قسط نمبر40
ذاتی لحاظ سے ”رام اور شیام“ میرے لئے خصوصی اہمیت کی حامل تھی کیونکہ میں نے اس وقت سائرہ کے ساتھ شادی کی جب فلم کی پرودکشن مکمل ہونے کے قریب تھی اور میں یہاں پر اصل موضوع سے ہ©ٹ جانا چاہونگا اور اپنی شادی کی حقیقی داستان بیان کرونگا،
میں جانتا تھا کہ وہ محمد احسان صاحب اور نسیم بنوجی کی بیٹی (نسیم بنوجی کی مشہور ترین فلم ”پکار“1939ء ہے جس میں انہوں نے نورجہاں کا کردار اداکیاتھا، مغل شہنشاہ جہانگیر کی ملکہ ) ایک عظیم خاتون جن کی میں بے حد عزت کرتا تھا اور ان کے وقار اور خود اعتمادی کی بناءپر اور جس طرح انہوں نے پروقارانداز سے فلم انڈسٹری میں اپنا وقت گزاراتھا اس بناءپر میں ان کی تعریف کرتا تھا ، نسیم آپا ایک فلم میں کام کرچکی تھیں جو میرے بھائی ایوب صاحب نے بنائی تھی، اور اکثر ہماری رہائش گاہ واقع 48پالی ہل پر چھوٹی گٹ ٹو گیدر پارٹیاں منعقد ہواکرتی تھیں،میری بہن اختر نسیم آپا کو بھی مدعو کیا کرتی تھی ، وہ ان کی بے حد تعریف اور احترام کرتی تھی،
مجھے نہیں یاد کہ کب لیکن ایسی ہی ایک شام سائرہ جو اسکول کی چھٹیوں کے دوران انڈیا کے دورے پر تھی وہ اپنی ماں کے ساتھ ہمارے گھر آئی، چونکہ میں نسیم آپا کے ساتھ کئی رسمی اور غیر رسمی مواقع پر ملتاجلتا رہتا تھا ،، مجھے ان کی زبانی علم ہوا تھا کہ سائرہ لندن میں پروان چڑھ رہی تھی ، جہاں پروہ اوراسکا بھائی سلطان احمد اسکول میں تعلیم حاصل کررہے تھے،
سائرہ میری فلم ”آن“لندن کے سکالاتھیٹر میں دیکھ چکی تھی اور مختلف ذرائع کے حوالے سے مجھے یہ خبر تھی، وہ لندن سے بذریعہ خطوط اپنی ماں سے یہ جاننے کی متمنی رہتی تھی کہ میری پسند اور ناپسند کیا ہے، میرا طرز زندگی اور حتیٰ کہ یہ حقیقت کہ میں شاعری اور فارسی زبان کو پسند کرتا تھا۔
بعد میں میرے علم میں یہ بات آئی کہ جیسے ہی اس نے لندن میں اسکول کی اپنی تعلیم مکمل کی اور انڈیا واپس آئی اور اس نے نسیم آپا کو قائل کرلیا کہ وہ اس کیلئے ایک ٹیوٹر(معلم) کا بندوست کرے، لہذا اس کے لئے ایک مولوی صاحب کا بندوبست کیا تاکہ وہ اسے اردو اور فارسی پڑھا سکیں، مجھے متاثر کرنے کا یہ اس کا منصوبہ تھا،
اس کے بعد میرے علم میں آیا کہ یہ نوجوان خاتون فلمی کیرئر سے وابستہ ہونا چاہتی تھی، جو اس دور میں ایسی لڑکیوں کیلئے شجرممنوعہ تصورکیا جاتا تھا ، جب یہ معاملہ ایس مکھر جی صاحب کے علم میں آیا انہوں نے بھی اپنی رضامندی کا اظہار کیا ،میں نے بذات خود بھی اس معاملے میں اپنی رضامندی ظاہر کی اور یہ خیال بھی ظاہرکیا کہ سائرہ کو فلموں میں کام کرنے اور فلمی کیرئر اپنانے سے باز رکھا جائے،
1960کی دہائی کے آغاز میں ہم اے آر کاردار کی ”دل دیا درد لیا“ کا کاسٹ پر غور کررہے تھے (یہ فلم 1966میں نمائش کیلئے پیش کی گئی تھی) ، مکھر جی صاحب نے کہا ،،یوسف!یہ نوجوان لڑکی تمہارے ساتھ کام کرنے کیلئے دیوانی ہوئی جا رہی ہے، میں مسکرایا اور اسے اس خیال سے باز رکھنے کی کوشش کی ، میں نے اپنے سر کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ، سائرہ کیا تم نے یہ سفید بال دیکھے ہیں ، میں تم سے کس قدر بڑا ہوں ، اس کے جواب میں اس نے جو کچھ کہا وہ مجھے ہنوز یاد ہے ، وہ ہنسنے لگی ، میرا خیال ہے سفید بال آپ کو ممتاز بناتے ہیں بے حد خوبصورت۔
اس کی پہلی فلم ”جنگلی“کے بعد سائرہ کیلئے پیچھے مڑ کر دیکھنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا اور مزیداری کی بات تھی کہ گنگا جمنا اور جنگلی 1961میں بیک وقت نمائش کیلئے پیش کی گئی تھیں، دونوں نے شاندار کامیابی حاصل کی تھی اور دونوں سپرہٹ فلمیں ثابت ہوئی تھیں،
اسی اثناءمیں سائرہ کی جانب سے مجھے بکثرت اور فوری پیغامات موصول ہوتے رہے اور درخواستیں موصول ہوتی رہیں جو ان مقبول عام پروڈیوسرز کی وساطت سے ہوتی تھیں جن کے ساتھ وہ پہلے ہی کام کر رہی تھی اور سائرہ اور پروڈیوسرز کی یہ خواہش تھی کہ ہم ان کی آنے والی فلموں میں بطور فلمی جوڑا کام کریں،
بدقسمتی سے میں ان پروڈیوسرز کو انکار ہی کرتا رہا جو مجھے اس کے ساتھ کاسٹ کرنا چاہتے تھے ، مجھے اس کے ساتھ کام کرنا مشکل محسوس ہوتا تھا کہ یہ دبلی پتلی لڑکی جس کے ساتھ کئی مواقع پر میری ملاقات ہو چکی تھی اگرچہ وہ جوان ہو چکی تھی اور راج اور دیو کے ساتھ فلمیں بھی کر رہی تھی جو تقریبا میرے ہم عمر تھے لیکن میں ان اداکاراو¿ں کے ساتھ کام کررہاتھا جو میری عمر اور پختہ کاری کے ساتھ میل کھاتی تھیں،
میں نے مکھر جی اور سلطان کو بتایا کہ میں اسے ایک خصوصی طور پر تحریر کردہ موضوع میں کاسٹ کرنا چاہتا تھا جو میرے ذہن میں اس کیلئے موجود تھا ، جس میں ہماری جوڑی ایک مثالی اور کامل جوڑی ہوگی، یہ کشمیر پر بنیاد کرتا ہوا ایک موضوع تھا ، ایک ایسا اسکرپٹ جو میں نے بذات خود تحریر کیا تھا ”سونگ آف دی ویلی“(وادی کا گیٹ) جس میں اس کیلئے ایک شاندار کردار تھا۔
(جاری ہے)
