لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) خبریں گروپ کے چیف ایڈیٹر سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا بھارت کا دورہ کرنے کا فیصلہ بھی غلط تھا، اگر چلے بھی گئے تھے تو پھر ڈپلومیسی کی زبان اختیار نہیں کرنی چاہئے تھی۔ وہ دوسرے ملکوں سے کہلوانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کی بڑی متوازن تقریر تھی۔ وزارت خارجہ علم، عقل، فراست، فہم و سوچ سے آری ہو چکی ہے۔ چینل ۵ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسی جارحانہ فضا میں بھارت میں کسی بھی کانفرنس میں شرکت نہیں کرنی چاہئے تھی۔ مشیر خارجہ کا صرف یہ کہنا کہ آمنے سامنے تو بات نہیں ہوئی، نریندر مودی سے بھی ملاقات کا موقع نہیں ملا البتہ سائیڈ لائن پر ایران اور ترکمانستان کے وزراءخارجہ سے بات ہوئی تو یہ کہا یہ کارنامہ ہے۔ ان دو ملاقاتوں سے وہ سمجھتے ہیں کہ بڑی کامیابی مل گئی۔ وزارت خارجہ کے پالیسی سازوں کے دماغ سوچنے سمجھنے سے آری ہو چکے ہیں۔ ایسے حالات میں مشیر خارجہ کو بھارت جانے کا مشورہ دیا، جب وہ پاکستانی سرحدوں اور کشمیر کی متنازعہ سرحد پر گولہ باری کر رہا ہے، ہرزہ سرائی کر رہا ہے۔ پاکستان میں ہونے والی سارک کانفرنس میں شمولیت سے انکار کر کے اسے ختم کروا دیتا ہے اور مذاکرات میں شرکت سے انکار کر دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نہ صرف پاکستان پر ہر وقت الزام ترشی کرتا ہے بلکہ نرینددر مودی نے آخری دھمکی دی تھی کہ وہ 3 دریاﺅں کا پانی بند کر کے پاکستان کو پانی کے ایک ایک قطرے کا محتاج بنا دے گا۔ بھارت پاکستان سے ذاتی تعلقات ضرور رکھنا چاہتا ہے۔ نواز خاندان میں ہونے والی شادی میں مودی شرکت کرتے ہیں اور پگڑیاں بھی بدلتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان جیسا ملک جس کی اگر 4 دن سرحد بند کر دی جائے تو کابل میں قحط کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے، اس کا صدر اشرف غنی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں کھلم کھلا الزام لگاتا ہے کہ پاکستان افغانستان میں دہشتگردی کو فروغ دے رہا ہے۔ پھر نام لئے بغیر نریندر مودی بھی اسی بات کو دہراتے ہیں۔ مشیر خارجہ کو بھارت میں پریس کانفرنس کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کو سکھ فوجی افسر نے روکنے کی کوشش کی۔ اصل واقعات قوم کے سامنے ہیں، جو اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ ہمیں بھارت نہیں جانا چاہئے تھا اور پھر جو طرز عمل وہاں ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب تک ہمارے 40 سے 50 ہزار افراد دہشتگردی کی نظر ہو چکے ہیں لیکن پھر بھی اردگرد کے بے شرم لوگ ہم پر الزام لگاتے ہیں کہ پاکستان دہشتگردی کو فروغ دے رہا ہے۔ یہ الزام اسی افغان صدر نے لگایا جس کو سابق صدر آصف زرداری نے اپنی تاج پوشی کی تقریب میں بلایا تھا، پاکستان میں بھنگڑے ڈالے گئے تھے کہ کرزئی کے بعد اب پاکستان کا دوست اشرف غنی صدر مقرر ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پر سب سے پہلے پنڈت نہرو اقوام متحدہ گیا تھا کیونکہ وہاں ایک تحریک پھوٹ پڑی تھی کہ وہ کشمیر پر بھارتی اقتدار کو تسلیم نہیں کرتے۔ جواب میں سلامتی کونسل میں ایک قرارداد منظور ہوتی تھی کہ کشمیر میں رائے شماری کرائی جائے اور لوگوں سے پوچھا جائے کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ بھارت نے انکار کر دیا ہوا ہے کہ وہ کشمیر میں رائے شماری نہیں کرائے گا۔ اب ہم بار بار ہاتھ جوڑ کر گزارش کر رہے ہیں کہ مذاکرات کا آغاز کر لیں۔ 60,50 برسوں سے بھارت کسی نہ کسی بہانے کشمیر پر مذاکرات سے گریز کرتا آیا ہے۔ اب ہمارے ناعاقبت اندیش، بھولے وسادے بلکہ حماقت کی حد تک پہنچنے والے لیڈروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ برسوں سے بے و قوف بنتے آئے ہیں۔ اب وہ مزید بے و قوفی کو جاری رکھنا چاہتے ہیں یا یہ سوچیں گے کہ بھارت کے ساتھ کن بنیادوں پر خارجہ پالیسی استوارکرنا ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی کمزوری کی جس سطح پر پہنچ چکی ہے اس سے ہم بھارت کا خارجہ سطح پر مقابلہ نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت حیلے بہانوں سے کام لیتے ہوئے مسئلہ کشمیر اور پانی پر مذاکرات سے بھاگتا رہے گا۔ ضیا شاہد نے کہا کہ ہمارے ملک میں بھارتی جاسوس پکڑے جاتے ہیں، وہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہاں دہشتگردی کرنے آئے تھے۔ حکومت پاکستان نے بھارتی سفارتخانے کے 7,5 لوگوں کو جاسوسی کے الزام میں ملک سے نکال بھی دیا، اس کے باوجود حکمران نہ جانے کس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ مشیر خارجہ بھارت جا کر تقریر فرمائیں گے اور کرسیاں الٹ جائیں گی، آسمان پر سورج نکلنے لگے گا، چاند مشرق کے بجائے مغرب سے نکل آئے گا، اگر کوئی بے وقوف بننا چاہتا ہے تو اس کی مرضی البتہ خارجہ پالیسی کی موجودہ کمزور سطح سے نہ تو ہم بھارت سے کوئی گفتگو کر سکتے ہیں، نہ ہی مذاکرات میں شرکت کر سکتے ہیں، وہ کشمیر اور پانی کے مسئلے پر مذاکرات کے لئے کبھی آمادہ نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ جنیوا کنونشن میں طے ہوا تھا کہ مخالف ملک کے گرفتار قیدیوں کے سر کاٹ کر نہیں لوٹیں گے، پاک آرمی ایسا کبھی نہیں کر سکتی لیکن بھارت اس معاہدے کی بھی اکثر خلاف ورزی کرتا رہتا ہے۔