نیویارک، واشنگٹن، برلن (سپیشل رپورٹر سے‘ مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی صدر منتخب ہونے کے فوری بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے دوبارہ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیا اور مسلمان مخالف بیانات کو ایک مرتبہ پھر اپنی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کردیا اور اس کا لنک بھی سوشل میڈیا پر شیئرکردیا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی آفیشل ویب سائٹ پر مسلمانوں پر مکمل پابندی کی تجویز کے حوالے سے بیان کو دوباہ پوسٹ کر دیا گیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی امریکی انتخابات میں حیران کن کامیابی کے بعد امریکا کے مختلف شہروں اور تعلیمی اداروں میں باحجاب مسلم لڑکیوں اور خواتین پر حملوں کے واقعات پیش آئے ہیں۔یونیورسٹی کی باحجاب مسلم لڑکیوں پر حملوں کی رپورٹ سامنے ا?نے پر کیلی فورنیا کی انتظامیہ نے معاملے کی تحقیقات شروع کردیں، جب کہ اس سے قبل بھی سان ڈیاگو اسٹیٹ یونیورسٹی میں باحجاب مسلم طالبات پر حملے کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں۔امریکی پولیس اور انتظامیہ کے مطابق اور بدھ اور جمعرات کے روز کیلی فورنیا اور سان ڈیگو کی یونیورسٹیز میں باحجاب مسلم طالبات پر حملے کیے گئے، جن کی تفتیش جاری ہے۔پولیس کے مطابق سان ڈیاگو یونیورسٹی کیمپس کی باحجاب مسلم لڑکیوں پر کیمپس کے قریب پارکنگ پلازہ میں حملہ کیا گیا، حملہ آور لڑکیوں سے گاڑی کی چابیاں چھین کر فرار ہوگیا، بعد ازاں حملہ متاثر لڑکیوں کی گاڑی بھی غائب ہوگئی۔نارتھ کیرولاینا میں بھی سان جوز اسٹیٹ یونیورسٹی کے قریب پیدل چلنے والی باحجاب مسلم خاتون پر سفید فام نوجوان امریکی نے حملہ کردیا، خاتون نے بتایا کہ حملہ آور سفید فام نوجوان تھا، جنہوں نے خاتون کے پیچھے سے حملہ کرکے حجاب اتار دیا۔خاتون پر حملے کے بعد کیلی فورنیا کے اٹارنی جنرل کمالا ہارس نے تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کو الرٹ جاری کردیا۔ادھر لوزیانا اسٹیٹ یونیورسٹی میں بھی ایک 18 سالہ باحجاب مسلم طالبہ پر 2 امریکی نوجوانوں کے حملے کی رپورٹیں موصول ہوئی ہیں، پولیس کے مطابق متاثرہ لڑکی نے بتایا کہ ان پر لوزیانا یونیورسٹی کیمپس میں ٹرمپ کی کامیابی کے چند گھنٹے بعد ہی پیدل چلنے کے دوران حملہ کیا گیا۔ امریکہ کے مختلف شہروں میں دوسرے روز بھی صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کے منتخب ہونے کے خلاف احتجاج جاری ہے جبکہ ریاست اوریگون کے شہر پورٹ لینڈ میں مظاہروں نے پرتشدد صورتحال اختیار کر لی ہے۔پورٹ لینڈ میں سڑکوں پر ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین نے دکانوں اور گاڑیوں کی شیشے توڑے ہیں۔ مظاہرین نے ایک بڑے کوڑا دان کو نذر آتش کر دیا جبکہ پولیس پر کریکرز پھینکے۔پولیس نے ٹرمپ مخالف احتجاج کو ہنگامے قرار دیا ہے۔ افغانستان میں نیٹو کے کمانڈر جان نکلسن نے کہاہے کہ انہیں اپنا مشن جاری رکھنے کے لیے آئندہ برس بھی کم از کم بارہ ہزار فوجیوں کی ضرورت ہے لیکن کیا ڈونلڈ ٹرمپ ان کا یہ مطالبہ مانیں گے؟میڈیارپورٹس کے مطابق افغانستان میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے امریکی کمانڈر جنرل جان نکلسن ایک’فوجی مشیر‘ ہیں اور واشنگٹن کی نئی قیادت کو وہ صرف اپنی خواہشات اور مطالبات سے ہی آگاہ کر سکتے ہیں۔ جرمن دارالحکومت برلن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھاکہ کامیابی کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ موجودہ اسٹریٹیجی کو جاری رکھا جائے۔ امریکہ کے مختلف شہروں میں صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کے منتخب ہونے کے خلاف مظاہروں اور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے جبکہ مختلف شہروں میں تعصب اورنفرت انگیزوال چاکنگ کی گئی ہے،نیویارک یونیورسٹی کے ٹینڈم اسکول آف انجینئرنگ میں نمازکی جگہ پر بھی تحریر پائی گئی ، مختلف واقعات میں غیر ملکیوں سے نفرت کا اظہار کیا گیا ہے،مظاہرین کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کی صدارت نسلی اور صنفی تقسیم پیدا کرے گی۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکہ کے مختلف شہروں میں صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کے منتخب ہونے کے خلاف مظاہروں اور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے ۔مختلف شہروں میں تعصب اورنفرت انگیزوال چاکنگ کی گئی ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کابینہ کے عہدے پر کرنے کی جانب توجہ مبذول کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں آئندہ چار برسوں کے دوران امریکہ کی خارجہ پالیسی مرتب اور عمل درآمد ہوگی،ممکنہ وزراءکے نام بھی سامنے آ گئے ہیں ،وزیر خارجہ کے لئے نیوٹ گنگرچ ،باب کورکر،جان بولٹن ،وزیر دفاع کےلئے ،جیف سیشنز،سابق سینیٹر جِم ٹیلنٹ، اور قومی سلامتی کے سابق مشیر، اسٹیفن ہیڈلے کے ناموں پر غور کیا جا رہا ہے جبکہ اسٹیون نیوشن وزیر خزانہ ہونگے ۔امریکی میڈیا کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ جن امور پر دھیان دے گی، ان میں عالمی دہشت گردی، مشرق وسطی میں عدم استحکام، روسی سرحد کے ساتھ مشرقی یورپ میں کشیدگی، چین کا بڑھتا ہوا فوجی اور معاشی اثر و رسوخ شامل ہیں۔نو منتخب امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے کامیابی کے بعد 100 روزہ ایکشن پلان جاری کردیا، ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ایکشن پلان احتساب اور واشنگٹن میں تبدیلی لانے کا معاہدہ ہے۔100 روزہ ایکشن پلان کرپشن کو ختم کرنے کیلئے چھ اقدامات سے شرو ع ہو تا ہے۔ جس میں امریکی کارکنوں کی حفاظت، سیکیورٹی اور قانون کی بالادستی جیسے نکات بھی شامل ہیں۔ ایکشن پلان میں وائٹ ہاوس حکام کی بیرون ملک حکومتوں کی جانب سےلابنگ کرنے پر تاحیات پابندی۔ بیس لاکھ غیر قانونی تارکین وطن کا انخلا۔ آزادانہ تجارت کے معاہدے پر دوبارہ مذاکرات۔ٹرانس پیسفک پارٹنرشپ سے واپسی، سکریٹری خزانہ کو چین پرکرنسی کو مصنوعی طریقے سے کنٹرول کرنے والا ملک قراردینے کی ہدایت اور صدر باراک اوباما کی جانب سے جاری کیے گئے غیر قانونی احکامات کو منسوخ کرنا شامل ہے۔ امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈٹرمپ نے کانگریس کا دورہ کیا اور سینیٹ میں قائد ایوان سے ملاقات کی اس موقع پر نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسپیکر ایوان نمائندگان پال ریان سے بھی ملاقات کی۔امریکی میڈیا کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ہیلتھ کیئر، بارڈر سیکورٹی اور روزگار کی فراہمی ان کی اولین ترجیحات میں شامل ہیں ۔ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وائٹ ہاوس اور کانگریس مل کر امریکی عوام کے لیے بہترین اقدامات کریں گے۔امریکی اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدارتی الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کی خبریں سامنے آتے ہی ملک بھر میں اقلیتوں اور خصوصاً مسلمانوں پر حملوں کا آغاز ہوگیا۔ امریکہ کے متعدد شہروں میں افریقی، ہسپانوی اور دیگر اقلیتوں کے خلاف جرائم کی لہر چل پڑی ہے جبکہ مسلمانوں کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مختلف شہروں میں حجاب پہننے والی مسلمان خواتین پر حملے کئے گئے ہیں۔سان ڈیاگو سٹیٹ یونیورسٹی میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے غنڈوں نے ایک مسلمان طالبہ پر حملہ کردیا اور اس پر تشدد کے بعد اس کا بٹوہ اور موبائل بھی فون چھین کر فرار ہوگئے۔ اس طالبہ کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں نعرے لگانے والے غنڈوں نے ان پر محض اس وجہ سے حملہ کیا کہ انہوں نے حجاب پہن رکھا تھا۔ درجنوں مسلمان خواتین کی جانب سے پولیس کو شکایت درج کروائی گئی ہے کہ راہ چلتے افراد نے ان کے سروں سے حجاب چھین لئے اور ان کے ساتھ بدتمیزی کی۔ اس سے پہلے نفرت پر مبنی جرائم کا اتکاب عموماً شدت پسند مرد ہی کرتے تھے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد یہ تبدیلی بھی آئی ہے کہ خواتین بھی ان جرائم کی طرف مائل ہورہی ہیں۔ ایک مسلمان خاتون ماہا عبد اللہ غواب نے بتایا کہ وہ وال مارٹ کے ایک سٹور میں شاپنگ کررہی تھیں کہ ایک سفید فام خاتون ان کی جانب بڑھی اور ان کے سر سے حجاب چھین لیا۔ پھر یہ خاتون پھنکارتے ہوئے بولی ”اب اس کی اجازت نہیں ہے۔ اب تم اسے سر پر نہیں لے سکتیں بلکہ اس کا پھندا بنا کر خود کشی کرسکتی ہو۔“سکول جانے والی مسلمان طالبات کا کہنا ہے کہ وہ حملوں کے خوف سے حجاب پہنتے ہوئے ڈرنے لگی ہیں۔