قارئین کرام‘ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے بارے میں آج پاکستان کا کوئی شہری ایسا نہیں جو ان کے خیالات اور نظریات سے واقف نہ ہو‘ ان کی آخری ویڈیو جو سوشل میڈیا پر گھوم رہی ہے‘ ایسی ویڈیوز میں اس بدبخت شخص نے پاکستان کو بھی گالیاں دی ہیں‘ پاک فوج کو دھمکیاں دی ہیں‘ بھارت کو بار بار اپنا نجات دہندہ قرار دیا ہے، اقوام متحدہ سے مداخلت کی اپیل کی ہے کہ وہ اُن کے بقول کراچی اور حیدرآباد کے مہاجروں کو ظلم و ستم سے بچائے، انہوں نے یہاں تک اعلان کیا ہے کہ امریکہ تو اُن کی مدد کرے گا ہی لیکن ہم بھارت اور اسرائیل سے کہتے ہیں کہ وہ (نعوذ باللہ) اِس نام نہاد پاکستان کو صفحہ¿ ہستی سے مٹانے کے لئے سامنے آئے، سب سے آخری ویڈیو میں جس طرح اسفند یار ولی نے نعرہ لگایا ہے کہ وہ ”افغان تھے افغان ہیں اور افغان رہیں گے“ ایک پاکستانی سیاسی جماعت کے سربراہ جو اسمبلیوں اور سینٹ کے بھی رکن رہے ہیں، کس قدر فخر سے خود کو پاکستانی کی بجائے افغان قرار دیتے، بالکل اسی طرح جیسے محمود اچکزئی صاحب پہلے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں رہنے کے باوجود بلوچ نہیں بلکہ پختون ہیں۔ پھر یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ بلوچستان کے پختون علاقوں کو پختون علاقوں میں شامل کیا جائے، اور سب سے آخر میں بِلی تھیلے سے نکل آئی ہے جب وہ پاکستان کے آئین کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے جس میں قائد کے بنائے ہوئے ملک کی سرحدیں اور صوبے بیان کئے گئے ہیں۔ بلوچی گاندھی کے یہ صاحبزادے بھی تجویز دیتے ہیں کہ پختونخواہ بشمول پاکستان کے پشتون علاقے افغانستان کا حصہ ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اُن کا یہ کہنا ہے کہ ہم پاکستان کے صوبے نہیں بلکہ افغان ہونے کے ناطے افغانستان کا حصہ ہیں، بلوچستان میں حالیہ دہشت گردی کے پیش نطر آپ جان سکتے ہیں کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو مزید اختیارات دیئے گئے، ان اختیارات پر مزیید بات ہو سکتی ہے جس کا طریقہ آئین میں درج ہے لیکن میں نے اِس سلسلہ مضامین کے شروع میں لکھا تھا کہ دو قومی نظریے یعنی ہندو اور مسلمان کی نفی کر کے پہلے صوبائی حقوق کی آواز بلند کی جاتی ہے پھر برطانوی ہند کی بھارت اور پاکستان کی شکل میں تقسیم کو ہندو مسلمان کی بنیاد پر ایک نظریے کی نفی ہوتی ہے اور زبان اور نسل کے بُت تراشے جاتے ہیں، آخر میں خود مختار صوبے کی جگہ الگ ریاستوں کا مطالبہ ہوتا ہے اور الطاف حسین ہوں یا بلوچستان کے باغی برہمداغ بگٹی یا حربیار مری یا لندن میں بیٹھے ہوئے نئے خان آف قلات نواب داﺅد وہ سب موجودہ پاکستان کے خاتمے کے حق میں ہیں موجودہ پروپییگنڈا کر رہے ہیں لیکن پاکستان کے عوام کی اکثریت بالخصوص سندھ جس کی اکثریتی جماعت ہمیشہ سے ایک پاکستان کی حامی رہی ہے اور جس نے پیپلزپارٹی کی شکل میںبہت سے قوم پرست لیڈروں بالخصوص جی ایک سید کے سندھو دیش کو مسترد کیا ہے پنجاب اور سرحد کے غور پاکستانیوں نے جو ہمیشہ سے فوج کا اکثریتی حصہ رہے ہیں۔ اس ملک کی سرحدوں کے لئے اپنا خون دیا ہے، بلوچستان نے ہمیشہ صوبائی حقوق کی بات ضرور کی ہے جس میں وہ سو فیصد حق بجانب تھے اور ہیں لیکن اس صوبے کے محب وطن پاکستانیوں نے کبھی اِن مٹھی بھر پاکستان دشمن لیڈروں کو ووٹ نہیں دیئے، آج غفار خان کے پوتے اور ولی خان کے بیٹے اسفند یار بھی خیبر پختونخوا کے اکثریتی ووٹ کے حامل نہیں رہے، بھارت نے پاکستان کے خلاف تین بھرپور جنگوں کے علاوہ کشمیر کی کنٹرول لائن پر حملے کرتا رہتا ہے، وہ مقبوضہ کشمیر کے نہتے مسلمانوں پر 1947ءسے اَب تک ظلم ڈھا رہا ہے، سلامتی کونسل کی قرارداد سے منکر ہو چکا ہے کہ اقوام عالم کشمیر میں آزادانہ رائے شماری کے بعد مقامی لوگوں کے صوابدید پر اُن کے مستقبل کا فیصلہ چاہتے ہیں، چین کے ساتھ مل کر چینی علاقے سے گوادر تک اقتصادی راہداری میں پورے خطے کی سیاست میں بھونچال پیدا کر دیا ہے، اِس ایک پراجیکٹ نے جو چین کو کھلے پانیوں تک پہنچا دے گا، امریکہ اُس کے آلہ کار افغانستان کے علاوہ بھارت کی نیندیں حرام کر دی ہیں بھارت میں بے شمار کتابیں چھپ چکی ہیں کہ کس طرح مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں بھارت نے بھرپور کردار ادا کیا اور دو قومی نظریے کی بجائے زبان اور نسل کی بنیاد پر الگ ملکوں کو بھارتی فوج کی مدد سے اسلام آباد سے الگ کیا گیا، بھارت کِس طرح پاکستان میں دہشت گردی پھیلا رہا ہے اور پاکستان میں بعض حکومتی لوگ ہوں یا کچھ اپنی اغراض کے سیاست دان، اُن کی بالواسطہ یا بلاواسطہ مدد کر رہے ہیں۔قارئین بخوبی اِن حقائق سے آگاہ ہیں تاہم ان سیٹلڈ مضامین کی آخری قسط میں ہم یہ نقطہ سامنے لانا چاہتے ہیں کہ الطاف حسین نے اِس جنگ میں ہراول دستے کا کام کیسے انجام دیا لیکن پاکستان کی فوجی قیادت کے اصرار کے باوجود اُن پر غداری کا ایک مقدمہ بھی سپریم کورٹ میں دائر نہیں کیا گیا۔الطاف حسین کراچی میں ہوتے تھے جب اُن کے ایک بڑے جلسہ عام میں موصوف کے خطاب کے چند جملے تمام اخبارات میں شائع ہوئے، ابھی وہ لندن نہیں سدھارے تھے جب اُنہوں نے آسمان کی طرف اُنگلی اُٹھاتے ہوئے کہا کہ ”دیکھیں یہ طیارہ پنجاب سے کراچی آ رہا ہے اور میں اِس کے مسافروں کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ بہت جلد پنجابی ویزا لے کر کراچی میں داخل ہوا کریں گے، الطاف حسین کے ناپاک ارادوں پر بہت بحث ہو چکی ہے، میں صرف چند نکات کی طرف اشارہ کروں گا، اُنہوں نے کراچی اور حیدرآباد کی مہاجر قوم کو جن کے مسائل واقعی حقیقی تھے اور جن کی طرف قومی سیاسی جماعتوں نے توجہ نہیں دی تھی، طالب علم لیڈر کی حیثیت سے اپنا ہم نوا بنایا، پھر مہاجر قومی موومنٹ کی بنیاد رکھی لیکن کِسی قانون دان سے پوچھ لیجئے گا کہ وہ ”حق پرست“ کے نام سے الیکشن کیوں لڑتے تھے۔ انہوں نے مہاجروں کی محرومی کی آڑ میں اپنے فُل ٹائم سیاسی ورکروں کو سندھ حکومت، قومی بینکوں، مالیاتی اداروں، کراچی واٹر بورڈ، کراچی سٹیل مل، پی آئی اے اور سکیورٹی پرنٹنگ پریس جیسے اداروں میں نوکریاں دلوائیں جو تنخواہ اداروں سے لیتے تھے، اور فل ٹائم سیاسی ورکر الطاف حسین کے لئے کام کر رہے تھے، الطاف حسین نے اپنی سیاست کی بنیاد دھونس، دھاندلی، خوف، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور غیر مہاجروں پر ظلم و تشدد سے شروع کی، حتیٰ کہ اُن پر اور اُن کے بے شمار لوگوں پر مقدمات درج ہوئے، لیکن کراچی کی انتظامیہ ہو، پولیس ہو ا دوسرے ادارے ہوں وہ کبھی عدالتوں سے ملزموں کو سزا نہ دلوا سکے کیونکہ خوف کے مارے کوئی گواہی نہیں دیتا تھا، کراچی کے مختلف علاقوں کو غیر مہاجر یا سیاسی لوگوں کے لئے نو گو ایریا قرار دیا گیا پھر خود الطاف حسین اور اُن کے دوسرے ساتھی جن پر سنگین جرائم میں مقدمات درج کئے گئے تھے پاکستان سے فرار ہو گئے اور لندن میں سیاسی پناہ حاصل کرلی‘ یورپ اور جنوبی افریقہ کے بعد ایم کیوایم کا یہ مافیا امریکہ تک پہنچ گیا۔(جاری ہے)