واشنگٹن، بیجنگ، اسلام آباد (آئی این پی) نو منتخب امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے بعد امریکا میں نفرتیں بڑھنے لگیں،ٹریفک کی خلاف ورزی پر جرمانے کی بجائے پولیس اہلکار نے پاکستانی نژاد ڈرائیورکو دھمکی دی کہ میں تم سے تمام چیزیں چھین لوں گا،پاکستانی نژادشہری سی این این کے صحافی ڈیوڈ گریگوری کاڈرائیورہے،جو واقعے کے وقت کارمیں پچھلی نشست پرموجود تھے، انہوں نے یہ جملہ سنا بھی اوربعدمیں بتایا کہ پولیس آفیسر نے ڈارئیور کو یہ بھی دھمکی دی کہ میں تمارا سر بھی اتار لوں گا۔اس واقعے کو انٹر نیٹ پر شیئر کئے جانے کے بعد پولیس حکام اورمیئر نے امریکی صحافی سے رابطہ کیااور پاکستانی ڈرائیور سے ملاقات کی اور کہا کہ پولیس اہلکار کی شناخت کیلئے تفتیش شروع کردی گئی ہے۔ دریں اثنا امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ مسلمانوں کو ہراساں کرنا چھوڑدیں۔ ٹرمپ نے کہاکہ وہ یہ کہناچاہتے ہیں کہ ایسا مت کریں، یہ خطرناک ہے کیونکہ وہ اس ملک کو اکٹھاکرنے جارہے ہیں۔خلیج ٹائمز کے مطابق یہ پہلی مرتبہ ہے کہ مسلمانوں کو ہراساں کیے جانے کی رپورٹس پر نومنتخب صدر نے کھلے عام ایسا نہ کرنے کی ہدایت کی۔اپنے ایک انٹرویومیں ڈونلڈٹرمپ کاکہناتھاکہ مجھے یہ سن کر بہت دکھ ہوااور میں کہتاہوں کہ اسے روکیں، میں یہ کہتاہوں اور یہ کیمرے کے سامنے کہتاہوں، اسے روکیں۔وہ مبینہ طورپر مسلمانوں، سیاہ فام اور اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز مہم سے متعلق سوال کا جواب دے رہے تھے ۔وہ درجنوں فحش ویب سائٹس جو امریکی حکومت چلارہی ہے ، لیکن کیوں اور کیسے؟ حقیقت جان کرکوئی شخص ہمت بھی نہ کرے کہ۔ ۔ ۔ ٹرمپ کاکہناتھاکہ معاشرے کے کچھ افراد ان سے خوفزدہ ہیں کیونکہ وہ انہیں جانتے نہیں، وہ کہناچاہتے ہیں کہ نہ ڈریںاس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ مجھے نہیں جانتے، ہم اپناملک واپس لینے جارہے ہیں۔ٹرمپ کاکہناتھاکہ ابھی ابھی الیکشن ہوئے ہیں اور کچھ لوگوں کو وقت چاہیے ، لوگ احتجاج کررہے ہیں ، اگر ہیلری کامیاب ہوجاتیں اور اگر میرے لوگ سڑکوں پر نکلتے توہرکسی نے کہناتھاکہ یہ خطرناک بات ہے اور رائے متضاد ہوتی ، یہاں دوہرامعیار ہے ۔ جبکہ پاکستان نے نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ انکے ایک قریبی ساتھی کے ذریعے رابطہ کیا ہے تاکہ دہشت گردی کیخلاف جنگ اور جنوبی ایشیا کی پیچیدہ صورتحال جیسے اہم امور پر نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کی جا سکے۔ میڈ یا رپو رٹ کے مطا بق ان رابطوں سے آگاہ ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ امریکہ میں پاکستانی سفیر جلیل عباس جیلانی نے وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے ڈونلڈ ٹرمپ کو خط لکھا جس میں انہیں صدر منتخب ہونے کی مبارکباد دی اور پاکستانی حکومت کی طرف سے مل کر کام کرنیکی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے۔ ان سفارتی ذرائع کے علاوہ حکومت نے غیر روایتی ذرائع اختیار کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیروں کے ذریعے بھی بالواسطہ رابطہ کیا ہے۔ ان مشیروں میں سے ایک پاکستانینژاد امریکی ساجد تارڑ ہیںجن سے پاکستان نے رابطہ کیا ہے۔ساجد تارڑ اس وقت نمایاں ہو کر سامنے آئے جب انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے کی تحریک شروع کی جو کہ ایک جراتمندانہ اور غیرمقبول فیصلہ تھا کیونکہ پاکستانیوں سمیت مسلمانوں کی اکثریت ہلیری کلنٹن کی حامی تھی۔ تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد ساجد تارڑ امریکہ میں نمایاں شخصیت بن کر ابھرے ہیں، وہ ٹرمپ کی انتخابی مہم چلانے کے لیے مقرر کیے گئے 36مشیروں میں سے ایک ہیں۔ ساجد تارڑ کا تعلق منڈی بہاو¿الدین سے ہے وہ 30 سال قبل امریکا گئے تھے انھیں 90 کی دہائی میں امریکی شہریت ملی، وہ اکثر پاکستان آتے رہتے ہیں اور اسلام آباد میں بھی انکا ایک گھر بھی ہے۔ انھیں ٹرمپ انتظامیہ میں اہم ذمہ داری سونپے جانے کا امکان ہے۔ساجد تارڑ نے فلوریڈا سے خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے اس امر کی تصدیق کی کہ حکومت پاکستان نے ان سے رابطہ کیا ہے تاکہ ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی حکومت تک رسائی حاصل کی جا سکے۔ تاہم انھوں نے واضح کیا کہ ٹرمپ دہشتگردی کیخلاف بہت سخت موقف اختیار کرینگے، اس معاملے پر اب سیدھی بات ہوگی۔ انھوں نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو اپنا گھر درست کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ دہشتگردی کے معاملے پر محض لفاظی برداشت نہیں کرے گی۔انہوں نے کہا کہ پراو¿ڈ پاکستانی اور پراو¿ڈ مسلم امریکن کے طور پر وہ نئے امریکی صدر سے درخواست کرینگے کہ وہ پاکستان کی مالی امداد پر نظر ثانی کریں۔ کئی دہائیوں سے امریکی امداد عام پاکستانیوں تک نہیں پہنچ سکی بدقسمتی سے صرف امیروں اور اشرافیہ نے ہی اس سے فائدہ اٹھایا ہے یہ عمل اب تبدیل ہونا چاہیے۔ انھوں نے کہاکہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے ٹرمپ اپنے سابق صدور کی پالیسیوں کا دوبارہ جائزہ لیں گے اور یقیناً وہ افغانستان اور جنوبی ایشیا کے حوالے سے اپنی حکمت عملی اختیار کرینگے۔ علاوہ ازیںنومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غیر قانونی مہاجرین کو امریکا سے نکل جانے پر زور دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ صدراتی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی وہ 30 لاکھ مہاجرین کو ملک بدر کردیں گے یا انھیں قید کرلیا جائے گا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹی وی چینل سی بی ایس کے پروگرام 60 منٹس میں اعلان کیا کہ یا وہ ان مہاجرین کو ملک سے نکال دیں گے یا انھیں قید کرلیا جائے گا۔نو منتخب امریکی صدر نے کہا کہ ہم کیا کرنے جارہے ہیں کہ ایسے افراد کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائےگی جو مجرم ہیں اور ان کے جرائم کا ریکارڈ موجود ہے، گینگ کے افراد، منشیات فروخت کرنے والے، یہ تقریبا 20 لاکھ ہیں اور شاید 30 لاکھ بھی ہوسکتے ہیں۔یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اس سے قبل مسلمانوں کے خلاف تعصب اور ان کو ملک سے نکالنے کے بیانات پر کئی مرتبہ تنقید کی زد میں آچکے ہیں اور یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ انھوں نے اس قسم کے موقف کا اظہار کیا وہ اس قبل بھی مہاجرین کو ملک سے نکالنے کے حوالے سے اپنے بیانات کی وجہ سے میڈیا کی شہ سرخیوں کا حصہ بنتے رہے ہیں۔خیال رہے کہ 9 نومبر 2016 کو امریکا میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی شکست اور ہیلری کلنٹن کی کامیابی سے متعلق تمام تبصرے، تجزیے اور سروے نتائج غلط ثابت ہوئے تھے اور ری پبلکن پارٹی کے رہنما ڈونلڈ ٹرمپ ڈیموکریٹک پارٹی کی ہیلری کلنٹن کو اپ سیٹ شکست دے کر 4 سال کے لیے امریکا کے 45 ویں صدر منتخب ہوگئے۔ دریں اثنائنو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اہم عہدوں کے لیے افراد کی انتخاب کا عمل جاری ہے۔ چیف آف اسٹاف اور مشیر خاص کے ناموں کا اعلان کردیا ہے۔نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مختلف عہدوں کے لیے افراد کی انتخاب کا عمل جاری ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاﺅس چیف آف اسٹاف کے لیے رینس پرائبس جبکہ چیف اسٹریٹجسٹ اور مشیر خاص کے لیے اسٹیو بینن کو نامزد کردیا ہے۔ٹرمپ کی جانب سے جاری بیان میں ان کا کہنا تھا کہ اسٹیو بینن اور رینس پرائبس دونوں بہت قابل افراد ہیں جنہوں نے الیکشن مہم کے دوران بھرپور محنت کی اور ہمیں تاریخی فتح سے ہمکنار کرایا اور اب یہ مل کر امریکا دوبارہ عظیم بنانے میں بھی مدد کریں گے۔پریبس نے صدارتی مہم کے دوران ٹرمپ اور رپبلکن پارٹی کے درمیان پل کا کام کیا تھا۔وہ 2011 میں آر این سی کے چیئرمین منتخب ہوئے تھے۔ انھوں نے پارٹی کے ترجمان اور چیف فنڈ ریزر کی حیثیت سے بھی خدمات سرانجام دی ہیں۔انھوں نے کہا کہ وہ ٹرمپ کا چیف آف سٹاف بننے پر فخر محسوس کر رہے ہیں۔’میں نومنتخب صدر اور قوم کی خدمت کا یہ موقع ملنے پر ان کا بہت شکرگزار ہوں۔ ہم ایسی معیشت وضع کریں گے جو سب کے کام آئے گی، ہم اپنی سرحدیں محفوظ بنائیں گے، اوباما کیئر کو ختم کریں گے اور بنیاد پرست اسلامی دہشت گردی کو شکست دیں گے۔’نئی انتظامیہ کے لیے بڑا چیلینج ڈونلڈ ٹرمپ اور رپبلکن پارٹی کے مرکزی دھارے کے درمیان مفاہمت کا مسئلہ ہو گا۔ انتخابی مہم کے درمیان ان میں خلیج پیدا ہو گئی تھی۔ دوسری جانب چینی صدر شی جن پنگ اور نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بات پر رضامندی ظاہر کی ہے کہ دونوں جلد ہی دونوں ممالک کے تعلقات پر مذاکرات کے لیے ملاقات کریں گے۔چین کی سرکاری میڈیا سی سی ٹی وی کے مطابق سوموار کو شی جنپنگ نے ٹیلیفون پر مسٹر ٹرمپ سے بات چیت کی ہے اور کہا ہے کہ دنیا کی دو بڑی معیشت کو ایک دوسرے کے تعاون کی ضرورت ہے اور یہ کہ بہت سی چیزوں میں تعاون ہو سکتا ہے۔خیال رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی مہم کے دوران چین خلاف بولتے رہے ہیں اور انھوں نے چین کے بنے سامان پر 45 فیصد کا محصول لگانے کی بھی بات کی تھی۔منتخب ہونے سے قبل مسٹر ٹرمپ نے ایشیا کی بڑی معیشت چین کو امریکہ کا ‘دشمن’ بھی قرار دیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ چین نے مصنوعی طور پر اپنی کرنسی کی قیمت کم رکھی ہے تاکہ وہ اپنے برآمدات کو تقویت پہنچا سکے۔سی سی ٹی وی کے مطابق صدر جن پنگ اورڈونلڈ ٹرمپ نے ‘قریبی تعلقات برقرار رکھنے، بہتر عملی تعلقات بنانے اور باہمی مفاد کے مسائل اور باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے قریبی ممکنہ تاریخ میں مذاکرات کرنے کا عہد کیا ہے۔’مسٹر ٹرمپ نے ‘قوت کے ساتھ امن قائم کرنے’ اور امریکی بحریہ کو مضبوط بنانے کی پالیسی اپنانے کا عہد کیا ہے۔بہر حال مسٹر ٹرمپ نے دور دراز کے فضول کے مسائل میں اپنی عدم دلچسپی کا عندیہ دیا اور ٹرانس پیسفک پارٹنرشپ کے تحت آزاد تجارت کے معاہدے کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔خیال رہے کہ اس مجوزہ معاہدے میں بہت سے ایشائی ممالک شامل ہیں اور اس سے وہاں امریکی اثرورسوخ میں اضافہ ہوگا لیکن امریکہ میں روزگار کی کمی کے سبب اسے مسٹر ٹرمپ نے اسے زیادہ اہمیت نہیں دی۔سی سی ٹی وی کے مطابق مسٹر ٹرمپ نے چین کو بڑا اور اہم ملک قرار دیا اور اس کے ساتھ کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ان کے خیال سے چین امریکی تعلقات دونوں ممالک کے لیے ‘سودمند’ ہیں۔ موجودہ صورتحال کے حوالے سے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ کو ماحولیاتی تبدیلیوں پر توجہ دینا ہوگی۔نیوزی لینڈ کے شہر ولنگٹن میں میڈیا سے گفتگو کے دوران جان کیری نے کہا کہ وہ 20 جنوری کو صدر براک اوباما کے عہدہ صدارت کی مدت ختم ہونے تک پیرس کے تاریخی معاہدے پر عملدرآمد کےلئے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ امریکیوں کی اکثریت کو اس بات کا ادراک ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیاں درحقیقت وقوع پذیر ہو رہی ہے اور اس معاملے پر توجہ دی جانی aچاہیے۔جان کیری نے کہا کہ ہم انتظار کریں گے کہ نئی انتظامیہ کس طرح اس معاملے کو دیکھتی ہے تاہم میرا خیال ہے کہ ہم درست سمت میں ہیں اور یہی وہ راستہ ہے جس کے لیے امریکی عوام بھی پرعزم ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ انتخابی مہم اور طرز حکمرانی میں فرق ہوتا ہے اور میرا خیال ہے کہ نئی انتظامیہ کو اس معاملے پر اپنی وضاحت پیش کرنے کی ضرورت ہوگی۔