اسلام آباد(آن لائن)سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی اوپن ٹرائل کیلئے درخواست کی سماعت جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ جسٹس شوکت صدیقی نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کھلی عدالت میں کرنے کی درخواست کی تھی جو مسترد ہوئی اس لیے یہاں رجوع کرنا پڑا، عدالت نے اٹارنی جنرل نے موقف پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں پراسیکوٹر نہیں بلکہ کارروائی کنڈکٹ کر رہا ہوں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ہم یہاں مقدمے کے حقائق نہیں قانونی معاملہ دیکھ رہے ہیں، اٹارنی جنرل سپریم جوڈیشل کونسل میں بھی کارروائی کنڈکٹ کرتے ہیں اور بطور وفاق کے نمائندہ بھی کردار ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اپنی نوعیت کا پہلا اور انتہائی اہم مقدمہ ہے، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ججوں کا احتساب بھی ضروری ہے،ہم کوئی مقدس گائے یا بیل نہیں ہیں لیکن احتساب کرتے وقت عدلیہ کی خودمختاری برقرار رکھنا بھی ضروری ہے۔جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ججوں کے خلاف کارروائی میں اٹھائے گئے سوالات جواب چاہتے ہیں۔جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ان سوالات کو کارپٹ کے نیچے نہیں دبا سکتے۔سپریم کورٹ نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف کھلی عدالت میں کارروائی پر اٹارنی جنرل سے وفاق کا تحریری موقف طلب کر لیا،سپریم کورٹ نے شاہد حامد اور منیر اے ملک کو عدالتی معاون مقرر کر دیا۔
Tag Archives: supremecourt
سپریم کورٹ نے مردم شماری دو ماہ میں مکمل کرنے کا حکم دیدیا
اسلام آباد( ویب ڈیسک )سپریم کورٹ نے مردم شماری 2ماہ میں مکمل کرنے کا حکم دے دیا ہے ۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ بغیر مردم شماری کے الیکشن عوام کے ساتھ مذاق ہے ،حکومت کی نیت ٹھیک نہیں ہمارے پاس وزیر اعظم کو بلانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا جبکہ جسٹس امیر ہانی مسلم نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آئندہ سماعت پر حکومت 15 مارچ سے15 مئی 2017تک مردم شماری کیلئے وزیر اعظم کے دستخط شدہ شیڈول د یں ورنہ وزیر اعظم کو بلائیں گے۔جمعرات کے روز سپریم کورٹ میں مردم شماری ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کی ۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ مردم شماری کیلئے تمام صوبوں کی شمولیت ضروری ہے ڈویژن کی سطح پر انتظامات مکمل کرلئے ہیں پہلی مرتبہ پاکستان میں مردم شماری کیلئے کمپیوٹرائزڈ نظام متعارف کیا جارہا ہے جونہی انتظامات مکمل ہونگے مردم شماری کروادینگے ۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مردم شماری ہوتی نظر نہیں آرہی لگتا ہے وزیراعظم کو بلا نے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا، مردم شماری نہیں کروانی تو آئین میں ترمیم کرلیں حکومت کی مردم شماری کرانے کی نیت ہی نہیں ہے جبکہ بغیر مردم شماری الیکشن عوام کے ساتھ مذاق ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ملکی پالیسیاں ہوا میں بن رہی ہیں عوام کی تعداد کسی کو معلوم ہی نہیں قومی معاملے پر کوئی سیاسی جماعت عدالت میں نہیں آئی ،مارچ کے شروع تک انتظامات مکمل کئے جانے چاہیے پندرہ مارچ سے پندرہ مئی تک دو ماہ کے اندر مردم شماری مکمل کرنی چاہیے اس کیلئے دو ماہ بہت ہیں ۔ چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ مردم شماری سے متعلق وزیراعظم کے دستخط سے حتمی تحریری تاریخ دیں ،جمہوری نظام کا دارو مدار مردم شماری پر ہے ،مردم شماری ہوگی تونئی حلقہ بندیاں ہوں گی۔ تمام سیاسی جماعتوں کو یہی اسٹیٹس کو ،سوٹ کرتا ہے۔ آئین کے مطابق مردم شماری نہ کرائی گئی تووزیراعظم عدالت کےکٹہرے میں ہوںگے۔جس طریقے سے آپ کہتے ہیں اس طرح تو مردم شماری نہیں ہوسکتی سوموٹو لئے کئی ماہ گزر گئے ہیں آئینی اداروں کا جو حشر ہورہا ہے وہ سب کے سامنے ہے سندھ پبلک سروس کمیشن کو دیکھ لیں میرٹ کیخلاف بھرتیاں ہوئی ہیں عدالت نے ایکشن لیا تو سات افراد نے استعفے دے دیئے جبکہ چار ہزار سے زائد بھرتیاں ہوئی تھیں ان کا کیا جائے گا جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سندھ میں جو کچھ ہوا اس کا الزام ہمیں نہ دیں ،جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سندھ اور پنجاب میں معاملات ایک جیسے ہیں عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہورہا۔ آپ نے کہا کہ پندرہ مارچ سے مردم شماری کروانے کے حوالے سے تحریری طور پر جواب اور ٹائم فریم بنایا جائے کہ کب مردم شماری کی جائے گی ۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ٹھیک ہے وزیراعظم کہہ دیں کہ صوبے تعاون نہیں کررہے ، آج حکومت کہہ رہی ہے فوج کے بغیر مردم شماری نہیں ہو سکتی،کل الیکشن کمیشن بھی کہے گا کہ فوج کے بغیر الیکشن نہیں ہو سکتے،لائن آف کنٹرول پر جھڑپیں چل رہی ہیں،اس طرح تواپریل میں بھی مردم شماری شروع نہیں ہو سکے گی، مردم شماری نہیں کروانی تو وزیراعظم خود سپریم کورٹ آجائیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت جو چاہے تاریخ دے دے مردم شماری کیلئے تیار ہیں جس پر عدالت نے حکومت کو پندرہ مارچ سے پندرہ مئی دو ہزار سترہ کے درمیان مردم شماری کرانے کی ہدایت کردی ،جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ وزیراعظم کو بلائیں یاپھر مردم شماری کی حتمی تاریخ دیں ، بتائیں وزیراعظم کب پیش ہوسکتے ہیں؟ تاریخ نہیں آئی تووزیراعظم وضاحت کے لیے خود سپریم کورٹ آئیں۔جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ آئندہ سماعت پر وزیراعظم کے دستخط شدہ شیڈول پیش کریں ۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت سات دسمبر تک ملتوی کردی ۔
سپریم کورٹ …. حکومت کو بڑا دھچکہ
اسلام آباد (آن لائن، این این آئی) سپریم کورٹ میں وزیراعظم کی جانب سے کابینہ کو بائی پاس کرنے کے حوالے سے کیس کی سماعت ہوئی عدالت نے وفاق کی اپیل خارج کر دی ۔ کیس کی سماعت جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عارف خلجی اور جسٹس مقبول باقر پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کی۔ جسٹس ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آئین میں وزیراعظم کی سولو فلائٹ کی گنجائش نہیں۔ ٹیکس استثنیٰ اور لیوی وفاقی حکومت کا اختیار ہے۔ آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ کوئی وزیراعظم یا کوئی وزیر و مشیر تنہا وفاقی حکومت ہے۔ انہوں نے کہاکہ رولز کبھی بھی آئین سے بالاتر نہیں ہو سکتے۔ کیا وزیراعظم کابینہ کی منظوری کے بغیر جو چاہے کر سکتا ہے؟ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آئین میں وفاقی حکومت کی تعریف بیان نہیں کی گئی۔ وفاقی حکومت کابینہ کے مجموعے کو کہا جائے گا۔ ہر وفاقی وزیر وفاقی حکومت کہلائے گا۔ حکومتی وکیل نے عدالت کو بتایا کہ حکومتی امور کے لئے مضبوط وزیراعظم کی ضرورت ہوتی ہے۔ عدالت نے وفاقی حکومت کی اپیل خارج کر دی اور کیس نمٹا دیا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے وفاقی کابینہ کوبائی پاس کرنے کے وزیراعظم کے اختیار کوکالعدم کرنے کےخلاف حکومت کی نظرثانی درخواست مستردکردی ہے۔ جمعہ کو جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے حکومت کی نظرثانی درخواست پرسماعت کی۔ اٹارنی جنرل پاکستان نے حکومتی اپیل پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حکومتی امور کےلئے مضبوط وزیراعظم کی ضرورت ہے۔جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ آئین میں وزیراعظم کی سولوفلائٹ کی گنجائش نہیں، ٹیکس استثنا اور لیوی ٹیکس کا نفاذ وفاقی حکومت کا اختیار ہے ¾ آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ وزیراعظم یا کوئی وزیر و مشیر تنہا وفاقی حکومت ہے، رولز کبھی بھی آئین سے بالاتر نہیں ہوسکتے۔جسٹس ثاقب نثار نے سوال کیا کہ کیا وزیراعظم کابینہ کی منظوری کے بغیر جو چاہے کرسکتاہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہروفاقی وزیر وفاقی حکومت کہلائے گا، اس پر جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آئین میں وفاقی حکومت کی تعریف بیان نہیں کی گئی ¾ وفاقی حکومت کابینہ کے مجموعے کو کہا جاتاہے۔سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے کابینہ کو بائی پاس کرنے کے معاملے پر وفاق کی نظر ثانی اپیل خارج کردی
پاناما لیکس، سپریم کورٹ نے درخواستوں پر سماعت کی تاریخ یکم نومبرمقرر کردی
اسلام آباد( ویب ڈیسک ) سپریم کورٹ نے پاناما لیکس پر درخواستوں کی سماعت یکم نومبر مقرر کر کے وزیراعظم سمیت تمام فریقین کو جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی۔ سپریم کورٹ نے پاناما لیکس پر درخواستوں کی سماعت 2 نومبر تک ملتوی کی تھی تاہم اب سپریم کورٹ نے پاناما لیکس پر درخواستوں کی سماعت یکم نومبر کو مقرر کر دی ہے۔ سپریم کورٹ نے وزیراعظم نواز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، مریم نواز، کیپٹن صفدر، حسن اور حسین نواز سمیت تمام فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے یکم نومبر سے قبل جواب جمع کرانے کی ہدایت کی ہے اور اس حوالے سے نوٹسز بھی جاری کر دیئے گئے ہیں۔اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت، سیکرٹری داخلہ، پیمرا، نیب، الیکشن کمیشن، ایف بی آر، سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اور وزارت پارلیمانی امور کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ 30 اکتوبر تک جواب جمع کرائیں تاکہ پاناما لیکس پر کارروائی کو آگے بڑھایا جائے۔واضح رہے کہ پاناما لیکس پر تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے علیحدہ علیحدہ درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