All posts by Khabrain News

متحدہ اپوزیشن کا پارلیمنٹ میں منظور کردہ قوانین کو چیلنج کرنے کا اعلان

اسلام آباد: متحدہ اپوزیشن نے پارلیمنٹ میں منظور کردہ قوانین کو چیلنج کرنے کا اعلان کردیا۔

پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد کے باہر بلاول بھٹو زرداری اور مولانا اسعد محمود کے ہمراہ میڈیا سے بات کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ آج پارلیمنٹ کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے، حکومت نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں تمام روایت کو پیروں تلے روند دیا، ہم نے کہا کہ قواعد پر عمل کیا جائے، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے ہماری ایک بات بھی نہیں مانی، میں ، بلاول بھٹو اور اسعد محمود نے اسپیکر کو بہت سمجھانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے بات نہیں مانی، اجلاس میں ہماری تعداد 200 سے اوپر تھی، حکومتی لوگوں کے ووٹ زیادہ گنے گئے۔ اسپیکر سے بار بار درست ووٹنگ کرانے کا کہا، ای وی ایم کو ایول ورچوئل مشین کہتا ہوں، ای وی ایم ہم پر مسلط کرنا چاہتے ہیں ، ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے، الیکشن ترمیمی بل سمیت دیگر بلوں کو عدالت میں چیلنج کریں گے۔

اس موقع پر بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پارلیمنٹ ہاؤس کے مشترکہ اجلاس کے اپنے قواعد ہوتے ہیں، مشترکہ اجلاس میں حکومت کی جیت نہیں ہوئی ، حکومت کو شکست ہوئی ہے، جوائنٹ سیشن میں قانون سازی کے لئے 222 حکومتی اراکین کا ہونا ضروری ہے، حکومت کے نمبرز پورے نہیں تھے۔

جے یو آئی کے مولانا اسعد محمود نے کہا کہ دھاندلی کے ذریعے بل پاس کیے گئے، تمام قانون سازی جبراً کی گئی، حکومت کا کوئی اتحادی ان کے حق میں کھڑا نہیں ہوا،ایسے ماحول میں کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ عام انتخابات صاف اور شفاف ہوں گے۔

دھاندلی کے نتیجے میں آنے والی حکومت انتخابی اصلاحات کررہی ہے، فضل الرحمٰن

پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ دھاندلی کے نتیجے میں آنے والی حکومت انتخابی اصلاحات اور قانون سازی کررہی ہے لیکن ہم کسی بھی انتخابی اصلاحات یا مشین کے حوالے سے قانون سازی کو جوتے کی نوک پر رکھیں گے۔

کوئٹہ میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ میں 10سال سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ عمران خان پاکستان کی سیاست کا غیرضروری عنصر ہے، یہ ناجائز حکمران ہے اور آج ان کی تین سال کارکردگی نے ہمارے اس دعوے پر مہر تصدیق ثبت کردی کہ وہ نالائق اور نااہل بھی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ریاستوں کی بقا کے لیے دو بنیادی عناصر دفاعی اور معاشی قوت ہوتے ہیں، دفاع ایک ادارہ ہے اور دفاعی قوت ہماری فوج ہے اور افواج پاکستان اسی قوم سے بنتی ہے لیکن ماضی میں ان کے کچھ غلط فیصلوں نے خود ہماری دفاعی قوت پر سوالات کھڑے کردیے جس کا ہمیں دکھ ہے کہ ہماری دفاعی قوت پر کیوں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، معلوم ہوتا ہے کہیں سے کوئی کمزوری ہے، کسی غلطی کا نتیجہ ہے اور آج ان کو بھی اس غلطی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری یہ تحریک واضح موقف رکھتی ہے کہ ہمارے ان اداروں کو اپنے دائرے کی طرف واپس جانا چاہیے تاکہ وہ غیرمتنازع رہیں اور اس ملک کی بقا کا سبب بن سکیں۔

پی ڈی ایم کے سربراہ نے کہا کہ اگر ملکی معیشت تباہ ہو جاتی ہے، ہر طرف غربت اور بے روزگاری کی ہوائیں چلنے لگتی ہیں، اگر اسلام آباد کے پارلیمنٹ لاجز کے سامنے کوئی خودسوزی کررہا ہے، کوئی اپنے بچوں کو وہاں لا کر برائے فروخت کا بورڈ لگا رہا ہے تو کیا اس ملک میں ہمیں یہ دن بھی دیکھنے تھے، جب غربت اور بے روزگاری کا عفیر اس طرح بپھر جائے تو ریاستیں اپنا وجود کھو دیتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان کے بقا اور تحفظ کی جنگ لڑ رہے ہیں، بندوق اٹھانا کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن بندوق اٹھانے سے خاندان اور شہر اجڑتے ہیں اور پشتون بلوچوں سے زیادہ کون جانتا ہے کہ بندوق کا نتیجہ کیا ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب عالمی استعمار کی پالیسیوں نے مذہبی دنیا میں اشتعال پیدا کیا، لوگ بندوق کی طرف جانے لگے لیکن ہم نے فیصلہ کیا کہ نہیں ہم پاکستان کو ایک پرامن، آئینی، جمہوری اور اسلامی مملکت دیکھنا چاہتے ہیں اور ہم نے آئین کا راستہ چنا، ہم بھی اسلحے کی طرف جا سکتے تھے لیکن ہم جذبات کو نہیں بلکہ ملک کو دیکھ رہے تھے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہماری جمہوریت کی عزت، وقار اور اتھارٹی کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے دفاع پر بھی سوالات اٹھائے گئے لیکن اب ہماری عدلیہ پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور تین ججوں نے عام آدمی کے ذہن میں عدلیہ کے کردار کے بارے میں سوالات پیدا کردیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے ان مقدس اداروں میں کالی بھیڑیں آتی ہیں تو ہمیں ان صفوں سے ان کالی بھیڑوں کو نکالنا ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کو کہا گیا کہ پاکستان میں جب ہماری حکومت آئے گی تو باہر سے لوگ نوکریوں کے لیے اس ملک میں آئیں گے، آج باہر سے ہمارے پاس ایک ہی ملازم آیا ہے اور وہ اسٹیٹ بینک کا گورنر ہے اور یہ جس ملک میں بھی گیا ہے وہاں کے مرکزی بینک کا دیوالیہ کر کے آیا ہے۔

جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ نے کہا کہ آج اسمبلی میں یہ بل بھی لایا جا رہا ہے کہ اسٹیٹ بینک کے قانون میں ترمیم کی جائے اور پاکستان کے اسٹیٹ بینک کو براہ راست آئی ایم ایف سے وابستہ کردیا جائے، پھر یہ ہمارا بینک نہیں آئی ایم ایف کی پاکستان میں موجود ایک شاخ بن جائے گی اور ہماری معیشت کی سب سے بڑی منتظم ہاتھ سے نکل جائے گی، آپ پارلیمنٹ میں اس طرح کے قوانین لانے والے کون ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جو حکومت خود دھاندلی کے نتیجے میں آئی وہ انتخابی اصلاحات دے رہی ہے اور اس کے لیے قانون سازی کررہی ہے، اگر انتخابی اصلاحات یا کسی بھی مشین کے حوالے سے کوئی بھی قانون سازی کی گئی تو ہم اسے صرف مسترد نہیں کریں گے بلکہ جوتے کی نوک پر رکھیں گے، یہ اگلے الیکشن کے لیے پھر دھاندلی کا پروگرام بنا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اب بھی کہتے ہیں کہ تمہاری خیر اسی میں ہے کہ اقتدار چھوڑ کر نکل جاؤ، کب تک ہم لاشیں اٹھاتے رہیں گے، لاپتا لوگوں کے لیے روتے رہیں گے، 50لاکھ گھر دینے کی بات کی لیکن الٹا 50لاکھ گھر گرا دیے لہٰذا ہمارا فیصلہ ہے کہ ہم مہنگائی، بے روزگاری، غربت، افلاس اور بدامنی کے اس ماحول میں عوام کے شانہ بشانہ ہیں، ہم نے آگے بڑھنا ہے اور ان ناجائز حکمرانوں کو ایوان اقتدار سے باہر کرنا ہے۔

’حکومت کے پاس اکثریت نہیں تھی ، بل دھوکہ دہی سے منظور کروائے‘اپوزیشن رہنماؤں کی اجلاس کے بعد گفتگو

 پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل منظور کر لیا گیا۔ سمندر پار پاکستانیوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹنگ کا حق اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کا بل بھی منظور کر لیا گیا۔

اپوزیشن رہنماؤں نے پارلیمان کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کی، اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف نے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے رولز کو نظر انداز کیا، اکثریت چاہے تھی 222 انکے پاس 212 بھی نہیں تھے، اسپیکر سے درخواست کی کی گنتی دوبارہ کروائی جائے، رولز کے مطابق 222 تعداد ہونا ضروری تھا، اسپیکر نے ہماری ایک بات نہیں مانی. ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد تمام بلز بلڈوز کرتے چلے گئے ، ہم نے احتجاج کیا کہ اسپیکر صاحب زیادتی کررہے ہیں تاہم اسپیکر نے ہماری ایک بات نہیں سنی. میاں شہباز شریف کا کہنا تھا کہ میرا پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرنے کا حق تھا لیکن میرا مائیک نہیں کھولا گیا، ہماری ایوان میں بھرپور تعداد موجود تھی ، اسپیکر پی ٹی آئی کا حواری بنا ہوا تھا ، آج پارلیمان کی تاریخ‌ کا سیاہ دن ہے.

انہوں نے یہ بھی کہنا کہ 167 ممالک میں صرف 8 ممالک نے ای وی ایم کو اختیار کیا ہے، ہم پر پہلے ہی دھاندلی زدہ حکومت مسلط ہے ، اب اس ای وی ایم کو آپ ہم پر مسلط کرنا چاہتے ہیں، مجبوری میں ہم بائیکاٹ کرکے عوام کے سامنے آئے ہیں، جتنا عمران نیازی ای وی ایم پر زور لگا رہے اتنا مہنگا ئی کم کرنے پر لگاتے تو یہ حالات نہ ہوتے.

اس موقع پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ آج مشترکہ اجلاس میں حکومت شکست ہوئی ہے ،اسپیکر اور حکومتی بینچز کی رولز کی جانب توجہ دلانے کی بہت کوشش کی ، دونوں ہاوسز کا آدھا ووٹ انکے پاس ہونا چاہے تھے، مشترکہ اجلاس میں بل کی منظوری کے لئے حکومت کے پاس 222 ووٹ ہونا لازم ہے، اگر حکومت 222 ووٹ پورے نہیں کرتے تو قانون نہیں بن سکتا.

بلاول بھٹو نے کہا آج ای وی ایم اور کلبھوشن اور آئی ایم ایف کے لئے قانون بنائے گئے ہیں، ہم اس قانون سازی کو سپریم کورٹ سمیت ہر فورم پر چیلنج کریں گے، یہ قانون پاکستان کا قانون نہیں ہے ، ہم الیکشن کمیشن کو بھی سمجھائیں گے، ہر فورم پر اس معاملہ کو چیلنج کریں گے. انہوں نے کہا عوام تکلیف میں ہے اور یہاں عوامی مسائل کم کرنے کی بجائے اضافہ کیا جا رہا ہے، متحد ہ اپوزیشن نے حکومت کو آج شکست دی.

اس موقع پر جے یوآئی ف کے رہنماء مولانا اسعد محمود نے کہا ابتدا میں کہا یکطرفہ قانون سازی کو قوم تسلیم نہیں کرے گی، ہم نے تجویز دی کہ کم از کم قواعد و ضوابط کو ہی اختیار کرلیا جائے ، کون مانے گا یہ 22 کروڑ عوام کو صاف و شفاف انتخابات دے سکتے ہیں، ہمارے ممبران ترامیم پر بات نہیں کرسکتے تھے ، صرف 3 پارلیمانی لیڈرز کو بات کرنے کی اجازت دی، انہوں نے کہا ہم اس جبری قانون سازی کو قطعا قبول نہیں کرتے ، ہر فورم پر اس معاملہ کو لیجائیں گے.

پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس : کلبھوشن یادیو اورعالمی عدالت انصاف کے متعلق بل بھی منظور

اسلام آباد: پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھارتی جاسوس کلبھوشن اورعالمی عدالت انصاف کے متعلق بل  بھی منظور کرلیا گیا ہے ۔ کلبھوشن کے متعلق بل وزیرقانون فروغ نسیم  نے پیش کیا ۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں  الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابات کرانے کا بل منظور کر لیا گیا، اپوزیشن کی جانب سے ہنگامہ آرائی اور ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دی گئی، اپوزیشن ارکان ایوان سے واک آوٹ کر گئے۔ اس سے پہلے انتخابی اصلاحات کے متعلق ترمیمی بل 2021 پیش کرنے کی تحریک منظورکی گئی، تحریک کے حق میں 221 جبکہ مخالفت میں 203 ووٹ آئے ہیں۔

وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے تحریک پیش کی جس پر گنتی کرائی گئی۔  اپوزیشن کی طرف سے گنتی کے عمل کو چیلنج کیا گیا ہے، اس سے قبل پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نےموقف اختیار کیا تھا کہ تحریک کی منظوری کے لیے 222 ارکان کا ہونا ضروری ہے۔ اس سے پہلے اجلاس جب  پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس شروع ہوا تو اپوزیشن نے شور شرابا شروع کر دیا تھا۔ اجلاس  کے ایجنڈے میں  انتخابی اصلاحات بل، نیب آرڈیننس اور نئی مردم شماری سمیت 29 بلز کی منظوری شامل ہے ۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بلز منظور کرانے کیلئے تحریک انصاف کا اتحادیوں پر کافی زیادہ انحصار ہے۔دونوں ایوانوں میں ارکان  کی مجموعی تعداد چار سو چالیس ، حکومت اور اتحادیوں کے پاس دو سوانتیس ارکان ہیں۔ اپوزیشن کے ارکان کی تعداد دوسو گیارہ ہے۔ حکومت اور اپوزیشن ایوان میں نمبرز پورے کرنے کیلئے سرگرم ہیں۔

پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس جاری ہے ، اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی شہبازشریف  نے خطاب کے دوران کہا کہ آج پارلیمان کی تاریخ کا بہت اہم دن ہے،  حکومت اور ان کے اتحادی آج بل بلڈوز کرانا چاہتے ہیں ۔ حکومت کا ایوان سے بلز بلڈوز کرانے کا سب سے بڑا بوجھ جناب اسپیکر آپ کے  کاندھوں پر ہے۔

انہوں نے کہا کہ رات کے اندھیرے  میں اعلان ہوا کہ اگلے دن صبح پارلیمان کا اجلاس ہو گا ،  جب عمران خان نیازی کے کھانے میں درجنوں ارکان غیر حاضر تھے اور اتحادی انکاری تھے تو اجلاس کو مؤخر کر دیا گیا، حکومتی وزرا نے کہا کہ اپوزیشن سے مشورہ کرنا ہے، پھر جناب اسپیکر آپ کا خط موصول ہوا، پوری اپوزیشن نے اس خط کے مندرجات پر غور کیا اور تفصیلی جواب پیش کیا، خط کے جواب میں شاندار تجاویز پیش کی گئی، لیکن آپ نے رابطہ منقطع کر لیا اور اپوزیشن کو کوئی جواب نہیں ملا،ہمیں آئندہ پروگرام بارے بھی نہیں بتایا گیا۔

شہباز شریف نے کہاکہ اپوزیشن سے مشاورت ایک ڈکھوسلہ تھا تاکہ اتحادیوں کو منایا جائے،  الیکشن کے بعد  اک شور دھاندلی ہونے پر ہوتا ہے،پہلا موقع ہے کہ الیکشن سے پہلے 22 کروڑ عوام  دھاندلی کا شور کر رہی ہے۔

