‘شرم کرو! مسلمان ہونے کا ہی خیال کرلو’، فریال محمود تنقید کی زد میں

  کراچی: شوبز انڈسٹری کی اداکارہ فریال محمود بولڈ لباس پہننے کی وجہ سے سوشل میڈیا صارفین کی تنقید کی زد میں آگئیں۔

گزشتہ شب کراچی میں پاکستانی فلم ‘وکھری’ کا پریمیئر ہوا جس میں فلم کی کاسٹ سمیت دیگر شوبز ستاروں نے شرکت کی تھی، پریمیئر کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہیں۔

ارم پروین بلال کی ہدایتکاری میں بننے والی فلم ‘وکھری’ میں فریال محمود نے مرکزی کردار ادا کیا ہے جبکہ فلم کی دیگر کاسٹ میں سہیل ثمیر، طوبیٰ صدیقی، گلشن مجید، سلیم معراج اور بختاور مظہر شامل ہیں۔

فلم کے پریمیئر کے موقع پر فریال محمود بولڈ لباس میں ملبوس تھیں، اداکارہ کی تصاویر جیسے ہی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو صارفین نے اُنہیں آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

نور عباسی نامی صارف نے کہا کہ “فریال محمود نے تو حد ہی کردی ہے”۔

ٹی20 ورلڈ کپ کا شیڈول جاری، نیویارک میں پاک-بھارت ٹاکرا ہوگا

 دبئی: انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے ٹی20 ورلڈ کپ 2024 کا شیڈول جاری کردیا، جس کے مطابق روایتی حریف بھارت اور پاکستان کا ٹاکرا 9 جون کو نیویارک میں ہوگا۔

آئی سی سی کے اعلامیے کے مطابق امریکا اور ویسٹ انڈیز کی مشترکہ میزبانی میں ہونے والے ٹی20ورلڈ کپ 2024  کا پہلا میچ یکم جون جبکہ فائنل 29 جون کو کھیلا جائے گا۔

ٹی20 ورلڈ کپ میں شرکت کرنے والی20 ٹیموں کو 4 گروپس میں تقسیم کردیا گیا ہے، گروپ اے میں روایتی حریف پاکستان اور بھارت کے علاوہ میزبان امریکا، کینیڈا اور آئرلینڈ کی ٹیمیں شامل ہیں۔

گروپ بی میں انگلینڈ، آسٹریلیا، نمیبیا، اسکاٹ لینڈ اور عمان شامل ہیں، گروپ سی میں میزبان ویسٹ انڈیز، نیوزی لینڈ، افغانستان، یوگنڈا اور پاپوا نیو گینی اور گروپ ڈی میں جنوبی افریقہ، سری لنکا، بنگلہ دیش، نیدرلینڈز اور نیپال کی ٹیمیں شامل ہیں۔

ورلڈ کپ کا پہلا میچ یکم جون 2024 کو ڈیلاس میں امریکا اور پہلی مرتبہ ورلڈ کپ میں حصہ لینے والی کینیڈا کی ٹیموں کے درمیان ہوگا، دوسرا میچ 2 جون کو نمیبیا اور عمان کے درمیان بارباڈوس میں کھیلا جائے گا۔

ٹی20 ورلڈ کپ میں پہلی مرتبہ 20 ٹیمیں شامل کی گئی ہیں اور ان میں سے 10 ٹیمیں امریکا میں پہلا میچ کھیلیں گی، لاؤڈیرہل، ڈیلاس اور نیویارک میں 16مقابلے ہوں گے، ویسٹ انڈیز میں مجموعی طور پر 41 میچز کھیلے جائیں گے۔

پاکستان اور بھارت کے میچ کے لیے نیو یارک کا انتخاب کیا گیا ہے جہاں 9 جون کو دونوں ٹیموں کا مقابلہ ہوگا جبکہ پاکستان کا پہلا میچ 6 جون کو ڈیلاس میں امریکا سے شیڈول ہے، قومی ٹیم تیسرا میچ 11 جون کو کینیڈا سے نیویارک میں کھیلے گی اور چوتھا میچ فلوریڈا میں 16 جون کو آئرلینڈ کے ساتھ ہوگا۔

ٹی20 ورلڈ کپ کے ٹکٹس کی فروخت چند دن میں شروع ہوگی اور آئی سی سی کو پاکستان-بھارت میچ سے ریکارڈ آمدن متوقع ہے۔

کم جونگ اُن اپنی 10 سالہ بیٹی کو جانشین مقرر کر دیں گے؛ جنوبی کوریا کا دعویٰ

سیئول: جنوبی کوریا کی خفیہ ایجنسی نے دعویٰ کیا ہے کہ شمالی کوریا کے حکمراں کم جونگ اُن اپنی 10 سالہ بیٹی ’کِم جو اے‘ کو ممکنہ طور پر اپنا جانشین مقرر کردیں گے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق شمالی کوریا کے حکمراں کم جونگ اُن کی صاحبزادی پہلی بار 2022 کے آخر میں عوام کے سامنے نمودار ہوئی تھیں اور اس سے قبل انھیں کسی نے نہیں دیکھا تھا۔

اپنی پہلی عوامی آمد کے بعد سے وہ اعلیٰ میزائل تجربات اور فوجی پریڈ میں کم جونگ اُن کے ساتھ نظر آتی رہی ہیں اور انھیں اہم ترین شخص کا پروٹوکول بھی دیا جا رہا ہے۔

اس سے قبل اچانک 2020 میں شمالی کوریا کے حکمراں کے ساتھ ان کی بہن کِم یو جونگ کو دیکھا جا رہا تھا وہ ہر ملکی، فوجی اور میزائل تجربات کی تقریبات میں کم جونگ اُن کے ساتھ دیکھی جاتی رہی ہیں۔

اُس وقت بھی جنوبی کوریا کی خفیہ ایجنسی نے دعویٰ کیا تھا کہ شمالی کوریا کے ریاستی امور عملاً  کِم یو جونگ چلا رہی ہیں کیوں کہ کم جونگ اُن شدید علیل ہیں اور وہ ممکنہ طور پر اپنی بہن کو اپنا جانشین مقرر کریں گے۔

تاہم جنوبی کوریا کی ایجنسی کا یہ دعویٰ غلط ثابت ہوا اور 2022 کے آخر سے کم جونگ اُن کی بہن کِم یو جونگ منظر عام سے غائب ہوتی گئیں اور ان کی جگہ کم جونگ اُن کی بیٹی نظر آنے لگیں۔

اپنی حالیہ رپورٹ میں جنوبی کوریا کی ایجنسی نے دعویٰ کیا ہے کہ شمالی کوریا کے ممکنہ جانشین کے تمام امکانات پر غور، تحقیق اور اطلاعات کے حصول کے نتیجے میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ جانشین کی ممکنہ مضبوط ترین امیدوار کم جونگ اُن کی بیٹی ہوں گی۔

جس کی بنیادی وجوہات یہ ہیں کہ کم جونگ اُن کی بیٹی کو اب عوامی سطح پر محبوب بیٹی کے بجائے محترم بیٹی کے لقب سے پکارا جا رہا ہے اور لفظ محترم شمالی کوریا میں کسی اعلیٰ اور اہم ترین حکومتی شخص کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

رپورٹ میں جنوبی کوریا کی خفیہ ایجنسی یہ دعویٰ بھی کیا کہ عوامی سروے میں بھی جانشین کی مضبوط ترین امیدوار کے طور پر کم جونگ اُن کی بیٹی کم جو اے ہی ابھر کر سامنے آئی ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ابھی صرف 10 سال کی اور اپنے باپ کی سب سے بڑی اولاد ہیں۔

محترم بیٹی کے بعد کم جونگ اے کا اگلا لقب محترم کامریڈ ہوگا جو ان کی جانیشی پر مہر ثبت کردے گا تاہم یہ لقب انھیں کب حاصل ہوتا ہے اس کا انتظار کرنا ہوگا۔

اگر کم جونگ اُن اپنی بیٹی کو جانشین مقرر کردیتے ہیں تو یہ چوتھی نسل ہوگی جو شمالی کوریا پر حکمرانی کرے گی جہاں کے عوام کو شروع سے یہی سکھایا گیا ہے کہ کمز خاندان کا تعلق ایک مقدس خون کی لکیر سے ہے یعنی صرف یہی خاندان ملک کی قیادت کرنے کا اہل ہے۔

یاد رہے کہ کمز خاندان اپنے بارے میں زیادہ تر معلومات نہایت خفیہ رکھتے ہیں۔ کم جونگ اُن کی شادی کو بھی کافی عرصے تک خفیہ رکھا گیا اور بچوں کی پیدائش کی بھی اطلاع عام نہیں دی جاتی۔

پہلی بار کم جونگ اُن کی بیٹی کم جو اے کے وجود کا ذکر 2013 میں ہوا تھا جب ریٹائرڈ امریکی باسکٹ بال اسٹار ڈینس روڈمین نے شمالی کوریا کا ایک متنازعہ دورہ کیا تھا اور حکمراں کی نومولود بیٹی کو دیکھنے کا تذکرہ کیا تھا۔

اسی تذکرے کے باعث یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کم جو اے اپنے والد کی سب سے بڑی اولاد اور دس سال کی ہیں۔

یاد رہے کہ 41 سالہ کم جونگ اُن نے اپنے والد کے انتقال پر محض 28 سال کی عمر میں ملک کا اقتدار سنبھال لیا تھا۔

جی ایچ کیو حملہ کیس؛ عمران خان کوانسداددہشت گردی عدالت نے طلب کرلیا

 اسلام آباد: بانی چئیرمین پی ٹی آئی کے خلاف مزید گھیرا تنگ، 9 مئی کو جی ایچ کیوحملہ کیس میں انسداددہشتگردی عدالت نے طلب کرلیا۔

بانی چیئرمین پی ٹی آئی  عمران خان  کے خلاف نومئی 2023کو جی ایچ کیو پر حملہ، تصاویر جلانے اور لوگوں کو اکسانے کے مقدمات درج ہیں،جن کی سماعت راولپنڈی کی انسداددہشت گردی عدالت کے جج ملک اعجازآصف نے کی۔

