تازہ تر ین

امریکی سیاسی تاریخ کا ریکارڈ آن لائن جوا….

لاہور (خصوصی رپورٹ) امریکی صدارتی الیکشن سے ایک دن قبل این ڈی ٹی وی جیسے بھارت کے مختلف میڈیا ادارے بھرپور قوت کے ساتھ اور ہر ممکن طریقے سے ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت جبکہ ہلیری کلنٹن کے حامیوں کے حوصلے پست کرنے میں مصروف نظر آئے۔ ایسی ہی ایک خبر کے مطابق این ڈی ٹی وی نے امریکہ کے رائے شماری کرانے والے ایک معروف شخص نیٹ سلور کے حوالے سے بتایا ہے کہ ہلیری کلنٹن الیکٹورل کالج سے ہارنے کیلئے ایک ریاست کی دوری پر ہیں۔ بھارتی چینل نے نیٹ سلور کا تعارف اس شاندار انداز سے کرایا۔ سلور کو امریکہ کے بہترین رائے شماری کنندگان (پولسٹر) میں کیا جاتا ہے جنہوں نے 2008ءاور 2012ءکے انتخابات کے نتائج کے حوالے سے درست پیش گوئی کی تھی۔ بھارت کے بڑے چینل کی جانب سے کہا گیا کہ الیکٹورل کالج کے اعدادوشمار اس مرتبہ ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار ہلیری کلنٹن کیلئے اتنے سازگار نہیں جتنے یہ چار سال قبل سبکدوش ہونے والے صدر باراک اوباما کیلئے تھے۔ امریکہ کے سب سے بڑے پولسٹر کہتے ہیں کہ سابق وزیرخارجہ الیکٹورل کالج سے ہارنے کیلئے صرف ایک ریاست کی دوری پر ہیں۔ چینل نے نیٹ سلور کے حوالے سے مزید کہا کہ چار سال قبل باراک اوباما ان ریاستوں میں سب سے آگے تھے اور ان کے الیکٹورل ووٹس کی تعداد 320کے لگ بھگ تھی۔ نیٹ سلور نے اصل میں یہ مشاہدہ اے بی سی نیوز پر اتوار کے روز پیش کیا تھا۔ این ڈی ٹی وی نے نیٹ سلور کے حوالے سے مزید کہا کہ کلنٹن کے الیکٹورل ووٹس کی تعداد 270کے قریب ہے لہٰذا الیکٹورل کالج سے ہارنے کیلئے وہ ایک ریاست کی دوری پر ہیں اور یہ ان کیلئے سازگار صورتحال نہیں ہے۔ کلنٹن کو یہاں کچھ پوائنٹس کی کمی کا سامنا ہے۔ ممکنہ طور پر آئیوا ریاست ملک کا سب سے بہترین انتخابی علاقہ ہو لیکن دیس مواٹس پول کے نتائج دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ آئیوا میں کلنٹن کے 7پوائنٹس کم ہیں اور ممکن ہے کہ وہ اس ریاست میں ہار جائیں۔ وسطی مغربی ریاستوں میں کلنٹن کی پوزیشن کمزور ہے جبکہ چار سال قبل اوباما اوہائیو ریاست میں چار پوائنٹس کے اضافے کے ساتھ کامیابی کی راہ پر گامزن تھے‘ لہٰذا اعدادوشمار آپ کو اس وقت نقصان پہنچا سکتے ہیں جب آپ سفید فام نان کالج ووٹرز کو قائل کرنے کیلئے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرتے لیکن اصل میں یہ انتخابی لڑائی الیکٹورل کالج میں ہو گی۔ اوباما کے مقابلے میں ہلیری کلنٹن مختلف ریاستوں میں کمزور نظر آتی ہیں‘ لہٰذا ایک حد تک دیکھا جائے تو کسی حد تک کچھ ریاستوں میں کلنٹن کو برتری حاصل ہے جبکہ کچھ معاملات میں اوباما کو چار سال قبل یہی برتری بہت معاملات میں زیادہ تھی جو آپ کی سوچ سے بھی زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ اگر دیکھیں تو ہمیں ایسے بھی بہت اعدادوشمار نظر آ رہے ہیں جس میں بتایا جا رہا ہے کہ کلنٹن کے پاس 44فیصد جبکہ ٹرمپ کے پاس 40فیصد حمایت ہے۔ اگر آپ کے پاس 44فیصد حمایت ہے تو ایسی صورت میں بھی آپ کو نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے کیونکہ کئی لوگ عین موقع پر فیصلہ نہیں کر پاتے اور اگر وہ اچانک کسی طرح آپ کی حمایت ختم کر دیں تو کیا ہو گا جبکہ چار سال قبل کی صورتحال دیکھیں تو اس وقت اوباما کی حمایت 49فیصد اور رومنی کی حمایت 46فیصد تھی۔ لہٰذا اس تناظر میں دیکھا جائے تو دونوں امیدواروں کو الیکشن کے دن اچھے ٹرن آﺅٹ کی توقع ہو سکتی ہے۔ این ڈی ڈی وی نے نیٹ سلور کے حوالے سے مزید کہا کہ اگر ہلیری کلنٹن اپنے پول کے اعدادوشمار سے تین پوائنٹس زیادہ حاصل کرتی ہیں تو ہم اس صورتحال کو بارڈر لائن کامیابی قرار دیتے ہیں لیکن اگر صورتحال پلٹ گئی تو ٹرمپ بڑی آسانی سے الیکٹورل کالج سے جیت سکتے ہیں۔ آخری ٹرن آﺅٹ میں سیاہ فام امریکی کمیونٹی کے ووٹ بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس بات سے انکار نہیں کہ ڈیموکریٹس کے حامی امریکیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اگر ہلیری کلنٹن ووٹروں کو ووٹ ڈالنے پر قائل کر سکیں اور صورتحال کا کمزور ترین پوائنٹ یہ ہے کہ سیاہ فام امریکیوں نے بھی انہیں ووٹ ڈالے‘ جیسے کہ انہوں نے اوباما کو چار سال قبل بڑی تعداد میں ووٹ دے کر جتوایا تھا تو ممکن ہے کہ یہ ان کیلئے بڑی کامیابی ہو۔ ایسا فلوریڈا اور نارتھ کیرولینا جیسی ریاستوں میں ہو سکتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ٹرمپ کے جیتنے کے امکانات ہیں۔نیویارک (خصوصی رپورٹ) امریکی ری پبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی بھارت میں بھاری سرمایہ کاری کا انکشاف ہوا ہے۔ بین الاقومی جریدے نیوز ویک کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے بھارت میں کاروباری مفاد صدر بننے کے بعد ان کی خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ نیوز ویک کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی بھارتی شہروں پونے اور گڑ گاﺅں میں رئیل اسٹیٹ میں بھاری سرمایہ کاری ہے۔رپورٹ کے مطابق ٹرمپ 2011ءمیں بھارت میں اپنے نام سے ایک 65 منزلہ ٹاور کی تعمیر کا معاہدہ بھی کرچکے ہیں۔نیویارک (خصوصی رپورٹ) امریکہ کے صدارتی انتخابات پر امریکی سیاسی تاریخ کا ریکارڈ ”آن لائن“ سٹہ لگ گیا۔ ایسے میں کہ جب ڈیموکریٹک امیدوار ہلیری کلنٹن اور ری پبلکن ڈونلڈ ٹرمپ کے مابین انتہائی سخت مقابلے کے باعث کسی کی بھی جیت کی پیش گوئی مشکل سمجھا جا رہا ہے اور اس وقت کہ جب صدارتی الیکشن میں ایک دن سے بھی کم وقت رہ گیا ہے تو آئرلینڈ سے لے کر آیووا تک لاکھوں افراد نے ریکارڈ تعداد میں آن لائن پلیٹ فارمز پر سٹہ لگانا شروع کر دیا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 150ملین ڈالر کی آن لائن شرطیں لگائی گئی ہیں۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain