تازہ تر ین

سرحدوں پر بھارتی حملے …. کیا فوج اور حکومت کی سوچ مختلف ہے ؟ نامور اخبار نویس ،صحافی ضیا شاہد کی چینل ۵ کے پروگرام میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ بھارت کی جانب سے آئے روز اشتعال انگیزی اور سرحد پر موجودہ حملوں کے بعد ایک بات سامنے آئی ہے کہ فوج اور حکومت کا اجازت کے حوالے سے نکتہ نظر ایک نہیں ہے بالکل مختلف ہے۔ بھارت ہمارے بارڈر پر اور ایل او سی پر بار بار حملے کر رہا ہے جبکہ کسی پارلیمنٹ میں موجودہ صورتحال بارے کوئی شور نظر نہیں آتا جس کا مطلب ہے کہ حکومت نہیں مجھتی کہ پاکستان پر حملہ کیا جا رہا ہے۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ کوئی سیاسی جماعت اس بات کو نہیں سمجھ رہی کہ یہاں دو قومی نظریے کے خلاف تھیوری پروان چڑھ رہی ہے۔ ان معاملات میں صرف حکومت کو ہی ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ بھارت کی شہریت اپلائی کرنے والے برہمداغ بگٹی کو واپس بلا کر سینے سے لگانے کو تیار ہیں، ہر دوسرے تیسرے دن بیان آتا ہے کہ فراری واپس آ رہے ہیں خان آف قلات و دیگر بلوچ رہنما واپس آ جائیں گے جبکہ صورتحال مختلف ہے۔ اے این پی کے نظریات ڈھکے چھپے نہیں ہیں ان کے بزرگ کہتے تھے کہ ہم پاکستان بنانے کی غلطی میں شامل نہیں۔ اچکزئی نے بیان داغ دیا کہ خیبر پختونخوا افغانستان کا حصہ ہے۔ ن لیگ کے ایک لیڈرکے سوشل میڈیا پر بیانات ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے عوام میں کوئی فرق نہیں ہے کھانا پینا، لباس، زبان ایک ہیں صرف بیچ میں ایک سرحد ہے۔ دو تین جماعتوں کو چھوڑ کر سارا ملک ہی دو قومی نظریے کے خلاف کھڑا نظر آتا ہے۔ موجودہ وقت میں ہر محب وطن کو ملک کی سلامتی کیلئے جدوجہد کرنی چاہئے۔ سینئر صحافی نے کہا کہ پانامہ معاملہ پر صرف پاکستان اور بھارت نے کہا کہ اس پر تحقیقات کریں گے۔ دنیا بھر میں کسی اور ملک نے ایسی بات نہیں کی۔ تحریک انصاف نے جب سپریم کورٹ کی ثالثی کو مان لیا ہے تو اسے خاموشی سے انتظار کرنا چاہئے۔ برطانیہ میں وزارت داخلہ کے تحت تحقیقات شروع ہو گئی ہیں جس میں ڈوئچے بنک بل شامل ہے ڈوئچے بنک کے ذریعے ہی نوازشریف کے بچوں کے پیسے منتقل کئے گئے۔ پوری دنیا اب اس معاملے کا کچا چھٹہ سامنے لا رہی ہے۔ تحریک انصاف جب بلاول کے نعروں پر تحسین کے ڈونگرے برسا رہی تھی اس وقت ہی کہا تھا کہ آپ اکیلے کھڑے ہیں اور اکیلے ہی رہیں گے۔ کوئی سیاسی جماعت اس معاملے پر تحریک انصاف کا ساتھ نہیں دے گی۔ پی ٹی آئی کی روزانہ کی چیخ چیخ کر ختم کرنا چاہئے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہئے۔ چینی صدر یا ترک صدر آئی کوئی بھی یہاں آتا ہے تو تحریک انصاف کو پارلیمنٹ میں جانا چاہئے اور یہ تاثر نہیں دینا چاہئے کہ سیاسی جماعتوں میں پھوٹ ہے۔ پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید نے کہا کہ موجودہ حکومت کی ایک خاص فکر اور سوچ ہے جو گاہے گاہے سامنے آتی رہتی ہے۔ پچھلے دنوں بھی یہ سوچ مشاہد اللہ کی صورت میں سامنے آئی تھی، متنازع لیک کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ بھارت بڑا اچھا ہے جب حکومت بنی تو وزیر تجارت نے بھارت کے دورے شروع کر دیئے اور اسے موسٹ فیورٹ نیشن قرار دینے کیلئے زمین آسمان ایک کر دیئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ بھارت کا ہمارے ساتھ رویہ کیا ہے۔ مودی دنیا بھر میں زہر افشانیاں کرتے پھرتے ہیں خود اپنی زبان سے تسلیم کیا کہ مشرقی پاکستان کو الگ کرنے میں کردار ادا کیا۔ اس وقت بھی بلوچستان، کراچی میں دہشتگردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔ ہمارے حکمران طبقے کا مائنڈ سیٹ ہی غلط ہے۔ یہ عوام کے برعکس سوچتے ہیں پاکستان سے ”را“ کا نیٹ ورک پکڑا گیا، بے شمار جاسوس پکڑے گئے ان حالات میں حکومت کو بھارت سے سفارتی تعلقات میں بڑی احتیاط برتنا ہو گی۔ جس حکومت نے آج تک وزیرخارجہ تعینات نہیں کیا ان کی سنجیدگی کا اس سے خوب اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ وزارت خارجہ کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔ دنیا میں کہیں کوئی ملک ایسا ہے جس کا وزیرخارجہ ہی نہ ہو۔ تحریک انصاف نے بھارت کی ہمیشہ کھل کر مذمت کی ہے۔ نریندر مودی کے چہرے کو بے نقاب کیا ہے۔ حکومت کے بھارت کے ساتھ نرم رویئے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اچکزئی اور اسفند یار ولی اگر ملک کے خلاف باتیں کرنے میں تو حکومت کی گود میں بیٹھ کر ہی کرتے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان کی خالق جماعت ہونے کا دعویٰ کرنے والی مسلم لیگ نے ان عناصر کو ساتھ بٹھا رکھا ہے اور ان کی آبیاری اور سرپرستی کر رہی ہے۔ حکومت کا کام تو اس طرح کے عناصر کو نکیل ڈالنا تھا۔ لیگی رہنما اگر محب وطن میں تو ملک دشمنوں کو لگام کیوں نہیں دیتے۔ ملک دشمنوں کی سرپرستی کرنے سے مسلم لیگ کے نام پر دھبا لگتا ہے حکومت کا بھارت اور ملک دشمنوں کے ساتھ رویہ شرمناک ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ دشمن قوتوں کی روک تھام کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں تا کہ دو قومی نطریہ اپنی اصل کے ساتھ زندہ رہے۔ دو قومی نظریہ ہے تو پاکستان کا وجود ہے۔ میاں محمود الرشید نے کہا کہ پانامہ لیکس کے بعد کھل کر سامنے آ گیا کہ نوازشریف اور ان کا خاندان کرپشن میں ملوث ہے۔ ترک صدر کے آنے پر پارلیمنٹ میں چلے جاتے پھر بھی کیا فرق پڑنا تھا لیکن ہم باور کرانا چاہتے ہیں کہ ہم اس کرپٹ وزیراعظم جس پر اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات ہیں کو نہیں مانتے۔ سابق وزیراعظم گیلانی کے خلاف کیس چل رہا تھا تو یہی نواز شریف کہتے تھے کہ عہدہ چھوڑو اور کلیئر ہو کر واپس آﺅ اب اپنے لئے بالکل اصول تبدیل ہو گئے اور ڈھٹائی کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ تحریک انصافکور کمیٹی نے مکمل مشاورت کے بعد پارلیمنٹ میں نہ جانے کا فیصلہ کیا یہ پارٹی کا مجموعی فیصلہ ہے۔ ہم پارلیمنٹ جا کر اپنی ساری سیاسی جدوجہد کو اکارت نہیں کر سکتے۔ کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا۔ یہ کہنا غلط ہے کہ لوگ باہر نہیں نکلے۔ پارٹی کے اندر کوئی اندرونی جھگڑا نہیں ہے۔ پنجاب اسمبلی میں پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی ام کی کمیٹی ہے بڑی سنجیدگی سے اس سے استعفیٰ دینے پر غور کر رہا ہوں۔ کمیٹی کو اگر کسی کو بلانے کا ہی اختیار نہیں ہے تو اس کا کیا فائدہ۔ ایڈیٹر جنرل نے لکھ کر بھیجا کہ لوکل گورنمنٹ میں دو سو ارب کی بے ضابطگیاں ہیں 40 ارب کی ریکوری ہے۔ ڈیڑھ سال سے شہباز شریف اس فائل کو دبا کر بیٹھے ہیں۔ ن لیگ کے رہنما جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ پچھلے دنوں برطانیہ گیا وہاں پارلیمنٹیرنز سے ملا، ہاﺅس آف لارڈز، ہاﺅس آف کامنز، ایمنسٹی انٹرنیشنل، میڈیا اور برطانوی تھنک ٹینکس سے ملاقاتیں کیں اور پاکستان کا موقف بیان کیا۔ ہمیں اچھا رسپانس ملا لیکن برطانوی حکومت کی اپنی مجبوریاں ہیں اس کی بھارت کے ساتھ تیسری بڑی کاروباری پارٹنر شپ ہے۔ ہمارا 5 دن کا دورہ پر ان کا موقف تبدیل نہیں کر سکتا۔ ہم انفرادی طور پر ملاقاتیں کر کے آئے جس کا تھوڑا بہت فائدہ تو ہو گا لیکن جب تک پوری قوم پوری یکسوئی کے ساتھ ملک کی فلاح و بہبود کیلئے کام نہیں کرتی اور تمام ایشوز پر یک زبان نہیں ہوتی کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ ہماری پارٹی کا بھارت کے حوالے سے علیحدہ موقف نہیں ہے جو پورے پاکستان کا موقف ہے وہی ہمارا بھی ہے۔ بھارت نے پہلے دن سے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا۔ ایک نیو کلیئر اور معاشی طور پر مضبوط پاکستان اس کے دل میں کانٹے کی طرح چبھتا ہے۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain