ویانا(خصوصی رپورٹ)آسٹریا کی اٹھارہ سالہ لڑکی نے اپنے والدین پر مقدمہ کردیا ہے کیونکہ وہ اس سے بغیر اجازت لئے پچھلے سات سال سے فیس بک پر اس کے بچپن کی تصویریں پوسٹ کررہے ہیں جن کے باعث اسے انتہائی شرمندگی اٹھانی پڑ رہی ہے۔لڑکی کا دعوی ہے کہ 20094 سے اب تک اس کے والدین فیس بک پر اس کی 500 سے زائد تصویریں اپنے 700 دوستوں کے ساتھ شیئر کراچکے ہیں جس کی وجہ سے اس کی زندگی جہنم بن گئی ہے۔ اس لڑکی کے بچپن کی شیئر کرائی گئی تصاویر میں ڈائپر بدلنے سے لے کر پوٹی ٹریننگ تک کی تصاویر شامل ہیں۔ رپورٹوں میں لڑکی کا نام ظاہر نہیں کیا گیا۔عدالت میں جمع کرائے گئے بیان میں لڑکی کا کہنا تھا کہ اس کے والدین نے بے شرمی کی تمام حدیں عبور کرلیں اور یہ پرواہ بھی نہیں کی کہ ٹوائلٹ پر بیٹھے ہوئے یا نازیبا حالت میں پڑے ہوئے جس کی تصویریں اتار رہے ہیں وہ میں ہو، ان کی بیٹی۔ اور اسی پر بس نہیں بلکہ انہوں یہ سب تصویریں انہوں نے سوشل میڈیا پر سب کے سامنے پیش بھی کردیں۔لڑکی کا کہنا تھا کہ بار بار درخواست کرنے کے باوجود اس کے والدین نے وہ تصویریں سوشل میڈیا سے ڈیلیٹ کرنے سے انکار کردیا جس کی بنا پر وہ ان کے خلاف مقدمہ کرنے پر مجبور ہوئی۔ اس کے والد نے یہاں تک کہہ دیا کہ یہ تصویریں کیونکہ انہوں نے اتاری ہیں لہذا قانونی طور پر یہ ان کا حق ہے کہ انہیں سوشل میڈیا پر رکھیں یا ڈیلیٹ کردیں۔لڑکی کے وکیل میکائیل ریمی کہتے ہیں کہ اگر یہ ثابت ہوگیا کہ ان تصویروں سے اس لڑکی کے انفرادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو اس کے والدین مقدمہ ہار جائیں گے۔مغربی ممالک میں اس طرح کے مقدمات معمول کا حصہ ہیں لیکن آسٹریا میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ ہے۔ فرانسیسی قوانین کے تحت کسی بھی شخص کی اجازت کے بغیر اس کی تصویر شائع کرنے یا کسی بھی ذریعے سے دوسروں میں تقسیم کرنے پر ایک سال قیدِ بامشقت کی سزا اور 45000 یورو تک کا جرمانہ مقرر ہے لیکن آسٹریا میں ایسا کوئی قانون موجود نہیں۔