پی ٹی آئی سے ’بلا‘ واپس چھِن گیا، پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ بحال کردیا

پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن اور انتخابی نشان کیس پر الیکشن کمیشن کا فیصلہ بحال کرتے ہوئے حکم امتناع واپس لے لیا۔

پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس اعجاز خان عدالتی فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل پر سماعت کررہے ہیں جس سلسلے میں الیکشن کمیشن کے وکیل اور تحریک انصاف کے سینئر وکیل قاضی انور ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر پی ٹی آئی کے وکیل قاضی انور نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف عدالت آسکتا ہے؟ ان کی رٹ ٹھیک نہیں ہے، 26 دسمبر کو فیصلہ آیا، اس پر ابھی تک عمل نہیں کیا گیا، الیکشن کمیشن نےاب تک ویب سائٹ پر انٹرا پارٹی انتخابات سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا۔

جسٹس اعجاز نے استفسار کیا کہ کیا آپ کی جانب سے کوئی توہین عدالت کیس آیا؟ اس پر قاضی انور نے کہا کہ ہمارے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے الیکشن کمیشن نے کیاکیا؟ الیکشن کمیشن کو ویب سائٹ پرسرٹیفکیٹ ڈالنےسے کیا مسئلہ ہے، ایک پارٹی کو ایک طرف کرنا الیکشن کمیشن اور جمہوریت کیلئےٹھیک نہیں، الیکشن کمیشن کو ایک سیاسی جماعت کے خلاف استعمال نہیں کرنا چاہیے تھا، ہم چاہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن شفاف انتخابات کروائے۔

دوران سماعت الیکشن کمیشن نے 26 دسمبر کو سنے بغیر عدالت کے حکم امتناع جاری کرنے پر اعتراض اٹھایا۔

عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

عدالت نے چند گھنٹوں بعد فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل منظور کی اور الیکشن کمیشن کا 22 دسمبر کا فیصلہ بحال کردیا۔

عدالت نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن اور انتخابی نشان کیس پر اپنا حکم امتناع واپس لے لیا جس سے پی ٹی آئی سے ایک بار پھر بلے کا نشان چھن گیا۔

پی ٹی آئی کے بلے کا نشان بحال
واضح رہےکہ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کو آئین کے برخلاف قرار دیتے ہوئے کالعدم کیا تھا جس کے بعد پی ٹی آئی سے بلے کا نشان چھن گیا تھا تاہم تحریک انصاف نے کمیشن کے فیصلے کو پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

پشاورہائیکورٹ نے پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات اور انتخابی نشان سے متعلق الیکش کمیشن کافیصلہ معطل کرتے ہوئے تحریک انصاف کو انتخابی نشان بلا بحال کیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اسی عدالت میں نظرثانی اپیل دائر کی ہے۔

اولمپک کوالیفائر؛ پاکستان ٹیم کی ایونٹ میں شرکت کی تصدیق

انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن نے پاکستانی ٹیم کے اولمپک کوالیفائر ایونٹ میں شرکت کی تصدیق کردی۔

پاکستان ہاکی فیڈریشن (پی ایچ ایف) کی جانب سے لکھے گئے خط کے بعد ایف آئی ایچ نے اولمپک کوالیفائر ایونٹ گرین شرٹس کی شرکت کی تصدیق کرتے ہوئے سیکرٹری علی عباس کے بروقت ٹیم انٹری بھجوانے کے عمل کو بھی سراہا۔

صدر پاکستان ہاکی فیڈریشن میر طارق حسین بگٹی کی جانب سے صدر انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کے صدر طیب اکرام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ہمیشہ پاکستان ہاکی کا ساتھ نبھایا اور ہرممکن معاونت کی۔

پاکستان ہاکی ٹیم اولمپک کوالیفائر ایونٹ میں شرکت کے لیے ممکنہ طور پر 12 جنوری کو عمان کے دارالحکومت مسقط کیلئے روانہ ہوگی۔ 15 تا 21 جنوری کھیلے جانے والے اولمپک کوالیفائر میں پاکستان پول اے میں شامل ہے۔

پول اے میں پاکستان، انگلینڈ، ملائشیا اور چائینا جبکہ پول بی میں جرمنی نیوزی لینڈ، کینیڈا اور چلی کی ٹیمیں شامل ہیں۔

فیڈریشن کے سابقہ عہدیداران کی جانب سے بھرپور کوشش تھی کہ انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کی جانب سے کسی طور پاکستان اور پاکستان ہاکی پر پابندی عائد ہوجائے تاکہ سیاسی مقاصد کو حاصل کیا جاسکے۔

ہاکی فیڈریشن کی جانب سے بروقت پاکستان ہاکی ٹیم کی انٹری جمع کروانے اور ایف آئی ایچ کی جانب سے اس کی تصدیق سے پاکستان پر ایف آئی ایچ کی جانب سے جرمانہ اور پابندی کا خطرہ ختم ہوگیا۔

توہین الیکشن کمیشن کیس؛ عمران خان اور فواد چوہدری پر فرد جرم عائد

راولپنڈی: الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بانی پی ٹی آئی عمران خان اور سابق وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری پر توہین الیکشن کمیشن کیس میں فرد جرم عائد کردی۔

اڈیالہ جیل راولپنڈی میں توہین الیکشن کمیشن کیس کی سماعت ہوئی۔

پی ٹی آئی وکلا نے درخواست کی کہ آج قانونی ٹیم کے سربراہ شعیب شاہین سپریم کورٹ میں مصروف ہیں، فرد جرم آج عائد نہ کی جائے، اس کیس میں عجلت نہ کی جائے۔

وکلا نے جیل ٹرائل کے خلاف بھی استدعا کی۔ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کی دونوں درخواستیں مسترد کردیں۔

ممبر الیکشن کمیشن نثار درانی کی سربراہی میں الیکشن کمیشن کے چار رکنی بینچ نے عمران خان اور فواد چوہدری پر فرد جرم عائد کردی۔

الیکشن کمیشن نے کیس کی مزید سماعت 16 جنوری تک ملتوی کردی۔

بعدازاں ایڈووکیٹ علی بخاری نے جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم چارج شیٹ کو چیلنج کریں گے، جو چارج فریم ہوا اس کو بھی ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے۔

پی ٹی آئی وکیل عمیر نیازی نے کہا کہ چارج میں ایسی کوئی چیز نہیں جس پر توہین ثابت ہوسکے، عمران خان نے ہم سے کہا ہے کہ کمیشن کے ایک ممبر کے خلاف سپریم کورٹ جاچکے ہیں اس کو کمیشن سے الگ ہوجانا چاہیے۔

آپ پر سنگین غداری کا آرٹیکل 6 لگے گا، عمران کا الیکشن کمیشن ارکان سے مکالمہ

پی ٹی آئی رہنما اصغر چوہدری نے بتایا کہ سماعت میں فرد جرم عائد ہونے پر عمران خان سخت غصے میں تھے، انہوں نے الیکشن کمیشن ممبران کو کہا کہ آپ جانبدار ہیں، ہم سے انتخابی نشان تک چھین لیا، ایک وقت آئے گا کہ آپ پر سنگین غداری کا آرٹیکل 6 لگے گا۔

کمیشن ممبران کارروائی کے دوران ششدر رہ گئے۔

حبا فواد چوہدری نے بتایا کہ فواد چوہدری نے سماعت کے دوران کہا کہ الیکشن کمیشن کے ایک رکن کے خلاف ریفرنس دائر ہے ، وہ سماعت نہیں کر سکتے، لیکن پھر بھی وہ بینچ کا حصہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ فواد چوہدری کو جاری شوکاز کا جواب تک دینے نہیں گیا اور فرد جرم عائد کر دی گئی۔

