چکوال‘ تلہ گنگ‘کھیوڑہ (مانیٹرنگ ڈیسک) وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ وہ صرف مسلمانوں کے نہیں بلکہ پاکستان میں رہنے والے تمام مذاہب کے افراد کے وزیراعظم ہیں۔ پاکستانی سیاست میں کچھ ایسے لوگ آ گئے ہیں جو روز ایک نیا الزام لگاتے ہیں، ملک میں ترقی ہو رہی ہے اور کے پی کے میں بھی موٹروے ہم بنا رہے ہیں، مخالفین اگر کہیں تو ان منصوبوں پر ان کا نام لکھ دیتے ہیں، اتنی مہربانی کر دیں گے,الحمد للہ رب العالمین کہاگیا ، یہ نہیں کہاگیا کہ رب المسلمین ، اللہ کے رسول نے مسیحی بادشاہ نجاشی کو بھی اچھے الفاظ میں یاد کیا کیونکہ اس نے مسلمان اقلیت کیساتھ حسن سلوک روا رکھا تھا،وزیراعظم نے کہا کہ میں پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں کا وزیراعظم نہیں بلکہ تمام پاکستانیوں کا وزیراعظم ہوں، ان سب کا جو ننگے سر ہیں اور جو پگڑیوں والے ہیں، ٹنڈوں والے ہیں اور بالوں والے، داڑھیوں والے ہیں اور بغیر داڑھیوں والے۔تفصیلات کے مطابق تاریخی مقام کٹاس راج پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ آج اس تاریخی مقام پر آ کر بہت خوشی ہو رہی ہے۔ آثار قدیمہ کے حوالے سے اس جگہ کی ایک اہم حیثیت ہے اور اس کی تاریخ چار ہزار سال قبل مسیح ہے۔ہندو قوم کیلئے یہ ایک مقدس استھان ہے، لیکن ان کیساتھ ساتھ سکھ، بدھ مت، اور اسلام سمیت چاروں مذاہب کا سنگم بھی ہے ۔ دنیا بھر سے ہندو شری کٹاس راج کی یاترا کی خواہش رکھتے ہیں اور یہ مقام تاریخ اور آثار قدیمہ میں دلچسپی رکھنے والوں کیلئے بھی کشش کا مقام ہے۔ یہی مقام ہے جہاں البیرونی نے اپنی خداداد صلاحیتوں کی بدولت زمین کا قطر دریافت کیا جو معمولی ردوبدل کے بعد جدید دور میں بھی رائج ہے۔ یہ اطمینان کا باعث ہے کہ اس تاریخی مقام کے تحفظ کیلئے قابل قدر کام کیا گیا جو آج بھی جاری ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ شری کٹاس راج کا سماں پوری دنیا کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ پوری دنیا میں بسنے والے پارسی ہوں یا بہاری، مسلمان ہوں یا سکھ، عیسائی ہوں یا ہندو سب کو برابر کا شہری مانا جاتا ہے اور یہ سب انسانیت کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں اورپاکستان کے دفاع، امن اور ترقی کی خوشحالی کیلئے ہر شعبے میں ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر کام کر رہے ہیں۔ یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ ہم سب پاکستان کی تعمیر میں اپنا ہاتھ بٹا رہے ہی اور ہم نے اپنے عمل سے اس تصور کو فروغ دیا کہ مذہب سب کا اپنا اپنا لیکن انسانیت ہماری مشترکہ میراث ہے۔ میں ذاتی طو پر اقلتوں کی خوشی میں شریک ہوتا ہوں اور ان کے دکھ اور سکھ بانٹتا ہوں کیونکہ بطور پاکستانی ہمارے دکھ اور سکھ سانجھے ہیں۔ پاکستان میں بہت سے مذاہب کے مقدس مقام ہیں اور ان کے ماننے والے دنیا بھر سے یہاں آتے ہیں، میں نے خاص طور پر صدیق الفاروق کو تاکید کر رکھی ہے کہ یاتریوں کے تحفظ اور میزبانی کیلئے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے۔ میں نے صدیق الفاروق کو یہ ذمہ داری سونپ رکھی ہے اور یقین ہے کہ وہ تندہی اور خلوص سے اس ذمہ داری کو ادا کر رہے ہیں، امید ہے کہ وہ جانفشانی سے یہ خدمت جاری رکھیں گے کیونکہ اقلیتوں کی خدمت سے جہاں ملک کا نام روشن ہو گا وہاں اللہ تعالی بھی خوش ہوں گے ۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جب اسلام کا سفر شروع ہوا تو اس وقت بھی مسلمان اقلیت میں تھے اور انہیں مکہ میں اکثریت کے جبر کا سامنا کرناپڑے اور اس کے باعث ہجرت کرنا پڑی لیکن جب مدینہ منورہ میں مسلمان اکثریت بن کر ابھرے اور اقتدار ان کے ہاتھوں میں آگیا تو انہوں نے وہاں رہنے والی اقلیتوں کے ساتھ عزت و احترام کا سلوک کیا، اللہ کے آخری رسول نے یثرب کے غیر مسلم قبائل اور یہودیوں سے معاہدے کئے اور ان کے بنیادی حقوق ادا کرنے کی ضمانت دی، مدینہ شریف میں مسلمانوں کیساتھ ایک امت قرار دیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ مسلمانوں کو بطور اقلیت مکہ مکرمہ میں جو ظلم و جبر سہنا پڑا انہیں ایسی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اللہ کے رسول نے مسیحی بادشاہ نجاشی کو بھی اچھے الفاظ میں یاد کیا کیونکہ اس نے مسلمان اقلیت کیساتھ حسن سلوک روا رکھا تھا۔وزیراعظم نے کہا کہ ہمارا ایمان ہے کہ اکثریت ہو یا اقلیت سب کے ساتھ برابر کا سلوک کرنا ہے، اقلیتوں کو بنیادی حقوق دینے ہیں، قرآن کریم میں ہے کہ جب تک سارے انبیاکرام کو نہیں مانتے، ساری کتابوں کو نہیں مانتے، اس وقت تک آپ مسلمان نہیں کہلا سکتے، یہ ہمارے لئے لازم ہے کہ ہم سب پیغمبروں کو مانیں اور سب آسمانی کتابوں کا پورا احترام کریں تو ہی مسلمان کہلانے میں حق بجانب ہیں۔ میں ان بعض علماکی بات کر رہا ہوں جو مذہب کی تفریق کی باتیں کرتے ہیں لیکن سب علماکرام ایک جیسے نہیں ہیں اور بعض علمابہت اچھی باتیں کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے احترام اور تعلق داری کی باتیں کرتے ہیں۔ بڑوں کے ادب اور چھوٹوں سے پیار کی بات کرتے ہیں، کسی ذات یا مذہب کی بات نہیں کرتے، ہر مذہب یہی سکھاتا ہے۔ ہم ہی ہیں جو بہک جاتے ہیں اور لوگوں کو بہکانے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ کسی کو اس طرح کا سبق پڑھانا جائز نہیں ہے۔ ہم سب قرآن پاک اور دیگر کتابوں میں لکھے سبق پر قائم رہیں گے تو ٹھیک رہیں گے، ہمارے صوفی بزرگوں نے بھی بہت اچھی اچھی باتیں لکھی ہیں، انہوں نے انسانیت دوستی کے حوالے سے جو چیزیں لکھی ہیں ان کا انسان کی زندگی میں سب سے زیادہ عمل دخل ہے۔ کسی کا دل توڑ دیں تو ساری زندگی بھی معافی مانگنے پر بات نہیں بنتی، پتھر مارنے سے زخم بھر جاتا ہے اور انسان واپس اسی جگہ پر آ جاتا ہے لیکن کسی کا دل توڑ دیا جائے تو وہ واپس نہیں آتا، اسی لئے بزرگوں نے کہا ہے کہ مسجد ڈھا دے، مندر ڈھا دے، ڈھا دے جو کچھ ڈھینڈا اک دل نا بندے دا ڈھاویں بندیا، رب دلاں وچ رہندا وزیراعظم نے کہا کہ میں پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں کا وزیراعظم نہیں بلکہ تمام پاکستانیوں کا وزیراعظم ہوں، ان سب کا جو ننگے سر ہیں اور جو پگڑیوں والے ہیں، ٹنڈوں والے ہیں اور بالوں والے، داڑھیوں والے ہیں اور بغیر داڑھیوں والے، کیوں سردار جی! میں ٹھیک کہہ رہا ہوں یا نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ صدیق الفاروق سے کہا کہ کٹاس راج کی پرانی تصاویر دیکھ کر ان کی تزئین و آرائش کی جائے اور انہیں واپس اسی شکل میں لایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ قرآن کریم میں بھی رحمت العالمین کہا گیا ہے، رحمت المسلمین نہیں کہا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی کی حکومتوں نے پہلے کچھ کیا نہ آئندہ کریں گے اور انہیں اس کا جواب بھی دینا ہو گا جبکہ ان لوگوں کو بھی جواب دہ ہونا پڑے گا جو آج ترقی کا راستہ روک رہے ہیں۔ لیکن ہم رکنے والے نہیں ہیں اور کام کرتے جائیں گے اور پاکستان میں ترقی کی منزلیں طے کرتے جائیں گے۔ حکومت کی کوششوں کے باعث بیروزگاری بھی کم ہور رہی ہے، غربت بھی کم ہو رہی ہے، پسماندگی بھی کم ہو رہی ہے، مجھے سن کر خوشی ہوئی کہ یہاں کیڈٹ کالج میں بہت سارے بچے بلوچستان سے آئے ہوئے ہیں ۔ پرنسپل صاحب نے ان بچوں سے بھی ملوایا، کوئی فاٹا سے ہے، کوئی بلوچستان سے، کوئی سندھ کے اندرونی علاقوں سے، کوئی کے پی کے کے پسماندہ علاقوں سے، پنجاب کے دیہی اور شہری علاقوں سے بھی ہیں، آزاد کشمیر، اور گلگت بلتستان کے بھی ہیں، یہ بہت خوشی کی بات ہے اور اسی طرح کے ادارے بننے چاہئیں۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سڑکوں کا جال بچھ رہا ہے، بلوچستان میں سڑکوں کا جال بچھ رہا ہے، چند مہینوں میں کراچی حیدر آباد کی 6 رویہ موٹروے تیار ہو رہی ہے۔ لاہور سے اسلام آباد یا اسلام آباد سے پشاور اور پھر کے پی کے میں بھی ہم حسن ابدال سے حویلیاں تک چھ رویہ موٹروے بنا رہے ہیں۔ وہ نیا پاکستان بنانے والے کچھ بھی نہیں بنا رہے، یہ سارا کچھ ہم بنا رہے ہیں اور اگر وہ کہیں گے تو ہم ان کا نام لکھ دیں گے کہ آپ نے بنایا ہے، اتنی مہربانی کر دیں گے ۔ کراچی سے لاہور موٹروے بن رہی ہے جس کی تکمیل سے کراچی سے پشاور کا سفر چند گھنٹوں کا رہ جائے گا۔ ابھی تو ایک سے دو دن لگتے ہیں لیکن اب ایک ہی دن لگے گا، صبح چلیں گے اور شام کو پشاور پہنچ جائیں گے۔ اسی طرح گوادر سے کوئٹہ کی ہائی وے بنائی ہے اور سفر کا یہ عالم ہو گیا ہے کہ صبح ناشتہ کریں گوادر میں اور دوپہر کا کھانا کھائیں کوئٹہ میں ، ہم اس کا افتتاح بھی کر چکے ہیں۔ جنہوں نے بڑی بڑی حکومتیں کیں ان کے صوبوں میں بھی ہم موٹرویز بنا رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ سارے ملک کی موٹروے اللہ نے ہمارے ہاتھ سے ہی بنوانی ہیں، پہلے بھی ہم نے پشاور سے لاہور تک موٹروے بنوائی اور 1999میں چلے گئے۔ 2013میں واپسی ہوئی تو دیکھا کہ 14 سالوں میں کچھ نہیں بنا اور پھر ان ساڑھے تین سالوں میں ماشااللہ موٹرویز بن رہی ہیں جن میں سے کچھ 2018میں مکمل ہو جائیں گی اور باقی 2019میں مکمل ہوں گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم ادارے بھی ٹھیک کر رہے ہیں اور دہشت گردی بھی ختم کی ہے۔ 013میں روز بم دھماکے ہوتے تھے، مسلمان بھائی مسلمان کا گلا کاٹ رہا تھا، یہ سب ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر بھی نظر آتا تھا، آج بھی ماضی کو دیکھ سکتے ہیں لیکن آج اللہ کا شکر ہے جس نے پاکستان کی مدد فرمائی اور آج دہشت گردی بھی قابو میں آ رہی ہے ، جتنا شکر ادا کریں اتنا ہی کم ہے،آج روز پاکستان کے حق میں نئے آرٹیکل چھپتے ہیں اور عالمی ریٹنگ کے ادارے پاکستان کی ریٹنگ کو مثبت قرار دے رہے ہیں، تمام معاشی اعشارئیے بہتر ہو گئے ہیں ۔ ہم پاکستان بھر میں سٹیٹ آف دی آرٹ 50 نئے ہسپتال بنا رہے ہیں۔ آج صبح ہی اسلام آباد میں چھوٹے بچوں کے سکولوں کا دورہ کیا جہاں سینکڑوں بچے موجود تھے جنہیں دیکھ کر بہت پیار آیا۔ ان تمام سکولوں کو بہت اچھا بنا رہے ہیں، تعلیم کے معیار کو بہتر بنا رہے ہیں، غریب بچوں کی ٹرانسپورٹ کیلئے بسیں دی ہیں۔ پورے اسلام آباد میں 422 سکول ہیں لیکن فی الحال 200 بسوں کا انتظام کیا ہے اور اللہ نے توفیق دی تو سب کو ایک ایک بس دیں گے۔ ان بچوں میں مسلمان، عیسائی، ہندو، پارسی اور سکھ بھی ہیں، یہ سارے ہمارے اپنے بچے ہیں، ان کو پڑھانا لکھانا ہماری ذمہ داریوں میں شامل ہوتا ہے ۔ وزیراعظم نے کہا جس گاں میں میرے والد صاحب پیدا ہوئے اس کا نام جاتی امراہے اور میرے والد صاحب کے دادا کی قبر بھی جاتی امرامیں ہی ہے۔ شہباز شریف اور خاندان کے کچھ افراد اس قبر پر گئے، جاتی امراکے تمام سکھ گھرانوں نے جس طرح سے اس قبر کو سنبھال کر رکھا ہوا ہے میں دل کی گہرائیوں سے ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، دیگر بزرگ رشتہ داروں کی قبریں بھی وہاں موجود ہیں، تمام سکھ صاحبان اور دوستوں کا مشکور ہوں کہ انہوں نے ہمارے بزرگوں کی قبروں کی حفاظت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس گھر میں میرے والد صاحب پیدا ہوئے اسے اب گوردوارہ بنا دیا گیا ہے، 1999میں اس کی چوکھاٹ بہت خوبصورت تھی جسے وہ خود امرتسر سے لاہور لے کر آئے اور مجھے پیش کی، ہم نے بڑے اہتمام سے جاتی امراکے نام پر اپنی جگہ کو جاتی امراکا نام دیا ہے۔ وزیراعظم نے اس موقع پر 1999میں حکومت کے خاتمے اور اپنی گرفتاری کا ذکر بھی کیا اور کہا کہ جب گرفتار کر کے حکومت ختم کی گئی تو اس وقت سب سے پہلے شخص جو میرے والد صاحب سے ملے وہ عبدالرزاق جامی صاحب ہیں اس لئے میں دل کی گہرائیوں سے ان کی قدر کرتا ہوں اور جس طرح سے انہوں نے نبھا کیا ہے وہ کم لوگ کرتے ہی۔ جامی صاحب نے خود کہا تھا کہ مجھے میری والدہ نے کہا تھا کہ تم نے میاں نواز شریف کو چھوڑا تو میں تمہیں اپنا دودھ نہ بخشی، انہوں نے کہا کہ والدہ نے نہ کہا ہوتا تو میں کب کا چھوڑ چکا ہوتا ۔ قرآن میں لکھا ہوا ہے کہ والدین جب بڑی عمر کو پہنچ جائیں تو ان کی کسی بات کا برا مت منا اور اف مت کرو بلکہ ان کے سامنے اپنے کندھے جھکا دو ۔ قرآن میں ہے کہ کسی کا عیب مت تلاش کرو، پھر یہ غیبت کرتے ہیں جس کے بارے میں لکھا ہوا ہے کہ غیبت کرنا ایسا ہی ہے کہ مردہ بھائی کا گوشت کھائیں۔ یہاں لوگ روز غیبت کرتے ہیں، ایک تہمت بھی ہوتی ہے جس کا وجود ہی نہیں ہوتا، اس کی کوئی معافی نہیں ہے، ایک شخص حضورﷺ کے پاس گیا اور کہا کہ یا رسول اللہﷺ میں بہت گنہگار ہوں اور بہت گناہ کئے یں، میرے میں بہت عیب ہیں، آپ ﷺ دعا کریں کہ اللہ میرے عیبوں پر پردہ پوشی کریں، آپﷺ نے فرمایا کہ تم دوسروں کے عیبوں پر پردہ ڈالو اللہ تمہارے عیبوں پر پردہ ڈالے گا۔ اسلام نے سختی سے کہا ہے کہ کسی کے مذہب اور عبادت گاہ کو برا مت کہو، کسی کو برا نہیں کہنا چاہئے، اس سے زیادہ انسانیت کیا ہو سکتی ہے۔ اللہ سے عہد کریں کہ کسی کی برائی اور غیبت نہیں کرنی اور پھر اس عہد پر قائم رہیں کیونکہ یہی سرمایہ کاری ہے ، اگر آپ یہ کرتے ہیں تو اس کے بدلے میں ماضی کے آپ کے گناہ معاف ہو جائیں گے اور مصیبتیں خوشیوں میں بدل جائیں گی۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یہاں روز کیچڑ اچھالنے میں لگے ہوتے ہیں، سیاست میں بھی کچھ ایسے لوگ آ گئے ہیں جو روز نیا جھوٹ بولتے ہیں اور نیا الزام لگاتے ہیں، تراشی کرتے ہیں، اللہ سے معافی مانگو، ایسے لوگوں کو اللہ تعالی کبھی فیض نہیں دیتا، یہ اصول اپنائیںکہ کہنے سے پہلے سوچیں کہ میں کسی پر الزام تراشی یا بہتان تراشی تو نہیں کرتا ۔ انسان کو پہلے ٹٹولنا چاہئے خود کو پہلے کہ کیا وہ خود بھی ایسی بات نہیں کرتا جس کی وہ دوسروں کو نہ کرنے کی تلقین کرتا ہے ۔ جبکہ تقریب میں شرکت کرنے والوں میں ایم این اے میجر طاہر اقبال ‘ ایم این اے سردار ممتاز ٹمن‘ ایم پی اے سردار ذوالفقار عی خان دلہہ ایم پی اے چودھری لیاقت علی خان‘ ایم پی اے مہوش سلطانہ‘ معاون خصوصی خصوصی وزیرعلیٰ پنجاب ملک سلیم اقبال‘ ملک شہربار اعوان‘ ایم این اے بیگم عفت لیاقت‘ چیئرمینضلع کونسل چکوال اسلم ڈھلی‘ وائس چیئرمین خورشید بیگ‘ چکوال چیمبر آف کامرس کے صدر خرم کامران‘ ملک فلک شیر اعوان‘ صوبیدار اکرم منارہ‘ چیف وارڈن سول ڈیفنس راجہ مجاہد افسر‘ چیئرمین نعیم اصغر اعوان‘ چودھری محمد ضمیر سابق صدر خواجہ عارف یوسف‘ چیئرمین ڈوہمن ملک ظفر اقبال‘ چیئرمین کریالہ عرفان حیدر‘ کمشنر راولپنڈی ڈویژن عظمت محمود‘ ڈپٹی کمشنر محمود جاوید بھٹی‘ آر پی او راجہ فخر وصال‘ سنیٹر جنرل (ر) عبدالقیوم‘ ڈی پی اور منیر مسعود مارتھ‘ راجہ علی اعجاز‘ چیئرمین چکوال پریس کلب خواجہ بابر سلیم محمود‘ معروف نعت خوان عبدالرزاق جامی‘ خالد نوابی‘ سیکرٹری جنرل محمد خان‘ عاقل بھی موجود تھے۔ رکن قومی اسمبلی میجر طاہراقبال اور سنیٹر جنرل (ر) عبدالقیوم وزیراعظم کے ہمراہ اسلام آباد سے ہیلی کاپٹر میں آئے۔