اسلام آباد (خصوصی رپورٹ) امریکہ کی جانب سے پاکستان کا تعلیمی نصاب ”دوست“ کرنے کے حکم کی تعمیل کے لئے کام شروع کر دیا گیا، وفاقی وزیر احسن اقبال کو یہ مشکل ہدف سونپا گیا ہے، حکومت آنے والے چند دنوں میں اس حوالے سے قومی اسمبلی میں معاملہ اٹھانے پر غور کر رہی ہے، گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں چند ماہرین تعلیم اور یونیور سیٹز کے وائس چانسلرز کے ساتھ احسن اقبال کی ملاقاتیں اسی سلسلہ میں ہونے کی اطلاعات ہیں۔ اطلاعات کے مطابق نظام تعلیم کی ایک بار پھر کھاڑ پچھاڑ اور اسے مزید سیکولر بنانے کا کام طلبہ پر کتابوں اور ہوم ورک کا بوجھ کم کرنے اور تعلیم کو سائنٹیف کرنے کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ امپورٹڈ تجویز کے مطابق اردو اسلامیات، عربی اور فارسی کے مضامین غیر ضروری بوجھ ہیں، ان کی طلبہ کو ضرورت نہیں ہے۔ لہذا میٹرک تک ان مضامین کو پڑھائے جائے کی ضرورت نہیں ہے،اس کے بعد جو پڑھنا چاہے اس پر پابندی نہیں ہو گی۔ اطلاعات کے مطابق امریکی حکومت کی جانب سے حکومت پر شدید دباﺅ ہے کہ وہ پاکستان کے نظام تعلیم کو سیکولر بنائے اور اس میں سے انتہا پسند کے تمام تر مواد کو نکالا جائے، اس سلسلہ میں امریکی ادارہ ”دی انٹرنیشنل سینئر برائے مذہب اور جمہوریت“ آئی آر ڈی اور امریکی وزارت خارجہ براہ راست حکومت پر دباﺅ ڈال رہی ہے اور آیندہ الیکشن سے پہلے حکومت کے حوالے سے تمام عالمی انڈی گیٹرز کو مثبت ظاہر کرنے کی امریکہ کی جانب سے یہ حتمی قیمت رکھی گئی ہے۔ جسے حکومت نے تسلیم کر لیا ہے ۔اطلاعات کے مطابق اس وقت انتہا پسندی اور مزہبی رجحان کی روک تھام کا نام استعمال کرنے کے بجائے حکومتی سطح پر اس معاملے کو طلبہ پر سے بیگ کا بوجھ کم کرنے کے منصوبہ کا نام دیا جا رہا ہے تا کہ اس کو مخالفت کو کم سے کم کیا جاسکے، اس حوالے سے دلائل تلاش کئے جا رہے ہیں اور وفاقی وزیر احسن اقبال نے اس معاملے پر مشاورت شروع کر دی ہے، تقریباً ایک ہفتہ قبل انہوں نے اسلام آباد میں بعض شخصیات سے ملاقاتیں کی ہیں جن میں اسلام آباد کی ایک بڑی سرکاری یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور دیگر ماہرین تعلیم شامل تھے۔ بتایا جا رہا ہے کہ حکومت کی سوچ ہے کہ اگر براہ راست امریکی مطالبہ کے مطابق ان مضامین کو ختم کرنے کا کہا گیا تو اس کاروعمل بہت زیادہ ہو گا ، لہذا حکومت کو یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ اسے طلباءپر سے کتابوں کا بوجھ کم کرنے کا منصوبہ کہا جائے گا اور قومی اسمبلی میں ایک قرارداد لائی جائے گی جس میں کہا جائے گا کہ طلبہ پر بوجھ بہت زیادہ ہے ایسے مضامین جن کی تعلیم گھروں سے ہی دی جا رہی ہے ان کی کتابین ختم کرکے بوجھ کم کیا سکتا ہے، اس حوالے سے ایک امریکی این جی او براہ راست حکومت کی مدد کر رہی ہے، لہذا یہ کہاجا رہا ہے کہ اردو گھروں میں بولی جاتی ہے، ہر طالب علم اسے سمجھتا اور جانتا ہے اسے بطور مضمون نہ بھی پڑھایا جائے تو طلبہ کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لہذا میٹرک تک اردو بطور مضمون نا پڑھائی جائے اور اگر کوئی اس کے بعد اردو میں اعلیٰ ڈگری کی خواہش رکھتا ہو تو اسے تمام سہولیات دی جاسکتی ہیں،اسی اسلامیات میں جو کچھ میٹرک تک پڑھایا جاتا ہے، وہ بھی طلبہ اپنے گھرون میں پڑھ لیتے ہیں، اسکول میں اس کی تعلیم ایک بوجھ ہے لہذا اسے بھی ختم کر دیا جائے اور میٹرک کے بعد اس حوالے سے مزید سہولیات دی جائیں، عربی اور فارسی معاشرے کی ایسی ضرورت نہیںہے اس طرح لئے اسے بھی ختم کرنا ہی مناسب ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس حوالے سے حکومت اصولی طور پر مان چکی ہے ، وفاقی وزیر اس معاملے میں مشاورت شروع کر چکے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی اورپی ٹی آئی کو قائل کرنا امریکی سفارتخانہ کی ذمہ داری ہو گی۔ اطلاعات کے مطابق حکومت سے رابطہ میں رہنے والے امریکی ذرائع نے یقین دلایا ہے کہ وہ پورے ہوم ورک کے ساتھ اسمبلی میں آئیں پی پی پی اور پی ٹی آئی کوئی رکاوٹ نہیں ڈالیں گی۔ ذرائع کے مطابق اس حوالے سے کافی کام ہو چکا ہے اور اب صرف رائے عامہ کو ہموار کرنے کے حوالے سے ہوم ورک کیا جا رہا ہے۔ توقع ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں یہ معاملہ قومی اسمبلی میں زیر بحث لایا جائے گا۔