مصر؛ عبدالفتاح السیسی 90 فیصد ووٹ لیکر تیسری بار صدر منتخب

انقرہ: مصر میں ہونے والے صدارتی الیکشن میں عبد الفتاح السیسی 89.6 فیصد ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے۔

عرب میڈیا کے مطابق ایک دہائی سے مصر میں حکمرانے کرانے والے سابق آرمی چیف اور موجودہ صدر عبدالفتاح السیسی اگلی مدت کے لیے بھی صدر منتخب ہوگئے۔

مصر کی الیکشن اتھارٹی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ٹرن آؤٹ “بے مثال رہا۔ 66.8 فیصد ووٹرز نے رائے شماری میں حصہ لیا 39 ملین سے زیادہ لوگوں نے ووٹ ڈال کر آئندہ 6 برسوں کے لیے اپنے صدر کا انتخاب کیا۔

ریپبلکن پیپلز پارٹی کے رہنما حازم عمر کو صرف 4.5 فیصد ووٹ ملے۔ صدارتی الیکشن کا انعقاد 10 سے 12 دسمبر کے درمیان ہوا تھا جس میں صدر کے تین غیر معروف رشتے داروں نے بھی حصہ لیا تھا۔

یاد رہے کہ ملٹری ڈکٹیٹر عبدالفتاح السیسی نے 2014 میں اس وقت کے صدر مرسی جن کا تعلق اخوان المسلمین سے تھا کو برطرف کے اقتدار پر قبضہ کیا تھا بعد ازاں عبدالفتاح 2014 اور 2018 کے صدارتی انتخابات میں 97 فیصد ووٹوں کے ساتھ فاتح قرار پائے تھے۔

غیر ملکی میڈیا نے عبدالفتاح السیسی کی کامیابی پر ہمیشہ سے الیکشن میں شفافیت پر سوالات اُٹھائے ہیں۔

کام ہم کریں اور ووٹ کسی اور کو، کراچی اور چترال والے بتائیں یہ ناانصافی نہیں؟ نواز شریف

  کراچی: مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے کہا ہے کہ ہم نے چترال میں لواری ٹنل بنایا مگر ووٹ جماعت اسلامی کو گیا، کراچی میں امن قائم کیا مگر ووٹ کسی اور کو گیا، کام ہم کریں اور ووٹ کسی اور کو جائے کیا یہ بری بات نہیں؟

صوبہ سندھ اور کراچی سے امیدواروں کے انتخاب کے لیے لاہور میں منعقدہ پارلیمانی بورڈ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ 1999ء اور 2017ء میں وزیراعظم تھا تو کبھی وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ مجھے اس منصب سے ہٹا دیا جائے گا، 1999ء کی صبح میں وزیراعظم تھا شام میں ہائی جیکر بن گیا، اسی طرح 2017ء میں بیٹے سے تنخواہ دس ہزار درہم نہ لینے پر ہٹا دیا گیا، نہ آئین میں اور نہ قانون میں کوئی گنجائش تھی مگر چوں کہ وزیراعظم کو نکالنا مقصود تھا اس لیے عمل درآمد کردیا گیا وجہ یہ تھی کہ ایک سلیکٹڈ شخص کو لانا تھا۔

نواز شریف نے کہا کہ 2017ء میں ملک خوشحال تھا، سی پیک آرہا تھا، پیٹرول کی قیمت کم تھی، روپیہ مضبوط تھا، سیاسی اور معاشی لحاظ سے پاکستان مضبوط تھا، ہندوستان کا وزیراعظم پاکستان آیا اور پاکستان کے بارے میں دنیا نے کہا کہ پاکستان چند برس میں علاقائی طاقت بن جائے گا اور جلد جی ٹوئنٹی میں بھی شامل ہوجائے گا مگر آج سب کچھ ریورس ہوگیا، آئی ایم ایف کو ہم نے اپنے دور میں خدا حافظ کہا مگر سلیکٹڈ حکومت کو دوبارہ رجوع کرنا پڑا، ہم نے اپنی حکومت میں چین سے قرض نہیں لیا بلکہ واپس کیا اگر وہی معاملات چلتے رہتے تو آج بڑی طاقت ہوتے۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں نظر کھا گئی، ناانصافیاں ہوتی ہیں ہم خاموش رہتے ہیں یہ کسی نے نہیں پوچھا کہ صبح ایک شخص وزیراعظم ہے رات میں وہ ہائی جیکر کیسے بن گیا۔ انہوں ںے کہا کہ ہم نے موٹرویز بنائیں، پشاور سے سکھر تک موٹر وے بنایا مگر آر ٹی ایس بٹھا کر لائی گئی حکومت اتنا بھی نہ کرسکی کہ سکھر سے حیدر آباد تک موٹر وے بنادیتی وہ ہمارے منصوبے میں تھا وہ حکومت اتنا بھی نہ کرسکی۔

