مچھروں کے باعث پیدا ہونے والے مرض ڈینگی کا اگر ابتدائی مراحل میں علاج نہ کیا جائے تو وہ مریض کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے، پاکستان کے مختلف شہروں میں بھی اس وقت ڈینگی کے کیسز میں اضافہ ہورہا ہے۔
ایک خاص قسم کے مچھر کے کاٹنے سے پیدا ہونے والی یہ بیماری خون کے سفید خلیات پر حملہ کرتی ہے اور انہیں آہستہ آہستہ ناکارہ کرنے لگتی ہے۔
ایک تخمینے کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 40 کروڑ افراد کو ڈینگی انفیکشنز کا سامنا ہوتا ہے جن میں سے 9 کروڑ 60 لاکھ افراد بیمار ہوتے ہیں۔
ڈینگی کی علامات
ڈینگی کی علامات عموماً بیمار ہونے کے بعد 4 سے 6 دن میں ظاہر ہوتی ہیں اور اکثر 10 دن تک برقرار رہتی ہیں۔
سر درد : ڈینگی بخار کی سب سے پہلی علامت شدید قسم کا سر درد ہے جو مریض کو بے حال کردیتا ہے۔
تیز بخار : ڈینگی کی ایک علامت تیز بخار ہونا ہے، عموماً 104، 105 یا اس سے بھی زیادہ تیز بخار کی وجہ سے جسم کے درجہ حرارت میں نہایت تیزی کے ساتھ غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔
جوڑوں میں درد : ڈینگی کا شکار ہونے والے مریض کو پٹھوں اور جوڑوں میں نہایت شدید قسم کا درد کا سامنا ہوتا ہے۔ یہ درد خاص طور پر کمر اور ٹانگوں میں ہوتا ہے۔
خارش : ڈینگی بخار کے ابتدائی مرحلے میں جلد پر خراشیں بھی پڑ جاتی ہیں اور جلد کھردری ہو کر اترنے لگتی ہے۔
متلی اور قے : اس وائرس کے باعث تیز بخار متلی اور الٹی کا سبب بھی بنتا ہے۔
غنودگی : ڈینگی بخار کے دوران مریض عموماً غنودگی میں رہتا ہے۔
خون بہنا : جب ڈینگی بخار اپنی شدت کو پہنچ جاتا ہے تو مریض کے ناک اور مسوڑھوں سے خون بہنا شروع ہوجاتا ہے۔
خون کے خلیات میں کمی : ڈینگی وائرس خون کے خلیات پر حملہ کرتا ہے جس سے ایک تو نیا خون بننا بند یا کم ہوجاتا ہے، علاوہ ازیں بخار کے دوران اگر کوئی چوٹ لگ جائے اور خون بہنا شروع ہوجائے تو خون کو روکنا مشکل ہوجاتا ہے جو مریض کےلیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
فشار خون اور دل : ڈینگی وائرس خون کے بہاؤ اور دل کی دھڑکن کو بھی متاثر کرتا ہے، جس کی وجہ سے بلڈ پریشر اور دھڑکن کی رفتار میں کمی آسکتی ہے۔
احتیاطی تدابیر
ڈینگی سے بچاؤ کےلیے تاحال کوئی ویکسین بنائی نہیں جاسکی ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ لوگ اپنے تحفظ کیلئے موسکیٹو ریپیلنٹس کا استعمال کریں اور میدان یا چار دیواری کے اندر، آستینوں والی قمیض اور پیروں میں جرابیں پہنے۔
گھر میں اے سی ہو تو اسے چلائیں، کھڑکیاں اور دروازوں میں مچھروں کی آمد روکنا یقینی بنائیں، اے سی نہیں تو مچھروں سے بچاؤ کے نیٹ استعمال کریں۔
اسی طرح مچھروں کی آبادی کم کرنے کے لیے ان کی افزائش کی روک تھام کی تدابیر پر عمل کریں جیسے پرانے ٹائروں، گلدان اور دیگر میں پانی اکٹھا نہ ہونے دیں۔