لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیاشاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیاشاہد نے کہا ہے کہ پانامہ کیس ہماری عدلیہ کا بڑا زبردست امتحان ہے۔ دعا گو ہوں کہ وہ اس میں کامیاب ہو۔ مجھے یقین ہے کہ سپریم کورٹ بطور منصف اس کیس میں سرخرو ہوگی۔ معزز ججز حضرات اس بات کو بھی ذہن میں رکھیں کہ ایک عام آدمی بھی اس کیس پر پوری نظر رکھے ہوئے ہے اور سماعت کے دوران ہر جملے اور اشارے کا مطلب اخذ کر رہا ہے۔ عام لوگوں نے جب وکیل نعیم بخاری سے عدالت نے چھبتے سوالات اور کھچائی ہوتے دیکھی تو ان کے ذہنوں میں سوال تھا کہ کیا وزیراعظم اور ان کے بچوں کے وکلاءسے بھی اسی طرح کے سوالات پوچھے جائینگے لیکن اب لوگ خوش ہیں کہ سب سے ایک ہی طرح کا برتاﺅ ہو رہا ہے اور کسی فریق کی حمایت کا تاثر نہیں ابھر رہا۔ میں تمام ججز صاحبان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ وہ کیس کی بڑی عمدگی سے سماعت کر رہے ہیں۔ حکومتی رہنما نعیم بخاری کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں تو اس کی ذمہ داری عدالت پر نہیں عائد ہوتی۔ دانیال عزیز اور طلال چودھری اپنے نمبر بنانے کےلئے باتیں کرتے ہیں تو اسے انجوائے کرنا چاہیے کیونکہ ہر اچھے ڈرامے یا فلم میں کامیڈین کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ آئینی طور پر سیاسی جماعتوں کو وکیل کرنے یا خود کیس لڑنے کا حق حاصل ہے اس لئے شیخ رشید اپنا کیس خود لڑ رہے ہیں۔ جماعت اسلامی اصولی طور پر تو تحریک انصاف سے متفق نظر آتی ہے۔ جماعت اسلامی ایک نظریاتی جماعت ہے جس میں بڑے بڑے قدآور رہنما رہے ہیں لیکن اب وہاں بھی قحط الرجال نظر آتا ہے۔ جماعت اسلامی کے موجودہ رہنماﺅں کی کئی باتیں سر سے گزر جاتی ہیں جیسا کہ ایک صوبہ میں تحریک انصاف کی حکومت کا حصہ بننا اور دوسری جانب کشمیر کے الیکشن میں ن لیگ کو ووٹ دینا۔ ایک نظریاتی جماعت سے پوچھا جا سکتا ہے کہ ایک ملک کے دو صوبوں میں ان کی پالیسی مختلف کیوں ہے۔ اب پانامہ کیس میں بھی ان کے وکیل نے کوئی دلیل دی نہ ثبوت پیش کیا ہے۔ یہ معاملہ بھی کشمیر الیکشن جیسا ہی لگتا ہے۔ جماعت اسلامی کے پاس ایک موقع تھا کہ وہ عدالت میں آرٹیکل 63, 62 کی بنیاد پر بات کرتی۔ سینئر صحافی نے کہا کہ آرٹیکل 63, 62 آئین کا حصہ ہے لیکن بدقسمتی سے جب بھی عدالت میں اس کی بات کی گئی تو مضحکہ خیز باتیں سننے میں آئیں۔ آرٹیکل 63, 62 کے تحت کبھی کسی عدالت نے کوئی فیصلہ نہیں دیا بلکہ ہمیشہ اسے مزاح یا چھبتے ہوئے جملوں میں ٹال دیا گیا۔ اب صرف یہ کہہ کر تو آئین کی شقوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اگر اسے نافذ کریں تو پوری اسمبلی خالی ہو جائے گی۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ ضروری نہیں کہ بڑے باپ کا بیٹا بھی بڑا آدمی ہی بنے۔ خواجہ آصف کے والد خواجہ صفدر ایک مثالی شخصیت تھے ان کی آج بھی مثالیں دیتا ہوں۔ خواجہ آصف نے سینٹ میں جو بیان دیا وہ میری سمجھ سے تو باہر ہے۔ 3دن پہلے خود انہوں نے تصدیق کی کہ جنرل راحیل شریف اتحادی فوج کے سپہ سالار بن چکے ہیں، معاہدہ ہو چکا ہے۔ اب سینٹ میں دوسرا بیان دیدیا اس پر کیا تبصرہ کیا جا سکتا ہے۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز تو ان سے بھی دو قدم آگے بڑھ گئے اور بیان داغ دیا کہ راحیل شریف کو کوئی آفر نہیں ہوئی اور نہ ہی مستقبل میں اس کا امکان ہے۔ سینئر صحافی نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ جب سعودی وزیر دفاع پاکستان آئے تو پیشکش کی تھی اور اخبارات میں یہ خبریں شائع بھی ہوئیں اس وقت مشیر خارجہ نے تو تردید نہیں کی تھی۔ میرے خیال میں امریکہ اور دیگر بڑی طاقتیں اس اسلامی اتحاد کو کبھی بھی بڑی طاقت نہیں بننے دیں گی۔ جنرل(ر) راحیل شریف کو خود آگے بڑھ کر کھل کر بات کرنی چاہیے کہ انہیں کوئی پیشکش کی گئی یا نہیں، معاملات کہاں تک پہنچے ہیں اور اگر اب پیشکش نہیں بھی رہی تو اس کی کیا وجہ ہے۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ امریکی صدر ٹرمپ کی حرکتیں دیکھ کر لگتا ہے کہ امریکہ کے سیاستدان بھی ہمارے حکمران طبقات کی ذہنی سطح پر آ چکے ہیں۔ جس طرح کی جمہوریت اور آزادی صحافت ہمارے ہاں چل رہی ہے وہی امریکہ میں بھی شروع ہو چکی ہے۔