تازہ تر ین

جج صاحبان کے سوال پر کوئی نتیجہ اخذ نہ کریں عدالت کے باہر بحث پر پابندی لگنی چاہئیے

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) خبریں گروپ کے چیف ایڈیٹر، سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی لاہور سے 2 دفعہ الیکشن لڑنے کی وجہ سے خود ایک پارٹی بنے ہوئے ہیں۔ فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جب ہنگامہ آرائی زوروں پر تھی تو سپیکر خاموش بیٹھے رہے۔ سردار ایاز صادق کو خلوص نیت سے مشورہ دیتا ہوں کہ خود کو غیر جانبدار رکھیں۔ چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بے شک سپیکر کا انتخاب اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی ہی کرتی ہے لیکن روایت رہی ہے کہ بعد میں سپیکر خود کو پارٹی سے الگ کرلیتا ہے۔ ملک معراج خالد کی مثال موجود ہے کہ ان کا بطور سپیکر انتخاب پیپلزپارٹی نے کیا تھا لیکن وہ اپوزیشن کو پورا موقع دیتے تھے جس کی وجہ سے پی پی ارکان ہمیشہ ان سے خفا رہتے تھے۔ افسوس کہ موجودہ سپیکر کا طرز عمل ایسا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ راحیل شریف کے زمانے میں بعض لوگوں کو غلط فہمی تھی کہ وہ مارشل لاءلگا دیں گے لیکن وہ جمہوریت پسند انسان تھے حالانہ جتنے مواقع مارشل لاءلگانے کے راحیل شریف کو ملے تاریخ میں کسی کو نہیں ملے۔ انہوں نے کہا کہ مشرف دور میں بہت سے لوگ گرفتار ہوئے جن میں اسحاق ڈار بھی شامل تھے۔ چونکہ وہ مالی امور کی دیکھ بھال کرتے تھے اس لئے ان پر دباﺅ بڑھا، غالباً تشدد بھی کیا گیا اور ان سے مجسٹریٹ کی موجودگی میں دستخط کروا لئے گئے۔ جس کے بعد اسحاق ڈار نے کہا کہ دستخط زبردستی کروائے گئے تھے۔ بہت پہلے یہ ہو جانا چاہئے تھا کہ مجسٹریٹ کو بلا کر پوچھتے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جانا تھا۔ عدالت نے اگر اب بھی اس مجسٹریٹ کو طلب کر لیا ہے تو یہ خوش آئند بات ہے۔ ورنہ تشدد کر کے کسی سے کچھ اگلوانا پولیس کے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا تفتیشی نظام برسوں پرانا چلا آ رہا ہے۔ پولیس کے پاس تفتیش کے لئے آج بھی مارپیٹ کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ آرمی کے قواعد ہیں کہ کسی بھی فوجی افسر کو ریٹائرڈ ہونے کے بعد زمین الاٹ کی جاتی ہے۔ جو دور دراز علاقوں میں دی جاتی ہے جبکہ راحیل شریف کے حوالے سے یہ باتیں گردش کر رہی ہیں کہ ان کو لاہور کے قریب زمین الاٹ کی گئی حالانکہ اس کی شرائط میں لکھا ہے کہ وہ زمین فروخت نہیں کر سکتے۔ وہ ایک فارم ہاﺅس کی طرح ہے، اس کا زرعی استعمال تو ہو سکتا ہے لیکن اسے کمرشل نہیں کر سکتے۔ سٹاک ایکسچینج کے اوپر جانے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ معاشی ترقی ہوئی ہے لیکن ایسا نہیں ہے، بدقسمتی سے یہاں لوٹ مار کا پیسہ بہت زیادہ ہو گیا ہے، جسے بنکوں میں رکھیں گے تو مقدمے ہوں گے لہٰذا اسے چھپانے کے لئے لوگ شیئرز خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ تحریک انصاف کے رہنما شہریار آفریدی نے کہا ہے کہ 26 جنوری سیاہ ترین دن تھا، سپیکر قومی اسمبلی ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے سخت سزا دیں تا کہ آئندہ ایسا نہ ہو اور پارلیمان کا تقدس بحال ہو۔ انہوں نے الزام لگایا کہ نون لیگ کے معین وٹو نے ہنگامہ آرائی کو بھڑکایا۔ نون لیگ دباﺅ اور اضطراب کا شکار ہو چکی، نازیبا الفاظ بیان کرتی ہے اور مارپیٹ پر اتر آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گوشوارے جمع نہ کرانے کا الزام بے بنیاد ہے نومبر 2016ءمیں گوشوارے جمع کرائے، جنوری میں بتایا گیا کہ ااپ کے گوشوارے جمع نہیں ہیں تو قومی اسمبلی میں سپیکر چیمبر کو اثاثے فیکس کئے۔ کہتے ہیں کہ 15 اکتوبر سے میری رکنیت معطل ہے تو اب تک قومی اسمبلی اور سپیکر چیمبر کیا سوئے ہوئے تھے؟ فوٹیج میں اپنی غلطی ثابت ہو گئی تو الزام لگانا شروع کر دیئے۔ سپیکر کا یہ کہنا کہ گوشوارے جمع نہ ہونے کا اب پتہ چلا تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ اور آپ کی ٹیم کرپٹ ہے۔ ماہر قانون دان ایس ایم ظفر نے کہا ہے کہ کسی کیس میں اگر کسی بیان کو عدالت نے مان لیا ہے تو اسے نئی شہادت آنے پر نظر ثانی کی اپیل کی جا سکتی ہے۔ اسحاق ڈار کے بیان پر اگر مجسٹریٹ کے دستخط ہیںتو ایسے بیان کو بغیر گواہی کے دوبارہ نظر ثانی کے لئے کھولا جا سکتا ہے۔ معاملہ بہت پھیل چکا ہے، بہت ساری گواہیاں بھی آ گئی ہیں لیکن لگتا ہے کہ اتنا کچھ پڑھ لینے کے بعد بھی نتیجہ نکالنا مشکل ہے۔ اس وقت سپریم کورٹ کے لئے مناسب دکھائی دیتا ہے کہ مقدمہ کو اس مقام تک لے جائیں کہ کمیشن مقرر کی جا سکے۔ کیس میں جب تک تفتیش سے کچھ چیزیں واضح نہ ہو جائیں حتمی فیصلے پر نہیں پہنچ سکتے۔ عدالت کمیشن بنا کر اسے مزید اختیارات دے سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جج صاحبان کے سوال سے کوئی نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہئے۔ عدالت کے باہر اصلاح کی بحث ہوتی ہے، ہر پارٹی کہتی ہے کہ جیت اس کی ہوئی۔ عدالت کو ایسی بحث پر پابندی لگانی چاہئے۔ پارلیمنٹ میں ہاتھا پائی کے واقعے پر انہوں نے کہا کہ جب تک انتخابات دھاندلیوں سے ہوں گے اسمبلی میں ایسے لوگ پہنچتے رہیں گے۔ شفاف انتخابات کے لئے باقاعدہ نظام بننے تک ایسے واقعات کی روک تھام ممکن نہیں۔ یہ صرف پارلیمنٹ کی نہیں پاکستان کی بدنامی ہے۔ دنیا کی اسمبلیوں میں بھی ایسے واقعات رونماہوتے ہیں لیکن ہمیں خود کو ٹھیک رکھنا چاہئے۔ ماضی میں اس طرح کا فساد ڈھاکہ میں صوبائی اسمبلی میں ہوا تھا، نتیجے میں ڈپٹی سپیکر کی موت بھی واقع ہو گئی تھی، وہ زمانہ سب کو یاد کرنا چاہئے۔ اس وقت مرزا سکندر وزیراعظم تھے اور اس واقعے کے بعد 1958ءکا مارشل لاءلگا تھا۔ ماہر معاشیات ڈاکٹر خالد رسول نے کہا ہے کہ سٹاک ایکسچینج عوام کے لئے نہیں خاص کے لئے ہے۔ یہ نظام اشرافیہ کا ہے، فوائد بھی انہی کو جاتے ہیں۔ سٹاک ایکسچینج 3 سال میں ڈھائی گنا اوپر گئی لیکن معیشت میں اتنی بہتری نہیں آتی۔ یہاں فاضل سرمایہ کاری آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک شیئر اگر 20 روپے کا تھا اور وہ 60 روپے کا ہو گیا تو یہ سب کاغذی کارروائی ہوتی ہے۔ حکومت ایسے کارنامو ںکو ڈھنڈورا پیٹنے کیلئے پیش کرتی ہے۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain