اسلام آباد ( ویب ڈیسک ) سپریم کورٹ آف پاکستان نے تشدد کی شکار کم سن ملازمہ طیبہ کو پاکستان سوئٹ ہومز کے حوالے کردیا، والدین کا تعین ہونے تک طیبہ وہیں رہے گی ،پولیس کو سویٹ ہومز میں ہر طرح کی رسائی حاصل ہو گی۔ سپریم کورٹ نے طیبہ تشدد کیس میں تمام دعویداروں کے ریکارڈ قلمبند کرنے کا حکم دیتے ہوئے تحقیقاتی رپورٹ 10 روز میں طلب کرلی۔ سپریم کورٹ میں طیبہ تشدد ازخود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 2 رکنی بنچ نے کی۔ اس موقع پر ایڈیشنل سیشن جج کے گھر تشدد کا نشانہ بننے والی بچی اور اس کی میڈیکل رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ خدا کا شکر ہے کہ بچی بازیاب ہو گئی ہے ،بچی ہی اصل حقائق بتا سکتی ہے اور بچی کو اپنے والدین کے پاس نہیں رہنا چاہیے تاکہ بچی بغیر کسی خوف کے اپنا بیان ریکارڈ کرائے، ہمیں سچ کا کھوج لگانا ہے، تیز رفتاری سے کیس کا فیصلہ کریں گے ۔ڈی آئی جی اسلام آباد معاملے کی شفاف تحقیقات کرکے حقائق کو سامنے لائیں اور روزانہ کی بنیاد پر کیس میں پیش رفت سے آگاہ کیا جائے ۔عدالت کے استفسار پر بچی کے والد اعظم نے کہا کہ وہ اردو نہیں بول سکتے ،چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے ساتھ پنجابی میں بات کروں گا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیسے پتہ چلا کہ بچی پر تشدد ہوا ہے؟بچی اسلام آباد کیسے پہنچی؟بچی کے والد اعظم نے جواب دیا کہ ٹی وی چینلز پر دیکھ کر پتہ چلا کہ بچی پر تشدد ہوا ہے۔ نادرہ بی بی نامی خاتون بچی کو کام دلوانے کا کہہ کر لے گئی تھی،نادرہ بی بی نے کہا تھا کہ بچی فیصل آباد سے باہر نہیں جائے گی ،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جب بچی ملی تو اس کے جسم پر تشدد کے نشانات تھے تو بچی کے والد نے جواب دیا کہ جی بچی کے جسم پر تشدد کے نشانات تھے۔اعظم نے کہا کہ پڑوسن نادرہ بی بی سے 3ہزار تنخواہ طے ہوئی تھی اور 18ہزار روپے ایڈوانس بھی دیئے تھے۔چیف جسٹس نے کہا کہ لگتا ہے کہ بچی گھبرائی ہوئی ہے۔طیبہ کو ملازمت کیلئے کب بھیجا گیا۔اعظم نے جواب دیا کہ 14 اگست 2016 کو نادرہ بی بی بچی کو لیکر گئی تھی۔نادرہ نے اس دوران دو مرتبہ طیبہ سے ہماری بات کرائی اور کہا کہ فکر نہ کریں بچی محفوظ ہے ۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے سوال کیا کہ گھر میں ٹی وی ہے تو اعظم نے جواب دیا کہ گھر میں ٹی وی نہیں ہے۔ایک سوال کے جواب میں بچی کے والد نے کہا کہ میرے5 بچے ہیں،طیبہ سب سے بڑی ہے اور اس کی عمر 10 سال ہے۔ چیف جسٹس نے اعظم سے استفسار کیا کہ جب آپ نے بچی کے جس پر زخم دیکھے تو ان سے متعلق کس سے پوچھا جس پر اعظم نے بتایا کہ جب جج صاحب نے بچی میرے حوالے کی تو میں نے ان سے پوچھا کہ بچی کو یہ زخم کیسے لگے لیکن انہوں نے کچھ نہیں بتایا۔اعظم کا مزید کہنا تھا کہ جج صاحب نے ہمیں برما ٹاو¿ن میں ایک مکان لے کر دیا اور ایک موبائل سم بھی خرید کر دی لیکن بعد ازاں کہا گیا کہ سم نکال دو کیونکہ اس سے جگہ کا پتہ لگایا جا سکتا ہے جس کے بعد 5 روز تک ہمارا کوئی رابطہ نہ ہو سکا، پھر ہمیں ایک فارم دیا گیا اور کہا گیا کہ اس پر انگوٹھا لگاو¿ تو ہم نے اپنی بچی کی خاطر جج صاحب کو معاف کیا اور اسے اپنے ساتھ لے کر چلے گئے۔ بچی کے والد نے کہا کہ وکیل ظہور کے گھر بچی سے ملاقات ہوئی ،نادرہ بی بی مجھے اور بھائی کو وکیل کے گھر لے گئی۔ بعد ازاں اسلام آباد پولیس نے طیبہ کی میڈیکل رپورٹ عدالت میں پیش کی ۔ پولیس کے مطابق طیبہ کا بیان ریکارڈ نہیں کیا گیا بلکہ بچی کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ طیبہ کی پہلی تصویر کا فرانزک جائزہ لیا جارہا ہے۔چیف جسٹس نے اسسٹنٹ کمشنر نے استفسار کیا کہ کیا بچی ملنے کے بعد نادرہ بی بی سے رابطہ کیاگیا،کیا وجہ تھی کہ بچی کا بیان نہیں لیاگیا۔اسسٹنٹ کمشنر نے جواب دیا کہ پولیس نے بازیابی کے بعد بچی کو میرے پاس بھیجا۔بچی کی میڈیکل رپورٹ آگئی ہے اور بچی کی مدعیت میں مقدمہ درج ہے۔سپریم کورٹ نے کہا کہ بچی ہی اصل حقائق بتا سکتی ہے اور بچی کو اپنے والدین کے پاس نہیں رہنا چاہیے تاکہ بچی بغیر کسی خوف کے اپنا بیان ریکارڈ کرائے۔پاکستان سویٹ ہوم نے بچی کو لینے کی استدعا کی ، عدالت نے ان کی استدعا منظور کرلی۔ ڈی آئی جی اسلام آباد نے تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ سے دو ہفتوں کی مہلت مانگی جس کو سپریم کورٹ نے مسترد کردی اور حکم جاری کیا کہ ڈی آئی جی اسلام آباد شفاف تحقیقات کرکہ حقائق کو سامنے لائیں۔ عدالت نے ڈی این اے رپورٹ آنے کے بعد اسی روز سپریم کورٹ میں جمع کرانے کا حکم دیا ہے ۔عدالت میںایس ایچ او نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ جج صاحب نے طیبہ کو میرے حوالے کیا۔بچی کا بیان قلمبند ہوا اور مقدمہ درج کرلیا گیا۔ایڈیشنل سیشن جج نے بچی کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔جج کے حکم پر بچی والدین کے حوالے کی گئی۔ایس ایچ نے مزید کہا کہ 28 دسمبر کو سوشل میڈیا پر تصویر چلی۔رات 12 بجے مجھے ایس ایم ایس موصول ہوا کے بچی پر تشدد ہوا ہے۔جبکہ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ تشدد کیس میں4 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے گئے ہیں۔سپریم کورٹ نے بچی کے تمام دعویداروں کے بیانات قلمبند کرانے کا حکم دیتے ہوئے تحقیقاتی رپورٹ 10 روز میں عدالت میں جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