لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ کسی بھی صوبے میں شروع ہونے والے ہر نئے پراجیکٹ جو ملک کی ترقی اور عوام کی سہولت کیلئے ہو گا خیر مقدم کرتا ہوں۔ سڑکوںکی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ علاقوں کو ایک دوسرے سے ملاتی ہیں زندگ کو آسان کرتی ہیں۔ موٹر وے بھی جب بنی تو بڑی تنقید ہوئی لیکن وقت نے اس کی افادیت ثابت کر دی۔ میں اس وقت کراچی میں ہوں اور یہاں کی سڑکوں کی صورتحال دیکھ کر دل برا ہوا، 15 منٹ کا راستہ ایک گھنٹے میں زائد وقت میں طے کر کے دفتر تک پہنچا۔ دفتر کے باہر بچوں کا ایک بڑا خوبصورت پارک ہے جو کسی زمانے میں خوبصورت تھا کیونکہ اب اس میں کچرے کے ڈھیر ہیں۔ کراچی کی حالت موہنجودڑو جیسی ہو چکی ہے، سڑکوں کا نام و نشان بھی دکھائی نہیں دیتا۔ وزیراعظم نوازشریف سے درخواست ہے کہ آپ پورے ملک کے وزیراعظم ہیں کراچی کی حالت پر بھی توجہ دیں یہاں کی صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر مسائل حل کرائیں۔ آج وزیراعلیٰ سندھ سے ملاقات ہے جس میں ان کے سامنے بھی یہ مسائل رکھوں گا۔ یوں تو پاکستان بھر میں رشوت عام ہو چکی ہے لیکن سندھ اس حوالے سے بھی خاص مقام رکھتا ہے۔ یہاں ہر کوئی ایک سے برھ کر ایک ہے، یہاں قائد کا مزار ہے لیکن ان کے افکار کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ میئر کراچی کہتے ہیں کہ فنڈز نہیں ہیں جبکہ صوبائی حکومت کا موقف ہے کہ فنڈز تو ہیں یہ کام کرنے کو تیار نہیں، اب اسی طرح کے جھگڑے کیا یو این نمٹائے گا۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ ہمارے سیاستدان ابھی اتنے میچور نہیں ہوئے کہ ان علاقوں کو بھی فنڈز جاری کر دیں جہاں ان کا امیدوار ہار گیا ہو۔ وزیراعظم سے درخواست کروں گا کہ باقی صوبوں میں بھی اپنی مرضی کے وزیراعلیٰ لے آئیں تا کہ وہاں کی عوام کو کچھ تو سہولت میسر آ جائے۔ پنجاب کی حالت باقی صوبوں سے پھر بھی بہتر نظر آتی ہے۔ ضیا شاہد نے ننکانہ صاحب میں کشتی حادثے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ ڈوبنے والے افراد کا اصل جرم غربت ہے۔ غریب تو اسی ملک میں صرف کیڑے مکوڑوں کی طرح مرنے کے لئے پیدا ہوتا ہے۔ چائلڈ لیبر کے نام نہاد قانون کو ان حالات میں ناکارہ سمجھتا ہوں، غریب اگر اپنے بچوں کو مزدوری کیلئے نہ بھیجے تو وہ خاندان روٹی کہاں سے کھائے گا۔ قائداعظم کا اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا تصور آج کہیں نظر نہیں آتا۔ کروڑوں بچے سکول نہیں جاتے، کروڑوں کی ذہنی و جسمانی افزائش کم خوراکی کے باعث نہیں ہو پاتی ایک جانب یہ غریب لوگ ہیں تو دوسری جانب ایلیٹ کلاس ہے جن کا ایک وقت کا کھانا عام آدمی کی مہینے کی تنخواہ سے مہنگا ہے۔ پانامہ میں کتنے ہی افراد کے نام آئے جن کی آف شور کمپنیوں میں بھاری سرمایہ کاری کی گئی ہے لیکن نوازشریف کے علاوہ کسی کا نام سننے میں نہیں آتا۔ سلیم سیف اللہ خاندان کی 20 سے زیادہ آف شور کمپنیاں سامنے آئیں لیکن کیا مجال کہ کسی عدالت یا ادارے سے ایک نوٹس بھی جاری کیا گیا ہو پاکستان میں تمام تر سہولتیں صرف 2 فیصد ایلیٹ کلاس کے لئے ہیں۔ پاکستان میں غربت جس حد تک بڑھ چکی ہے ہم تیزی سے خونی انقلاب کی جانب بڑھ رہے ہیں، یہ انقلاب ہمارے سروں پر کھڑا ہے، اس میں کسی امید کی گاڑی یا مہنگا سوٹ نہیں بچے گا۔ مفلسی اور بھوک سے تنگ لوگ 2 فیصد ایلیٹ کلاس پر ٹوٹ پڑیں گے۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ پاکسشتان زرعی ملک ہے لیکن زراعت کی ترقی کیلئے کچھ نہ کیا گیا۔ 18 فیص ترمیم کر کے زراعت کے شعبہ کو صوبوں کے حوالے کر دیا گیا جس کے نتیجہ میں آج کوئی مرکزی وزیر زراعت ہی نہیں ہے۔ حکومت کی ترجیحات یہ ہیں کہ اسلام آباد میں زراعت کی ترقی کیلئے بنائے گئے ریسرچ کے ادارے کو ختم کر کے وہاں پلاٹ بنائے جا رہے ہیں جو بڑے افسران اور سیاستدانوں کو الاٹ کئے جائیں گے۔ ایشیا کی بڑی زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سمیت ریسرچ کے بہت سے ادارے ہیں لیکن انہیں فنڈز ہی نہیں دیئے جاتے۔ ان اداروں میں کوئی کام نہیں ہوتا صرف ملازموں کو تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ سینئر صحافی نے کہا کہ احتساب کا کوئی ادارہ نہیں بنے گا ایسی پھلجڑیاں جان بوجھ کر چھوڑی جاتی ہیں۔ بھارت نے ورلڈ بینک کو خط لکھا کہ پاکستان کا پانی کے حوالے سے واویلا جھوٹ ہے، اس کے پاس تو پہلے ہی ضرورت سے زیادہ پانی ہے لاکھوں کیوسک دریائے سندھ کا پانی سمندر میں پھینک کر ضائع کرتے ہیں۔ ایک جانب یہ صورتحال ہے تو دوسری جانب یہ صورتحال ہے کہ ملک کے بڑے قانون دان ایس ایم ظفر نے ایک رٹ ڈرافٹ کی کہ ہمارے صوبوں کے درمیان اختلافات کی وجہ سے بھاشا ڈیم نہیں بنا، کالا باغ ڈیم پہلے بن سکتا ہے، سندھ کے پانی کو سمندر میں ضائع ہونے سے بچانا ضروری ہے، اس رٹ کا میں بھی اپیل کنندہ ہوں، رٹ کو سپریم کورٹ میں دائر کئے 4 سال گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک سماعت کی باری نہیں آئی۔ 2025 میں پاکستان دنیا کے ان 12 ملکوں میں شامل ہو گا جہاں پینے کا پانی بھی میسر نہ ہو گا۔ میں 8 سال تک لاہور ہائیکورٹ میں کیس لڑتا رہا کہ پانی ضائع ہو رہا ہے نئے بند بنائے جائیں۔ 8 سال میں پنجاب کے علاوہ باقی صوبوں نے تو اس حوالے سے عدالت کے کسی نوٹس کا جواب تک دینا گوارا نہ کیا۔