لاہور (رپورٹ: رازش لیاقت پوری) آسکر ایوارڈ یافتہ فلم ڈائریکٹر شرمین عبید چنائے نے 7سال بعد بھی وعدہ پورا نہ کیا۔ فلم سیونگ فیس کی مرکزی کردار رخسانہ بی بی کی سرجری کروائی، پانچ مرلے کا گھر لے کر دیااور نہ ہی وعدے کےمطابق کوئی رقم دی،چار بچوں کی ماں دربدر،فلم میں کام کرنے پر سسرال اور میکہ بھی منہ موڑ چکا،پانچ سال سے دھکے کھا رہی ہوںضیاشاہد میرا بھی مقدمہ لڑیں،تیزاب گردی کے بعد شرمین گردی کا شکار آسکر ایوارڈ یافتہ فلم سیونگ فیس کی مرکزی کردار بیٹ میر ہزارمظفر گڑھ کی رخسانہ مائی کی چیف ایڈیٹر خبریں سے اپیل، رخسانہ بی بی نے خبریں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ 2009-10ءمیں اے ایس ایف اسلام آباد میںتیزاب گردی اور چہرہ جلائے جانے کے باعث زیر اعلاج تھی کہ وہاں ڈائریکٹر شرمین عبید چنائے آئیں اور مجھ پر فلم بنانےکا کہا،انہوں نے کئی روز اسلام آباد میں شوٹنگ کی پھر میرے آبائی گھر بیٹ میر ہزار خان مظفر گڑھ میں بھی لے جایا گیااور صبح سے شام تک شرمین عبید چنائے مجھ پر فلم بناتی رہیں ،
انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا کہ میں آپ کی سرجری کروانے کے ساتھ ساتھ آپ کوملتان میں پانچ مرلے کا مکان لے کر دوں گی علاوہ ازیں 30لاکھ کے لگ بھگ رقم بھی دوں گی،میں اپنے گھر والوں کے ڈر سے فلم میں کام کرنے سے انکاری تھی لہٰذا انہوں نے مجھے راضی کرنے کے لیے اتنی بڑی آفرز کیں جس پر میں نہ چاہتے ہوئے سہانے مستقبل اور بچوں کی خاطر فلم میں کام کرنے پر راضی ہوگئی اور دل جمعی اور لگن سے کام کیا،
اس فلم میں میرے ساتھ ایک اور تیزاب متاثرہ ذکیہ بھی تھی جس کاتعلق لیہ سے تھا،شرمین فلم بنا کر چلی گئی ہم مسلسل اس کےساتھ رابطے میں رہے۔ اس نے وعدہ پہ وعدہ کیے رکھا 2012ءمیں فلم سیونگ فیس نے آسکر ایوارڈجیت لیا اور پوری دنیا میں ہماری فلم پھیل گئی یہ ایوارڈ شرمین نے تقریب میں اعلان کرکے میرے اور ذکیہ کے نام کیا،جس سے مجھے اور میرے بچوں کو خوشی ہوئی مگرمیرے گھر والے مجھ سے ناراض ہونے لگے کہ تم تو فلم میں آگئی ہو،یوں میرا سسرال اور میرا میکہ دونوں مجھ سے ناراض ہوکر الگ ہوگئے،میں نے بار بار شرمین سے کہا کہ مجھے ملتان میں گھر لے کر دیں اور میری سرجری بھی کروائیں ،ایک مرتبہ انہوں نے ہمیں گھر دیکھنے کے لیے ملتان بھی بھیجا لیکن بعد میں اس کی نیت خراب ہوگئی۔ اس نے ہمارا فون تک سننا بند کر دیا اورآنکھیں ماتھے پر رکھ لیں،میں میڈیا پر بھی گئی مگر میرا مقدمہ اچھی طرح لوگوں کے سامنے پیش نہ کیا گیا،میں کورٹ بھی گئی لیکن ان پڑھ اور دیہاتی ہونے کے باعث میری کوئی شنوائی نہ ہوئی اب میں دربدر ہوں ایک تو گاﺅں میں میری کوئی عزت نہیں دوسرا میرے خاندان والے بھی مجھ سے نالاں ہیں۔لوگ مجھے طعنے بھی دیتے ہیں کہ میں فلم کی اداکارہ ہوں،انہوں نے کہا میرے چہرے کی سرجری نہ ہوئی اور میرامکمل علاج نہ ہوا جس کی وجہ سے میں مسائل کا شکار ہوں ۔تمام رشتہ دار بھی مجھے چھوڑ چکے ہیں، اگرچہ بچوں کی خاطر میں نے خود پر ظلم کرنے والے خاوند ،نند اور ساس سے صلح کر لی تھی مگر فلم میں کام کرنے کی وجہ سے ضد میں آکر میرے خاوند نے دوسری شادی کر لی،اب چار بچوں کے ساتھ زندگی بوجھ لگتی ہے اتنی مایوس ہوں جی چاہتا ہے کہ خود کشی کر لوںلیکن خدا کے بعد زندگی کی آخری امید ضیا شاہد سے ہے،ان سے اپیل ہے کہ میری آواز بلند کریں تاکہ پوری دنیا کے سامنے شرمین عبید چنائے کا اصل چہرہ آسکے اور مجھے انصاف مل سکے جبکہ معاشرے نے مجھے جس طرح دھتکارہ ہے اس کی بہتری کی بھی کوئی سبیل نکل سکے،میرے چار بچے ہیں،ان کی تعلیم اور صحت کے مسائل ہیں،میرے کردار اور میری کہانی سے شرمین نے تو آسکر ایوارڈ جیت کر دنیا کی بلندیوں کو چھو لیا ہے مگر میں دردر کی ٹھوکریں کھانے اور خود کشی کرنے پر مجبور ہوں۔