تازہ تر ین

پانامہ پیپرز …. 43 افراد کیخلاف کریمنل تفتیش

لندن (وجاہت علی خان سے) برطانیہ میں رواں سال اپریل سے جاری پانامہ پیپرز کے سلسلہ میں جاری تفتیش اہم ترین مرحلے میں داخل ہو چکی ہیں اس ضمن میں جلد اہم انکشافات ہونے کی توقع کی جا رہی ہے ”وال سٹریٹ جرنل“ اور ”دی گارڈین“ کی تازہ ترین رپورٹس کے مطابق برطانیہ بھر اور خصوصاً لندن جسے ملک کا فنانشل سٹی بھی کہا جاتا ہے اس پورے شہر کو ممکنہ طور پر مشکوک سمجھا جا رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ لندن بیرون ملک سے آنے والے خریداروں کے لئے محفوظ جنت بن چکا ہے یہ لوگ یہاں مہنگی ترین جائیدادیں خرید کر اپنے کالے دھن کو سفید کرتے ہیں اور یہ تمام خرید و فروخت آف شور کمپنیوں کے ذریعے ہوتی ہیں، ”نیشنل کرائم ایجنسی“ کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ چار سال میں 36 ہزار 342 جائیدادیں صرف لندن میں آف شور کمپنیوں کے ذریعے خریدی گئیں اور مختلف قانون نافذ کرنے والے اداروں اربوں پونڈ کی غیر قانونی اور منی لانڈرنگ کے ذریعے برطانیہ آنے والی رقوم اپنے قبضہ میں لیں ایک اندازے کے مطابق 100 ارب پونڈ ہر سال یہاں کالا دھن سفید ہوتا ہے، برطانیہ کے لارڈ چانسلر فلپ ہیمونڈ نے پارلیمنٹ کو تحریری طور پر وضاحت کی ہے کہ سابق وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی بنائی ہوئی ٹاسک فورس جس میں ملک کی آٹھ اہم ایجنسیاں شامل ہیں وہ نیشنل آڈٹ آفس کے ساتھ مل کر 6,500 ایسے امیر ترین برطانوی افراد کی تفتیش کر رہی ہیں جن کے بارے میں شک ہے کہ وہ پانامہ پیپرز کی رپورٹ کے مطابق آف شور کمپنیوں کے ذریعہ کاروبار کرتی ہیں لارڈ چانسلر کے مطابق ان میں سے 22 افراد کے خلاف سول اینڈ کریمینل انویسٹی گیشن شروع کر دی گئی ہے جن پر ٹیکس چوری کے الزامات ہیں اور ان کا تعلق آف شور کمپنیوں سے ہے اور ان کے نام بھی پانامہ لیکس میں آئے ہیں، اس ضمن میں بعض پارلیمانی ذرائع کے مطابق مذکورہ 22 افراد کے علاوہ ایجنسیاں 43 مزید افراد کو بھی جلد شامل تفتیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں جو لندن میں پراپرٹی کا بڑے پیمانے پر بزنس کرتے ہیں ان میں سے زیادہ تر افراد کا تعلق پاکستان سمیت دیگر بیرونی ممالک سے ہے لیکن ان میں سے بعض برطانوی شہریت بھی رکھتے ہیں اور ان کے نام پاناما پیپرز میں بھی آیا ہے، یاد رہے کہ وزیراعظم پاکستان کے بیٹوں حسن نواز اور حسین نواز بھی لندن میں پراپرٹی کی خرید و فروخت کے کاروبار سے منسلک ہیں اور ان کا نام بھی پاناما پیپرز میں شامل ہے تاہم ذرائع نے اس بات کی تصدیق یا تردید نہیں کی کہ ان دونوں کے نام ان 22 یا 43 افراد میں شامل ہیں جن سے ٹاسک فورس مصروف تفتیش ہے، لارڈ چانسلر نے ارکان پارلیمنٹ کے استفسار پر اپنے خط میں لکھا ہے کہ حکومت اس رجحان کو ایک معاشی جُرم سمجھتی ہے اور اس کے تدارک کیلئے آئندہ سخت ترین اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتی ہے برطانیہ کے ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کے مطابق ٹاسک فورس کے ممکنہ ایکشن کے پیش نظر سینکڑوں افراد اپنے اکاﺅنٹس اَپ ڈیٹ کرنے کیلئے ٹیکس اتھارٹیز سے رجوع کر لیا ہے تا کہ قانون کی گرفت سے بچا جا سکے، ذرائع کے مطابق حکومت کا زیادہ تر فوکس ان پراپرٹی ٹائیکونز پر ہے جو لندن میں پراپرٹی کے کاروبار سے منسلک اور ارب پتی ہیں، رپورٹس کے مطابق لندن کے بہت سے وکلاءاور اکاﺅنٹینٹس موساک فونیسکا کے ساتھ کام کر رہے تھے ان کی بھی تفتییش ہو گی، لارڈ چانسلر کے مطابق ہم اپنے بین الاقوامی پارٹنرز اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں اور ہمارے تفتیش کار پانامہ سے بھی ہو کر آئے ہیں، دریں اثناءپانامہ میں قائم فرم موساک فونیسکا نے اپریل میں دنیا بھر میں اپنے ان گاہکوں کے نام ظاہر کئے تھے جو آف شور کمپنیوں کے ذریعے ٹیکس بچاتے تھے کمپنی نے 11.5 ملین فائلیں افشا کی تھیں ان میں وزیراعظم نوازشریف کے بچوں سمیت پاکستان کے دیگر سیاست دانوں اور دیگر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے نام بھی شامل تھے۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain