محمد شمی کی کرکٹ میں واپسی تاخیر کا شکارہونے کا خدشہ

کراچی: بھارتی فاسٹ بولر محمد شمی کی کرکٹ میں واپسی تاخیر کا شکار ہوسکتی ہے، مینجمنٹ اس حوالے سے جلدبازی نہیں کرنا چاہتی۔

محمد شمی نے گذشتہ برس اپنے ملک میں منعقدہ ون ڈے ورلڈ کپ میں آخری مرتبہ مسابقتی کرکٹ کھیلی، اس دوران وہ ٹخنے کی انجری سے دوچار ہوئے۔

فروری میں ان کے ٹخنے کی سرجری ہوئی اور اب وہ نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں ری ہیبلی ٹیشن جاری رکھے ہوئے ہیں، انھوں نے بولنگ پریکٹس شروع کردی تاہم ان کی آئندہ ماہ بنگلہ دیش سے ہوم سیریز میں واپسی کا امکان نہیں ہے۔

شمی کا ہدف اکتوبر میں رنجی ٹرافی کا ابتدائی میچ ہے، مصروف ترین سیزن کی وجہ سے مینجمنٹ اپنے اہم فاسٹ بولر کی فٹنس کے حوالے سے کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتی۔

کپڑے کی دکان میں آتشزدگی پر فائر ٹینڈرز نے قابو پا لیا

کراچی: کورنگی نمبر 6 مارکیٹ میں کپڑے کی دکان میں لگنے والی آگ پر فائر ٹینڈرز نے قابو پا لیا۔

دکان میں آگ لگنے کی اطلاع ملتے ہی کورنگی اور لانڈھی فائر اسٹیشن سے دو فائر ٹینڈرز کو روانہ کر دیا گیا تھا۔

فائر بریگیڈ کے ترجمان کے مطابق آگ پر قابو پا لیا گیا ہے، اور آگ کو مزید پھیلنے سے روک دیا ہے۔

ترجمان فائر بریگیڈ کا کہنا تھا کہ آتشزدگی کے نتیجے میں کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا، فی الحال مالی نقصان کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔

سیریز شروع ہوتے ہی بنگلہ دیشی کوچ کو’’گڈبائے‘‘

کراچی: بنگلہ دیشی کوچ چندیکا ہتھورا سنگھے کو پاکستان سے سیریز شروع ہوتے ہی’’گڈبائے‘‘ کہہ دیا گیا،وہ دوسرے ٹیسٹ کے بعد فارغ ہو جائیں گے۔

تفصیلات کے مطابق نئے صدر بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ فاروق احمد نے ذمہ داری سنبھالتے ہی اپنے سب سے بڑے مخالف ہیڈ کوچ چندیکا ہتھورا سنگھے کا پتا صاف کرنے کا عندیہ دے دیا، پہلی پریس کانفرنس میں انھوں نے واضح کردیا کہ ہتھوراسنگھے کے حوالے سے ماضی کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

فاروق نے کہا کہ میں نے ابھی تک ہیڈ کوچ کا معاہدہ نہیں دیکھا، مجھے کچھ معاملات کو آفیشل طور پر دیکھنا ہے مگر میرا سابقہ موقف تبدیل نہیں ہوا، اگلے2،3 روز میں میں ساتھی حکام سے بات کروں گا۔

ہم دیکھیں گے کہ چندیکا سے بہتر کوچ کیسے تلاش کرسکتے ہیں، ہمیں ایک شارٹ لسٹ تیار کرکے دیکھنا ہوگا کہ کون ہمیں جوائن کرنا چاہتا ہے۔ یاد رہے کہ فارق احمد نے چندیکا ہتھوراسنگھے کے بطور ہیڈ کوچ پہلے دورانیے کے دوران چیف سلیکٹر کی ذمہ داری سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

سابق بورڈ صدر نظم الحسن نے کوچ کی فرمائش پر 2 ٹیئر سلیکشن کمیٹی قائم کی تھی، جب دوسری مدت کیلیے ہتھوراسنگھے کو واپس لایا گیا تب بھی فاروق نے شدید مخالفت کی تھی، اب یہ یقینی ہے کہ پاکستان کیخلاف دوسرے ٹیسٹ کے بعد ہتھوراسنگھے فارغ ہو جائیں گے۔

گذشتہ روز طویل پریس کانفرنس کے دوران بی سی بی کے نئے صدر نے کہاکہ میں سینئر آل راؤنڈر شکیب الحسن کی اپنے ملک میں شیڈول میچز میں شرکت کے حوالے سے بھی جاننا چاہتا ہوں، میں سمجھتا ہوں کہ انھیں پلیئنگ کیریئر کے دوران سیاست میں حصہ لینے سے روکنا چاہیے تھا۔

یاد رہے کہ شکیب عوامی لیگ کی جانب سے ممبرپارلیمنٹ منتخب ہوئے تھے، شیخ حسینہ کے مستعفی ہونے پر اسمبلی ختم ہوچکی، سابق وزیراعظم کے زیادہ تر قریبی افراد یا تو روپوش ہیں یا انھیں گرفتار کیا جاچکا، شکیب کینیڈا سے پاکستان آئے، ان کی فیملی پہلے سے ہی امریکا میں مقیم ہے۔ فاروق احمد نے مزید کہا کہ ہم تمیم اقبال سے بھی انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی کے حوالے سے بات کریں گے۔

اہل و عیال پر خرچ کرنے کی فضیلت

حضرت ابو مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم:

’’جو مسلمان اپنے اہل و عیال پر کچھ خرچ کرتا ہے اور اسے ثواب کا کام سمجھتا ہے تو اس کا یہ خرچ کرنا اس کے لیے صدقہ ہے۔‘‘ (متفق علیہ)

