Tag Archives: tax

مدارس مساجد بلوں سے ٹی وی ٹیکس کا فوری خاتمہ ،معروف صحافی ضیا شاہد کیجانب سے مسئلہ اٹھانے پر واپڈا حکام نے تقسیم کار کمپنیوں کو آگاہ کر دیا

لاہور(وقائع نگار)روزنامہ خبریں کی جانب سے 21اکتوبر 2017ءکو مساجد اورمدارس کے بجلی کے بلوں میں ٹی وی ٹیکس کی وصولی کے حوالے سے خبر کی شاعت کے بعد واپڈا حکام کی جانب سے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو فوری طور پر بلوں سے اس ٹیکس کی وصولی روکنے کا حکم دیا گیا ہے جس کے بعد جامعہ نعیمیہ،جامعہ اشرفیہ اور دیگر بڑے مدارس اور مساجد سے اس ٹیکس کی وصولی روک دی گئی ہے اور گزشتہ ایک ماہ سے ان کے بلوں میں اس رقم کو شامل نہیں کیا جارہا ہے جس کے بعد ملک بھر کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے مدارس اور مساجد سے منسلک مہتمم اور امام صاحبان کی بڑی تعداد نے اس حوالے سے چیف ایڈیٹر روزنامہ خبریں ضیا شاہد کا شکریہ ادا کیا ہے۔ واضح رہے ضیا شاہد نے یہ مسئلہ چینل ۵ پر اپنے پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں کے علاوہ مختلف فورمز پر اٹھایا تھا۔ وزیر توانائی سردار اویس لغاری نے بھی گزشتہ روز سی پی این کے پروگرام میٹ دی ایڈیٹرز میں یہ مسئلہ کابینہ میں اٹھانے کا وعدہ کیا تھا۔

 

منی بجٹ نے تاجروں کی چیخیں نکال دیں ،ریگولر ڈیوٹی میں ہو شر با اضافہ

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) حکومت نے 731اشیا ءکی درآمد پر 10 سے 80 فیصد تک ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کردی جس کا باضابطہ نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے ،حکومت کا موقف ہے کہ تجارتی خسارے کو کم کرنے اور درآمدی اشیا ءکی حوصلہ شکنی کے لیے یہ قدم اٹھایا گیا ہے اور اس سے غریب آدمی متاثر نہیں ہوگا،درآمدی ڈیوٹی کا فوری نفاذ کر دیا گیا ہے اورجن اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی گئی ان میں موبائلفونز، کاریں، کھیلوں کا سامان، بچوں کے ڈائپرز، کھانے پینے کی اشیا اور میک اپ کا سامان شامل ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق موبائل فون کی درآمد پر 250 روپے فی سیٹ ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی گئی ہے جبکہ ایل ای ڈی اور ایل سی ڈی کی درآمد پر 40 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی گئی۔ایک ہزار سی سی سے زائد گاڑیوں کی درآمد پر 15 فیصد، اسپورٹس گاڑیوں کی درآمد پر 80 فیصد، 1801 سے لے کر 3 ہزار سی سی کی پرانی گاڑیوں کی درآمد پر 60 فیصد، نئی گاڑیوں کی درآمد پر 15 سے 80 فیصد، 2 ہزار سی سی سے زائد اسپورٹس گاڑیوں کی درآمد پر 60 فیصد جبکہ 2 ہزار سی سی سے زائد نئی اسپورٹس کاروں اور جیپوں اور نئی درآمد شدہ گاڑیوں پر بھی 60 سے 80 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی گئی ہے۔پولٹری کی درآمد پر 10 فیصد جبکہ مچھلی اور مچھلی سے متعلق دیگر اشیا کی درآمد پر 25 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی گئی ہے۔دودھ، کریم، دہی، مکھن، ڈیری اسپریڈ، پنیر اور دیگر اشیا کی درآمد پر بھی 20 سے 25 فیصد جبکہ شہد، آلو، آم، کینو اور دیگر پھلوں کی درآمد پر بھی 20 سے 25 فیصد ڈیوٹی عائد کی گئی ہے، لیموں اور تربوز کی درآمد پر 40 فیصد، ہر قسم کے پھلوں کی درآمد پر 10 سے 50 فیصد تک ریگولیٹری ڈیوٹی عائد ہوگی جبکہ خشک میوہ جات کی درآمد پر 50 فیصد تک ریگولیٹری ڈیوٹی عائد ہوگی۔نوٹیفکیشن کے مطابق گندم اور مکئی کی درآمد پر 60 فیصد، آٹے اور میدے کی درآمد پر 25 فیصد، بیجوں کی درآمد پر 30 فیصد جبکہ چینی اور گڑ کی درآمد پر 40 فیصد ڈیوٹی عائد کی گئی ہے۔سویا ساس، ٹومیٹو کیچ اپ اور ٹومیٹو ساس پر 50 فیصد، منرل واٹر اور آئسکریم کی درآمد پر 20 فیصد ڈیوٹی عائد کی گئی ہے۔کتے اور بلیوں کی خوراک کی درآمد پر 20 فیصد، سپاری کی درآمد پر 55 فیصد، سگریٹس، سگار پر 20 فیصد جبکہ شیمپو اور پرفیومز سمیت میک اپ کی تمام مصنوعات پر 50 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کردی گئی۔نوٹیفکیشن کے مطابق چمڑے اور کپڑے کی مصنوعات کی درآمد پر 10 سے 40 فیصد اور جوتوں کی درآمد پر 15 سے 35 فیصد ڈیوٹی عائد کی گئی۔ماربل، گرینائٹ، اسکریپ کی درآمد پر 5 سے 15 فیصد، اسٹیل اور لوہے کی مصنوعات پر 30 فیصد جبکہ سینیٹری کے سامان کی درآمد پر 45 فیصد تک ریگولیٹری ڈیوٹی عائد ہوگی۔جیولری کی درآمد پر 45 فیصد اور قیمتی پتھروں اور موتی کی درآمد پر 55 فیصد ڈیوٹی عائد ہوگی۔پنکھوں، فرج فریزر اور دیگر الیکٹریکل مصنوعات کی درآمد پر 20 سے 40 فیصد، فرنیچر کی درآمد پر 40 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کردی گئی ہے۔زراعت میں استعمال ہونے والی ہارویسٹر اور آٹومیٹک مشینوں پر 20 سے 40 فیصد، جنریٹرز کی درآمد پر 10 فیصد، گھڑیوں کی درآمد پر 60 فیصد جبکہ کھیلوں کے سامان پر 30 سے 50 فیصد تک ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی گئی ہے۔س کے علاوہ چمکنے والی نمبر پلیٹس اور نشانات پر بھی 50 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ٹیکس ماہرین کے مطابق ڈیوٹی کے نفاذ کا مقصد پرتعیش اشیا ئ کی درآمدات کو کم کرنا ہے، اس طرح سے روپے کی قدر پر بڑھتا دبا و¿اور بجٹ خسارہ بھی کم ہو گا۔ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بازار میں بلا وجہ پھلوں سیمت اضافی سامان درآمد کیا جا رہا ہےجس کی وجہ سے درآمدات میں مسلسل اضافہ اور روپے کی قدر میں دبا دیکھا جا رہا تھا اس لیے حکومت کی جانب سے بلا وجہ درآمدات کو کم کرنے کے لئے ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی گئی ہے۔

 

ایل ڈی اے نے شہریوں پر ایک اور ٹیکس بم گرا دیا

لاہور(خصوصی رپورٹ)ایل ڈی اے نے لاہوریوں پر ایک اور ٹیکس بم گرا دیا۔کورڈ ایریا کے بعد این او سی کے حصول پر بھی ٹیکس لگا دیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق کمرشل اور گھریلو عمارتوں کی تعمیر پر این او سی مفت ملتے تھے ،ایل ڈی اے کی ذیلی ایجنسی ٹیپا اب ہر رپورٹ پر فیس وصول کریگی۔ ٹیپا رپورٹ کے عوض کمرشل عمارت سے 5 لاکھ 50 ہزار روپے ، پارکنگ معاہدے پر 50 ہزار روپے فیس وصول کریگی۔ پٹرول پمپ کیلئے پراسیس فیس کے 5 ہزار روپے وصول کئے جائینگے ، پٹرول پمپ کا این او سی جاری کرنے کیلئے 3 لاکھ روپے فیس مقرر کر دی گئی۔سٹرکچر پلان روڈ پر سوسائٹی کی مارکنگ کے عوض بھی فیسیں وصولی کی جائیں گی۔400کنال تک سوسائٹی کی مارکنگ کے عوض اڑھائی لاکھ ،800کنال تک5لاکھ اور 800 کنال سے زائد کیلئے 7لاکھ روپے فیس مقرر کر دی گئی۔ایل ڈی اے کی گورننگ باڈی کی منظوری کے بعد نئے ٹیکسز کا نفاذ کر دیا گیا۔