سندھ سے غیر قانونی افغان باشندوں کو نکالنے کیلئے جاری ہوئے 4 ارب روپے غائب

کراچی سمیت سندھ بھر سے غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کو نکالنے کے لیے جاری کیے گئے چار ارب روپے تفصیلات ہی موجود نہیں۔

ذرائع کے مطابق ڈی سی کیماڑی، ڈی سی جیکب آباد اور وہاں سے بلوچستان روانگی کے لیے دی گئی رقم کہاں خرچ ہوئی اس کو کوئی اتا پتا ہی نہیں۔

نگراں حکومت نے غیرقانونی غیرملکیوں کو ڈی پورٹ کرنے کیلئے 4 ارب روپے مانگے، جس پر محکمہ خزانہ سندھ نے 4 ارب روپے جاری کر دیے تھے۔

تاہم، وزیر داخلہ کے سندھ سے غیرقانونی تارکین وطن کو نکالنے کے دعوے غلط ثابت ہوئے۔

کراچی میں ایک لاکھ 28 ہزار غیرقانونی افغانوں کی نشاندہی کی گئی۔

کراچی سے صرف ایک ہزار 115 اور حیدرآباد ڈویژن سے فقط 11 غیرقانونی افغانوں کو نکالا جا سکا۔

جبکہ خیبرپختونخوا، پنجاب اور بلوچستان سے 4 لاکھ 55 ہزار غیرقانونی تارکین وطن نکالے جاچکے ہیں۔

ذرائع کے مطابق سندھ کے چار ڈویژنز سےایک بھی غیرقانونی تارکین وطن نہیں نکالا جاسکا، سندھ میں غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف آپریشن عملی طور پر بند ہے۔

شہباز شریف آج فیض آباد دھرنا کمیشن کے سامنے پیش نہیں ہوں گے

سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف آج فیض آباد دھرنا کمیشن آج پیش نہیں ہوں گے۔

دھرنا کمیشن نے شہباز شریف کو بیان ریکارڈ کرانے کیلئے آج بلا رکھا تھا، تاہم، ذرائع کا کہنا ہے کہ شہباز شریف وکیل کے ذریعے اپنا بیان کمیشن کو بھجوائیں گے۔

سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید بھی کمیشن میں پیش نہ ہو سکے۔

وزارت قانون میں کمیشن اپنی کارروائی مکمل کر رہا ہے۔

سپریم کورٹ کے احکامات پر وزارت قانون کے نوٹیفکیشن پر کمیشن تشکیل پایا تھا، کمیشن نے ابھی تک متعدد افراد کے بیانات ریکارڈ کیے ہیں۔

تحریک لبیک کے فیض آباد دھرنے کے موقع پر پنجاب میں شہباز شریف وزیراعلیٰ تھے۔

خیال رہے کہ انکوائری کمیشن نے سپریم کورٹ میں اپنی رپورٹ 22 جنوری کو جمع کرانی ہے۔

اس سے قبل کمیشن سابق وزیر احسن اقبال، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو بھی طلب کرچکا ہے۔

مجھے لگتا ہے کہ پاکستان میں الیکشن نہیں ہونے دیے جا رہے، چیف جسٹس فائز عیسیٰ

انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ کے معاملے سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ پی ٹی آئی کی توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کر رہا ہے۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی کیس کی سماعت کر رہی ہیں۔

سماعت کے آغاز میں وکیل پی ٹی آئی لطیف کھوسہ روسٹرم پر آگئے اور پٹیشن عدالت میں پڑھ کر سنائی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شعیب شاہین کہاں ہیں؟ اور کہا کہ شعیب شاہین آپ روسٹرم پر آجائیں یہ آپ کی درخواست تھی۔

دوران سماعت لطیف کھوسہ کے ساتھ ”سردار“ ہونے پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سرداری نظام ختم ہوچکا ہے یہ سردار نواب عدالت میں نہیں چلے گا۔

اس کے بعد لطیف کھوسہ نے دلائل کا آغاز کر دیا۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ لیول پلیئنگ فلیڈ صحت مندانہ مقابلے کیلئے ضروری ہے۔

جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ یہ توہین عدالت کا کیس ہے یہ کوئی نئی پیٹیشن نہیں ہے، الیکشن کمیشن نے جو توہین کی آپ کے مطابق وہ بتائیں، الیکشن کمیشن نے آپ کو آرڈر کیا دیا؟

لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمیں الیکشن کمیشن نے کچھ آرڈر نہیں دیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ نے اتنے لوگوں کو توہین عدالت کیس میں فریق بنایا، آپ بتائیں کس نے کیا توہین کی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہمیں بتائیں آپ ہم سے چاہتے کیا ہیں، اب آپ تقریر نہ شروع کر دیجیے گا، آئینی اور قانونی بات بتائیں ہر کوئی یہاں آکر سیاسی بیان شروع کردیتا ہے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آئی جی اور چیف سیکریٹریز کا الیکشن کمیشن سے کیا تعلق ہے۔

جس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمارے امیدواروں کی راہ میں رکاوٹ ڈالی گئی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ثبوت کیا ہیں ہمیں کچھ دکھائیں۔

جس پر لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ میں نے ساری تفصیل درخواست میں لگائی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ توہین عدالت کیس میں آپ صرف الیکشن کمیشن کو فریق بنا سکتے تھے، آئی جی اور چیف سیکریٹریز کو نوٹس بھیجا تو وہ کہیں گے ہمارا کوئی تعلق ہی نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ انفرادی طور پر لوگوں کے خلاف کارروائی چاہتے ہیں تو الگ درخواست دائر کریں، کسی کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے ہیں تو اپیل دائرکریں۔

اس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ہماری شکایت پر صرف صوبوں کو ایک خط لکھ دیا، کیا الیکشن کمیشن صرف ایک خط لکھ کر ذمہ داریوں سے مبرا ہو گیا۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ توہین عدالت کے سکوپ تک رہیں، یہ بتائیں ہمارے 22 دسمبر کے حکمنامہ پر کہاں عملدرآمد نہیں ہوا، الیکشن کمیشن نے تو 26 دسمبر کو عملدرامد رپورٹ ہمیں بھیج دی، مُجھے تو لگتا ہے کہ پاکستان میں الیکشن ہونے نہیں دیے جا رہے۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمیں اپیل کرنے کیلئے آراو آرڈرز کی نقل تک نہیں مل رہی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ آپ کے کتنے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور ہوئے، آپ نے لکھا سارا ڈیٹا سوشل میڈیا سے لیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جس کے بھی کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے وہ اپیل کرے گا، بات ختم۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ تین دن تک آرڈر کی کاپی نہیں ملی، اپیل کہاں کریں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ نے لوگوں کے نام کی جگہ میجر فیملی لکھا ہوا ہے۔

جس پر لطیف کھوسہ نے بتایا کہ میجر طاہر صادق کا ذکر ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں ہم الیکشن کمیشن کا کام کریں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آر او کے فیصلے کی کاپی نہیں ملتی تو کاپی کے بغیر ٹربیونل میں درخواست دیں، ہم کیسے دوسرے فریق کو سنے بغیر آپ کی اپیل منظور کر لیں، ہم کیسے کہہ دیں کہ فلاں پارٹی کے کاغذات منظور کریں اور فلاں کے مسترد؟ آپ بتائیں ہم کیا آرڈر پاس کریں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتیں الیکشن کیلئے ہر سیاسی جماعت کے پیچھے کھڑی ہیں، آپ ٹربیونل میں اپیلیں دائر کریں اس کے بعد ہمارے پاس آئیں تو سن لیں گے۔

اس کے بعد عدالت نے الیکشن کمیشن حکام کو روسٹرم پر بلا لیا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ ٹربیونل میں اپیل دائر کرنے کا وقت کب تک ہے؟ جس پر ڈی جی لاء الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ آج آخری دن ہے۔

چیف جسٹس نے جواباً کہا کہ کھوسہ صاحب ٹربیونل جائیں پھر یہاں کیا کر رہیں ہیں۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہماری شکایت پر الیکشن کمیشن نے تمام صوبوں کے آئی جیز کو ہدایات دیں، سارے آئی جیز کا اس لیے اس کیس سے تعلق ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی شکایات کی کاپی کہاں ہے؟ جس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ میں نے شکایات کی کاپی ساتھ نہیں لگائی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پھر الیکشن گزر جائیں گے تو کاپی لگا لیجیے گا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے کتنے کاغذات نامزدگی منظور ہوئے؟ آپ کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کا بتا رہے ہیں منظوری کا بھی تو بتائیں، کیا پی ٹی آئی کے پاس منظوری یا مسترد ہونے کا ڈیٹا نہیں؟

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ نے درخواست میں میجر فیملی، میجر فیملی لکھ دیا ہے کیا کوئی میجر انتخاب لڑ رہا ہے؟

لطیف کھوسہ نے کہا کہ صرف ایک سیاسی جماعت کے کاغذات نامزدگی مسترد ہو رہے ہیں۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مائیک آپ کی جانب موڑ دیتے ہیں آپ پی ٹی آئی کی سیاسی تقریر کر لیں، آپ ہر بات کے جواب میں سیاسی جواب دے رہے ہیں، یہ قانون کی عدالت ہے، آپ اپنی توہین عدالت کے مرتکب ہونے کا الزام آئی جی پر لگا رہے ہیں، انتخابات آئی جی،چیف سیکیریٹریز یا سپریم کورٹ نے کرانے ہیں؟

چیف جسٹس نے کہا کہ ہر ہائیکورٹ میں الیکشن ٹربیونل بن چکے وہاں جائیں، بارہا کہہ چکے کہ عدالتیں جمہوریت اور انتخابات کیلئے ہر سیاسی جماعت کے پیچھے کھڑی ہیں۔

لطیف کھوسہ نے کہا آپ مجھے بھی سن لیں میں 55 سال سے وکالت کر رہا ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے 22 دسمبر کے حکم پر 26 دسمبر کومفصل عملدرآمد رپورٹ جمع کرائی ہے۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی رپورٹ دیکھنے کے لیے کل تک کا وقت دے دیں۔

جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم کیا روز آپ کے کیس سنتے رہیں گے، عدالت کوئی اور کام نہ کرے؟

چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے مکالمہ میں کہا کہ اکھاڑا نہیں یہ عدالت ہے۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ آپ صوبائی الیکشن کمیشن کا خط بھی تو دیکھیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ صوبائی الیکشن کمیشن نے خط 24 دسمبر کو لکھا جبکہ الیکشن کمیشن نے عملدرآمد رپورٹ 26 کو جمع کرائی، الیکشن کمیشن نے 26 دسمبر کے بعد کچھ کیا ہو تو بتائیں۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ آپ وڈیو لگانے کی اجازت دیں، پوری دنیا نے میڈیا پر دیکھا جو پی ٹی آئی کے ساتھ ہوا۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے نہیں دیکھا کیونکہ میں میڈیا نہیں دیکھتا۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے عملدرآمد رپورٹ میں وہی خط لگائے جو ہماری درخواست میں بھی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے اپنی درخواست میں کوٸی بھی ایک مخصوص الزام نہیں لگایا، آپ لکھ رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن پابند ہے صاف و شفاف الیکشن کا، ہم کہتے ہیں ہاں، آپ نے 2013 کے الیکشن میں بھی الزامات لگائے، عدالت نے تب بھی وقت ضاٸع کیا اور کوٸی ٹھوس الزام نہ نکلا۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ 35 پنکچر والی بات اسی عدالت میں ہوٸی تھی، عدالت نے کہا تھا کہ آرگناٸز دھاندلی نہیں ہوٸی، اُس معاملے کا آج کےحالات سے کوٸی موازنہ نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر آپ نے ہی تعینات کیا تھا ہم نے نہیں، مسٸلہ یہ ہے کہ کوٸی بھی اپنی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں، ہمارا 22 دسمبر سے سخت کوٸی اور آرڈر نہیں ہوسکتا، آپ نے اس کے بعد الیکشن کمیشن کو کوٸی شکایت کی ہو تو بتا دیں۔

جسٹس میاں محمد علی مظہر نے الیکشن کمیشن حکام سے استفسار کیا کہ آپ انییں لیول پلینگ فیلڈ دے رہے ہیں؟ جس پر ڈی جی لاء الیکشن کمیشن نے نے جواب دیا کہ ان کی ہر شکایات کو ہم نے متعلقہ اتھارٹی کو بھیجا جہاں قانون کے مطابق اس پر فیصلے ہوئے۔

لطیف کھوسہ کا کہناتھا کہ تاریخ کی بدترین پری پول دھاندلی ہو رہی ہے، آر اوز دفتر کے باہر سے لوگوں کو اُٹھا لیا جاتا ہے، اس معاملے پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں، میرے اپنے بیٹے کو گرفتار کیا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا بنیادی الزام کس پر ہے صرف پنجاب کا مسئلہ ہے، کیا پنجاب کا ایڈووکیٹ جنرل موجود ہے۔ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب موجود نہیں ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے آئی جی کے خلاف الیکشن کمیشن کو کارروائی کے لیے لکھا؟

لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم نے نہیں ان کے اپنے صوبائی الیکشن کمیشن نے خط لکھا کہ عمل نہیں ہو رہا۔

جسٹس میاں محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ کا اپنا صوبائی الیکشن کمیشن لکھ رہا ہے اس پر آپ کو ایکشن نہیں لینا چاہیے تھا۔

سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت 8 جنوری تک ملتوی کردی۔

عمران خان سمیت کئی امیدواروں کے کاغذات مسترد کرنے کیخلاف اپیلیں دائر

لاہور: این اے 122 سے بانی پی ٹی آئی ‏عمران خان نے ریٹرننگ آفیسر کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردی۔

انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ ‏ریٹرننگ افسر نے حقائق کے برعکس کاغذات نامزدگی مسترد کیے، ‏ٹریبونل ریٹرننگ آفیسر کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر کاغذات نامزدگی منظور کرے۔

علاوہ ازیں سابق وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی سمیت کئی امیدواروں نے کاغذات مسترد کرنے کیخلاف اپیلیں دائر کردی ہیں۔
کاغذات مسترد کرنے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا آج آخری دن ہے۔ سہ پہر 4 بجے تک امیدوار اپیل دائر کر سکیں گے۔

الیکشن ٹربیونلز کے ججز 10 جنوری تک دائر اپیلوں کے فیصلے کریں گے۔ آج بھی الیکشن ٹریبونل ججز اپیلوں کی سماعت کر رہے ہیں اور فیصلے آنا شروع ہوگئے ہیں۔

پشاور ہائیکورٹ؛ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات نظرثانی درخواست پر فیصلہ محفوظ

پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات اور انتخابی نشان کیس میں الیکشن کمیشن کی ہائیکورٹ آرڈر پر نظرثانی درخواست پر سماعت ہوئی۔

