قسط نمبر95
(سلیم خان)
دلیپ صاحب کے والد ، محمد سرورخان صاحب ، جو اداکار پرتھوی راج کپور کے ہمساے اور دوست تھے ، وہ دلیپ صاحب کا فلموں میں کام کرنا پسند نہ کرتے تھے اور انہیں انکا فلموں میں کام کرنا نامنظور تھا، لہٰذا وہ انہیں کھینچ کربمبئی مرکزی ریلوے اسٹیشن لے آئے تاکہ انہیں مولانا ابوالکلام آزاد سے ملوایا جاسکے، ایک معروف مفکر، آزادی کی جنگ لڑنے والے اور آزاد انڈیا کے پہلے وزیر تعلیم، مولانا آزاد نے سرورخان صاحب کی بات بڑے غور سے سنی اور مابعد دلیپ صاحب سے کہا ۔
”نوجوان تم جو کچھ بھی کرو، اسے دیانتداری اور خلوص کے ساتھ کرو جیسے تم نماز اداکررہے ہو“۔
دلیپ صاحب نے ایسا ہی کیا ، انہوں نے اداکاری میں روحانیت کا رنگ بھردیا اور اپنے بیٹے کو عبادت میں بدل دیا۔
دلیپ صاحب نے اپنی اداکاری کی صلاحیتوں میں بتدریج اپنی سخت محنت اور لگن کے زور پر نکھار پیدا کیا، انہوں نے اپنے پیشے میں کاملیت کی جستجو کی، مثال کے طور پر انہوں نے ”کوہ نور“ میں ستاربجانا تھی، انہوں نے ایک استاد کی خدمات حاصل کیں اور کئی ماہ تک مشق کرتے رہے، مہارتوں کے حصول کے عمل کے دوران انہوں نے بہت سی زبانیں سیکھیں، وہ انگریزی، ہندی، اردو، بنگالی، مراٹھی، اور پشتو روانی سے بول سکتے ہیں، انکی اداکاری کو بیان کرنے کیلئے میں راج کپور کا حوالہ پیش کرونگا، ان کے ہم عصر ، بچپن کے دوست اور شدید مقابلہ بازی کرنیوالے ،جنہوں نے رامیش سپی کی فلم”شکتی “ دیکھنے کے بعد (1992میں نمائش کیلئے پیش کی گئی) بنگلور سے دلیپ صاحب کو ٹیلیفون کرکے بتایا ۔
”لالے آج فیصلہ ہوگیا، تم ہمہ وقت عظیم ترین فنکار ہو“۔
حادثاتی طور پر ہم نے (جاویداختر اور میں نے ) ”شکتی“ تحریر کی جس کے ستارے دلیپ کمار، امیتابھ بچن، راکھی اور سمیتا پاٹیل تھے، جب ہم نے اسکرپٹ دلیپ صاحب کو پڑھ کر سنایا، انہوں نے انکشاف کیا۔
انہوں نے کبھی لکھنے کی خواہش نہ کی تھی لیکن کچھ اسکرپٹ اور ڈائیلاگ اس قدر برے تھے کہ انہیں ایسا کرنا پڑا، انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے ایک کامل کام کیاتھا، ہم نے مابعد”کرانتی“(1981) بھی تحریرکی، جن میں انکا مرکزی کردار تھا۔
دیویکا رانی، بمبئی ٹاکیز کی ”کوئین“ انہوں نے جب دلیپ کمار کو ”جواربھاٹا“(1944) میں ادکاری کیلئے منتخب کیا ، اس بڑے اسٹوڈیو میں ہر کسی کو دھچکہ لگا کیونکہ انہیں اس وقت کے مروجہ معیارات کے تحت ”خوبصورت“ تصور نہ کیا جاتا تھا، لیکن وہ جلد ہی شاندار کامیابی کو گلے لگا چکے تھے۔
1944 میں دلیپ کمار صاحب نے جب فلموں میں شمولیت اختیارکی اور فلموں میں کام کرنے کا آغاز کیا ، انہوں نے مشاہدہ کیا کہ فلموں میں اداکار با آواز بلند اور ڈرامائی تھے، یہ پارسی تھیٹر کے اثرات تھے ، جوان پر مرتب ہورہے تھے ، دلیپ صاحب اولین اداکارتھے جنہوں نے اپنی پرفارمنس میں تبدیلی پیدا کی اور طویل توقف اور جان بوجھ کر خاموشی تخلیق کرتے ہوئے غیر معمولی اثرات مرتب کئے۔
دلیپ صاحب ون مین ادارے کا رتبہ اور مرتبہ حاصل کرچکے ہیں، ان کے بہت سے ہم عصر اداکاروں اورمابعد آنے والی نسل کے اداکاروں نے ان کی نقل کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی بھی اس بلندی تک نہ پہنچ سکا جس بلندی پروہ پہنچے تھے، ان کی نقالی کرنے کے عمل کے دوران بہت سے لوگوں نے شہرت بھی پائی، کیا یہ حیران کن بات نہیں ہے کہ دلیپ صاحب نے اپنے چھ عشروں پر محیط کیریئر میں 60سے کم فلموں میں کام کیا ، آج کل ،نوجوان چھ برسوں میں 60فلمیں لیتے ہیں، دلیپ صاحب نے جن فلموں میں کام کیا ان سے زیادہ فلموں میں کام کرنے کی پیشکش کو مسترد کردیا، لیکن انہیں محض تین فلموں میں کام نہ کرنے کا افسوس رہا ۔
٭ بیجوباورا ٭ پیاسا
٭ اور ہماری (سلیم، جاوید) زنجیر
یوسف خان بن محمدسرورخان عرف دلیپ کمار نے کئی عشرے قبل ناظرین کے ساتھ جذباتی تعلق استوار کیا تھا، اور ذات، ملک ، مذھب ، زبان اور علاقے کی رکاوٹوں کو توڑاتھا، ان کے پرستاروں نے انہیں تقریباً 60برس تک سپراسٹار بنائے رکھا،فلم کے ناظرین سیکولر اورحقیقی انڈین واقع ہوئے ہیں، دلیپ صاحب کی مقبولیت سیکولرازم کی علامت ہے، جو انڈیا کی باطنی قوت رہی ہے۔
میں یہاں صاف صاف لفظوں میں بیان کرنا چاہتا ہوں ، دلیپ صاحب ابدی طور پر عظیم ترین اداکار ہیں، دلیپ صاحب نے اپنے پرستاروں اور ستائش کرنیوالوں کو بشمول میرے اپنی موجودگی اورکارکردگیوں سے اس قدر خوشی بخشی ہے کہ ہم ان کے مقروض ہیں اور میری خدا سے دعا ہے کہ وہ انہیں درازی عمر عطافرمائے اور وہ تادیر ہمارے ساتھ حیات رہیں۔
(جاری ہے)