ماموں کانجن (خصوصی رپورٹ) نواحی گاﺅں چک نمبر 509 کے 90 سالہ بوڑھے علی احمد آرائیں نے 50 سالہ محنت کش مطلقہ خاتون نورن بی بی سے تیسری شادی رچا لی۔ مقامی ذرائع کے مطابق علی احمد ولد نتھو آرائیں کی ایک بیوی فوت ہوچکی ہے اور دوسری حیات ہے جبکہ اس کے ڈیڑھ سو کے قریب پوتے‘ پوتیاں‘ پڑپوتے‘ پڑپوتیاں‘ نواسے نواسیاں اور پڑنواسے ہیں۔ علی احمد ایک عرصے سے نورن بی بی سے شادی کا شدید خواہشمند تھا۔ ذرائع کے بقول دونوں کے درمیان ”انڈر سٹینڈنگ“ بھی تھی لیکن علی احمد کے اہل خانہ اس شادی پر رضامند نہیں تھے تاہم علی احمد کی جانب سے اس دھمکی کے بعد کہ وہ چھت سے چھلانگ لگا کر خودکشی کرلے گا گھر والوں نے ہتھیار ڈال دیئے۔ چند روز قبل اس کے پوتے شکیل‘ شفیق‘ شہزاد اور شاہد سمیت دیگر کرائے کی تین گاڑیوں میں اپنے دادا کی بارات نورن بی بی کے گھر لے کر گئے۔ دلہن نورن بی بی کے گھر پر نکاح ہوا۔ دولہا علی احمد آرائیں نے سفید لباس پر سیاہ رنگ کی واسکٹ پہن رکھی تھی جو محلے داروں کے مطابق تین دن گزرنے کے بعد بھی اس نے نہیں اتاری۔ دلہن نے بھی نیا جوڑا زیب تن کر رکھا تھا۔ مقامی ذرائع کے مطابق نورن بی بی کا تعلق ایک محنت کش (کمہار) خاندان سے ہے۔ نورن بی بی اور ان کی ایک بہن کی ایک ساتھ شادی ہوئی تھی لیکن چند سال کے بعد دونوں بہنوں کی اپنے شوہروں سے علیحدگی ہوگئی تھی۔ دونوں بہنیں بکریاں پال کر اور محنت مزدوری کرکے بمشکل گزارہ کررہی تھیں۔ نورن بی بی بھی چک نمبر 509 کی رہائشی ہے جو ماموں کانجن شہر سے بالکل متصل ہے۔ نورن بی بی کا بکریوں کا چارہ اور جلانے کیلئے لکڑیاں وغیرہ لینے کے لئے علی احمد آرائیں کی زمینوں پر اکثر آنا جانا رہتا تھا۔ چند برس قبل دونوں کے درمیان ہم آہنگی ہوگئی تھی جو اب شادی تک جا پہنچی۔ ذرائع کے مطابق علی احمد نورن کے خاندان کے گھریلو اخراجات کا بڑا حصہ ادا کررہا تھا۔ بعض اوقات وہ اس کے گھر بھی کئی کئی دن رہتا تھا جس پر اس کے بیٹوں اور دیگر اہل خانہ کو سخت اعتراض تھا ارو اس معاملے پر ان کی علی احمد کے ساتھ ناچاقی بھی ہوتی رہتی تھی لیکن علی احمد اپنی مرضی کا مالک تھا اور بیٹوں‘ پوتوں کی باتیں سنی ان سنی کر دیتا تھا۔ نورن بی بی کی ایک بیٹی کی عمر 20 سال جبکہ ایک بیٹا 18 سال کا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی دوسری مطلقہ بہن کا ایک سترہ سالہ بیٹا بھی اس خاندان کا حصہ ہے۔ علاقے میں اس شادی کے خوب چرچکے ہیں۔ قریبی علاقوں کے لوگ بھی 90 سالہ دولہا علی احمد کو دیکھنے اور مبارکباد دینے ان کے گھر آرہے ہیں جبکہ دولہا کے بیٹے‘ پوتے‘ پڑپوتے اور خاندان کے دیگر افراد اس شادی پر خاصے ناخوش اور شرمندہ ہیں۔ وہ علی احمد کی جانب سے خودکشی کی دھمکی کے بعد اس شادی پر رضامند ہوئے تھے اور اب خاموشی سے لوگوں کے مذاق اور طنزیہ باتیں سننے پر مجبور ہیں۔ مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ دولہا میاں شادی کے بعد واسکٹ پہن کر سیدھا اکڑ کر چلنے کی کوشش کررہے ہیں جبکہ دلہن نورن بی بی کی صحت اپنے نئے شوہر کی نسبت بہتر ہے۔ دولہا علی احمد کی بارات تین کاروں میں تقریباً ڈیڑھ سو میٹر دور دلہن کے گھر پہنچی۔ دلہن کی طرف سے بھی اخراجات اور شادی کے انتظامات علی احمد آرائیں نے اپنی جیب سے کئے تھے۔ بارات میں خاندان کے پندرہ بیس افراد شریک تھے۔ علی احمد کے ایک بیٹے شفیق کی وفات ہوچکی ہے جبکہ اس کے تین بیٹے حیات ہیں اور اپنی زمین پر کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ علی احمد کے بیٹے جمیل نے بارات میں شرکت نہیں کی تھی لیکن نئی والدہ کے گھر آنے پر خاموشی سے بادل نخواستہ سب کچھ قبول کیا۔ علاقے کے لوگ اس شادی پر مختلف تبصرے کررہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ شادی کیلئے عمر کی کوئی قید نہیں بس دل جوان ہونا چاہئے۔ بابا احمد علی اگر خوش ہے تو سب کو خوشی کا اظہار کرنا چاہئے۔ ماموں کانجن کے ایک نوجوان شہری شہزاد کے مطابق پورے علاقے میں اس شادی کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ دور دراز سے لوگ مبارک باد دینے بابا علی احمد آرائیں کے گھر آرہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق علی احمد کی ایک بیوی بیس سال پہلے فوت ہوگئی تھی جبکہ دوسری بیوی خاصی ضعیف العمر ہے۔ علی احمد آرائیں نے شادی کے بعد مبارکباد دینے والوں سے کہا کہ شادی کا لطف یا تو نوجوانی میں ہے یا اس پڑھاپے میں۔ جوانی یا ادھیڑ عمر کی شادی تو الجھن اور مسائل کے علاوہ کچھ نہیں۔ دولہا علی احمد آرائیں کا کہنا ہے کہ ”میرا سارا خاندان اس شادی پر خوش ہے۔ کوئی اگر ناراض ہے تو وہ بھی راضی ہوجائے گا۔ مجھے اولاد کی خواہش نہیں۔ میرے پڑپوتے‘ پڑنواسے موجود ہیں۔ میں نے اپنے لئے ایک سہارا تلاش کیا ہے جبکہ ایک خاندان کا سہارا بنا ہوں۔ امید ہے اس سے اللہ بھی خوش ہوگا۔