شہباز شریف نے ای وی ایم کو شیطانی مشین قراردیدیا

شہباز شریف نے کہاکہ انہیں عوام سے ووٹ ملنا اب مشکل ہے ، سلیکٹیڈ حکومت اقتدار کو طول دینے کیلئے ای وی ایم کا سہارا لے رہی ہے ، انہوں نے ای وی ایم  کو شیطانی مشین قرارد ے دیا ۔اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ 2018ء میں تو آر ٹی ایس خراب ہو گیا تھا جس سے یہ دھاندلی زدہ حکومت بنی، ای وی ایم کا مطلب ایول وشیس مشین ہے۔

شہباز شریف کا اسپیکر سے اجلاس مؤخر کرنے، مشاورت مکمل کرنے کا مطالبہ

اپوزیشن لیڈر نے کہاکہ حکومت چاہتی ہے کچھ ایسا ہو جائے کہ عوام کے پاس نہ جانا پڑے، ای وی ایم کے ذریعے انہیں اقتدار مل جائے ، یہ چاہتے ہیں انہیں این آر او مل جائے۔ وہ کیسی جمہوریت ہو گی جہاں قانون کی دھجیاں اڑائی جائیں ، اسپیکر صاحب آپ اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اس اجلاس کو موخر کریں اور اپوزیشن سے مشاورت کریں۔

اپوزیشن ضمیر کا سودا نہ کرے اور بل کے حق میں ووٹ دے، وزیر خارجہ

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ  شاہ محمود قریشی نے کہا کہ  قائد حزب اختلاف نے خیالات کا اظہار کیا ہم نے بڑے احترام سے ان کی گفتگو سنی، قائد حزب اختلاف کے استحقاق کو تسلیم کرتے ہیں۔  ان کی بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ آج تاریخی دن ہے، آج یہ ایوان ایسی قانون سازی کرنے جا رہا ہے جس سے ماضی کی خرابیوں کو دور کر کہ شفاف الیکٹورل ریفارمز کا ارادہ رکھتے ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے کہاکہ ہم ہرگز کالا قانون مسلط نہیں کرنا چاہتے بلکہ ہم ماضی کی کالک کو دھونا چاہتے ہیں ، 1970 کے بعد جتنے انتخابات ہوئے تاریخ گواہ ہے کہ ان پر سوالیہ نشان اٹھایا گیا ۔ ہمارا ارادہ قانون سازی کو بلڈوز کرنا ہر گز نہیں ہے ، ہم نے مشاورت کیلئے اپوزیشن کو دعوت دی اگر عجلت میں اجلاس بلایا ہوتا تو اپوزیشن نے اپنے ارکان سے رابطے کیسے کر لیے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’ہم نے مشترکہ اجلاس مسلط نہیں کیا، 11 نومبر کو ہی ہم نے تاریخ دے دی تھی، اسے موخر کیا گیا‘۔ انہوں نے کہا کہ ’ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس عددی اکثریت نہیں تھی اس لیے موخر کیا گیا، اگر عددی اکثریت نہ ہوتی تو ہم آج یہ بل کیوں پیش کرتے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’قانون سازی کا ایک طریقہ کار ہے، ہم نے ہر طریقے پر عمل کیا ہے، اراکین کے سوالات تھے، ہم نے انہیں دلائل دے کر قائل کیا اور اس ہی وجہ سے اراکین حکومت کی صفوں میں بیٹھے ہیں‘۔

ان کاکہنا تھا کہ شہباز شریف کی تقریر کا لب لباب یہ ہے کہ حکومتی صفوں میں اتحاد ہے۔ ای وی ویم ماضی کے  شیطانی منصوبوں کو ختم کرنے کیلئے لائی جارہی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں اپوزیشن سے گزارش کروں گا کہ اپنے ضمیر کا سودا نہ کیجئے اور اس بل کے حق میں ووٹ دیجئے۔  وزیر خارجہ نے اسپیکر سے اجلاس موخر نہ کرنے کا مطالبہ کردیا ۔

بلاول  بھٹو کا انتخابی اصلاحات کے متنازع قوانین کے خلاف عدالت جانے کا اعلان

چئیرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ ہم پارلیمنٹ کی عزت اور احترام کرتے ہیں ۔قوم اور اس ایوان سے جھوٹ نہ بولا جائے ۔آپ زبردستی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کابل پاس کرنے جارہپے ہیں ،اگر ایسا ہوا تو ہم اگلا  الیکشن ہی تسلیم نہیں کریں گے ۔ آپ آج سے ہی الیکشن کو متنازع بنا رہے ہیں ۔

بلاول بھٹو نے مزید کہاکہ ہم  انتخابی اصلاحات کو نہیں مانتے، ہم الیکشن کمیشن کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جب تک الیکشن کمیشن کے تحفظات ہیں تب تک ہمارے تحفظات ہیں۔ ان کاکہنا تھا کہ الیکشن کمیشن بھی اس الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو مسترد کر چکااور الیکشن کمیشن نے اس مشین پر  37 سنگین اعتراضات اٹھائے ہیں۔ بلاول  بھٹو  نے انتخابی اصلاحات کے متنازع قوانین کے خلاف عدالت جانے کا اعلان  کردیا ۔

بلاول بھٹو زرداری  نے کہا کہ آپ پاکستان کی پارلیمان کی توہین  کر رہے ہیں ، عوام پہلے ہی مہنگائی اور بے روزگاری میں تکلیف میں ہیں ، پٹرول کی قیمت کر کم کریں ہم آپ کا ساتھ دیں گے ۔ حکومت نے آئی ایم ایف کی غلامی کرتے ہوئے عوام سے روٹی بھی چھین لی، عوام کو ریلیف دیں تو ہم ہم آپ کا ساتھ دینے کو تیار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’انتخابی اصلاحات کے متنازع قوانین کے خلاف عدالت میں جائیں گ، ایسا نہیں ہوسکتا ووٹ پیرس میں ڈلے اور نتیجہ ملتان کا ہو‘۔

پیپلز پارٹی رہنما کاکہنا تھا کہ سٹیٹ بینک پارلیمنٹ اور عدالتوں کو جوابدہ ہونا چاہیے،  اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے ماتحت دینا چاہتے ہو ، اسٹیٹ بینک پارلیمان کو جوابدہ نہیں ہوگا، نہ سپریم کورٹ اس سے پوچھ سکے گا،  ایسا نہیں ہونے دیں گے۔

بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو سے متعلق بل پر بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہاکہ  پی ٹی آئی بھارتی جاسوس کلبھوشن پر اپوزیشن میں تو تنقید کرتے تھے لیکن آج کلبھوشن کو این آر او دینا چاہتی ہے ۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ مردم شماری کے معاملے پر ایوان میں بحث ہونی چاہیے، عوام مشکل وقت میں اپنے نمائندوں کی جانب دیکھ رہی ہے،حکومت زبردستی ای وی ایم منظور کرا کر دھاندلی کی منصوبہ بندی کر رہی ہے،متحدہ اپوزیشن ایوان کے اندر اور باہر اس کے خلاف احتجاج کرے گی۔

بلاول بھٹو کا ہر بل پر گنتی  کرانے کا مطالبہ

بلاول بھتو زرداری نے ہر بل پر گنتی کا مطابہکردیا ، انہوں نے  کہا کہ حکومت کو قانون سازی کیلئے 222 ووٹ لینا پڑیں گے ، جس پر بابر اعوان کاکہنا تھا کہ  تمام بل سادہ اکثریت سے منظورہوسکتے ہیں ۔ایوان میں  ایک بھی ووٹ زیادہ  ہو تو بل منظور ہوجائے گا ۔

پارلیمنٹ مشترکہ اجلاس میں 20 سے زائد بلز زیر غور آئیں گے

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے باضابطہ طور پر پارلیمان کا مشترکہ جلاس بدھ کی دوپہر بلایا جس میں انتخابی اصلاحات کے بل سمیت20 سے زائد اہم بلوں پر غور کیا جائے گا جو سینیٹ سے یا تو ختم ہو چکے ہیں یا مسترد ہوچکے ہیں۔

خیال رہے کہ حکومت نے اس سے قبل اپنے اتحادیوں، بالخصوص مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کی جانب سے الیکٹرونک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کے استعمال سے متعلق مجوزہ انتخابی اصلاحات کے بل پر تحفظات کا اظہار کرنے کے بعد مشترکہ اجلاس ملتوی کردیا تھا۔

پارلیمنٹ میں پارٹی پوزیشن ظاہر کرتی ہے کہ اگر دونوں ایوانوں کو ایک ساتھ ملایا جائے تو حکومت میں صرف دو ووٹوں کی اکثریت ہے۔ پارٹی پوزیشن کے مطابق 440 رکنی مشترکہ ایوان میں اپوزیشن ارکان کی تعداد 221 کے مقابلے میں 219 بنتی ہے۔

اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ حکمران اتحاد کو قومی اسمبلی میں 17 ووٹوں کی اکثریت حاصل ہے جبکہ سینیٹ میں وہ اپوزیشن سے 15 ووٹوں سے پیچھے ہے۔

اسعد محمود

جے یو آئی (ف) کے اسعد محمود نے کہا کہ ملک میں افراتفری اور ہنگاموں کی بنیاد ڈالی جارہی ہے ، اگر یکطرفہ قانون سازی ہوتی ہے اور اس بنیاد پر افراتفری ہوگی تو اس کی ذمہ داری آپ پر اور حکومت و سپورٹرز پر ہوگی ، انتخابی نتائج پر ہمیشہ دنیا میں سوال اٹھتے ہیں، ہم متحمل نہیں ہوسکتے کہ جیسے پہلے ملک دو لخت ہوا ، پھر افراتفری ہو ۔

وزیراعظم کی ایوان میں  آمد

اسی دوران وزیراعظم عمران خان ایوان میں آئے۔ انہوں نے ہاتھ میں تسبیح پکڑی ہوئی تھی۔ حکومتی اراکین نے ڈیسک بجاکر ان کا استقبال کیا۔

انتخابی بل میں  ترمیم مسترد

محسن داوڑ نے کہا کہ افسوس کی بات ہے آج علی وزیر ایوان میں نہیں ہیں اور وزیرستان کی نمائندگی نہیں ہو رہی۔ محسن داوڑ نے انتخابی ترمیمی بل دوسری ترمیم میں اپنی ترمیم پیش کی جس کی بابر اعوان نے مخالفت کردی۔

وزیر اعظم کچھ دیر میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے

اسلام آباد : وزیر اعظم کچھ دیر میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے ۔

تفصیلات کے مطابق آج پارلیمنٹ کے اہم ترین مشترکہ اجلاس میں سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا بل بھی منظور کرلیا گیا ہے ۔ اس کے ساتھ آج کے سیشن میں کلبھوشن یادیو اور عالمی عدالت کے حؤالے سے بھی بل منظور کیا گیا ہے ۔