پاکستان تحریک انصاف کے وکیل قاضی انور نے دلائل دیے کہ 26 دسمبر کا جو آرڈر آیا ہے اس پر ابھی تک عمل نہیں کیا گیا۔
جسٹس اعجاز خان نے ریمارکس دیے کہ اسکا مطلب ہے کہ حکم امتناع سے ان کو کوئی مشکل نہیں ہوئی، آپ کے دو نکات ہیں کہ الیکشن کمیشن حکم امتناع واپس لینے کے لئے یہاں نہیں آسکتا۔ دوسرا کہ اس آرڈر سے الیکشن انعقاد میں کوئی مشکلات نہیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ انہوں نے ہمارے آرڈر پر حکم امتناع لیا ہے ہمیں اسکے خلاف رٹ دائر کرنے کا حق ہے، ان کا کیس یہاں قابل سماعت ہی نہیں انہیں سپریم کورٹ جانا چاہیے تھا۔

وکیل قاضی انور نے دلائل دیے کہ الیکشن کمیشن کے پاس انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے کا اختیار نہیں ہے۔ پی ٹی آئی نے 2013 اور 2018 کے انتخابات بھی بیٹ کے نشان پر لڑے ہیں۔

عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

نواز شریف کے کاغذاتِ نامزدگی منظوری کیخلاف اپیل پر ریٹرننگ افسر طلب

لاہور: نواز شریف کے کاغذاتِ نامزدگی منظوری کے خلاف اپیل پر ریٹرننگ افسر کو طلب کرلیا گیا۔

ہائی کورٹ کے عام انتخابات کے حوالے سے بنائے گئے اپیلیٹ ٹریبونل میں مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے قومی اسمبلی کے حلقہ 130 سے کاغذات منظوری نامزد کیے جانے کے خلاف دائر اپئل پر سماعت ہوئی، جس میں ٹریبونل نے ریٹرننگ افسر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔

اپیلیٹ ٹریبونل کے جج رسال حسن سید نے اپیل پر رجسٹرار آفس کا اعتراض ختم کرتے ہوئےکاغذات نامزدگی منظوری کے خلاف اپیل پر ریٹرننگ افسر (آر او) کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا۔
واضح رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے کاغذاتِ نامزدگی منظوری کے خلاف مقامی وکیل اشتیاق احمد نے اپیل دائر کی تھی، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ نواز شریف تاحیات نااہل ہیں، ریٹرننگ افسر نے قانون کے منافی فیصلہ سنایا۔ بعد ازاں رجسٹرار آفس کی جانب سے اپیل کے ساتھ مصدقہ دستاویزات نہ لگانے کا اعتراض عائد کیا گیا تھا۔ جسےٹریبونل نے ختم کرتے ہوئے سماعت کی۔

پی ٹی آئی کے 668 ٹاپ لیڈر شپ کے کاغذات مسترد ہوئے، سپریم کورٹ میں دستاویز جمع

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے لیول پلیئنگ فیلڈ فراہمی کیلئے دائر توہین عدالت کی درخواست میں اضافی دستاویزات سپریم کورٹ میں جمع کروا دیے۔

ذراٸع کے مطابق سپریم کورٹ کو جمع کرائے گئے دستاویزات پی ٹی آئی کے 668 ٹاپ لیڈر شپ کے کاغذات مسترد ہونے کے حوالے سے آگاہ کیا گیا۔

دستاویزات میں بتایا گیا کہ پی ٹی آئی کے دو ہزارکے قریب حمایت یافتہ اور سیکنڈ فیز کے رہنماؤں کے کاغذات نامزدگی مسترد کئے گئے۔

دستاویز کے مطابق پی ٹی آئی رہنماؤں کے کاغذات نامزدگی چھننے کے 56 واقعات پیش آئے، پی ٹی آئی کے تجویز کنندہ اور تائید کنندہ گان کی گرفتاریاں کی گئیں۔

پی ٹی آئی ویڈیو ثبوت بھی سپریم کورٹ میں دوران سماعت پیش کرے گی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی عیسٰی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ سماعت کرے گا۔