نواز شریف نے کہا کہ کراچی میں گرین لائن، لاہور میں اورنج لائن، پنجاب میں میٹرو بس ہم نے چلائی، سلیکٹڈ حکومت سے پوچھا جائے کراچی میں ترقی کے کام کیوں نہ ہوئے؟ ایک پانی کا منصوبہ بھی مکمل نہ ہوسکا، کراچی میں امن کس نے قائم کیا؟ ہم نے، سندھ کے کوئلے پر پچاس سال سے بیانات تھے ہم نے جاکر کوئلہ نکالا پلانٹ لگوائے پھر کوئلے سے بجلی بنائی، کراچی میں بائیس سو میگا واٹ کا نیوکلیئر پلانٹ لگایا، کراچی میں سب کہتے ہیں کہ نواز شریف نے امن قائم کیا مگر ووٹ کی باری آئی تو ووٹ کسی اور کو چلا گیا۔

انہوں ںے کراچی والوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ کراچی میں امن ہم قائم کریں اور ووٹ کسی اور کو جائے یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی کراچی والے ذرا اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں یہ تو کوئی اچھی بات نہیں جب کہ ہم نے خلوص کے ساتھ کام کیا تھا، میرے ذہن میں اب بھی منصوبہ ہے، یہ جو کراچی سے حیدر آباد نیشنل ہائی وے کو موٹر وے بنادیا گیا ہے میری نظر میں یہ موٹر وے نہیں ہے، ہم کراچی سے حیدرآباد موٹر وے بنائیں گے جو لاہور اور اسلام آباد سے بھی بہتر ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے چترال میں جاکر پچاس ارب روپے کی لاگت سے لواری ٹنل بنایا چترال والے بھی تسلیم کرتے ہیں کہ یہاں لواری ٹنل نواز شریف نے بنوایا مگر انتخابات ہوئے تو ووٹ جماعت اسلامی کو چلا گیا اس پر میں نے چترال والوں سے کہا کہ آپ لوگوں سے پوچھوں گا آپ لوگ اس طرح کے کام کرتے ہیں ٹنل مجھ سے بنواتے ہیں اور ووٹ کسی اور دیتے ہیں یہ تو بری بات ہے۔

انہوں ںے کہا کہ مجھ پر ایسا کوئی الزام نہیں ہے کہ میں نے ملک کے خلاف کوئی کام کیا ہو یا آئین توڑا ہو، اس کے باوجود جتنا عرصہ میں حکومت میں نہیں رہا اس سے زیادہ عرصہ میں نے ملک بدری اور جیل میں گزرا، جھوٹے مقدمات میں گزارا جو چند پیشیوں پر ختم ہوگئے، ہمارے تمام ساتھیوں پر جھوٹے پرچے بنائے گئے اس کے باوجود ہم نے ہمت نہیں ہاری اور آج یہاں موجود ہیں۔

چیف جسٹس کی اہلیہ کی ایئرپورٹ پر تلاشی کے معاملے پر ترجمان سپریم کورٹ کا خط

 اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے ججز سمیت اُن کے اہل خانہ کی تلاشی کے حوالے سے جاری تنازع پر سیکریٹری ایوی ایشن کو خط ارسال کردیا، جس میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کی اہلیہ سرینہ عیسیٰ نے نہ تلاشی سے استثنیٰ مانگا نہ ہی دیا گیا جبکہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے بھی بیرون ملک جانے سے قبل وی وی آئی پی پروٹوکول کی پیشکش ٹھکرا دی تھی۔

تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اور انکی اہلیہ کیخلاف بے بنیاد پراپیگنڈا بے نقاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے ترجمان کی جانب سے سیکریٹری ہوا بازی سیف انجم اور ڈی جی ایئرپورٹ سیکیورٹی میجر جنرل آصف جاہ شاہ کو خط لکھا گیا ہے۔

سیکرٹری ہوا بازی سیف انجم اور ڈی جی ایئر پورٹ سیکورٹی میجر جنرل آصف جاہ شاہ کے نام لکھے گئے خط میں ترجمان سپریم کورٹ کی جانب سے  سوال اٹھا گیا ہے کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اور انکی اہلیہ کے ترکیہ پہنچنے پر حیرت انگیز طور پر خط میڈیا کو پہنچ گیا،پوری سچائی آشکار کرنے کیلئے رجسٹرار سپریم کورٹ کا اکیس ستمبر کا خط بھی ظاہر کریں تاکہ غلط فہمیوں کا ازالہ ہو۔

سپریم کورٹ کے ترجمان نے کہا کہ جسمانی تلاشی سے استثنیٰ کا قاعدہ نہ ہی سپریم کورٹ نے بنایا نہ ہی مطالبہ کیا،رجسٹرار سپریم کورٹ نے صرف اس فرق کی نشاندہی کی تھی کہ سپریم کورٹ ریٹائرڈ ججز کو جسمانی تلاشی سے استثنیٰ تھی لیکن موجودہ ججز کو نہیں تھی۔

سپریم کورٹ ترجمان نے کہا کہ آپکے خطوط نے یہ تضاد ختم کرتے ہوئے کوئی وضاحت پیش نہیں کی،اے ایس ایف اور نہ ہی حکومت پاکستان کو حفاظتی اقدامات کی خلاف ورزی کی فکر ہے،جو خط 66دن پہلے لکھا گیا تھا حسن اتفاق سے چیف جسٹس پاکستان کے بیرون ملک جانے کے فوری بعد منظر عام پر لایا گیا جبکہ اہل خانہ کیلئے جسمانی تلاشی سے استثنیٰ کے کارڈز ابھی تک وصول نہیں ہوئے۔

سپریم کورٹ ترجمان نے خط میں لکھا کہ سولہ دسمبر کو چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ خود اے ایس ایف کے مخصوص کمرے میں گئیں جہاں ایک خاتون افسر نے انکی تلاشی لی جس کی ایئر پورٹ پر نصب کیمروں سے تصدیق کی جاسکتی ہے جبکہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ مسز سرینہ عیسیٰ نے تلاشی سے استثنیٰ نہ مانگا نہ ہی دیا گیا۔

سپریم کورٹ ترجمان ے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کو اسلام آباد ایئرپورٹ پر وی وی آئی پی لاؤنج کی پیشکش کی جسے انھوں نے ٹھکرا دیا اور انہوں نے لگژری لیموزین کے استعمال سے بھی انکار کیا جس کے ذریعے وی وی آئی پی افراد کو عین جہاز تک پہنچایا جاتا ہے۔

رجسٹرار سپریم کورٹ کے جاری کردہ اعلامیہ میں 21 ستمبر کا رجسٹرار کو لکھا گیا خط بھی جاری کردیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ایئرپورٹ پر سابق چیف جسٹس پاکستان اور سپریم کورٹ کے ججز کو جسمانی تلاشی سے استثنیٰ کے سیکورٹی کارڈ جاری کیے گئے،سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس صاحبان اور ریٹائرڈ ججز اور انکی بیویوں کو تلاشی سے استثنیٰ کے کارڈز جاری کیے گئے جبکہ حیرت انگیز طور پر موجودہ چیف جسٹس، سپریم کورٹ کے ججز اور انکی بیویوں کو تلاشی سے استثنیٰ کے کارڈز جاری نہیں ہوئے۔ خط میں سپریم کورٹ کے ترجمان نے امید ظاہر کی کہ معاملے جو جلد حل کیا جائے گا۔

کراچی پرمغربی سسٹم کے اثرات؛ بدھ کو پارہ گرنے کا امکان ہے، محکمہ موسمیات

کراچی: شہرپرمغربی سسٹم کے اثرات یخ بستہ ہواوں کی صورت نمودارہونا شروع ہوگئے، دن بھرمعمول سے تیزشمال مشرقی (بلوچستان) کی ہوائیں چلیں، رفتار38 کلومیٹرفی گھنٹہ ریکارڈ ہوئیں جبکہ بدھ کو پارہ گرنے کا امکان ہے۔ 

تفصیلات کے مطابق پیرکو کم سے کم پارہ 15.5ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ ہوا، بلوچستان کے راستے گزشتہ دنوں ملک میں داخل ہونے والے مغربی سسٹم کے عقب میں موجود کولڈ ائیر سندھ/ بلوچستان پراثر انداز ہورہی ہیں جس کے نتیجے میں پیر کی صبح کوئٹہ کی یخ بستہ ہواوں نے شہرکا رخ کیا۔

واضح رہے کہ محکمہ موسمیات کی جانب سے چندروز قبل موسم سرد ہونے کی پیش گوئی کی گئی تھی، محکمہ موسمیات کے مطابق شہرمیں ہواوں کی زیادہ سے زیادہ رفتار 38کلومیٹرفی گھنٹہ ریکارڈ ہوئی، پیر کی صبح شہرکی فضاوں پردھند چھانے کے سبب حدنگاہ متاثرہوئی۔

محکمہ موسمیات کے مطابق حدنگاہ 2کلومیٹرریکارڈ ہوئی جبکہ کم سے کم پارہ 15.5ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ ہوا، کل بھی شہرمیں معمول سے تیزہوائیں چلنے کا امکان ہے۔

چیف میٹرولوجسٹ کراچی سردارسرفراز کے مطابق مسلسل شمال مشرقی ہوائیں چلنے کے سبب بدھ کو درجہ حرارت میں مزید کمی متوقع ہے، تاہم انھوں نے پارہ سنگل ڈیجٹ میں جانے کا امکان رد کردیا۔

نواز شریف کا دور حکومت بھی پیپلزپارٹی کارکنان کیلئے آمریت سے کم نہیں تھا، بلاول بھٹو

پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زردری نے کہا ہے کہ کوئی سیاسی جماعت اس وقت پیپلز پارٹی کی مخالف نہیں، سیاسی جماعتوں کے دروازے بات چیت کے لیے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں، صرف بلوچستان سے نہیں پورے ملک سے سرپرائز دیں گے، نواز شریف کا دور حکومت بھی پیپلزپارٹی کارکنان کے لئے آمریت سے کم نہیں تھا۔

لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیرخارجہ بلاول بھٹو نے کہا کہ ہماری حکومت بنے گی تو سب کو ساتھ لے کر چلیں گے،ہمارا مقابلہ کسی سیاسی جماعت سے نہیں، مہنگائی، غربت اور بیروزگاری سے ہے، اس وقت مہنگائی، غربت اور بیروزگاری عروج پر ہے، نوجوانوں، مزدوروں کو ریلیف دینے کے لیے پروگرام شروع کریں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ مہنگائی، غربت اور بیروزگاری نے عوام کو مشکل میں ڈال دیا، پیپلزپارٹی حکومت جب بھی آئے گی بیروزگاری کوختم کرے گی۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ صرف بلوچستان سے نہیں پورے ملک سے سرپرائز دیں گے، ہم نے انقلابی منصوبہ بینظیرانکم سپورٹ شروع کیا۔

چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ ملکی تاریخ میں اتنا بڑا معاشی بحران نہیں آیا، ہمیں نوجوانوں کو سمجھانا پڑے گا ہم سب محب وطن پاکستانی ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ پیپلز پارٹی کے کارکن ضیاء اور مشرف کی آمریت میں ہمارے ساتھ کھڑے رہے، میاں صاحب کا پہلا دور حکومت بھی کسی آمریت سے کم نہیں تھا۔

بلاول بھٹو نے ن لیگ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں نفرت اور تفریق کی سیاست ہو رہی ہے، پیپلز پارٹی وہ جماعت ہے جس کے کارکن ضیا اور مشرف کی آمریت میں پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے، نواز شریف کا دور حکومت بھی پیپلزپارٹی کے کارکنوں کے لیے آمریت سے کم نہیں تھا۔

غیر دستاویزی غیرملکیوں کو بساکر قومی سلامتی پرمزید سمجھوتہ نہیں کرسکتے، وزیراعظم

 اسلام آباد: نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ غیر دستاویزی غیر ملکیوں کو پاکستان میں قیام کی اجازت دے کر ہم اپنی قومی سلامتی پر مزید سمجھوتہ نہیں کر سکتے.

نگران وزیراعظم کی برطانوی اخبار ٹیلی گراف میں غیر قانونی تارکین وطن پر اپنی خصوصی تحریر میں لکھا کہ پاکستان میں گزشتہ دہائیوں کے دوران تقریباً آئرلینڈ کی آبادی کے برابر تارکین وطن آچکے ہیں، ہم نے فراخدلی سے تارکین وطن کی اتنی بڑی تعداد کو سنبھالا ہے، مہمان نوازی پاکستان کے ڈی این اے میں شامل ہے۔

انوار الحق نے کہا کہ اتنی بڑی تعداد میں غیر قانونی افراد کو پاکستان میں قیام کی اجازت دے کر ہم اپنی قومی سلامتی پر مزید سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔ ہمارا مقصد پاکستان کو محفوظ، پر امن اور خوشحال بنانا ہے، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور اٹلی سمیت مختلف ممالک بھی غیر قانونی تارکین وطن کے مسائل سے دوچار ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ غیر قانونی تارکین وطن کو رضاکارانہ طور پر رجسٹریشن اور وطن واپسی کے مُتعدّد مواقع فراہم کیے ، اسلئے یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ پاکستان نے جلدبازی سے کام لیا۔

انہوں نے لکھا کہ بہت سے غیر قانونی لوگ بلیک مارکیٹ میں کام کرتے ہیں، کوئی ٹیکس نہیں دیتے، یہ لوگ انڈرورلڈ کے استحصال کا شکار بھی ہیں، اگست 2021 سے کم از کم 16 افغان شہریوں نے پاکستان میں خودکش حملے کیے ہیں، پاکستان نے جب بھی افغان حکومت کے ساتھ سیکورٹی کے مسائل پر بات چیت کی، انہوں نے کہا کہ اپنا گھر ٹھیک کریں، تو پاکستان نے آخرکار فیصلہ کر لیا ہے کہ اپنا گھر ٹھیک کریں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ غیر قانونی تارکین وطن کے اِنخلا کے بارے میں پاکستان کی پالیسی سے متعلق سوشل میڈیا پر غلط معلومات اور بے بنیاد الزامات کی بھرمار ہے، غیر قانونی افراد کے ساتھ احترام اور دیکھ بھال کے ساتھ برتاؤ کرنے کے سخت احکامات دیے گئے ہیں، ہم نے تقریباً 79 ٹرانزٹ مراکز قائم کیے ہیں، جو مفت کھانا، پناہ گاہ اور طبی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔

نگراں وزیراعلیٰ کے پی سے چیئرمین نیب کی ملاقات، ترقیاتی منصوبوں میں نیب حکام کی شمولیت پراتفاق

 پشاور: نگراں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا جسٹس ریٹائرڈ سید ارشد حسین شاہ سے چئیرمین نیب لیفٹیننٹ جنرل(ر) نذیر احمد بٹ نے ملاقات  کی جس میں سرکاری محکموں کے امور خصوصاً ترقیاتی منصوبوں میں شفافیت کو یقینی بنانے سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ 

وزیراعلیٰ جسٹس ریٹائرڈ سید ارشد حسین شاہ اور چئیرمین نیب کی ملاقات میں ترقیاتی منصوبوں کے تمام مراحل میں نیب کے اعلیٰ حکام کو شریک عمل بنانے پر اتفاق کیا گیا تاکہ ان منصوبوں میں کسی بھی ممکنہ بدعنوانی کو ابتدا ہی سے روکا  جاسکے۔

ملاقات میں وزیر اعلیٰ ٹاسک فورس میں بھی نیب کا نمائندہ شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

دوران ملاقات  نگراں وزیراعلیٰ کے پی نے کہا کہ ترقیاتی منصوبوں کے تمام مراحل میں نیب کی شمولیت سے شفافیت یقینی ہوگی،اور اس کے نتیجے میں ترقیاتی عمل میں تاخیر سے بھی بچا جاسکے گا اور سرکاری حکام کو اعتماد بھی ملے گا۔

وزیراعلیٰ سید ارشد حسین شاہ  نے مزید کہا کہ نیب میں اصلاحات کا عمل خوش آئند ہے اس سے بدعنوانی کا خاتمہ کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ بدعنوانی کے خلاف نگراں صوبائی حکومت زیرو ٹالرنس پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

چیئرمین نیب لیفٹیننٹ جنرل(ر) نذیر احمد بٹ نےبدعنوانی کے خاتمے اور سرکاری امور میں شفافیت کے لیے وزیر اعلی کے وژن کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ملک و قوم کی ترقی اور لوگوں کی بھلائی کے لیے ہم سب نے مل کر کام کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے نیب صوبائی حکومت کو ہر ممکن تعاون فراہم کرے گا۔

نگراں وزیراعلیٰ اور چیئرمین نیب کی ملاقات میں  ڈائریکٹر جنرل نیب خیبر پختونخوا وقار احمد چوہان بھی موجود تھے۔

اسلام آباد نے بلوچستان کو پاکستان سمجھا ہی نہیں، آصف زرداری

تربت: پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ اسلام آباد نے بلوچستان کو پاکستان سمجھا ہی نہیں مگر ہمارے لیے پہلے بلوچستان ہے اور باقی صوبے بعد میں۔

انتخابی مہم کے سلسلے میں تربت میں پیپلز پارٹی کے ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے آصف زرداری نے کہا کہ بلوچستان کو پاکستان نے سمجھا ہی نہیں، اسلام آباد نے اسے سمجھا ہی نہیں وہ سندھ کو پنجاب کو اور کے پی کے کو نہیں سمجھتا، مجھے پختونوں نے نہیں کہا کہ مجھے نام دو مگر مجھے پتا تھا کہ ان کی خواہش ہے، انہیں نام دینا ہمارا قصور نہیں فخر ہے اگر جرم ہے تو ہم مزید جیل کاٹ لیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کا دور ہے سب کی خواہش ہے ہم اقتدار میں آئیں مگر پی پی کی اقتدار میں آنے کی خواہش عوام کی خدمت کے لیے ہے ہم پر بھٹو اور بی بی شہید کا قرض باقی ہم پاکستان اور بلوچستان کو بنائیں گے ہمارے لیے پہلے بلوچستان ہے اور باقی صوبے بعد میں ہیں، اس لیے کہ یہاں کے جوانوں اور لڑکوں بھلادیا گیا ہے میں چاہتا ہوں وہ واپس آئیں ہم ان کی خدمت کریں گے یہ دوسرے ملک ہمیں نہیں پال سکتے ہمیں خود کو خود چلانا ہوگا۔

انہوں ںے بلوچستان کے نوجوانوں کو مخاطب کیا کہ ہم بلوچستان کے ہر ڈسٹرکٹ میں یونیورسٹی اور کالج بنائیں گے، میڈیکل  کالجز اور میڈیکل یونیورسٹی و اسپتال بنائیں گے عوام کی طاقت کے زور سے یہ کام ہوگا عوام میرا ساتھ دیں تو میں سب کو سنبھال لوں گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں بہت وسائل ہیں اس میں آگے بڑھنے کی بہت گنجائش ہے بلوچستان کے لوگوں سے درخواست ہے کہ ملک کو بچانے کے لیے آگے آئیں۔

شہباز شریف کا کراچی سے انتخابات میں حصہ لینے کا امکان

 لاہور: پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے شہباز شریف کے کراچی سے انتخابات میں حصہ لینے کا عندیہ دے دیا۔

ایکسپریس نیوز کو ذرائع نے بتایا ہے کہ مسلم لیگ ن کے مرکزی پارلیمانی بورڈ کے اجلاس میں صوبہ سندھ کے ممکنہ امیدواروں کے انٹرویوز کیے گئے اس دوران نواز شریف نے کہا کہ کراچی والے تیاری کریں شہباز شریف آپ کے پاس آ رہے ہیں۔

ذرائع نے بتایا ہے کہ شہباز شریف کراچی سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں سے انتخاب میں حصہ لیں گے، نواز شریف نے کراچی کے تنظیمی عہدے داروں کو شہباز شریف کی انتخابی مہم ترتیب دینے کی ہدایت کردی ہے۔