عدالت نے انہی کیسز میں  عمران خان  کو 9جنوری کو طلب کیا ہے،بانی چیئرمین پی ٹی آئی  9 مئی کے تمام کیسز میں مرکزی ملزم کے طور پر نامزد ہیں۔

الیکشن ملتوی کرنے کیلئے قرارداد کی منظوری کی شدید مذمت کرتے ہیں، رہنما پی ٹی آئی

 اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما بیرسٹر گوہر خان نے سینیٹ میں عام انتخابات ملتوی کرنے کے لیے منظور ہونے والی قراردادوں کو آئین اور جمہوریت پر حملہ قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی ہے۔

پی ٹی آئی کے مرکزی میڈیا سے جاری بیان کے مطابق بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ پی ٹی آئی ایوان بالا میں انتخابات ملتوی کرنے کے لیے پیش کی گئی قرارداد کی منظوری کی شدید مذمت کرتی ہے۔

گوہر خان نے کہا کہ چند سیاسی جماعتوں کی جانب سے سینیٹ کے فلور کے ذریعے عام انتخابات 8 فروری کی مقررہ تاریخ سے آگے لے کر جانے کی کوشش آئین اور جمہوریت پر یلغار ہے، عوام اور الیکشن سے خوفزدہ عناصر نے انتخابات کے التوا کی ماورائے دستور قرارداد کی منظوری کے ذریعے ایوانِ بالا کا تقدس پامال کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ دستور کی مقرر کردہ 90 روز کی مدت میں شفاف انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے، عام انتخابات کے التوا کی غیرآئینی اور غیر جمہوری قرارداد کی مںظوری عدالتِ عظمیٰ کے حکم کی خلاف ورزی اورتوہینِ عدالت ہے۔

بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت عام انتخابات کے لیے پوری طرح تیار ہے اور انتخابات میں تاخیر کی مذموم کوششوں کو کسی صورت قبول نہیں کرے گی۔

رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ سپریم کورٹ سینیٹ سے منظور شدہ قرارداد کا فوری نوٹس لیتے ہوئے انتخابات کو التوا کا شکار کرنے یا ان کی شفافیت پر اثر انداز ہونے کی کوششوں کے تدارک کے لیے مؤثر اقدام کرے۔

پاکستان کو مشکل معاشی حالات کا سامنا ہے، بلاول بھٹو زرداری‌

پاکستان پیپلزپارٹی چیئرمین کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان کو مشکل معاشی حالات کا سامنا ہے، عوام کو تعلیم اور صحت کی سہولیات کی فراہمی اولین ترجیح ہے، خواتین پیپلز پارٹی کی سفیر بن کر گھر گھر انتخابی مہم چلائیں۔

لاہور میں ذولفقار بھٹو کی یوم پیدائش کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان کی خواتین باشعور ہیں، پاکستان کو مشکل معاشی حالات کا سامنا ہے، خواتین کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ملک کو کیا مسائل درپیش ہیں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ پیپلز پارٹی عوام کی نمائندہ جماعت ہے، قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے کمزور اور پسماندہ طبقوں کے لیے آواز بلند کی، خواتین پیپلز پارٹی کی سفیر بن کر گھر گھر انتخابی مہم چلائیں۔

چیئرمین پیپلز پارٹی کا مزید کہنا تھا کہ اقتدار میں آئے تو عوام کو 300 یونٹ بجلی مفت فراہم کریں گے، پیپلز پارٹی نفرت اور گالم گلوچ کی سیاست پر یقین نہیں رکھتی، عوام کو تعلیم اور صحت کی سہولیات کی فراہمی اولین ترجیح ہے، بچوں کو تعلیم دلوانا اور روزگار کا حصول مشکل ہوگیا، صرف پیپلزپارٹی ہی غریب عوام کی نمائندگی کرتی ہے، دیگر جماعتیں اشرافیہ کی نمائندگی کرتی ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم حکومت بناکرغریب خاندانوں کوسہولت دیں گے، زرداری دور میں غریب خواتین کو بے نظیر انکم سپورٹ کارڈ دیا، ہم اقتدار میں آکر کسانوں اور مزدوروں کو بھی کارڈز دیں گے، میں نفرت اور تقسیم کی سیاست کو دفن کرنا چاہتا ہوں۔

سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ میں ملک میں بھوک مٹاؤ پروگرام لانا چاہتا ہوں، غریب بچوں کے لیے مفت معیاری تعلیم چاہتا ہوں۔

نواز شریف کے الیکشن کے راستے صاف کردیئے گئے ہیں، سابق رہنما ن لیگ

مسلم لیگ کے سابق رہنما سردار مہتاب کا کہنا ہے کہ ن لیگ پر شریف کےخاندان کاعمل دخل بڑھ گیا ہے، اس میں سینئر قائدین کی گنجائش نہیں رہی، الیکشن کے نتائج پہلے سے نظر آرہے ہیں، نواز شریف کے الیکشن کے راستے صاف کردیئے گئے ہیں۔

امریکی نشریاتی ادارے (وائس آف امریکا) کو انٹرویو دیتے ہوئے سابق گورنر خیبر پختون خوا سردار مہتاب کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کی فیصلہ سازی اب نوازشریف کے ہاتھ میں نہیں، جو ان سے کروایا جارہا ہے وہ ان کی سوچ نہیں ہے۔

سردار مہتاب کا کہنا تھا کہ نوازشریف ووٹ کوعزت دو جب کہ جماعت کچھ اور بیانیہ چاہتی ہے، ن لیگ کی نئی قیادت اپنے قائد کو سمجھوتہ کرنے پر مجبور کئے ہوئے ہے، پالیسی میں تبدیلی سے سینئر پارٹی قائدین جماعت سے دور ہو رہے ہیں۔

سابق گورنر نے کہا کہ نواز شریف کو یقین ہے الیکشن کا نتیجہ ان کے حق میں آئے گا، اسی لئے وہ انتخابی مہم میں دلچسپی نہیں رکھتے، ان کے لئے الیکشن کے راستے صاف کر دیئے گئے ہیں، سیاسی جماعتوں کی بھی انتخابی مہم میں دلچسپی نہیں ہے، کیوں کہ الیکشن کے نتائج پہلے سے نظر آرہے ہیں۔

سردار مہتاب کا کہنا تھا کہ عام انتخابات ن لیگ بجائے آزاد کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا، کسی اور راستے سے اقتدار کی خواہش کو قبول کرنا مشکل ہے، نئی جماعت کے قیام پر الیکشن کے بعد غور ہوگا، انتخابات کے باعث نئی جماعت کو التواء میں ڈال دیا۔

 

وزیراعظم یا کابینہ کی طرف سے الیکشن تاخیر سے متعلق کوئی حکم موجود نہیں تھا، نگراں وزیر

وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی کا کہنا ہے کہ وزیراعظم یا کابینہ کی طرف سے الیکشن تاخیر سے متعلق کوئی حکم موجود نہیں تھا، الیکشن کی تاریخ دینا، تبدیل کرنا الیکشن کمیشن کااختیار ہے۔

سینیٹ میں انتخابات ملتوی کرنے کی قرارداد منظور پر رد عمل کا اظہار کتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے پارلیمنٹ ہاﺅس کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایوان بالا میں الیکشن التوا کی قرارداد میں دلائل دینے کا موقع نہیں ملا، وزیراعظم یا کابینہ کی طرف سے الیکشن تاخیر سے متعلق کوئی حکم موجود نہیں تھا۔

نگراں وزیر نے کہا کہ آرٹیکل 218(3)، الیکشن کرانا، تاریخ دینا، تبدیل کرنا الیکشن کمیشن کااختیار ہے، قرارداد کے اندر جو مسائل بیان کئے گئے، وہ حقیقی مسائل ہیں، لیکن ہم کسی آئینی ادارے کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتے۔

مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ پاکستان کی پارلیمانی سیاست اور انتخابات کی تاریخ میں یہ مسائل پہلے بھی موجود رہے ہیں، سیکیورٹی کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے، موسم اور دیگر مسائل کا خیال رکھنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔

نگراں وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ابھی تک کسی حلقے کی طرف سے کوئی ایسا اشارہ نہیں ملا جس میں واضح پیغام ہو کہ انتخابات نہیں ہونے چاہیے، الیکشن کے التواء یا انعقاد کا آئینی اختیار صرف الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس ہے۔

سینیٹ نے الیکشن ملتوی کرنے اور انتخابی شیڈول معطل کرنے کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کر لیں، سینیٹر دلاور خان نے قرارداد پیش کی، جب کہ ن لیگ کے افنان اللہ نے قرارداد کی مخالفت کی۔ کچھ دیر بعد اسی نوعیت کی قرارداد ایک بار پھر منظور کرلی گئی۔

سینیٹ میں منظور ہونے والی قرارداد کا متن

سینیٹ اجلاس میں سینیٹر دلاور خان نے الیکشن کیلئے سازگار ماحول کی فراہمی کیلئے قرارداد پیش کی۔

قرارداد کے متن میں ہے کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں صورتحال خراب ہے، مولانا فضل الرحمان اور محسن داوڑ پر حملے ہوئے ہیں، ایمل ولی خان اور دیگرسیاسی رہنماؤں کو تھرٹ ملے ہیں، الیکشن کے انعقاد کے لئے ساز گار ماحول فراہم کیا جانا چاہیے۔

قرارداد میں کہا گیا ہے کہ کے پی اور بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں جاری ہیں، اور محکمہ صحت ایک بار پر کورونا وبا کے پھیلنے کا عندیہ دے رہا ہے۔

قرارداد میں کہا گیا ہے کہ چھوٹے صوبوں میں باالخصوص الیکشن مہم کو چلانے کے لئے مساوی حق دیا جائے، الیکشن کمیشن 8 فروری کا الیکشن شیڈول معطل کرے، الیکشن کمیشن شیڈول معطل کرکے ساز گار ماحول کے بعد شیڈول جاری کرے۔

قرارداد کی منظوری کے وقت کون کون سے اراکین موجود تھے

سینیٹر دلاور خان نے انتخابات ملتوی کی قرار داد پیش کی تو ایوان میں اس وات کل 14اراکان موجود تھے۔

اجلاس میں سینیٹر دلاور، بہرہ مند تنگی، افنان اللہ، گردیپ سنگھ، عبدالقادر، ثمینہ ممتاز، ہلال الرحمان، نصیب اللہ بازئی، کہدہ بابر، پرنس احمد عمرزئی، سینیٹر احمد عمر، ثنا جمالی، کامل علی آغا اور منظور کاکڑ بھی موجود تھے۔

قرارداد کی حمایت اور مخالفت کرنے والے اراکین

سینیٹ نے قرار داد کثرت رائے سے منظور کرلی، تاہم سینیٹ میں موجود 14 اراکین میں سے واحد رکن مسلم لیگ ن کے افنان اللہ نے قرارداد کی مخالفت کی۔ اور سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات کا التواء خواہش ہو سکتی لیکن ممکن نہیں۔ جب کہ دوسری بار قرار داد پیش ہونے پر وفاقی وزیر پارلیمانی امور مرتضی سولنگی نے بھی الیکشن التواء کی قرار داد کی مخالف کی۔

سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا

تاحیات نااہلی کیس میں سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ نے 5 سال نااہلی کا فیصلہ کر لیا تو ہمیں قبول کرنے میں کیا مسئلہ کیا ہے، پارلیمنٹ نے جو قانون بنایا اس میں عدالتی فیصلوں کو مدنظر رکھا گیا، عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔

سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے، اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ فیصلہ آج نہیں لیکن جلد مختصر فیصلہ سنا دیا جائے گا۔

آج کی سماعت کا احوال

سپریم کورٹ میں تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس کی سربراہی میں7 رکنی بینچ نے سماعت کی، لارجر بینچ میں جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس یحیی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس علی مظہر، جسٹس مسرت ہلالی بینچ کا حصہ ہیں۔

وکیل مخدوم علی خان کے دلائل

سماعت کا آغاز ہوا تو جہانگیر ترین کے وکیل مخدوم علی خان نےدلائل کاآغازکردیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ انتخابات سے متعلق انفرادی کیس ہم نہیں سنیں گے، ہم آئینی تشریح سے متعلق کیس سنیں گے، انفرادی کیس اگلے ہفتے کسی اور بینچ میں لگادیں گے، اس وقت قانونی اورآئینی معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ بنیادی معاملہ اسی عدالت کاسمیع اللہ بلوچ کیس کاہے، سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن نےبھی سمیع اللہ بلوچ کیس میں سوال اٹھایا ہے۔

جسٹس منصور نے استفسار کیا کہ آپ کےمطابق نااہلی کا ڈکلیریشن سول کورٹ سے آئے گا۔ جس پر وکیل مخدوم علی نے کہا کہ جی ڈیکلیریشن سول کورٹ سے آئے گا، سول کورٹ فیصلے پر کسی کا بنیادی آئینی حق تاعمر ختم نہیں ہوتا، کامن لاء سے ایسی کوئی مثال مجھے نہیں ملی، کسی کا یوٹیلیٹی بل بقایا ہو جب ادا ہو جائے تو وہ اہل ہو جاتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیاسول کورٹ نااہلی کا ڈکلیریشن دےسکتاہے۔ وکیل مخدوم علی نے کہا کہ سول کورٹ ایسا ڈکلیریشن نہیں دےسکتا، کون ساسول کورٹ ہےجوواجبات باقی ہونے پرکہہ دے یہ صادق وامین نہیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا قانون سازی سےڈیکلیریشن پرنااہلی کی مدت متعین کی جاسکتی ہے؟۔ جس پر وکیل مخدوم علی نے کہا کہ آئین میں کورٹ آف لاءکی بات ہے، جس میں سول اورکرمنل دونوں عدالتیں آتی ہیں، کل جسٹس مسرت ہلالی نےپوچھاآرٹیکل62اور63 الگ الگ رکھنےکی وجہ کیاتھی، اہلیت اور نااہلی کو الگ الگ رکھا گیا ہے۔

عدالت نے استفسار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل62 کا اطلاق الیکشن سے پہلے ہوتا ہے یا بعد میں بھی ہوسکتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم خود کو آئین کی صرف ایک مخصوص جز تک محدود کیوں کر رہے ہیں، ہم آئینی تاریخ، بنیادی حقوق کو نظرانداز کیوں کر رہے ہیں، مخصوص نئی جزئیات داخل کرنے سے کیا باقی حقوق لے لئے گئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم پاکستان کی تاریخ کوبھول نہیں سکتے، پورے ملک کو تباہ کرنے والا 5 سال بعد اہل ہو جاتا ہے، صرف کاغذات نامزدگی میں غلطی ہو جائے تو تاحیات نا اہل، صرف ایک جنرل نے یہ شق ڈال دی تو ہم سب پابند ہو گئے، خود کو محدود نہ کریں بطور آئینی ماہر ہمیں وسیع تناظر میں سمجھائیں۔

وکیل مخدوم علی نے مؤقف اختیار کیا کہ آرٹیکل 62 اور 63 کو ایک دوسرے سے الگ نہیں پڑھا جا سکتا، ان دونوں آرٹیکلز کو بنیادی حقوق والے آرٹیکل17 سے الگ بھی نہیں پڑھا جا سکتا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ کہا گیا سادہ قانون سازی سے آئین میں دی چیز نہیں بدلی جاسکتی، ہم مگر آئینی ترمیم کو بھی کالعدم کر دیتے ہیں، کیا پاکستانی ارکان پارلیمنٹ دنیا میں سب سے بہترین ہیں۔

وکیل مخدوم نے جواب دیا کہ ظاہر ہے ایسا نہیں ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے سوال اٹھاتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ہم نے اپنےارکان کی اہلیت کا جو پیمانہ رکھا ہے، کیا دنیا میں کہیں اور ہے۔ جس پر وکیل نے کہا کہ میرےعلم میں نہیں کہ دنیا میں کہیں ایسا ہو۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کہا گیاعام قانون سازی آئینی ترمیم کا راستہ کھول سکتی ہے، اس کا کیا مطلب ہے ہم اپنی مرضی سے جو فیصلہ چاہیں کر دیں، کیا ہمارے پارلیمان میں بیٹھے لوگ بہت زیادہ سمجھدار ہیں، پاکستان کی تاریخ کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نااہلی سے متعلق کیس میں پبلک نوٹس جاری کیا، مگر کوئی ایک سیاسی جماعت فریق نہیں بنی، پاکستان کے عوام کا کسی کوخیال نہیں ہے، آئین پر ایوب خان نے تجاوز کیا اور پھر یہ سلسلہ آگے چلتا گیا۔

جسٹس منصور نے ریمارکس دیے کہ میں آئین کو 18ویں ترمیم کے بعد سے دیکھ رہا ہوں، ہمیں تشریح کیلئے آئین میں دیئے ٹولز پر ہی انحصار کرنا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئین نے نہیں کہا تھا نا اہلی تاحیات ہے یہ ہم نے کہا، کوئی قتل کرکے لواحقین سے صلح کرلےتو معاملہ ختم ہو جاتا ہے، کاغذات نامزدگی میں کچھ غلط ہو جائے تو تاحیات نااہل کیسے ہو جائے گا۔

چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کاغذات نامزدگی میں پوچھا جاتا ہے آپ کے پاس کتنا سونا ہے،
اگر سونا رکھنے پر درست نہ بتایا جائے تو تاحیات نااہل کر دیتے ہیں، تاحیات نااہلی کی کوئی تو منطق ہونی چاہئے۔

جسٹس جمال خان نے وکیل سے استفسار کیا کہ فرا ڈپر ایک شخص کو سزا ہو جائے تو کیا سزا کے بعد انتخابات لڑ سکتا ہے۔ جس پر وکیل مخدوم علی نے جواب دیا کہ دھوکا دہی میں سزا پوری ہونے کے بعد انتخابات میں حصہ لیا جا سکتا ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ عوام کو فیصلہ کرنا چاہیے کون صادق اور امین ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ کیا ایک شخص کی غلطی سے پورا حلقہ متاثر کیا جا سکتا ہے، مخصوص کیس کے باعث حلقے کے لوگ اپنےنمائندے سےمحروم کیوں ہوں، کیسے ممکن ہے ایک شخص پر مقدمہ بنا ہو اور پورا حلقہ اس کے نتائج بھگتے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کیس پر لارجر بینچ بنایا گیا تھا تاکہ سوالات کا جواب مل سکے، معاملہ الجھتا جا رہا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل مخدوم علی سے استفسار کیا کہ کیا ہائیکورٹ ڈکلیریشن جاری کرسکتی ہے۔ جس پر وکیل مخدوم نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں آرٹیکل 199کے تحت ہائیکورٹ ڈکلیریشن جاری کرسکتی ہے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ قانون سازوں نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرکےآرٹیکل 62 ون ایف میں نااہلی کی مدت پانچ سال کردی، کیا بہترنہ ہوتا کہ قانون میں واضح لکھا جاتا کہ 62 ون ایف کے ذریعے 5 سال نااہلی کی سزا ہوگی؟

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اس وقت قانون آپکے سامنے چیلنج نہیں ہوا آپ اپیل سن رہے ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ مدت پانچ سال طے کرنے کا معاملہ عدالت آیا، کیا عدالت یہ کہہ سکتی ہے کہ سول کورٹ سے ڈگری ہوئی توسزا پانچ سال ہو۔

وکیل نے کہا کہ سیکشن 232 تین کو اگلی پارلیمنٹ ختم کرسکتی ہے، عدالت نے طےکرنا ہے کہ سمیع اللہ بلوچ کیس درست تھا یا نہیں، اگرسمیع اللہ بلوچ کیس کالعدم قراردیا گیا توالیکشن قانون کا اطلاق ہوگا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ہم سیکشن 232 کو کیسے کالعدم قرار دیں وہ تو ہمارے سامنے ہے ہی نہیں۔

جس پر وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ تاحیات نا اہلی کا اصول عدالتی فیصلے سے طے ہوا۔

جسٹس یحیی آفریدی نے ریمارکس دیے کہ میرے خیال میں فیصلے میں تاحیات کا ذکر نہیں ہے۔ جس پر وکیل مخدوم علی نے کہا کہ فیصلے میں کہا گیا جب تک ڈکلریشن رہے گا نااہلی رہے گی۔

جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ اگرعدالت ڈکلیریشن کی ہی تشریح کردے تو کیا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ جس پر وکیل مخدوم علی نے جواب دیا کہ ماضی کا حصہ بنے ہوئے ڈکلیریشن کاعدالت دوبارہ کیسے جائزہ لے سکتی ہے، جو مقدمات قانونی چارہ جوئی کے بعد حتمی ہوچکے انہیں دوبارہ نہیں کھولا جاسکتا۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ ڈکلیریشن حتمی ہوچکا ہے تو الیکشن پر اس کے اثرات کیا ہوں گے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ساتھی جج سے سوال کیا کہ فیصل واوڈا کیس میں آپکا کیا خیال ہے۔ جس پر جسٹس منصور نے جواب دیا کہ اس کیس میں ڈکلیریشن نہیں تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب پارلیمنٹ نے نااہلی کی مدت طے کر دی تو یہ سوال تو اکیڈمک سوال ہوا کہ نااہلی کی مدت کیا ہوگی۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ اگر سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو کالعدم قرار دیں تو سزا کتنی ہوگی۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کہہ چکی ہے نااہلی 5 سال ہوگی، کیا سمیع اللہ بلوچ کیس میں اٹارنی جنرل کونوٹس کیا گیا تھا؟ریکارڈ منگوا لیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سیکشن 232 نے عدالتی معاون کے مطابق سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو بے اثرکردیا۔

وکیل مخدوم علی نے کہا کہ سپریم کورٹ صرف سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو دیکھے، سیکشن 232 چیلنج ہی نہیں کیا گیا، سپریم کورٹ میں توبہ کے نظریہ کی بات ہوئی، عدالت کو سمیع اللہ بلوچ کیس میں تاحیات نااہلی کے فیصلے کو ختم کرنا ہوگا۔

چیف جسٹس نے وکیل سے سوال کیا کہ آپ چاہتے ہیں عدالت تاحیات نااہلی کا فیصلہ واپس لے؟۔ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ تاحیات نااہلی کا فیصلہ واپس ہونے سے پہلے مدت کم نہیں ہوسکتی۔

جسٹس محمد مظہر نے ریمارکس دیے کہ قانون سازی کے ذریعے ڈکلیریشن کی مدت 5 سال کی گئی۔ وکیل نے جواب دیا کہ نااہلی کی مدت مناسب وقت کیلئے ہونی چاہئے، تاحیات نہیں۔

چیف جسٹس نے وکیل مخدوم علی سے کہا کہ آپ آج ہی اپنی تحریری معروضات بھی جمع کرادیں، پورا پاکستان 5 سال نااہلی کے مدت کے قانون سےخوش ہے، کسی نے5 سال نااہلی کا قانون چیلنج ہی نہیں کیا۔

جہانگیر خان ترین کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل مکمل کرتے ہوئے عدالت سے استدعا کی کہ سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو ختم کریں، انہیں بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا، سپریم کورٹ الیکشن ایکٹ پر فیصلہ نہ دے، وہ چیلنج نہیں ہوا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل کو بعد میں سن لیتے ہیں پہلے دوسرے وکلا کو سن لیتے ہیں۔

جسٹس جمال مندو خیل نے وکیل مخدوم علی سے استفسار کیا کہ کیا سمیع اللہ بلوچ کیس میں ڈکلیریشن دی گئی یا صرف پرنسپل طے ہوا۔ جس پر وکیل مخدوم علی نے جواب دیا کہ نواز شریف کیس میں بیٹے سے تخواہ نہ لینے پر تاحیات نااہل کیا گیا۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے وکیل کو نواز شریف کا نام لینے سے روک دیا اور مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ مخدوم علی خان صاحب اس عدالت میں کسی کا نام مت لیں، میں نہیں چاہتا یہاں سیاسی لوگوں کےنام لئے جائیں یا معاملے کو سیاسی رنگ دیا جائے، جو شخص خود عدالت نہیں آیا اس کی وکالت بھی نہ کریں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو جمعہ کی نماز کے بعد سنیں گے۔ عدالت نے کیس کی سماعت میں جمعہ کی نماز کے بعد تک وقفہ کردیا۔

اٹارنی جنرل منصور اعوان کے دلائل

وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل منصور اعوان نے دلائل شروع کئے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا سمیع اللہ بلوچ کیس میں خاکوانی کیس پربحث ہوئی۔ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ نہیں سمیع اللہ کیس میں خاکوانی کیس پربحث نہیں ہوئی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ بڑی عجیب بات ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفار کیا کہ اصل میں خاکوانی کیس کس معاملے پر تھا۔ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ خاکوانی کیس نا اہلی سے متعلق تھا، جسٹس جواد نے خاکوانی کیس میں کہا نااہلی کا معاملہ بعد میں دیکھیں گے، لیکن کیس میں پھر یہ معاملہ بعد نہیں دیکھا گیا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ اخلاقی بدنیتی کے بارے میں قانون مزید کیا کہتا ہے۔ جسٹس منصور نے سوال کیا کہ آپ کیا کہنا چاہتےہیں سمیع اللہ کیس کا فیصلہ درست نہیں۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی بالکل میں سمجھتا ہوں سمیع اللہ کا فیصلہ درست نہیں ہوا، صابر شاہ کیس میں سپریم کورٹ نے کہا آرٹیکل 62 الیکشن سے پہلے اور 63 بعد میں لاگو ہو گا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ڈی، ای، ایف، ایچ کلاز شامل کرنے سے آرٹیکل 62 الجھ گیا، خاکوانی کیس7 رکنی اور سمیع اللہ کیس کا فیصلہ 5 رکنی بینچ نے کیا۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ خاکوانی کیس سے متعلق بات کریں، خاکوانی کیس کے 7 رکنی بینچ کا فیصلہ کیسے پس پشت ڈالا گیا، 7رکنی بینچ کا فیصلہ موجود ہے تو ہم 5 رکنی بینچ کے فیصلے پر انحصار کیوں کریں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تجاویز پر مبنی نوٹ لکھا تھا۔

جسٹس منصور شاہ نے ریمارکس دیے کہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں ڈکلیریشن کا تعین کئے بغیر فیصلہ دیا گیا، اس کا مطلب ہے سمیع اللہ کیس میں بنیادی قانون دیکھے بغیر فیصلہ دیا گیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ 73 آئین میں 2 ترامیم شامل کرنے کی کوشش کو پارلیمنٹ نے مسترد کیا، رکن کے کردار،ایمان سے متعلق دونوں ترامیم مذہبی جماعتوں کو دی تھیں، 1985میں وہ دونوں ترامیم واپس آئین میں ڈالی گئیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سمجھنے میں مشکل ہورہی ہے کہ خاکوانی کیس کا ذکر کسی وکیل نے بھی نہیں کیا، ہم سمیع اللہ بلوچ کیس میں پھنسے ہوئے ہیں خاکوانی کیس کوکیوں نہ دیکھیں، پارلیمنٹ نے 5 سال کا ایک فیصلہ کر لیا ہمیں اسے قبول کرنے میں مسئلہ کیا ہے، جسٹس آصف سعید کھوسہ کے سوالات کے جوابات کیوں نہیں دیئے گئے، بتائیں کسی کے ایماندار ہونے کا فیصلہ کون کر سکتا ہے۔

جسٹس منصور نے ریمارکس دیے کہ جب تک ڈکلیریشن کا معاملہ حل نہیں ہوتا ہم اس سے آگے نہیں جاسکتے، جب تک ڈکلیریشن کا معاملہ حل نہ ہو تو فیصلے کیسے دیئے گئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اچھا ہو یا برا، پارلیمنٹ کے بنائے آئین کی تشریح کرنا ہمارا کام ہے، چاہے ہم قانون سے اتفاق کریں یا نہ کریں مگر ادھر ادھر کیسے جا سکتے ہیں، ہم پارلیمنٹ کو نہیں بھول سکتے کہ اس طریقے سے قانون بنائیں یہ ان کا کام ہے، پارلیمنٹ نے جو قانون بنایا اس میں عدالتی فیصلوں کو مدنظر رکھا گیا ۔

ٹیسٹ رینکنگ؛ آسٹریلیا نے بھارت سے پہلی پوزیشن چھین لی

آسٹریلوی کرکٹ ٹیم نے بھارت کو پیچھے دھکیل کر آئی سی سی ٹیسٹ رینکنگ میں پہلی پوزیشن پر قبضہ جمالیا۔

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کی نئی رینکنگ کے مطابق آسٹریلیا 118 ریٹنگ پوائنٹس کے ساتھ پہلے نمبر پر آگئی ہے جبکہ بھارتی ٹیم کی ایک درجہ تنزلی ہوئی ہے جو دوسرے نمبر پر چلی گئی ہے۔

رینکنگ میں جنوبی افریقہ چوتھے اور نیوزی لینڈ کی ٹیم پانچویں نمبر پر موجود ہے جبکہ پاکستان کا چھٹا نمبر بدستور برقرار ہے۔

دوسری جانب بولرز کی رینکنگ میں عامر جمال 17 ریٹنگ پوائنٹس کی لمبی چھلانگ لگا کر 57ویں پوزیشن پر آگئے ہیں۔

واضح رہے کہ آسٹریلیا نے پاکستان کو تین میچوں پر مشتمل سیریز کے ابتدائی دونوں میچز میں شکست دیکر پہلی پوزیشن سمیٹی ہے جبکہ سڈنی ٹیسٹ کا فیصلہ بھی کل آنے کی توقع ہے۔