واضح رہے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں  گرما گرمی  و شور شرابہ ،  اپوزیشن سپیکر ڈائز کے سامنے جمع ہونا شروع ہوگئی،  ایوان میں گو نیازی گو نیازی کے نعرے، اپوزیشن کے نعرے  سپیکر کو رہا کرو۔ اپوزیشن ارکان کے گلی گلی میں شور ہے عمران نیازی چور ہے کے نعرے ،  ایوان میں ارکان بپھر گئے۔

عامر لیاقت کی اپوزیشن ارکان سے جھڑپ ، وفاقی وزیر مراد سعید ،  شہریار آفریدی  اور مرتضی جاوید عباسی کے درمیان گرما گرمی ہوئی  ، پارلیمنٹ کا  سیکیورٹی اسٹاف بیچ بچاو کراتا رہا۔

سپیکر نے ایوان میں تلخی دیکھتے ہوئے ایوان میں ڈویژن کردی، حکومت کو سپیکر ڈائس کے دائیں اور اپوزیشن کو بائیں جانب جانے کا حکم دیدیا ۔ سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ  اگر حکومت و اپوزیشن نے حکم نہ مانا تو پھر آواز کے ذریعے رائے لوں گا۔

حکومت کا الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال اور اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا بل منظور

اسلام آباد : پارلیمنٹ میں حکومت کا الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کرنے اور اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا بل منظور کرلیا گیا۔

تفصیلات کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی کی زیر صدارت پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہوا ، اجلاس کے دوران حکومت اور اپوزیشن ارکان میں گرما گرمی رہی اور پارلیمنٹ ہاؤس میں اپوزیشن کی جانب سے نعرے بازی کی گئی، ممبران پارلیمنٹ میں گرما گرمی دیکھ کر سیکیورٹی عملہ پہنچ گیا۔

ایوان میں انتخابات اصلاحات ترمیمی بل کی ایوان سے شق وار منظوری کا سلسلہ جاری رہا۔

بابر اعوان نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین استعمال کرنے کی ترمیم پیش کی، جس کے بعد انتخابی نظام میں تبدیلی کے حوالے سے حکومت کا الیکشن ترمیمی بل 2021 منظور کرلیا گیا ۔

پارلیمنٹ میں حکومت کی الیکٹرانک ووٹنگ مشین استعمال کرنے کا بل اور اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا بل منظور کیا گیا۔

اس کے علاوہ عالمی عدالت انصاف نظرثانی بل 2021 ، مسلم عائلی قوانین ترمیمی بل2021 اور نیشنل کالج آف آرٹس انسٹیٹیوٹ بل بھی 2021مشترکہ اجلاس سے منظور کرایا گیا۔

وزیراعظم سمیت حکومتی ارکان پارلیمنٹ نے ڈیسک بجاکرخوشی کا اظہار کیا جبکہ اپوزیشن نے کاپیاں پھاڑدیں اور ایوان کی کارروائی کا بائیکاٹ کرکے باہر چلے گئے۔

پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل منظور، اپوزیشن کا واک آؤٹ

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومت کی جانب سے پیش کیا گیا الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔

اس بل کے تحت 2017 کے الیکشن ایکٹ میں دو ترامیم تجویز کی گئی ہیں جو کہ انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹنگ کا حق دینے سے متعلق ہیں۔

بل منظور ہونے پر وزیر اعظم عمران خان سمیت حکومتی ارکان پارلیمنٹ نے ڈیسک بجا کر خوشی کا اظہار کیا جبکہ اپوزیشن نے اس کی کاپیاں پھاڑتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔

قبل ازیں مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان کی جانب سے انتخابی اصلاحات بل پیش کرنے کی تحریک کثرت رائے سے منظور کی گئی۔

انتخابی اصلاحات کی تحریک کے حق میں 221 جبکہ مخالفت میں 203 ووٹ آئے۔

ووٹوں کی گنتی کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر نے اعتراض اٹھایا جس پر اسپیکر نے دوبارہ گنتی کرنے کی ہدایت کی۔

تاہم گنتی کے دوران ایوان میں شدید بےنظمی پیدا ہوگئی اور اپوزیشن اراکین اسپیکر ڈائس کے سامنے آگئے اور حکومت و وزیر اعظم کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔

ایوان میں گرما گرمی کے باعث سارجنٹ ایٹ آرمز نے وزیر اعظم کو اپنے حصار میں لے لیا جبکہ اپوزیشن اراکین نے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں۔

ای وی ایم مشین شیطانی حربوں کو دفن کرنے کیلئے لائی جارہی ہے، شاہ محمود کا شہباز شریف کو جواب

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے شہباز شریف کے بیان پر کہا کہ ای وی ایم مشین شیطانی حربوں کو دفن کرنے کیلئے لائی جارہی ہے ، ای وی ایم شیطانی مشین نہیں بلکہ شیطانی حربے دفن کرے گی۔
تفصیلات کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب نے بڑے تحمل اور احترام سے اپوزیشن لیڈرکی گفتگو سنی، قائدحزب اختلاف کی گفتگو کو سنجیدگی سے سنا گیا ہے، یہ ایوان ایسی قانون سازی کررہی ہے جس سے ماضی کی غلطیاں دورہوں گی۔
شاہ محمودقریشی کا کہنا تھا کہ قائدحزب اختلاف نے کہا کہ ہم کوئی کالا قانون مسلط کرناچاہتے ہیں، ہم کالا قانون مسلط نہیں بلکہ ماضی کی کالک دھوناچاہتے ہیں۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ میں اتفاق کرتاہوں کہ آج تاریخی دن ہے، حکومت ماضی کی خرابیاں تبدیل کرکےشفاف الیکشن کاارادہ رکھتی ہے، 2013میں پی ٹی آئی نے اعتراضات رکھے،جوڈیشل کمیشن کا رخ کیا، سوال یہ ہے ہم تاریخ سےسبق کب سیکھیں گےاورسمت کب درست کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسا ہر گز ارادہ نہیں کہ ہم بلز کو بلڈوزکرناچاہتے ہیں، حکومت نے بارہا اپوزیشن کےممبران سے رابطہ ،درخواستیں کیں، اپوزیشن کو ہم نے مؤقف پیش کرنے کاموقع فراہم کیا۔
شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ حکومت ارادہ کرچکی تھی ہم نےبارہاآپ اورممبران سےرجوع کیا، آپ ای وی ایم مشین کو تذکرہ کر رہے ہیں ہم نےاس کیلئے موقع فراہم کیا، اگر عجلت میں اجلاس بلایاجاتا تو آپ ممبران کو کیسے بلاتے، 11نومبرکواجلاس کی تاریخ دےدی گئی تھی۔
وزیر خارجہ نے شہباز شریف کے بیان پر کہا کہ آپ کی تقریر اعتراف ہے کہ حکومتی صفوں میں یکجہتی ہے ، حکومت جمہوری انداز میں آگے بڑھنے کا ارادہ رکھتی ہے، ہمارے پاس عددی اکثریت نہ ہوتی تویہ بل کیسےپیش کرتے؟ آپ کی تقریرکالب لباب اعتراف ہےکہ حکومت کی صفوں میں یکجہتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ قانون سازی کے عمل میں کوئی کوتاہی نہیں برتی گئی، ہم نےہر طریقے کو فالوکیا جو قانون سازی پروسیجرہیں اس میں کوتائی نہیں برتی۔
شاہ محمود قریشی نے کہا ای وی ایم کو شیطانی مشین کا نام دینا آپ کا حق ہے، ای وی ایم مشین شیطانی حربوں کو دفن کرنے کیلئے لائی جا رہی ہے، ای وی ایم شیطانی مشین نہیں بلکہ شیطانی حربے دفن کرے گی۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ آپ نے 73 کے آئین کا ذکر کیا پارلیمنٹ کل اورآج بھی 73کے آئین پر متفق ہے، آج ہم تاریخ رقم کرنے جارہے ہیں اور تاریخی غلطی جھٹلانے جارہے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ قانون سازی کےذریعےشفاف نظام متعارف کرانےکاارادہ رکھتےہیں، شہبازشریف نےکہاکہ اسپیکرصاحب پارٹی ممبر شپ سےمستعفی ہوجائیں ، ہم پوچھتےہیں کیا آپ نےایازصادق سےیہ مطالبہ کیاتھا، ہم نےایساکوئی مطالبہ نہیں کیاتھاجوآج آپ کررہے ہیں۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں انتخابی اصلاحات کی ضرورت تھی، ہردورمیں انتخابی اصلاحات کاتذکرہ ہوتارہا ہے، 2013میں قانونی راستہ اختیارکیا،4حلقوں کاحوالہ دیا، جوڈیشل کمیشن تشکیل دیاگیا40کےتقریب سفارشات پیش کی گئیں۔
وزیر خارجہ نے ایوان میں کہا کہ آج جس قانون سازی کاذکرکرتےہیں اس میں پی ٹی آئی کاپوراحصہ شامل ہے، ریاست مدینہ کا تصور اور خواب ہر پاکستانی بچے کے دل میں بستاہے، پاکستان کی تحریک آزادی کےموومنٹ ریاست مدینہ کااصول تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیناچاہتے ہیں مگر اعتراض بھی کرتے ہیں، یہ کیسا ماجرا ہے کہ اوورسیز کا ڈالر قبول ہے مگر ان کا ووٹ دینا قبول نہیں،اوورسیزپاکستانی قوم کااثاثہ ہیں، ہم اوورسیزکوپاکستان کی پالیسی میکنگ میں حصہ دار بنانا چاہتے ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا انتخابات کوچوری سے بچانا ہے اس لئے ایوان کومؤخرنہ کیا جائے، گزارش ہے نظام کوبچانا ہے تو بل کے حق میں ووٹ دیں ضمیرکا سودا نہ کریں۔

ای وی ایم ایول وشیز مشین، کوئی غیر قانونی کام نہیں ہونے دینگے: شہباز شریف

شہباز شریف نے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ای وی ایم کیا ہے ؟ ایول وشیز مشین، پاکستانی تاریخ میں اس سے زیادہ فاشسٹ حکومت کبھی نہیں آئی، ہم یہاں پر کوئی غیر قانونی کام نہیں ہونے دیں گے۔
پاکستان مسلم لیگ نون کے صدر و قائد حزب اختلاف شہباز شیرف نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ آج پاکستان کی تاریخ کا اہم دن ہے، حکومت اور اس کے اتحادی بلز بلڈوز کرانا چاہتے ہیں، چند روز قبل رات کے اندھیرے میں اعلان ہوا کل پارلیمان کا اجلاس ہوگا، پھر اچانک پارلیمنٹ کا اجلاس مؤخر کر دیا گیا، باضمیر اراکین کو داد دیتا ہوں جو حکومتی دباؤ میں نہیں آئے، بلز کو بلڈوز کر کے عوام سے حکومت کو ووٹ ملنا محال ہے، ای وی ایم کے ذریعے سلیکٹڈ حکومت اپنی مدت کوطول دینا چاہتی ہے۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ یہ ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں، ان کو زیب نہیں دیتا، حکومت کی نیت میں فتور ہے، ایوان کوئی کالا قانون منظور نہیں ہونے دے گا، بل منظور ہوئے تو 22 کروڑ عوام کے ہاتھ ہوں گے اور ان کے گریبان، یہ کالے قوانین منظور کروانا چاہتے ہیں، حکومت کالے قوانین کو روڈ رولر سے پاس کرنا چاہتی ہے، بربادی کا نام تبدیلی ہو گیا، احتساب کا نام انتقام اور ای وی ایم کا نام ایول وشیز ہے۔
پاکستان مسلم لیگ نون کے صدر نے کہا کہ اسپیکر صاحب آپ اختیارات استعمال کرتے ہوئے اجلاس کو موخر کریں اور اپوزیشن سے مشاورت کریں، دنیا کے 166 ممالک میں صرف 8 ممالک ای وی ایم کو استعمال کرتے ہیں، جرمنی جیسے ملک نے بھی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو رد کر دیا، حکومت ای وی ایم کو لانے میں بضد ہے، حکومت جتنا زور ای وی ایم کو لانے میں لگا رہی ہے، کاش اس سے آدھی کوشش مہنگائی کم کرنے کیلئے کرتے۔

نواز شریف کے حق میں تیسری بڑی گواہی عدلیہ کی طرف سے سامنے آئی ہے، مریم نواز

مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان کے سابق چیف کا بیان حلفی نواز شریف کے حق میں تیسری بڑی گواہی ہے جو عدلیہ کی طرف سے سامنے آئی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ ’مجھے اور نواز شریف کو اللہ کی ذات پر یقین تھا لیکن مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ یہ دن جلدی آئے گا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’وہی جعلی حکومت و عدالتیں اور وہی طاقت کا غلط کا استعمال ہے لیکن یہ قدرت کا نظام ہے کہ نواز شریف کے حق میں تیسری بڑی گواہی عدلیہ کی طرف سے سامنے آئی ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’سابق وزیر اعظم کو جس نے سزا دی ارشد ملک صاحب مرحوم انہوں نے نواز شریف کے حق میں اپنی زندگی میں گواہی دی، اس کے علاوہ شوکت عزیز صدیقی صاحب نے بھی دوران ملازمت نواز شریف کے حق میں گواہی دی‘۔

مریم نواز نے کہا کہ ’وہ شخص جو آج پوری دنیا میں تنقید کا نشانہ بنا ہے اس کے پاس اپنے حق میں کہنے کے لیے کچھ نہیں اس نے کہا کہ نواز شریف کے ساتھ نہ بیٹھنا نہ اس کے لیے گواہی دینا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’اب گلگت بلتستان کے سابق چیف جج کی گواہی سامنے آگئی ہے کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے ان کے سامنے فون پر یہ ہدایت دی کہ نواز شریف اور مریم نواز کو الیکشن سے پہلے ضمانت نہیں دیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ شوکت عزیز صدیقی کو نواز شریف سے متعلق گواہی پر انصاف دینے کے بجائے نوکری سے فارغ کردیا گیا اور مقدمہ سپریم جوڈیشل کونسل میں لے گئے، جس ملک میں منصف کو استعمال نہ ملے تو ہمیں انصاف کی فراہمی تو بہت مشکل ہے۔

نائب صدر مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ اس کے بعد ارشد ملک کی شہادت موصول ہوئی تو ان پر کارروائی کی جاتی یا تحقیقات کی جاتی تو آپ نے اس معاملے کو ختم کردیا۔

انہوں نے کہا کہ ایک ملک کے وزیر اعظم کو جعلی سزا دینے کے لیے آپ نے جج کو نوکری سے برخاست کرتے ہوئے کہا کہ یہ انصاف کے چہرے پر بدنما داغ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کے سابق چیف جج نے جو انکشافات کیے ہیں اس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں توہین عدالت کا نوٹس دیا ہے، حالانکہ آپ کو انہیں سننا چاہیے تھا، سب سے پہلا نوٹس اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کو جانا چاہیے تھا۔

مریم نواز نے کہا کہ ثاقب نثار صاحب کا یہ کہنا کہ مجھے کیا ضرورت پڑی کہ میں عدالتوں کے چکر لگاؤں، یہ آپ کی جانب سے زیادتی کی گئی ہے، جب ہم پانچ سال سے عدالتوں کے چکر لگا سکتے ہیں تو آپ کیوں نہیں لگا سکتے۔

انہوں نے کہا کہ انصاف کا معیار دیکھیں کہ پرویز مشرف کو سزائے موت سنانے والی عدالت کو اس بنیاد پر اوورٹرن کردیا جاتا ہے کہ اس خصوصی عدالت کی منظوری کابینہ نے نہیں دی، لیکن نواز شریف کے فیصلے میں تین ججوں نے گواہی دی لیکن انہیں جعلی سزا دی گئی۔