خدارا۔۔الیکشن ہونے دیں

پتہ نہیں کس کی جان الیکشن نہ ہونے والے طوطے میں اٹکی ہوئی ہے کہ الیکشن کے راستے میں ایسی ایسی رکاوٹیں ڈالنے کی کوششیں ہورہی ہیں کہ لگتا ہے الیکشن ہوگیاتوکسی کا منصوبہ ٹھپ ہوجائے گا۔پہلے بھی کئی بار یہ نوحہ پڑھ چکا کہ وطن عزیزترکے مسائل کا ایک گھمبیر مسئلہ یہاں کا تہہ دارعدالتی نظام ہے۔یہاں پرسیکڑوں ضلعی عدالتیں ہیں۔ہائی کورٹس ہیں پھر سپریم کورٹ ہے۔انسداد دہشت گردی،بینکنگ کورٹس،نیب کورٹس،ایف آئی اے کی عدالتیں ہیں اورپھر وفاقی شرعی عدالت بھی ہے ۔یہاں سے کچھ بچ جائے تو الیکشن کمیشن کی اپنی عدالت ہے ۔ہرتحصیل کے اسسٹنٹ کمشنر کی اپنی عدالت ہے۔یہ تمام عدالتیں اپنی اپنی دھن میں ’’انصاف‘‘ کی فراہمی میں مگن رہتی ہیں ۔کب کوئی عدالت کسی دوسری عدالت کی حدمیں گھس جائے،کب کسی کا فیصلہ بدل دے یا کب کسی عدالت کو کوئی حکم جاری کردے کوئی پتہ نہیں چلتا۔سوچیں کیسے ایک مائی لارڈنے الیکشن میں بیوروکریسی سے عملہ لینے کا الیکشن کمیشن کا نوٹی فکیشن کالعدم کرکے پورے ملک کوہیجان زدہ کردیا۔کونے کونے سے الیکشن کے ملتوی ہونے کی باتیں ہونے لگیں اورشاید کہیں خوشی کے شادیانے بھی۔
پورا ملک جانتا ہے کہ آنے والے الیکشن کا انعقاد کروانے کے لیے سپریم کورٹ کو کیسے تاریخ اور پھر اس تاریخ کو الیکشن کروانے کی یقین دہانی لینا اورپھر اس حکم کو پتھرپر لکیر قراردینا پڑاتھا۔کہاں سپریم کورٹ کا آرڈر اور کہاں لاہورہائی کورٹ میں ایک شخصی درخواست اور اس درخواست پرایک معزز مائی لارڈکا پورے ملک کے الیکشن عملے کی تعیناتیوں کوختم کردینا۔کیایہ سب اتناہی سادہ تھا جتنی آسانی اورسرعت کے ساتھ عدالت نے حکم دیا جیسے کوئی مسئلہ ہی نہیں ؟کمال کا نظام ہے کہ کبھی انصاف بندوق کی گولی اورخلائی راکٹ کی رفتار سے بھی تیز ہوجاتا ہے اور کبھی اتنا سست کہ لوگوں کو جان دینے کے بعد نصیب ہوتا ہے۔
اگر لاہورہائی کورٹ کو بہت جلدی تھی تو مجھے لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن کو بھی اسی حکم نامے کا انتظارتھا۔الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ جانے سے پہلے فوری طورپرالیکشن عملے کی ٹریننگ کا پروگرام روک دیا جس سے اشارے مل رہے تھے کہ الیکشن 8فروری کو نہ کروانے کے کسی منصوبے پرعمل شروع ہوگیا ہے۔
میں نے 28نومبر کو ایک کالم انہی صفحات میں لکھ کرعزت مآب چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی سے درخواست کی تھی کہ ’’جاگتے رہنا‘‘ یہاں وارداتیے بہت ہیں اورالیکشن کے خلاف سازشیں شروع ہوچکی ہیں۔ نیچے دو پیراگراف اس کالم کے دوبارہ نقل کررہا ہوں ۔
’’وطن عزیزتر کی ایک خوبی اور بھی ہے کہ یہاں آئین اور قانون پرعملدرآمد کے لیے ڈنڈے کا سہارالینا پڑتا ہے کہ ہمارا سسٹم از خود کام کرنے کو کب کا تیاگ چکا ہے۔جب تک ڈندانہ اٹھایا جائے کوئی کام نہیں ہوتا اور جب تک ڈنڈا فضا میں رہے کام ہوتا رہتا ہے یونہی یہ ڈنڈا رکھا جاتا ہے پھر عملدرآمد رک جاتا ہے۔ حالیہ مثال ڈالر مافیا کے خلاف ڈنڈا چلانے کی ہے۔ڈنڈا چلا اور دیکھتے ہی دیکھتے ڈالر کو ریورس گیئر لگ گیا اور جب ڈنڈا رکھ دیا گیا تو یہ سلسلہ رک کا سا گیا بلکہ ڈالر کی قدر پھر بڑھنے لگی ۔اب جبکہ قاضی صاحب کے حکم کو ایک ماہ سے زیادہ ہوگیا ہے اور بظاہر ڈندا رکھنے کا احساس غالب آنا شرو ع ہوگیا ہے تو ان کے حکم کی خلاف ورزیوں کا آغاز ہونے کے خدشات بھی جنم لے رہے ہیں۔ اس وقت شک کے بادلوں میں غیریقینی کا پانی بھرنے کا آغاز ہورہا ہے۔فضا الیکشن کے انعقادپر شکوک سے مقدرہونے لگی ہے۔گوکہ ابھی تک ٹی وی میڈیا پر کسی کو کھل کر اس شک کا پرچار کرنے کی ہمت نہیں ہوئی اور امید ہے کہ ہوگی بھی نہیں لیکن اگر افواہوں اور خدشات کی آندھی کے ساتھ شک کے بادل برسنا شروع ہوگئے تو یہ میڈیا بھی اس کی رپورٹنگ پر کسی نہ کسی طرح لازمی مجبور ہوگا۔
ماضی میں جو ہوا وہ گزر چکا۔ہمیں آگے بڑھنا ہے ۔آگے کے راستے میں کانٹے بچھانے والوں پر نظر بھی رکھنی ہے اور انہیں ناکام بھی بناناہے۔ چیف جسٹس صاحب!آپ آئین پرست ہیں۔مجھ جیسے کروڑوں آئین پرست آپ سے توقع کررہے ہیں کہ آپ شک کے ان بادلوں کو اس ریاست میں برسنے کی اجازت نہیں دیں گے۔افواہوں کی بیخ کنی کریں گے۔آٹھ فروری کو آپ نے پتھر پر لکیر قرار دیا تھا اگر کسی نے اس لکیر کو مٹانے یا اس لکیر پر دوسری لکیر کھینچنے کی ہمت کی تو آپ ان ہاتھوں کو کاٹنے کا بندوبست کریں گے۔چیف صاحب! آپ اس قوم کی امید ہیںخدارا کروڑوں لوگوں کی امیدیں ٹوٹنے سے بچائے رکھئے گا۔سپریم کورٹ اب تک نظریہ گنجائش پر یقین کرتے ہوئے مختلف غیر آئینی کاموں کے لیے گنجائش نکالتی رہی ہے۔آپ کے آنے سے یہ گنجائش والا دروازہ بندہونے کا یقین ہے تو اس یقین کو قائم رکھئے گا۔دسمبر آنے والا ہے ۔الیکشن کمیشن کو اب الیکشن کا شیڈول جاری کرنا ہے ۔اس شیڈول کو بروقت جاری کروانا بھی آپ کی ذمہ داری ہے ۔مجھے آج بھی اسی طرح یقین ہے جس طرح آٹھ فروری کی تاریخ کے فیصلے کے دن تھا کہ اس ملک میں الیکشن کو اب کوئی نہیں روک سکے گا ۔چیف صاحب میںاورتو کچھ نہیں کرسکتا صرف آپ سے درخواست کرسکتا ہوں کہ پلیز جاگتے رہنایہاں وارداتیے بہت ہیں اور اقتدار چھوڑنا لوگوں کو موت سے زیادہ دشوارلگتا ہے اس لیے الیکشن کروانا آپ کا بہت بڑا امتحان ہے ۔میں اس امتحان میں آپ کی کامیابی کے لیے دعا کرسکتا ہوں سو کررہاہوں!‘‘
میرے ان خدشات کو دوہفتے بھی نہیں گزرے تھے کہ وطن عزیزترمیں ایک سرکس کا آغازہوگیا۔لاہورہائی کورٹ کے ایک آرڈر نے پورے ملک کاسسٹم ہلا کررکھ دیا۔جمعہ کے دن لوگوں کو یقین ہونا شروع ہوگیا کہ الیکشن ملتوی ہونے والے ہیں لیکن شکر اللہ کا کہ اس ملک کا چیف جسٹس جاگ رہا تھا۔سپریم کورٹ نے یہاں لاہورہائی کورٹ کا حکم معطل کیا۔یہ حکم دینے والے معزز جسٹس کو بتانے کی کوشش کی کہ کس طرح ان کے ایک انفرادی فیصلے نے پورے ملک میں بے یقینی کو جنم دے دیا ہے بلکہ لاہور ہائی کورٹ میں درخواست لے جانے والے پی ٹی آئی کے وکیل کو بھی توہین عدالت کا شوکاز جاری کردیا ہے۔یہ کیس آگے چلے گا لیکن فی الحال چیف جسٹس نے پتھر پر کھینچی اپنی لکیر پر کامیابی سے پہرہ دیا ہے اور مجھے یقین ہے کہ سپریم کورٹ نے جس طرح کل الیکشن کمیشن کو الیکشن شیڈول دینے پر مجبورکیا ہے اسی طرح سپریم کورٹ اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی پولنگ ڈے تک اس کھینچی گئی لکیر پر پہرہ دیں گے ۔ اس لکیر کومٹانے کی سازشیں کرنے والوں کو گردن سے پکڑیں گے۔
اس ملک میں ایک سال سے الیکشن کے نام پرتماشہ لگایا جاچکا ہے۔کبھی کوئی الیکشن نہیں چاہتا کبھی کوئی الیکشن نہیں چاہتا۔عجب ہے کہ ملک کا نظام پارلیمانی جمہوری ہے لیکن الیکشن کے نام پر اس پارلیمنٹ کو بنانے کا کام اور حق جمہورکودینے سے ڈر لگتا ہے۔یہاں ہر کوئی صرف جیتنا چاہتا ہے ۔ہار کسی کو پسند نہیں ۔چلیں جیتنے کی خواہش ہر کسی کا حق ہے لیکن اس جیت کے لیے محنت تو کریں۔سازشی ماحول سے باہر تو نکلیں۔جن سے ووٹ لینے ہیں ان کے ساتھ تو کھڑے ہوں۔چیف صاحب اس ملک میں الیکشن لوگوں کو موت سے مشکل لگتے ہیں یہاں ہر کوئی بغیر الیکشن اقتدار چاہتا ہے ۔اس وقت یہ اقتدارنگران لوگوں کے قبضے میں ہے ان سے یہ قبضہ چھڑانے کے لیے آپ کو ڈنڈااٹھاکررکھنا پڑے گا۔آپ کواپنی کھینچی گئی لکیر پر اسی طرح پہر ہ دینا پڑے گا جس طرح آپ نے جمعہ کے دن دیا ہے۔اورمیں الیکشن مخالف عناصر سے بھی کہتا ہوں کہ خدارااس ملک کو نارمل طریقے سے آگے چلنے دیں خداراالیکشن ہونے دیں۔۔!