آئین میں بغاوت کا آرٹیکل 124اے ختم کرنے کا بل منظور

اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے آئین کا آرٹیکل 124اے ختم کرنے کا بل متفقہ طور پر منظور کر لیا۔

قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا سینیٹر محسن عزیز کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں سینیٹر میاں رضا ربانی کی جانب سے بل متعارف کرایا گیا۔

اجلاس میں کرمنل لاء ترمیمی بل 2023 متفقہ طور پر منظور کیا گیا جسے فوزیہ ارشد کی جانب سے متعارف کیا گیا تھا۔

سینیٹر میاں رضا ربانی کا کہنا تھا کہ یہ بل سیکریٹریٹ میں کہیں گم گیا تھا، بل کا مقصد نو آبادیاتی طرز حکومت میں تبدیلی ہے اور آئین میں آرٹیکل 124اے کی کوئی ضرورت نہیں رہی کیونکہ یہ آرٹیکل نو آبادیاتی دور کا ہے، بغاوت کا کوئی تصور موجود نہیں، لاہور ہائیکورٹ کے ایک رکنی بینچ نے اسے معطل کیا ہے۔

وزارت قانون و انصاف نے کہا کہ حکومت نے اس فیصلے کے خلاف اپیل فائل کی ہے، اپیل کا فیصلہ آنے تک بل مؤخر کیا جائے۔ سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا کہ پارلیمانی کارروائی کو عدالتی کارروائی کی وجہ سے نہیں روکا جا سکتا۔

سوسائٹیز رجسٹریشن ترمیمی بل 2023 زیر بھی غور آیا۔ مولانا فیض محمد نے کہا کہ مدارس کی رجسٹریشن محض اسلام آباد کے بجائے ہر ضلع میں ہونا چاہیے۔

حکام آئی سی ٹی انتظامیہ نے کہا کہ دینی مدارس کی رجسٹریشن کا طریقہ کار چیریٹیز ایکٹ کے تحت پہلے سے موجود ہے۔

مولانا فیض محمد نے عربی میں کلام کر کے انتظامیہ حکام کے انگریزی استعمال کرنے پر اعتراض کیا۔ انہوں نے کہا کہ دینی تنظیموں کو کمیٹی میں بلایا جائے وہ بہتر نمائندگی کریں گے۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اس بل کے دوبارہ یہاں آنے کا کوئی مقصد نہیں ہے جبکہ سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ بل کا بنیادی مقصد ہے کہ دور دراز سے دینی مدارس کی رجسٹریشن کے لیے لوگوں کو اسلام آباد نہیں آنا چاہیے، صوبائی چیریٹیز ایکٹ موجود ہے کسی کو اسلام آباد آنے کی ضرورت نہیں۔

مولانا فیض محمد نے سوال اٹھایا کہ مدارس کے نمائندوں کو یہاں بلانے میں کیا مضائقہ ہے؟ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ دو ترامیم جو آپ نے متعارف کیں وہ پہلے سے موجود ہیں، بل دو مرتبہ پہلیں بھی مؤخر کیا جا چکا ہے۔ مولانا فیض محمد نے کہا کہ یونیورسٹیوں والے یہاں بیٹھتے ہیں لیکن دینی مدارس والوں کے لیے جگہ نہیں۔

کمیٹی نے بل متفقہ طور پر مسترد کر دیا۔ سینیٹر عبد القادر نے کہا کہ چیئرمین صاحب نے مولانا صاحب کو ناراض کر دیا۔

درختوں کی کٹائی کی ممانعت کا ترمیمی بل 2023 پر بھی غور کیا گیا، بل سینیٹر پلوشہ کی جانب سے پیش کیا گیا۔ بل کو دوبارہ متعارف کرانے کے لیے اگلے اجلاس تک مؤخر کر دیا گیا۔

بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کرنیوالا گروہ بھگت سنگھ سے متاثر نکلا

بھارتی پولیس کے عہدیداروں نے گزشتہ روز پارلیمنٹ میں دھواں چھوڑنے کو کم از کم 18 ماہ کی منصوبہ بندی اور ملزمین کے درمیان متعدد ملاقاتوں کا نتیجہ قراردیا ہے۔ ملزمان بھگت سنگھ کے پیروکار نکلے۔