اﷲ رب العزت نے انسان کو عبادت کے لیے پیدا فرمایا اور پھر زندگی گزارنے کا ایسا سلیقہ اور ایسے آداب سکھائے کہ انسان کی زندگی کا ہر مرحلہ عبادت بن جائے۔ انسان جب مل جل کر زندگی گزارتا ہے تو ظاہر ہے کہ اسے اپنی بیوی بچوں کے لیے رہائش، کھانا، لباس اور دیگر ضروریات زندگی کا بھی انتظام کرنا ہے‘ اﷲ تعالیٰ نے اس عمل کو بھی نیکی اور صدقہ شمار فرمایا۔ یہاں تک کہ صحیح مسلم کی ایک روایت جو حضرت ابوہریرہؓ سے منقول ہے اس میں ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ ایک دینار وہ جو کہ تم اﷲ کے راستے میں خرچ کرو اور ایک دینار وہ جسے تم غلام آزاد کرنے میں خرچ کرو، ایک دینار وہ جو تم کسی مسکین کو خیرات کرو اور ایک وہ دینار جو تم اپنے اہل و عیال پر خرچ کرو تو ان سب دیناروں میں سے اجر و ثواب کے اعتبار سے زیادہ بڑا دینار وہ ہے جو تم اپنے اہل و عیال پر خرچ کرو۔

یہاں لفظ صدقہ کی وضاحت بھی ضروری معلوم ہوتی ہے اس لیے کہ قرآن و سنت میں لفظ صدقہ، زکوٰۃ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور خیرات کے لیے بھی اور عام نیکی کے معنی میں بھی، چناں چہ صدقہ سے مراد اگر زکوٰۃ یا خیرات ہو تو ایسا مال خاص مستحق افراد کو دینے کی ہدایت دی گئی ہے، سورۂ توبہ میں اﷲ تعالیٰ نے آٹھ صارف بیان فرمائے ہیں لیکن یہاں اس حدیث میں اہل و عیال پر خرچ کرنے کو جو صدقہ کہا گیا ہے اس سے مراد عام نیکی کا کام ہے۔ ارشاد نبوی ﷺ کے مطابق اہل و عیال پر خرچ کرنا صدقہ ہے تو پھر ایک اور ارشاد نبویؐ بھی ذہن میں رہنا چاہیے۔

مفہوم: ’’اﷲ تعالیٰ صرف پاکیزہ اور حلال چیز کو قبول فرماتا ہے۔‘‘

لہٰذا انسان اگر حلال مال سے اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے تو یہ صدقہ شمار ہوگا، اس لیے کہ صرف وہی صدقہ قبول ہوتا ہے جو حلال مال سے ہو۔

صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق رسول اﷲ ﷺ نے صدقہ کے آداب کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا کہ صدقہ کا مال اس انداز سے دو کہ تم خود فقیر اور مفلس نہ بن جاؤ بل کہ کچھ غناء، باقی رہے۔ یعنی اپنے اہل و عیال کی ضروریات زندگی کے بہ قدر مال و اسباب رکھ لو اس کے بعد جو کچھ بچ رہے اسے خدا کے نام پر خیرات کر دو اور پھر خیرات کرنے میں یہ بھی بات پیش نظر رہے کہ صدقہ کا مال پہلے ان لوگوں کو دو جن کی ضروریات زندگی تمہاری ذات سے وابستہ ہیں۔

اہل و عیال کی ضروریات کہاں تک پورا کرنا نیکی ہے اس کے لیے قرآن حکیم سے ایک اصول تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ مفہوم: ’’کھاؤ پیو لیکن فضول خرچی نہ کرو۔‘‘ انسان کے پاس جس قدر آمدنی کے وسائل ہوں ان کے ذریعہ حلال مال کما کر اہل و عیال پر خرچ کرتا رہے لیکن اس خرچ میں بھی اعتدال اور میانہ روی شامل رہے۔

سورۃ الفرقان میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کے اوصاف بیان فرماتے ہوئے یہ خوبی بھی بیان فرمائی: مفہوم: ’’اور رحمن کے بندے وہ ہیں کہ جب وہ خرچ کریں تو نہ فضول خرچی کریں اور نہ تنگی کریں۔ بل کہ ان کا خرچ اس کے درمیان اعتدال کے ساتھ ہوتا ہے۔‘‘

اس سے انسان کو ایک طرف تو سکون ملے گا اور دوسری طرف بیوی بچوں کے اندر قناعت پسندی پیدا ہوگی جو آئندہ چل کر اولاد کی تربیت کا حصہ بن جاتی ہے کہ وہ اولاد خود بھی فضول خرچی سے بچتی ہے۔ لہٰذا انسان اپنے اہل و عیال کے لیے رہائش میں خرچ کرے، ان کے کھانے، پینے، لباس کے لیے خرچ کرے اور پھر اﷲ توفیق دے تو ان کے لیے آسائش بھی مہیا کرے یعنی گھریلو سہولیات کا انتظام کرے جس سے زندگی آرام و راحت سے گزرے اور اسلام نے جائز حد تک زیب و زینت اختیار کرنے کی بھی اجازت دی ہے۔ اس لیے اہل و عیال پر شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے آرائش کی مد میں بھی خرچ کر سکتا ہے۔ ال غرض انسان اپنے اہل و عیال کی رہائش، آسائش اور آرائش پر تو خرچ کر سکتا ہے لیکن ایک چیز سے اسلام نے قطعی طور پر روکا ہے اور وہ ہے نمائش اور دکھاوا، دوسروں کے اہل و عیال پر اپنے اہل و عیال کی امارت اور اپنی دولت ظاہر کرنا۔ قرآن و سنت میں اس سے سختی سے منع فرمایا گیا ہے۔

دور جدید میں نمود و نمائش ایک ایسی بیماری جس کی خاطر انسان حلال و حرام کی تمیز کیے بغیر دولت کے حصول میں سرگرداں ہے اور اس تپتے سراب زدہ صحرا کا کوئی کنارہ نہیں ہے جس کا نتیجہ بے سکونی اور جرائم کی شکل میں سامنے آتا ہے۔

فلاں کے بچے ایسے کپڑے پہنتے ہیں میں اپنے بچوں کو اس سے بڑھ کر پہناؤں گا، فلاں کے اہل و عیال کے پاس ایسی سواری، میں اس سے عمدہ سواری لاؤں گا۔ یہ دوڑ نہ ختم ہونے والی ریس ہے اس لیے اسلام نے ہمیں قناعت، صبر اور شُکر کی تعلیم دی۔ بس انسان حلال مال کمانے کی فکر کرے اور اہل و عیال پر فضول خرچی اور نمائش کے جذبہ سے پاک ہو کر خرچ کرے اور ہر وقت اہل و عیال کے اندر اخلاقی اوصاف پیدا کرنے کی فکر رکھے، بیوی بچوں پر خرچ کرنے کے دوران اگر بے جا فرمائشیں کرنے کا جذبہ نظر آنے لگے تو انہیں اپنے سے کم تر افراد کا سامنا کرائے اور پھر اﷲ کا شکر ادا کرنے کی تعلیم دے۔

رسول اکرم ﷺ نے اپنی اولاد کو بالکل اس طرح تعلیم دی۔ دربار نبوی ﷺ میں چند غلام آئے آپؐ کی چہیتی بیٹی حضرت فاطمہؓ کی طرف سے گزارش آئی کہ ایک غلام کام کاج کرنے کے لیے عطا فرما دیں، اس لیے کہ کام کرتے کرتے ہاتھوں پر نشان اور پانی کا مشکیزہ لادنے سے کندھوں پر نشان پڑ گئے ہیں۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:

اے بیٹی فاطمہ! کیا میں تمہیں غلام اور یہ دنیا اور جو کچھ اس دنیا میں ہے اس سے بہتر چیز نہ دوں؟ عرض کیا: ضرور۔ فرمایا: جب تم بستر پر لیٹا کرو تو 33 بار سبحان اﷲ، 33 بار الحمدﷲ اور 34 بار اﷲ اکبر کہہ لیا کرو۔

غور فرمائیے! بیٹی نے ملازم کام کرنے کے لیے مانگا لیکن جواب میں باپ نے مشقانہ انداز میں کتنی عمدہ تربیت فرمائی۔ اہل و عیال پر خرچ کرنے کے بعد ان کو جتلانا نہیں چاہیے۔ اس لیے کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: مفہوم: ’’اے ایمان والو! تم اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور تکلیف پہنچا کر ضایع نہ کرو۔‘‘

اہل و عیال پر خرچ کرنے کے دوران یہ بات بھی معاشرہ میں سامنے آتی ہے کہ لوگ بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح دیتے ہیں، ابوداؤد میں حضرت عبداﷲ بن عباسؓ کی روایت میں رسول اکرم ﷺ نے اس شخص کے لیے جنّت کی بشارت دی ہے جو اپنی بیٹیوں کو بیٹوں پر ترجیح دیتا ہے۔ لہٰذا انسان معاشرہ میں رہتے ہوئے اپنے اہل و عیال پر خرچ تو کرتا ہی ہے لیکن اگر یہ خرچ قرآن و سنّت کی ان تعلیمات کے ساتھ ثواب سمجھ کر کیا جائے تو یہی اجر و ثواب کا باعث ہوگا۔ اور سورۂ فرقان میں اﷲ تعالیٰ نے جو دعا سکھائی ہے وہ اپنے بیوی بچوں کے لیے خوب مانگے۔ مفہوم: ’’اے اﷲ! ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں متقین کا راہ نما بنا دے۔‘‘

نکاح مسنونہ میں تعاون

اسلام میں نکاح کو ایک عظیم عبادت کی حیثیت حاصل ہے، جس میں بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ نکاح سنتِ رسول ﷺ بھی ہے اور توالد و تناسل نیز نگاہ و شرم گاہ کی حفاظت کا ذریعہ بھی۔ انسانی طبیعت میں جو جنسی تقاضا و میلان فطری طور پر رکھا گیا ہے، اسے پورا کرنے کا واحد ذریعہ شریعت کی رُو سے نکاح ہی ہے۔ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم:

’’جب کو ئی بند ہ نکا ح کر لیتا ہے، تو اس کا نصف دین مکمل ہو جا تا ہے۔ پس! اسے باقی نصف دین کے متعلق خدا سے ڈرنا اور اس کا تقویٰ اختیار کرنا چاہیے۔‘‘ (الترغیب)

حضرت علقمہؓ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کے ساتھ چل رہا تھا، انہوں نے کہا: ہم حضرت نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص نکاح کی صلاحیت رکھتا ہو، وہ نکاح کرلے، اس لیے کہ وہ نگاہ کو نیچی کرتا ہے اور شرم گاہ کو زنا سے محفوظ رکھتا ہے، اور جس کو اس کی طاقت نہ ہو تو وہ روزے رکھے، اس لیے کہ روزہ شہوت کو توڑ دیتا ہے۔‘‘

(بخاری ، مسلم)

باری تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’تم میں سے جن (مَردوں یا عورتوں) کا اس وقت نکاح نہ ہو، ان کا بھی نکاح کراؤ، اور تمہارے غلاموں اور باندیوں میں سے جو نکاح کے قابل ہوں، ان کا بھی۔ اگر وہ تنگ دست ہوں تو اﷲ اپنے فضل سے انھیں بے نیاز کردے گا، اور اﷲ بہت وسعت والا ہے، سب کچھ جانتا ہے۔‘‘ (النور) مطلب یہ ہے کہ جو تم میں مجرد ہیں خواہ عورت، خواہ مرد، خواہ بیوہ، خواہ ناکتحذا، ان کا نکاح کر دو۔ لفظ ایا میں سب شامل ہیں، اور رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب تم سے وہ شخص کہ جس کے دین اور خلق سے تم خوش ہو، نکاح کی درخواست کرے تو نکاح کر دو، ورنہ زمین پر بڑا فتنہ اور سخت فساد ہوگا۔ علماء کے نزدیک یہ امر مندوب و استحباب کے لیے ہے، بعض کہتے ہیں وجوب کے لیے فیصلہ یہ ہے کہ جہاں زنا میں مبتلا ہونے کا یقین ہو اور نکاح کرنے پر قادر بھی ہو تو نکاح کرنا واجب ہے، ورنہ مستحب ہے۔ نیز فرمایا گیا کہ اپنے غلام لونڈیوں میں سے بھی جن کو نیک دیکھو، ان کے بھی نکاح کردو۔ کیوں کہ نیک ہی نکاح اور خدمتِ مولیٰ کو ملحوظ رکھ سکتے ہیں، یا صالحین سے مراد وہ کہ جن کو نکاح کی صلاحیت ہو۔(تفسیرِ حقانی)

اس سے معلوم ہُوا نکاح کرنا حکمِ خدا اور رسول ﷺ کی تعمیل اور ثواب کا باعث ہے، اس لیے نکاح کروانا بھی یقیناً کارِ ثواب ہوگا۔

نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنا ثواب کا کام ہے اور ان کے حوالے سے ضرورت مند کا نکاح کروانے کا باعثِ ثواب ہونا خصوصی طور پر معلوم ہوگیا۔ یہی وجہ تھی کہ پہلے سماج کے بڑے بوڑھے اور اہلِ فہم و شعور اس طرف بہت متوجہ رہتے تھے، جس کا مشاہدہ پندرہ بیس سال قبل تک خُوب ہوتا تھا۔ اردو زبان میں اس قبیل سے ایک کہاوت بھی موجود ہے کہ چھان (چھپّر) کو ہاتھ لگانا بھی ثواب کا کام ہے، جس کا مطلب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ کسی کی اولاد نکاح کی عمر کو پہنچ جائے تو اس کے نکاح میں جو بن پڑے، تعاون پیش کرے۔

ہمارے زمانے میں اس کی ضرورت شدید تر ہو گئی ہے، اور اس سے غفلت بھی۔ ضرورت بڑھنے کی وجہ تو یہ ہے کہ جب سے ’’انفرادی خاندان‘‘ کا تصور آیا ہے، اور لوگ خاندان و رشتے داروں سے کٹناشروع ہوئے ہیں، تب سے اچھا و مناسب رشتہ ملنا لوہے کے چنے چبانے جیسا ہوگیا ہے۔ اوّل تو مناسب جوڑ نہیں ملتا، اور کوئی ملتا ہے تو اس کے مطالبات کی فہرست خاصی طویل ہوتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ میریج بیورو اور نکاح کروانے والے دلال جیسی اصطلاحیں بھی عام ہوتی جا رہی ہیں، جنہیں مناسب جوڑ سے کہیں زیادہ جلد از جلد دلالی اینٹھنے کی فکر لاحق ہوتی ہے۔

نکاح کروانے کی جانب لوگوں کی غفلت کی وجہ دنیوی زندگی میں انتہائی انہماک و مشغولی اور کسی حد تک خود غرضی ہے کہ کوئی کیوں کسی کی پریشانی اپنے سر لے۔ اس رجحان نے بہت سے ضرورت مند نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو نکاح جیسی عظیم نعمت سے محروم رکھا ہے، جس کا نتیجا فحاشی و حرام کاری کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے۔ ایسے میں اصلاحِ معاشرہ کے نام پر محض جلسے جلوس کرنا کیسے سود مند ہو سکتا ہے ؟

طرّہ یہ کہ ان نوجوانوں سے لوگ یہ پوچھتے نہیں تھکتے کہ شادی کب کر رہے ہو؟ بریانی کب کھلا رہے ہو؟ جو کہ ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے یا کم از کم ایسے ارمان جگانے کے مترادف ہے، جن کو پُورا کرنا ان کے بس میں نہیں، اس لیے زیادتی ہے۔

حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے حج کے تعلق سے لکھا ہے: ’’اکثر لوگوں کو شوق ہوتا ہے کہ حج کے بعد ہر مجلس میں اس کا تذکرہ کرتے ہیں، حالاں کہ جن پر حج فرض نہیں ہے اور ان کا جانا بھی جائز نہیں، اس وجہ سے کہ ان کی نہ مالی استطاعت ہے اور نہ مشقت پر صبر و تحمل ہو سکے گا، ان کے سامنے تشویق و ترغیب (شوق دلانے اور رغبت پیدا کرنے والے) قصّے اور مضامین بیان کرنا جائز نہیں کیوں کہ اس سے ان کو حج کا شوق پیدا ہوگا اور سامان ہے نہیں، نہ ظاہری، نہ باطنی، تو خواہ مخواہ وہ دقت اور پریشانی میں مبتلا ہوں گے، جس سے ناجائز امور کے ارتکاب کا بھی اندیشہ ہے، اس لیے ایسے لوگوں کے سامنے حج کی تشویق اور ترغیب کے مضامین بیان کرنا جائز نہیں۔‘‘ (اغلاط العوام)

عرض یہ کرنا ہے کہ جب کسی کو نکاح کے اسباب و وسائل میسر ہی نہیں، تو بار بار اسے چھیڑنا چہ معنی؟ کیا آپ کو اس سے وحشت نہیں ہوتی کہ بار بار آپ کے اس ذکر کے باعث اس کے دل میں ارمان مچلنے لگیں اور اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوکر چھلکنے لگے اور پھر وہ شہوت کے غلبے میں کسی ناجائز اور غلط طریقے کو اختیار کر لے؟

حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’اے امتِ محمدیہؐ! جس وقت تم میں سے کوئی مرد یا عورت زنا کرتا ہو، اس وقت اﷲ تعالیٰ سے بڑھ کر غیرت کسی کو نہیں آتی۔ اے امت محمدیہؐ! جو کچھ میں جانتا ہوں، تم بھی جان لو تو ہنسو تھوڑا اور روؤ زیادہ۔‘‘ (بخاری ، مسلم)

حضرت ابوذر رضی اﷲ عنہ حضرت نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں،

رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ابنِ آدم کے جسم کے ہر جوڑ پر صبح ایک صدقہ واجب ہوتا ہے، پس ہر ملنے والے کو سلام کرنا صدقہ ہے۔ اسے نیکی کی تلقین کرنا صدقہ ہے۔ اسے برائی سے روکنا صدقہ ہے۔ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا صدقہ ہے۔ اپنی بیوی سے جماع کرنا صدقہ ہے۔‘‘ صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہم نے عرض کیا: اے اﷲ کے رسول ﷺ! وہ تو اپنی شہوت پوری کرتا ہے، تو کیا یہ شہوت کی تکمیل اس کے لیے صدقہ ہوگی؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر وہ یہ شہوت غلط مقام میں پوری کرتا تو کیا گناہ گار نہ ہوتا ؟ ‘‘ (ابوداؤد)

اس آخری الذکر حدیث سے بھی نکاح کرنا اور کروانا دونوں کا کارِ ثواب ہونا معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے اگر آپ کو کسی کے حالات سے پوری واقفیت ہے اور آپ اس کی فضیحت کے بہ جائے واقعی خیر خواہی کا جذبہ رکھتے ہیں، تو اسے مناسب جوڑ کی راہ نمائی کے ساتھ اسے نکاح کی ترغیب دیجیے، تو آپ کا یہ عمل ان شاء اﷲ ضرور بالضرور صدقۂ جاریہ ہوگا۔ کیوں کہ نیکی صرف وہی نہیں، جسے ہم اپنی سمجھ میں نیکی سمجھتے ہیں، بل کہ قرآن و احادیث میں جس خیر کا بھی صراحتاً یا اشارتاً ذکر آیا ہے، اسے انجام دینا، اس پر راہ نمائی کرنا اور اس میں تعاون پیش کرنا نیکی ہے، اور جسے کوئی نعمت میسر نہ ہو، اس کے سامنے بار بار محض اس کا ذکر کرنا، اس کا دل دکھانا ہے۔

اﷲ تعالیٰ ہم سب کو صحیح سمجھ عنایت فرمائے۔ آمین

شہداء کے خون کا بدلہ ضرور لیا جائے گا، ایڈیشنل آئی جی ساؤتھ پنجاب

رحیم یار خان: ایڈیشنل آئی جی ساؤتھ پنجاب کامران شیخ نے کہا ہے کہ شہدا کے خون کا بدلہ ضرور لیا جائے گا۔

رحیم یار خان کے شیخ زید اسپتال میں ایڈیشنل آئی جی ساؤتھ پنجاب کامران خان شیخ زخمی پولیس اہلکاروں عیادت کے لیے پہنچے، ان کے ہمراہ آر پی او بہاولپور رائے بابر سعید کمشنر خرم پرویز اور ضلعی پولیس انتظامیہ کے افسران بھی تھے۔

ایڈیشنل ائی جی نے ڈاکوؤں کے حملے میں زخمی پولیس جوانوں کی عیادت کی ان کی حوصلہ افزائی کو سرہاتے ہوئے زخمیوں کے ساتھ آنے والے ان کے اہل خانہ کو بھی تسلی دی۔

ایڈیشنل ائی جی کامران خان شیخ نے ایمرجنسی وارڈ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اب تک شہداء کی تعداد 12 ہو چکی ہے اور 10 کے قریب زخمی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ڈی پی او رحیم یار خان عمران ملک پولیس کی بھاری نفری کہ ہمارا کچے کے علاقے میں ڈاکو کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن کر رہے ہیں۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شر اور کوش قبیلے کے ڈاکوؤں کی طرف سے حملہ ہوا ہے، ہم اپنے پولیس جوانوں کا خون رائیگاں نہیں جانے دیں گے اور کچے میں آخری ڈاکو کی ہلاکت تک اپریشن جاری رکھا جائے گا۔

ایڈیشنل ائی جی ساؤتھ پنجاب کامران خان شیخ آئی جی پنجاب تشریف لا رہے ہیں صبح صادق کے وقت اعلی سطحی اجلاس کرتے ہوئے کچا اپریشن کی حکمت عملی بنائی جائے گی اور شہداء کے خون کا بدلہ ضرور لیا جائے گا۔

سپریم کورٹ نے مبارک ثانی کیس میں وفاقی حکومت کی درخواست منظور کرلی

سپریم کورٹ نے مبارک ثانی کیس میں وفاقی حکومت کی درخواست منظور کرلی، عدالت نے 6 فروری اور 24 جولائی کے فیصلوں سے متنازع پیراگراف حذف کر دیے۔

عدالت نے کہا کہ فیصلے سے جو پیرگراف حذف کروائے گئے ہیں وہ کسی بھی فیصلے میں بطور مثال پیش نہیں ہوں گے۔

فیصلے میں عدالت نے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات اور علماء کی رائے کو تسلیم کیا، جبکہ سپریم کورٹ نے ٹرائل کورٹ کو مقدمہ میں عائد دفعات کا قانون کے مطابق جائزہ لینے کا حکم بھی دے دیا

مبارک ثانی ضمانت کیس میں سپریم کورٹ میں پنجاب حکومت کی جانب سے دائر نظر ثانی درخواست پر سماعت میں  مفتی تقی عثمانی ترکیہ سے بذریعہ ویڈیو لنک سپریم کورٹ میں پیش ہوئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ سماعت کررہا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مبارک ثانی کیس میں مولانا فضل الرحمان سے کہا کہ عدالتی فیصلے میں کوئی غلطی یا اعتراض ہے تو بتائیں، دیگر اکابرین کو بھی سنیں گے۔

چیف جسٹس نے مولانا فضل الرحمان کو روسٹرم پر بلالیا

 جمعیت علما اسلام (جے یو آئی) ف کے سربراہ  مولانا فضل الرحمن روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اگر ہم سے کوئی غلطی ہوجائے تو اس کی اصلاح بھی ہونی چاہیے، پارلیمان کی بات سر آنکھوں پر ہے۔

قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آئین کی پچاسویں سالگرہ پر وہ خود پارلیمنٹ میں گئے، آپ کا شکریہ آپ ہمیں موقع دے رہے ہیں، کبھی کوئی غلطی ہو تو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے، جنہوں نے نظرثانی درخواست دائر کی ان کا شکریہ ادا کیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مولانا فضل الرحمان سے مکالمہ کرتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ کون کون سے علماء کرام عدالت میں موجود ہیں، ہم تعین کرنا چاہتے ہیں ہمیں کون کون رہنمائی کرے گا۔

مولانا فضل الرحمان نے چیف جسٹس سے مکالمے کے دوران کہا کہ عدالتی فیصلے پر مذہبی جماعتوں، علماء کرام نے رائے دی ہیں، جو تحفظات ہیں سب آپ کے سامنے ہیں، پہلی بار عدالت کے سامنے کھڑا ہوا ہوں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ والد صاحب کے انتقال پر مفتی محمود صاحب تعزیت کے لیے گھر آئے تھے، تاریخ کو دہرانا نہیں چاہتا، گرداس پور، فیروز پور ہمیں ملتے تو کشمیر ہمارے ہاتھ سے نہ جاتا، پاکستان کے لیے جنگ میرے والدصاحب نے بھی لڑی ہے، میرے والد نے ہر چیز پاکستان کے لیے لگا دی، کسی نے مجھے قتل کی دھمکی دی، میں نے کسی سے بدلہ نہیں اتارا۔

مولانا فضل الرحمان نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے کہا کہ آپ شکایت کا ازالہ کر رہے ہیں، یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے، جس پر قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ نے نظرثانی کی درخواست دی ہم نے فوری لگا دی۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ کئی سماعتیں عدالت کی ہوئیں، اب نظرثانی کا معاملہ ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ نظرثانی نہیں، جس پر مولانا نے کہا کہ یہ نظرِ ثالث ہے، علماء نے اپنی رائے اور اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے بھی سامنے آچکی ہے۔

سربراہ جے یو آئی نے مزید کہا کہ آپ نے فرمایا کہ آپ سے غلطیاں ہوجاتی ہیں، میں 72 سال کی عمر میں پہلی بار کسی عدالت کے سامنے کھڑا ہوا، مجھے اللّٰہ نے عدالت سے بچائے رکھا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اتنے برے نہیں ہیں، تو مولانا نے کہا کہ آج آپ سب شکایات کا ازالہ کر رہے ہیں۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مبارک ثانی کو آپ ضمانت کا مستحق سمجھتے ہیں تو الگ بات ہے، اس کے توہین آمیز اقدامات پر مگر دفعات ساری اس پر لگیں گی، قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے والی کمیٹی کا فیصلہ پارلیمان نے ویب سائیٹ پر ابھی نہیں ڈالا، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملہ آپ پارلیمنٹ میں اٹھائیں، سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ مبارک ثانی کا ٹرائل جاری رہنا چاہیے، اسلامی نظریاتی کونسل کی آراء کو مد نظر رکھا جائے۔

قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کسی وکیل کو نہیں سنیں گے یہ واضح کر رہے ہیں، تقی عثمانی صاحب میں معذرت چاہتا ہوں، وضاحت کرنا چاہتا ہوں جنہیں نوٹس کیا تھا ان کی جانب سے ہمیں بہت ساری دستاویزات ملیں، اگر ان سب کا بغور جائزہ لیتے تو شاید فیصلے کی پوری کتاب بن جاتی، ان تمام دستاویزات کو نہیں دیکھ سکا وہ میری کوتاہی ہے، عدالتی فیصلے میں جو غلطیاں اور اعتراض ہے ہمیں نشاندہی کریں، اگر کوئی بات سمجھ نہیں آئی تو ہم سوال کریں گے، ہمارا ملک اسلامی ریاست ہے، عدالتی فیصلوں میں قرآن و حدیث کے حوالے دیتے ہیں، میں کسی غلطی سے بالاتر نہیں ہوں۔

