اسلام آباد (خصوصی رپورٹ) وزیراعظم نوازشریف بظاہر زرداری کی واپسی پر خوش ہیں مگر حکمران پارٹی پی پی کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے گی۔ کراچی میں جاری آپریشن بند ہوگا نہ بلاول بھٹو کی طرف سے پیش کردہ 4 مطالبات مانے جائیں گے۔ ایکسپریس ٹربیون کی رپورٹ کے مطابق یہ محض اتفاق ہے کہ جس روز زرداری واپس آئے‘ اسی روز صبح وزیراعظم سے وزیر داخلہ چودھری نثار اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار کی ملاقات ہوئی‘ جس میں کراچی کی سیاسی اور امن و امان کی صورتحال زیربحث آئی۔ ان ملاقاتوں کے فوری بعد رینجرز نے کراچی میں زرداری کے فرنٹ مین انور مجید اور منظور کاکا کے دفاتر پر چھاپے مارے۔ یہ دونوں بااثر شخصیات ہیں اور زرداری کے قریبی ساتھی ہیں۔ انہیں سابق صدر کا فرنٹ مین سمجھا جاتا ہے۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی توقع کررہی تھی کہ حکومت بلاول کے چاروں مطالبات منظور کرلے گی اور کراچی آپریشن میں بھی ہتھ ہولا رکھا جائے گا۔ پی پی نے بار بار چودھری نثار کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔ اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ کراچی میں پی پی کے مفادات کے تحفظ کیلئے وفاقی حکومت پر دباﺅ بڑھانے کے پلان کا حصہ تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ چاروں مطالبات کی کوئی زیادہ اہمیت نہیں۔ اصل مسئلہ کراچی میں پی پی کے اعلیٰ قسم کے مفادات ہیں۔ مطالبات پیش کرکے پیپلزپارٹی سیاسی فوائد حاصل کرنا چاہتی تھی تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ ابھی پارٹی زندہ ہے۔ سرکاری ذرائع نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ حکومت کو پیغام دیا گیا تھا کہ نئی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کراچی میں آپریشن جاری رکھنے کا پختہ عزم کر چکی ہے کیونکہ اس میں ذرا سی نرمی اب تک حاصل ہونے والے فوائد کو ضائع کر دے گی۔ ایک اور سرکاری ذریعہ نے بتایا کہ بیک ڈور رابطوں کا دروازہ بند ہو چکا ہے اور نئی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کراچی میں آپریشن پہلے سے زیادہ شدومد کے ساتھ جاری رکھنا چاہتی ہے تاکہ سیاسی تشدد میں ملوث عناصر اور شرپسندوں کے فنانسرز کو پکڑا جا سکے۔ ذرائع نے بتایا کہ فوج میں تبدیلیاں اور نئے آرمی چیف کا آپریشن جاری رکھنے کا عزم پیغام تھا کہ آپریشن میں کسی قسم کی کوئی نرمی نہیں ہو گی تاہم بعض حلقے اس پیغام کو پڑھ نہیں سکے یا انہوں نے دیکھا نہیں کراچی میں اہم کردار ادا کرنے والے فوجی افسروں کو بڑی اہم پوسٹیں دی گئی ہیں۔ اس سے یہ بات صاف طور پر واضع ہو رہی ہے اور جمعہ کا رینجرز ایکشن اس کی تصدیق ہے۔