گزشتہ روز سال 2001 میں پارلیمنٹ حملے کی برسی کے موقع پر ساگر شرما اور منورنجن ڈی نامی 2 اشخاص دوپہر ایک بجے کے قریب وزیٹر گیلری سے لوک سبھا کے چیمبر میں کودگئے تھے۔ دونوں نے پیلے دھوئیں سے بھرے کنستر لگائے اور شرما نے اسپیکر کی کرسی کی طرف چھلانگ لگائی، تاہم فوراً بعد ارکان پارلیمنٹ نے ان پر قابو پاتے ہوئے انہیں دھرلیا تھا۔

اس کے علاوہ پارلیمنٹ کی حدود سے مزید دو افراد کو حراست میں لیا گیا تھا،امول نامی شخص کا تعلق مہاراشٹر اور نیلم نامی خاتون کا تعلق بھارتی ریاست ہریانہ سے بتایا گیا۔ پولیس کے مطابق چاروں کا تعلق مختلف ریاستوں سے ہے لیکن ایک تعلق مشترک ہے اوروہ ہے، ’بھگت سنگھ فین کلب‘ نامی ایک سوشل میڈیا پیج۔

نیلم آزاد اورامول نے پارلیمنٹ کے پیلے اور سرخ دھوئیں والے کنستروں کا استعمال کرتے ہوئے آمریت کیخلاف نعرے لگائے تھے جبکہ پارلیمنٹ کے اندر ہنگامنہ برپا کرنے والے ساگرشرما لکھنؤ اور منورنجن میسور کے رہنے والے ہیں۔

 

 

دیگر دو ملزمین للت جھا اور وکی شرما ہیں۔ للت نے مبینہ طور پر نیلم اور شندے کی پارلیمنٹ کے باہر کنستروں کا استعمال کرتے ہوئے ویڈیو بنائی اور پھر اپنے سیل فون کے ساتھ فرار ہوگئے جبکہ وکی شرم کے گھر میں دوسرے ملزم حملے سے پہلے رہتے تھے۔ للت جھا کا تعلق بہار اور وکی کا گرگرام سے ہے۔

دہلی پولیس کی اب تک کی تفتیش کے مطابق ملزمین کی پہلی ملاقات تقریبا 18 مہینے پہلے میسورو میں ہوئی تھی۔ اس میٹنگ میں انہوں نے وہ مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے مختلف طریقوں کے بارے میں بات کی جن کے بارے میں ان کا ماننا تھا کہ پارلیمنٹ کو بحث کرنی چاہئے۔ ان مسائل میں بے روزگاری ، افراط زر اور منی پور میں تشدد شامل ہیں۔

پولیس حکام نے بتایا کہ نو ماہ قبل رواں سال مارچ میں ایک اور میٹنگ میں تفصیلی منصوبہ تیارکرنا شروع کیاگیا۔ یہ میٹنگ چندی گڑھ ہوائی اڈے کے قریب کسانوں کے احتجاج کے دوران ہوئی، جس میں کم از کم امدادی قیمت کے لیے قانونی ضمانت کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

کچھ وقت بعد منورنجن دہلی چلا گیا اوربجٹ اجلاس کے دوران پارلیمنٹ کمپلیکس کا جائزہ لیا۔ ایسا کرتے ہوئے اس نے نوٹ کیا کہ اندر جانے والے وزیٹرزکی متعدد بارتلاشی لی گئی لیکن جوتوں کی جانچ نہیں کی گئی۔ عہدیداروں نے بتایا کہ اسی لیے منورنجن اور ساگر شرما کو بدھ کے روز خلاف ورزی کے دوران اپنے جوتوں کے اندر کنستر چھپانے کا خیال آیا ہوگا۔

جولائی میں شرما پارلیمنٹ کمپلیکس کی ریکی کرنے کے لیے لکھنؤ سے راجدھانی بھی گیا تھا۔۔

یہ ستمبر میں نئی پارلیمنٹ کی عمارت میں پہلے اجلاس کے انعقاد سے پہلے کی بات ہے، شرما کو اندر رسائی نہیں مل سکی تھی۔ عہدیداروں نے بتایا کہ اس نے باہر سے عمارت کی ریکی کی، تمام حفاظتی انتظامات کا جائزہ لیکرباقی گروپ کو رپورٹ کیا۔

پارلیمنٹ حملے کی برسی کے موقع پر شرما، منورنجن، نیلم اور شندے اتوار 10 دسمبر کو دہلی پہنچے اور گروگرام میں وکی شرما کے گھر چلے گئے۔

اس واقعہ کی صبح ملزمین نے پارلیمنٹ کے قریب مہادیو روڈ پر واقع بی جے پی رکن پارلیمنٹ پرتاپ سمہا کے دفتر سے وزیٹرز پاس حاصل کیے۔ ابتدائی منصوبہ بندی میں تمام 6 افراد کا پارلیمنٹ کے اندرجانا شامل تھا، لیکن وہ صرف شرما اور منورنجن کے لیے پاسز حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے۔

اس کے بعد وہ انڈیا گیٹ پر جمع ہوئے اور یہی وہ جگہ تھی جہاں شندے نے باقی ملزمین کو کنستر تقسیم کیے جو وہ آبائی شہر سے خریدکر لایا تھا۔ انڈیا گیٹ میٹنگ تقریبا آدھے گھنٹے تک جاری رہی۔

اب جیسا کہ ان کے ہیرو بھگت سنگھ نے 1929 میں کیا تھا، ملزمین نے اسموک بم نصب کرنے کے بعد پارلیمنٹ میں پمفلٹ پھینکنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ انہوں نے دہلی چھاؤنی سے بھارتی پرچم بھی خریدے تھے۔

گرفتاریاں اور سیکیورٹی خدشات

ارکان پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی ایسے وقت میں کی گئی جب پارلیمنٹ کے اندر سیکیورٹی پہلے سے ہی سخت تھی، کیونکہ یہ 2001 کے حملے کی برسی تھی۔ سکیورٹی ایجنسیاں بھی چوکس رہتیں کیونکہ خالصتان دہشت گرد گرپتونت سنگھ پنوں نے 13 دسمبر کو یا اس سے پہلے پارلیمنٹ پر حملہ کرنے کی دھمکی دی تھی۔

جن چار لوگوں کو گرفتار کیا گیا ان پر سخت انسداد دہشت گردی قانون غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے ساتھ ساتھ مجرمانہ سازش اور دشمنی کو فروغ دینے سے متعلق دفعات کے تحت آئی پی سی کی دفعات کے تحت الزام عائد کیا گیا ہے۔ چاروں سے تفتیش جاری ہے۔

سائفر کیس کے ان کیمرہ ٹرائل کی درخواست منظور

راولپنڈی: آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت نے سائفر کیس کے ان کیمرہ ٹرائل کی درخواست منظور کرلی۔

جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے سائفر کیس کی اڈیالہ جیل راولپنڈی میں سماعت کی۔

ایف آئی اے کی جانب سے اسپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی پیش ہوئے اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ سیکشن 14 کے تحت ٹرائل خفیہ رکھنے کی درخواست کی۔ انہوں نے کہا کہ سیکشن 14 اے کے تحت سماعت ان کیمرہ ہونی چاہیے، مقدمہ ہی آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت بنایا گیا ہے اسی وجہ سے ان کیمرہ سماعت ضروری ہے۔
عدالت نے پراسیکیوشن کی 14 اے کے تحت دائر درخواست منظور کرتے ہوئے حکم دیا کہ سائفر کیس کی آئندہ سماعت ان کیمرہ ہوگی، تاہم فیملی ممبران کو دوران سماعت کمرہ عدالت میں رسائی دی جائے گی۔

عدالت نے سائفر کیس کی سماعت کل تک کیلئے ملتوی کردی۔

پرتھ ٹیسٹ؛ وارنر کی سینچری، پاکستان کیخلاف آسٹریلیا کی آدھی ٹیم پویلین لوٹ گئی

پرتھ ٹیسٹ میچ کے پہلے روز آسٹریلیا نے پاکستان کے خلاف 5 وکٹوں کے نقصان 79 اوورز میں 335 رنز بنالیے۔

پہلا روز

پرتھ کرکٹ گراؤنڈ میں کھیلے جارہے سیریز کے پہلے ٹیسٹ میچ کے پہلے روز اوپنر ڈیوڈ وارنر نے جارحانہ کھیل کا مظاہرہ کیا اور عثمان خواجہ کے ہمراہ پہلی وکٹ کی شراکت میں 126 رنز بنائے تاہم خواجہ 41 رنز بناکر پویلین لوٹے جبکہ مارنوس لبوشین 16، اسٹیو اسمتھ 31 اور ٹریوس ہیڈ 40 رنز کے مہمان ثابت ہوئے۔ اوپنر ڈیوڈ وارنر 164 رنز کی اننگز کھیل کر عامر جمال کا شکار بنے۔

پاکستان کی جانب سے عامر جمال نے 2 جبکہ شاہین شاہ آفریدی، خرم شہزاد اور فہیم اشرف نے ایک ایک وکٹ حاصل کی۔

اس سے قبل آسٹریلوی کپتان پیٹ کمنز نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا، اس موقع پر قومی ٹیم کے کپتان شان مسعود نے کہا کہ اگر ٹاس جیتا تو پہلے بیٹنگ کرنے کا ہی فیصلہ کرتا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے عامر جمال اور خرم شہزاد ڈیبیو کریں گے، دونوں نوجوان کرکٹرز کو شاہین آفریدی اور حسن علی نے ٹیسٹ کیپ پیش کی۔

پاکستان کا اسکواڈ

کپتان شان مسعود، امام الحق، عبداللّٰہ شفیق، بابراعظم، سعود شکیل، سرفراز احمد، سلمان علی آغا، فہیم اشرف، شاہین شاہ آفریدی، عامر جمال اور خرم شہزاد شامل ہیں۔

آسٹریلیا کا اسکواڈ

کپتان پیٹ کمنز، ڈیوڈ وارنر، عثمان خواجہ، مارنوس لبوشین، اسٹیو اسمتھ، مچل مارش، ٹریوس ہیڈ، الیکس کیری، مچل اسٹارک، نیتھن لائن اور جوش ہیزل ووڈ شامل ہیں۔

“بکواس بند کرو”، دیپیکا پڈوکون پر تنقید کرنیوالوں کو کرن جوہر کا کرارا جواب

ممبئی: مقبول ترین بھارتی شو “کافی ود کرن” میں دیپیکا پڈوکون اور رنویر سنگھ کی شرکت کے بعد سوشل میڈیا صارفین نے اداکارہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا جس پر یہ جوڑی تو خاموش رہی لیکن اب فلمساز اور شو کے میزبان کرن جوہر ان کے دفاع میں سامنے آگئے ہیں۔

بھارتی میڈیا کے مطابق کرن جوہر نے کہا کہ “میرے شو ‘کافی ود کرن’ کی وہ قسط اب تک کی سب سے بہترین اور ایماندارانہ تھی جس میں دیپیکا پڈوکون اور رنویر سنگھ نے شرکت کی تھی”۔

کرن جوہر نے کہا کہ “اس قسط میں دیپیکا اور رنویر سنگھ نے کسی بھی جھجھک کے بغیر سب کچھ شیئر کیا، وہ دونوں مخلص اور ایماندار ہیں، اُنہوں نے اپنے احساسات اور جذبات بیان کیے لیکن بعد میں لوگوں نے اس قسط پر جو ردعمل دیا وہ دیکھ کر مجھے بہت زیادہ غصہ آیا”۔
اُنہوں نے کہا کہ “سوشل میڈیا ٹرولنگ نے مجھے بہت غصہ دلایا ہے، میں تمام ناقدین سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کسی اور کی ذاتی زندگی اور شادی کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟، آپ اپنے گھروں میں دیکھو کہ کیا ہورہا ہے، دوسروں کی نجی زندگی پر تبصرے نہیں کرو”۔

کرن جوہر نے مزید کہا کہ “میرا دل کررہا تھا کہ میں ناقدین کو گالی دے دوں، میں ٹرولنگ کرنے والوں سے یہی کہنا چاہتا ہوں کہ بس اب چپ رہو”۔

واضح رہے کہ کرن جوہر کے مقبول ترین شو “کافی ود کرن” کے 8ویں سیزن کی پہلی قسط میں دیپیکا پڈوکون اور اُن کےشوہر رنور سنگھ نے بطورِ مہمان شرکت کی تھی۔

دورانِ شو دیپیکا پڈوکون نے چونکا دینے والا انکشاف کیا تھا کہ وہ رنویر سنگھ کے ساتھ رشتے میں ہونے کے باوجود بھی دوسرے مردوں کے ساتھ تعلقات میں تھیں۔

اداکارہ نے کہا تھا کہ بےشک! وہ دوسرے مردوں کے ساتھ رشتے میں تھیں لیکن ذہن میں صرف یہی تھا کہ اُنہیں رنویر سنگھ کے پاس ہی واپس جانا ہے کیونکہ وہ اُن کے دل میں تھے۔

سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے بھی دیپیکا پڈوکون کو اُن کے بیان پر شدید کا نشانہ بنایا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ اداکارہ نے اپنے کیریئر میں ہمیشہ مردوں کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا ہے۔

ٹی ٹی پی کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے، دفتر خارجہ

اسلام آباد: دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان کوئی مذاکرات ہو رہے ہیں نہ کسی بھی تیسرے ملک میں ٹی ٹی پی سے کوئی بات چیت جاری ہے۔

ترجمان کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ پاکستان اس طرح کی خبروں کی سختی سے تردید کرتا ہے۔ پاکستان اور ٹی ٹی پی کے مابین کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے اور نہ ہی کسی بھی تیسرے ملک میں ٹی ٹی پی کے ساتھ کوئی بات چیت جاری ہے۔

آرمی چیف کے دورۂ امریکا کے حوالے سے ترجمان نے کہا کہ جنرل سید عاصم منیر کا بہ طور چیف آف آرمی اسٹاف امریکا کا یہ پہلا دورہ ہے، جو دونوں ممالک کے مابین معمول کے دوستانہ تعلقات پر مبنی ہے۔ اس دوران آرمی چیف امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے اہل کاروں سے ملاقات بھی کریں گے۔
افغان باشندوں کے ملک سے انخلا کے حوالے سے ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ چمن دھرنے پر پاکستان کا مؤقف بہت واضح ہے ۔ کسی بھی ملک کے اپنے امیگریشن قوانین ہوتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان نے بھی افغانستان کے لیے یکم نومبر سے ’’سنگل ڈاکومنٹ پالیسی‘‘ متعارف کروائی ہے ، جس کے بعد اب افغان شہریوں کو ویزا کے بغیر پاکستان میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا جب کہ وفاقی کابینہ نے ’’سنگل ڈاکومنٹ پالیسی‘‘کی منظوری دی ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ بھارت دنیا بھر میں جاسوسی اور دہشت گردی میں ملوث ہے۔ بھارتی جاسوسی کارروائیاں اب پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں پھیل گئی ہیں۔

علاوہ ازیں ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان کوئی مذاکرات نہیں ہورہے ہیں۔ کسی بھی تیسرے ملک میں ٹی ٹی پی سے بات چیت نہیں ہورہی ہے ۔ پاکستان اس طرح کی خبروں کی سختی سے تردید کرتا ہے۔

وزارت خزانہ کی تمام وزارتوں و ڈویژنز کو آئی ایم ایف اہداف پر پورا اترنے کی ہدایت

وزارت خزانہ نے تمام وزارتوں اور ڈویژنز کو (بین الاقوامی مالیاتی فنڈ) اہداف پر پورا اترنے کی ہدایت کردی۔

سیکرٹری خزانہ امداد اللہ بوسال نے تمام وزارتوں کو خط لکھ کر کہا کہ طے شدہ اہداف اور وعدوں کو پورا کیا جانا ضروری ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) اور پاور ڈویژن کو اخراجات پر مشتمل اپ ڈیٹ جمع کرانا ہے، دیگراصلاحات میں گرین توانائی کی منتقلی کو تیز کرنا شامل ہے۔

ذرائع کے مطابق بجلی کی نئی ہول سیل مارکیٹ اپریل 2024 میں شروع ہونے کی توقع ہے جس میں کیپسٹی پیمنٹس کو کم کرنے کرنے لیے اقدامات کیے جاٸیں گے۔

بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کرنیوالا گروہ بھگت سنگھ سے متاثر نکلا

بھارتی پولیس کے عہدیداروں نے گزشتہ روز پارلیمنٹ میں دھواں چھوڑنے کو کم از کم 18 ماہ کی منصوبہ بندی اور ملزمین کے درمیان متعدد ملاقاتوں کا نتیجہ قراردیا ہے۔ ملزمان بھگت سنگھ کے پیروکار نکلے۔

گزشتہ روز سال 2001 میں پارلیمنٹ حملے کی برسی کے موقع پر ساگر شرما اور منورنجن ڈی نامی 2 اشخاص دوپہر ایک بجے کے قریب وزیٹر گیلری سے لوک سبھا کے چیمبر میں کودگئے تھے۔ دونوں نے پیلے دھوئیں سے بھرے کنستر لگائے اور شرما نے اسپیکر کی کرسی کی طرف چھلانگ لگائی، تاہم فوراً بعد ارکان پارلیمنٹ نے ان پر قابو پاتے ہوئے انہیں دھرلیا تھا۔

اس کے علاوہ پارلیمنٹ کی حدود سے مزید دو افراد کو حراست میں لیا گیا تھا،امول نامی شخص کا تعلق مہاراشٹر اور نیلم نامی خاتون کا تعلق بھارتی ریاست ہریانہ سے بتایا گیا۔ پولیس کے مطابق چاروں کا تعلق مختلف ریاستوں سے ہے لیکن ایک تعلق مشترک ہے اوروہ ہے، ’بھگت سنگھ فین کلب‘ نامی ایک سوشل میڈیا پیج۔

نیلم آزاد اورامول نے پارلیمنٹ کے پیلے اور سرخ دھوئیں والے کنستروں کا استعمال کرتے ہوئے آمریت کیخلاف نعرے لگائے تھے جبکہ پارلیمنٹ کے اندر ہنگامنہ برپا کرنے والے ساگرشرما لکھنؤ اور منورنجن میسور کے رہنے والے ہیں۔

دیگر دو ملزمین للت جھا اور وکی شرما ہیں۔ للت نے مبینہ طور پر نیلم اور شندے کی پارلیمنٹ کے باہر کنستروں کا استعمال کرتے ہوئے ویڈیو بنائی اور پھر اپنے سیل فون کے ساتھ فرار ہوگئے جبکہ وکی شرم کے گھر میں دوسرے ملزم حملے سے پہلے رہتے تھے۔ للت جھا کا تعلق بہار اور وکی کا گرگرام سے ہے۔

دہلی پولیس کی اب تک کی تفتیش کے مطابق ملزمین کی پہلی ملاقات تقریبا 18 مہینے پہلے میسورو میں ہوئی تھی۔ اس میٹنگ میں انہوں نے وہ مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے مختلف طریقوں کے بارے میں بات کی جن کے بارے میں ان کا ماننا تھا کہ پارلیمنٹ کو بحث کرنی چاہئے۔ ان مسائل میں بے روزگاری ، افراط زر اور منی پور میں تشدد شامل ہیں۔

پولیس حکام نے بتایا کہ نو ماہ قبل رواں سال مارچ میں ایک اور میٹنگ میں تفصیلی منصوبہ تیارکرنا شروع کیاگیا۔ یہ میٹنگ چندی گڑھ ہوائی اڈے کے قریب کسانوں کے احتجاج کے دوران ہوئی، جس میں کم از کم امدادی قیمت کے لیے قانونی ضمانت کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

کچھ وقت بعد منورنجن دہلی چلا گیا اوربجٹ اجلاس کے دوران پارلیمنٹ کمپلیکس کا جائزہ لیا۔ ایسا کرتے ہوئے اس نے نوٹ کیا کہ اندر جانے والے وزیٹرزکی متعدد بارتلاشی لی گئی لیکن جوتوں کی جانچ نہیں کی گئی۔ عہدیداروں نے بتایا کہ اسی لیے منورنجن اور ساگر شرما کو بدھ کے روز خلاف ورزی کے دوران اپنے جوتوں کے اندر کنستر چھپانے کا خیال آیا ہوگا۔

جولائی میں شرما پارلیمنٹ کمپلیکس کی ریکی کرنے کے لیے لکھنؤ سے راجدھانی بھی گیا تھا۔۔

یہ ستمبر میں نئی پارلیمنٹ کی عمارت میں پہلے اجلاس کے انعقاد سے پہلے کی بات ہے، شرما کو اندر رسائی نہیں مل سکی تھی۔ عہدیداروں نے بتایا کہ اس نے باہر سے عمارت کی ریکی کی، تمام حفاظتی انتظامات کا جائزہ لیکرباقی گروپ کو رپورٹ کیا۔

پارلیمنٹ حملے کی برسی کے موقع پر شرما، منورنجن، نیلم اور شندے اتوار 10 دسمبر کو دہلی پہنچے اور گروگرام میں وکی شرما کے گھر چلے گئے۔

اس واقعہ کی صبح ملزمین نے پارلیمنٹ کے قریب مہادیو روڈ پر واقع بی جے پی رکن پارلیمنٹ پرتاپ سمہا کے دفتر سے وزیٹرز پاس حاصل کیے۔ ابتدائی منصوبہ بندی میں تمام 6 افراد کا پارلیمنٹ کے اندرجانا شامل تھا، لیکن وہ صرف شرما اور منورنجن کے لیے پاسز حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے۔

اس کے بعد وہ انڈیا گیٹ پر جمع ہوئے اور یہی وہ جگہ تھی جہاں شندے نے باقی ملزمین کو کنستر تقسیم کیے جو وہ آبائی شہر سے خریدکر لایا تھا۔ انڈیا گیٹ میٹنگ تقریبا آدھے گھنٹے تک جاری رہی۔

اب جیسا کہ ان کے ہیرو بھگت سنگھ نے 1929 میں کیا تھا، ملزمین نے اسموک بم نصب کرنے کے بعد پارلیمنٹ میں پمفلٹ پھینکنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ انہوں نے دہلی چھاؤنی سے بھارتی پرچم بھی خریدے تھے۔

گرفتاریاں اور سیکیورٹی خدشات
ارکان پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی ایسے وقت میں کی گئی جب پارلیمنٹ کے اندر سیکیورٹی پہلے سے ہی سخت تھی، کیونکہ یہ 2001 کے حملے کی برسی تھی۔ سکیورٹی ایجنسیاں بھی چوکس رہتیں کیونکہ خالصتان دہشت گرد گرپتونت سنگھ پنوں نے 13 دسمبر کو یا اس سے پہلے پارلیمنٹ پر حملہ کرنے کی دھمکی دی تھی۔

جن چار لوگوں کو گرفتار کیا گیا ان پر سخت انسداد دہشت گردی قانون غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے ساتھ ساتھ مجرمانہ سازش اور دشمنی کو فروغ دینے سے متعلق دفعات کے تحت آئی پی سی کی دفعات کے تحت الزام عائد کیا گیا ہے۔ چاروں سے تفتیش جاری ہے۔

اسرائیل کے معاملے پر جو رائے قائد اعظم کی تھی اس سے اختلاف کرنا کفر نہیں ہے۔ دو ریاستی حل مسئلہ فلسطین کا واحد حل ہے۔ نگراں وزیراعظم انوار الحق کا نجی ٹی وی کو انٹرویو

نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ افغان شہریوں کی ووٹر لسٹوں میں شمولیت سے متعلق آصف زرداری کی بات میں وزن ہے، متعلقہ اداروں کو اس پر دیکھنا چاہیئے، ہمارے ڈیٹا بیس میں جعلی کاغذات بنے اور پھر وہ ووٹرلسٹوں کے ساتھ جڑ گئے، اگر کوئی کہتا ہے کہ جعلی کاغذات نہیں بنے تو وہ خود کو دھوکا دے رہا ہے۔

نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ افغان سرزمین سے دہشت گردی کی کارروائیاں ہورہی ہیں، افغان حکومت سے بات کی جاسکتی ہے کہ وہ ان کو کیسے کنٹرول کرسکتے ہیں، افغان حکومت کی جانب سے اقدامات کرنا ہوں گے، افغان حکومت سے زیادہ تعاون چاہیں گے۔

انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ افغان عبوری حکومت کا تعاون پاکستان کی امیدوں سے کم رہا ہے، افغان عبوری حکومت بھی سمجھتی ہے مستحکم افغانستان خطے کے لیے فائندہ مند ہوگا، مستحکم افغانستان خطے کی ترقی اور خوشحالی کا ضامن ہے۔

نگراں وزیراعظم نے مزید کہا کہ ہمارے مختلف محکمے افغان عبوری حکومت کے ساتھ بات کررہے ہیں، حملے کہاں سے ہورہے ہیں افغان حکومت اور ہمیں پتہ ہے، دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات نہیں کیے جاسکتے، کوئی اب بھی سمجھتا ہے کہ مذاکرات کیے جاسکتے ہیں تو اس کی بدبختی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان امریکا کا گھر نہیں تھا ان کو واپس جانا تھا، ہم یہ زمین چھوڑ کر کہاں جائیں گے، ہمارے کئی اختلافات ہوتے ہیں لیکن یہاں رہتے ہیں، ہمیں کسی بھی دہشت گرد گروپ سے بات نہیں کرنی چاہیئے، تحفظ دینا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے، ریاست کے خلاف تشدد کا راستہ اپنائیں گے تو وہ غیرقانونی ہے۔

انہوں نے کہا کہ تشدد کا راستہ اپنانے کی اجازت کسی صورت نہیں دے سکتے، تشدد اور مذاکرات دونوں ریاست کے ٹول ہیں، ریاست جب چاہے جہاں چاہے یہ دونوں ٹول استعمال کرسکتی ہے، مذاکرات اس وقت کیے جاتے ہیں جب سمجھ رہے ہوں گروہ مجبورہوگیا ہے۔

نگراں وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ افغان شہری ہمارے مہمان ہے، ہم چاہتے ہیں غیرقانونی طور پر مقیم کاغذات بنواکر واپس آئیں، ہم نے افغان شہریوں پر مستقل پابندی تو نہیں لگائی، ہمارے ڈیٹا بیس میں جعلی کاغذات بنے ہیں، جب وہ کاغذات بنے ہیں تو ووٹرلسٹوں میں بھی جڑ گئے ہیں۔

انوار الحق کاکڑ نے یہ بھی کہا کہ کوئی کہتا ہے کہ جعلی کاغذات نہیں بنے تو خود کو دھوکا دے رہا ہے، آصف زرداری نے جو نکتہ اٹھایا اس میں وزن ہے، متعلقہ اداروں کو دیکھنا چاہیئے، آج کی تاریخ تک انتخابات کے التوا کی بات نہیں، 8 فروری کو صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک پولنگ ہونی ہے۔

اسرائیل کے معاملے پر جو رائے قائد اعظم کی تھی اس سے
اختلاف کرنا کفر نہیں ہے۔
دو ریاستی حل مسئلہ فلسطین کا واحد حل ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی چیلنجز کے باوجود سیاسی پارٹیاں اپنی سرگرمیاں کر رہی ہیں اور الیکشن کا ماحول نظر آ رہا ہے۔ کسی تاجر نے مجھے نہیں کہا کہ نگراں حکومت کو ہی آگے چلنا چاہیئے۔

سارہ انعام قتل کیس میں شوہر شاہنواز کو سزائے موت کا حکم

 اسلام آباد: کینیڈین شہری سارہ انعام قتل کیس میں ملزم شوہر شاہنواز امیر کو عدالت نے سزائے موت کا حکم دے دیا۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ناصر جاوید رانا نے  محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے ملزم شاہنواز امیر کو سزائے موت کا حکم دیتے ہوئے 10 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا ہے۔

سارہ انعام کو 23 ستمبر 2022 کو اسلام آباد میں قتل کردیا گیا تھا جس کے بعد پولیس نے ان کے شوہر شاہنواز امیر کیخلاف مقدمہ درج کرتے ہوئے گرفتار کرلیا تھا۔

مقدمے میں ملزم کی والدہ ثمینہ شاہ بھی نامزد ہیں، عدالت نے پانچ دسمبر 2022 کو ملزمان پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے ٹرائل کا آغاز کیا تھا۔

سارہ انعام قتل کیس میں ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا، عدالت نے استغاثہ کے گواہوں کے بیانات قلمبند کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