علماء سے معاونت لینے کا فیصلہ

عدالت نے مفتی تقی عثمانی، مولانا فضل الرحمان، مفتی شیر محمد اور موجود علماء سے معاونت لینے کا فیصلہ کرلیا، ابوالخیر محمد زبیر، جماعت اسلامی کے فرید پراچہ بھی سپریم کورٹ کی معاونت کریں گے۔

مفتی تقی عثمانی کی عدالت سے استدعا

مفتی تقی عثمانی نے سپریم کورٹ فیصلے کے 2 پیراگراف حذف کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ پیراگراف نمبر 7 اور 42 کو حذف کیا جائے،  مفتی تقی عثمانی نے مقدمے سے دفعات ختم کرنے کے حکم میں بھی ترمیم کی استدعا کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت دفعات کا اطلاق ہونے یا نہ ہونے کا معاملہ ٹرائل کورٹ پر چھوڑے، اصلاح کھلے دل کے ساتھ کرنی چاہیے، عدالت نے سیکشن 298 سی کو مد نظر نہیں رکھا، معاملہ ایسا ہو تو لمبے فیصلے لکھنے پڑتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمان نے مفتی تقی عثمانی کی گزار شات کی حمایت کرتے ہوئے عدالت سے استدعا کی کہ سپریم کورٹ پورے فیصلے پر نظرثانی کرے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 6 فروری کا فیصلہ نظر ثانی کے بعد پیچھے رہ گیا ہے، اب آگے دیکھنا چاہیے، اگر سب علماء کی رائے فیصلے میں شامل ہوتی تو فیصلے کی کتاب بن جاتی۔

معاملہ مذہبی ہے تو علمائے کرام کو سن لیا جائے، اٹارنی جنرل

اٹارنی جنرل نے کہا کہ نظر ثانی میں جب آپ نے فیصلہ دیا تو پارلیمنٹ، علماء کرام نے وفاقی حکومت سے رابطہ کیا، کہا گیا حکومت کے ذریعے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے، اسپیکر قومی اسمبلی کا خط ملا تھا اور وزیراعظم نے بھی ہدایات دی تھیں، ظاہر ہے دوسری نظر ثانی تو نہیں ہو سکتی، اس لیے ضابطہ دیوانی کے تحت آپ کے سامنے آئی ہیں، فریقین کو نوٹس جاری کردیے گئے تو فریقین عدالت میں اور ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے ہیں، معاملہ مذہبی ہے تو علمائے کرام کو سن لیا جائے۔

مفتی طیب قریشی کی چیف جسٹس کو پشاور میں مسجد مہابت خان کے دورے کی دعوت

مفتی طیب قریشی  نے کہا کہ عدالت سے ہاتھ باندھ کر استدعا کر رہا ہوں مسلمان مضطرب ہیں انہیں تسلی دیں، جو تجاویز علماء نے دی ہیں ان پر عملدرآمد کیا جائے۔

مفتی طیب قریشی نے چیف جسٹس کو پشاور میں مسجد مہابت خان کے دورے کی دعوت دی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ مسجد شاید چوک یادگار میں ہے؟ میرے والد نے تحریک پاکستان میں سب سے بہترین تقریر چوک یادگار میں کی تھی، میرے والد کہتے ہیں سارا مجمع مسلم لیگ مخالف تھا تقریر کے بعد سب نے قائداعظم کے نعرے لگائے۔

مفتی طیب قریشی نے کہا کہ مجھ سے پہلے جن علماء نے رائے دی ہے ان سے متفق ہوں۔

صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر نے کہا کہ سپریم کورٹ نظرثانی فیصلے کا پیراگراف 42 حذف کرے۔

جماعت اسلامی کے فرید پراچہ کے دلائل

جماعت اسلامی کے رہنما فرید پراچہ نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلے کے پیرا 7 پر ہمیں اعتراض ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ مفتی تقی عثمانی، مولانا فضل الرحمان نے جو تفصیلات رکھیں اس کے علاوہ کوئی نئی بات ہے تو بتائیں، جس پر فرید پراچہ نے کہا کہ عدالتی فیصلے کے پیرا 37،38،39،40، اور 49 سی کا بھی دوبارہ جائزہ لیں۔

مذہبی اسکالر ڈاکٹر عطاء الرحمان کے دلائل

مذہبی اسکالر ڈاکٹر عطاء الرحمان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کچھ چیزیں قابل تعریف ہیں ان کا ذکر ہونا چاہیے، آپ عدالتی فیصلوں پر قرآنی آیات کا حوالہ دیتے ہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر کا معاملہ قابل تحسین اقدام تھا، شریعت اپیلیٹ بینچ کئی عرصے سے التواء میں تھا اسے آپ نے مکمل کیا۔

ڈاکٹر عطاء الرحمان نے کہا کہ مبارک ثانی کیس میں ہمیں امید ہے یہ آخری موقع ہوگا اور مناسب فیصلہ آئے گا، اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز پر ہم دیگر علماء کی طرح متفق ہیں، مسلمانوں کے جذبات اس معاملے سے جڑے ہوئے ہیں۔

ہارورڈ اسکول کے 44 طلبا کے وفد کی آرمی چیف سے ملاقات

راولپنڈی: ہارورڈ بزنس اسکول ٹریک کے 44 طلباء کے وفد نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر سے ملاقات کی ہے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق ہارورڈ بزنس اسکول کے طالب علموں نے جی ایچ کیو میں چیف آف آرمی اسٹاف سے ملاقات کی۔آئی ایسں پی آر کے مطابق آرمی چیف سید عاصم منیر کے ساتھ ملاقات کے دوران پاکستان کے علاقائی امن و استحکام کے فروغ میں کلیدی کردار، دہشت گردی کے خلاف ناقابل تسخیر کوششوں، اور جمہوری اقدار کے تحفظ کے عزم کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے موجودہ سیکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تعلیم، تنقیدی سوچ، اور اختراع کی اہمیت پر زور دیا اور پاکستان کی وسیع صلاحیتوں کو اجاگر کیا۔

انہوں نے شرکا کو ذاتی تجربات کی بنیاد پر اپنی رائے بنانے کی ترغیب دی۔ آرمی چیف نے ڈیجیٹل دور میں غلط معلومات اور جھوٹی خبروں کے خطرات سے خبردار کرتے ہوئے طلباء کو بصیرت کے ساتھ آگے بڑھنے کی تلقین کی۔

ہارورڈ کے طلباء نے آرمی چیف کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ایک تعمیری اور معلوماتی بات چیت کا موقع فراہم کیا ۔یہ ملاقات آرمی چیف کی 20 اگست کو مختلف یونیورسٹیوں کے طلباء کے ساتھ جنرل ہیڈکوارٹرز میں ہونے والی ملاقات کے بعد ہوئی، جو ملک کے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کے عزم کو اجاگر کرتی ہے۔

بنگلادیش؛ عبوری حکومت کا حسینہ واجد کا سفارتی پاسپورٹ منسوخ کرنے کا فیصلہ

ڈھاکا: بنگلادیش کی عبوری حکومت نے حسینہ واجد سمیت ان کی کابینہ میں شامل وزرا اور ارکان پارلیمنٹ کے سفارتی پاسپورٹ منسوخ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

بنگلادیشی میڈیا کے مطابق متعدد سابق وزرا اور ارکان اسمبلی کے ملک سے فرار ہونے کی کوششوں کے بعد عبوری حکومت نے حسینہ واجد سمیت ان کی کابینہ اور ارکان اسمبلی کے سفارتی پاسپورٹ منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

قبل ازیں بنگلا دیش کی وزارت داخلہ نے متعلقہ اداروں کو زبانی ہدایات جاری کی تھیں تاہم اب اس فیصلے کے بعد باضابطہ تحریری احکامات کے جاری ہونے کا بھی امکان بھی ہے۔

خیال رہے کہ کسی بھی ملک کی طرح بنگلادیش میں بھی حکومتی وزرا اور ارکان اسمبلی کو سفارتی پاسپورٹ جاری کیے جاتے ہیں جن کی میعاد 5 سال ہوتی ہے۔ حسینہ واجد کی نیہ حکومت رواں برس جنوری میں بنی تھی۔

حکومت بننے کے بعد وزیراعظم، کابینہ اور منظور نظر ارکان اسمبلی کو سفارتی پاسپورٹ جاری کیے گئے تھے جس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے حکومت کے خاتمے کے بعد متعدد وزرا نے ملک سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ شیخ حسینہ واجد، چند وزرا اور پولیس کے اعلیٰ افسران کے خلاف حکامت مخالف مظاہرین کو قتل کرنے کے الزام میں 4 سے زائد مقدمات درج کیے گئے ہیں جب کہ اقوام متحدہ کی ایک ٹیم بھی حسینہ واجد کے دور میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا جائزہ لینے بنگلادیش آئے گی۔

غزہ جنگ بندی معاہدہ؛ امریکی صدر کی نیتن یاہو سے گفتگو میں آخری کوششیں

 واشنگٹن: امریکی صدر جوبائیڈن نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو منانے کے لیے کال کی جس میں دونوں رہنماؤں نے کافی دیر تک سیز فائر کے طریقہ کار اور حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا۔

امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق دونوں رہنماؤں نے قاہرہ میں ہونے والے مذاکرات اور اس کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کرنے پر بھی گفتگو ہوئی جب کہ امریکی صدر نے غزہ میں جنگ بندی کی فوری ضرورت پر زور دیا۔

اسرائیلی اخبار ’’ یدیعوت احرونوت‘‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ غزہ جنگ بندی معاہدے کے امکانات بہت کم ہیں کیوں کہ اسرائیل فلاڈیلفیا میں اسرائیلی فوج کی موجودگی پر مصر رہے جب کہ جوبائیڈن نے انھیں اس معاملے میں لچک دکھانے کو کہا ہے۔

دوسری جانب العربیہ نیوز نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل کے وزارت دفاع کے ہیڈ کوارٹرز میں آج اس حوالے سے اہم اجلاس بھی ہو رہا ہے جس میں غزہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کے تبادلے کے امریکی منصوبے پر اہم فیصلے کیے جائیں گے۔

ذرائع نے العربیہ کو بتایا ہے کہ اسرائیل کے فلاڈیلفیا میں اپنی فوجیوں کی موجودگی پر قائم رہا تو قاہرہ میں ہونے والا اجلاس ہونا مشکل ہے۔

یاد رہے کہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے حال ہی میں مشرق وسطیٰ کا دورہ کیا جس میں انھوں نے اسرائیلی صدر کو کہا تھا کہ غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کا یہ شاید آخری موقع ہو۔

انٹونی بلنکن اپنے اس دورے میں اسرائیلی وزیراعظم سے بھی ملے لیکن ان ملاقاتوں کے مثبت اثرات اب تک سامنے نہیں آسکے۔ جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ غزہ جنگ بندی معاہدہ کے طے پانے کے امکانات کم ہیں۔