ہے جو ہم آج بھگت رہے ہیں، لوگوں کو نہ تعلیم دی گئی، نہ روزگار نہ صحت ، بنیادی سہولتیں نہیں دی گئیں ۔ ایسے میں ان سے کہا جارہا ہے کہ خود بخود احتیاط اور حفاظتی تدابیر پر عمل کر لو تو یہ زیادتی ہے۔ حکومت اگر سیاسی وجوہات کیوجہ سے بہت سے کام نہیں کرنا چاہ رہی توصورتحال انکے منہ پر آرہی ہے۔ موجودہ حکومت کی جانب سے امداد اور راشن کی باتیں کی جارہی ہیں مگر لوگوں کو کچھ نہیں ملا۔