گھیرا تنگ، لسٹیں تیار ،گرفتاریوں کا فیصلہ

لاہور (خصوصی رپورٹ) ایف بی آر اور ٹیکس نادہندگان میں ٹھن گئی۔ ایف بی آر نے ساڑھے 7لاکھ سے زائد ٹیکس نادہندگان کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کیلئے خصوصی اقدامات اٹھانے کی تیاری کر لی جبکہ ٹیکس نادہندگان نے چھاپوں اور سخت کارروائی کی صورت میں
مارکیٹس کے شٹرڈاﺅن سمیت احتجاجی ریلیاں نکالنے کیلئے ملک بھر کے ایوان ہائے صنعت و تجارت کے ساتھ رابطے بڑھا لئے ہیں۔ ٹیکس نادہندگان میں بیشتر ایوان صنعت و تجارت کے ووٹرز ہیں اس لئے اب ان اداروں کی مجبوری ہے کہ وہ ان کا ساتھ دیں۔ ایف بی آر کے ذرائع کا کہنا ہے کہ دو تین روز قبل ایک اجلاس ہوا جس میں طے پایا کہ اب ٹیکس نادہندگان سے ہر صورت ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ اس حوالے سے عام انتخابات سے قبل کارروائی کو چھاپوں تک محدود رکھا جائے گا اور الیکشن کے بعد ٹیکس نادہندگان کی گرفتاریاں بھی کرنی پڑیں تو کی جائیں گی۔ سب سے زیادہ ٹیکس نادہندگان ریٹیلرز سیکشن میں ہیں اور اس میں کراچی‘ لاہور‘ فیصل آباد‘ گوجرانوالہ‘ سیالکوٹ‘ پشاور‘ کوئٹہ اور راولپنڈی میں سب سے زیادہ ٹیکس نادہندگان ہیں جن کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی جبکہ ریٹیلرز بھی بچاﺅ کیلئے سرگرم ہو گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ایف بی آر نے ملک بھر میں ٹیکس نیٹ بڑھانے کیلئے گزشتہ برس بھی ریٹیلرز کو ان کی مرضی کے مطابق ایک صفحے کا گوشوارہ بنا دیا لیکن 10لاکھ سے زائد ٹیکس گزاروں میں سے صرف چند افراد نے ٹیکس اور گوشوارے جمع کرائے جس پر حکومت اور ایف بی آر کو نقصان اٹھانا پڑا اور ٹیکس ہدف پورا نہ ہوسکا۔ اس حوالے سے دوسال قبل بھی ریٹیلرز نے ملک بھر کے ایوانہائے صنعت و تجارت سے ملک کر شٹرڈاﺅن کیے اور احتجاجی ریلیاں نکالیں۔ ان احتجاج کی شدت کی وجہ سے ایف بی آر کو ان سے مذاکرات کرنے پڑے۔ مذاکرات میں کاروباری برادری کے بیشتر نمائندے وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار، مشیر خزانہ ہارون اختر خان اور چیئرمین ایف بی آر سے ملے اور ان کو یقین دلایا کہ اگر حکومت ٹیکس گوشوارے کو ایک صفحہ کا کردے اور ان سے دس سال پرانا حساب نہ مانگے تو وہ رضاکارانہ طورپر ٹیکس کاور گوشوارے جمع کرائیں گے مگر ایسا نہ ہوسکا جس کا حکومت اور ایف بی آر کو غصہ تھا۔ رواں برس کے دوران بھی ٹیکس نیٹ میں کوئی خاص اضافہ نہ ہوسکا بلکہ 2012-13ءکی نسبت ٹیکس گوشواروں میں خاصی کمی آگئی۔ ایک طرف ایوانہائے صنعت و تجارت حکومت پرزور دیتی ہے ٹیکس نیٹ بڑھایا جائے لیکن جب ایف بی آر اس ضمن میں کارروائی کرتی ہے تو پھر انہیں اداروں کی جانب سے مزاحمت شروع ہوجاتی ہے۔ لاہور ایوان صنعت و تجارت سمیت ملک بھرکے بیشتر ایسے اداروں کی جانب سے پریس ریلیز جاری کی جاتی ہیں کہ چھاپے روکے جائیں جس سے اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ ان اداروں پر بھی نان ٹیکس پیئرز کا غلبہ ہوگیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس کی ایک بڑی وجہ نان ٹیکس پیئرزکا ان اداروں کا ووٹرز ہوناہے۔ ایف بی آر نے نادرا اور کئی دوسرے اداروں سے ساڑھے سات لاکھ افراد کا ریکارڈ حاصل کرلیا ہے جو ٹیکس دینے کی صلاحیت رکھنے کے بعد ایک دھیلے کا ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ ایسے ٹیکس نادہندگان کا ریکاڈر مختلف برانڈ کی گاڑیاں فروخت کرنے ، زمین کی خریدوفروخت کرنے والے شعبوں سمیت دوسرے اداروں سے بھی حاصل کرلیا گیا۔ ان افراد کے بیرون ملک دوروں ، ان کے بچوں کے مہنگے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کا ریکارڈ بھی شامل ہے۔

ٹیکس چوروں کیخلاف بڑی کاروائی

اسلام آباد(خصوصی رپورٹ)ایف بی آروزارت خزانہ کو تجویز بھجوارہا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایف بی آر ملک بھر کے ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے والوں (NON-FILERS)کی ڈائرکٹریاں یکم مئی کو میڈیا اور ویب پر شائع کر دی جائیں جس طرح ٹیکس گزاروں اور ٹیکس گزار پارلیمنٹرین کی ہر سال ڈائرکٹری شائع کی جارہی ہے جسے دنیا بھر میں پذیرائی حاصل ہوئی ہے وزیر خزانہ سنیٹر محمد اسحاق ڈار کی منظوری سے تین الگ الگ ڈائریکٹریاں شائع کرنے کی تجویز ہے اس سلسلے میں بی آر نے پہلے ہی نان فائیلرز (ٹیکس گوشوارہ جمع نہ کرانے والوں) کی تفصیلات ، نادرا، بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں، ملک بھر کے ترقیاتی اداروں (ڈی ایچ اے، سی ڈی اے، کے ڈی اے،ایل ڈی اے ، ایف ڈی اے، ایس ڈی اے، پرائیویٹ ہاوسنگ سکیموں ، ایم ڈی اے ، کیو ڈی اے، صوبائی پراپرٹی اینڈ وہیکلز رجسٹریشن اتھارٹی، آٹو موبائیل اسمبلرز کمپنیوں ایمیگر یشن (ایف آئی اے) فضائی کمپنیوں (غیر ملکی سفری اخراجات) دبئی اور دوسرے ملکوں کے پراپرٹی رجسٹر یشن اداروں وغیرہ سے تمام پاکستانیوں کا ڈیٹا حاصل کر لیا ہے جو الیکٹرانکلی پرال اور ایف بی آر کی فیلڈ فارمیشنوں ، کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ استعمال ہونے والے ہر ادارے سے ہر پاکستانی کی منقولہ و غیر منقولہ املاک کی تفصیلات حاصل کر لی ہیں اسکے علاوہ کاروباری لوگوں کے ناموں اور ایڈریسز پر مشتمل (JAMAL YELLOW PAGE)کا ڈیٹا بھی ایف بی آر نے حاصل کر لیا ہے ٹیکس گوشوارے فائیل نہ کرنے والے پاکستانیوں کے نام بمعہ جملہ کوائف مجوزہ ڈائریکٹری میں شامل ہونگے۔ ایف بی آر کے ذیلی ادارے پرال نے ود ہولڈنگ ٹیکس کا ڈیٹا جمع کرلیا ہے۔جس میں بنکوں سے رقوم نکلوانے (CASH WITHDRAWL) نان کیش بنکنگ ٹرانزکشن پر ود ہولڈنگ ٹیکس، سود/ منافع کی آمدنی ، اکاونٹ ہولڈرز کے نام ایڈریس اور اکاونٹس میں پڑی رقوم نان فائیلر این ٹی این ہولڈر جو قانون کے تحت ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کے پابند ہیں ان کا ڈیٹا نان فائیلر ڈائریکٹری میں شامل ہوگا جس پاکستانی کے پاس ایک ہزار سی سی یا اس سے بڑی موٹر گاڑی ہے 250 مربع گز یا اس سے بڑے رقبے کا پلاٹ یا مکان پلازہ ہے یا جسکے پاس 2 ہزار مربع فٹ کا فلیٹ ہے جو کمرشل انڈسٹریل الیکٹریسٹی ہولڈرز (جو تقریبا تین ملین ہیں) انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن چودہ کے تحت یہ تمام انکم ٹیکس پاکستانی سالانہ آمدن ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کے پابند ہیں اسکے علاوہ ملک بھر کے ا یوانہائے تجارت و صنعت کے ممبر، مارکیٹ کمیٹیوں کے ممبر، پاکستان انجینئرنگ کونسل، پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل پاکستان بار کونسل یا صوبائی بار کونسل انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاونٹنٹس آف پاکستان رہا انسٹی ٹیوٹ آف کاسٹ اینڈ منیجمنٹ آف پاکستان کے رکن ہیں یہ سب مندر جہ بالا قانون کے تحت سالانہ ٹیکس ریٹرن جمع کرانےکے قانون کے تحت پابند ہیں اسکے علاوہ مجوزہ نان فائیلرز/ٹیکس ڈیفالٹر ز ڈائریکٹری میں وفاقی صوبائی دوسرے خود مختار، نیم خود مختار اور پرائیویٹ اداروں کے ملازمین کو بھی جو نان فائیلرز ہیں ان کے نام اور کوائف ڈائریکٹری میں شامل کئے جائیں گے۔

پراپرٹی ڈیلروں کیلئے بڑی خبر ….جلدی کریں کہیں دیر نہ ہو جائے

لاہور (ویب ڈیسک) راہداری ڈھانچے، توانائی منصوبوں سے گوادر جنوبی پاکستان کا مرکز بن رہا ہے۔ پاکستانی ریئل اسٹیٹ کے بڑے ادارے نے ماہی گیروں کی بستی گوادر کے دوردراز علاقے میں سینکڑوں ایکڑ زمین بیچ کر گزشتہ سال دس گنا منافع کمایا۔ یہ زمین حکومت کی جانب سے بندرگاہ بنانے کے اعلان کے بعد جلد ہی حاصل کر لی گئی تھی۔گروپ کے چیف ایگزیکٹو نے غیرملکی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ ہم نے اندازہ کر لیا تھا کہ چین کو بحیرہ عرب تک راہداری کی ضرورت ہو گی اور آج تمام راستے گوادر کی طرف جاتے ہیں۔ 2014ئ میں بیجنگ کی طرف سے اعلان کردہ 57 ارب ڈالرز کے پاک چائنا تجارتی راہداری کے بنیادی ڈھانچے اور توانائی منصوبوں سے گوادر جنوبی پاکستان کا مرکز بن رہا ہے تب سے جائیداد کی طلب میں اضافہ سے زمین کی قیمت میں تیزی سے ( آسمان کو چھو لینے والا) اضافہ ہوا ہے اور ریئل سٹیٹ فرمز اور تجارتی ادارے اس سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔جائیداد فروخت کرنیوالے افضل عادل کا کہنا تھا کہ گوادر میڈ ان چائنا برانڈ ہے اور ہر کوئی حصہ چاہتا ہے۔ 2014 سے 2016 کے درمیان گوادر میں جائیداد کی تلاش میں 14گنا اضافہ ہوا۔ سرمایہ کار یا ڈویلپر گوادر کی طرف دیکھ رہا ہے۔ منیجنگ ڈائریکٹر آن لائن ریئل اسٹیٹ ویب سائٹ سعد ارشد نے کہا کہ قیمتوں میں دو سے چار گنا ہونیوالا اوسط اضافہ اب ہفتہ وار بنیاد پر ہو رہا ہے۔جب سے چین نے 2014 میں راہداری منصوبے کا اعلان کیا ہے، سکیورٹی میں بہتری آئی ہے۔ پاکستان حفاظت کیلئے نیا آرمی ڈویڑن بنا رہا ہے جبکہ سینکڑوں باغیوں نے بھی ہتھیار ڈالے ہیں۔ ریئل سٹیٹ فرمز چین کے مفادات کا حوالہ دیتے ہوئے اس امکان کو رد کرتی ہیں کہ گوادر کا بلبلہ پھٹ سکتا ہے۔