اسلام آباد(اے این این) فیڈرل بورڈ آف ریوینیو کی پاناما پیپز میں شامل تقریبا 400 پاکستانی شہریوں کے خلاف تحقیقات اگلے مرحلے میں داخل ہو گئی ہیں جبکہ تین ماہ قبل وجود میں آنے والے ایف بی آر کے ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن (ڈی آئی آئی)نے بھی منی لانڈرنگ، انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس کی چوری اور ایکسائز قوانین کی خلاف ورزی کے مقدمات درج کرنا شروع کردیے ہیں۔ڈی آئی آئی نے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کے حوالے سے اپنا اولین مقدمہ ایک بزنس ٹائیکون کے خلاف درج کرلیا ہے۔ایک سینئر عہدے دار نے بتایا کہ اب ایف بی آر پاناما گیٹ کے تناظر میں سامنے آنے والے کیسر پر عمل درآمد کے مرحلے میں داخل ہورہا ہے۔ایف بی آر نے پاناما لیکس کے معاملے پر اپوزیشن کے دبا و¿پر وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں حسن نواز، حسین نواز اور مریم کو ستمبر میں نوٹسز جاری کیے تھے۔ایف بی آر کے ترجمان ڈاکٹر اقبال نے بتایا کہ انفورسمنٹ اسٹیج میں ان لوگوں کے خلاف فردا فردا کارروائی کی جائے گی جنہوں نے جاری کردہ نوٹسز کے جواب نہیں دیے۔انہوں نے بتایا کہ اس مرحلے میں تعزیراتی اقدامات اور جرمانے عائد کیے جاسکتے ہیں اور کیس خصوصی جج کو بھیجا جاسکتا ہے۔ایف بی آر کی جانب سے 400 سے زائد شخصیات کو جاری کیے جانے والے نوٹسز میں انہیں ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اپنی آفشور کمپنیوں کی ملکیت اور انہیں خریدنے میں استعمال ہونے والے پیسے کا ذریعہ آمدنی 30 یوم کے اندر اندر بتائیں۔ایف بی آر کے عہدے دار نے بتایا کہ ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کے قیام سے قبل منی لانڈرنگ اور ایکسائز قوانین کی خلاف ورزیوں کے کیسز وفاقی تحقیقاتی ایجنسی(ایف آئی اے)کو تحقیقات کے لیے بھیجے جاتے تھے۔انہوں نے مزید بتایا کہ مالیاتی جرائم کو ترمیم شدہ اینٹی منی لانڈرنگ(اے ایم ایل)ایکٹ 2010 میں شامل کیے جانے کے بعد ڈی آئی آئی کو یہ اختیارات دیے گئے کہ جب اور جیسے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا فنانشل مانیٹرنگ یونٹ(ایف ایم یو)تحقیقات کے لیے کیسز ایف بی آر کو بھیجے وہ منی لانڈرنگ کے لیے کی جانے والی ٹیکس چوری کی تحقیقات کرے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اے ایم ایل ایکٹ میں حالیہ ترامیم کے بعد ایف بی آر کو یہ اختیار حاصل ہوگیا ہے کہ وہ ٹیکس چوری اور ایکسائز قوانین کی خلاف ورزی کے کیسز دیکھ سکے اور سیکشن 9(1) کے تحت متعلقہ افراد کو نوٹسز بھیج سکے۔اگر نوٹس کا جواب 30 یوم کے اندر نہیں آتا تو وفاقی حکومت اے ایم ایل ایکٹ کے تحت کارروائی عمل میں لاسکتی ہے۔ایک سوال کے جواب میں ایف بی آر کے عہدے دار نے کہا کہ یونائیٹڈ ریفریجریٹرز کمپنی کے مالک صنعت کار بشیر داد اور ان کی اہلیہ مریم داد کے خلاف مقدمے کا اندراج بڑی کامیابی تھی کیوں کہ ڈائریکٹوریٹ کے قیام کے بعد مبینہ طور پر منی لانڈرنگ کا سب سے بڑا کیس تھا۔ٹیکس حکام ایف بی آر کراچی کے خصوصی جج کے احکامات پر ان کے 19 ارب روپے مالیت کے بینک اکانٹس پہلے ہی منجمد کرچکے ہیں۔