Tag Archives: Journalists

بھارتی صحافی چٹے ان پڑھ نکلے ….سنسنی خیز باتیں منظر عام پر

نئی دہلی(ویب ڈیسک ) ایک تازہ سروے کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ بھارت میں کام کررہے ہندی زبان کے صحافیوں کی بیشتر تعداد کشمیر کے بارے میں مکمل طوران پڑھ ہے اور وہ کشمیر کے نئی دلی کے ساتھ تعلقات کی بنیاد سے بھی نابلد ہیں۔ اس جائزہ میں کشمیر کے تئیں ہندی صحافیوں کے رجحانات کو لیکرکچھ دیگر سنسنی خیز باتوںکا خلاصہ بھی کیا گیا ہے۔ نئی دلی کے میڈیااسٹیڈی گروپ (MSG) نے بھارت کے مختلف علاقوں میں ہندی میڈیا سے وابستہ صحافیوں کی کشمیر کے بارے میں جانکاری پر مبنی ایک سروے عمل میں لایا ہے جو 16ستمبر اور 22 اکتوبرکے درمیان انجام دیا گیا اور اس دوران ہندی زبان سے تعلق رکھنے والے صحافیوں سے کشمیر کے تعلق سے کئی سوالات پوچھے گئے۔میڈیا اسٹیڈی گروپ کے سروے کا اس کے مدیران نے تفصیلی جائزہ لیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ ہندی صحافی پیشہ وارانہ طور پر کشمیر کے ساتھ کس طرح کا تعلق رکھتے ہیں؟یہ سروے اب میڈیا گروپ سے وابستہ جان میڈیا نامی ہندی اخبار نے آن لائن شائع کیا ہے جس میں ہندی صحافیوں کے کشمیر کے تئیں اپروچ کے تعلق سے کئی سنسنی خیز باتیں سامنے آئی ہیں۔ سروے کے مطابق 46فیصد ہندی صحافیوں کو کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے بارے میں جانکاری اخبارات سے حاصل ہوئی ہے،11فیصد صحافیوں کو ان کے اساتذہ نے اس بارے میں بتایا ،مزید 11 فیصد مختلف فورموں میں تقاریر سن کر اس سے آشنا ہوئے جبکہ16فیصد صحافی ایسے ہیں جن کو لوگوں کے ساتھ بات چیت کے دوران اس بارے میں پتہ چلا۔جائزے کے دوران 80فیصد صحافیوں نے دفعہ370کا سیاسی پس منظر معلوم ہونے اور اس کے بارے میں پڑھنے کا دعوی کیا ، تاہم20فیصد صحافیوں نے اس بارے میں کوئی بھی جانکاری نہ ہونے کا اعتراف کیا۔67فیصد ہندی صحافیوں نے یہ بات بھی تسلیم کی کہ کشمیر کے حوالے سے ان کی جانکاری کا واحد ذریعہ اخبار ہے،17فیصد کیلئے یہ ذریعہ میگزین ہیںجبکہ صرف ایک فیصد صحافیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے جموں کشمیر کی سیاسی حساسیت کے بارے تحقیقی دستاویزات کا مطالع کیا ہے۔ جائزے کے دوران کشمیر کی سیاسی تاریخ کی جانکاری کے بارے میں58فیصد ہندی صحافی صرف اخبارات اور رسالوں پر منحصر ہیں،23فیصد صحافیوں نے کتابوں کا مطالع کرنے کا دعوی کیا ہے جبکہ صرف چھ فیصد صحافی اس معاملے پر تحقیقی دستاویزات کا مطالع کرچکے ہیں۔ سروے میں حصہ لینے والے30فیصد صحافیوں کو اس بات کا کوئی علم نہیں ہے کہ تقسیم ہند کے دوران کئی کشمیریوں نے پاکستانی دراندازوںکے ساتھ لڑتے ہوئے اپنی جان دی،70فیصد کا دعوی ہے کہ انہیں اس کا مکمل علم ہے۔جائزے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ 42فیصد ہندی صحافیوں کو کشمیر کی اقتصادی اور سماجی صورتحال کی معمولی جانکاری ہے جبکہ23فیصد صحافی اس سے مکمل طور نابلد ہیں۔زیادہ ترہندی صحافی کشمیر کو خوبصورتی، فلم شوٹنگ اور دہشت گردی کے نظریہ سے دیکھتے ہیں اور صرف 8فیصد ایسے صحافیوں نے خود کشمیر کا دورہ کیا ہے۔جب صحافیوں سے یہ پوچھا گیا کہ کیا وہ سیاحت، فلم شوٹنگ اور دہشت گردی کو چھوڑ کر کشمیر کے بارے میں کسی نیوز رپورٹ کو یاد کرتے ہیں تو 46فیصد صحافیوں نے نہیں میں جواب دیا۔سروے کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ 24فیصد ہندی صحافیوں کا ماننا ہے کہ کشمیر سے صرف ہندﺅں کو ترک سکونت کرنا پڑی ہے۔58فیصد صحافی کشمیر کے پرچم کو تسلیم نہیں کرتے جبکہ51فیصد صحافی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ ہندی بیلٹ سے وابستہ لوگوں میں کشمیر کے تئیں دوہرا حساس پایا جاتا ہے۔ سروے کے دوران81فیصد ہندی صحافیوں نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ وہ کشمیر سے شائع ہونے والا اخبار نہیں پڑھتے جبکہ77فیصد صحافیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے کشمیری عوام کے جمہوری حقوق کے سلسلے میں منعقدہ کسی پروگرام میں شرکت نہیں کی ہے۔ان صحافیوں میں سے45فیصد کا ماننا ہے کہ کشمیر مسئلے کی بنیادی وجہ غیر ملکی طاقتیں ہیں،18فیصد صحافی اس کو ایک مذہبی مسئلہ مانتے ہیں ،66فیصد صحافیوں نے پاکستان اور اسلام کو مسئلے کی بنیادی وجہ قرار دیا جبکہ55فیصد صحافیوں کے مطابق پاکستان وادی میں علیحدگی پسند جذبات بھڑکانے کا ذمہ دار ہے۔سروے کے تحت ہندی صحافیوں کی49فیصد تعدادمسئلے کے حل کیلئے کشمیریوں کے ساتھ بات چیت کے حق میں ہے،19فیصد صحافیوں نے ریفرنڈم کی حمایت کی ہے جبکہ20فیصد صحافیوں نے پاکستان کو شامل کرتے ہوئے سہ فریقی مذاکرات کے حق میں اپنی رائے ظاہر کی ہے۔صرف ایک فیصد صحافیوں کا ماننا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان صرف دو طرفہ بات چیت ہی اس مسئلے کو حل کرسکتی ہے۔سروے میں حصہ لینے والے73فیصد ہندی صحافی ہندو جبکہ 4فیصد مسلمان ہیں، ان میں سے41فیصد صحافی ہندی اخبارات اور17فیصد ٹیلی ویژن چینلوں کیلئے کام کرتے ہیں۔صرف11فیصد صحافی انٹرنیٹ سے وابستہ ہیں،فیصد کا تعلق مختلف رسالوں سے ہے اور صرف دو فیصد ریڈیو کے ساتھ کام کرتے ہیں۔