اسلام آباد(خصوصی رپورٹ)راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی 3 بچوں کی ماں 40 سالہ خاتون مختلف ہاتھوں میں بکتے بکتے افغانستان پہنچ گئی ، اس کے اغوا کاروں نے 3 لاکھ تاوان کا مطالبہ کردیا جبکہ پولیس تسلیم کرتی ہے کہ وہ اس صورتحال میں کچھ نہیں کرسکتی ۔ مزید سنگین صورتحال دی نیوز کی تحقیقات کے دوران یہ سامنے آئی ہے کہ پاکستان سے لا تعداد خواتین منظم گینگ کے ذریعے افغانستان میں فروخت کی جاچکی ہیں، یہ گینگ 150 سے زائد ارکان پر مشتمل ہے جس نے جعلی شادیوں کے ذریعے یہ کام کیا، مزید برآں بہت سے کیس ایسے بھی سامنے آئے ہیں جن میں ان خواتین کو جنسی غلامی کے لئے استعمال کیا گیا۔اس ضمن میں جب سٹی پولیس آفیسر(سی پی او)اسراراحمد خان سے رابطہ کیاگیاتو انہوں نے کہاکہ راولپنڈی کے مختلف تھانوں میں فراڈشادیوں کے کئی کیس سامنے آئے ہیں تاہم پولیس نے کارروائی کرکے ان جرائم میں ملوث افرادکوکیفرکردار تک پہنچایاہے، جبکہ افغانستان منتقل کئے جانے کاصرف ایک کیس ان کے علم میں ہے جو فرزانہ کا ہے۔ انہوں نے کہاکہ پولیس اس معاملےکی تحقیقات کررہی ہےاور جلدمجرموں کوانصاف کے کٹہرے میں لے آئیں گے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ پولیس فرزانہ کے اغوامیں ملوث افرادکی گرفتاری کے معاملے میں کیوں تاخیرکررہی ہے؟ تو انہوں نےکہاکہ اگرچہ یہ خاتون راولپنڈی میں مقیم تھی مگرایف آئی آر کے مطابق اس کااغواصوابی میں ہوا، یہ تاخیر کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ اس گھناونے دھندے میں ملوث صوابی کے ایک شخص نے خوفناک حقائق بتائے کہ غریب خاندانوں کی ان معصوم عورتوں کو شادی کرانے کے بھیس میں کام کرنے والے اس گینگ کے ارکان کس طرح دھوکا دیتے یا سبز باغ دکھاتے ہیں۔ اس شخص نے جسے حاجی کے نام سے جانا جاتا ہے دی نیوز سے گفتگو میں ، جو ریکارڈ بھی کی گئی ،بتایا کہ کس طرح ان خواتین کوٹریپ کیا،بہلایاپھسلایا اور پھر افغانستان میں فروخت کردیا جاتا ہے ، اس کے مطابق یہ گینگ راولپنڈی میں فوجی کالونی اور کھنہ پل کے علاقوں میں آزادانہ کام کررہا ہے۔ اس کے مطابق ان علاقوں کی پولیس گینگ کی اس سرگرمیوں سے بخوبی واقف ہے ، یہاں تک کہ قریبی علاقوں کا ایک امام مسجد بھی اس میں ملوث ہے جو ہر کیس میں 5 ہزار روپے لے کر جعلی نکاح رجسٹر کرتا ہے ۔ یہ گینگ وفاقی دارالحکومت اور پنجاب میں بھی کام کررہاہے جو درمیانی عمر کی عام خواتین کو شادی کے سبز باغ دکھاتا ہے اور پھر انہیں افغانستان میں سمگل کردیتا ہے جہاں انہیں 3 سے 5 لاکھ روپے کے عوض فروخت کیا جاتا ہے۔ اس گینگ کی سرگرمیوں سے واقفیت کے باوجود پولیس کہتی ہے کہ سمگلنگ کے یہ کیس ان کے دائرے میں نہیں آتے اور صرف پاکستانی فوج ہی کارروائی کرسکتی اور ان خواتین کو واپس لاسکتی ہے۔ اس خفیہ کاروبار کے بارے میں اس وقت معلوم ہوا جب اس نمائندے نے راولپنڈی کی رہائشی فرزانہ زوجہ ارشد محمود کی گمشدگی کے بارے میں تحقیقات شروع کی۔ فرزانہ جس کی عمر 40 سال ہے اور جو تین بچوں کی ماں ہے ، راولپنڈی کی رہائشی ہے ۔ اس کے خاوند کی طرف سے درج کرائی گئی ایف آئی آر کے مطابق اسے اغوا کیا گیا اور صوابی لے جایا گیا جہاں سے وہ افغانستان سمگل ہوگئی جہاں دو بار مختلف ہاتھوں میں فروخت ہوچکی ہے۔ یہ ایف آئی آر راولپنڈی کے تھانہ ایئرپورٹ میں یکم جنوری 2017 کو درج کرائی گئی ، جس کی کاپی دی نیوز کے پاس ہے اور اس میں کہا گیا ہے کہ رشتے کرانے والے مختارنامی شخص نے فرزانہ کو اغوا کیا اور ایک ماہ گزرنے کے بعدبھی وہ لاپتہ ہے تاہم ایف آئی آر کے اندرج کے ڈیڑھ ماہ گزرنے کے باوجود پولیس نے اب تک کوئی کارروائی نہیں کی۔ دی نیوز نے فرزانہ کے خاوند ارشد محمود سے رابطہ کیا تو اس نے بتایا کہ اسے افغانستان سے (0093706500822)سے فون کال آئی تھی اس شخص نے اپنے آپ کو ایجنٹ ظاہر کیا جس نے ڈیڑھ لاکھ روپے میں فرزانہ کو خریدا اور اب اس نے فرزانہ کی واپسی کے لئے 3 لاکھ روپے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر اسے رقم نہ ملی تو وہ اسے کسی اور کو فروخت کردے گا۔ افغان ایجنٹ نے فون پر فرزانہ کی اس کے شوہر سے بات کرائی جس نے بتایا کہ اسے کس طرح اغوا کیا گیا اور اب افغانستان میں کسی نامعلوم مقام پر رکھا گیا ہے۔ ارشد محمود کے مطابق فون پر فرزانہ نے اسے بتایا کہ اسے ایک ادھیڑ عمر شخص کو نکاح کے بعد فروخت کیا گیا اور جب وہ اس کے پاس گئی تو اسے بتایا کہ وہ پہلے سے شادی شدہ ہے اور اس کے تین بچے ہیں جس پر اس معمر شخص نے جو مہربان اورمذہبی شخص تھا اسے واپس ایجنٹ کے حوالے کرکے اپنی رقم واپس لے لی۔ اب فرزانہ ایجنٹ کی تحویل میں ہے جو اس کی واپسی کے لئے 3 لاکھ روپے کا مطالبہ کررہا ہے تاہم اس کا خاوند دیہاڑی دار ہے اور اس کے مطابق وہ مشکل سے بچوں کا پیٹ پال رہا ہے تو کس طرح اپنے بچوں کی ماں کو واپس لانے کے لئے اتنی بڑی رقم کا انتظام کرسکتا ہے۔ دوسری جانب پولیس بت بنی ہوئی ہے اور اس نے اس معاملے کی تحقیقات میں ایک قدم بھی نہیں اٹھایا۔ جب اس کیس کے تفتیشی افسر سب انسپکٹر اقبال سے دی نیوز نے رابطہ کیا تو اس نے بتایا کہ وہ مختار کی گرفتاری کے لئے کئی چھاپے مار چکا ہے مگر وہ فرار ہے۔ سب انسپکٹر اقبال نے کہا کہ وہ مختار کے زیر استعمال نمبروں کی کاپی دے چکا ہے مگر ایس پی آفس سے منظوری کا انتظار ہے تاکہ اس کے مقام کا پتہ لگایا جاسکے ، ہم جلد اسے گرفتار کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے تاہم افغانستان سے اس عورت کو واپس لانا پولیس کے دائرے سے باہر ہے اور یہ کام صرف پاک فوج ہی کرسکتی ہے۔ یہ جاننے کے بعدکہ پولیس کچھ نہیں کررہی، دی نیوز نے خود تحقیقات شروع کی کہ کس طرح فرزانہ کو اغوا کیا اور پھر افغانستان سمگل کیا گیا۔اس نمائندے نے اس مقصد کے لئے ارشد محمود کی طرف سے دیئے گئے ٹیلی فون نمبروں پر رابطے کی کوشش کی مگر وہ بند ملے تاہم ایک خوش قسمت روز حاجی نامی ایجنٹ کا نمبر کھلا مل گیا جو صوابی میں رہتا اور خیبر پختونخوا میں گینگ کی سرگرمیوں کو چلاتا ہے۔اس نمائندے نے اس سے استفسار کیا کہ کیا فرزانہ زندہ ہے یا نہیں؟ حاجی ابتدائی طور پر چار روز تک اس خاتون اور گینگ کی سرگرمیوں کے بارے میں کچھ بھی بتانے سے گریز کرتا رہا تاہم جب اس نے نمائندے پر بھروسہ کرنا شروع کردیا کہ اس کو نمائندے سے کوئی خطرہ نہیں تو پھر اس نے حقیقت بتائی۔ اس کے مطابق فرزانہ اپنی مرضی سے اس کے پاس آئی جس کے لئے ایجنٹ(مختار) نے اس کے خاوند کو 50 ہزار روپے ادا کئے تھے اور اسے بتایا گیا تھا کہ وہ 15 روز میں واپس پاکستان آجائے گی مگر جب اس نے اپنے شادی شدہ اور بچوں کی ماں ہونے کے بارے میں حقیقت بتائی تو افغان ایجنٹ نے اسے محصور کرلیا اور اب وہ اپنا نقصان پورا کرنے کے لئے پاکستانی ایجنٹوں سے 3 لاکھ روپے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ حاجی نے کہا کہ ہم نے فرزانہ کے خاوند سے کہا کہ وہ 50 ہزار روپے واپس کرے جو اس نے مختار سے لئے تھے تو ہم اسے واپس لے آئیں گے۔ اس نمائندے نے جب ارشد سے رابطہ کرکے پوچھا کہ کیا اس نے 50 ہزار روپے لئے ہیں تو وہ قسمیں کھانے لگا کہ اس نے کسی سے ایک پیسہ بھی نہیں لیا، اس کے مطابق یہ ایجنٹ اس پر دباﺅ ڈالنے کے لئے یہ ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں تاکہ وہ زور شور سے کیس کی پیروی نہ کر سکے ۔ ابتدائی طور پر حاجی نے صرف فرزانہ کے بارے میں بتایا تاہم پھر وہ راولپنڈی میں موجود گینگ کی سرگرمیوں کے بارے میں بتانے لگا۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر وہ حقیقت بتا دے تو طوفان برپا ہوجائے گا کیونکہ پولیس گینگ کی سرگرمیوں سے پوری طرح واقف ہے کہ وہ کتنی لڑکیاں فروخت کرچکا ہے؟ کس طرح وہ جعلی نکاح پڑھواتا ہے؟ کس طرح یہ لڑکیاں واپس لائی جاتی ہیں اور پھر دوسرے لوگوں کو فروخت کردی جاتی ہیں جن میں زیادہ تر بڑی عمر کے دیہاتی ہوتے ہیں۔ اگلے یعنی رابطے کے چھٹے روز حاجی نے اس نمائندے کو بتایا کہ راولپنڈی میں کھنہ پل، فوجی کالونی، چوہڑ، کوہ نور ملز کے علاقے اس گینگ کا گڑھ ہیں۔ اس گینگ کے 150سے زائد ارکان ہیں جو رشتے کرانے کے طور پر کام کرتے ہیں مگر یہ صرف ایک پردہ ہے۔ اس گینگ کے وارداتی طریقہ کار کے بارے میں حاجی نے اس نمائندے کو بتایا کہ پہلے ہم ایسے غریب خاندانوں کا پتہ چلاتے ہیں جن کی جوان بچیاں ہوں پھر ہم کچھ رشتے لاتے ہیں اور معقول رقم کی بھی پیشکش کرتے ہیں۔ غریب لوگوں کو کیا چاہئے اگر ان کی بچیوں کی شادی ہوجائے اور انہیں معقول رقم بھی مل جائے۔ اس پر یہ خاندان اپنی بچیوں کو افغانستان یا پنجاب میں یا ملک میں کہیں اور فروخت کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں۔ اس نے بتایا کہ یہ گینگ دو قسم کے دھندے کرتا ہے ، ایک پاکستانی لڑکیاں افغانستان یا افغان لڑکیاں پاکستان میں فروخت کرنے کا، اور دوسرا اس گینگ سے وابستہ لڑکیوں کو جعلی نکاح کے ذریعے بڑی عمر کے دیہاتی لوگوں کو بیچنے کا۔ حاجی نے بتایا کہ ہم ہزاروں لڑکیاں بیچ چکے ہیں یا ان کے شوہروں سے جعلی نکاح کراچکے ہیں، ہمارے پاس ایک نکاح رجسٹرار بھی اس علاقے میں موجود ہے جو ایک بڑی مسجد کا امام ہے جہاں گینگ کے لوگ رہتے ہیں اور وہ ہر نکاح پر 5 ہزار روپے کمیشن لیتا ہے۔ افغانستان میں گینگ کی سرگرمیوں کے بارے میں حاجی نے کہا کہ وہاں ایک بڈھی کے نام سے خاتون ہے جو افغانستان میں گینگ کی سرگرمیاں چلاتی ہے ، جب اس سے پوچھا گیا کہ کیا یہ خاتون افغان شہری ہے تو اس نے بتایا کہ وہ ایک پاکستانی ہے جو صوابی میں رہتی ہے اور کے پی کے پولیس کے ایک ریٹائر افسر کی بیوی ہے وہ ان خواتین کو اپنے ساتھ جلال آباد لے جاتی ہے اور وہاں افغان ایجنٹوں کو فروخت کردیتی ہے اور یہ رقم گینگ کے ارکان میں تقسیم کردی جاتی ہے۔ اس نمائندے نے جب حاجی کے بتائے گئے علاقوں میں سے ایک کا دورہ کیا جہاں مختار رہتا تھا تو مقامی لوگوں اور دکانداروں نے بتایا کہ وہ کہیں اور منتقل ہوچکا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ کتنے عرصے سے یہاں مقیم تھا تو مقامی لوگوں نے بتایا کہ ایک دو ماہ قبل آیا تھا کہ اب وہ یہ علاقہ چھوڑ چکا ہے۔ واضح رہے کہ حاجی نے بتایا تھا کہ ان کے لوگ گھر تبدیل کرتے رہتے ہیں تاکہ ان کی کوئی سابقہ شکار ان تک نہ پہنچ سکے جسے لڑکیاں فروخت کی گئی تھیں۔