لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ شعبہ صحت مشکلات اور مسائل کا شکار ہے ہسپتال مریضوں سے اٹے پڑے ہیں۔ ہمارے ڈاکٹرز تو بڑے قابل اور ذہین ہیں لیکن پیرا میڈیکل سٹاف کی حالت ابتر ہے۔ ایک بیماری کا علاج کرانے کیلئے سرکاری ہسپتال جانے والا وہاں سے کئی بیماریاں ساتھ لے کر نکلتا ہے۔ ادویات غیر معیاری ملتی ہیں۔ ایک ہی کمپنی کی دوائی پاکستان سے لیں اور اسی کمپنی کی دوائی کی بیرون ملک سے لیس واضح فرق کا پتہ چل جائے گا۔ دنیا بھر میں پیرا میڈیکل سٹاف کو خصوصی طور پر ٹریننگ دی جاتی ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کے ٹاﺅٹ پھرتے ہیں جو وہاں آئے مریضوں کو نجی کلینکس کے ایڈریس والا کارڈ تھما دیتے ہیں اور قائل کرتے ہیں کہ وہاں سے علاج بہتر ہو گا۔ نجی کلینکس میں ڈاکٹرز ایک مریض سے 3 ہزار روپے تک فیس لے رہے ہیں، انہیں کیا پڑی ہے کہ وہ سرکاری ہسپتال میں ہی ان مریضوں کا علاج کریں۔ سرکاری ہسپتالوں کی لیبارٹیاں غیر معیاری ہیں جس کے باعث خود ڈاکٹرز ان کی رپورٹ کو تسلیم نہیں کرتے۔ مریضوں کو مہنگے ٹیسٹ لکھ کر دیئے جاتے ہیں جو وہ نجی لیبارٹریوں سے کرانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ وزیرصحت پنجاب خواجہ سلمان رفیق نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بھر میں 44 نئے ہسپتال بننے میں تمام صوبوں نے اپنی لسٹیں بھجوا دی ہیں۔ نیشنل ہیلتھ پروگرام بہترین چل رہا ہے۔ 32 فیصد انتہائی غریب لوگ اب نجی ہسپتال سے 50 ہزار روپے تک علاج کرا سکتے ہیں، نیشنل ہیلتھ پروگرام رحیم یار خان، خانیوال، نارووال سمیت کئی شہروں میں لانچ کر چکے ہیں اگلے ماہ سرگودھا میں لانچ کر رہے ہیں۔ پنجاب بھر میں ایک سال میں سو فیصد شہروں میں ہیلتھ انشورنس کے ذریعے غریب لوگوں کی مفت علاج کی سہولت دیں گے۔ سرکاری ہسپتالوں میں نرسنگ ٹریننگ کو عالمی معیار کے مطابق بنا رہے ہیں، نرسنگ سکولز کو کالجز بنا رہے ہیں، پوسٹ گریجوایشن کرا رہے ہیں، پی ایچ ڈی بھی شروع کر رہے ہیں۔ وزیر صحت نے کہا کہ پیرا میڈیکل سٹاف کیلئے ادارے بنائے ہیں جہاں میرٹ پر ذہین بچے لئے جا رہے ہیں۔ ہمیں وفاقی حکومت کی مکمل سرپرستی حاصل ہے۔ نیشنل ہیلتھ پروگرام غریبوں کیلئے لائف لائن ہے۔ اس پروگرام کے باعث نجی ہسپتالوں کا معیار بھی بہتر ہو جائے گا۔ ہیلتھ انشورنس پالیسی حکومت ادا کرے گی، اس کیلئے پنجاب میں15 سے 18 ارب روپے خرچ ہوں گے۔ ٹوٹل پریمیم سے 70 فیصد ادائیگی پنجاب حکومت اور 30 فیصد وفاقی حکومت ادا کرے گی۔ پروگرام سے لاکھوں خاندان فیض یاب ہوں گے۔ کارڈز ہولڈر خاندان پینل پر موجود نجی ہسپتالوں میں علاج کرا سکتا ہے، اب کچھ سرکاری کارڈیکس سنٹرز بھی پینل میں شامل کر دیئے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں کی حالت بہتر بنا رہے ہیں، مریضوں کا رش کم کرنا ہماری ترجیح ہے۔ لاہور کے ہسپتالوں میں 60,65 فیصد مریض بیرون شہر سے آتے ہیں جس کے باعث رش نظر آتا ہے۔ دنیا بھر میں ایمرجنسی میں جتنے بیڈ ہوں اتنے ہی مریض داخل کئے جاتے ہیں، اگر ہم یہاں بھی اسی اصول کو اپنا لیں تو باقی کے مریض کہاں جائیں گے، اسی وجہ سے ایمرجنسیوں میں رش نظر ااتا ہے اور بعض دفعات وہیل چیئرزم یا سٹریکچر پر بھی مریضوں کو طبی امداد دی جاتی ہے۔ لاہور میں تمام بڑے ہسپتالوں کی استعداد بڑھا رہے ہیں۔ شیخ زائد ہسپتال میں اڑھائی سو بیڈز کا اضافہ کیا، چلڈرن ہسپتال میں 600 بیڈ سروسز میں 200 بیڈز بڑھائے گئے۔ جنرل ہسپتال کو اپ گریڈ کیا گیا شاہدرہ، میاں میر، داروغہ والا سمیت کئی علاقوں میں چھوٹے ہسپتال بنائے گئے ہیں۔ خواجہ سلمان نے کہا کہ لاہور میں مزید ہسپتال بننے چاہئے۔ ڈی جی خان میں 500 بیڈز کا ہسپتال بن رہا ہے، مظفر گڑھ میں 100 بیڈز کا ہسپتال بنایا جسے مزید توسیع دے کر 500 بیڈز تک لے جائیں گے، ساہیوال میں 500 بیڈ کا ہسپتال بن رہا ہے۔ گوجرانوالہ، سیالکوٹ میں پانچ پانچ سو بیڈ کے ہسپتال بن رہے ہیں۔ ڈسٹرکٹ اور بی ایچ یو سطح تک تبدیلی لا رہے ہیں، بی ایچ کیو میں کام کرنے والے ڈاکٹرز کو خصوصی پیکیج دے رہے ہیں کیونکہ ہمیں بڑے ہسپتالوں میں رش کم کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ خواجہ سلمان رفیق نے کہا کہ شوکت خان ہسپتال کی کارکردگی کو ہمیشہ سراہا ہے۔ وہاں ایک خاص تعداد تک مریض لئے جاتے ہیں باقی مریض جناح ہسپتال کے انکالوجی وارڈ میں علاج کیلئے جاتے ہیں۔ صحت کے شعبہ میں اس وقت 200 ارب سے زائد خرچ کر رہے ہیں۔ ینگ ڈاکٹرز کے معاملات پر پارٹی کا نہیں ہمیشہ ثالث کا کردار ادا کیا۔ ینگ ڈاکٹرز میں صرف ایک یا دو فیصد ایسے ہیں جن کا مریضوں سے رویہ ٹھیک نہیں باقی 90 فیصد بہترین کام کر رہے ہیں۔ ڈاکٹرز اور نرسز کی تنخواہوں میں اضافہ کیا، معاملات بہتر چل رہے ہیں، اس وقت ڈاکٹر 80 ہزار اور نرس 40 ہزار سے زائد تنخواہ لے رہی ہے۔ پنجاب کے میڈیکل کالجز سے فارغ ہونے والے ڈاکٹرز کی تعداد ہماری ضرورت سے زیادہ ہے اس لئے ڈاکٹروں کے بیرون ممالک جانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ یہ ڈاکٹر کم از کم ایک سال بی ایچ کیو میں ضرور کام کرے۔ وزیر صحت نے کہا کہ دل کے مریضوں کے سٹنٹ والا معاملہ بڑا حساس ہے، سٹنٹ کبھی جعلی نہیں ہوتا، یہ اصطلاح ہی غلط ہے، پاکستان میں یہ سٹنٹ نہیں بن سکتا۔ سرکاری ہسپتالوں میں سٹنٹ باقاعدہ رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔ غیر رجسٹرڈ کمپنیوں سے مریض خود ہی لاتے ہیں۔ اب ہم تمام سٹنٹس کو رجسٹرڈ کریں گے۔ اس مساملے پر سپریم کورٹ نے سوموٹوایکشن لے لیا، میڈیا پر شور مچا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کمپنیوں نے سٹنٹ سپلائی روک دی، اب ہمیں سفارشیں آ رہی ہیں کہ سٹنٹ دلائے جائیں۔ میں غیر رجسٹرڈ سٹنٹس کی حمایت قطعاً نہیں کر رہا، کسی بھی مریض کو شکایت ہو تو وہ ہیلتھ کیئر کمیشن میں درج کرا سکتا ہے۔ ہسپتالوں میں ادویات کے معیار پر پوری توجہ ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں اب صرف ملٹی نیشنل اور نیشنل کمپنیوں کی ادویات سپلائی ہونگی اس پر خرچ تو بڑھے گا لیکن ہم معیار پر سمجھوتہ نہیں کرینگے۔ لاہور کی ڈرگ ٹیسٹ لیب کو برطانیہ سے ملکر جدید بنا رہے ہیں۔ پرانے سٹاف کو فارغ کر کے میرٹ پر نیا ذہین سٹاف رکھ رہے ہیں۔ غیرمعیاری ادویات بنانے والوں کےخلاف قانون سازی کر رہے ہیں اسمبلی میں بل پیش کیا جائے گا جس میں سزا عمر قید اور 5کروڑ روپے تک جرمانہ کی سفارش ہوگی۔ نرسنگ کیئر میں ہم دنیا سے پیچھے ہیں اس حوالے سے کام کر رہے ہیں اور سٹاف کو ٹریننگ کےلئے ترکی بھجوا رہے ہیں۔ کچھ سال قبل تک تو ہزاروں میڈیکل اشیاءایسی تھیں جو رجسٹرڈ نہیں تھیں اب حکومت ڈریپ سے مل کر سسٹم کو بہتر بنا رہے ہیں سرکاری ہسپتالوں کی لیبارٹریوں کا معیار بہتر بنا رہے ہیں اپنے وسائل کے مطابق شعبہ میں بہتری لانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ سینئر فارماسسٹ نور محمد نے کہا کہ پنجاب حکومت کے پاس دل میں ڈالے جانے والے سٹنٹس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے اس حوالے سے کوئی پالیسی نہیں ہے، قیمت کے حوالے سے کوئی پالیسی نہیں ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ پنجاب حکومت نے 18 ویں ترمیم کے بعد کسی ایک پراڈکٹ کی رجسٹریشن نہیں کی، کوئی نیا لائسنس نہیں دیا۔ شعبہ صحت کی کارکردگی صفر ہے۔ مریضوں کو غیر معیاری ادویات بنانے والی کمپنیوں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ بعض ڈاکٹرز ڈاکو کا رول ادا کر رہے ہیں لیکن ان کےخلاف کوئی قانون سازی نہیں کی گئی۔چیف رپورٹر روزنامہ خبریں طلال اشتیاق نے کہا کہ شعبہ صحت کی صورتحال یہ ہے کہ پنجاب کارڈیالوجی سے دل کے سٹنٹ ڈلوانے والے مریضوں کو ایک دو ماہ بعد پھر وہی مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ پنجاب حکومت کے پاس معیاری یا غیرمعیاری سٹنٹ کو چیک کرنے کےلئے کوئی لیبارٹری ہی نہیں ہے۔