تازہ تر ین

” شبیر شریف کے چھوٹے بھائی ہونے کے ناطے راحیل شریف پر بے پناہ دباﺅ تھا جو انہیں اپنا مقام بنانے میں معاون تھا “ معروف لکھاری ، دانشور ضیا شاہد اور دفاعی تجزیہ کار محمد مکرم خان کا مقبول کالم

شبیر شریف کے چھوٹے بھائی ہونے کے ناطے راحیل شریف کے اوپر بے پناہ دباﺅ تھا جو اُنہیں اپنا مقام بنانے میں معاون تھا۔ لیکن بیک وقت ودشوار ترین بھی۔بریگیڈیئر شوکت قادر ریٹائرڈ ماضی کے دریچوں میں جھانکتے ہوئے لکھتے ہیں۔ 1961ءمیں وہ سینٹ میریز پبلک سکول میں (راولپنڈی) میں زیر تعلیم تھے، شبیر شریف سکول کے آخری سال میں اُن کے سینئر تھے، روایتی حریف سکول کے خلاف شبیر شریف اپنے سکول کی ٹیم کے کپتان تھے اور شوکت قادر جونیئر کھلاڑی، روایتی حریفوں کے درمیان ہاکی میچ سینٹ میریز نے دو کے مقابلے میں تین گول سے جیت لیا لیکن حسب سابق میچ میں تُندی و تیزی کے علاوہ لڑائی جھگڑا بھی ہوا، شائقین میں ٹیم کیپٹن شبیر شریف کے والد میجر محمد شریف بھی موجود تھے جنہوں نے فاتح ٹیم کو اپنے گھر چائے کے لئے مدعو کیا۔ بیگم و میجر شریف کا حسن سلوک اور مہمان نوازی دیدنی تھی، اُس شام سینٹ میریز کی ہاکی ٹیم کے کھلاڑیوں کی ایک پانچ سالہ بچے سے ملاقات ہوئی جس کی دلچسپی بڑے بھائی کے ہم جماعتوں سے زیادہ تین پہیوں والی سائیکل میں تھی، اس کم سن بچے کا نام راحیل شریف تھا، شوکت قادر نے شبیر شریف سے چار برسوں بعد 6 ایف ایف رجمنٹ میں ہی کمیشن لیا جس میں آٹھ سال بعد راحیل شریف نے اِس بٹالین میں بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ قدم رکھا۔
جنرل راحیل شریف کے دورانِ تربیت اُن کے روم میٹ کرنل ریٹائرڈ حنیف بٹ راوی ہیں کہ جب اُن کے کورس نے اکتوبر 1974ءمیں پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں قدم رکھا تو اُنہیں سیکنڈ پاکستان بٹالین کی بابر کمپنی میں بھیج دیا گیا پی ایم اے کی تربیت کے ابتدائی چند روز اِس قدر حیران کن اور چکرا دینے والے ہوتے ہیں کہ کیڈٹس کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ ہو کیا رہا ہے۔ کچھ ایسی ہی کیفیت سے 54 لانگ کورس کی بابر پلٹون دوچار تھی۔ ابھی ایک دوسرے سے تفصیلی تعارف کی نوبت نہیں آئی تھی ، زیادہ تر کیڈٹس کا تعلق سول پس منظر سے ہوتا ہے لیکن عسکری خاندانوں کے چند کیڈٹس بھی کورس میں شامل تھے، ایک شریف النفس نظم و ضبط کا پابند بلکہ نیم تربیت یافتہ عاجز سے لمبے تڑنگے جینٹل مین کیڈٹ کا نام راحیل شریف تھا، کئی ہفتوں تک اُن کے دیگر کورس میٹس کو یہ معلوم ہی نہیں ہو سکا کہ وہ فاتح صبونہ شبیر شریف کے برادر خورد ہیں، پی ایم اے کی انتہائی دشوار گزار تربیت کا آغاز کچھ اتنا خوشگوار نہیں ہوتا، روز و شب کے معمول میں ”رگڑا“ بنیادی عنصر ہے، کرنل حنیف بٹ کے بقول راحیل شریف نے ”رگڑا“ بھی خوب کھایا، حالانکہ انسٹریکٹر افسروں اور نان کمیشنڈ افسروں کو ہی نہیںسینئر کیڈٹس کو بھی معلوم ہو گیا تھا کہ راحیل شریف شبیر شریف کے چھوٹے بھائی ہیں اور کیپٹن ممتاز شریف کے بعض دوست افسر پی ایم اے ہی میں تعینات تھے پی ایم اے کی تربیت کے دوران شب و روز کو پہیہ کم از کم نہیں لگتا، ہر دن دراز اور ہر شب طویل ہوتی چلی جاتی ہے درس و تدریس، جسمانی فٹنس کی تربیت، ملٹری ڈرل، چھوٹے ہتھیاروں کی سکھلائی اور نجانے کیا کیا شامل ہوتا ہے۔
پی ایم اے کی تربیت کا لازمی ایک جزو بے رحمانہ باکسنگ مقابلہ ہے جس میں جیت ہار کی اہمیت نہیں ہوتی بلکہ دیکھا یہ جاتا ہے کہ کون کیسے لڑا اور اس نے اپنے حریف کا سامنا کس طرح کیا، راحیل شریف کی حتمی زور آزمائی باکسنگ رِنگ میں اُن کا حریف کے تابڑ توڑ مکوں کا سامنا کرنا اور مکے رسید کرنا آج بھی اکتالیس سال گزرنے کے باوجود اُن کے ساتھیوں کے اذہان سے محو نہیں ہوا، معلوم نہیں کس کی جیت ہوئی یا ہار لیکن راحیل شریف اور اُن کے مدِّمقابل کی باکسنگ، باﺅٹ 54لانگ کورس کی یادگار پنجہ آزمائی تھی، عینی شاہدین کہتے ہیں کہ طویل القامت اور کسرتی جسم کے مالک راحیل شریف کے مدمقابل بھی کم نہیں تھے، ایک دوسرے پر دل کھول کر مکے برسانے کے باوجود راحیل شریف کی زیر لب مسکراہٹ ویسی ہی تھی جیسی آج دیکھی جاتی ہے۔ اُن کے چہرے کے تاثرات سے ایسا محسوس نہیں ہوا کہ اُن کے جبڑے ہل چکے ہیں اور کان سائیں سائیں کر رہے ہیں۔
راحیل شریف کی باکسنگ باﺅٹ کا تذکرہ کر ہی چکے ہیں ”یرموک‘’ نام کی ایک مشق صرف ”پانچ دن“ پر محیط ہوتی ہے جس میں باون کلو کے قریب سامان اور ذاتی ہتھیار یعنی رائفل یا لائٹ مشین گن سمیت کیڈٹس کو پانچ روز میں کوئی سوا سو میل کا سفر باپیادہ طے کرنا ہوتا ہے، جس کاآغاز ملٹری اکیڈمی کے مین گیٹ اور اختتام اُس سے ملحق گراﺅنڈ میں ہوتا ہَے، پانچ دن کی اِس جانگسل ایکسرسائز میں نالہ ڈور جِسے چھوٹا موٹا دریا کہنا مناسب ہو گا، بیچوں بیچ چلتے ہوئے ایبٹ آباد کی نواحی پہاڑی سربن ڈھاکہ کی چوٹی سے اتر کراونچی نیچی کھایوں سے گزرتے ہوئے پہلا پڑاﺅ حویلیاں ہوتا ہے، پہاڑوں، ندی، نالوں، کھیتوں، کھلیانوں، اونچی نیچی پہاڑیوںجو کاکول سے قریب 65 میل کے فاصلے پر واقع گھاٹیوں سے ہوتا ہوا حطار کے قریب پہنچ کر اختتام پذیر نہیں ہوتا….بلکہ یہ واپس اتنا ہی سفر کاکول اکیڈمی واپس آنے کے لئے طے کرنا ہوتا ہے جوکیڈٹس کی قوتِ برداشت کا شاید سب سے بڑا امتحان ہے، ایک پلٹون قریباً تیس کیڈٹس پر مشتمل ہوتی ہے جو تین سیکشن منقسم ہوتی ہے۔ ہر سیکشن کے نو کیڈٹ کے پاس ذاتی رائفل اور دسویں کیڈٹ کو مشین گن تھمائی جاتی ہے جس کا وزن قریباً دس کلو گرام سے زائد ہوتا ہے۔ مشین گن کی ساخت سے جو قارئین ناواقف ہوں اُن کے لئے یہ لکھنا ضروری ہے کہ لوہے کی اِس آہنی پُرزے کی ہئیت جسمانی طور پر مضبوط ترین کیڈٹ کو بھی تھکا دینے کے لئے کافی ہے۔
(جاری ہے)

”یرموک“ کی ابتداءسے اختتام تک پانچ روز مسلسل اور 125 میل کا فاصلہ راحیل شریف نے مشین گن کاندھے پر رکھ کرتن تنہا طے کیا، ویسے تو اِس طرح کے کردار ہر کورس میں موجود ہوتے ہیں لیکن ہائی لانگ کورس کے جن کیڈٹس نے یہ کارنامہ انجام دیا اُن میں راحیل شریف بھی شامل تھے، طلوع آفتاب سے شروع ہونے والا سفر بعض اوقات غروب آفتاب تک بھی جاری رہتا، آبلہ پا کیڈٹس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ٹیم پر سدا باون کلو گرام وزن تو ہر حال میں اُٹھاتا ہی ہے کسی طور ایل ایم جی سے جان چھوٹ جائے، جو کندھوں کے لئے الگ وبال جان سمجھی جاتی ہے۔ ایل ایم جی توجیسے راحیل شریف کے ساتھ چپک ہی گئی ہو البتہ دوپہر کے آرام میں بے اختیار اُن کے منہ سے نکل جاتا ”ایل ایم جی اُٹھانے کے لئے میں ہی رہ گیا ہوں“ لیکن پانچ روز مسلسل ایل ایم جی اُٹھانے کا ریکارڈ اپنے نام لکھوا لیا، ڈیڑھ سالہ تربیت کے بعد جسمانی طور پر مضبوط پی ایم اے کے کیڈٹس کے لئے ”پیرا ٹروپنگ“ یعنی ہوائی جہاز سے چھلانگیں لگانے والے کورس کے لئے منتخب ہوئے اکا دکا کیڈٹس کو چھوڑ کر قریباً سب کی خواہش ہوتی ہے کیونکہ وردی پر نیلا ونگ کے باعث کشش ہوتا ہے۔ محدود نشستوں کی وجہ سے قریباً تین چوتھائی کورس ہی پیرا ونگ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔جس کے لئے اعلیٰ درجے کی فزیکل فٹنس لازم ہے۔ راحیل شریف اس میں کامیاب نہ رہے، ہائی لانگ کورس بحیثیت مجموعی ایم اے کی تاریخ کا ”پنگے باز کورس“ نہیں ہے، راحیل شریف کسی پنگے بازی میں براہ راست حصہ نہ لے کر ہی کورس کی مجمووعی سزا کے حقدار رہے۔ شرارتی کورس میٹس سے شکوہ کیا نہ کبھی ماتھے پر شکن آئی، دوسروں کے لئے کی سزا بھی خندہ پیشانی سے قبول کی۔

عسکری زندگی کے ابتدائی ایام سے ہی اُنہیں مضبوط کردار اور آہنی اعصاب کا مالک سمجھا جاتا ہے، فولادی عزم کے حامل راحیل شریف کو پی ایم اے کاکول سے اُن کے شہید برادر محترم کی 6 ایف ایف رجمنٹ میں سیکنڈ لیفٹیننٹ تعینات کیا گیا تو اُن کی عمر 20 برس سے چند ماہ ہی زیادہ تھی، درخشاں عسکری تاریخ کی حامل 6 فرنٹیئر فورس رجمنٹ کے نوجوان افسر سیکنڈ لیفٹیننٹ راحیل شریف نے ابتدائی سروس میں پیشہ وارانہ کورسز امتیاز سے پاس کئے لیکن اُنہیں راحیل شریف سمجھنے کی بجائے شبیر شریف کا برادرخورد ہی سمجھا جاتا رہا، شبیر شریف کے علاوہ اُن کے دوسرے بڑے بھائی کیپٹن ممتاز شریف جنہوں نے بطور کیپٹن فوج سے بعض وجوہات کی بنا پرا ستعفیٰ دے دیا تھا، کا شمار بھی بہادر فوجی افسروں میں ہوتا تھا جنہیں ستارہ¿ بسالت کے اعزاز سے نوازا گیا۔ سیکنڈ لیفٹیننٹ راحیل شریف 6 ایف ایف رجمنٹ میں تعینات ہوئے تو یونٹ کا ہراول دستہ اندرون بلوچستان تین سال کی بلوچوں کی باغیانہ کارروائیوں کے خلاف پوری کر کے پشاور پہنچ رہا تھا، تین چوتھائی یونٹ اور کمانڈنگ آفیسر تین ماہ بعد پشاور پہنچے، اُن کے اولین کمپنی کمانڈر میجر شوکت قادر بعد ازاں بریگیڈیئر لکھتے ہیں۔
”میں میجر شبیر شریف کا سکول میں جونیئر تھا لیکن میرے اُن سے خاندانی مراسم تھے، اِس ناطے سے میں راحیل شریف کو دورِ کم سنی سے ہی جانتا تھا۔( تاہم میں راحیل شریف کو بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ دیکھ کر ازحد حیران ہوا جو اپنے شہید بھائی سے بالکل متضاد تھے۔“

شبیر شریف جلد باز اور ’بلند‘ لہجے میں بات کرنے والے بھڑکیلے جارحانہ انداز کی حامل شخصیت اور خطرات کو ہمیشہ خود دعوت دیتے تھے۔ اُس کے برعکس راحیل شریف نرم خو، حد درجہ محنتی ہونے کے علاوہ مو¿دب اور بااخلاق، مصیبت کو کبھی گلے نہیں لگایا، لیکن شبیر شریف سے کم مو¿ثر نہیں تھے۔ شبیر شریف کی طرح ہی 6 فرنٹیئر فورس رجمنٹ کے جوانوں، سردار صاحبان اور افسروں میں یکساں مقبول جو اُن کی اس لئے بھی عزت و تکریم کرتے تھے کہ وہ شبیر شریف کے چھوٹے بھائی ہیں۔ راحیل شریف کو متضاد شخصیت کے باعث اپنا مقام پیدا کرنے میں دشواریوں کا سامنا تھا، لیکن اُنہوں نے اُمید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھورا، عسکری پس منظر نہ سمجھنے والے قارئین کے لئے لکھا چاہ رہا ہوں کہ راحیل شریف کی رجمنٹ کے سپاہ کو اُن کی شکل میں شبیر شریف میسر تھے اور اُن سے ویسی ہی توقعات وابستہ تھیں، عام سپاہی عمومی طور پر جارحانہ رویہ پسند کرتے ہیں، راحیل شریف نے اپنے ملٹری دور کا آغاز انتہائی شاندار طریقے سے کیا اور ابتدائی چار سال سروس کے بعد گلگت میں موجود انفنٹری بریگیڈ کے گریڈ 3 آفیسر کے طور پر منتخب کیا جانا ازخود تابندہ اور روشن مستقبل کی ابتدا تھی اُن کی سالانہ کارکردگی کی رپورٹیں نہایت اعلیٰ اور پیشہ وارانہ کورسز میں کارکردگی ارفع تھی، جو اُن کی چالیس سالہ عسکری خدمات کا طرہ امتیاز رہا ہے۔ اُنہیں جرمنی میں کمپنی کمانڈر کورس کے لئے منتخب کیا گیا جو اُن کے لئے باعثِ اعزاز تھا۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain