لاہور (خصوصی رپورٹ) پنجاب سول ایڈمنسٹریشن آرڈیننس 2016آخری وقت پر جاری ہونے سے فی الحال روک لیا گیا۔ ذرائع کے مطابق پولیس حکام کو اس آرڈیننس پر شدید تحفظات ہیں جس کے تحت انہیں ڈپٹی کمشنر کے ماتحت کردیا گیا ہے۔ ان کا مو¿قف ہے کہ پرانے نظام کا تسلسل جاری رہنا چاہیے جس میں پولیس ”صاحب بہادر “ کے بجائے ضلعی حکومتوں کے سربراہ کو جوابدہ تھی۔ ذرائع کے مطابق پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ڈپٹی کمشنر کے بجائے میئرکی زیر نگرانی کام کرنے سے شہریوں کے ساتھ بالواسطہ تعلق موجو د رہے گا اور اس طرح ان کے کام میں بہتری آئے گی۔ انہوں نے اپنی تشویش سے وزیراعلیٰ شہبازشریف کو آگاہ کیا جس پر وزیراعلیٰ نے آج پیر کو اہم اجلاس طلب کر لیا جس میں سب کی مشاورت سے حتمی فیصلہ کیا جا ئیگا ۔پنجاب حکومت کے تیار کر دہ آرڈیننس میں ڈپٹی کمشنر کو وسیع تر اختیارات سو نپے گئے ہیں۔ آرڈیننس جاری ہونے کی صورت میں اس کا اطلاق یکم جنوری سے ہو گا۔ گورنر ہاﺅس کے ذرائع نے رابطے پر بتایا کہ جیسے ہی پنجاب حکومت حتمی منظوری دے گی گورنر رفیق رجوانہ اس پر دستخط کر دینگے ۔مجوزہ آرڈیننس کی تفصیلات کے مطابق حکومت سروس کے افسروں میں سے ہی ہرڈویژن میں کمشنر،ضلع میں ڈ پٹی کمشنر جبکہ تحصیل کی سطح پر اسسٹنٹ کمشنر کا تقرر عمل میں لائے گی۔ ہرکمشنر ڈویژن میں جنرل ایڈمنسٹریشن کا انچارج ہوگا اور حکومت کا اصولی نمائندہ ہوگا۔ہر ڈپٹی کمشنر بھی جنرل ایڈمنسٹریشن کا انچارج ہوگا اور ضلع میں حکومت کا نمائندہ ہو گا۔ حکومت کے تعینات کردہ کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر اپنے فرائض اور اختیارات اس آرڈیننس کے تحت انجام دینگے ،یا کسی دوسرے قانون کے تحت یا جیساحکومت قانون کے اندر رہتے ہوئے انہیں کسی کام کی ذمہ داری دے ۔کمشنر اور ڈپٹی کمشنر حکومت کے کنٹرول اور عام نگرانی سے مشروط ہونگے ۔کمشنر اس آرڈ یننس یا کسی اور قانون کے تحت افعال انجام دینگے ، وہ ڈویژن میں ڈپٹی کمشنرز کی جانب سے اپنے فرائض کے انجام دہی کی نگرانی کرینگے ۔ تمام دفاتر کے امور کو مربوط بنائیں گے۔ ڈویژن میں دو سے زائد اضلاع یا دو سے زائد ڈویژنز کی مربوط ترقی کیلئے امور کو سہل و مربوط بنانے، عوامی وسائل کے بہتر استعمال ،خدمات کی مو¿ثر فراہمی، نگرانی اورحکومتی پالیسیوں پر عملدرآمد کے حوالے سے فرائض انجام دینگے ۔ڈپٹی کمشنر ضلع میں اسسٹنٹ کمشنرز کے امور کی مانیٹرنگ ،باہمی ترقی ،عوامی وسائل کے مو¿ثر استعمال،خدمات کی مو¿ثر فراہمی،دفاتر کے امور کو مربوط بنانے ،عوام کو دفاتر میں معیاری سہولتوں کی فراہمی یقینی بنانے ،عوام کی جان ومال کے تحفظ کیلئے پولیس کے ضلعی سربراہ کی مشاورت سے مناسب اقدامات کرنے اور حکومتی پالیسیوں پر عملدرآمد یقینی بنانے کے ذمہ دار ہونگے ۔حکومت کسی ایک ڈویژن میں ایک سے زائدایڈیشنل کمشنرز اور ایک ضلع میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرز تعینات کرسکتی ہے۔ ایڈیشنل کمشنر جنرل ایڈمنسٹریشن اور کمشنر کے ماتحت کام کرے گا یا جو کام قانون کے مطابق کمشنر اس کے ذمہ لگائے وہ انجام دے گا۔ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر یا اسسٹنٹ کمشنر ڈپٹی کمشنر کے ماتحت کام کرینگے ۔ہرکمشنر ڈویژن کی انتظامیہ سے متعلق تمام اہم امور سے حکومت کوآگاہ رکھے گا۔اسی طرح ہر ڈپٹی کمشنر بھی ضلع کے تمام اہم معاملات سے کمشنر کو آگاہ رکھے گا۔اسسٹنٹ کمشنر بھی تحصیل کے معاملات سے ڈپٹی کمشنر کو آگاہ رکھے گا۔ضلع کے ہر سرکاری دفتر کا سربراہ اپنے دفتر کے تمام امور سے ڈپٹی کمشنر کو آگاہ رکھے گا۔کسی بھی سرکاری دفتر کے سربراہ یا مقامی حکومت کے سربراہ کی درخواست پر ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر ان کی معاونت کے پابند ہونگے ۔اگر ڈپٹی کمشنر ر یکارڈ شدہ وجوہات کی بنا پر جائزہ لے کہ عوام کو معیاری سہولیات فراہم نہیں کی جارہیں تو وہ سرکاری دفتر کے انچارج کو ان سہولیات کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات کرنے کی ہدایت کرے گا۔سرکاری آفس کا انچارج فوری اقدامات کرے گا اور ڈپٹی کمشنر کو اٹھائے گئے اقدامات سے آگاہ بھی کرے گا۔آفس انچارج اگر مشورے کے مطابق اقدامات نہیں کرتا تو ڈپٹی کمشنر، کمشنر کی وساطت سے قانون کے مطابق ضروری اقدامات کیلئے رپورٹ کریگا۔کسی علاقے ،ضلع یا صوبے کو آفت زدہ قراردینے کی صورت میں کمشنر،ڈپٹی کمشنر یاان کے ماتحت افسر بطور ریلیف کمشنر فرائض انجام دینگے ۔کسی کی شکایت پر یا بصورت دیگر کمشنر یا ڈپٹی کمشنر ڈویژن یا ضلع بھر سے کسی بھی سرکاری دفتر سے کسی بھی معاملے کا ریکارڈ طلب کرسکے گا۔کمشنر،ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کسی بھی سرکاری دفتر کا معائنہ کرسکیں گے اورآرڈیننس کے مقاصد کی تکمیل کیلئے ضروری ہوتوہدایات بھی دے سکیں گے ۔یہ ہر سرکاری آفس کے انچارج یا سربراہ کی ڈیوٹی ہوگی کہ وہ معائنے کو سہل بنائے اور جو ریکارڈ ،معلومات یا رپورٹ مانگی جائے فراہم کرے ۔ڈپٹی کمشنر امن و امان برقراررکھنے ،عوام کی جان ومال کے تحفظ،مذہبی تہواروں ،دیگر اجتماعوں کے پرامن انعقاد کویقینی بنانے کیلئے جن اقدامات اور معاونت کیلئے کہے گا سرکاری دفاتر کے انچارج،سربراہ ان اقدامات کو اٹھانے کے پابند ہونگے ۔اس ضمن میں ڈپٹی کمشنر حالات کے مطابق مقامی حکومت کے سربراہ سے بھی ایسے اقداما ت اٹھانے کی درخواست کرسکے گا۔ سرکاری آفس کا انچار ج یا سربراہ یا کوئی دوسرا عہدیدار جسے ہدایات دی گئی ہوں وہ ان پر عمل درآمد کرے گا یا عدم عملدرآمد کی وجوہات سے ڈپٹی کمشنر کو آگاہ کرے گا۔ اسسٹنٹ کمشنر،ڈپٹی کمشنر یا کسی بھی سرکاری آفس کے انچارج، مقامی حکومت، خودمختار ادارے، کارپوریشن یا وفاقی حکومت کا کوئی ادارہ سرکاری امور کی انجام دہی میں پولیس سے مدد کی درخواست کرے گا تو وہ پولیس سربراہ ان کو مدد فراہم کرنے کا پابند ہوگا۔ کمشنر یا ڈپٹی کمشنر کسی کی شکایت یا دیگر معلومات پر سرکاری دفاتر کے حوالے سے جسے بہتر سمجھے اس افسر سے انکوائری کروا سکے گا۔ کوئی بھی شخص جو کسی معاملے میں نظر انداز کیاگیا ہو یاکسی سرکاری ملازم کے مس کنڈکٹ کا شکار ہوا یا وہ سرکاری دفتر میں عوامی خدمت کے معیار سے مطمئن نہ ہوتو وہ ڈپٹی کمشنر کو اپنے دستخطوں کیساتھ درخواست دے سکے گا۔ اس طرح ڈپٹی کمشنر خود یا کسی ماتحت افسر کے ذریعے قانون کے مطابق اقدام کرتے ہوئے شکایت کنندہ کی شکایت کا ازالہ کرے گا۔کسی بھی افسر کو اگر کسی معاملے پر انکوائری افسر مقرر کیا جائے گا تو اسے سول عدات کے اختیارات حاصل ہونگے ،وہ کسی کو طلب کرسکے گا،دستاویزات طلب اور شواہد بھی حاصل کرسکے گا۔بہتر روابط اور موثر منصوبہ بندی کیلئے ڈپٹی کمشنر مقامی شماریاتی اعدادو شمار تیار کرے گا۔کمشنر اور ڈپٹی کمشنر، کمشنر کی وساطت سے دفاتر کے انچارج اور سربراہان کی کارکردگی کی رپورٹ جیسے ہے کی بنیاد پر وقتاً فوقتاً حکومت کو ارسال کرتے رہیں گے۔ ضابطہ فوجداری 1989کی دفعہ 22 کے تحت کمشنر،ڈپٹی کمشنریااسسٹنٹ کمشنراپنے متعلقہ علاقوں میں انصاف کے جج ہونگے ۔ ہرادارے کاسربراہ باقاعدگی سے ڈپٹی کمشنرکوکسی بھی مطلوبہ وقت پر اورمطلوبہ شکل میں اپنے دفاترکی کارکردگی رپو رٹ تیارکرکے جمع کرانے کا پابند ہو گا۔ڈپٹی کمشنرکیلئے لازم ہوگا کہ وہ ہرمالی سال میں ضلعی سطح پرتمام دفاترکی کارکردگی پرمبنی تفصیلی رپورٹ تیار کرے اوربذریعہ کمشنریہ رپورٹ مطلوبہ وقت پراورمطلوبہ شکل میں حکومت کو جمع کرائے ۔آرڈیننس کے تحت کسی بھی ملازم کی طرف سے کسی ضابطہ سے انحراف یا قانونی احکامات کی خلاف ورزی کوبے ضابطگی تصورکیاجائے گا اوراس کیخلاف متعلقہ قوانین کی روشنی میں کارروائی کی جائیگی۔اگرکوئی فردیا ملازم دانستہ طورپرآرڈیننس کی کسی شق کی خلاف ورزی میں ملوث پایاگیاتواسے مجازافسر مجوزہ طریقہ کارکے تحت زیادہ سے زیادہ 25ہزارروپے تک جرمانہ کرسکتاہے ۔حکومت اگرمناسب سمجھے گی توآرڈیننس کے تحت کسی بھی صورتحال میں اور عوامی مفاد کومدنظررکھتے ہوئے نوٹیفکیشن جاری کرکے ضلعی سطح پراپنے افسروں کو مخصوص اختیارات تفویض کرسکتی ہے۔ اسی طرح حکومت نوٹیفکیشن جاری کرکے اپنے کسی بھی افسرکوکمشنریاڈپٹی کمشنرکے دائرہ کارمیں تعینات کرسکتی ہے ۔ہرضلع میں ایک اکاﺅنٹ کھولا جائیگا جسے ضلعی اکاﺅنٹ کہاجائے گا۔اس اکاﺅنٹ کی رقوم کو ڈپٹی کمشنرعوامی مفاد کے ترقیاتی منصوبوں اورہنگامی حالات میں ریلیف کے کاموں میں جیسامناسب سمجھے استعمال کرسکے گا۔اس اکاﺅنٹ کی مدمیں ساری رقوم کنٹرولرجنرل آف اکاﺅنٹس کے نام سے قائم فنڈمیں جمع کرا ئی جائیں گی۔اس اکاﺅنٹ کو ڈپٹی کمشنرچلائے اوریقینی بنائے گا کہ رقوم کا استعمال اورخرچ مناسب طریقے سے ہواورآڈیٹرجنرل ہرمالی سال کے آخرمیں اس اکاﺅنٹ کاآڈٹ کریگا۔اس آرڈیننس کے تحت کسی بھی سرکاری ملازم کی طرف سے نیک نیتی سے کئے گئے کسی بھی کام کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں کی جاسکے گی۔ اس آرڈیننس کے تحت کام کرنے کیلئے حکومت کوئی بھی قانون سازی یارسرکاری گزٹ جاری کرسکتی ہے۔ آرڈیننس کے نفاذ کے بعد 6ماہ کے اندرحکومت آرڈیننس پرعملدرآمد میں حائل کسی بھی رکاوٹ کو دورکرنے کیلئے تحریری طورپرا حکامات جاری کرسکتی ہے۔
ماتحتی سے انکار